طہارت RAZ, فتاوی رضویہ

مسئلہ نمبر 23

مسئلہ ۲۳ : ۲۷ صفر ۱۳۰۵ھ :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بقیہ آبِ وضو سے کہ برتن میں رہ جائے وضو جائز ہے یا نہیں اور اگر پہلا وضو کرنے میں کچھ پانی ہاتھ سے اُس میں گر پڑا تو کیا حکم ہے۔ بینّوا توجروا۔

الجواب :بقیہ(۱) آبِ وضو کہ برتن میں رہ جاتا ہے مائے مستعمل نہیں بلکہ وہ پانی ہے جو استعمال سے بچ رہا اُس سے وضو میں کوئی حرج نہیں اور مائے مستعمل(۲) اگر غیر مستعمل میں مل جائے تو مذہب صحیح میں اُس سے وضو جائز ہے جب تک مائے مستعمل غیر مستعمل سے زائد نہ ہوجائے اگرچہ مستعمل پانی دھار بندھ کر گراہو، اور بعض نے کہا اس صورت میں بھی مستعمل فاسد کردے گا اور وضو جائز نہ ہوگا اگرچہ غیر مستعمل زائد ہو مگر ترجیح مذہبِ اول کو ہے۔

فی فتاوی الخلاصۃ جنب اغتسل فانتقض من غسلہ شیئ فی انائہ لم یفسد علیہ الماء اما اذا کان یسیل منہ سیلانا افسدہ وکذا حوض الحمام علی ھذا وعلی قول محمّد لایفسدہ مالم یغلب علیہ یعنی لایخرجہ من الطھوریۃ ۱؎

فتاوٰی خلاصہ میں ہے اگر جُنبی شخص کے جسم سے بوقتِ غسل کچھ چھینٹے برتن میں گر گئے تو پانی ناپاک نہ ہوگا، ہاں اگر باقاعدہ بَہہ کر پانی گرا تو ناپاک ہوگا اور حمام کے حوض کا بھی یہی حکم ہے اور امام محمد کا قول ہے کہ صرف اُسی وقت ناپاک ہوگا جب وہ پاک پانی پر غالب ہوجائے

(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الطہارت ۱/۸)

وفی الدر المختار یرفع الحدث بماء مطلق لابماء مغلوب بمستعمل بالاجزاء فان المطلق اکثر من النصف جاز التطہیر بالکل والا لا علی ما حققہ فی البحر والنھر والمنح ۲؎ اھ۔ ملتقطا واللّٰہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم۔

اور دُرِّمختار میں ہے کہ مطلق پانی سے حَدَث کو زائل کرے نہ کہ اُس پانی سے جس پر مستعمل پانی غالب ہو اگر مطلق پانی آدھے سے زائد ہو تو کل سے پاکی حاصل کرنا جائز ہے ورنہ نہیں، بحر، نہر اور منح میں یہی تحقیق ہے اھ ملتقطا۔(ت)

(۲؎ الدرالمختار باب المیاہ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۳۴)

 

مسئلہ ۱۷: ۲۲/رمضان المبارک ۱۳۲۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وضو وغسل میں پانی کی کیا مقدار شرعامعین ہے ؟بینوا توجروا۔(بیان فرمائیے اجرپائیے ۔ت

مسئلہ ۲۳ : ۲۷ صفر ۱۳۰۵ھ :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بقیہ آبِ وضو سے کہ برتن میں رہ جائے وضو جائز ہے یا نہیں اور اگر پہلا وضو کرنے میں کچھ پانی ہاتھ سے اُس میں گر پڑا تو کیا حکم ہے۔ بینّوا توجروا۔

الجواب :بقیہ(۱) آبِ وضو کہ برتن میں رہ جاتا ہے مائے مستعمل نہیں بلکہ وہ پانی ہے جو استعمال سے بچ رہا اُس سے وضو میں کوئی حرج نہیں اور مائے مستعمل(۲) اگر غیر مستعمل میں مل جائے تو مذہب صحیح میں اُس سے وضو جائز ہے جب تک مائے مستعمل غیر مستعمل سے زائد نہ ہوجائے اگرچہ مستعمل پانی دھار بندھ کر گراہو، اور بعض نے کہا اس صورت میں بھی مستعمل فاسد کردے گا اور وضو جائز نہ ہوگا اگرچہ غیر مستعمل زائد ہو مگر ترجیح مذہبِ اول کو ہے۔

فی فتاوی الخلاصۃ جنب اغتسل فانتقض من غسلہ شیئ فی انائہ لم یفسد علیہ الماء اما اذا کان یسیل منہ سیلانا افسدہ وکذا حوض الحمام علی ھذا وعلی قول محمّد لایفسدہ مالم یغلب علیہ یعنی لایخرجہ من الطھوریۃ ۱؎

فتاوٰی خلاصہ میں ہے اگر جُنبی شخص کے جسم سے بوقتِ غسل کچھ چھینٹے برتن میں گر گئے تو پانی ناپاک نہ ہوگا، ہاں اگر باقاعدہ بَہہ کر پانی گرا تو ناپاک ہوگا اور حمام کے حوض کا بھی یہی حکم ہے اور امام محمد کا قول ہے کہ صرف اُسی وقت ناپاک ہوگا جب وہ پاک پانی پر غالب ہوجائے

(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الطہارت ۱/۸)

وفی الدر المختار یرفع الحدث بماء مطلق لابماء مغلوب بمستعمل بالاجزاء فان المطلق اکثر من النصف جاز التطہیر بالکل والا لا علی ما حققہ فی البحر والنھر والمنح ۲؎ اھ۔ ملتقطا واللّٰہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم۔

اور دُرِّمختار میں ہے کہ مطلق پانی سے حَدَث کو زائل کرے نہ کہ اُس پانی سے جس پر مستعمل پانی غالب ہو اگر مطلق پانی آدھے سے زائد ہو تو کل سے پاکی حاصل کرنا جائز ہے ورنہ نہیں، بحر، نہر اور منح میں یہی تحقیق ہے اھ ملتقطا۔(ت)

(۲؎ الدرالمختار باب المیاہ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۳۴)

 

الجواب
ہم قبل بیان فـــ احادیث ،صاع ومدُورطل کی مقادیربیان کریں کہ فہم معنی آسان ہو۔ صاع ایک پیمانہ ہے چارمُد کا،اور مُدکہ اُسی کو مَن بھی کہتے ہیں ہمارے نزدیک دور طل ہے اور ایک رطل شرعی یہاں کے روپے سے چھتیس ۳۶ روپے بھر کہ رطل بیس۲۰ استارہے اوراستار ساڑھے چار مثقال اور مثقال ساڑھے چار ماشے اور یہ انگریزی روپیہ سواگیارہ ماشے یعنی ڈھائی مثقال، تو رطل شرعی کہ نوے۹۰ مثقال ہوا ،ڈھائی پر تقسیم کئے سے چھتیس۳۶ آئے، توصاع کہ ہمارے نزدیک آٹھ رطل ہے ایک سو اٹھاسی۱۸۸ روپے بھر ہوا یعنی رامپور کے سیر سے کہ چھیانوے۹۶روپے بھرکا ہے پورا تین سیر، اور مُد تین پاؤ۔ اور امام ابو یوسف وائمہ ثلثہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے نزدیک صاع پانچ رطل اور ایک ثلث رطل کا ہے اور اس پر اجماع ہے کہ چار مُدکا ایک صاع ہے تو اُن کے نزدیک مُدایک رطل اور ایک ثلث رطل ہوا یعنی رامپوری سیر سے آدھ سیر اور صاع دوسیر۔ اس بحث کی زیادہ تحقیق فتاواے فقیر سے کتاب الصوم وغیرہ میں ہے۔

فــ:مثقال واستار و رطل ومدوصاع کابیان ۔

اب حدیثیں سُنئے:صحیحین میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یغتسل بالصاع الی خمسۃ امداد ویتوضأ بالمد ۱؎۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک صاع سے پانچ مُدتک پانی سے نہاتے اورایک مُدپانی سے وضو فرماتے۔

(۱؎صحیح البخاری کتاب الوضوءباب الوضوء بالمُد قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۳
صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدرالمستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۹)

صحیح مسلم ومسنداحمد و جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ وشرح معانی الآثار امام طحاوی میں حضرت سفینہ اور مسند احمد وسنن ابی داؤد وابن ماجہ وطحطاوی میں بسند صحیح حضرت جابر بن عبداللہ نیز انہیں کتب میں بطرق کثیرہ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے : کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتؤضأ بالمد ویغتسل بالصاع ۲؎۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک مُد سے وضو اور ایک صاع سے غسل فرماتے ۔

(۲؎صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدرالمستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۹
سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب مایجزئ من الماء آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۳
مسند احمد بن حنبل عن جابر ۱ /۳۰۳ وعن عائشۃ رضی اللہ عنھا ۶/ ۲۴۹ المکتب الاسلامی بیروت
شرح معانی الآثار کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۱ /۳۷۶
سنن الترمذی باب فی الوضو بالمدحدیث ۵۶ دارالفکربیروت ۱ /۱۲۲)

اکثر احادیث اسی طرف ہیں،اور انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث امام طحاوی کے یہاں یوں ہے: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ من مدفیسبغ الوضوء وعسی ان یفضل منہ الحدیث ۱؎۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک مُد سے تمام وکمال وضو وسعت وفراغت کے ساتھ فرمالیتے اور قریب تھاکہ کچھ پانی بچ بھی رہتا۔

(۱؎ شرح معافی الآثار، کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ہو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۶)

اور ابو یعلی وطبرانی وبیہقی نے ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسندِ ضعیف روایت کیا: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضأ بنصف مُد ۲؎۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نصف مُد سے وضو فرمایا۔

(۲؎ مجمع الزوائدبحوالہ الطبرانی فی الکبیر کتاب الطہارۃباب مایکفی من الماء للوضوء الخ دارالکتاب بیروت۱ /۲۱۹)

سُنن ابی داؤد ونسائی میں اُمِّ عمارہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے: ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضأ فاتی باناء فیہ ماء قدر ثلثی المد ۳؎۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمانا چاہا توایک برتن حاضر لایاگیاجس میں دوتہائی مُد کے قدرپانی تھا۔

(۳؎ سنن ابی داؤد، کتاب الطہارۃ باب مایجوزمن الماء فی الوضوء آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۳)

نسائی کے لفظ یہ ہیں:

فاتی بماء فی اناء قدر ثلثی المد ۴؎۔

ایک برتن میں کہ دو ثلث مُد کے قدر تھا پانی حاضر کیاگیا۔

(۴؎ سنن نسائی، کتاب الطہارۃ باب القدر الذی یکتفی بہ الرجل من الماء للوضو نور محمدکارخانہ کراچی ۱ /۲۴)

ابن خزیمہ وابن حبان وحاکم کی صحاح میں عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے: انہ رأی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضأ بثلث مُدعـــہ ۵؎۔

انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھاکہ ایک تہائی مُد سے وضو فرمایا۔

عــہ:ھکذا عزالھم الزرقانی فی شرح المواھب وقد احتاط فنص علی الضبط قائلا ثلث بالافراد ۲؎اھ ونقل البعض عن ابنی خزیمۃ وحبان بنحو ثلثی مُد بالتثنیۃ وان الحافظ ابن حجر قال فی الثلث لم اجدہ کذا قال واللّٰہ تعالٰی اعلم اھ منہ۔ (م)

عــہ:اسی طرح ان کے حوالے سے علامہ زُرقانی نے شرح مواہب میں ذکرکیااور براہِ احتیاط یہ کہتے ہوئے ضبطِ لفظ کی صراحت کردی کہ ثُلث بصیغہ واحدہے اھ۔ اور بعض نے ابن خزیمہ وابن حبان سے بصیغہ تثنیہ ”بنحوثلثی مد”(تقریباً دو تہائی مد) نقل کیا۔ اور یہ کہ حافظ ابن حجر نے لفظ”ثُلُث” سے متعلق کہا کہ میں نے اسے نہ پایا۔ انہوں نے ایسا ہی لکھا ہے ۔واللہ تعالٰی اعلم۱۲ منہ(ت)

(۲؎شرح الزرقانی علی المواھب ا للدنیہ المقصد التاسع الفصل الاول دارالمعرفۃ بیروت ۷ /۲۵۱
۵؎ المستدرک للحاکم، کتاب الطہارۃ مایجزی من الماء للوضوء مطبوعہ دالفکربیروت ۱ /۱۶۱
صحیح ابن خزیمہ کتاب الطہارۃ باب الرخصۃ فی الوضوء الخ حدیث ۱۱۸ المکتب الاسلامی بیروت ۱/۶۲
موارد الظمأن باب ماجاء فی الوضو حدیث ۱۵۵ المطبعۃ السلفیۃ ص۶۷)

اقول احادیث سے ثابت ہے کہ وضو میں عادت کریمہ تثلیث تھی یعنی ہر عضو تین بار دھونا،اور کبھی دو دو بار بھی اعضاء دھوئے۔

رواہ البخاری عن عبداللّٰہ بن زید وابو داؤد والترمذی وصححہ وابن حبان عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضاء مرتین مرتین ۱؎۔

اسے امام بخاری نے عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔اورابوداؤد نے اور ترمذی نے بافادہ تصحیح،اورابن حبان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی کہ نبی نے وضومیں دودوبار اعضاء دھوئے۔(ت)

(۱؎ صحیح البخاری کتاب الوضوباب الوضوء مرتین قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۷
سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب الوضومرتین آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۸
سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضو مرتین مرتین حدیث ۴۳ دارالفکربیروت ۱ /۱۱۳
مواردالظمأن کتاب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضو مرتین مرتین حدیث ۱۵۷ المطبعۃ السلفیۃ ص۶۷)

رواہ البخاری والدارمی وابو داؤد والنسائی والطحاوی وابن خزیمۃ عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال توضأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مرۃ مرۃ ۱؎۔

اسے بخاری،دارمی،ابوداؤد،نسائی، طحاوی اور ابن خزیمہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیا،انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وضو میں ایک ایک بار اعضاء دھوئے۔

(۱؎ صحیح البخاری کتاب الوضوباب الوضوء مرتین قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۷
سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب الوضومرتین آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۸
سنن النسائی کتاب الطہارۃ باب الوضومرۃ مرۃ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۲۵
سنن الدارمی کتاب الطہارۃ باب الوضومرۃ مرۃ حدیث ۲۔۷ دارالمحاسن للطباعۃ القاہرۃ ۱/ ۱۴۳
شرح معانی الآثار کتاب الطہارۃ باب الوضوللصلوۃ مرۃ مرۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۸
صحیح ابن خزیمہ کتاب الوضوباب اباحۃ الوضومرۃ مرۃ حدیث ۱۷۱ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۸۸ )

وبمثلہ رواہ الطحاوی عن عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما وروی ایضا عن امیر المؤمنین عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضا مرۃ مرۃ۲؎

اور اسی کے مثل امام طحاوی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے بھی روایت کی۔اور امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی روایت کی کہ انہوں نے فرمایا میں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک بار اعضادھوئے۔

(۲؎ معانی الآثار، کتاب الطہارۃ باب الوضو للصلوٰۃ مرۃ مرۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۸)

وعن ابی رافع رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضا ثلثا ثلثا ورأیتہ غسل مرۃ مرۃ ۳؎۔

اورحضرت ابو رافع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایا میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تین تین بار اعضائے وضو دھوئے اور یہ بھی دیکھا کہ سرکار نے ایک ایک بار دھویا۔(ت)

(۳؎ معانی الآثار کتاب الطہارۃ باب الوضو للصلوٰۃ مرۃ مرۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۸)

غالبا جب ایک ایک بار اعضائے کریمہ دھوئے تہائی مد پانی خرچ ہوا ، اور دودو بار میں دو تہائی ،اور تین تین بار دھونے میں پورا مد خرچ ہوتا تھا ۔

فان قلت لیس فی حدیث ام عمارۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا انہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضأ بثلثی مد انما فیہ اتی بماءفی اناء قدر ثلثی مد۔

اگریہ سوال ہوکہ حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دو تہائی مد سے وضو کیا اس میں صرف اتنا ہے کہ حضورکے پاس ایک برتن حاضر لایاگیاجس میں دوتہائی مُد کی مقدارمیں پانی تھا۔

قلت لیس غرضہا منہ الا بیان قدر ماتوضأ بہ والاکان ذکر قدر الماء اوالاناء فضلا لاطائل تحتہ علی انہا لم تذکر طلبہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم زیادۃ فافاد فحواہ انہ اجتزأ بہ ولعل ھذا ھو الباعث للعلامۃ الزرقانی اذ یقول فی شرح المواھب لابی داؤد عن امّ عمارۃ انہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضأ بثلثی مد ۱؎ اھ والا فلفظ ابی داؤد ماقد سقتہ لک۔

قلت(تو میں جواب دوں گا)اس سے ان صحابیہ کامقصود یہی بتانا ہے کہ جتنے پانی سے حضورنے وضو فرمایا اس کی مقدار کیاتھی،اگریہ نہ ہو تو پانی کی مقدار یابرتن کا تذکرہ بے فائدہ و فضول ٹھہر ے گا۔علاوہ ازیں انہوں نے یہ ذکرنہ کیاکہ حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مزید طلب فرمایا تو مضمون حدیث سے مستفادہو کہ اتنی ہی مقدارپرسرکارنے اکتفاء کی۔شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ زُرقانی نے شرح مواہب میں فرمایا کہ اُمّ ِ عمارہ سے ابوداؤد کی روایت میں یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دوتہائی مُد سے وضو فرمایااھ-کیونکہ ابوداؤد کے الفاظ تو وہی ہیں جو میں نے پیش کئے(کہ سرکار نے وضو فرمانا چاہا توایک برتن حاضر لایا گیاجس میں دوتہائی مُد کے قدر پانی تھا)۔

