صحابہ و اہل بیت علیہم الرضوان, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ, مشاجرات صحابہ

بنو امیہ پر اور حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ

مسئلہ ۳۲ : رام نگر ضلع بنارس مرسلہ امام الدین صاحب ۹ جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ
گزشتہ محرم خواجہ حسن نظامی دہلوی نے ایک کتاب لکھی جس کا نام محرم نامہ رکھا ہے، خواجہ صاحب ایک مشہور شخصیت کے آدمی ہیں اس لیے ان کی اس کتاب کی بڑی اشاعت ہوئی اس کا ایک نسخہ ناچیز کے ایک دوست نے بھی منگایا اس محرم نامہ میں خواجہ صاحب نے عام بنو امیہ پر اور حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ پر خصوصاً نہایت سخت و شدید حملے کیے ہیں اور ان کے متعلق ایسی باتیں لکھی ہیں سنی المذہب محرم نامہ پڑھنے والوں کے خیالات میں نہایت ہلچل پڑ گئی ہے۔ لہذا محرم نامہ مذکور سے اخذ کرکے کچھ حوالہ کرتا ہوں اور دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ باتیں کیسی ہیں تاکہ معلوم کرکے خود کو اور دیگر برادرانِ اہل سنن کو خیالات کی کشمکش سے چھڑاؤں، محرم نامہ میں ہے۔
(۱) بغیر سوچے تم کو معلوم ہوجائے گا کہ حضرت عثمان کی شروع خلافت سے لے کر قتلِ عثمان تک جنگ جمل ، جنگ صفین، فیصلہ صفین اور آخر تک ہر بڑے چھوٹے فساد کی بنیاد میں عمرو بن العاص کا ہاتھ ضرور تھا۔
(۲) حضرت علی کو دھوکا دے کر خلافت حضرت عثمان کو انہوں نے دلوائی۔
(۳) اور پھر سب سے پہلے مخالفتِ عثمان پر یہ آمادہ ہوئے،
(۴) حضرت عثمان کی بہن کو طلاق دی۔
(۵) اور مسجد میں سخت کلامی کا افتتاح بھی انہی عمرو بن العاص نے حضرت عثمان کے ساتھ کیا۔
(۶) یہی عمرو بن العاص تھے جنہوں نے لوگوں کو علانیہ جوش دلا کر حضرت عثمان کے مار ڈالنے پرترغیب دی ۔ (۷) اور پھر یہی عمر و بن العاص تھے جو معاویہ کے وزیر بن کر حضرت علی سے خونِ عثمان کا انتقام لینے آئے۔
(۸) فیصلہ خلافت میں ابو موسٰی اشعری کو دھوکا دینے والے بھی یہی تھے۔
(۹) بنی امیہ اور عمرو بن العاص جیسے چند آدمیوں کی یہ آگ لگائی ہوئی ہے جو آج تک نہیں بجھی۔
مندرجہ بالا باتوں کا تعلق اگر چہ زیادہ تر تاریخ سے ہے لیکن چونکہ ایک ایک حرف مذہب پر اثر ڈال رہا ہے، اور اس لیے ناچیز نے دارالافتاء کے دروازے ہی پر دستک دینی مناسب سمجھی، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کے متعلق تین باتیں اور پوچھنی ہیں۔
(۱) حضرت کا نسب نامہ۔
(۲) آیا آپ کی حضور رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کوئی رشتہ داری تھی یا نہیں ٰ؟
(۳) کسی گروہ کو آپ کے صحیح النسب ہونے میں کلام ہے؟ محرم نامہ مذکور کی نسبت یہ دریافت کرنا ہے کہ آیا اس کا پڑھنا سُنیوں کے لیے کیسا ہے اور اس کو درست سمجھنا؟

الجواب : سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ جلیل القدرصحابہ کرام سے ہیں اُن کی شان میں گستاخی نہ کرے گا مگر رافضی، جس کتاب میں ایسی باتیں ہوں اس کا پڑھنا سُننا مسلمان سنیوں پر حرام ہے، ایسے مسئلہ میں کتابوں کے حوالے کی کیا حاجت، اہلسنت کے مسنون عقائد میں تصریح ہے ،

الصحابۃ کلھم عدول لانذکرھم الابخیر ۔۱؂ صحابہ سب کے سب اہل خیر و عدالت ہیں ہم ان کا ذکر نہ کریں گے مگر بھلائی سے۔

