مسئلہ ۲۷:۲۹ رجب ۱۳۱۱ھ :کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اِس مسئلہ میں کہ ایک حوض دَہ در دَہ ہے سنّیوں میں یا شیعوں میں اور اُس میں کُتّا یا سُوئر پانی پی گیا ہو آیا اس سے وضو یا پینا چاہئے یا نہیں یا پیشاب یا پاخانہ پھر گیا ہو، پاک رہا یا نہیں۔ بینوا توجروا
الجواب: امر آب(۲) میں ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا مذہب تمام مذاہب سے زیادہ احتیاط کا ہے آب جاری تو بالاجماع نجس نہیں ہوتا جب تک نجاست سے اُس کا رنگ یا بُو یا مزہ نہ بدلے یا ایک قول پر اُس کا نصف یا اکثر نجاست مرئیہ پر ہو کر گزرے اور غیر جاری میں ہمارے ائمہ ثلٰثہ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے ظاہر الروایۃ کا محصل یہ ہے کہ اگر یہاں نجاست پڑی ہے اور ظن غالب ہو کہ اس جگہ وضو کیجئے تو اُتنی دور کا پانی فوراً زیرو زبر نہ ہونے لگے گا تو وہاں کا پانی ناپاک نہ ہوا اُس سے وضو وغیرہ سب جائز ہے۔
فی ردالمحتار قال فی البدائع والمحیط اتفقت الروایۃ عن اصحابنا المتقد مین انہ یعتبر بالتحریک وھو ان یرتفع وینخفض من ساعتہ لابعد المکث ولا یعتبر اصل الحرکۃ وفی التتار خانیۃ انہ المروی عن ائمتنا الثلثۃ فی الکتب المشہورۃ اھ وھل المعتبر حرکۃ الغسل اوالوضوء اوالید روایات ثانیہا اصح لانہ الوسط کما فی المحیط والحاوی القدسی وتمامہ فی الحلیۃ وغیرھا ۱؎ الخ
ردالمحتار میں ہے کہ بدائع اور محیط میں فرمایا کہ ہمارے اصحاب متقدمین سے یہ روایت متفق ہے کہ ہلانے کا اعتبار ہوگا، یعنی اُسی وقت پانی میں نشیب وفراز پیدا ہو نہ یہ کہ تھوڑی دیر بعد، اور اصل حرکت کا اعتبار نہ ہوگا تاتارخانیہ میں ہے کہ یہی ہمارے ائمہ ثلٰثہ سے کتب مشہورہ میں منقول ہے اھ اب اس میں اختلاف ہے کہ آیاغسل کی حرکت مراد ہے یا وضو کی یا ہاتھ کی۔ دوسری روایت اصح ہے کیونکہ وہ درمیانی ہے، جیسا کہ المحیط والحاوی القدسی میں ہے، اور مکمل بحث حلیہ وغیرہ میں ہے الخ
(۱؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۱)
وفی الدرالمختار والمعتبر اکبر رأی المبتلی بہ فان غلب علی ظنہ عدم خلوص النجاسۃ الی الجانب الاخر جاز والا لاھذہ ظاھر الروایۃ وھو الاصح کما فی الخانیۃ وغیرھا وحقق فی البحر انہ المذھب ۲؎ اھ ملخصا
اور دُرمختار میں ہے کہ جو پانی استعمال کر رہا ہے اسی کا ظن غالب معتبر ہے، اور اگر اس کا غالب گمان یہ ہے کہ پانی کے دوسرے حصے تک نجاست نہیں پہنچی ہے تو جائز ہے ورنہ نہیں، یہی ظاہر روایت ہے اور یہی اصح ہے کما فی الخانیۃ وغیرہا اور بحر میں تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ یہی مذہب ہے ا ھ ملخصا
(۲؎ الدرالمختار باب المیاہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۳۶)
پھر ائمہ متاخرین نے اسے دہ دردہ سے اندازہ فرمایا اور تیسیراً آب جاری کے حکم میں قرار دیا کہ جمیع جوانب سے وضو وغیرہ روا جب تک پانی نجاست کا اثر نہ لے لے۔
فی الدرالمختار لکن فی النھر وانت خبیر بان اعتبار العشر اضبط ولا سیمافی حق من لارأی لہ من العوام فلذا افتی بہ المتاخرون الاعلام الخ ۳؎
اور درمختار میں یہ ہے کہ ”لیکن نہر میں ہے کہ دس ہاتھ کا اعتبار مسئلہ کو زیادہ منضبط کردیتا ہے، خاص طور پر عوام کیلئے جو ذاتی رائے نہیں رکھتے ہیں اس لئے متاخرین علماء نے اسی پر فتوٰی دیا ہے،