(۱؎ شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ المقصدالتاسع الفصل الاول دارالمعرفۃبیروت ۷ /۲۵۱)

بالجملہ وضو میں کم سے کم تہائی عــہ مُد اور زیادہ سے زیادہ ایک مُد کی حدیثیں آئی ہیں اور حدیث ربیع بنت معوّذ بن عفراء رضی اللہ تعالٰی عنہا: وضأت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی اناء نحو من ھذا الاناء وھی تشیر الی رکوۃ تاخذ مدا او مدا و ثلثارواہ سعید بن منصور فی سننہ وفی لفظ لبعضھم یکون مدا اومدا و ربعا ۱؎ واصل الحدیث عنہا فی السنن الاربعۃ۔

انہوں نے ایک برتن کی طرف جس میں ایک مُد یا ایک مُد اور تہائی مد پانی آتا،اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اسی طرح کے ایک برتن سے وضو کرایا۔ یہ حدیث سعید بن منصورنے اپنی سنن میں روایت کی- اور بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ اس میں ایک مُد یا سوا مُد پانی ہوگا۔اورحضرت ربیع سے اصل حدیث سُنن اربعہ میں مروی ہے۔(ت)

عـــہ:ایک حدیث موقوف میں چہارم مد بھی آیاہے کماسیأتی۱۲منہ

(۱؎ کنزالعمال بحوالہ ص حدیث ۲۶۸۳۷ و ۲۶۸۳۸ موسسۃالرسالہ بیروت ۹ /۴۳۲ و ۴۳۳)

یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اُس برتن سے وضو فرمایا جس میں ایک مُد یا سوا مُد، اور دوسری روایت میں ہے کہ ایک مد یا ایک مُد اور تہائی مُد پانی تھا، تو یہ مشکوک ہے اور شک سے زیادت ثابت نہیں ہوتی۔ ہاں صحیحین وسنن ابی داؤد ونسائی و طحاوی میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایک حدیث یوں ہے: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتوضأ بمکوک ویغتسل بخمسۃ مکاکی ۲؎۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکوک سے وضو اور پانچ سے غسل فرماتے۔

(۲؎ صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدرالمستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۹
سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب مایجزئ من الماء آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۳
سنن النسائی کتاب الطہاۃباب القدرالذی یکتفی بہ الرجل من الماء للوضو نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۲۴
شرح معانی الآثار کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ہو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۷)

مکّوک فــ میں کیلہ ہے اور کیلہ نصف صاع تو مکوک ڈیڑھ صاع ہوا کما فی الصحاح والقاموس وغیرھما فی اقاویل اخر اور ایک صاع کو بھی کہتے ہیں بعض علماء نے حدیث میں یہی مراد لی تو وضو کیلئے چار مُد ہوجائیں گے مگر راجح یہ ہے کہ یہاں مکّوک سے مُد مراد ہے جیسا کہ خود اُنھی کی دیگر روایات میں تصریح ہے والروایات تفسر بعضھا بعضا(اور روایات میں ایک کی تفسیردوسری سے ہوتی ہے ۔ت)۔

فـــ:فائدہ مکوک اورکیلہ کابیان

امام طحاوی نے فرمایا: احتمل ان یکون اراد بالمکوک المد لانھم کانوا یسمون المد مکوکا ۱؎۔

یہ احتمال ہے کہ انہوں نے مکّوک سے مُدمرادلیاہواس لئے کہ وہ حضرات مُد کو مکّوک کہاکرتے تھے(ت)

(۱؎ شرح معانی الآثار کتاب الزکوۃباب وزن الصاع کم ہو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/ ۳۷۷)

نہایہ ابن اثیر جزری میں ہے: اراد بالمکّوک المد وقیل الصاع والاول اشبہ لانہ جاء فی حدیث اخر مفسرا بالمُد والمکوک اسم للمکیال ویختلف مقدارہ باختلاف اصطلاح الناس علیہ فی البلاد ۲؎۔

انہوں نے مکّوک سے مُد مرادلیا۔اورکہاگیاکہ صاع مراد لیا۔اور اول مناسب ہے اس لئے کہ دُوسری حدیث میں اس کی تفسیر”مُد”سے آئی ہے ۔ اور مکّوک ایک پیمانے کانام ہے۔اس کی مقدار مختلف بلاد میں لوگوں کے عرف کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔(ت)

(۲؎ النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر باب المیم مع الکاف تحت اللفظ مکلک دارالکتب العلمیہ بیروت ۴ /۲۹۸)

رہا غسل، اُس میں کمی کی جانب یہ حدیث ہے کہ صحیح مسلم میں اُم المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے: انھا کانت تغتسل ھی والنبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی اناء واحد یسع ثلثۃ امداد اوقریبا من ذلک ۳؎۔

وہ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک برتن میں کہ تین مُد یااس کے قریب کی گنجائش رکھتا نہالیتے۔

(۳؎ صحیح مسلم کتاب الزکوۃباب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸)

اس کے ایک معنی یہ ہوتے ہیں کہ دونوں کا غسل اُسی تین مُد پانی سے ہوجاتا تو ایک غسل کو ڈیڑھ ہی مُد رہا مگر علماء نے اسے بعید جان کر تین توجیہیں فرمائیں:
اوّل یہ کہ یہ ہر ایک کے جُداگانہ غسل کا بیان ہے کہ حضور اُسی ایک برتن سے جو تین مُد کی قدر تھا غسل فرمالیتے اور اسی طرح میں بھی ،ذکرہ الامام القاضی عیاض(یہ توجیہ امام قاضی عیاض نے ذکرفرمائی ۔ت)

فان قلت : فعلی ھذا یضیع قولھا فی اناء واحد فانما قصدھا بہ افادۃ اجتماعہا معہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی الغسل من اناء واحد کما افصحت بہ فی الروایۃ الاخری کنت اغتسل فــ انا ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من اناء واحد تختلف ایدینا فیہ من الجنابۃ رواہ الشیخان ۱؎؎ ،وفی اخری لمسلم من اناء بینی وبینہ واحد فیبادرنی حتی اقول دع لی ۲؎ ۔ وللنسائی من اناء واحد یبادرنی وابادرہ حتی یقول دعی لی وانا اقول دع لی ۳؎ ۔

اگر یہ سوال ہوکہ پھر توان کا”ایک برتن میں”کہنابے کار ہوجاتاہے کہ اس لفظ سے ان کا مقصد یہی بتاناہے کہ وہ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ ایک برتن سے غسل کرتی تھیں، جیساکہ دوسری روایت میں اسے صاف طورپربیان کیا ہے :میں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسلِ جنابت کیا کرتے اس میں ہمارے ہاتھ باری باری آتے جاتے-اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا۔اورمسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے:ایک ہی برتن سے جو میرے اور ان کے درمیان ہوتا تو مجھ پر سبقت فرماتے یہاں کہ میں عرض کرتی میرے لیے بھی رہنے دیجئے اورنسائی کی روایت میں یہ ہے :ایک ہی برتن سے ،وہ مجھ سے سبقت فرماتے اور میں ان سے سبقت کرتی،یہاں تک کہ حضور فرماتے:میرے لئے بھی رہنے دو۔اور میں عرض کرتی:میرے لئے بھی رہنے دیجئے۔(ت)

فـــ:مسئلہ جائز ہے کہ زن وشوہردونوں ایک برتن سے ایک ساتھ غسل جنابت کریں اگرچہ باہم سترنہ ہو اور اس وقت متعلق ضرورت غسل بات بھی کرسکتے ہیں مثلا ایک سبقت کرے تودوسراکہے میرے لیے پانی رہنے دو۔

(۱؎صحیح البخاری کتا ب الغسل،باب ھل یدخل یدہ فی الاناء… الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۰
صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدرالمستحب من الماء… الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸
۲؎صحیح مسلم کتاب الحیض،باب القدرالمستحب من الماء… الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸
۳؎ سنن النسائی کتاب الطہارۃ، باب الرخصۃ فی ذالک نورمحمد کار خانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۴۷ )

قلت لایلزم ان لاترید بھذا اللفظ کلما تکلمت بہ الا ھذہ الافادۃ ،فقد ترید ھھنا ان ذلک الاناء الواحد کان یکفیہ اذا اغتسل ولا یطلب زیادۃ ماء وکذلک انا اذا اغتسلت۔

میں جواب دوں گا ضروری نہیں کہ جب بھی وہ یہ لفظ بولیں توانہیں یہی بتانامقصودہو،یہاں اُن کا مقصد یہ بتانا ہے کہ وہی ایک برتن جب حضورغسل فرماتے تو ان کے لئے کافی ہوجاتا اور مزیدپانی طلب نہ فرماتے اوریہی حال میرا ہوتاجب میں نہاتی۔

دوم یہاں مُد سے صاع مراد ہے۔

قالہ ایضا صرفا لہ الی وفاق حدیث الفرق الاتی فانہ ثلثۃ اٰصع واقرہ النووی۔

یہ توجیہ بھی امام قاضی عیاض ہی نے پیش کی تاکہ اس میں اور اگلی حدیث فرق میں مطابقت ہوجائے کیوں کہ فرق تین صاع کا ہوتا ہے ۔امام نووی نے بھی اس توجیہ کوبرقرار رکھا۔

اقول:یہ اس فــ کا محتاج ہے کہ مُد بمعنی صاع زبان عرب میں آتا ہو اور اس میں سخت تامل ہے،صحاح وصراح و مختار وقاموس وتاج العروس لغات عرب ومجمع البحار ونہایہ ومختصر سیوطی لغاتِ حدیث وطلبۃ الطلبہ ومصباح المنیر لغاتِ فقہ میں فقیر نے اس کا پتا نہ پایا اور بالفرض کہیں شاذونادر ورود ہو بھی تو اُس پر حمل تجوز بے قرینہ سے کچھ بہتر نہیں۔

فــ:تطفل علی القاضی عیاض والامام النووی ۔

اما جعل امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز المد بثلثۃ امداد فحادث لایحمل علیہ کلام ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما۔
لیکن یہ کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک مدتین مد کے برابر بنایاتویہ بعدکی بات ہے ،اس پر حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہا کا کلام محمول نہیں ہوسکتا۔(ت)

سوم یہ کہ حدیث میں زیادہ کا انکار نہیں حضور وامّ المومنین معاً تین مُد سے نہائے ہوں اور جب پانی ختم ہوچکا اور زیادہ فرمالیا ہو،

ابداہ الامام النووی حیث قال یجوزا ن یکون وقع ھذا فی بعض الاحوال وزاداہ لما فرغ ۱؎۔

یہ توجیہ امام نووی نے پیش کی ان کے الفاظ یہ ہیں:ہوسکتاہے یہ ایک وقت(مثلاً غسل شروع کرتے وقت)ہو اہو اور جب پانی ختم ہوگیاتودونوں حضرات نے اور لے لیا ہو۔(ت)

(۱؎ شرح صحیح مسلم للنووی مع صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸)

اقول:یہ بھی بعید فــ۱ہے کہ اس تقدیر پر ذکر مقدار عبث وبیکار ہوا جاتا ہے تو قریب تر وہی توجیہ اول ہے۔

فــ۱:تطفل آخرعلی الامام النووی ۔

وانا اقول : لوحمل علی الاشتراک لم یمتنع فقد قدمنا روایۃ انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضأ بنصف مُد وروی عن الامام محمد رحمہ اللّٰہ تعالی انہ قال ان المغتسل لایمکن ان یعم جسدہ باقل من مد ذکرہ العینی فی العمدۃ ۲؎ فافاد امکان تعمیم الجسد بمد فکان المجموع مدا ونصفا واللّٰہ تعالی اعلم۔

اورمیں کہتاہوں:اگر شرکت پرمحمول کرلیاجائے توبھی(اتنی مقدارسے دونوں حضرات کا غسل) محال نہیں،کیوں کہ یہ روایت ہم پیش کرچکے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے آدھے مُد سے وضو فرمایا۔اورامام محمد رحمہ اللہ تعالٰی سے مروی ہے کہ ایک مُد سے کم پانی ہو توغسل کرنے والاپُورے بدن پر نہیں پہنچا سکتا۔اسے علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں ذکرکیا۔اس کلام سے مستفادہوا کہ ایک مُد ہو تو پورے بدن پر پہنچایا جاسکتاہے توکل ڈیڑھ مُد ہوا(آدھے سے وضو،باقی سے اورتمام بدن-اس طرح تین مُد سے دو کا غسل ممکن ہوا ۱۲ م) واللہ تعالٰی اعلم(ت)

(۲؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الوضوباب الوضوء بالمد تحت الحدیث ۶۴ /۲۰۱ دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۱۴۱)

اور جانب زیادت میں اس قول کی تضعیف تو اوپر گزری کہ مکّوک سے صاع مراد ہے جس سے غسل کیلئے پانچ صاع ہوجائیں۔ہاں موطائے مالک وصحیح مسلم وسنن ابی داؤد میں امّ المؤمنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کان یغتسل من اناء واحد ھو الفرق من الجنابۃ ۱؎۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک برتن سے غسل جنابت فرماتے تھے اور وہ فَرَق تھا۔

(۱؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ ،باب المقدا رالماء الذی یجزئ بہ الغسل آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۱)

فرق فـــ میں اختلاف ہے ، اکثر تین(۳) صاع کہتے ہیں اوربعض دو(۲)صاع۔

فــ:تطفل علی الام القاضی عیاض ۔

ففی الحدیث عند مسلم قال سفٰین والفرق ثلثۃ اصع۲؎ وکذلک ھو نص الامام الطحاوی وقال النووی کذا قالہ الجماھیر۳؎ اھ قال العینی وقیل صاعان۴؎ وقال الامام نجم الدین النسفی فی طلبۃ الطلبۃ ھو اناء یاخذ ستۃ عشر رطلا ۶؎ اھ وھکذا فی نھایۃ ابن الاثیروصحاح الجوھری وکذا نقلہ فی الطلبۃ عن القتبی ونقل عن شرح الغریبین انہ اثنا عشر مدا ۶؎ اھ وقال ابو داؤد سمعت احمد بن حنبل یقول الفرق ستۃ عشر رطلا ۷؎

اس حدیث کے تحت امام مسلم کی روایت میں ہے کہ سفیان نے فرمایا فرق تین صاع ہوتاہے-یہی تصریح امام طحاوی نے فرمائی-اور امام نووی نے فرمایا یہی جمہور کا قول ہے اھ-علامہ عینی نے لکھا:اورکہاگیاکہ دوصاع اھ-امام نجم الدین نسفی نے طلبۃ الطلبہ میں لکھا:یہ ایک برتن ہے جس میں سولہ رطل آتے ہیں اھ-ایسے ہی نہایہ ابن اثیراورصحاع جوھری میں ہے ،اور اسی طر ح اس کو طلبۃ الطلبہ میں قتبی سے نقل کیا ہے، اور شرح غریبین سے نقل کیا ہے کہ یہ بارہ مُد ہوتا ہے اھ-اور ابو داؤد نے کہا:میں نے امام احمد بن حنبل سے سُناکہ فرق سولہ رطل کاہوتاہے۔

(۲؎ صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸
۳؎ شرح مسلم للنووی مع صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸
۴؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الغسل،باب غسل الرجل مع امرأتہ تحت الحدیث۳ /۲۵۰ ۳ /۲۹۰
۵؎ طلبۃ الطلبۃ کتاب الزکوٰۃ دائرۃ المعارف الاسلامیۃ مکران بلوچستان ص۱۹
۶؎ طلبۃ الطلبۃ کتاب الزکوٰۃ دائرۃ المعارف الاسلامیۃ مکران بلوچستان ص۱۹
۷؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ،باب مقدارالماء الذی یجزئ بہ الغسل آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۱)

ونقل الحافظ فی الفتح عن ابی عبداللّٰہ الاتفاق علیہ وعلی انہ ثلثۃ اٰصع قال لعلہ یرید اتفاق اھل اللغۃ ۱؎ اھ

اورحافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ابوعبد اللہ سے اس پر اور اس پر کہ وہ تین صاع ہوتا ہے اتفاق نقل کیا اور کہاشاید ان کی مراد یہ ہے کہ اہلِ لغت کا اتفاق ہے اھ۔

(۱؎ فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب الغسل تحت الحدیث۲۵۰ دارالکتب العلمیہ ۲ /۳۲۶)

اقول ویترا أی لی ان لاخلف فان ستۃ عشر رطلا صاعان بالعراق وثلثۃ اصوع بالحجاز۔

اقول:اورمیرا خیال ہے کہ ان اقوال میں کوئی اختلاف نہیں ا س لئے کہ سولہ رطل دوصاع عراقی اورتین صاع حجازی کے برابر ہوتاہے۔(ت)

امام نووی اس حدیث سے یہ جواب دیتے ہیں کہ پورے فَرَق سے تنہا حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا غسل فرمانا مراد نہیں کہ یہی حدیث صحیح بخاری میں یوں ہے: کنت اغتسل انا والنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من اناء واحد من قدح یقال لہ الفرق۲؎ ۔

