طہارت RAZ, فتاوی رضویہ

مسئلہ نمبر 32

مسئلہ عہ۱ ۳۲: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حوض دہ در دہ میں گز شرعی کی مقدار کیا ہے بینوا توجروا۔

عہ۱: یہ فتوٰی فتاوائے قدیمہ کے بقایا سے ہے جو مصنّف نے اپنے صغر سن لکھے تھے ۱۲ (م)

الجواب: علماء رحہم اللہ تعالٰی کو دربارہ مساحت حوض کبیر کہ دہ در دہ قرار پایا ہے تعیین گز میں تین قول پراختلاف ہے
قول اول : معتبر ذراع کرباس ہے اور اسی کو ذراع عامہ کہتے ہیں یعنی کپڑوں کا گز۔ اسی قول کی طرف اکثر کا رجحان رائے اور اسی کو درر وظہیریہ و خلاصہ وخزانہ ومراقی الفلاح وعالمگیریہ وغیرہا میں اختیار کیا اور شرح زاہدی وتجنیس اور فتاوی کبری پھر قہستانی پھر درمختار میں اُسے مختار اور نہایہ میں صحیح اور ہدایہ میں مفتی بہ اور ولوالجیہ میں الیق واوسع کہا ۔ پھرخود(۱) ذراع کرباس کی تقدیر میں اختلاف واقع ہوا امام ولوالجی نے سات۷ مشت قرار دیا ہر مشت چار۴ انگل مضموم تو اٹھائیس ۲۸ انگل کا گز ہوا ہمارے یہاں کی نوگرہ۹سے زائد اور دس۱۰ گرہ سے کم یعنی ۹-9 1۱/۳3 گرہ۔اس قول پر نہایہ پھر جامع الرموز پھر درمختار اور باتباع والوالجی فاضل ابرہیم حلبی نے شرح منیہ میں اقتصارکیامگر جمہور علماء کے نزدیک ذراع کرباس چھ۶ مشت کا ہے ہر مشت چار۴ انگل مضموم اور اسی طرف رجحان روئے علّامہ محقق علی الاطلاق کمال الدین محمد بن الہمام کا ہے اور یہی عالمگیریہ میں تبیین اور بحرالرائق میں کتب کثیرہ سے منقول پس قول راجح میں یہ گز چوبیس۲۴ انگل کا ہوا کہ ایک ہاتھ ہے تو ہمارے یہاں کا آدھ گز ٹھہرا۔

قول دوم : اعتبار ذراع مساحت کا ہے امام علامہ فقیہ النفس اہل الافتاء والترجیح امام فخرالدین قاضی خان اوز جندی رحمہ اللہ تعالٰی نے خانیہ میں اسی قول کی تصحیح اور قولِ اول کا رد کیا طحطاوی حاشیہ مراقی الفلاح میں اس پر بھی حکایتِ فتوٰی واقع ہوئی اور بیشک من حیث الدلیل اسے قوت ہے۔ اس گز(۱) کی تقدیر میں اقوال مختلفہ وارد ہوئے مضمرات میں سات مشت، ہر مشت کے ساتھ ایک انگل قرار دیا کہ مجموع پینتیس انگل ہمارے گز سے 11۱۱- ۲2/۳3 گرہ ہواعلامہ کرمانی نے سات مشت چھ مشت معمولی اور ساتویں میں انگوٹھا پھیلا ہوا کہ یہ بھی تخمیناً گیارہ گرہ کے قریب ہوا مگر یہ دونوں قول شاذ ہیں قول جمہور کہ عامہ کتب میں مصرح سات مشت ہے ہر مشت نرانگشت کشادہ یعنی ساڑھے تین فٹ کہ اس گز سے کچھ اوپر ساڑھے اٹھارہ گرہ ہوا یعنی 18۱۸- ۲2/۳3 گرہ۔

قول سوم: ہر شہر ودیار وہر عہد و زمانہ میں گزرائج کا اعتبار ہے محیط میں اسی کو اصح اور نہر میں انسب کہا اور کافی میں بھی یہی اختیار کیا مگر علمائے متاخرین اس قول کو رد کرتے اور من حیث الدلیل نہایت ضعیف بتاتے ہیں اور نظر فقہی میں معلوم بھی ایسا ہی ہوتا ہے،

وھذہ نصوص العلماء فی الھدایۃ للامام برھان الدین المرغینانی قدس سرہ الربانی بعضھم قدر وابا لمساحۃ عشرافی عشربذراع الکرباس توسعۃ للامرعلی الناس وعلیہ الفتوی ۱؎

اور یہ علماء کے نصوص ہیں،برہان الدین مرغینانی کے ہدایہ میں مذکور ہے بعض نے تو پیمائش دَہ در دَہ کرباس کے ذراع سے کی ہے تاکہ لوگوں کیلئے فراخی ہو،اوراسی پر فتوٰی ہے،

(۱؎ ہدایہ فصل فے البئر مطبع عربیہ کراچی ۱/۲۰)

وفی فتح القدیرللامام المحقق علی الاطلاق قولہ بذراع الکرباس ھوست قبضات لیس فوق کل قبضۃ اصبع قائمۃ وھل المعتبر ذراع المساحۃ اوذراع الکرباس اوفی کل زمان ومکان ۲؎ حسب عاداتھم اقوال ،

