مسئلہ ۳۰: مرسلہ مولوی نذر امام صاحب مدرس سہسوانی ۲۹ ربیع الاول شریف ۱۳۱۵ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کوئی شخص غسلِ جنابت کی حاجت میں غسل حوض میں کرے توحوض پلید ہوجائے گایا نہیں؟ زید کہتا ہے کہ حوض میں کوئی شخص متواتر گھُسے توپلید ہوجاتاہے بکر کہتا ہے آدمی پاک صاف گھُساتونہ پلید ہوتاہے نہ مکروہ،ہاں نجاست سے رنگ بُومزہ بدل جائیگا تو پلیدہوجائیگا۔ بینوّا توجروا۔
الجواب :حوض کتناہی چھوٹاپانی کتناہی کم ہو کسی پاک صاف آدمی کے جانے نہانے سے جس کے بدن پرکوئی نجاست حقیقیہ نہ لگی ہوہرگزناپاک نہیں ہوتااگرچہ اسے نہانے کی حاجت ہی ہواگرچہ وہ خاص ازالہ جنابت ہی کی نیت سے اُس میں گیاہو ہمارے ائمہ کے صحیح ومعتمد ومفتی بہ مذہب پر غسل بھی اُترجائے گا اورحوض بھی بدستور پاک رہے گا اور اگر آبِ حوض مائے کثیرکی مقدارپرہے جب توجنب کے نہانے سے مستعمل ہونادرکنارباجماعِ تمام ائمہ کرام کسی نجاست حقیقیہ کے گرنے سے بھی ہرگز ناپاک نہ ہوگاجب تک اس قدرکثرت سے نجاست نہ گرے کہ اس کے رنگ یا بُویامزہ کوبدل دے اسی پرفتوٰی ہے یا ایک قول پر اُس کانصف یااکثرنجاستِ مرئیہ پرہوکر گزرے بہتاپانی توباجماع قطعی تمام اُمتِ محمدیہ علی سیدہا افضل الصّلوٰۃ والتحیۃآبِ کثیرہے کہ بغیراُس تغیریامرورکے کسی طرح ناپاک نہیں ہوسکتا جیسے دہلی میں مسجد فتحپوری کا حوض جس میں جمنا سے لائی ہوئی نہر پڑی ہے اور ٹھہرے ہوئے(۱) پانی میں ہمارے علماء کے دو قول ہیں:
(۱)جس پرآدمی کا دل شہادت دے کہ ایک کنارے کی پڑی ہوئی نجاست کااثردوسرے کنارے تک نہ پہنچے گااُس کے حق میں وہی کثیرہے اور اثر نہ پہنچنے کامعیاریہ کہ ایک کنارے پر وضو کیا جائے تو دوسرے کنارے کاپانی فوراً تلے اوپر نہ ہونے لگے نری حرکت یادیر کے بعد پانی کے اُٹھنے بیٹھنے کااعتبار نہیں۔
(۲)جس کی مساحت سطح بالائی دہ دردہ یعنی اُس کے طول وعرض کامسطح سَوہاتھ ہو اورگہرا اتناکہ لَپ میں پانی لینے سے زمین نہ کھُلے وہ کثیرہے ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کااصل مذہب وہی قولِ اول ہے اورعام متون مذہب نے قولِ ثانی اختیار کیااوربکثرت مشائخ اعلام نے اُس پرفتوٰی دیابہرحال یہ قول بھی باقی تمام مذاہب کے اقوال سے زیادہ احتیاط رکھتا ہے ہاں اگرپانی مقدارکثیرسے کم ہے تو البتہ کتنی ہی ذرا سی نجاست اگرچہ خفیفہ کے گرنے یاکسی ایسے شخص کے نہانے سے جس کے بدن پرکچھ بھی نجاست حقیقیہ لگی تھی ضروربالاتفاق ناپاک ہوجائیگااورہمارے جمیع ائمہ مذہب کے مذہب صحیح ومعتمدپرجبکہ اُس سے کوئی فرض طہارت ساقط ہو(مثلاًجنب نہائے یامحدث وضو کرے یابضرورت طہارت مثلاًچلّو میں پانی لینے کے سواصاحب حدث کے کسی بے دھوئے عضوکاجسے دھوناضرور تھاکوئی جُزکسی طرح اگرچہ بلا قصد اُس سے دُھل جائے)یابہ نیت قربت استعمال میں لایاجائے(مثلاًباوضو آدمی وضوئے تازہ کی نیت سے اُس میں کسی عضوکو غوطہ دے کردھوئے)ساراپانی مستعمل ہوجائیگاکہ پاک توہے مگرغسل ووضو کے قابل نہ رہاجب حوض(۱)صغیرمیں یہ صورت واقع ہوتواس کے مطہرکرنے کیلئے دوباتوں میں سے ایک کرناچاہئے یاتومطہرپانی مستعمل پرغالب کردینایاحوض کو لبریزکرکے مطہرپانی سے