مسئلہ ۳تا۷ : از اسارا ڈاکخانہ کرہٹل ضلع میرٹھ مدرسہ حفاظت اسلام مرسلہ منشی محمود علی مدرس مدرسہ مذکور۲۹ ربیع الاخر ۱۳۳۶ھ
(۱) اس زمانے میں جب کہ عام جہالت کی گھٹا پھیلی ہوئی ہے تو اس وجہ سے قرآن پاک ، حدیث شریف ، فقہ حنفیہ کا بوجہ بعض مسائل شرمناک ہونے کے مثلاً حیض ، نفاس ، جماع، طلاق، ثبوت نسب وغیرہ کے کتب بالا کا ترجمہ کرکے عوام کے روبرو اظہار کرنا کیا منع ہے ۔
(۲)کُتب فقہ جو مذہب حنفی کی درسی وغیردرسی مثلاً کنزالدقائق، شرح وقایہ، ہدایہ، درمختار، عالمگیری، شامی، قاضیخاں وغیرہ اور انکی شروح جو مشہور مدارس عربیہ میں داخل درس ہیں آیا صحیح ہیں یا فرضی؟
(۳) جو مسائل کتب مذکورہ بالا سے اخذ کرکے اردو میں کردیئے جائیں تاکہ عوام اس سے فائدہ مند ہوں تو کیا وہ قابلِ یقین و عمل نہ ہوں گے جیسے کُتب فارسی واردو مالا بدمنہ، مفتاح الجنت، بہشتی زیور وغیرہ۔
(۴) جو شخص باوجود دعوی حنفیت کرتے ہوئے کتبِ بالا سے انکار کرے اور کہے کہ ان کے مسائل فرضی ہیں ۔ حنفی مذہب کے نہیں جس کی وجہ سے ایک گروہ عظیم کا کتب بالا سے اعتقاد خراب ہوجاتا ہے ، یہ لوگ اپنے دعوٰی میں مقلد ہوں گے یا غیر مقلد ؟
(۵) اکثر لوگ بہشتی زیور کے بعض مسائل پر کہ متفرق طور سے فصل نجاست اور ثبوت نسبت وغیرہ میں ہیں ۔
اعتراض کرتے ہیں ہم نے ان کی تحقیق کتب فقہ میں کی تو شرح و قایہ، درمختار، کنزالدقائق میں پائے جاتے ہیں ایک مفتی صاحب کہتے ہیں کہ مسائل فرضی ہیں ان کا کہا کیونکر صحیح ہے؟
الجواب :
(۱) ایسے سوال میں قرآن عظیم کا شامل کرنا سُوء ادب ہے اللہ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہماری ہرحاجت کے متعلق حق و باطل ، نفع و ضرر پر ہمیں مطلع فرمایا ۔ جس طرح ہمیں نماز روزہ سکھایا یونہی جماع و استنجاء تعلیم فرمایا مگر امورِ شرم کا ذکر طرز بیان مختلف ہوجانے سے مختلف ہوجاتا ہے ۔ ایک ہی مسئلہ اگر حیاء کے پیرایہ میں بیان کیا جائے تو کنواری لڑکی کو اس کی تعلیم ہوسکتی ہے اور بے حیائی کے طور پر ہو تو کوئی مہذب آدمی مردوں کے سامنے بھی بیان نہیں کرسکتا۔ خصوصاً ترجمہ کہ وہ گویا متکلم کی طرف سے اس کی زبان کا بیان ہوتا ہے، تو نہایت ضرور ہے کہ اس کی عظمت و شان ملحوظ رہے، وہ لفظ لکھے جائیں جو اس کے کہنے کے ہوں، بعض گمراہوں نے ترجمہ قرآن مجید میں اس کا لحاظ نہ رکھا یہ سخت سوء ادب ہے ۔ غرض ایک ہی بات اختلافِ طرز بیان سے تعظیم سے توہین تک بدل جاتی ہے جیسے اوش فرمائیے، تناول فرمائیے نوشِ جان فرمایئے۔ کھاؤ، نگلو، تھورو ، زہر مار کرو اور تعظیم و توہین میں کس قدر مختلف ہیں تو صرف اتنا عذر کہ ہم نے ترجمہ کیا ہے کافی نہیں ہوسکتا جب کہ طرزِ بیان بے ہودہ ہو۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