فتح القدیرمیں ہے”بذراع الکرباس”یہ چھ مشت کاہوتا ہے،ہر مشت پر انگلی زائد نہ کی جائے، اب رہا یہ سوال کہ معتبر ذراع مساحۃ ہے یا ذراع کرباس ہے یا ہرزمانہ ومقام میں ان کی عادت کے مطابق ہے اس میں مختلف اقوال ہیں ،

(۲؎ فتح القدیر فصل فے البئر نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۰)

وفی الخانیۃ للامام فخرالدین رحمہ اللّٰہ تعالٰی یعتبر فیہ ذراع المساحۃ لاذراع الکرباس ھو الصحیح لان ذراع المساحۃ بالممسوحات الیق ۳؎

امام فخرالدین نے خانیہ میں ذراع مساحت کااعتبار کیاکرباس کانہیں یہی صحیح ہے اس لئے کہ مساحۃ کا ذراع ممسوحات کے زیادہ لائق ہے۔

(۳؎ فتاوٰی خانیۃ المعروف قاضی خان فصل فے الماء الراکد نولکشور لکھنؤ ۱/۴)

وفی شرح المنیۃ للعلامۃ ابن امیر الحاج ھل المعتبر ذراع الکرباس اوذراع المساحۃ ذھب بعضھم الی الاول فی الھدایۃ وعلیہ الفتوی وفی شرح الزاھدی وھو المختار وذھب بعضھم الی الثانی قال قاضی خان ھو الصحیح لان ذراع المساحۃ بالممسوحات الیق، وفی فتاوی الولوالجی الحوض الکبیر لما کان مقدرا بعشرۃ اذرع فی عشرۃ اذرع فالمعتبر ذراع الکرباس دون المساحۃ وھی سبع مشتات ای سبع قبضات لیس فوق کل مشت اصبع قائمۃ لان ذراع المساحۃ سبع مشتات فوق کل مشت اصبع قائمۃ فالاول الیق للتوسع انتھی والمراد بالاصبع القائمۃ ارتفاع الابھام کما فی غایۃ البیان فظھران ذراع الکرباس اقصر من ذراع المساحۃ فبسبب ذلک وقع الترفیۃ للناس بالتقدیر بھا ونقلوا عن المحیط انہ یعتبر فی کل زمان ومکان ذراعھم وعلیہ مشی فی الکافی ۱؎ اھ

علامہ ابن امیر الحاج کی شرح منیہ میں ہے کہ آیا ذراع کرباس کا اعتبار ہے یا ذراع مساحۃ کا؟کچھ لوگ پہلے قول کی طرف گئے ہیں جیسا کہ ہدایہ میں ہے اور اسی پر فتوٰی ہے،اور شرح زاہدی میں ہے یہی مختار ہے،اور بعض نے دوسرے قول کو لیا ہے قاضیخان نے کہا کہ یہی صحیح ہے کیونکہ مساحۃ کا گزممسوحات کے زائد لائق ہے، اور فتاوٰی ولوالجی میں ہے کہ بڑا حوض جو دہ در دہ ہوتا ہے اور اس میں معتبر کرباس کا ذراع ہے نہ کہ مساحۃ کا اور وہ سات مشت ہے، جس میں ہر مشت پر ایک انگلی کا اضافہ نہ ہو، کیونکہ مساحۃکا گز سات مشت ہے جس میں ہر ایک مشت پر ایک کھڑی انگلی کا اضافہ ہو، تو پہلا آسانی سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے انتہی،اور کھڑی انگلی سے مراد انگوٹھے کی بلندی ہے، جیساکہ غایۃ البیان میں ہے تو معلوم ہواکہ ذراع کرباس ذراع مساحت سے چھوٹاہے تو اسی سبب سے تقدیر ذراع میں لوگوں کیلئے آسانی ہوئی اور محیط سے نقل کیا ہے کہ ہر زمانہ اور ہر جگہ کا الگ گز معتبرہوگا،اورکافی نے بھی یہی کہا ہے اھ

(۱؎ حلیہ)

وفی الشرح الکبیر لابراھیم الحلبی المعتبر فی الذراع ذراع الکرباس وھو سبع قبضات فقط وھو اختیار الامام اسحٰق بن ابی بکر الولوالجی فی فتاوٰہ لانہ اقصر فیکون ایسرواختار قاضیخان فی فتاوٰہ ذراع المساحۃ وھو سبع قبضات باصبع قائمۃ فی القبضۃ الاخیرۃ وقیل فی کل قبضۃ قال قاضی خان لانہ یعنی الغدیر المقدرمن الممسوحات فکان ذراع المساحۃ فیہ الیق، وفی المحیط والاصح ان یعتبرفی کل زمان ومکان ذراعھم وتبعہ صاحب الکافی کصاحب النھر الفائق وغیرہ وھذا عجیب وبعید جدا الٰی اٰخر ۱؎ ماقال