بہادینااول کی صورت یہ ہے کہ حوض میں خود ہی اُس شخص کے نہاتے یابے دُھلاعضوبلا ضرورت ڈالتے وقت نصف حوض سے کم پانی تھا تواب مطہرپانی سے بھردیں کہ یہ مستعمل سے زیادہ ہوگیااوراگر اس وقت نصف یا زیادہ حوض میں پانی تھاتو پہلے اتناپانی نکال دیں کہ حوض کااکثرحصّہ خالی ہوجائے پھرمنہ تک بھردیں مثلاً ہموار حوض کہ زیروبالایکساں مساحت رکھتاہے دوگزگہراہے اوراس شخص کے نہاتے وقت اُس میں گز بھر پانی تھاتوپاؤگرہ پانی نکال دیں اورسترہ گرہ تھاتوسوا گرہ کھینچ دیں کہ بہرحال سواسولہ گرہ خالی اورپونے سولہ میں پانی رہے پھرنئے پانی سے لبالب بھردیں اوردوم کی شکل یہ کہ حوض میں اُس وقت پانی کتناہی ہو اُس میں سے کچھ نہ نکالیں اورنیا پانی اُس میں پہنچاتے جائیں یہاں تک کہ کناروں سے اُبل کربَہ جائے یہ دوسراطریقہ ناپاک حوض کے پاک کرنے میں بھی کفایت کرتاہے جبکہ ناپاک چیزنکالنے کے قابل نکال کرپانی سے اُبال کربہادیں ظاہرہے کہ اُس وقت حوض میں پانی نصف سے جتناکم ہوپہلا طریقہ آسان ترہوگادوگزگہرے حوض میں اُس وقت چارہی گرہ پانی تھا تو صرف چارگرہ پانی اور پہنچا کر چند ڈول زیادہ ڈال دیں کہ مستعمل سے مطہراکثرہوگیااوراس وقت پانی نصف سے جتنازائدہودوسرا طریقہ سہل ترہوگاکہ اُس میں نکالناکچھ نہ پڑے گااورکم حصہ خالی ہے جسے بھرکرابالناہوگااورجہاں(۲) دونوں صورتیں دشواری وحرج صریح رکھتی ہوں وہاں اگرقول بعض علماء پر عمل کرکے اُس میں سے بیس ہی ڈول نکال دیں توامیدہے کہ اِن شاء اللہ تعالٰی اسی قدرکافی ہویریداللّٰہ بکم الیسرولایریدبکم العسر(اللہ تعالٰی تم پرآسانی چاہتاہے تنگی نہیں چاہتا۔ت)اورسب سے زیادہ صورت ضرورت یہ ہے کہ وہاں کنواں نہ ہومینہ سے حوض بھرتاہواورہوگیامستعمل اب اُس کے بہانے یامستعمل پر مطہربڑھانے کیلئے پانی کہاں سے لائیں لہٰذا اس صورت ثالثہ پرعمل ہوگا وباللہ التوفیق۔
درمختار میں ہے:لایجوز(ای رفع الحدث) بماء استعمل لاجل قربۃ اواسقاط فرض بان یدخل یدہ او رجلہ فی جب لغیر اغتراف ونحوہ اذاانفصل عن عضو وان لم یستقر علی المذھب وھوطاھرولومن جنب وھوالطاھرلیس بطھورلحدث علی المعتمد محدث انغمس فے بئرولانجس علیہ الاصح انہ طاھروالماء مستعمل۱؎ اھ ملتقطا۔
جائزنہیں(یعنی رفع حدث)اُس پانی سے جوحدث دُورکرنے یاقربۃحاصل کرنے کیلئے استعمال میں لایا گیاہو مثلاًیہ کہ اپناہاتھ یاپیر کسی گڑھے میں داخل کردے اور اس کو مقصود چلّو بھر کرپانی لینا نہ ہو تو وہ عضو سے جُدا ہوتے ہی مستعمل ہوجائیگا خوا ہ ا س پرنہ ٹھہرے،مذہب یہی ہے اور یہ پاک ہی رہے گا خواہ ناپاک آدمی ہی کیوں نہ ہو اوروہ طاہرہے،پاک کرنے والا نہیں ہے،معتمدقول یہی ہے،اگرکوئی بے وضو کسی کنویں میں غوطہ لگائے اوراس کے جسم پرکوئی نجاست نہ ہواصح یہ ہے کہ وہ پاک ہے اورپانی مستعمل ہے اھ ملتقطا۔(ت)
(۱؎ درمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۷)
ردالمحتارمیں ہے:قولہ الاصح ھذا القول ذکرہ فی الھدایۃ روایۃ عن الامام قال الزیلعی والھندی وغیرھما تبعالصاحب الھدایۃھذہ الروایۃ اوفق الروایات وفی فتح القدیروشرح المجمع انھاالروایۃ المصححۃ قال فی البحرفعلم ان المذھب المختارفی ھذہ المسألۃ ان الرجل طاھروالماء طاھرغیرطھور۲؎ اھ مختصرا۔