میں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک برتن سے نہاتے وہ ایک قدح تھا جسے فَرَق کہتے۔

(۲؎ صحیح البخاری کتاب الغسل تحت الحدیث ۲۵۰ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۹)

اقول:یہ لفظ فــ اجتماع میں نص نہیں،

فــ:تطفل ثالث علی الامام النووی ۔

کما قدمنا فلا ینبغی الجزم بان الافراد غیر مراد بل لقائل ان یقول مخرج الحدیث الزھری عن عروۃ عن عائشۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فروی عن الزھری مالک ومن طریقہ مسلم وابو داؤد باللفظ الاول۳؎

جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا- تواس پرجزم نہیں کرناچاہئے کہ تنہاغسل فرمانا مراد نہیں-بلکہ کہنے والایہ بھی کہہ سکتاہے کہ اس حدیث کے راوی امام زہری ہیں جنہوں نے حضرت عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی-پھرامام زہری سے امام مالک نے اور ان ہی کی سند سے امام مسلم اور ابو داؤد نے پہلے الفاظ میں روایت کی (کان یغتسل من اناء واحد ھو الفرق)،

(۳؎ مؤطا امام مالک کتاب الطہارۃ،العمل فی غسل الجنابۃ میر محمد کتب خانہ کراچی ص۳۱
صحیح مسلم کتاب الحیض،باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸
سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ،باب مقدار الماء الذی یجزئ بہ الغسل آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۱)

وابن ابی ذئب عند البخاری والطحاوی باللفظ الثانی۱؎ تابعہ معمر و ابن جریج عند النسائی۲؎ وجعفر بن برقان عند الطحاوی۳؎ وروی عنہ اللیث عند النسائی وسفٰین بن عیینۃ عندہ وعند مسلم بلفظ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یغتسل فی القدح وھو الفرق وکنت اغتسل انا وھو فی الاناء الواحد ولفظ سفٰین من اناء واحد۴؎ فیشبہ ان تکون ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا اتت بحدیثین اغتسالہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من الفرق واغتسالھما من اناء واحد فاقتصر منھما مالک علی الحدیث الاول وجمع بینہما ابن ابی ذئب ومتابعوہ واتی بھما سفیان واللیث مفصلین واللّٰہ تعالی اعلم۔

اور امام بخاری وامام طحاوی کی روایت میں امام زہری سے ابن ابی ذئب نے بلفظ دوم روایت کی(کنت اغتسل اناوالنبی الخ) ابن ابی ذئب کی متابعت امام نسائی کی روایت میں معمراورابن جریج نے ،اورامام طحاوی کی ایک روایت میں جعفر بن برقان نے کی-اورنسائی کی تخریج پر امام زہری سے امام لیث نے اور نسائی ومسلم کی تخریج میں ان سے امام سفٰین بن عیینہ نے ان الفاظ سے روایت کی:رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک قدح میں غسل فرماتے اور وہ فرق ہے – اور میں اور حضور ایک برتن میں غسل کرتے-امام سفٰین کے الفاظ ہیں:”ایک برتن سے ” غسل کرتے-توایسا معلوم ہوتاہے کہ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا نے دو حدیثیں روایت کیں ایک حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فرق سے غسل فرمانے سے متعلق اور ایک دونوں حضرات کے ایک برتن سے غسل فرمانے سے متعلق-توامام مالک نے دونوں حدیثوں میں سے صرف پہلی حدیث ذکر کی۔اورابن ذئب اور ان کی متابعت کرنے والے حضرات (معمر،ابن جریج)نے دونوں حدیثوں کو ملادیا۔ اورسفیان و لیث نے دونوںکوالگ الگ بیان کیا-اورخدائے برتر ہی کو خوب علم ہے۔(ت)

(۱؎شرح معانی الآثار کتاب الزکوٰۃ،باب وزن الصاع کم ھو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۶
۲؎ سنن النسائی کتاب الطہارۃ،باب ذکر الدلالۃ علی انہ لا وقت فی ذلک نور محمد کارخانہ کراچی ۱ /۴۷
۳؎؎شرح معانی الآثار کتاب الزکوٰۃ،باب وزن الصاع کم ھو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۶
۴؎صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸)

امام طحطاوی فرماتے ہیں:حدیث میں صرف برتن کا ذکر ہے کہ اس ظرف سے بہاتے بھرا ہونا نہ ہونا مذکور نہیں۔
اقول: صرف فــ برتن کا ذکر قلیل الجدوی ہے اس سے ظاہر مفاد وہی مقدار آب کا ارشاد ہے خصوصاً حدیث لیث وسفیان میں لفظ فی سے تعبیر کہ ایک قدح میں غسل فرماتے : اذمن المعلوم ان لیس المراد الظرفیۃ (اس لئے کہ معلوم ہے کہ ظرفیت (قدح کے اندر غسل کرنا)مراد نہیں۔ت) اور حدیث مالک میں لفظ واحد کی زیادت اذ من المعلوم ان لیس المراد نفی الغسل من غیرہ قط (کیونکہ معلوم ہے کہ یہ مراد نہیں کہ اس کے علاوہ کسی برتن سے کبھی غسل نہ کیا ) بہرحال اس قدر ضرور ہے کہ حدیث اس معنی میں نص صریح نہیں زیادت کا صریح نص اُسی قدر ہے جو حدیث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ میں گزرا کہ پانچ مُد سے غسل فرماتے اور پھر بھی اکثر و اشہر وہی وضو میں ایک مُد اور غسل میں ایک صاع ہے، اور احادیث کے ارشادات قولیہ تو خاص اسی طرف ہیں ۔

فـــ:تطفل ما علی الامام السید الاجل الطحاوی۔

امام احمدعــہ و ابوبکر بن ابی شیبہ و عبد بن حمید واثرم وحاکم وبیہقی جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

یجزئ من الغسل الصاع ومن الوضوء المد ۱؎۔

غسل میں ایک صاع اور وضو میں ایک مُد کفایت کرتاہے۔

(۱؎ المستدرک للحاکم کتاب الطہارۃ،مایجزئ من الماء للوضوء…الخ دارالفکر بیروت ۱ /۱۶۱
السنن الکبری کتاب الطہارۃ،باب استحباب ان لا ینقص فی الوضوء… دار صادر بیروت ۱ /۱۹۵
مسند احمد بن حنبل عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۳۷۰
المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الطہارات،باب فی الجنب کم یکفیہ…الخ حدیث۷۰۸ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱ /۶۶)

عـــہ:زعم شیخ الوھابیۃ الشوکانی ان الحدیث اخرجہ ایضا ابو داؤد وابن ماجۃ بنحوہ اقول کذب فــ۱ علی ابی داؤد و اخطأ فــ۲ علی ابن ماجۃ فان ابا داؤد لم یخرجہ اصلا انما عندہ عن جابر کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یغتسل بالصاع و یتوضأ بالمد۳؎ و ابن ماجہ لم یخرجہ عن جابر بن عبد اللّہ بل عن عبد اللّہ بن محمد بن عقیل بن ابی طالب رضی اللّہ عنہم اھ منہ۔

عـــہ : پیشوائے وہابیہ شوکانی کا زعم ہے کہ اس حدیث کو ابوداؤد نے بھی روایت کیا اور اس کے ہم معنی ابن ماجہ نے بھی اقول:اس نے ابوداؤد کی طرف تو جھوٹا انتساب کیا اور ابن ماجہ کی طرف نسبت میں خطا کی-اس لئے کہ ابوداؤد نے سرے سے اسے روایت ہی نہ کیا اس کی روایت حضرت جابر سے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک صاع سے غسل فرماتے اور ایک سے وضو فرماتے اور ابن ماجہ نے یہ حدیث حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت نہ کی بلکہ عبداللہ بن محمد بن عقیل بن ابوطالب سے روایت کی رضی اللہ تعالٰی عنہم۔

فــ۱:رد علی الشوکانی۔
فــ۲:رد اخر علیہ۔

(۳؎سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ،باب ما یجزئ من الماء فی الوضوء آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۳)

ابنِ ماجہ سُنن میں حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: یجزئ من الوضوء مد و من الغسل صاع ۲؎۔

وضو میں ایک مُد، غسل میں ایک صاع کافی ہے۔

(۲؎ سنن ابن ماجہ ابواب الطہارات،باب ماجاء فی مقدار الماء…الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۴)

طبرانی معجم اوسط میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: فذکر مثل حدیث عقیل غیرانہ قال فی مکان من فی الموضعین ۳؎۔

اس کے بعدحدیث عقیل ہی کے مثل ذکر کیافرق یہ ہے کہ دونوں جگہ”من” کے بجائے ”فی” کہا۔(ت)

(۱؎ المعجم الاوسط حدیث ۷۵۵۱ مکتبۃ المعارف ریاض ۸ /۲۷۳)

امام احمدعــہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

یکفی احدکم مدمن الوضوء ۲؎۔

تم میں سے ایک شخص کے وضو کوایک مُد بہت ہے۔

(۲؎ مسند احمدبن حنبل عن انس رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۲۶۴)

عــہ وعزاہ الامام الجلیل فی الجامع الصغیرلجامع الترمذی بلفظ یجزئ فی الوضوء رطلان من ماء ۴؎قال المناوی واسنادہ ضعیف ۵؎اھ لکن العبدالضعیف لم یرہ فی ابواب الطھارۃ من الجامع فاللّٰہ تعالی اعلم اھ منہ غفرلہ (م)

یہ حدیث امام جلال الدین سیوطی نے جامع ترمذی کے حوالے سے ان الفاظ سے جامع صغیرمیں ذکرکی ہے: وضو میں دو رطل پانی کافی ہے۔ علامہ مناوی نے کہا اس کی سند ضعیف ہے اھ۔ لیکن میں نے جامع ترمذی کے ابواب الطہارۃ میں یہ حدیث نہ پائی، فاللہ تعالٰی اعلم ۱۲منہ(ت)

(۴؎الجامع الصغیربحوالہ ت حدیث۹۹۹۷ دارلکتب العلمیہ بیروت ۲ /۵۸۹
۵؎التیسیر شرح الجامع ا لصغیر تحت الحدیث یجزئ فی الوضوالخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۵۰۷)

ابو نعیم معرفۃ الصحابہ میں ام سعد بنت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہماسے راوی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : الوضوء مدوالغسل صاع ۳؎۔ وضو ایک مُد اور غسل ایک صاع ہے۔

(۳؎تلخیص الحبیرفی تخریج احادیث الرافعی الکبیر کتاب الطہارۃ حدیث ۱۹۴باب الغسل دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۳۸۶)

اقول اب یہاں چند امر تنقیح طلب ہیں:

امر اوّل : صاع اور مُد باعتبار وزن مراد ہیں یعنی دو اور آٹھ رطل وزن کا پانی ہوکہ رامپور کے سیر سے وضو میں تین پاؤ اور غسل میں تین سیر پانی ہوا اور امام ابو یوسف وائمہ ثلثہ کے طور پر وضو میں آدھ سیر اور غسل میں دو سیر اور جانب کمی وضو میں پونے تین چھٹانک سے بھی کم اور غسل میں ڈیڑھ ہی سیر یا بااعتبار کیل وپیمانہ یعنی اتنا پانی کہ ناج کے پیمانہ مد یاصاع کوبھردے ظاہرہے کہ پانی ناج سے بھاری ہے توپیمانہ بھرپانی اس پیمانے کے رطلوں سے وزن میں زائد ہوگا کلمات فـــ ائمہ میں معنی دوم کی تصریح ہے اور اسی طرف بعض روایات احادیث ناظر۔

فـــ:تطفل علی العلامۃعلی قاری ۔

امام عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں: باب الغسل بالصاع ای بالماء قدرملء الصاع ۱؎۔

باب الغسل بالصاع یعنی اتنے پانی سے غسل جس سے صاع بھر جائے۔(ت)

(۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۲۹۱)

امام ابن حجر عسقلانی فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیںـ: المراد من الروایتین ان الاغتسال وقع بملء الصاع من الماء ۲؎۔

دونوں روایتوں سے مراد یہ ہے کہ غسل پانی کی اتنی مقدار سے ہوا جس سے صاع بھر جائے (ت)

(۲؎ فتح الباری،شرح صحیح البخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع تحت الحدیث ۲۵۱دارالکتب العلمیہ بیروت ۲ /۳۲۷)

امام احمد قسطلانی ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں: ای بالماء الذی ھو قدر ملء الصاع ۳؎۔

یعنی اتنے پانی سے غسل جو صاع بھرنے کے بقدرہو۔(ت)

(۳؎ارشادالساری شرح صحیح البخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع تحت الحدیث ۲۵۱دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۴۹۰)

نیز عمدۃ القاری میں حدیث طحاوی مجاہد سے بایں الفاظ ذکر کی: قال دخلنا علی عائشۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فاستسقی بعضنا فاتی بعس قالت عائشۃ کان النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یغتسل بملء ھذا قال مجاھد فحررتہ فیما احزر ثمانیۃ ارطال تسعۃ ارطال عشرۃ ارطال قال واخرجہ النسائی حزرتہ ثمانیۃ ارطال ۱؎من دون شک ۔

مجاہد نے کہاہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے یہاں گئے تو ہم میں سے کسی نے پانی مانگا۔ایک بڑے برتن میں لایا گیا۔حضرت عائشہ نے فرمایا: نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس برتن بھر پانی سے غسل فرماتے تھے۔امام مجاہد نے کہا: میں نے اندازہ کیاتووہ برتن آٹھ رطل،یانورطل،یا دس رطل کاتھا۔امام عینی نے کہا:یہ حدیث امام نسائی نے روایت کی تو اس میں یہ ہے کہ میں نے اسے آٹھ رطل کا اندازہ کیا۔یعنی اس روایت میں بغیر شک کے ہے(ت)

(۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۲۹۲)

اقول : ظاہر ہے فـــ کہ پیمانے ناج کیلئے ہوتے ہیں پانی مکیل نہیں کہ اُس کیلئے کوئی مُدو صاع جُدا موضوع ہوں

فـــ:تطفل آخرعلیہ ۔

بل نص علماؤنا انہ قیمی فاذن لاھو مکیل ولا موزون۔ (بلکہ ہمارے علماء نے تو تصریح کی ہے کہ پانی قیمت والی چیزوں میں ہے جب تووہ نہ مکیل ہے نہ موزون۔ت)
تواندازہ نہ بتایاگیامگر انہیں مُدو صاع سے جو ناج کیلئے تھے اور کسی برتن سے پانی کا اندازہ بتایا جائے تو اُس سے یہی مفہوم ہوگا کہ اس بھر پانی نہ یہ کہ اس برتن میں جتنا ناج آئے اس کے وزن کے برابر پانی۔ وھذا ظاھر جدا فاندفع ماوقع للعلامۃ علی القاری فی المرقاۃ شرح المشکوۃ حیث قال تحت حدیث انس کان صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ بالمد ویغتسل بالصاع المراد بالمد والصاع وزنالا کیلا ۲؎ اھ فھذا قیلہ من قبلہ لم یستند فیہ لدلیل ولا قیل لاحد قبلہ واسمعناک نصوص العلماء والحجۃ الزھراء۔

اور یہ بہت واضح ہے تو وہ خیال دفع ہوگیا جو علامہ علی قاری سے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں واقع ہواکہ انہوں نے حضرت انس کی حدیث” حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک مُد سے وضو فرماتے اور ایک صاع سے غسل فرماتے ” کے تحت لکھاکہ مُد اور صاع سے مراد اتنے وزن بھر پانی ہے اتنے ناپ بھر نہیں اھ۔یہ ضعیف قول خو دان کا ہے جس پر نہ تو انہوں نے کسی دلیل سے استناد کیانہ اپنے پہلے کے کسی شخص کے قول سے استناد کیا۔اورعلماء کے نصوص اور روشن دلیل ہم پیش کرچکے۔

(۲؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ مشکوۃ المصابیح تحت حدیث ۴۳۹ المکتبۃ الحبیبیۃ کوئٹہ ۲/ ۱۴۳)

فان قلت الیس قدقال انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کان رسول اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ برطلین ویغتسل بالصاع ۱؎ رواہ الامام الطحاوی والرطل من الوزن۔

اگر سوال ہو کہ کیا حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ نہیں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دورطل سے وضو فرماتے اورایک صاع سے غسل فرماتے۔ اسے امام طحاوی نے روایت کیا۔ اوررطل ایک وزن ہے۔

(۱؎عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳ /۲۹۲)

قلت المراد بالرطلین ھوالمدبدلیل حدیثہ المذکور سابقاوالاحادیث یفسر بعضہا بعضا بل قد اخرج الامام الطحاوی عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ بالمد وھو رطلان ۱؎ فاتضح المراد وبھذا استدل ائمتنا علی ان الصاع ثمانیۃ ارطال ولذا قال الامام الطحاوی بعداخراجہ الحدیث الذی تمسکت بہ فی السؤال فھذا انس قد اخبر ان مد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رطلان والصاع اربعۃ امداد فاذا ثبت ان المدرطلان ثبت ان الصاع ثمانیۃ ارطال ۲؎ اھ فقد جعل معنی قولہ توضأ برطلین توضأ بالمد وھو رطلان کما افصح بہ فی الروایۃ الاخری علی ان الرطل مکیال ایضا کما نص علیہ فی المصباح المنیر ۳؎واللّٰہ تعالی اعلم۔