اورابراہیم حلبی کی شرح کبیر میں ہے کہ معتبر ذراع کرباس ہے جو سات مشت ہوتا ہے فقط،اوراسی کو امام اسحٰق بن ابی بکر الوالجی نے اپنے فتاوٰی میں پسند کیا ہے،کیونکہ وہ چھوٹا ہوتا ہے تو اسی میں آسانی رہے گی اورقاضی خان نے اپنے فتاوٰی میں ذراع مساحۃ کو مختار کہاہے اور وہ سات مشت مع ایک کھڑی انگلی کے آخری مشت میں ہے اور بعض نے کہا کہ ہر مشت میں قاضی خان نے فرمایا یعنی تالاب جس کا اندازہ لگایا گیا ہے وہ ممسوحات سے ہے، تو اس میں ذراع مساحۃ سے اندازہ لگانا زائد مناسب ہوگا، اور محیط میں ہے اصح یہ ہے کہ ہر زمانہ اور ہر جگہ میں وہیں کا ذراع معتبر ہوگا،صاحب کافی اورصاحبِ نہرالفائق وغیرہ نے اس کی متابعت کی اور یہ بہت عجیب ہے اور نہایت بعیدہے،

(۰۱؎ غنیۃ المستملی فصل فی احکام الحیاض سہیل اکیڈمی لاہور ۱/۹۸۹)

وفی البحر الرائق للعلامۃ زین بن نجیم المصری اختلف المشائخ فی الذراع علی ثلثۃ اقوال ففی التجنیس المختار ذراع الکرباس واختلف فیہ ففی کثیر من الکتب انہ ست قبضات لیس فوق کل قبضۃ اصبع قائمۃ فھی اربع وعشرون اصبعا بعدد حروف لاالہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ والمراد بالاصبع القائمۃ ارتفاع الابہام کما فی غایۃ البیان وفی فتاوی الولوالجی ان ذراع الکرباس سبع قبضات لیس فوق کل قبضۃ اصبع قائمۃ وفی فتاوٰی قاضی خان وغیرہ الاصح ذراع المساحۃ وھو سبع قبضات فوق کل قبضۃ اصبع قائمۃ وفی المحیط والکافی الاصح انہ یعتبر فی کل زمان ومکان ذراعھم من غیر تعرض للمساحۃ والکرباس ۲؎

اور علامہ زین بن نجیم المصری کی بحرالرائق میں ہے کہ مشائخ کے ذراع کی بابت تین اقوال ہیں،تجنیس میں ہے کہ ذراع کرباس مختارہے،اوراس میں اختلاف ہے،کئی کتب میں ہے کہ یہ ایسی چھ مشت کے برابر ہے جن میں ہر مشت پر ایک کھڑی انگلی زائد نہ ہو تو گویا یہ چوبیس انگشت کے برابر ہے لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے حروف کی تعدادکے مطابق اور کھڑی انگلی سے مراد انگوٹھے کی بلندی ہے جیساکہ غایۃ البیان میں ہے اور فتاوٰی ولوالجی میں ہے کہ ذراع کرباس سات مشت بلاکھڑی انگلی کے اضافہ کے،اورفتاوٰی قاضی خان وغیرہ میں ہے اصح یہ ہے کہ مساحۃ کا گز سات مشت مع ایک کھڑی انگلی کے،اورمحیط اورکافی میں ہے کہ اصح یہ ہے کہ ہر زمان ومکان میں ان کا اپنا گز معتبر ہوگا، اس میں مساحۃ اور کرباس کا کچھ ذکر نہیں،

(۲؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۶)

وفی الفتاوی الھندیۃ المعتبر ذراع الکرباس کذا فی الظھیریۃ وعلیہ الفتوی کذا فی الھدایۃ وھی ذراع العامۃ ست قبضات اربع وعشرون اصبعاکذا فی التبیین ۱؎ اھ

اورفتاوٰی ہندیہ میں ہے معتبر ذراع کرباس ہے،یہی ظہیریہ میں ہے اسی پر فتوٰی ہے، ہدایہ میں یہی ہے اور یہ عام گز ہے جو چھ مشت یعنی چوبیس انگشت کا ہوتا ہے یہی تبیین میں ہے،

(۱؎ ہندیۃ فصل فی الماء الراکد نورانی پشاور ۱/۱۸)

وفی جامع الرموز للفاضل القہستانی اختلف فی الذراع ففی المحیط الاصح ذراع کل مکان وزمان وفی فتاوی قاضی خان الصحیح ذراع المساحۃ وھی سبع قبضات واصبع قائمۃ فی کل مرۃ کما فی الولوالجی اوالمرۃ السابعۃ کما فی الکرمانی اواصبع موضوعۃ فی کل مرۃ کما فی سیرالمضمرات وفی النھایۃ الصحیح ذراع الکرباس وھی سبع قبضات کل قبضۃ اربع اصابع وھو المختار کما فی الکبری ۲؎

فاضل قہستانی کی جامع الرموز میں ہے کہ ذراع میں اختلاف ہے، تو محیط میں ہے اصح یہ ہے کہ ہر زمان ومکان کا اپنا اپنا گز معتبر ہوگا،فتاوی قاضی خان میں ہے صحیح ذراع مساحۃ جو سات مشت کہ ہر مشت پر ایک انگلی کھڑی ہو جیساکہ ولوالجی میں ہے یاساتویں مشت پر کھڑی انگلی ہو جیساکہ کرمانی میں ہے یا ایک لیٹی ہوئی انگل ہر مرتبہ جیساکہ سیر المضمرات میں ہے اور نہایہ میں ہے صحیح ذراع کرباس ہے اور وہ سات مشت ہے، ہر مشت چار انگل ہے اور یہی مختار ہے جیساکہ کبری میں ہے،