اس کاقول الاصح،اس قول کوہدایہ میں امام سے بطورروایت کے ذکرکیاہے،زیلعی اورہندی وغیرہما نے صاحبِ ہدایہ کی متابعت میں کہاکہ یہ روایت اوفق الروایات ہے،فتح القدیراورشرح المجمع میں ہے کہ تصحیح شدہ روایت یہی ہے،بحرمیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ مذہب مختار اس مسئلہ میں یہ ہے کہ آدمی پاک ہے،پانی پاک ہے مگرپاک کرنے والانہیں اھ مختصرا۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۸)
درمختار میں ہے:الغلبۃلوالمخالط مماثلاکمستعمل بالاجزاء فان المطلق اکثرمن النصف جازالتطہیر والالا۳؎ اھ ملتقطا۔
غلبہ اجزاء کے اعتبارسے ہوگا اگرملنے والا مماثل ہوجیسے مستعمل پس اگرمطلق اکثرہے نصف سے،توتطہیر جائز ہے ورنہ نہیں اھ ملتقطا۔(ت)
(۳؎ دُرمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۴)
ردالمحتارمیں ہے:ای وان لم یکن المطلق اکثربان کان اقل اومساویالایجوز۴؎ اھ۔
یعنی اگر مطلق زائدنہ ہومثلاًیہ کہ کم ہویامساوی توجائزنہیں اھ(ت)
(۴؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۳۴)
درمختارمیں ہے:یجوزبجاروقعت فیہ نجاسۃ ان لم یراثرہ(وھوطعم اوریح اولون) ظاھرہ یعم الجیفۃ ورجحہ الکمال وقال تلمیذہ قاسم انہ المختار وقواہ فی النھرواقرہ المصنف وفی القہستانی عن المضمرات عن النصاب وعلیہ الفتوی وقیل ان جری علیہ نصفہ فاکثرلم یجزوھواحوط (وکذا)یجوز(براکد)کثیروقع فیہ نجس لم یراثرہ ولوفی موضع وقوع المرئیۃ بہ یفتی بحر (والمعتبر) فی مقدارالراکد(اکبررای) المبتلی بہ(فان غلب علی ظنہ عدم خلوص النجاسۃ الی الجانب الاخر جاز و الا لا ) ھذاظاھرالروایۃ وھوالاصح غایۃ وغیرھاوفی النھران اعتبار العشراضبط ولاسیمافی حق من لارأی لہ من العوام فلذاافتی بہ المتأخرون الاعلام۱؎ اھ مختصرا۔
وضوجائزہے اُس جاری پانی سے جس میں نجاست گری اوراس کااثریعنی مزہ،بُویارنگ اس میں ظاہرنہ ہو، بظاہریہ مردہ کو بھی عام ہے،کمال نے اس کوترجیح دی ہے اوران کے شاگردقاسم نے کہاکہ یہی مختارہے، اورنہرمیں اس کوتقویت دی اور مصنف نے اس کوبرقراررکھا،اورقہستانی میں مضمرات سے نصاب سے منقول ہے کہ اسی پرفتوٰی ہے،اورکہاگیاکہ اگر اس پرآدھایازائدجاری ہوتوجائزنہیں اوریہی احوط ہے (اور اسی طرح)جائزہے (ٹھہرے ہوئے)کثیرپانی سے جس میں نجاست گری ہو اوراس کااثرغیرمرئی ہوخواہ اُس جگہ سے ہوجہاں نجاست نظرآتی ہو،اسی پرفتوٰی ہے بحر (اورمعتبر) ٹھہرے ہوئے پانی کی مقدارمیں (جس طرف رائے کا رجحان ہو)یعنی اس شخص کی رائے جواس معاملہ سے متعلق ہے،(اگراس کویہ ظن غالب ہے کہ نجاست یہاں سے تجاوزکرکے دوسری طرف نہیں گئی ہے توجائزہے،ورنہ نہیں)یہ ظاہر روایت ہے اوریہی صحیح ہے غایۃ وغیرہ میں۔اورنہرمیں ہے کہ دس ہاتھ کااعتبارکرلینازیادہ مناسب ہے، خاص طورپراُن عوام کے حق میں جن کی اس سلسلہ میں کوئی رائے نہیں ہوتی ہے،اسی لئے متاخرین علما نے اسی پرفتوٰی دیا ہے اھ مختصرا۔(ت)
(۱؎ درمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۱)