(۱؎منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر افضل الناس بعدہ علیہ الصلوۃ والسلام مصطفی البابی مصر ص۷۱)

اگر کوئی شخص اہل سنت کی کتابوں کو نہ مانے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشادات کو تو مانے گا،
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اسلم الناس واٰمن عمر و بن العاص رواہ الترمذی ۱؂ عن عقبۃ ابن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ بہت لوگ وہ ہیں کہ اسلام لائے مگر عمرو بن العاص ان میں ہیں جو ایمان لائے۔ ( اس کو ترمذی نے عقبہ ابن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ت)

(۱ ؎ جامع الترمذی ابواب المناقب مناقب عمروبن العاص حدیث ۳۸۷۰ دارالفکربیروت ۵ /۴۵۶ )

رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان عمرو بن العاص من صالحی قریش رواہ الترمذی ۲؂والا مام احمد فی مسند عن سیدنا طلحۃ بن عبید اﷲ احد العشرۃ ا لمبشرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔

عمرو بن العاص صالحین قریش سے ہیں (ترمذی اور امام احمد نے اپنی مسند میں اسے سیدنا طلحہ بن عبید اﷲ جو عشر ہ مبشرہ رضی ا للہ تعالٰی عنہم اجمعین سے ایک ہیں سے روایت کیا۔ت)

(۲ ؎ سنن الترمذی ابواب المناقب مناقب عمروبن العاص حدیث ۳۸۷۱ دارالفکربیروت ۵ /۴۵۶ )
(مسند احمد بن حنبل عن طلحہ بن عبید اللہ حدیث ۱۳۸۵ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۲۶۰)

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: نعم اھل البیت عبداﷲ وابوعبداﷲ وام عبداﷲ، رواہ البغوی۳؂ وابویعلٰی عن طلحۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ بہت اچھے گھر والے ہیں عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عبداللہ کا باپ اور اس کی ماں۔ اس کو بغوی اور ابویعلی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ت)

(۳؂ مسند احمد بن حنبل عن طلحہ بن عبید اللہ حدیث ۱۳۸۴ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۲۶۰)
(مسند ابی یعلی حدیث ۶۴۱ موسسۃ علوم القرآن بیروت ۱ /۳۱۳)

واخرجہ ابن سعد فی الطبقات بسند صحیح عن ابن ابی ملکیۃ وزاد (اس کو ابن سعد نے طبقات میں صحیح سند کے ساتھ ابن ابی ملکیہ سے روایت کیا اور اتنا زیادہ کیا۔) یعنی عبداللہ بن عمر و بن العاص، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کو غزوہ ذات السلاسل میں اسی الہی فوج کا سردار کیا۔جس میں صدیق اکبر و فاروق اعظم تھے رضی اللہ تعالٰی عنہم۔
ایک بار اہل مدینہ طیبہ کوکچھ ایسا خوف پیدا ہوا کہ متفرق ہوگئے سالم مولٰی ابی حذیفہ اور عمرو بن العاص دونوں صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہما تلوار لے کر مسجد شریف میں حاضر رہے، حضور اقدس صلی اللہ تعالی وسلم،نے خطبہ فرمایا اور اس میں ارشاد کیا: الا کان مفزعکم الی اﷲ والٰی رسولہ الا فعلتم کما فعل ھٰذا ن الرجلان المؤمنان ۔۱؂ کیوں نہ ہوا کہ تم خوف میں اﷲ ورسول کی طرف التجالاتے ، تم نے ایسا کیوں نہ کیا جیسا ان دونوں ایمان والے مردوں نے کیا۔

(۱؂ مسند احمد بن حنبل بقیہ حدیث عمروبن العاص المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۲۰۳)

منکر اگر احادیث کو بھی نہ مانے تو قرآن عظیم کو تو مانے گا، اللہ عزوجل فرماتا ہے: لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولئٰک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد وقاتلوا وکلا وعد اﷲ الحسنی واﷲ بما تعملون خبیر ۔۲؂ تم میں برابر نہیں جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ و قتال کیا وہ درجے میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد میں خرچ و قتال کیا اور دونوں فریق سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ کہ تم کرو گے۔

(۲؂القرآن الکریم ۵۷ /۱۰)