(۲؎ جامع الرموز بیان المیاہ گنبد ایران ۱/۴۸۹)

وفی الدرالمختار للفاضل علاء الدین الحصکفی فی القہستانی والمختار ذراع الکرباس وھو سبع قبضات فقط ۳؎ وفی حاشیتہ للعلامۃ السید احمد الطحطاوی واما ذراع المساحۃ فسبع قبضات فوق کل قبضۃ اصبع قائمۃ ۴؎

اور فاضل علاء الدین حصکفی نے درمختار میں بیان فرمایا اور قہستانی میں ہے کہ پسندیدہ ذراع کرباس ہے اور وہ صرف سات مشت ہے، اور اس کے حاشیہ میں علامہ سید احمد طحطاوی نے فرمایا ذراع مساحۃ سات مشت ہے ہر مشت پر ایک کھڑی انگشت،

(۳؎ درمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۶)(۴؎ طحطاوی علی الدر باب المیاہ بیروت ۱/۱۰۸)؂

وفی ردالمحتار للفاضل السید محمد امین الشامی قولہ والمختار ذراع الکرباس وفی الھدایۃ ان علیہ الفتوی واختارہ فی الدرر والظہیریۃ والخلاصۃ والخزانۃ وفی المحیط والکافی انہ یعتبر فی کل زمان ومکان ذراعھم قال فی النھر وھو الانسب قلت لکن ردہ فی شرح المنیۃبان المقصودمن ھذاالتقدیر غلبۃ الظن بعدم خلوص النجاسۃوذلک لایختلف باختلاف الازمنۃ والامکنۃ قولہ وھو سبع قبضات ھذا مافی الولوالجیۃ وفی البحران فی کثیر من الکتب انہ ست قبضات ۱؎ الخ اھ والمراد بالقبضۃ اربع اصابع مضمومۃ نوح اقول وھو قریب من ذراع الید لانہ ست قبضات وشیئ وذلک شبران ۲؎ انتھی ملخصا

اور سید محمد امین شامی نے ردالمحتار میں فرمایا ان کا قول والمختار ذراع الکرباس،اورہدایہ میں اسی پر فتوٰی ہے اور درر، ظہیریہ، خلاصہ، خزانہ میں اسی کو اختیار کیا ہے محیط اور کافی میں فرمایا کہ ہر زمان ومکان میں لوگوں کے گز کا اعتبار ہوگا، نہر میں ہے کہ یہی انسب ہے۔ میں کہتا ہوں اس کو شرح منیہ میں رد کیا ہے کہ مقصود اس تقدیر سے غلبہ ظن ہے اس امر کا کہ نجاست دوسری طرف نہیں گئی ہے،اوریہ چیز ایسی ہے کہ اس میں زمان ومکان کے اختلاف سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے،ان کا قول کہ وہ سات مشت ہے، یہ ولوالجیہ میں ہے، اوربحر میں ہے کہ بہت کتب میں چھ مشت ہے الخ اھ اور مشت سے مراد چار بندھی ہوئی انگلیاں ہیں،نوح۔میں کہتا ہوں یہ ہاتھ کے گز سے قریب ہے کیونکہ وہ چھ مشت اور تھوڑا زائد ہوتا ہے اور وہ دو بالشت ہوتا ہے انتہی ملخصا،

(۱؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۴)
(۲؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۴)

وفی مراقی الفلاح للفاضل الشرنبلالی عشر فی عشر بذراع العامۃ ۳؎ انتھی مختصرا وفی حاشیتہ للفاضل الطحطاوی نقل صاحب الدر ان المفتی بہ ذراع المساحۃ وانہ اکبر من ذراعنا الیوم فالعشر فی العشر بذراعنا الیوم ثمان فی ثمان ۴؎ اھ

اورشرنبلالی کی مراقی الفلاح میں ہے کہ عام لوگوں کے گز سے دَہ در دَہ ہو،انتہی مختصرا۔اور فاضل طحطاوی کے حاشیہ میں ہے نیز صاحبِ در نے نقل کیا کہ مفتی بہ پیمائش والا گز ہے اور وہ ہمارے موجودہ گز سے بڑا ہے گویا آج کے اعتبار سے دَہ در دَہ آٹھ در آٹھ ہوا اھ۔ (ت)

(۳؎ مراقی الفلاح کتاب الطہارۃ الامیریہ مصر ص۱۶)
(۴؎ حاشیۃ الطحطاوی مع مراقی الفلاح کتاب الطہارۃ الامیریہ مصر ص۱۶)

اقول فیہ سھوبوجوہ وذلک ان عبارۃ الدر بتمامھا ھکذا فی القھستانی والمختار ذراع الکرباس وھو سبع قبضات فقط فیکون ثمانیافی ثمان بذراع زماننا ثمان قبضات وثلاث اصابع علی القول المفتی بہ بالعشر ۵؎ اھ