ردالمحتار میں ہے:فی الھدایۃ وغیرھاان الغدیرالعظیم مالایتحرک احد طرفیہ بتحرک الطرف الاٰخروفی المعراج انہ ظاھر المذھب وفی الزیلعی ظاھر المذھب وقول المتقدمین حتی قال فی البدائع والمحیط اتفقت الروایۃ عن اصحابناالمتقدمین انہ یعتبر بالتحریک وھو ان یرتفع وینخفض من ساعتہ لابعدالمکث ولایعتبراصل الحرکۃ والمعتبرحرکۃالوضوء ھو الاصح محیط وحاوی القدسی ولایخفی علیک ان اعتبارالخلوص بغلبۃ الظن بلاتقدیرشیئ مخالف فی الظاھرلاعتبارہ بالتحریک لان غلبۃ الظن امرباطنی یختلف وتحریک الطرف الاخر حسی مشاھد لایختلف مع ان کلامنھمامنقول عن ائمتناالثلثۃفی ظاھرالروایۃولم ارمن تکلم علی ذلک ویظھرلی التوفیق بان المراد غلبۃ الظن بانہ لوحرک لوصل الی الجانب الاٰخراذالم یوجد التحریک بالفعل فلیتأمل۱؎اھ ملخصا۔
ہدایہ وغیرہ میں ہے کہ بڑاتالاب وہ ہے کہ جس کے ایک کنارہ کی حرکت سے دوسرے کنارے کوحرکت نہ ہو ،اورمعراج میں ہے کہ ظاہرمذہب یہی ہے۔اور زیلعی میں ہے کہ یہی ظاہرمذہب ہے اورمتقدمین کا قول ہے، یہاں تک کہ بدائع اورمحیط میں ہے کہ ہمارے اصحابِ متقدمین کی روایت اس پرمتفق ہے کہ اعتبارہلانے کاہے اس کے ساتھ ہی پانی اوپرنیچے ہونے لگے نہ کہ دیر بعد،اورعام حرکت کااعتبارنہیں،اور معتبروضوکی حرکت ہے،یہی اصح ہے،محیط اورحاوی قدسی۔اورتجھ پریہ بات مخفی نہ ہونی چاہئے کہ غالب ظن کا اعتباربلا تقدیرشیئ یہ ظاہرمیں حرکت کے اعتبارکے مخالف ہے کیونکہ غلبہ ظن ایک باطنی امرہے جس میں اختلاف ہوتا ہے،اوردوسرے کنارہ کوحرکت دیناایک حسی امر ہے جس کامشاہدہ ہوتا ہے اوراس میں کوئی اختلاف نہیں ہوتاپھریہ دونوں چیزیں ہمارے ائمہ ثلٰثہ سے ظاہرروایت میں منقول ہیں،اورمیں نے نہیں دیکھاکہ کسی نے اس پرکلام کیاہو،اس میں تطبیق کی شکل میرے نزدیک یہ ہوسکتی ہے کہ جب بالفعل تالاب کوحرکت نہ دی جائے تواس امرکاغلبہ ظن ہوناچاہیے کہ اگرحرکت دی جاتی تودوسرے کنارے پر حرکت پیدا ہوتی فلیتأمل اھ ملخصا۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۱)
اقول: ھذاالذی ابداہ من التوفیق حسن بالقول حقیق فان من وجدفی البریۃماء فی احد جانبیہ نجاسۃفھل یؤمران یتوضأفی الطرف الاخرکی یجرب علی نفسہ انہ یتحرک ام لافان وجدہ یتحرک فلیجتنب وای شیئ یجتنب وقدتلوث فاذن لیس المراد الاان یغلب علی ظنہ انہ ان توضأ تحرک فمافی القول الاول بیان للمقصود وماھنابیان لمعرفہ فان خلوص النجاسۃامرباطنی لایوقف علیہ و وصول الحرک یعرفہ فمایظن فیہ ھذاھو المظنون فیہ ذاک ومالافلا ثم المنقول(۱) فی البئراذاانغمس فیھا محدث ولوجنبانزح عشرین دلواففی ردالمحتارعن الوھبانیۃمذھب محمداھ یسلبہ الطھوریۃوھوالصحیح عندالشیخین فینزح منہ عشرون لیصیر طھورا۱؎ اھ قال والمرادبالمحدث مایشمل الجنب،
میں کہتاہوں تطبیق کی جوشکل انہوں نے پیش کی ہے نہایت مستحسن ہے کیونکہ اگرکوئی شخص جنگل میں پانی کا تالاب پائے جس کے ایک کنارہ پرنجاست ہوتواب کیایہ معقول بات ہوگی کہ اسے حکم دیاجائے، جاؤ اس کے دوسرے کنارے سے وضوکرکے تجربہ کروکہ آیااس طرح دوسرے کنارے پرحرکت ہوتی ہے یا نہیں؟