میں کہوں گادو رطل سے وہی مُد مراد ہے، جس پردلیل خود اُن ہی کی حدیث ہے جو پہلے ذکرہوئی۔ اور احادیث میں ایک کی تفسیر دوسری سے ہوتی ہے بلکہ امام طحاوی نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ روایت بھی کی ہے کہ انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک مُد سے وضو فرماتے اور وہ دورطل ہے۔ تو مراد واضح ہوگئی۔اور اسی سے ہمارے ائمہ نے صاع کے آٹھ رطل ہونے پراستدلال کیا ہے اور اسی لئے امام طحاوی نے سوال میں تمہاری پیش کردہ حدیث روایت کرنے کے بعدفرمایا:یہ حضرت انس ہیں جنہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مُد دورطل تھااورصاع چار مُد کا ہوتا ہے توجب یہ ثابت ہوگیاکہ مُد دو رطل ہے تویہ بھی ثابت ہوا کہ صاع آٹھ رطل ہے اھ۔تو امام طحاوی نے ”توضأ برطلین”(دورطل سے وضو فرمایا) کا معنی یہ ٹھہرایا کہ توضأ بالمُدوھو رطلان (ایک مُد سے وضو فرمایا اور وہ دورطل ہے)جیسا کہ دوسری روایت میں اسے صاف بتایا۔علاوہ ازیں رطل ایک پیمانہ بھی ہے جیساکہ مصباح منیر میں اس کی صراحت کی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)

(۱؎ شرح معانی الآثار کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۷
۲؎ شرح معانی الآثار کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۷
۳؎المصباح المنیر کتاب الراء تحت لفظ ”رطل ” منشورات دارالھجرہ قم ایران ۱ /۲۳۰)

امر دوم : غسل میں کہ ایک صاع بھر پانی ہے اُس سے مراد مع اُس وضو کے ہے جو غسل میں کیا جاتا ہے یا وضو سے جدا امام اجل طحاوی رحمہ اللہ تعالی نے معنی دوم پر تنصیص فرمائی اور وہ اکثر احادیث میں ایک صاع اور حدیث انس میں پانچ مُد ہے اُس میں یہ تطبیق دی کہ ایک مُد وضو کا اور ایک صاع بقیہ غسل کا،یوں غسل میں پانچ مُد ہوئے، حدیث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ یغتسل بخمس مکاکی روایت کرکے فرماتے ہیں:

یکون الذی کان یتؤضا بہ مدا ویکون الذی یغتسل بہ خمسۃ مکاکی یغتسل باربعۃ منھا وھی اربعۃ امداد وھی صاع ویتوضأ باخرو ھو مدفجمع فی ھذا الحدیث ماکان یتوضأ بہ للجنابۃ وما کان یغتسل بہ ۱؎ لھا وافرد فی حدیث عتبۃ (یعنی الذی فیہ الوضوء بمدوالغسل بصاع) ماکان یغتسل بہ لھا خاصۃ دون ماکان یتوضأ بہ ۲؎ اھ

جتنے پانی سے وضوفرماتے وہ ایک مُد ہوگااورجتنے سے غسل فرماتے وہ پانچ مکّوک ہوگا۔ چار مکّوک۔وہی چار مُد اور چار مُد ایک صاع۔ سے غسل فرماتے۔ اور باقی ایک مکّوک ۔ایک مُد سے وضوفرماتے۔تو اس حدیث میں جتنے سے جنابت کا غسل ووضو فرماتے دونوں کو جمع کردیا۔ اور حدیثِ عتبہ میں(یعنی جس میں یہ ہے کہ ایک مُد سے وضو اور ایک صاع سے غسل ) صرف اُس کو بیان کیا جس سے غسل فرماتے، اُس کوذکرنہ کیاجس سے وضو فرماتے اھ۔

(۱؎ شرح معانی الآثار، کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۷
۲؎ شرح معانی الآثار، کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۷)

اقول : لکن حدیثہ یغتسل بالصاع الی خمسۃ امداد لیس فی التوزیع فی التنویع کما لایخفی ای ان الغسل نفسہ کان تارۃ باربعۃ وتارۃ بخمسۃ سواء ارید بہ اسألۃ الماء علی سائر البدن وحدھا اومع الوضوء۔

اقول : لیکن حضرت انس کی یہ حدیث کہ حضورایک صاع سے پانچ مُدتک پانی سے غسل فرماتے،بیان تقسیم میں نہیں بلکہ بیان تنویع میں ہے جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔ یعنی خود غسل ہی کبھی چارمُد سے ہوتااورکبھی پانچ مُد سے ہوتاخواہ اس سے صرف پورے بدن پر پانی بہانا مرادلیں یا اس کے ساتھ وضو بھی ملا لیں۔(ت)

امر سوم : یہ صاع فـــ کس ناج کا تھاظاہرہے کہ ناج ہلکے بھاری ہیں جس پیمانے میں تین سیر جو آئیں گے گیہوں تین سیر سے زیادہ آئیں گے اور ماش اور بھی زائد، ابو شجاع ثلجی نے صدقہ فطر میں ماش یا مسور کا پیمانہ لیا کہ ان کے دانے یکساں ہوتے ہیں تو اُن کا کیل و وزن برابر ہوگا بخلاف گندم یا جو کہ اُن میں بعض کے دانے ہلکے بعض کے بھاری ہوتے ہیں تو دو قسم کے گیہوں اگرچہ ایک ہی پیمانے سے لیں وزن میں مختلف ہوسکتے ہیں اور اسی طرح جو۔ دُرِّمختار میں اسی پر اقتصار کیا اور امام صدرالشریعۃ نے شرح وقایہ میں فرمایا کہ احوط کھرے گیہوں کا صاع ہے۔

فـــ:مسئلہ زیادہ احتیاط یہ ہے کہ صدقہ فطر وفدیہ روزہ ونماز وکفارہ قسم وغیرہ میں نیم صاع گیہوں جوکے پیمانے سے دئیے جائیں یعنی جس برتن میں ایک سو چوالیس روپے بھر جوٹھیک ہموارسطح سے آجائیں کہ نہ اونچے رہیں نہ نیچے اس برتن بھرکرگیہووں کوایک صدقہ سمجھاجائے ہم نے تجربہ کیاپیمانہ نیم صاع جومیں بریلی کے سیرسے کہ سوروپیہ بھرکاہے اٹھنی بھراوپرپونے دوسیرگیہوں آتے ہیں فی کس اتنے دئیے جائیں ۔

اور علامہ شامی نے ردالمحتار میں جو کا صاع احوط بتایا اور حاشیہ زیلعی للسید محمد امین میر غنی سے نقل کیا: ان الذی علیہ مشائخنابالحرم الشریف المکی ومن قبلھم من مشائخھم وبہ کانوا یفتون تقدیرہ بثمانیۃ ارطال من الشعیر ۱؎۔

یعنی حرمِ مکہّ میں ہمارے مشائخ اور ان سے پہلے ان کے مشائخ اس پر ہیں کہ آٹھ رطل جَو سے صاع کا اندازہ کیا جائے اور اکابر اسی پر فتوٰی دیتے تھے۔(ت)

(۱؎ ردالمحتار، کتاب الزکوۃ باب صدقۃ الفطر داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۷۷ )

اقول ظاہر ہے کہ صاع اُس ناج کا تھا جو اُس زمان برکت نشان میں عام طعام تھا اور معلوم ہے کہ وہاں عام طعام جو تھا گیہوں کی کثرت زمانہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہوئی۔

حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ہے: لما کثرالطعام فی زمن معٰویۃ جعلوہ مدین من حنطۃ ۲؎۔

جب حضرت معاویہ کے زمانے میں طعام کی فراوانی ہوئی تواسے گیہوں کے دو مُدٹھہرائے (ت)

(۲؎ شرح معانی الآثار، کتاب الزکوۃ باب مقدار صدقۃ الفطر ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۲)

شرح صحیح مسلم امام نووی میں ہے: الطعام فی عرف اھل الحجاز اسم للحنطۃ خاصۃ ۱؎۔

طعام اہلِ حجاز کے عرف میں صرف گیہوں کانام ہے۔(ت)

(۱؎ شرح صحیح مسلم للنووی کتاب الزکوۃ باب الامر باخراج زکوۃ الفطر الخ تحت حدیث ۲۲۵۳ دارالفکربیروت ۴ /۲۷۳۲ )

صحیح ابن خزیمہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہے : قال لم تکن الصدقۃ علی عھد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الا التمرو الزیب والشعیر ولم تکن الحنطۃ ۲؎۔

فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانے میں صدقہ کھجور، خشک انگور او رجَو سے دیا جاتااور گیہوں نہ ہوتا۔

(۲؎ صحیح ابن خزیمہ، باب الدلیل علی ان الامر الخ حدیث ۲۴۰۶ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۸۵)

صحیح بخاری شریف میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے : کان طعامنا یومئذ الشعیر الخ ۳؎

ہمارا طعام اس وقت جَو تھا۔(ت)

(۳؎ صحیح البخاری کتاب الزکوۃ باب الصدقۃ قبل العید قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۰۴و۲۰۵)

اور اس سے قطع نظر بھی ہوتو شک نہیں کہ مُد وصاع کا اطلاق مُد وصاع شعیر کو بھی شامل، تو اُس پر عمل ضرور اتباع حدیث کی حد میں داخل۔ فقیر نے ۲۷ ماہ مبارک رمضان ۲۷؁ کو نیم صاع شعیری کا تجربہ کیا جو ٹھیک چار طل جَو کا پیمانہ تھااُس میں گیہوں برابر ہموار مسطح بھر کر تولے تو ثمن رطل کو پانچ رطل آئے یعنی ایک سو چوالیس۱۴۴ روپے بھر جَوکی جگہ ایک سو پچھتر۱۷۵روپے آٹھ آنے بھر گیہوں کہ بریلی کے سیر سے اٹھنی بھر اوپر پَونے دو سیر ہوئے، یہ محفوظ رکھنا چاہئے کہ صدقہ فطر وکفارات وفدیہ صوم وصلاۃ میں اسی اندازہ سے گیہوں اداکرنا احوط وانفع للفقراء ہے اگرچہ اصل مذہب پر بریلی کی تول سے چھ۶ روپے بھر کم ڈیڑھ سیر گیہوں ہیں۔ پھر اُسی پیمانے میں پانی بھر کر وزن کیا تو دو سو چودہ ۲۱۴ روپے بھر ایک دوانی کم آیا کہ کچھ کم چھ رطل ہوا تو تنہا وضوفـــ۱ کا پانی رامپوری سیر سے تقریباً آدھ پاؤ سیر ہوا اور باقی غسل کا قریب ساڑھے چار سیر کے، اور مجموع غسل کا چھٹانک اوپر ساڑھے پانسیر سے کچھ زیادہ۔

فــ۱:مسئلہ تنہاوضوکامسنون پانی رامپوری سیرسے کہ چھیانوے روپے بھرکاہے تقریباآدھ پاؤ اوپر سیر بھر ہے اورباقی غسل کاساڑھے چارسیر کے قریب ،مجموع غسل کاچھٹانک اوپرساڑھے پانسیر سے کچھ زیادہ۔

یہ بحمد اللہ تعالٰی قریب قیاس ہے بخلاف اس کے اگر تنقیحات مذکورہ نہ مانی جائیں تو مجموع غسل کا پانی صرف تین سیر رہتا ہے اور امام ابو یوسف کے طور پر دوہی سیر، اُسی میں وضو اُسی میں غسل اور ہر عضو پر تین تین بار پانی کا بہنا یہ سخت دشوار بلکہ بہت دُور ازکار ہے۔

فائدہ : فــ۱ اُن پانیوں کے بیان میں جو اس حساب سے جُدا ہیں:

فــ۱:مسئلہ ان پانیوں کابیان جواس حساب کے علاوہ ہیں ۔

(۱) آبِ استنجاء ہمارے فـــ۲ علما نے وضو کی تقسیم یوں فرمائی ہے کہ آدمی موزوں پر مسح کرے اور استنجے کی حاجت نہ ہوتونیم مُدپانی کا فی ہے اور موزے اور استنجا دونوں ہوں یا دونوں نہ ہوں تو ایک مُد، اور موزے نہ ہوں اور استنجا کرنا ہو تو ڈیڑھ مُد۔

فــ۲:مسئلہ حالات وضوپرمسنون پانی کے اختلافات اوریہ کہ استنجے کے لئے چھٹانک آدھ سیرپانی چاہئے۔

حلیہ میں ہے: روی الحسن عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی الوضوء ان کان متخففا ولا یستنجی کفاہ رطل لغسل الوجہ والیدین ومسح الرأس والخفین وان کان یستنجی کفاہ رطلان رطل للاستنجاء ورطل للباقی وان لم یکن متخففا ویستنجی کفاہ ثلثۃ ارطال رطل للاستنجاء ورطل للقدمین ورطل للباقی ۱؎۔

امام حسن بن زیادنے امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے وضو بارے میں روایت کی ہے کہ اگر موزے پہنے ہیں اوراستنجا نہیں کرنا ہے توچہرہ اور دونوں ہاتھوں کے دھونے اور سر اور موزوں کے مسح کے لئے ایک رطل کافی ہے۔اوراگر استنجابھی کرنا ہے تو دو رطل۔ایک رطل استنجا کے لئے اورایک رطل باقی کے لئے اوراگر موزے نہیں ہیں اوراستنجاکرنا ہے توتین رطل کفایت کریں گے،ایک رطل استنجا کے لئے ایک رطل دونوں پاؤں کے لئے، اورایک رطل باقی کے لئے۔(ت)

(۱؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )

(۲) ظاہر ہے کہ اگر بدن پر کوئی نجاست حقیقیہ ہو جیسے حاجتِ غسل میں ران وغیرہ پر منی تو اس کی تطہیر کاپانی اس حساب میں نہیں اور یہیں سے ظاہر کہ بعد جماع اگر کپڑا نہ ملے تو پانی کہ اب استنجے کو درکار ہوگا معمول سے بہت زائد ہوگا۔

(۳)پیش از استنجا تین (فــ۱)بار دونوں کلائیوں تک دھونا مطلقاً سنّت ہے اگرچہ سوتے سے نہ جاگا ہو یہ اُس سنّت سے جُداہے کہ وضو کی ابتدا میں تین تین بار ہاتھ دھوئے جاتے ہیں سنّت یوں ہے کہ تین بار ہاتھ دھو کر استنجا کرے پھر آغاز وضو میں باردیگر تین بار دھوئے پھر منہ فـــ۲ دھونے کے بعد جوہاتھ کہنیوں تک دھوئے گااُس میں ناخن دست سے کہنیوں کے اوپر تک دھوئے تو دونوں کفدست تین مرتبہ دھوئے جائیں گے ہر مرتبہ تین تین بار۔اخیر کے دونوں داخل حساب وضو ہیں اور اوّل خارج، ہاں اگر استنجا کرنا نہ ہوتو دو ہی مرتبہ تین تین بار دھونا رہے گا۔

فـــ۱:مسئلہ:استنجے سے پہلے تین بار دونو ں ہاتھ کلائیوں تک دھونا سنت ہے اگرچہ سوتے سے نہ اٹھاہو ہاں سوتے سے اٹھا اور بدن پر کوئی نجاست تھی توزیادہ تاکید یہاں تک کہ سنت مؤکدہ ہے۔

فـــ۲:مسئلہ وضو کی ابتداء میں جو دونوں ہاتھ کلائیوں تک تین تین بار دھوئے جاتے ہیں سنت یہ ہے کہ منہ دھونے کے بعد جوہاتھ دھوئے اس میں پھر دونوں کفدست کو شامل کرلے سر ناخن سے کہنیوں کے اوپر تک تین بار دھوئے۔

درمختار میں ہے: (سنتہ البداءۃ بغسل الیدین) الطاھرتین ثلثا قبل الاستنجاء وبعدہ وقیدالاستیقاظ اتفاقی (الی الرسغین وھو) سنۃ (ینوب عن الفرض) ویسن غسلہماایضامع الذارعین ۱؎ اھ ملتقطا۔

وضو کی سنت گٹوں تک دونوں پاک ہاتھوں کے دھونے سے ابتدا کرنا۔ تین بار استنجا سے پہلے اور اس کے بعدبھی۔ اور نیند سے اٹھنے کی قید،اتفاقی ہے اور یہ ایسی سنت ہے جو فرض کی نیابت کردیتی ہے۔اور کلائیوں کے ساتھ بھی ہاتھوں کو دھونامسنون ہے اھ ملتقطا(ت)

(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۰و۲۱)

ردالمحتار میں ہے: خص المصنف بالمستیقظ تبرکابلفظ الحدیث والسنۃ تشمل المستیقظ وغیرہ وعلیہ الاکثرون اھ وفی النھر الاصح الذی علیہ الاکثر انہ سنۃ مطلقالکنہ عند توھم فــ النجاسۃ سنۃ مؤکدۃ کما اذا نام لاعن استنجاء اوکان علی بدنہ نجاسۃ وغیر مؤکدۃعند عدم توھمھا کما اذا نام لاعن شیئ من ذلک اولم یکن مستیقظاعن نوم اھ ونحوہ فی البحر ۱؎اھ۔