میں کہتا ہوں اس میں کئی وجوہ سے سہو ہے کیونکہ در کی پوری عبارت اس طرح ہے ایسا ہی قہستانی میں ہے اور مختار کرباس کا گز ہے اور وہ صرف سات مشت ہوتا ہے تو ہمارے زمانہ کے گز کے اعتبار سے آٹھ ضربِ آٹھ، آٹھ مشت اور تین انگل ہوگا دس کے مفتی بہ قول پر اھ

(۵؎ درمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۶)

فاولا(۱)صریح نصہ اختیار ذراع الکرباس دون المساحۃ وثانیا لیس(۱) فیہ ذکرالافتاء علی شیئ من تقادیر الذراع انما فیہ ان المفتی بہ ماعلیہ المتاخرون من تقدیرالکثر بعشر فی عشر(۲) وقد قال السید نفسہ فی حواشی الدر قولہ علی المفتی بہ ای الذی افتی بہ المتأخرون وقد علمت اصل المذھب ۱؎ اھ وثالثا من ابین(۳) سھوقولہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی انہ اکبر من ذراعنا وکیف تکون سبع قبضات اکبرمن ثمان واذکان(۴) عشر فی عشر بذاک ثمانیا فی ثمان بھذا فکل احد یعرف ان ھذا اکبر لاذاک ولا وجود(۵)لہ فی الدر ولا فی اصلہ القھستانی فلو قال رحمہ اللّٰہ تعالی نقل الدران المختار ذراع الکرباس وانہ اصغر الخ لاصاب ثم حساب الدر تبعا لاصلہ ان عشرا فی عشر کثمان فی ثمان بینہ السید ط بان العشرۃ فی سبعۃ بسبعین والثمانیۃ فی مثلہا باربعۃ وستین قبضۃ والثمانیۃ فی ثلثۃ (عہ۱) اصابع باربع وعشرین اصبعاو ھی ست قبضات فتمت سبعین قبضۃ ۲؎ اھ

اوّلاً انہوں نے صراحت کی ہے کہ ذراع کرباس لیا جائے گا نہ کہ ذراعِ مساحت۔ثانیاً اس میں ذراع کی مقدار کی بابت کسی مفتی بہ قول کا ذکر نہیں ہے اس میں صرف اتنا ہے کہ مفتی بہ قول متأخرین کا قول ہے، اور وہ یہ ہے کہ کثیر دہ در دہ کو کہتے ہیں، اور سید نے خود حواشی در میں فرمایا ان کا قول علی المفتی بہ، یعنی متأخرین کے مفتی بہ قول کے مطابق، اور اصل مذہب تو آپ کو معلوم ہو ہی چکا ہے۔

ثالثاً سب سے بڑا سہو اس میں یہ ہوا ہے کہ انہوں نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ ہمارے زمانہ کے گز سے بڑا گز ہے، اور سات مشت آٹھ مشت سے کیسے بڑا ہوسکتا ہے؟ اور جب دہ در دہ برابر ہے اس آٹھ در آٹھ کے، تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بڑا ہے نہ کہ وہ،اور در میں یہ نہیں پایا جاتا ہے، اور نہ اس کی اصل قہستانی میں، اگر وہ یہ فرما دیتے کہ دُر نے یہ نقل کیا ہے کہ مختار کرباس کا گز ہے اور وہ چھوٹا ہوتا ہے الخ تو درست بات ہوتی، پھر در کا حساب اس کی اصل کی متابعت میں یہ ہے کہ وہ دہ در دہ ایسا ہے جیسا کہ آٹھ در آٹھ،اس کو سید ط نے یوں بیان کیا کہ دس ضرب سات ستّر ہوتے ہیں اور آٹھ ضرب آٹھ چونسٹھ ہوتے ہیں(یعنی اتنی مشت)اور آٹھ انگلیوں کو تین سے ضرب دیا جائے تو چوبیس انگلیاں ہوتی ہیں اور یہ چھ مشت ہوتی ہیں اس طرح ستر مشت پوری ہوئیں۔ (ت)

(عہ ۱)کذا فی ط والاصوب ثلث بالتذکیر اھ منہ (م)
طحطاوی میں اسی طرح ہے اور ثلث بتذکیر ذکر کرنا زیادہ مناسب ہے۔ (ت)

(۱؎ طحطاوی علی الدرالمختار باب المیاہ بیروت ۱/۱۰۸)
(۲؎ طحطاوی علی الدرالمختار باب المیاہ بیروت ۱/۱۰۸)