اب اگرحرکت محسوس کرے تووضونہ کرے اوراب بچ کیسے سکتا ہے جبکہ اس کے اعضاء اس گندے پانی میں ملوّث ہوچکے ہیں،لہٰذاغلبہ ظن سے مرادیہی ہے کہ اگروہ وضوکرے تودوسرے حصہ پرحرکت ہوگی،توپہلے قول میں مقصودکابیان ہے اوریہ معرفت کابیان ہے کیونکہ نجاست کادوسری جانب پہنچناایک باطنی امرہے اس پراطلاع نہیں ہوتی ہے،اورحرکت کے پہنچنے سے معلوم ہوتاہے جہاں اِس کاگمان ہے وہاں اُس کابھی ہے اس کانہیں تواُس کابھی نہیں،پھرکنویں کے بارے میں یہ منقول ہے کہ اگربے وضویا جنب کنویں میں غوطہ لگائے تواُس سے بیس ڈول پانی نکالاجائیگا۔ ردالمحتارمیں وہبانیہ سے منقول ہے کہ محمدکامذہب یہ ہے کہ طہوریت سلب ہوجائیگی،اورشیخین کے نزدیک یہی صحیح ہے،تواس سے بیس ڈول نکالے جائیں گے تاکہ وہ طہورہوجائے اھ فرمایااورمحدث میں جُنب بھی شامل ہے ،
(۱؎ ردالمحتار فصل فی البئر مصطفی البابی مصر ۱/۱۵۷)
ثم وقع(۲)بینھم النزاع فی ان الصھریج وھوعلی مانقل الشافعیۃعن القاموس الحوض الکبیرھل ھوکالبئرفیکفی فیہ نزح البعض حیث یکفی ام کالزیرفیجب اخراج الکل وغسل السطوح للتطھیربالاول افتی بعض معاصری العلامۃعمربن نجیم صاحب النھر متمسکاباطلاقھم البئرمن دون تقییدبالمعین و ردہ فی النھر تبعا للبحربمافی البدائع والکافی وغیرھمامن ان الفأرۃلووقعت فی الحب یھراق الماء کلہ قال ووجہہ ان الاکتفاء بنزح البعض فی الاٰبارعلی خلاف القیاس بالاٰثارفلایلحق بھاغیرھاثم قال وھذاالردانمایتم بناء علی ان الصھریج لیس من مسمی البئرفی شیئ۱؎اھ
پھرفقہاء میں یہ اختلاف واقع ہوا کہ جو صہریج___ شافعیہ نے قاموس سے نقل کیاکہ اس سے مرادبڑاحوض ہے،ایک قول یہ ہے کہ وہ کنویں کی طرح ہے تواس کاکچھ پانی نکالناکافی ہوگایازیر(سوتا)کی طرح ہے اورکل پانی نکالنا ہو گا او ر اس کی سطحوں کو بھی دھوناپڑے گا،پہلے قول کے مطابق علامہ عمربن نجیم صاحبِ نہرکے بعض معاصرین نے فتوٰی دیا اورفقہاکے اس اطلاق سے استدلال کیاکہ انہوں نے کنویں میں سوتے والے اوربغیرسوتے والے میں فرق نہ کیا،اس کو نہر میں بحرکی متابعت میں ردکیا،کیونکہ بدائع اورکافی وغیرہ میں ہے کہ گڑھے میں چُوہیاگرجائے توکل پانی نکالا جائیگا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کنویں سے کچھ پانی کانکالنا خلافِ قیاس ہے اورآثارکی وجہ سے ہے توکنویں کے علاوہ کسی اورچیزمیں یہ خلاف قیاس نہ چلے گا،پھر فرمایایہ رداس بناء پرہے کہ صہریج پربئرکااطلاق نہیں ہوتااھ
(۱؎ ردالمحتار فصل فی البئر مصطفی البابی مصر ۱/۱۵۹)
قال الشامی ای فاذاادعی دخولہ فی مسمی البئرلایکون مخالفاللاٰثارویؤیدہ ماقدمناہ من ان البئرمشتقۃ من بأرت ای حضرت والصھریج حفرۃفی الارض لاتصل الیدالی مائھابخلاف العین والحب والحوض والیہ مال العلامۃالمقدسی فقال مااستدل بہ فی البحرلایخفی بعدہ واین الحب من الصھریج لاسیما الذی یسع الوفاء من الدلاء۲؎اھ لکنہ خلاف مافی النتف ونصہ اماالبئرفھی التی لھا موادمن اسفلھااھ ای لھامیاہ تمد وتنبع من اسفلھاولایخفی انہ علی ھذاالتعریف یخرج الصھریج والحب والابارالتی تملاءمن المطراومن الانھار۳؎ اھ مافی ردالمحتار باختصار۔