اﷲ عزوجل نے صحابہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دو قسم فرمایا: ایک مومنین قبل فتح مکہ، دوسرے مومنین بعد فتح مکہ، فریق اول کو فریق دوم پر فضیلت بخشی اور دونوں فریق کو فرمایا کہ اﷲ تعالٰی نے ان سے بھلائی کا وعدہ کیا ۔ عمروابن العاص مومنین قبل فتح مکہ میں ہیں۔

اصابہ فی تمیز الصحابہ میں ہے: عمروبن العاص بن وائل بن ہاشم بن سعید بالتصغیر ابن سھم بن عمرو ابن ھصیص بن کعب بن لوی قرشی السھمی امیر مصریکنی ابا عبداﷲ و ابا محمد اسلم قبل الفتح فی صفر ۸ھ ثمان وقیل بین الحدیبیۃ و خیبر ۱؂۔ عمر و بن عاص بن وائل بن ہاشم بن سعید (تصغیر کے ساتھ) بن سہم بن عمرو بن ھصیص بن کعب بن لوی قرشی سہمی امیر مصر جن کی کنیت ابوعبداﷲ اور ابو محمد ہے وہ فتح مکہ سے پہلے ماہ صفر ۸ ہجری میں اسلام لائے اور کہا گیا ہے کہ حدیبیہ اور خیبر کے درمیان اسلام لائے۔ت)

(۱؂الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف العین ترجمہ عمروبن العاص ۵۸۸۲ دارصادر بیروت ۳ /۲)

اور بعد فتح تو راہِ خدا میں جو ان کے جہاد ہیں آسمان و زمین اُن کے آواز ے سے گونج رہے ہیں اور اﷲ عزوجل نے دونوں فریق سے بھلائی کا وعدہ فرمایا، اور مریض القلب معترضین جو ان پر طعن کریں کہ فلاں نے یہ کام کیا فلاں نے یہ کام کیا اگر ایمان رکھتے ہوں تو ان کا منہ تتمہ آیت سے بند فرمادیا کہ واﷲ بما تعملون خبیر۲؂ مجھے خوب معلوم ہے جو کچھ تم کرنے والے ہو، مگر میں تو تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا ۔

(۲؂القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰)

اب یہ بھی قرآن عظیم ہی سے پوچھ دیکھئے، کہ اللہ عزوجل نے جس سے بھلائی کا وعدہ فرمایا اس کے لیے کیا ہے فرماتا ہے: ان الذین سبقت لھم منا الحسنٰی اولئک عنہا مبعدون لایسمعون حسیسہا وھم فی مااشتھت انفسہم خلدون لایحزنھم الفزع الا کبر وتتلقھم الملئکۃ ھذا یومکم الذی کنتم توعدون ۳؂۔ بے شک وہ جن کے لیے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہو جہنم سے دور رکھے گئے ہیں اس کی بھنک تک نہ سنیں گے اور اپنی من مانتی نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے وہ قیامت سب سے بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی اور ملائکہ ان کا استقبال کریں گے یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔

(۳؂ القرآن الکریم ۲۱/ ۱۰۱ و ۱۰۲ )

ان ارشاداتِ الہیہ کے بعد مسلمان کی شان نہیں کہ کسی صحابی پر طعن کرے، بفرض غلط بفرض باطل طعن کرنے والا جتنی بات بتاتا ہے اس سے ہزار حصے زائد سہی اس سے یہ کہیے أانتم اعلم ام اﷲ ۴ ؎ کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ، کیا اللہ کو ان باتوں کی خبر نہ تھی باینہمہ وہ ان سے فرماچکا کہ میں نے تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرمالیا تمہارے کام مجھ سے پوشیدہ نہیں ، تو اب اعتراض نہ کرے گا مگر وہ جسے اللہ عزوجل پر اعتراض مقصود ہے ۔

(۴؂القرآن الکریم ۲/ ۱۴۰)

عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ جلیل القدر قریشی ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جد امجد کعب بن لوی رضی اللہ تعالٰی عنہما کی اولاد سے، اور ان کی نسبت و ہ ملعون کلمہ طعن فی النسب کا اگر کہا ہوگا تو کسی رافضی نے ، پھر وہ صدیق وفاروق کو کب چھوڑتے ہیں عمر وبن عاص کی کیا گنتی ، رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔

وسیعلم الذین ظلمواای منقلب ینقلبون واﷲ تعالٰی اعلم ۔۱؂ اور عنقریب ظالم جان لیں گے کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔(ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔

(۲؂القرآن الکریم ۲۶ /۲۲۷)