اقول ؛ وھوحساب حق صحیح لاغبارعلیہ اخذ فیہ عشرا فی عشر بذراع ھو سبع قبضات وثمانیا فی ثمان بذراع ھو ثمان قبضات وثلث اصابع وبین مساواۃ ضلع لضلع فانہ علی کل سبعون قبضۃ کما بین او مائتان وثمانون اصبعا لان الاول ثمان وعشرون اصبعاوالثانی خمس وثلثون واذا ضربت الاول فی عشرۃ والثانی فی ثمانیۃ اتحد الحاصل وھو ۲۸۰ ومساواۃ الضلع للضلع یوجب بالضرورۃ مساواۃ المربع للمربع لکن السید ش رحمہ اللّٰہ تعالٰی رد علی الدر بقولہ کانہ نقل ذلک عن القھستانی ولم یمتحنہ وصوابہ فیکون عشرا فی ثمان وبیان ذلک ان القبضۃ اربع اصابع واذا کان ذراع زمانھم ثمان قبضات وثلاث اصابع یکون خمسا وثلاثین اصبعاً واذا ضربت العشر فی ثمان بذلک الذراع تبلغ ثمانین فاضربھا فی خمس وثلاثین تبلغ الفین وثمان مائۃ اصبع وھی مقدار عشر فی عشر بذراع الکرباس المقدر بسبع قبضات لان الذراع حینئذ ثمانیۃ عہ۱ وعشرون اصبعا والعشر فی عشر بمائۃ فاذا ضربت ثمانیۃ وعشرین فی مائۃتبلغ ذلک المقدار واما علی ماقالہ الشارح فلا تبلغ ذلک لانک اذا ضربت ثمانیا فی ثمان تبلغ اربعاً وستین فاذا ضربتھا فی خمس وثلاثین تبلغ الفین ومائتین واربعین اصبعا وذلک ثمانون ذراعا بذراع الکرباس والمطلوب مائۃ فالصواب ماقلناہ فافھم ۱؎ اھ اشار بقولہ فافھم الی الرد علی ط کدابہ المذکور فی صدرکتا بہ۔

میں کہتا ہوں،بلاشبہ یہ حساب صحیح ہے،اس میں دہ دردہ کو اختیار کیا گیا ہے، ایک ذراع کے لحاظ سے جو سات مشت ہو،اورآٹھ درآٹھ کو ایسے ذراع کے ساتھ جو آٹھ مشت تین انگلی ہو،اور ایک ضلع کادوسرے ضلع کے مساوی ہونابیان کیا کیونکہ یہ ہر قول پر ستّر مشت ہوگاجیسا کہ بیان کیا،یادو سو اسی۲۸۰انگشت کیونکہ پہلااٹھائیس انگشت ہے اوردوسراپینتیس انگشت اور جب پہلے کو دس میں اور دوسرے کو آٹھ میں ضرب دیا جائے تو دونوں کا حاصل ایک ہی ہوگا یعنی دو سو اسی،اورایک ضلع کی مساواۃ دوسرے ضلع سے ایک مربع کی مساواۃ دوسرے مربع سے بالبداہۃ ثابت کرتی ہے لیکن سید “ش” نے در پر اپنے اس قول سے رد کیا،غالباًانہوں نے یہ قہستانی سے نقل کیاہے اور اس کو بغور دیکھا نہیں، صحیح یہ ہے کہ” یہ ہوجائیگا دس ضرب آٹھ،اوراس کی تشریح یہ ہے کہ ایک مشت چار انگشت ہوتی ہے،اور ان کے زمانہ کاذراع آٹھ مشت تین انگشت تھا،اس طرح پینتیس انگشت ہوئیں اور جب دس کو آٹھ میں اس ذراع کے حساب سے ضرب دی جائے تو حاصل اسّی ہوتا ہے،پھر اس کو پینتیس سے ضرب دی جائے تو حاصل دو ہزار آٹھ سو انگشت ہوگا،اوریہی مقدار دہ در دہ کی ہے کرباس کے گز سے ،جس کی مقدارسات مشت بتائی گئی ہے، کیونکہ اس صورت میں ذراع اٹھائیس انگشت ہوگا،اور دس ضرب دس سو ہے، تو جب اٹھائیس کو سو میں ضرب دیں تو وہی حاصل ہوگا،اور بقول شارح یہ ماحصل نہیں ہوگا،کیونکہ جب آٹھ کو آٹھ میں ضرب دیں تو چونسٹھ حاصل ہوگا،اورجب ان کو پینتیس میں ضرب دی جائے تو دو ہزار دو سو چالیس انگشت ہوئی،اور ذراع کرباس سے یہ اسی۸۰ ذراع ہوتے ہیں،جبکہ مطلوب سو۱۰۰ ہیں، توصحیح وہی ہے جو ہم نے کہا فافہم اھ فافہم سے ط پر ردکی طرف اشارہ ہے یہ ان کامعروف طریقہ ہے جو انہوں نے اپنی کتاب کے شروع میں اختیار کیا۔ (ت)

(۱؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۴)

عہ۱ کذا فی ش والا صوب ثمان بالتذکیر اھ منہ (م)
شامی میں اسی طرح ہے اور بہتر تذکیر کے ساتھ ثمانٌ ہے۔ (ت)

اقول: وھو کلہ زلۃ نظر منہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی اصاب فی حرفین الاول ان ذراع زمانھم خمس وثلثون اصبعاوالاٰخر ان ذراع الکرباس المقدربسبع قبضات ثمان وعشرون وماسوی ذلک کلہ سہوصریح فاولاماکان(۱) عشرافی ثمان بذراعھم لایکون الفین وثما ن مائۃ بل ثمانیۃ وتسعین الف اصبع بتقدیم التاء لان ۳۵ فی ۱۰ ثلثمائۃ وخمسون وفی ۸ مائتان وثمانون و۳۵۰ *۲۸۰ =۹۸۰۰۰