مصنّف نے نیندسے اٹھنے والے کے ساتھ لفظ حدیث سے برکت حاصل کرنے کے لئے کلام خاص کیا۔اورسنت نیند سے اٹھنے والے کے لئے بھی اور اس کے علاوہ کے لئے بھی ہے۔ اسی پر اکثر حضرات ہیں اھ۔النہرالفائق میں ہے:اصح جس پر اکثرہیں،یہ ہے کہ وہ مطلقاسنت ہے لیکن نجاست کا احتمال ہونے کی صورت میں سنتِ مؤکدہ ہے مثلاً بغیراستنجاکے سویاہو،یاسوتے وقت اس کے بدن پرکوئی نجاست رہی ہو۔اور نجاست کا احتمال نہ ہونے کی صورت میں سنّتِ غیر مؤکدہ ہےمثلاً ان میں سے کسی چیز کے بغیر سویا ہویانیند سے اٹھنے کی حالت نہ ہو۔اھ۔اسی کے ہم معنی بحر میں بھی ہے اھ

(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۷۵)

فـــــ:مسئلہ بدن پر کوئی نجاست ہومثلاتر خارش ہے یازخم یاپھوڑا یا پیشاب کے بعد بے استنجاسورہا کہ پسینہ آکر تری پہنچنے کااحتمال ہے جب تو گٹوں تک ہاتھ پہلے دھونا سنت مؤکدہ ہے اگرچہ سویانہ ہو جب کہ ہاتھ کااس نجاست پر پہنچنا محتمل ہو اور اگر بدن پر نجاست نہیں تو ان کا دھونا سنت ہے مگر مؤکدہ نہیں اگرچہ سو کر اٹھاہو یوں ہی اگر نجاست ہے اوراس پر ہاتھ نہ پہنچنا معلوم ہے یعنی جاگ رہاہے اوریادہے کہ ہاتھ وہاں تک نہ پہنچے تواس صورت میں بھی سنت مؤکدہ نہیں ہاں سنت مطلقا ہے۔

اقول : و وجہہ ان النجاسۃ اذا کانت متحققۃ کمن نام غیرمستنج واصابۃ الید فی النوم غیر معلومۃ کانت النجاسۃ متوھمۃ امااذا لم تکن نفسھامتحققۃ فالتنجس بالاصابۃ توھم علی توھم فلا یورث تاکدالاستنان ۔

اقول : اس کی وجہ یہ ہے کہ نجاست جب متحقق ہے۔جیسے اس کے لئے جوبغیراستنجاکے سویاہو۔ اورنیند میں نجاست پر ہاتھ کاپہنچنا معلوم نہیں ہے توہاتھ میں نجاست لگنے کا صرف احتمال ہے لیکن جب خودنجاست ہی متحقق نہیں تو ہاتھ میں نجاست لگنے کااحتمال دراحتمال ہے اس لئے اس سے مسنونیت مؤکد نہ ہوگی۔

فان قلت : الیس ان النوم مظنۃ الانتشاروالانتشارمظنۃ الامذاء والغالب کالمتحقق فالنوم مطلقا محل التوھم۔

اگریہ سوال ہوکہ کیا ایسانہیں کہ نیند انتشارآلہ کا مظنّہ ہے، اور انتشارمذی نکلنے کامظنّہ ہے۔ اور گمان غالب متحقق کاحکم رکھتا ہے تونیندمطلقاً احتمال نجاست کی جگہ ہے۔

قلت : بَیَّنَّا فی رسالتنا الاحکام والعلل ان الانتشار لیس مظنۃ الامذاء بمعنی المفضی الیہ غالبا وقد نص علیہ فی الحلیۃ

میں کہوں گا ہم نے اپنے رسالہ ”الاحکام والعلل” میں بیان کیا ہے کہ انتشار مذی نکلنے کا مظنہ اس معنی میں نہیں کہ یہ اکثر خروجِ مذی تک موصل ہوتاہے۔ حلیہ میں اس کی تصریح موجود ہے۔

فان قلت انما علق فی الحدیث الحکم علی مطلق النوم وعللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بقولہ فانمالایدری این باتت یدہ۱؎ والنوم لاعن استنجاء ان اریدبہ نفیہ مطلقا فمثلہ بعیدعن ذوی النظافۃ فضلاعن الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم وھم المخاطبون اولا بقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی اذااستیقظ احدکم من نومہ۱؎ وان ارید خصوص الاستنجاء بالماء فالصحیح المعتمدان الاستنجاء بالحجر مطھراذا لم تتجاوزالنجاسۃ المخرج اکثرمن قدرالدرھم کمابینتہ فیماعلقتہ علی ردالمحتارفلا یظھر فرق بین الاستنجاء بالماء وترکہ فی ایراث التوھم وعدمہ۔

پھر اگر یہ سوال ہو کہ حدیث میں اس حکم کو مطلق نیندسے متعلق فرمایا ہے اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس ارشاد سے اس کی علّت بیان فرمائی ہے کہ”وہ نہیں جانتاکہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں رہا”۔اگریہ کہئے کہ لوگ بغیر استنجا کے سوتے تھے اس لئے یہ ارشاد ہوا تواس سے اگر یہ مراد ہے کہ مطلقاً استنجا ہی نہ کرتے تھے توایساتوہر صاحبِ نظافت سے بعید ہے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے تو اور زیادہ بعید ہے اور وہی حضرات اولین مخاطب ہیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد کے کہ ”جب تم میں سے کوئی نیند سے اٹھے۔اور اگر یہ مراد ہے کہ پانی سے استنجا نہ کرتے تھے تو صحیح معتمد یہ ہے کہ پتھر کے ذریعہ استنجا سے بھی طہارت ہوجاتی ہے جب کہ نجاست قدر درہم سے زیادہ مخرج سے تجاوزنہ کرے، جیسا کہ ردالمحتارپرمیں نے اپنے حواشی میں بیان کیا ہے تواحتمالِ نجاست پیدا کرنے اور نہ کرنے میں پانی سے استنجا کرنے اور نہ کرنے کے درمیان کوئی فرق ظاہر نہیں۔

(۱؎سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ماجاء اذااستیقظ الخ حدیث ۲۴ دارالفکر بیروت ۱ /۱۰۰)
(سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب الرجل یستیقظ من منامہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۲)
(۱؎سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ماجاء اذااستیقظ الخ حدیث ۲۴ دارالفکر بیروت ۱ /۱۰۰)

قلت : الحدیث لافادۃ الاستنان اماتاکدہ عند تحقق النجاسۃ فی البدن فبالفحوی ۔

قلت(میں کہوں گا)حدیث مسنونیت بتانے کے لئے ہے اوربدن میں نجاست متحقق ہونے کے وقت اس سنّت کامؤکدہونا مضمونِ کلام سے معلوم ہوا۔

فان قلت ھذا البحرقائلا فی البحراعلم ان الابتداء بغسل الیدین واجب اذاکانت النجاسۃ محققۃ فیھما وسنۃ عند ابتداء الوضوء وسنۃ مؤکدۃ عند توھم النجاسۃ کمااذا استیقظ من النوم ۲؎ اھ فھذانص فی کون کل نوم موجب تاکداالاستنان۔

اگرسوال ہوکہ محقق صاحبِ بحر، البحرالرائق میں یہ لکھتے کہ:واضح ہوکہ دونوں ہاتھ دھونے سے ابتدأ واجب ہے جب ہاتھوں میں نجاست ثابت ہواور ابتدائے وضوکے وقت سنّت ہے،اور احتمالِ نجاست کے وقت سنّتِ مؤکدہ ہے جیسے نیند سے اٹھنے کے وقت اھ۔تو یہ عبارت اس بارے میں نص ہے کہ ہر نیند اس عمل کے سنّتِ مؤکدہ ہونے کاسبب ہے۔

(۲؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۱۷و۱۸)

قلت : نعم فــ ارسل ھناماابان تقییدہ بعداسطراذیقول علم بماقررناہ ان مافی شرح المجمع من ان السنۃ فی غسل الیدین للمستیقظ مقیدۃ بان یکون نام غیرمستنج اوکان علی بدنہ نجاسۃ حتی لولم یکن کذلک لایسن فی حقہ ضعیف او المراد نفی السنۃ المؤکدۃ لااصلہا ۱؎ اھ لاجرم ان قال فی الحلیۃ ھو مع الاستیقاظ اذاتوھم النجاسۃ اکد ۲؎ اھ فلم یجعل کل نوم محل توھم۔

میں کہوں گاہاں یہاں پرانہوں نے مطلق رکھا مگر چند سطروں کے بعد اس کی قید واضح کردی ہے،آگے وہ فرماتے ہیں:ہماری تقریرسابق سے معلوم ہواکہ شرح مجمع میں جولکھا ہے کہ”نیند سے اٹھنے والے کے لئے دونوں ہاتھ دھونے کامسنون ہونا اس قید سے مقید ہے کہ بغیر استنجاسویا ہویاسوتے وقت اس کے بدن پر کوئی نجاست رہی ہویہاں تک کہ اگر یہ حالت نہ ہو تو اس کے حق میں سنّت نہیں ہے”۔(شرح مجمع کایہ قول)ضعیف ہے۔یااس سے مرادیہ ہوکہ سنّتِ مؤکدہ نہیں ہے،یہ نہیں کہ سرے سے سنّت ہی نہیں اھ۔یہی وجہ ہے کہ حلیہ میں کہا:نیندسے اٹھنے کے وقت جب احتمالِ نجاست ہوتو یہ زیادہ مؤکد ہے اھ۔توانہوں نے ہرنیند کو محلِ احتمال نہ ٹھہرایا۔

ف:تطفل علی البحر۔

(۱؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ / ۱۸)
(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

اقول : وھو معنی قول الفتح قیل سنۃ مطلقاللمستیقظ وغیرہ وھوالاولی نعم مع الاستیقاظ وتوھم النجاسۃ السنۃ اٰکد ۳؎ اھ فارادبالواوالاجتماع لترتّب الحکم لامجرد التشریک فی ترتبہ وان کان کلامہ مطلقافی المستیقظ وغیرہ والتوھم غیرمختص بالمستیقظ علی ان السنن الغیرالمؤکدۃ بعضھااٰکد من بعض فافھم۔

اقول یہی فتح القدیر کی اس عبارت کابھی معنی ہے کہ :کہاگیانیند سے اٹھنے والے اور اس کے علاوہ کے لئے یہ مطلقاسنت ہے اور یہی قول اولٰی ہے، ہاں نیند سے اٹھنے اورنجاست کا احتمال ہونے کی صورت میں سنّت زیادہ مؤکد ہے اھ۔واؤ(اور) سے ان کی مراد یہ ہے کہ نیند سے اٹھنااور نجاست کااحتمال ہونادونوں باتیں جمع ہوں توسنت مؤکدہ ہے یہ مراد نہیں کہ نیند سے اٹھے جب بھی سنّتِ مؤکدہ اور احتمالِ نجاست ہوجب بھی سُنّتِ مؤکدہ اگرچہ ان کا کلام نیند سے اٹھنے والے اور اس کے علاوہ کے حق میں مطلق ہے اور احتمال نجاست ہونا نیند سے اٹھنے والے ہی کے لئے خاص نہیں۔ علاوہ ازیں سُننِ غیر مؤکدہ میں بعض سنّتیں بعض دیگر کی بہ نسبت زیادہ مؤکدہوتی ہیں۔تو اسے سمجھو۔

(۳؎ فتح القدیر کتاب الطہارات مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۱۹)

(۴) اقول اگرچہ فـــ مسواک ہمارے نزدیک سنّتِ وضوہے خلافاللامام الشافعی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فعندہ سنۃ الصلاۃ کمافی البحر وغیرہ (بخلاف امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ کے کہ ان کے نزدیک سنّت نمازہے جیسا کہ بحر وغیرہ میں ہے۔ ت) ولہٰذا جو ایک وضو سے چند نمازیں پڑھے ہر نماز کیلئے مسواک کرنا مطلوب نہیں جب تک منہ میں کسی وجہ سے تغیر نہ آگیا ہو کہ اب اس دفع تغیر کیلئے مستقل سنّت ہوگی،ہاں وضوبے مسواک کرلیا ہو تو اب پیش از نماز کرلے کما فی الدروغیرہ (جیساکہ در وغیرہ میں ہے۔ت) مگر اُس کے وقت فــ۲ میں ہمارے یہاں اختلاف ہے بدائع وغیرہ معتمدات میں قبل وضو فرمایااور مبسوط وغیرہ معتبرات میں وقت مضمضہ یعنی وضو میں کُلّی کرتے وقت ۔

فـــ: مسئلہ مسواک ہمارے نزدیک نماز کے لئے سنت نہیں بلکہ وضو کے لئے ،تو جو ایک وضو سے چند نمازیں پڑھے ہر نماز کے لئے اس سے مسواک کامطالبہ نہیں جب تک منہ میں کوئی تغیر نہ آگیا ہو ہاں اگروضو بے مسواک کر لیاتھا تو اب وقت نماز مسواک کر لے ۔
فـــ۲:مسواک کے وقت میں ہمارے علماء کو اختلاف ہے کہ قبل وضو ہے یا وضو میں کلی کرتے وقت اوراس بارہ میں مصنف کی تحقیق ۔

حلیہ میں ہے : وقت استعمالہ علی مافی روضۃ الناطفی والبدائع ونقلہ الزاھدی عن کفایۃ البیھقی والوسیلۃ والشفاء قبل الوضوء وربما یشھدلہ مافی صحیح مسلم عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما عن رسول اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم انہ تسوک وتوضأعــہ ثم قام فصلی وفی سنن ابی داؤد عن عائشۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہاان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان لا یرقد من لیل ولا نھارفیستیقظ الا تسوک قبل ان یتوضأ وفی المحیط وتحفۃ الفقھاء وزادالفقہاء ومبسوط شیخ الاسلام محلۃ المضمضۃ تکمیلا للانقاء واخرج الطبرانی عن ایوب قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذاتوضأ استنشق ثلثاوتمضمض وادخل اصبعہ فی فمہ وھذا ربمایدل علی ان وقت الاستیاک حالۃ المضمضۃ فان الاستیاک بالاصبع بدل عن الاستیاک بالسواک والاصل کون الاشتغال بالبدل وقت الاشتغال بالاصل ۱؎ اھ مختصرا۔

مسواک کے استعمال کاوقت قبل وضو ہے۔ایسا ہی ر وضۃ الناطفی اور بدائع میں ہے اور زاہدی نے اسے کفایۃ البیہقی، وسیلہ اورشفا سے نقل کیاہے۔اوراس پرکچھ شہادت صحیح مسلم کی اس حدیث سے ملتی ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت فرمائی کہ سرکار نے مسواک کی اور وضو کیا پھر اٹھ کرنماز اداکی۔اورسنن ابو داؤد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دن یا رات میں جب بھی سوکربیدار ہوتے تو وضوکرنے سے پہلے مسواک کرتے۔ اورمحیط،تحفۃ الفقہا، زادالفقہا اور مبسوط شیخ الاسلام میں ہے کہ مسواک کاوقت کُلّی کرنے کی حالت میں ہے تاکہ صفائی مکمل ہو جائے ۔ اورطبرانی نے حضرت”ایوب”سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب وضو فرماتے توتین بار ناک میں پانی لے جاتے اور کُلی کرتے اورانگلی منہ میں داخل کرتے۔اس حدیث سے کچھ دلالت ہوتی ہے کہ مسواک کاوقت کُلی کرنے کی حالت میں ہے اس لئے کہ انگلی استعمال کرنامسواک استعمال کرنے کابدل ہے اورقاعدہ یہ ہے کہ بدل میں مشغولی اسی وقت ہو جس وقت اصل میں مشغولیت ہوتی اھ مختصراً۔

عــہ : ھکذاھو فی نسختی الحلیۃ بالواو والذی فی صحیح مسلم رجع فتسوک فتوضأ ثم قام فصلی ۱؎ ولعلہ اظھردلالۃ علی المراد اھ

میرے نسخہ حلیہ میں اسی طرح وتوضّأ(اور وضوکیا) واؤ کے ساتھ ہے۔ اورصحیح مسلم میں یہ ہے : رجع فتسوک فتوضأثم قام فصلی (لوٹ کرمسواک کی پھروضوکیاپھر اٹھ کرنمازادا کی) اورشاید دلالت مقصودمیں یہ زیادہ ظاہر ہے اھ۔ت)

(۱؎صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب السواک قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۲۸)
(۱؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )

اقول ھکذافی نسختی الحلیۃ عن ایوب فان کان عن ابی ایوب رضی اللّٰہ تعالی عنہ واسقط الناسخ والا فمرسل والظاھرالاول فان للطبرانی حدیثاعن ابی ایوب الانصاری رضی اللّٰہ تعالی عنہ فی صفۃ الوضوء لکن لفظہ کمافی نصب الرایۃ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذاتوضأ تمضمض واستنشق وادخل اصابعہ من تحت لحیتہ فخللھا ۲؎ اھ فاللّٰہ تعالی اعلم وعلی کل فـــ یخلو عن ابعاد النجعۃ فقداخرج الامام احمد فی مسندہ عن امیر المؤمنین علی کرم اللّٰہ تعالی وجہہ انہ دعا بکوز من ماء فغسل وجہہ وکفیہ ثلثا وتمضمض ثلثا فادخل بعض اصابعہ فی فیہ وقال فی اخرہ ھکذاکان وضوء نبی ۱؎ اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ونحوہ عندعبدبن حمیدعن ابی مطرعن علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔

اقول میرے نسخہ حلیہ میں”عن ایوب” (ایوب سے ) ہے۔اگریہ اصل میں عن ابی ایوب رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے اور کاتب سے”ابی” چھوٹ گیاہے جب تومسندہے ورنہ مرسل ہے اور ظاہراول ہے۔اس لئے کہ طبرانی کی ایک حدیث حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے طریقہ وضو کے بارے میں آئی ہے۔لیکن ا س کے الفاظ نصب الرایہ کے مطابق۔ یہ ہیں: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب وضو فرماتے تو کُلّی کرتے اورناک میں پانی ڈالتے اور اپنی انگلیاں داڑھی کے نیچے سے ڈال کرریش مبارک کا خلال کرتے اھ۔توخدائے برترہی کو خوب علم ہے۔ بہر حال اس حدیث سے استناد تلاش مقصود میں قریب چھوڑکردُور جانے کے مرادف ہے اس لئے کہ امام احمد نے مسند میں امیر المومنین حضرت علی کرّم اللہ تعالٰی وجہہ سے روایت فرمائی ہے کہ انہوں نے ایک کُوزہ میں پانی منگا کر چہرے اورہتھیلیوں کوتین بار دھویااور تین بار کلی کی تو اپنی ایک انگلی منہ میں لے گئے۔اوراس کے آخر میں یہ فرمایا:اسی طرح خداکے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وضوتھا۔اوراسی کے ہم معنی عبد بن حمید کی حدیث ہے جو ابو مطر کے واسطہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔

فـــ : تطفل علی الحلیۃ

(۲؎ نصب الرایۃ فی تخریج احادیث ھدایہ کتاب الطہارات اماحدیث ابی ایوب نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور ۱ /۵۵)
(۱؎ مسند احمد بن حنبل عن علی رضی اللہ تعالی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۵۱)

ثم اقول : لیس نَصّاً فی کونہ بدلاعن السواک فقد تدخل الاصبع فی الفم لاستخراج النخاع مثلا واشارالیہ المحقق بقولہ ربمایدل ۲؎۔

ثم اقول یہ بھی اس بارے میں صریح نہیں کہ منہ میں انگلی ڈالنامسواک کے بدلہ میں تھا، کیونکہ منہ میں انگلی کھنکاروغیرہ نکالنے کے لئے بھی ڈالی جاتی ہے۔اسی بات کی طرف محقق حلبی نے اپنے لفظ ربما یدل(کچھ دلالت ہوتی ہے) سے اشارہ فرمایاہے۔

(۲؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

علی انی اقول معلوم فــ ضرورۃً شدۃ حبہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم للسواک وانما فعل ھذا مرۃ بیاناللجواز فلیکن کونہ عند المضمضۃ ایضا لذالک ای من لم یستک سہوامثلا ولا سواک عندہ الان فلیستک بالاصابع حین المضمضۃ وبھذا تضعف الدلالۃ جدا۔

علاوہ ازیں میں کہتاہوں قطعی وضروری طورپرمعلوم ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کومسواک کرنا بہت محبوب تھااورصرف بیانِ جواز کے لئے ایک بار ایساکیا۔توچاہئے کہ اس عمل کا وقتِ مضمضہ ہونابھی اسی غرض سے ہویعنی جس نے مثلاً بھول کر مسواک نہیں کی او ربروقت اس کے پاس مسواک موجود نہیں تووہ وقتِ مـضمضہ انگلیوں سے صفائی کرلے۔اوراس سے (مسواک کامقررہ وقت حالت مضمضہ ہونے پر )حدیث کی دلالت بہت ضعیف ہوتی ہے ۔

فـــ:تطفل آخر علیہا۔

نعم روی ابو عبید فی کتاب الطھور عن امیر المؤمنین عثمٰن رضی اللّٰہ تعالی عنہ انہ کان اذا توضأ یسوک فاہ باصبعہ ۱؎ لکنی اقول معترک عظیم فی دلالۃ کان یفعل علی الاستمرار بل علی التکرار و لی فیھا رسالۃ سمیتھا ”التاج المکلل فی انارۃ مدلول کان یفعل”فان اخترنا ان لا،لم یدل علی الاستنان اونعم فما کان عثمٰن لیواظب علی ترک السواک فی محلہ مع انھم ھم الائمۃ الاعلام العاضون بنواجذھم علی سنن سید الانام علیہ وعلیھم الصلاۃ والسلام، فاذن ینقدح فی الذھن واللّٰہ اعلم ان السنۃ السواک قبل الوضوء وان یعالج باصبعہ عند المضمضۃ لکن لااجترئ علی القول بہ لانی لم اجد احدا من علمائنا مال الیہ۔

ہاں ابوعبید نے کتاب الطہور میں امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی ہے کہ” کان اذاتو ضأ یسوک فاہ باصبعہ” ( وہ جب وضو کرتے تھے توانگلی سے منہ(بطورِ مسواک) صاف کرلیا کرتے تھے-لیکن میں کہتا ہوں اس میں سخت معرکہ آرائی ہے کہ کان یفعل (کیاکرتے تھے) کی دلالت استمر اربلکہ تکرار پر ہوتی ہے یا نہیں؟،اس کے بارے میں میرا ایک رسالہ بھی ہے جس کا نام ہے ”التاج المکلل فی انارۃ مدلول کان یفعل” ( کان یفعل کے مدلول کی توضیح میں آراستہ تاج)-اگر ہم یہ اختیارکریں کہ یہ لفظ استمرار و دوام پردلالت نہیں کرتا تومسنون ہونے پر اس کی دلالت ثابت نہ ہوگی۔ اور اگر یہ اختیار کریں کہ استمرار پردلالت کرتاہے تو حضرت عثمان کی یہ شان نہیں ہوسکتی کہ اصل مقام پرمسواک ترک کرنے پروہ مداومت فرماتے رہے ہوں۔جب کہ یہی حضرات تو وہ بزرگ پیشوا و ائمہ ہیں جو سیّدانام علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنّتوں کو دانت سے پکڑنے رہنے والے ہیں۔ اب ذہن میں یہ خیال آتاہے کہ سنت یہ ہے کہ وضو سے پہلے مسواک کرے اورکُلّی کرتے وقت انگلی سے صفائی کرے لیکن میں اسے کہنے کی جسارت نہیں کرتا کیونکہ اپنے علما میں سے کسی کو میں نے اس طرف مائل نہ پایا۔

(۱؎ کتاب الطہور،باب المضمضۃ والاستنشاق یستعان علیھا بالاصابہ،حدیث۲۹۸ دارالکتب العلمیہ بیروت ص۱۱۶)

فان قلت ماحداک علی التقیید بقولک ”ولا سواک عندہ الان”مع ان ابن عدی والدار قطنی والبیھقی والضیاء فی المختارۃ رووا عن انس بسند قال الضیاء لااری بہ باسا ۱؎ اھ وقد ضعفہ ابن عدی والبیہقی وقال البخاری فــ فی روایۃ عن انس عبد الحکم القسملی منکر الحدیث ۲؎ وقال فی التقریب ضعیف ۳؎ انہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یجزئ من السواک الاصابع ورواہ البیھقی بطریق اخر وقال غیر محفوظ و نحوہ للطبرانی وابن عدی وابی نعیم عن ام المؤمنین الصدیقۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہا۔

اگر سوال ہو آپ نے یہ قیدکیوں لگائی کہ ”اوربروقت اس کے پاس مسواک موجودنہیں”۔ حالانکہ سرکار کی یہ حدیث موجود ہے کہ”انگلیاں مسواک کی جگہ کافی ہیں”۔ اسے ابن عدی، دارقطنی ، بیہقی نے اورضیاء مقدسی نے مختارہ میں حضرت انس سے روایت کیا،اس کی سند سے متعلق ضیاء نے کہا کہ میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا اھ۔ابن عدی اور بیہقی نے اسے ضعیف کہا۔اور امام بخاری نے اس حدیث کے حضرت انس سے روایت کرنے والے شخص عبدالحکم قسملی کو منکر الحدیث کہا۔اورتقریب میں اسے ضعیف کہا ۔ اور بیہقی نے ایک اور سند سے اس کو روایت کیا اور اسے غیرمحفوظ کہا۔اوراس کے ہم معنی طبرانی،ابن عدی اورابونعیم نے حضرت ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے روایت کی ہے۔

فــ:تضعیف عبد الحکم القسملی۔

(۱؎ المختارۃ فی الحدیث للضیاء)
(۲؎ میزان الاعتدال ترجمہ عبد الحکم بن عبد اللہ القسملی۴۷۵۴ دارالمعرفۃ بیروت ۲ /۵۳۶)
(السنن الکبری(للبیہقی) کتاب الطہارۃ،باب الاستیاک بالاصابع دار صادر بیروت ۱ /۴۰)
(۳؎ تقریب التہذیب حرف العین ترجمہ ۳۷۶۱ دارالکتب العلمیہ بیروت۱ /۵۳۳)
(۴؎ السنن الکبری(للبیہقی) کتاب الطہارۃ،باب الاستیاک بالاصابع دار صادر بیروت ۱ /۴۰)
(الکامل لابن عدی ترجمہ عبد الحکم بن عبداللہ القسملی دارالفکر بیروت ۵ /۱۹۷۱)
(کنزالعمال بحوالہ الضیاء حدیث ۲۷۱۸۸ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۳۱۵)

قلت : روی ابو نعیم فی کتاب السواک عن عمرو بن عوف المزنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم الاصابع تجزئ مجزی السواک اذا لم یکن سواک۱؎ وقداطبق فــ علماؤنا علی ھذا التقیید قال فی الحلیۃ لایقوم الاصبع مقام السواک عند وجودہ فان لم یوجد یقم مقامہ ذکرہ فی الکافی وغیرہ یعنی ینال ثوابہ کما ذکرہ فی الخلاصہ ۲؎ اھ وفی الغنیۃ لاتقوم الاصبع مقام العود عند وجودہ وتجویز بعض الشافعیۃ اصبع الغیر دون اصبع نفسہ تحکم بلا دلیل اھ ۳؎

میں کہوں گا ابونعیم نے کتاب السواک میں حضرت عمر وبن عوف مزنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: انگلیاں مسواک کی جگہ کافی ہوں گی جب مسواک نہ ہو۔ اور اس تقیید پر ہمارے علماء کا اتفاق ہے۔ حلیہ میں ہے کہ: مسواک موجود ہے توانگلی اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتی، اور موجود نہیں ہے تواس کے قائم مقام ہوجائے گی۔اسے کافی وغیرہ میں ذکرکیاہے۔ مراد یہ ہے کہ مسواک کا ثواب مل جائے گا جیسا کہ خلاصہ میں ذکرکیا ہے اھ۔ اورغنیہ میں ہے کہ لکڑی موجود ہے توانگلی اس کے قائم مقام نہ ہوسکے گی۔اور بعض شافعیہ کایہ کہنا کہ دوسرے کی انگلی بھی اپنی انگلی کی جگہ رواہے بلادلیل اور زبردستی کاحکم ہے اھ۔

فــ:مسئلہ مسواک موجود ہوتو انگلی سے دانت مانجنا ادائے سنت و حصول ثواب کے لئے کافی نہیں۔ہاں مسواک نہ ہو تو انگلی یا کھر کھرا کپڑا ادائے سنت کردے گا اور عورتوں کے لئے مسواک موجود ہو جب بھی مسّی کافی ہے۔

(۱؎ کنزالعمال بحوالہ ابو نعیم فی کتاب السواک،حدیث ۲۶۱۶۸ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۳۱۱)
(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
(۳؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی ومن الآداب ان یستاک سہیل اکیڈمی لاہور ص۳۳)

وفی الہندیۃ عن المحیط والظھیریۃ لاتقوم الاصبع مقام الخشبۃ فان لم توجد فحینئذ تقوم الاصبع من یمینہ مقام الخشبۃ ۱؎ اھ وفی الدر عند فقدہ اوفقد اسنانہ تقوم الخرقۃ الخشنۃ اوالاصبع مقامہ کما یقوم العلک مقامہ للمراۃ مع القدرۃ علیہ ۲؎ اھ وھو ماخوذ من البحر و زاد فیہ تقوم فی تحصیل الثواب لاعند وجودہ ۳؎ اھ

ہندیہ میں محیط اور ظہیریہ سے نقل ہے کہ انگلی، لکڑی کے قائم مقام نہیں ہوسکتی۔اگرمسواک موجودنہیں ہے تو داہنے ہاتھ کی انگلی اس کے قائم مقام ہوجائے گی۔اھ۔درمختارمیں ہے : مسواک نہ ہویا دانت نہ ہوں توکُھردرا کپڑا یا انگلی مسواک کے قائم مقام ہوجائے گی۔ جیسے عورت کو مسواک کی قدرت ہو جب بھی مسّی اس کے قائم مقام ہوجائے گی اھ۔ یہ کلام ، بحر سے ماخوذ ہے اور بحر میں مزیدیہ بھی ہے کہ انگلی تحصیلِ ثواب میں مسواک کے قائم مقام ہوجائے گی اور مسواک موجود ہوتونہیں اھ۔(ت)

(۱؎ الفتاوی الہندیۃ، کتاب الطہارۃ،سنن الوضوء،الفصل الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۷)
(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ،سنن الوضوء مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۱)
(۳؎ بحرالرائق کتاب الطہارۃ،سنن الوضوء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۱)

امام زیلعی نے قول اول اختیار فرمایا کما سیاتی نقلہ (جیساکہ اسکی نقل آئیگی۔ت) اور امام ابن امیر الحاج کے کلام سے اسکی ترجیح مفاد۔

حیث قال فی اٰداب الوضوء تحت قول المنیۃ وان یستاک بالسواک ان کان والا فبالاصبع کون الادب فی فعلہ ان یکون فی حالۃ المضمضۃ علی قول بعض المشائخ۴؎ اھ

اس طرح کہ انہوں نے آدابِ وضوکے بیان میں منیہ کی عبارت وان یستاک بالسواک(اور یہ کہ مسواک سے صفائی کرے) کے تحت فرمایا: اگر مسواک موجود ہوورنہ انگلی سے۔بعض مشائخ کے قول پراس کے استعمال میں مستحب یہ ہے کہ کُلی کرتے وقت ہو۔اھ۔(ت)

(۴؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

جس کا مفادفــ یہ ہے کہ اکثر علما قولِ اول پر ہیں، علامہ حسن شرنبلالی شرح وہبانیہ میں فرماتے ہیں: قولہ واعتاقہ بعض الائمۃ ینکر مفھومہ ان اکثر الائمۃ یجوّز ۱؎۔

”بعض ائمہ اس کی آزادی کا انکارکرتے ہیں”۔اس کامفہوم یہ ہے کہ اکثر ائمہ جائز کہتے ہیں۔(ت)

فـــ:ھذا قول بعض المشائخ مفادہ ان اکثرھم علی خلافہ۔

(۱؎ شرح الوہبانیہ)

اور یہ کہ قول فــ۱دوم نامعتمد ہے،ردالمحتار باب صفۃ الصلوٰۃ میں ہے : قولہ لاباس بہ عند البعض اشار بھذا الی ان ھذا القول خلاف المعتمد ۲؎۔

”بعض کے نزدیک حرج نہیں”یہ کہہ کرانہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کیاکہ یہ قول خلافِ معتمدہے۔(ت)

فــ۱:نسبۃ قول الی البعض تفید ان المعتمد خلافہ۔

(۲؎ رد المحتار کتاب الصلوٰۃ،فصل(فی بیان تألیف الصلوٰۃ الی انتہائہا) دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۳۳۲)

اور بحرالرائق میں دوم کو قولِ اکثر بتایا اور بہتر ٹھہرایا اور اُسی کے اتباع سے دُر مختار میں تضعیف اوّل کی طرف اشارہ کیا،

نہایہ وعنایہ وفتح میں دوم پر اقتصار فرمایا نہایہ وہندیہ میں ہے : الاستیاک ھو وقت المضمضۃ ۳؎۔

مسواک کرنا وقتِ مضمضہ ہے ۔(ت)

(۳؎الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ(الفصل االثانی فی سنن الوضوء) نورانی کتب خانہ پشاور ۱/ ۶۰)

عنایہ میں ہے: یستاک عرضا لاطولا عند المضمضمۃ ۴؎۔

کُلی کے وقت مسواک کرے گا دانتوں کی چوڑائی میں،لمبائی میں نہیں۔(ت)

(۴؎العنایۃ مع فتح القدیر کتاب الطہارات مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۲۱)

فتح القدیر میں ہے: قولہ والسواک ای الاستیاک عند المضمضۃ ۵؎۔

”اورمسواک کرنا”یعنی کُلّی کے وقت مسواک کرنا(ت)

(۵؎فتح القدیر کتاب الطہارات مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۲۲)

بحر میں ہے: اختلف فی وقتہ ففی النھایۃ وفتح القدیر انہ عند المضمضۃ وفی البدائع والمجتبی قبل الوضوء والاکثر علی الاول وھو الاولی لانہ الاکمل فی الانقاء ۱؎۔

وقتِ مسواک میں اختلاف ہے۔نہایہ اورفتح القدیرمیں ہے کہ یہ مضمضہ کے وقت ہے۔ بدائع اورمجتبٰی میں ہے کہ قبل وضو ہے۔اوراکثر اول پرہیں اور وہی اولٰی ہے کیونکہ صفائی میں یہ زیادہ کامل ہے۔(ت)

(۱ ؎ البحر الرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۰)

شرح نقایہ برجندی میں ہے: وعلیہ الاکثرون۲؎۔ اور اکثر اسی پر ہیں (ت)

(۲ ؎شرح نقایہ للبرجندی کتاب الطہارۃ نو لکشور لکھنؤ ۱/۱۶)