شامی نے کہاجب یہ دعوٰی کیاجائے کہ اس پر بھی بئرکااطلاق ہوتاہے توآثارکے مخالف نہ ہوگااوراس کی تائیداس سے ہوتی ہے کہ بئربأرتُ سے مشتق ہے یعنی”حفرتُ”(میں نے کھودا)صہریج اس گڑھے کوکہتے ہیں جس کے پانی تک ہاتھ نہ پہنچتا ہو،عین،حب،حوض اس کے برعکس ہے اوراسی طرف علامہ مقدسی مائل ہوئے ہیں،اورفرمایاجس سے بحر نے استدلال کیا سے اُس کابُعدمخفی نہ رہے اورحب اورصہریج میں بڑا فرق ہے خاص طورپروہ جس میں وفاڈول کی گنجائش ہواھ مگریہ نتف کے خلاف ہے اوراس کی عبارت یہ ہے اورکنواں وہ ہے جس کے نیچے سے سوتے ہوں اھ یعنی نیچے سے پانی نکلتارہتاہو،اورمخفی نہ رہے کہ صہریج،حب اورکنویں جو بارش سے بھرجاتے ہیں یانہروں سے وہ اس تعریف سے خارج ہیں اھ ردالمحتارمختصراً (ت)
(۲؎ ردالمحتار فصل فی البئر مصطفی البابی مصر ۱/۱۵۹)
(۳؎ ردالمحتار فصل فی البئر مصطفی البابی مصر ۱/۱۵۹)
اقول: وکون(۲)البئرمن البأریقتضی ان کل بئرمحفورۃلاان کل محفوربیرولاتنس ماحکوہ فی القارورۃ والجرجیروفی الدرالمختارعن حواشی العلامۃ الغزی صاحب التنویرعلی الکنز عن القنیۃ ان حکم الرکیۃ کالبئروعن الفوائدان الحب المطموراکثرہ فی الارض کالبئرقال فے الدروعلیہ فالصھریج والزیرالکبیرینزح منہ کالبئر فاغتنم ھذاالتحریر۱؎ اھ
میں کہتا ہوں بئرکابأرٌسے مشتق ہونااس امرکامقتضی ہے کہ ہربئرکھودا ہوا ہو یہ نہیں کہ ہرکھوداہوا بئرہو اور تم اس کو نہ بھُلاناجوانہوں نے قارورہ اورجرجیرکے بارے میں حکایت کیا ہے اوردرمختارمیں حواشی علامہ غزی صاحب تنویر کنز پر قنیہ سے ہے کہ”رکیہ” کاحکم کنویں کاساہے،اورفوائد سے ہے کہ حب مطمورکااکثرحصّہ اگرزمین کے اندرہوتووہ کنویں کی طرح ہے درمیں فرمایااس سے معلوم ہوتاہے کہ صہریج اورزیرکبیرسے کنویں کی طرح پانی نکالاجائیگااس تحریر کو غنیمت جانواھ
(۱؎ درمختار ،فصل فی البئر ،مجتبائی دہلی ۱/۳۹)
قال الشامی الرکیۃ فی العرف بئریجتمع ماؤھامن المطرفھی بمعنی الصھریج قال وھذا مسلم فی الصھریج دون(۱) الزیر لخروجہ عن مسمی البئروکون اکثرہ مطمورای مدفونا فی الارض لایدخلہ فیہ لاعرفاولالغۃ ومافی الفوائدمعارض باطلاق مامرعن البدائع والکافی وغیرھماوفرق ظاھربینہ وبین الصھریج کماقدمناعن المقدسی۲؎ اھ مختصرا۔
شامی نے فرمایاکہ رکیہ عرف میں اس کنویں کوکہتے ہیں جس میں بارش کاپانی اکٹھاہوجاتاہے تویہ صہریج کے معنی میں ہے،فرمایایہ صہریج میں مسلّم ہے زیرمیں نہیں،کیونکہ اس پربئرکااطلاق نہیں ہوتا ہے،اوراس کابیشتر حصہ زمین میں مدفون اور دھنساہواہوتاہے لہٰذاوہ عرفاًاور لغۃًکنواں نہیں ہے،اورجوفوائدمیں ہے وہ بدائع اورکافی وغیرہ کے اطلاق کے معارض ہے اور اس میں اور صہریج میں واضح فرق ہے جیسا کہ ہم نے مقدسی سے نقل کیا اھ مختصرا۔ (ت)
(۲ ؎ رد المحتار ،فصل فی البئر ،مصطفی البابی ۱/۱۵۹)
اقول : ھذامن الحسن بمکان لکن(۲)(عہ۱)لایظھرالتفرقۃ بین الحوض والصہریج فان عدم(۳)وصول الیدالی الماء لیس داخلافی مسمی البئرولاالصھریج وانماالبئرکماذکر من البأربمعنی الحفراومنہ بمعنی الادخارویختلف قرب مائھاوابتعادہ باختلاف الارض والفصول ففی الاراضی الندیۃ وابان المطریقترب جدال سیمابقرب الانھارالکبارحتی رأینا من الاٰبارماینال ماؤھابالایدی واذاسالت السیول تَرِعَتْ واستوت بالارض وھی التی تسمی بالھندیۃ چویاوالحیاض کثیراماتکون بعیدۃ الغور،حتی اذاملئت الی قدرالنصف اوازید منہ قلیلالاتصل الایدی الی مائھاواذاامتلأت وصلت وکذلک الزیرالکبیر،