میں کہتا ہوں یہ اُن سے لغزش ہوئی ہے دو حروف تو صحیح ہیں،پہلا تو یہ کہ ان کے زمانہ کا ذراع پینتیس انگشت تھا،اور دوسرا یہ کہ کرباس کے گز کی مقدار سات مشت کے حساب سے اٹھائیس ہے،اس کے علاوہ جو کچھ کہا وہ صریح سہو ہے۔اولاً دس کو آٹھ میں ضرب دینے سے دو ہزار آٹھ سو نہیں آتے بلکہ اٹھانوے ہزار انگشت بتقدیم التاء،اس لئے کہ ۳۵ ضرب ۱۰ = ۳۵۰اور ۳۵ ضرب آٹھ ۲۸۰ ہوئے،اور ۳۵۰ * ۲۸۰ = ۹۸۰۰۰ ہوئے۔

وثانیا(۲)ماکان عشرا فی عشر بذراع الکرباس المذکور لایکون ایضا ۲۸۰۰ بل ثمانیۃ وسبعین الف اصبع بتقدیم السین واربعمائۃ لان ۲۸ فی ۱۰مائتان وثمانون ومربعھا۷۸۴۰۰ بنقص تسعۃ عشرالف اصبع وستمائۃ فکیف یستویان ،

ثانیا ذراع کرباس مذکور کے اعتبار سے دس ضرب دس ۲۸۰۰ نہیں بنتااٹھتر ہزار چارسو بنتا ہے یہ بتقدیم سین ہے ۔۔۔۔۔۔اس لئے کہ ۲۸ * ۱۰ دو سو اسّی۲۸۰ ہوئے اور ان کامربع ۷۸۴۰۰ ہوا،انیس ہزا چھ سو ۱۹۶۰۰ انگشت گھٹا کر، تو یہ دونوں کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟

وثالثا(۱)ثمان فی ثمان بذراعھم لایکون الفین ومائتین واربعین بل مربع مائتین وثمانین لان کل ذراع ۳۵والطول۸۔۔ ۳۵ *۸ = ۲۸۰وکذلک العرض فالمسطح ۷۸۴۰۰ مثل عشر فی عشر بذراع الکرباس سواء بسواء کما قال الشارح والقھستانی وط ۔

ثالثا آٹھ ضرب آٹھ ان کے گز سے دو ہزار دو سو چالیس ۲۲۴۰ نہیں بنتے،بلکہ مربع دو سو اسّی ۲۸۰ کا بنتا ہے کیونکہ ہر ذراع ۳۵ انگشت ہے اور لمبائی ۸،اس لئے ۳۵*۸ = ۲۸۰ ہوا۔اوریہی حال چوڑائی کاہے تو مسطح ۷۸۴۰۰ مثل دہ دردہ کپاس کے گز سے بالکل برابر برابرہے جیساکہ شارح، قہستانی اور “ط” نے فرمایا۔

ورابعا(۲) مساحۃ ثمانین ذراعابذراع الکرباس لاتکون ۲۲۴۰ بل اثنین وستین الفا وسبع مائۃ وعشرین اصبعالان مساحۃ ذراع ماکان ذراعا فی ذراع وذلک مربع ۲۸ سبع مائۃ واربع وثمانون اصبعاو۷۸۴ *۸۰ = ۶۲۷۲۰ ومنشأ (۳) الخطأ فی کل ذلک انہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی لم یفرق بین الخط والسطح فحسب ان الطول یضرب فی العرض ومابلغ یضرب فی اصابع الذراع وھی خمس وثلثون اوثمان وعشرون اصبعافماحصل یکون مساحۃ الماء ولیس کذلک وانماھی مقدارالاصابع فی خط قدرذراع اماالسطح قدر ذراع فاصابعہ مربع ذلک وھی الف ومائتان وخمس وعشرون اصبعاعلی الاول وسبع مائۃ واربع وثمانون علی الثانی فذلک یضرب فی ۶۴ یکن ثمانیافی ثمان بالاول وھذا یضرب فی ۱۰۰یکن عشرافی عشربالثانی وظاھران ۱۲۲۵*۶۴ و ۷۸۴*۱۰۰ کلاھما۷۸۴۰۰وھوالمطلوب وان اردت عشرا فی ثمان بالاول فاضرب ۱۲۲۵ فی ۸۰ یکن ۹۸۰۰۰وان اردت مساحۃ ثمانین ذراعابالثانی فاضرب ۷۸۴ فی ۸۰ یکن ۶۲۷۲۰فاتضح ماقلنامع کونہ غنیاعن الایضاح وان شئت(۱)المزید فلاحظہ فی ماھو ذراع فی ماذراع فان واحدا فی واحد واحد فاضربہ علی طریقۃ السید فی اصابع الذراع تبق کماھی وھی بعینھااصابع طرف فطرف الشیئ ساوی الشیئ فی المقداروھومحال بالبداھۃ بل ھناالمقدارحاصل الکل طرف فمجموع خطوط الاطراف الاربعۃ اربعۃ امثال السطح کلہ فطرف الشیئ اضعاف الشیئ وای محال ابعد منہ۔