اقول: وباللہ التوفیق۔اوّلاً : یہ معلوم فــ ہو کہ دربارہ سواک کلمات علما مختلف ہیں کہ سنّت ہے یا مستحب۔ عامہ متون میں سنت ہونے کی تصریح فرمائی اور اسی پر اکثر ہیں صغیری میں اسی کو اصح کہا جوہرہ نیرہ ودُرمختار میں سنت مؤکدہ ہونے پر جزم کیا لیکن ہدایہ واختیار میں استحباب کو اصح اور تبیین و خیرمطلوب میں صحیح بتایا فتح میں اسی کو حق ٹھہرایا حلیہ وبحر نے اُن کا اتباع کیا۔

فــ:مسئلہ مسواک وضو کے لئے سنت یا مستحب ہونے میں ہمارے علماء کو اختلاف ہے اور اس بارہ میں مصنف کی تحقیق۔

علّامہ ابراہیم حلبی فرماتے ہیں: قد عدہ القدوری والاکثرون من السنن وھو الاصح۳؎۔

امام قدوری او ر اکثر حضرات نے اسے سنّت شمار کیا اوریہی اصح ہے۔(ت)

(۳؎ صغیری شرح منیۃ المصلی بحث سنن الوضوء مطبع مجتبائی دہلی ص۱۳)
(غنیۃ المستملی ومن الآداب ان یستاک سہیل اکیڈمی لاہور ص۳۲ )

ردالمحتار میں ہے: وعلیہ المتون۴؎ (اور اسی پر متون ہیں۔ت)

(۴؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۷۷ )

درمختار میں ہے: السواک سنۃ مؤکدۃ کما فی الجوھرۃ۵؎ مسواک سنّتِ مؤکدہ ہے، جیساکہ جوھرہ میں ہے۔(ت)

(۵؎ الدر المختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۱)

ہدایہ میں ہے: الاصح انہ مستحب۶؎ (اصح یہ ہے کہ وہ یہ مستحب ہے۔ ت)

(۶؎ الہدایۃ مع فتح القدیر کتاب الطہارۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۲۲ )

امام زیلعی فرماتے ہیں: الصحیح انھما مستحبان یعنی السواک والتسمیۃ لانھما لیسا من خصائص الوضوء۱؎

صحیح یہ ہے کہ دونوں- یعنی مسواک اور تسمیہ- مستحب ہیں،اس لئے کہ یہ دونوں وضوکی خصوصیات میں سے نہیں ہیں۔(ت)

(۱؎تبیین الحقائق کتاب الطہارۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۳۳)

محقق علی الاطلاق فرماتے ہیں: الحق انہ من مستحبات الوضوء ۲؎ حق یہ ہے کہ وہ مستحباتِ وضومیں سے ہے ۔(ت)

(۲؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۲۲)

امام ابن امیر الحاج بعد ذکر حدیث فرماتے ہیں: ھذا عند التحقیق انما یفید الاستحباب فلا جرم ان قال فی خیر مطلوب ھو الصحیح وفی الاختیار قالوا والا صح انہ مستحب۳؎

عند التحقیق ان سب کامفاد استحباب ہے۔یہی وجہ ہے کہ خیرمطلوب میں اسی کو صحیح کہا،اور ”اختیار”میں ہے کہ علماء نے فرمایا: اصح یہ ہے کہ وہ مستحب ہے۔(ت)

(۳؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

علامہ خیر الدین رملی قول بحر دربارہ استحباب نقلا عن الفتح ھو الحق (فتح سے نقل کیا گیا کہ وہ حق ہے۔ ت) پھر قولِ صغیری دربارہ سنیت ھو الاصح نقل کرکے فرماتے ہیں: فقد علم بذلک اختلاف التصحیح اھ کما فی المنحۃ۴؎

اس سے معلوم ہواکہ اس بارے میں اختلاف تصحیح ہے اھ جیسا کہ منحۃ الخالق میں ہے۔(ت)

اقول : جب تصحیح مختلف ہے تو متون پر عمل لازم کما نصوا علیہ (جیساکہ علماء نے اس فائدہ کی صراحت فرمائی ہے۔ت)قول سنیت کی ایک وجہ ترجیح یہ ہوئی۔

وجہ دوم : خود امام مذہب رضی اللہ عنہ سے سنیت پر نص وارد۔ امام عینی فرماتے ہیں:

المنقول عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ علی ماذکرہ صاحب المفید ان السواک من سنن الدین اھ نقلہ الشلبی۵؎ علی الکنز۔

امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ مسواک دین کی سُنّتوں میں سے ہے۔جیساکہ صاحبِ مفید نے یہ نقل ذکر کی ہے اھ۔اسے شلبی نے حاشیہ کنز میں نقل کیا۔(ت)

(۵؎ حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق کتاب الطہارۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۳۵ و ۳۶)

بلکہ ہمارے صاحب مذہب کے تلمیذ جلیل امام الفقہاء امام المحدثین امام الاولیاء سیدنا عبداللہ بن مبارک رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا: اگر بستی کے لوگ سنّیت مسواک کے ترک پر اتفاق کریں تو ہم اُن پر اس طرح جہاد کریں گے جیسا مرتدوں پر کرتے ہیں تاکہ لوگ اس سنّت کے ترک پر جرأت نہ کریں۔

فتاوٰی حجہ میں ہے: قال عبداللّٰہ بن المبارک لوان اھل قریۃ اجتمعوا علی ترک سنۃ السواک نقاتلھم کما نقاتل المرتدین کیلا یجترئ الناس علی ترک سنۃ السواک وھو من احکام الاسلام ۱؎۔

حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: اگرکسی بستی والے سب کے سب سنّتِ مسواک چھوڑدیں توہم ان سے اس طرح جنگ کریں گے جیسے مرتدین سے کرتے ہیں تاکہ لوگوں کوسنتِ مسواک کے ترک کی جسارت نہ ہوجب کہ یہ احکامِ اسلام میں سے ایک حکم ہے۔(ت)

(۱؎ الفتاوی الحجۃ)

حلیہ میں اسے نقل کرکے فرمایا: وھذا یفید انہ من سنن الدین کما حکاہ قولا فی المفید ولیس ببعید ۲؎۔

اس سے مستفاد ہوتاہے کہ یہ دین کی ایک سنت ہے جیسا کہ مفید میں بلفظہ یہی قول امام صاحب سے حکایت کیا، اور یہ بعید نہیں۔(ت)

(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

وجہ سوم : یہی اقوی من حیث الدلیل ہے کہ احادیث متوافرہ اُس کی تاکید اور اس میں قولاً وفعلاً اہتمام شدید پر ناطق جن سے کتبِ احادیث مملو ہیں بلکہ حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اُس پر مواظبت ومداومت گویا ضروریات وبدیہیات سے ہے ہر شخص کہ احوال قدسیہ پر مطلع ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اُس پر مداومت فرمانا جانتا ہے، خود ہدایہ میں فرمایا: والسواک لانہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کان یواظب علیہ ۳؎۔

اور مسواک کرنا اس لئے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس پر مداومت فرماتے تھے۔(ت)

(۳؎الہدایہ کتاب الطہارۃ المکتبۃ العربیہ کراچی ۱ /۶)

تبیین میں فرمایا : وقد واظب علیہ النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱؎۔ اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس پر مداومت فرمائی۔(ت)

(۱؎ تبیین الحقائق کتاب الطہارۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۳۵)

اسی طرح کافی امام نسفی وغیرہ میں ہے:۔ وسیرد وعلیک بقیۃ الکلام فی اتمام تقریب المرام بعون المک العلام (بعون ملک علام اس سے متعلق بقیہ کلام تقریب مقصود کی تکمیل میں آئے گا۔ت)

ثانیا : سنیت کو مواظبت درکار اب ہم وضو میں کُلّی کے وقت احادیث کو دیکھتے ہیں تو ہرگز اُس وقت مسواک پر مواظبت ثابت نہیں ہوتی۔ خود امام محقق علی الاطلاق کو اس کا اعتراف ہے اور اسی بنا پر قول استحباب اختیار فرمایا۔ فتح میں فرماتے ہیں: المطلوب مواظبتہ علیہ الصلوۃ والسلام عند الوضوء ولم اعلم حدیثا صریحا فیہ ۲؎۔

مطلوب یہ ہے کہ وضوکے وقت اس پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مداومت ثابت ہواورمیرے علم میں اس بارے میں کوئی صریح حدیث نہیں ہے۔(ت)

(۲؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۲۲)

اقول : بلکہ مواظبت درکنار چوبیس۲۴ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے صفتِ وضو قولاً وفعلاً نقل فرمائی:
(۱) امیر المومنین عثمان غنی (۲) امیر المومنین مولا علی (۳) عبداللہ بن عباس
(۴) عبداللہ بن زید بن عاصم (۵) مغیرہ بن شعبہ (۶) مقدام بن معدی کرب
(۷) ابو مالک اشعری (۸) ابو بکرہ نفیع بن الحارث (۹) ابو ہریرہ
(۱۰) وائل بن حجر (۱۱) نفیر بن مالک حضرمی (۱۲) ابو امامہ باہلی
(۱۳) انس بن مالک (۱۴) ابو ایوب انصاری (۱۵) کعب بن عمرو یامی
(۱۶) عبداللہ بن ابی اوفی (۱۷) براء بن عازب (۱۸) قیس بن عائذ
(۱۹) ام المومنین صدیقہ (۲۰) رُبیع بنت معّوذ بن عفراء (۲۱) عبداللہ بن اُنیس
(۲۲) عبداللہ بن عمرو بن عاص (۲۳) امیر معٰویہ (۲۴) رجل من الصحابہ لم یسم رضی اللہ عنہم اجمعین

اوّل کے بیس۲۰ علّامہ محدث جلیل زیلعی نے ذکر کئے اُن کے بعد کے دو۲ امام محقق علی الاطلاق نے زیادہ فرمائے اخیرکے دو اس فقیرغفر لہ نے بڑھائے اوران کے پچیسویں امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ہیں مگر ان سے خود اُن کے وضو کی صفت مروی ہے اگرچہ وہ بھی حکم مرفوع میں ہے، رواہ سعید بن منصور فی سننہ عن الاسود بن الاسود بن یزید قال بعثنی عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالی عنہ الی عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالی عنہ الحدیث۱؎ والحدیث قبلہ رواہ ابو بکر بن ابی شیبۃ والعدنی والخطیب عن رجل من الانصار ان رجلا قال الا اریکم کیف کان وضوء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم قالوا بلی الحدیث ۲؎وحدیث معٰویۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ عند ابن عساکر۔

اسے سعید بن منصور نے اپنی سُنن میں اسود بن اسود بن یزید سے روایت کیا۔وہ کہتے ہیں مجھے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس بھیجا۔اس کے بعدطریقہ وضوسے متعلق پُوری حدیث ہے۔اور اس سے قبل والی حدیث جسے ہم نے بتایا کہ ایک صحابی سے مروی ہے جن کا نام مذکور نہیں، اسے ابوبکربن ابی شیبہ اور عدنی اورخطیب نے روایت کیا ایک انصاری سے کہ ایک شخص نے کہامیں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کاوضونہ دکھاؤں؟لوگوں نے کہا کیوں نہیں!۔اس کے بعد باقی حدیث ہے۔ اورحضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث ابن عساکرنے روایت کی ہے۔(ت)

(۱؎ کنزالعمال بحوالہ ص عن الاسودبن الاسود حدیث ۲۶۹۰۲ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۴۴۶و۴۴۷)
(۲ کنزالعمال بحوالہ ش والعدنی وخط عن رجل حدیث ۲۶۸۶۵ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۴۳۷)

ان پچیس صحابہ کی بہت کثیر التعداد حدیثیں اس وقت فقیر کے پیش نظر ہیں ان میں کہیں وضو یا کُلّی کرتے میں مسواک فرمانے کا اصلاً ذکر نہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا طریقہ وضو زبان سے بتایا انہوں نے مسواک کا ذکر نہ کیا،جنہوں نے اسی لئے وضو کرکے دکھایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ مسنونہ بتائیں انہوں نے مسواک نہ کی علی الخصوص امیر المومنین ذوالنورین وامیر المومنین مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما کہ دونوں حضرات سے بوجوہ کثیرہ بارہا بکثرت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو کرکے دکھانا مروی ہوا،کسی بار میں مسواک کا ذکر نہیں۔

عثمان غنی سے راوی اُن کے مولٰی حمران ،عند احمد والبخاری ومسلم وابی داود والنسائی وابن ماجۃ وابن خزیمۃ والبزاروابی یعلی والعدنی وابن حبان والدار قطنی وابن بشران فی امالیہ وابی نُعیم فی الحلیۃ۔ابن الجارود عند الامام الطحاوی وابن حبان والبغوی فی مسند عثمان وسعید بن منصور۔ابو وائل شقیق بن سلمہ عند عبدالرزاق وابن منیع والدارمی وابی داؤد وابن خزیمۃ والدارقطنی۔ ابو دارہ عند احمد والدارقطنی والضیاء۔عبدالرحمٰن سلمانی عند البغوی فیہ۔عبداللّٰہ بن جعفر ابو علقمہ کلاھما عند الدارقطنی عبداللّٰہ بن ابی مُلکیہ عند ابی داؤد ابو مالک دمشقی عند سعید بن منصور قال حُدثت ابو النضر سالم عند ابن منیع والحارث وابی یعلی ولم یلق عثمٰن ۔

سیدناعثمان غنی سے ایک راوی ان کے آزاد کردہ غلام حمران ہیں جن کی روایت امام احمد، بخاری، مسلم ، ابو داؤد، نسائی،ابن ماجہ، ابن خزیمہ، بزار،ابویعلٰی، عدنی ، ابن حبان،دارقطنی،ابن بشران نے اپنی امالی میں اور ابو نعیم نے حلیۃ الاولیا میں ذکر کی ہے۔دوسرے راوی ابن الجارود ہیں جن کی روایت امام طحاوی،ابن حبان نے، بغوی نے مسندعثمان میں،اور سعید بن منصور نے ذکر کی ہے۔تیسرے راوی ابو وائل شقیق بن سلمہ ہیں جن کی روایت عبدالرزاق، ابن منیع، دارمی، ابو داؤد، ابن خزیمہ اور دارقطنی نے ذکرکی ہے۔ چوتھے راوی ابو دارہ ہیں جن کی روایت امام احمد،دارقطنی اور ضیاء نے ذکر کی ہے۔پانچویں راوی عبدالرحمان سلمانی ہیں جن کی روایت بغوی نے مسندِ عثمان میں ذکرکی ہے۔چھٹے راوی عبداللہ بن جعفر،ساتویں ابو علقمہ ہیں دونوں حضرات کی روایت دارقطنی نے ذکرکی ہے۔ آٹھویں راوی عبداللہ بن ابی مُلیکہ ہیں جن کی روایت ابو داؤد نے ذکر کی ہے۔نویں راوی ابو مالک دمشقی ہیں جن کی روایت سعیدبن منصور نے ذکرکی ہے وہ کہتے ہیں مجھ سے بیان کیاگیا۔دسویں راوی ابوالنضرسالم ہیں جن کی روایت ابن منیع، حارث اور ابویعلی نے ذکرکی ہے اور انہیں حضرت عثمان کی ملاقات حاصل نہیں۔(ت)

علی مرتضٰی سے راوی عبد خیر ، عندعبدالرزاق وابی بکربن ابی شیبۃ وسعیدبن منصوروالدارمی وابی داؤد والترمذی والنسائی وابن ماجۃ والطحاوی وابن منیع وابن خُزیمۃ وابی یعلی وابن الجارود وابن حبان والدارقطنی والضیاء ابوحیہ عند عبدالرزاق وابن ابی شیبۃ واحمد وابی داؤد الترمذی والنسائی وابی یعلی والطحاوی والھروی فی مسند علی والضیاء سیدنا امام حسین رضی اللّٰہ تعالی عنہ عند النسائی وابن جریرعبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالی عنہما عند احمد وابی داؤد وابی یعلی وابن خزیمۃ والطحاوی وابن حبان والضیاء زربن حُبَیش عند احمد وابی داؤد سمویہ والضیاء، ابو العریف عند احمد وابی یعلٰی، ابو مطر عند عبد بن حمید۔

حضرت علی مرتضٰی سے ایک راوی عبدخیر ہیں جن کی روایت عبدالرزاق، ابوبکربن ابی شیبہ، سعید بن منصور، دارمی، ابوداؤد، ترمذی، نسائی،ابن ماجہ،طحاوی،ابن منیع، ابن خزیمہ،ابو یعلی، ابن الجارود،ابن حبان،دارقطنی اورضیاء نے ذکر کی ہے۔دوسرے راوی ابوحیہ ہیں جن کی روایت عبدالرزاق ابن ابی شیبہ،امام احمد،ابوداؤد، ترمذی،نسائی،ابو یعلی، طحاوی اور ہروی نے مسند علی میں اور ضیاء نے ذکر کی ہے۔تیسرے راوی سیّدناامام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں جن کی روایت نسائی،طحاوی اورابن جریرنے ذکرکی ہے۔چوتھے راوی عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ہیں جن کی روایت امام احمد، ابوداؤد، ابو یعلی،ابن خزیمہ،امام طحاوی،ابن حبان اور ضیاء نے ذکر کی ہے۔پانچویں راوی زِربن حبیش ہیں جن کی روایت امام احمد، ابوداؤد، سمویہ اور ضیاء نے ذکر کی ہے۔ چھٹے راوی ابو العریف ہیں جن کی روایت امام احمداورابو یعلٰی نے ذکر کی ہے۔ ساتویں راوی ابو مطر ہیں جن کی روایت عبد بن حمید نے ذکر کی ہے۔

