مسئلہ ۳۰ : از نسواہ قادریہ جونیر مدرسہ ضلع چاٹکام مرسلہ مولوی جمال الدین صاحب ۲۷رمضان ۱۳۳۸ھ
وقت نماز وصوم از گھڑی معین نمودن قطع نظر از آفتاب وماہتا ب آیا جائز شود یا چنانچہ بعض دیوبندی قائل آنست برتقدیر عدم جائز چہ دلیل عقلاً ونقلاً باید وموجد گھڑی کیست وکدام وقت ایجادش گردید وچراائمہ ازوے وقت صوم وصلٰوۃ مقرر نہ نمودند۔
نماز وروزہ کا وقت گھڑی سے معین کرنا سورج اورچاند سے قطع نظر کرتے ہوئے جائز ہے یا نہیں؟بعض دیوبندی اس کے قائل ہیں، ناجائز ہونے کی صورت میں اس پر کون سی عقلی ونقلی دلیل ہوگی ، گھڑی کا موجد کون ہے اورکون سے زمانے میں ایجاد ہوئی ، اورائمہ کرام نے اس کے ساتھ نماز اورروزے کا وقت کیوں مقرر نہیں فرمایا۔(ت)
الجواب : موجد آلہ سماعت مردے از منجمان زمانہ ہارون رشید راگفتہ اند واللہ اعلم بہ فاما تازمانہ ائمہ بلکہ تاچند صد سال پیش از زمان مارواجش نبود واعتماد بروآنکس راکہ علم توقیت نداند حرام ست ہمچناں بریک آلہ سماعت اعتماد نشاید کہ دفعۃً خود بخود پیش وپس می شود آرے ہرکہ علم توقیت داندہ آلہ سماعت رامحافظت تواند بروکارمیتواں کردکما افادہ فی الدرالمختاردیوبندیاں خود از توقیت ہمچناں بیگانہ اند کہ از دین واعتماد برفتوائے آنہا حرام تراز آنست کہ برساعت بے تمکین۔ واللہ تعالٰی اعلم گھڑی کا موجد ہارون الرشید کے زمانے کاایک نجومی مرد بتایا جاتا ہے ۔اوراللہ تعالٰی خوب جانتاہے ۔ ائمہ کرام کے زمانے میں بلکہ ہمارے زمانے سے چند سو سال پہلے تک اس کا رواج نہ تھا۔ علم توقیت نہ جانے والے شخص کےلئے اس آلہ پر اعتماد کرنا حرام ہے ۔ اسی طرح صرف ایک گھڑی پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے کہ بعض اوقات خود بخود آگے پیچھے ہوجاتی ہے۔ ہاں جو شخص علم توقیت جانتاہے اورگھڑی کی حفاظت کرسکتاہے وہ اس پر عمل کرسکتاہے جیسا کہ درمختارمیں اس کا افادہ فرمایاہے ۔ دیوبندی تو خود علم توقیت سے اسی طرح ناآشنا ہیں جیسے دین سے ۔ ان کے فتوے پر اعتماد کرنا گھڑی جیسے بے اعتبارآلہ پر اعتماد کرنے سے بڑھ کر حرام ہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم (ت)