(۳؎ الدرالمختار باب المیاہ مجتبائی دہلی ۱/۳۶)
وفی ردالمحتار ذکر بعض المحشین عن شیخ الاسلام العلامۃ سعد الدین الدیری فی رسالتہ القول الراقی انہ حقق فیھا مااختارہ اصحاب المتون من اعتبار العشرو ردفیھا علی من قال بخلافہ رداً بلیغا واورد نحو مائۃ نقل ناطقۃ بالصواب ولا یخفی ان المتاخرین الذین افتوا بالعشر کصاحب الہدایۃ وقاضی خان وغیرھما من اھل الترجیح ھم اعلم بالمذھب منا فعلینا اتباعھم ویؤیدہ ماقدمہ الشارح فی رسم المفتی واما نحن فعلینا اتباع مارجحوہ وصححوہ کمالو افتونا فی حیاتھم ۱؎ اھ
اور ردالمحتار میں بعض حاشیہ نگاروں نے شیخ الاسلام علامہ سعد الدین الدیری سے ان کے رسالہ ”القول الراقی” سے نقل کیا ہے کہ ان کی تحقیق وہی ہے جو اصحاب متون نے لکھا ہے یعنی دس ہاتھ کا اعتبار کیا جائے گا، اور جن حضرات نے اس کے برعکس لکھا ہے ان پر آپ نے ردِّ بلیغ کیا ہے، اس پر انہوں نے ایک سو نقول صحیحہ پیش کی ہیں، اور یہ ظاہر ہے کہ وہ متاخرین جنہوں نے دس۱۰ ہاتھ پر فتوٰی دیا ہے، جیسے صاحبِ ہدایہ اور قاضی خان وغیرہما اہلِ ترجیح سے ہیں، وہ ہم سے زائد مذہب کے جاننے والے ہیں، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم ان کی پیروی کریں، اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے جو شارح نے رسم المفتی میں کہا ہے کہ ”ہم لوگوں پر اس کی اتباع لازم ہے جس کو انہوں نے راجح اور صحیح قرار دیا ہے بالکل اسی طرح جس طرح وہ اپنی زندگی میں فتوٰی دیتے تو ہم پر اتباع لازم تھا۔
(۱؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۱)
وفیہ قال فی الفتح وعن ابی یوسف انہ کالجاری لایتنجس الا بالتغیر وھو الذی ینبغی تصحیحہ فینبغی عدم الفرق بین المرئیۃ وغیرھا لان ا لدلیل انما یقتضی عند الکثرۃ عدم التنجس الا بالتغیر من غیر فصل ۲؎ اھ
اور اسی میں ہے کہ فتح میں فرمایا ”اور ابو یوسف سے مروی ہے کہ یہ جاری پانی کی طرح ہے، بغیر تغیر کے ناپاک نہ ہوگا اور اس کی تصحیح کی جانی چاہئے تو نجاست مرئیہ اور غیر مرئیہ کے درمیان فرق نہ ہونا چاہئے کیونکہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ کثیر پانی سوائے تغیر کے ناپاک نہ ہو۔ اھ
(۲؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۰)
وفی مراقی الفلاح بہ اخذ مشائخ بلخ توسعۃ علی الناس والتقدیر بعشر ھو المفتی بہ ۳؎ اھ
اور مراقی الفلاح میں ہے کہ اسی پر ہمارے مشائخ بلخ نے لوگوں پر فراخی کیلئے فتوٰی دیا ہے اور دس ہاتھوں کا قول ہی مفتٰی بہ ہے۔
( ۳؎ مراقی الفلاح الطہارۃ نور محمد کراچی ص۱۶)
وفی حاشیتہ للعلامۃ الطحطاوی لافرق بین موضع الوقوع وغیرہ وبین نجاسۃ ونجاسۃ وینبغی تصحیحہ کما فی الفتح وھو المختار کما قالہ العلامۃ قاسم وعلیہ الفتوی کما فی النصاب ۴؎ اھ واللّٰہ سبحٰنہ وتعالی اعلم۔
اور اس کے حاشیہ میں علامہ طحطاوی نے لکھا کہ نجاست کے گرنے کی جگہ اور دوسری جگہ میں فرق نہیں، اسی طرح ایک نجاست اور دوسری نجاست میں فرق نہیں، اور اس کی تصحیح کی جانی چاہئے کما فی الفتح، اور یہی مختار ہے، جیسا کہ علامہ قاسم نے فرمایا وعلیہ الفتوٰی کما فی النصاب(اسی پر فتوی ہے جیسا کہ نصاب میں ہے) اھ واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔ ت(۴؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح الطہارۃ نور محمد کراچی ص۱۶)