میں کہتا ہوں یہ ایک اچھی بات ہے لیکن اس سے حوض اورصہریج میں فرق ظاہر نہیں ہوتاکیونکہ پانی تک ہاتھ کانہ پہنچ سکناکنویں کے مفہوم میں شامل نہیں ہے اورنہ صہریج کے مفہوم میں ہے جیساکہ ہم نے ذکر کیابئر،بأرسے ہے جس کے معنی کھودنے کے ہیں،یابمعنی ذخیرہ کرنے کے ہیں،اور اس کے پانی کا قریب وبعید ہونا زمین اور موسموں کے اختلاف سے ہوتا ہے چنانچہ ترزمینوں اور بارش کے موسم میں بہت قریب ہوتا ہے خاص طور پر بڑی بڑی نہروں کے قریب، یہاں تک کہ ہم نے بعض کنویں ایسے دیکھے جن میں سے ہاتھ سے پانی نکالا جاسکتا ہے اور سیلاب کے موسم میں تو یہ کنویں منہ تک بھر جاتے ہیں ہندی میں اس کو ”چویا”کہتے ہیں اور کسی حوض کی گہرائی زیادہ ہوتی ہے،یہاں تک کہ جب وہ آدھے بھر جائیں یااس سے زائد تب بھی ان کے پانی تک ہاتھ نہیں پہنچ پاتا ہے،جب بھر جاتے ہیں تب ہاتھ پہنچتا ہے اور یہی حال بڑے زیر کا ہے،
(عہ۱)ناظرا الی قولہ السابق بخلاف العین والحب والحوض اھ منہ (م)
جو اس کے قول سابق بخلاف العین والحب والحوض اھ منہ (ت)
وما الصھریج الاحوضایجتمع فیہ الماء کمارأیتہ فی نسختی القاموس وعلیھاشرح فی تاج العروس ومثلہ فی مختارالرازی وفی الصراح صھریج بالعکس حوضچہ اب ۱؎ اھ وعلی مااثرتم عن القاموس ھوالحوض الکبیریجتمع فیہ الماء و ھذا ایضا لا یزیدعلی الحوض الا بقیدالکبروالحوض حوض صغراوکبرولاشک ان الصھریج وان بعد قعرہ یملؤہ الوادی اذاسال فتراہ یتدفق بماء سلسال وقدقال ذوالرمۃ ؎
صوادی الھام والاحشاء خافقۃ تناول الھیم ارشاف الصہاریج
فاذاکانت الابل ترتشف ارشافھابشفاھھافمابال الایدی لاتصل الی میاھھا،
اور صہریج بڑے حوض کو کہتے ہیں جس میں پانی اکٹھا ہوجاتاہے،میرے قاموس کے نسخہ میں یہی ہے اورتاج العروس میں اس کی شرح ہے،اور یہی چیز مختار الرازی میں ہے اور صراح میں ہے صہریج بالکسر پانی کاچھوٹاحوض اھ اور جس کو تم نے جو قاموس کے حوالہ سے ذکر کیاہے کہ صہریج بڑاحوض ہے جس میں پانی جمع ہوتاہے اور یہ بھی حوض ہی ہے، صرف بڑا ہوتاہے،اور حوض تو حوض ہی ہوتا ہے خواہ بڑا ہو یا چھوٹا،اور اس میں شک نہیں کہ صہریج خواہ کتنا ہی گہرا ہو اس کو وادی بھرتی ہے،جب وہ بھر جاتاہے تو اُس سے پانی اُچھل کر نکلتا ہے۔
ذو الرُّمہ نے کہا ہے : صوادی الھام والاحشاء خافقۃ
تناول الھیم ارشاف الصہاریج
(پتلی کمر والی اشراف عورتیں اس طرح سیراب ہوتی ہیں جیسے پیاسے اونٹ حوضوں کے بقیہ پانی کوپیتے ہیں)
تو جب اونٹ اپنے ہونٹوں سے حوض سے پانی پیتے ہیں توہاتھ پانی تک کیوں نہیں پہنچتے ہیں،
(۱؎ الصراح باب الجیم فصل الصاد مطبع مجیدی کانپور ص۸۸)
والعلامۃ المقدسی انمایمیل الی التفرقۃ بین الحب والصہریج بالحرج البین فی تفریغ الصہاریج وغسلھاونشفہاکالبئربخلاف الزیروالیہ یشیرقولہ لاسیما الذی یسع الوفا اذا علمت ھذا فاعلم انالواقتصرنافی المسألۃ علی مازعمہ العلامتان قاسم والبحر وتبعہ کثیرممن جاء بعدہ من الاعلام ان المستعمل لیس الامالاقی البدن لم نحتج الی الامربنزح شیئ اصلالان الملاقی اقل بکثیرمن الباقی فالطھوریۃ لم تسلب حتی تُحلب لکنہ خلاف نصوص ائمۃ المذھب المنقول فی الکتب المعتمدۃ اجماعھم علیہ فوجب الرجوع الی المذھب واعتری ح الخلاف بین انہ کالبئر اوکالزیر فعملنابالایسرعندالحرج وبالجراء اوتفریغ الاکثرحیث لاحرج کی یصیر جاریا او المطلق اکثراجزاء،وباجماع یجزئ فی الطھور اجزاء،فھذاتحقیق ماعولناعلیہ،والحمدللّٰہ ومنہ والیہ،ھکذاینبغی التحقیق،واللّٰہ سبحنہ وتعالٰی ولی التوفیق، وماذکرنامن مسألۃ الاجراء فتحقیقہ فی ردالمحتار وقدذکرناہ فی مواضع من فتاوٰنا۔