(۲) صحیح مقابل فرضی کے لیے تو اس قدر بس ہے کہ وہ کتاب جس کی طرف نسبت کی جائے اس کی ہو اگرچہ کتنے ہی اغلاط پر مشتمل ہو، جن کتابوں کے نام سائل نے لیے ان میں کوئی فرضی نہیں، کنزسے قاضیخاں تک جتنے نام مذکور ہوئے یہ سب صحیح بمعنی معتمد بھی ہیں، مگر اعتماد کیا حاصل اس کی تفصیل ہم نے اپنے فتاوٰی میں ذکر کی ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
(۳) اگر کتبِ مذکورہ بالا سے صحیح ترجمہ کیا جائے اورطرزِ بیان بھی مقبول و محمود ہو اور اپنی طرف سے کچھ اضافہ نہ ہو تو وہ گویا انہیں کتابوں کا وجود ثانی ہوگا یقین تو اعتقادیات میں درکار ہوتا ہے اور قابلِ عمل وہ مسئلہ جو مفتی بہ ہو۔ مالا بد میں بھی زیادات ہیں اور مفتاح الجنۃ تو وہابیہ کے ہاتھ میں رہی جس میں بہت کچھ اصلاح ہوئی اور بہشتی زیور اغلاط و ضلالت و بطالت وجہالت کا مجموعہ ہے، واﷲ تعالٰی اعلم ۔
(۴) کنز سے قاضیخاں تک جتنی کتابوں کے نام لیے ان کی نسبت کوئی حنفی نہیں کہتا کہ ان کے مسائل حنفیہ کے خلاف ہیں اور فرضی ہیں، تو سوال ہی فرضی ہے، مالا بد و مفتاح الجنۃ کے بعض زیادات و الحاقات کو اگر کسی نے ایساکہا تو بیجا نہ کہا اور بہشتی زیور لا فی العیرولا فی النفیر (نہ قافلے میں نہ لشکر میں، یعنی کسی شمار میں نہیں، ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
(۵) بہشتی زیور کا حال بالاجمال اُوپر گزرا بے شک اس میں بہت مسائل باطل و ساختہ ہیں وہ کسی طرح اس قابل نہیں کہ کوئی مسلمان اسے دیکھے یا اپنے گھر میں رکھے مگر عالم جید بغرض رَدّوابطال ، مفتی صاحب کا اس پر اعتراض بجا ہے اور عوام اس کے مسائل سے جتنی بھی نفرت کریں ان کے حق میں مصلحت دینیہ ہے۔
قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : ایّاکم وایّاھم لایضلونکم و لایفتنو نکم ۔۱ اُن سے دور بھاگو اور اپنے سے دور رکھو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈالیں۔
(۱ صحیح مسلم باب النھی عن الروایۃ عن الضعفاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ / ۱۰)
علمائے کرام نے وصیت فرمائی کہ جاہل کے لکھے ہوئے مسئلہ پر تصدیق نہ کرو اگرچہ مسئلہ فی نفسہا صحیح ہو کہ اس کی تصدیق نگاہِ عوام میں وقعت کاتب کی موجب ہوگی۔ وہ یہ سمجھ لیں گے کہ یہ بھی کوئی مفتی ہے، پھر اور جو اپنی جہالت سے غلط فتوٰی لکھے گا اس پر بھی اعتبار کریں گے۔ جب جاہل کے لیے یہ حکم ہے تو چہ جائے مبتدی چہ جائے مرتد واﷲ تعالٰی اعلم۔