رابعاً کرباس کے گز سے اسّی گز کی پیمائش ۲۲۴۰ نہیں بنتی ہے بلکہ باسٹھ ہزار سات سو بیس انگشت ہے،اس لئے کہ ایک ذراع کی پیمائش وہ ہے جو ذراع در ذراع ہو اور یہ ۲۸ کا مربع ۷۸۴ انگشت ہے اور ۷۸۴*۸۰ = ۶۲۷۲۰ ہے اور اس تمام بحث میں غلطی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے خط اور سطح میں فرق نہیں کیا ہے،اور اس طرح حساب کیاکہ لمبائی کو چوڑائی میں ضرب دی اورجو حاصل آیا اس کو ذراع کی انگلیوں میں ضرب دی اور وہ پینتیس۳۵ یااٹھائیس۲۸ انگلیاں بنتی ہیں اور جو حاصل ہواوہ پانی کی پیمائش قرار دی،حالانکہ بات یہ نہیں ہے،یہ تو ان کی انگلیوں کی مقدار ہے جو خط میں ذراع کی مقدارہو اوروہ سطح جو ذراع کی مقدارہو تو اس کی انگلیاں اس کا مربع ہوگا اور وہ ایک ہزار دو سو پچیس انگلیاں ہیں پہلے قول پراور دوسرے قول پر ۷۸۴ ہیں،اس کوچونسٹھ میں ضرب دی جائے گی تو یہ ۸*۸ بنے گاپہلے قول پر،اب اس کو ضرب دی جائے گی۱۰۰ میں تویہ ۱۰*۱۰ ہوگادوسرے قول پر،اور ظاہر ہے کہ ۱۲۲۵*۶۴ اور ۷۸۴*۱۰۰ دونوں ہی ۷۸۴۰۰ ہیں اوریہی مطلوب ہے،اور اگرآپ پہلے قول پر دس کو آٹھ میں ضرب دیں تو ۱۲۲۵ کو ۸۰ میں ضرب دیں تو ۹۸۰۰۰ ہوگا،اور اگر اسی ۸۰ گز کی پیمائش دوسرے قول کے مطابق ہو تو ۷۸۴ کو ۸۰ میں ضرب دیں توحاصل ۶۲۷۲۰ آئے گا،تو جو ہم نے کہاوہ واضح ہوگیا اور اگر مزید وضاحت درکارہو تو ایک ذراع ضرب ذراع کو دیکھیں کیونکہ ایک ضرب ایک ایک ہی ہوتا ہے،اب سید کے طریقہ کے مطابق اس کوہاتھ کی انگلیوں میں ضرب دیجئے تووہ جتنی ہیں اتنی ہی رہیں گی،اوریہی بعینہٖ ایک طرف کی انگلیاں ہیں تو گویاایک چیز کی طرف اس چیز کے مساوی ہوگئی مقدار میں اور یہ بداہۃً محال ہے بلکہ یہاں پروہ مقدارجو کل کاحاصل ہے ایک طرف ہے تو چاروں اطراف کے خطوط کامجموعہ پوری سطح کاچارگنا ہوجائے گا تو لازم آئے گا کہ شیئ کا طرف اس سے کئی گنا بڑھ جائے اور اس سے زیادہ بعید محال اورکون ساہوگا۔(ت)

بالجملہ یہاں تین قول ہیں اور ہر طرف ترجیح وتصحیح اقول مگر قول ثالث درایۃً ضعیف اوراس کا لفظ ترجیح بھی اُس قوت کا نہیں اور قول دوم اگرچہ اقیس ہے اوراُس کی تصحیح امام قاضی خان نے فرمائی جن کی نسبت علماء تصریح فرماتے ہیں کہ ان کی تصحیح سے عدول نہ کیاجائے کہ وہ فقیہ النفس ہیں کما ذکر العلامۃ شامی فی ردالمحتار وغیرہ فی غیرہ مگر قول اول کی طرف جمہور ائمہ ہیں اور عمل اسی پر ہوتا ہے جس طرف جمہور ہوں کما فی ردالمحتار والعقود الدرایۃ وغیرھما اوراُس کالفظ تصحیح سب سے اقوی کہ علیہ الفتوی بخلاف قول دوم کہ اس میں لفظ صحیح ہے اورسید طحطاوی کی اُس پر حکایت فتوی معلوم ہولیاکہ سہو صریح ہے پس جو زیادہ احتیاط چاہے مساحت آب کثیر میں گز مساحت کا اعتبار کرے کہ ساڑھے تین فٹ اور ہمارے گز سے سدس اوپرساڑھے اٹھارہ گرہ کاہے جس کادس گز ہمارے گز سے ۱۱ گز 1۱- ۲2/۳3 گرہ ہواتواس کی پیمائش کادَہ در دَہ ہمارے گز سے ایک سو چھتیس گز ایک گرہ اور ۹/۷ گرہ ہو اور نہ وہی چوبیس انگل کاگزخود معتمد وماخوذہے جس کا دہ در دہ ہمارے گز سے پچیس ہی گز ہوااور اُس کے اعتبار میں اصلاً دغدغہ نہیں کہ وہی مفتی بہ ہے اوروہی قول اکثر اور اسی میں یسر وآسانی بیشتراورمقدار دَہ در دَہ کا اعتبار بھی خود رفق وتیسیر کی بنا پر ہے کما لایخفی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