اور علامہ مقدسی “حب” اور “صہریج”میں فرق کرتے ہیں،وہ فرماتے ہیں کہ صہاریج کو خالی کرنے میں بہت حرج ہوتاہے اسی طرح ان کو دھونا اور سکھانا بھی مشکل ہے جیسے کنواں، بخلاف “زیر” کے،اوراسی طرف انہوں نے اپنے اس قول سے اشارہ کیاہے کہ”خاص طورپر وہ جس میں ”وفا” سما سکے،جب آپ نے یہ جان لیا تو اب معلوم ہونا چاہئے کہ ہم اگر مسئلہ میں علامہ قاسم اور بحر اور ان کے پیروکاروں کی طرح صرف اسی پراکتفاء کرتے کہ مستعمل صرف وہی ہے جو بدن سے ملاقی ہو،تو ہمیں کچھ پانی نکالنے کا حکم دینے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ جو ملاقی ہے وہ بہت ہی کم ہوتا ہے بہ نسبت باقی کے تو طہوریت اس وقت تک سلب نہ ہوگی جب تک کہ آزمایا نہ جائے لیکن یہ ائمہ مذہب کے نصوص کے خلاف ہے جو کتب معتمدہ میں منقول ہیں اوراسی پر اُن کا اجماع ہے تو مذہب کی طرف رجوع لازم ہے اور اس وقت اختلاف ظاہر ہوا ہے درمیان اس کے کہ آیا یہ کہ کنویں کی طرح ہے یا زیر کی طرح ہے اور ہم نے جو أیسر تھااس پر عمل کیاحرج کے جاری کرنے کے وقت اور اکثر کے خالی کرنے کا حکم اس جگہ دیا جہاں کوئی حرج نہ ہو، تاکہ وہ جاری ہوجائے یا مطلق کے اجزاء زیادہ ہوں اس کی طہوریت کیلئے اجماع کافی ہے یہ وہ تحقیق ہے جو ہم نے بیان کی۔ تمام تعریف اللہ کی اس سے اسی کیلئے ہے، تحقیق کو یہی لائق تھا،اللہ سبحان بلند توفیق کا والی ہے،ہم نے اجراء کے مسئلہ کی جو تحقیق بیان کی ہے وہی ردالمحتار میں ہے اپنے فتاوٰی میں ہم نے بہت جگہ ذکر کیاہے۔ (ت)
رہا زید کا کہنا کہ کوئی شخص متواتر داخل ہو توپلید ہوجائے گااس کا محض غلط ہونا تو ظاہر ہے کہ جس روایت پر مستعمل پانی نجس ہے پانی ایک ہی بار سے پلید ہوجائے گااور صحیح ومعتمد مذہب پر لاکھ بار سے بھی پلید نہ ہو گا ہاں علامہ زین قاسم وعلامہ زین بن نجیم کی نظر اس میں مختلف ہوئی کہ بکثرت آدمیوں کے نہانے سے حوض صغیر کا سب پانی مستعمل ہوجائے گا یا نہیں،اول نے ثانی اور ثانی نے اول کا استظہار کیا۔
اقول: عندی الاظھر ھو الثانی (میرے نزدیک اظہر ثانی ہے۔ت) مگر اس کی بنا اُن کے اُس خیال پر ہے کہ پانی کا جو حصّہ بدن سے ملااُتنا ہی مستعمل ہوتا ہے تو ایک آدمی کے نہانے سے سارا پانی کیونکر مستعمل ہوسکتا ہے ہاں بہت سے نہائیں تو یہ شُبہ جاتاہے کہ پانی کے جتنے حصّے ان سب کے بدن سے ملے وہ باقی پانی کے برابر یااُس سے زائد ہوجائیں تو سب مستعمل ہوجائیگا مگر وہ خیال صحیح نہیں مذہب معتمد وصحیح یہی ہے جو پانی آب کثیر کی حد کو نہ پہنچاہو وہ ایک آدمی کا نہاناکیا ناخن کا ایک کنارہ بے ضرورت ڈوب جانے سے سب مستعمل ہوجاتا ہے وقد نقلوا علیہ الاجماع فی غیر ماکتاب واللّٰہ تعالی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