یوں ہی عبداللہ بن عباس وعبداللہ بن زیدرضی اللہ تعالٰی عنہم سے بھی احادیث کثیرہ بطریق عدیدہ مروی ہوئیں سب کی تفصیل باعثِ تطویل ان تمام حدیث کا ترک ذکر مسواک پر اتفاق تویہ بتارہا ہے کہ اس وقت مسواک نہ فرمانا ہی معتاد ورنہ کوئی تو ذکر کرتا۔

اقول : بلکہ صدہااحادیث متعلق وضو ومسواک اس وقت سامنے ہیں کسی ایک حدیث صحیح صریح سے اصلا مسواک کیلئے وقت مضمضہ یا داخل وضو ہونے کا پتہ نہیں چلتا جن بعض سے اشتباہ ہو اُس سے دفع شُبہ کریں۔

حدیث اوّل : محقق علی الاطلاق نے صرف ایک حدیث پائی جس سے اس پر استدلال ہوسکے: حیث قال بعد ذکراحادیث وفی الصحیحین قال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لولاان اشق علی امتی لامرتھم بالسواک مع کل صلاۃ اوعند کل صلاۃ وعند النسائی فی روایۃ عند کل وضوء رواہ ابن خُزیمۃ فی صحیحہ وصححہا الحاکم وذکرھا البخاری تعلیقا ولا دلالۃ فی شیئ علی کونہ فی الوضوء الاھذہ وغایۃ مایفید الندب وھولا یستلزم سوی الاستحباب اذیکفیہ اذاندب لشیئ ان یتعبد بہ احیانا ولا سنۃ دون المواظبۃ ۱؎۔

اس طرح کہ انہوں نے متعدد حدیثیں ذکر کرنے کے بعدلکھا: اور بخاری ومسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:اگرمیں اپنی امت پرگراں نہ جانتا توانہیں ہرنمازکے ساتھ،یا ہرنمازکے وقت مسواک کاحکم دیتا۔اور نسائی کی ایک روایت میں ہے: ہروضوکے وقت اسے ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا۔ حاکم نے اسے صحیح کہا اور امام بخاری نے اسے تعلیقاً ذکرکیا۔ان احادیث میں سے کسی میں مسواک کے وضوکے اندرہونے پرکوئی دلالت نہیں، مگرصرف اس روایت میں۔ اور یہ بھی زیادہ سے زیادہ ندب کاافادہ کررہی ہے اور یہ صرف استحباب کو مستلزم ہے اس لئے کہ اس میں یہ کافی ہے کہ حضور جب کسی چیز کی ترغیب دیں تو بعض اوقات اسے عبادت قرار دے دیں اورمسنون ہونا حضور کی مداومت کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔(ت)

(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ مکتبۃ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۲۲)

اُنھی کا اتباع اُن کے تلمیذ محقق حلبی نے حلیہ میں کیا۔

اقول اولا : احادیث فـــ میں مشہور ومستفیض یہاں ذکر نماز ہے یعنی لفظ: عند کل صلاۃ یا مع کل صلاۃ رواہ مالک واحمد ۱؎والستۃعـــہ عن ابی ھریرۃ ۔ یعنی لفظ ”ہر نماز کے وقت یا ہر نماز کے ساتھ”اسے امام مالک، امام احمد اور اصحابِ ستہ نےحضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا۔

فــ :تطفل علی الفتح والحلیۃ۔

(۱؎ مؤطا الامام مالک کتا ب الطہارۃ باب ماجاء فی السواک میرمحمدکتب خانہ کراچی ص۵۱)
(مسند الامام احمدبن حنبل عن ابی ھریرۃ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۴۲۵)
(صحیح البخاری کتاب الجمعہ باب السواک قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۲۲)
(صحیح مسلم کتاب الطہارۃ با ب السواک قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۲۸)

عــہ : قال الشوکانی فی نیل الاوطار قال النووی غلط بعض الائمۃ الکبار فزعم ان البخاری لم یخرجہ وھوخطأ منہ وقد اخرجہ من حدیث مالک عن ابی الزناد عن الاعرج عن ابی ھریرۃ ولیس ھو فی المؤطا من ھذا الوجہ بل ھو فیہ عن ابن شہاب عن حمید عن ابی ھریرۃ قال لولا ان ان اشق علی امتی لامرتھم بالسواک مع کل وضوء ولم یصرح برفعہ قال ابن عبدالبر وحکمہ الرفع وقد رواہ الشافعی عن مالک مرفوعا۲؎ ھذا کلامہ فی النیل ثم جعل یعد بعض ماورد فی الباب ولم یعلم ماانتھی الیہ کلام الامام النووی۔
اقول : لااظن قولہ لیس ھو فی المؤطا الخ من کلام الامام وھو خطأ فـــ اشد واعظم فان الحدیث فی المؤطا اولابعین السند المذکور فی البخاری رفعاثم متصلا بہ بالسند الاخر وقفا وقدروی ھذا ایضا معن ابن عیسٰی وایوب ابن صالح وعبدالرحمٰن بن مھدی وغیرھم عن مالک مرفوعا وھؤلاء کلھم من رواۃ المؤطا اھ منہ ۔

شوکانی نے نیل الاوطار میں لکھا کہ ۔امام نووی نے فرمایا: بعض ائمہ کبارنے غلطی سے یہ دعوٰی کیا کہ امام بخاری نے یہ حدیث روایت نہ کی، اوریہ دعوٰی غلط ہے۔ امام بخاری نے اسے امام مالک سے روایت کیاہے وہ ابوالزنادسے ، وہ اعرج سے ، وہ ابوہریرہ سے راوی ہیں۔ اور امام مالک کی موطا میں یہ حدیث اس سند کے ساتھ نہیں بلکہ اس میں ابن شہاب زہری سے روایت ہے وہ حمید سے،وہ ابوھریرہ سے راوی ہیں انہوں نے فرمایا:”اگر میں اپنی اُمت پر گراں نہ جانتا توانہیں ہر وضوکے ساتھ مسواک کا حکم دیتا”۔ اور اس کے مرفوع ہونے کی صراحت نہ کی۔ ابن عبدالبرنے کہا یہ مرفوع ہی کے حکم میں ہے۔ اوراسے امام شافعی نے امام مالک سے مرفوعاً روایت کیاہے۔ یہ نیل الاوطار کی عبارت ہے۔ا س کے بعداس باب میں وارد ہونے والی کچھ حدیثیں شمارکرانا شروع کردیا اوریہ نہ بتایا کہ امام نووی کاکلام کہاں ختم ہوا۔
اقول : میں نہیں سمجھتا کہ یہ الفاظ”اور امام مالک کی مؤطا میں یہ حدیث اس سندکے ساتھ نہیں الخ”۔امام نووی کے کلام میں ہوں جب کہ یہ بہت شدید اورعظیم خطا ہے اس لئے کہ یہ حدیث مؤطامیں پہلے بعینہ بخاری ہی کی ذکر کردہ سندکے ساتھ مرفوعاً ہے پھر اس سے متصل دوسری سندکے ساتھ موقوفاً ہے ۔اوراسے معن بن عیسٰے، ایوب بن صالح، عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہم نے بھی امام مالک سے مرفوعاً روایت کیا ہے اور یہ سب حـضرات مؤطا کے راوی ہیں ۱۲منہ۔ (ت)

(۲؎ نیل الاوطار ابواب السواک وسنن الفطرۃ باب الحث علی السواک مصطفی البابی مصر ۱ /۱۲۶)

فـــ : ردعلی الشوکانی ۔

واحمد وابو داؤد والنسائی والترمذی والضیا عن زید بن خالد۱؎۔ واحمد بسند جید عن ام المؤمنین زینب بنت جحش ۲؎ وکابن ابی خیثمۃ وابن جریرعن ام المؤمنین ام حبیبۃ۳؎۔ والبزاروسمویہ عن انس۱؎ وھما والطبرانی وابو یعلی والبغوی والحاکم عن سیدنا العباس۲؎ واحمد والبغوی والطبرانی وابو نعیم والباوردی وابن قانع والضیاء عن تمام بن العباس۳؎۔

امام احمد، ابوداؤد، نسائی، ترمذی اور ضیاء نے زید بن خالد سے روایت کیا۔ امام احمد نے بسندِجیّد ام المومنین زینب بنت جحش سے۔ اور ابن ابی خیثمہ وابن جریر کی طرح اُم المومنین ام حبیبہ سے روایت کیا۔ بزاروسمویہ نے حضرت انس سے ۔
بزاروسمویہ اور طبرانی، ابویعلی،بغوی اورحاکم نے سیدنا عباس سے ۔ امام احمد، بغوی ،طبرانی، ابو نعیم، باوردی،ابن قانع اور ضیاء نے تمام بن العباس سے۔

(۱؎مسند الامام احمد بن حنبل بقیہ حدیث زید بن خالدلجھنی المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۱۱۶)
(سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی السواک حدیث ۲۲ دارالفکر بیروت ۱/ ۹۹)
(سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب کیف یستاک آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۷)
(کنزالعمال بحوالہ حم ،ت والضیاء عن زید بن خالد الجھنی حدیث ۲۶۱۹۰ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹/ ۳۱۵)
(۲؎مسند الامام احمد بن حنبل حدیث زینب بنت جحش المکتب الاسلامی بیروت ۶ /۴۴۹)
(۳؎مسند الامام احمد بن حنبل حدیث ام حبیبہ بنت ابی سفیان المکتب الاسلامی بیروت ۶/ ۳۲۵)
(کنزالعمال بحوالہ ابن جریر حدیث ۲۶۲۰۳ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹ /۳۱۷)
(۱؎کنزالعمال بحوالہ البزار حدیث ۲۶۱۷۶ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹ / ۳۱۳
(کنزالعمال بحوالہ سمویہ حدیث ۲۶۲۰۷ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹/ ۳۱۷)
(۲؎المعجم الکبیر حدیث۲ ۱۳۰ المکتبہ الفیصلیہ بیروت ۲/ ۶۴)
(المستدرک للحاکم کتاب الطہارۃ اولاان اشق علی امتی الخ دارالفکر بیروت ۱/ ۱۴۶)
(۳؎المعجم الکبیر حدیث۳ ۱۳۰ المکتبہ الفیصلیہ بیروت ۲/ ۶۴)
(کنزالعمال بحوالہ حم والبغوی الخ حدیث ۲۶۲۱۱ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹/ ۳۱۸)

واحمد والباوردی عن تمام بن قثم۴؎ وصوبواکونہ عن العباس۔وعثمٰن بن سعید الدارمی فی الرد علی الجھمیۃ والدار قطنی فی احادیث النزول عن امیر المؤمنین علی۔۵؎ والطبرانی فی الکبیرعن ابن عباس ۶؎ وفی الاوسط کالخطیب عن ابن عمر ۷؎ وابو نعیم فی السواک عن ابن عمرو۸؎

امام احمد وباوردی نے تمام بن قثم سے روایت کیا اور بتایا کہ صحیح یہ ہے کہ یہ روایت حضرت عباس سے ہے۔ عثمان بن سعید دارمی نے الردعلی الجہمیہ میں، اور دارقطنی نے احادیث نزول میں امیرالمومنین حضرت علی سے۔ اور طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت ابن عباس سے ۔ اور معجم اوسط میں خطیب کی طرح حضرت ابن عمرسے۔ اور ابو نعیم نے سواک میں حضرت ابن عمر وسے۔

(۴؎کنزالعمال بحوالہ حم والبغوی الخ حدیث ۲۶۲۱۱ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹/ ۳۱۸)
(مسند الامام احمد بن حنبل حدیث قثم بن تمام اوتمام بن قثم الخ المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۴۴۲)
(۶؎المعجم الکبیر حدیث۲۵ ۱۱۱و۱۱۱۳۳ المکتبہ الفیصلیہ بیروت ۱۱/ ۸۵و۸۷)
(۷؎المعجم الاوسط حدیث ۸۴۴۳ مکتبہ المعار ف ریاض ۹ /۲۰۴)
(۸؎کنزالعمال بحوالہ ابی نعیم عن ابن عمر حدیث ۲۶۱۹۶ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹/ ۳۱۶)

و سعید بن منصور عن مکحول۱؎ وابو بکر بن ابی شیبۃ عن حسان ۲؎بن عطیۃ کلاھما مرسل۔

اور سعید بن منصورنے مکحول سے اور ابو بکربن ابی شیبہ نے حسان بن عطیہ سے روایت کی۔ یہ دونوں مرسل ہیں۔(ت)

(۱؎کنزالعمال بحوالہ ص عن مکحول حدیث ۲۶۱۹۵ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹/ ۳۱۶)
(۲؎المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الطہارات ماذکر فی السواک حدیث ۱۸۰۳ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/ ۱۵۷)

اور بعض میں ذکر وضو ہے یعنی : مع کل وضوء یا عندکل وضوء رواہ الائمۃ مالک والشافعی واحمد والنسائی وابن خزیمۃ وابن حبان والحاکم والبیھقی عن ابی ھریرۃ ۳؎

ہر وضو کے ساتھ یا ہر وضوکے وقت ۔اسے امام مالک، امام شافعی،امام احمد،نسائی،ابن خزیمہ،ابن حبان ، حاکم اوربیہقی نے حضرت ابوہریرہ سے ۔

(۳؎مؤطاالامام مالک لابن ابی شیبہ کتاب الطہارۃ باب ماجاء فی السواک میرمحمد کتب خانہ کراچی ص۵۱)
(الام للشافعی کتاب الطہارۃ باب السواک دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۷۵)
(مسند الامام احمد بن حنبل عن ابی ھریرہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۲۴۵)
(سنن النسائی کتاب الطہارۃ الرخصۃ فی السواک الخ نورمحمدکارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۶)
(صحیح ابن خزیمہ حدیث ۱۴۰ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۷۳)
(المستدرک للحاکم کتاب الطہارۃ دارلفکربیروت ۱ /۱۴۶)
(السنن الکبری للبیہقی کتاب الطہارۃ باب الدلیل علی ان السواک الخ دارصادربیروت ۱ /۳۶)

والطبرانی فی الاوسط بسند حسن عن علی ۴؎ وفی الکبیر عن تمام بن العباس ۵؎ وابن جریر عن زید بن خالد ۶؎رضی اللّٰہ تعالی عنہم اجمین۔

اور طبرانی نے معجم اوسط میں بسندِ حسن حضرت علی سے ۔ اورمعجم کبیر میں تمام بن عباس سے۔ اور ابن جریرنے زید بن خالد سے روایت کی۔رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔(ت)

(۴؎المعجم الاوسط حدیث ۱۲۶۰ مکتبۃ المعارف بیروت ۲ /۱۳۸)
(۵؎المعجم الکبیر حدیث ۱۳۰۲ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲ /۶۴)
(۶؎ کنزالعمال بحوالہ ابن جریر عن زید بن خالد حدیث ۲۶۱۹۹ موسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۳۱۶ )

جب روایات متواترہ میں عند کل صلاۃ یا مع کل صلاۃ آنے سے ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے نزدیک نماز سے اتصال بھی ثابت نہ ہوا بلکہ اتصال حقیقی اصلا کسی کا قول نہیں حتی کہ شافعیہ جو اُسے سننِ نماز سے مانتے ہیں تو بعض روایات میں عند کل وضوء آنے سے داخل وضو ہوناکیونکر رنگ ثبوت پائے گا۔ فلیست فــ عند لجعل مدخولہاظرفا لموصوفہا بحیث یقع فیہ انما مفادھا القرب والحضور حسا اومعنی فلا تقول زید عند الدار اذا کان فیہا بل اذا کان قریبا منھا والقرب المفہوم ھو العرفی دون الحقیقی ولہ عرض عریض الاتری الی قولہ تعالی عند سدرۃ المنتھی عندھا جنۃ المأوی ۱؎ مع ان السدرۃ فی السماء السادسۃ کما فی صحیح مسلم عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۲؎ والجنۃ فوق السمٰوٰت ۔

کیونکہ لفظ ”عند”یہ بتانے کے لئے نہیں کہ اس کا مدخول اس کے موصوف کاایساظرف ہے کہ وہ اسی کے اندرواقع ہے بلکہ اس کا مفاد صرف قریب اور حاضرہوناہے حسّاً یا معنًی۔زید عندالدار(زید گھر کے پاس ہے)اُس وقت نہیں بولتے جب زید گھر کے اندر ہو بلکہ اس وقت بولتے ہیں جب گھر سے قریب ہو۔اوریہاں جو قریب سمجھاجاتاہے وہ عرفی ہوتاہے حقیقی نہیں ہوتا۔اور قرب عرفی کا میدان بہت وسیع ہے۔ دیکھئے باری تعالٰی کا ارشاد ہے:”سدرۃ المنتہٰی کے پاس،اسی کے پاس جنۃ الماوٰی ہے”۔حالاں کہ سدرہ چھٹے آسمان میں ہے۔ جیساکہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔اور جنت آسمانوں کے اوپرہے۔

فـــ : بیان مفاد عند۔

(۱؎القرآن الکریم ۵۳ /۱۴و۱۵)
(۲؎صحیح مسلم کتاب الایمان باب الاسراء الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۹۷)
وبما قررنا ظھرضعف ماوقع فی عمدۃ القاری تحت الحدیث فیہ اباحۃ السواک فی المسجد لان عند یقتضی الظرفیۃ حقیقۃ فیقتضی استحبابہ فی کل صلاۃ وعند بعض المالکیۃ کراھتہ فی المسجد لاستقذارہ والمسجد ینزہ عنہ ۱؎ اھ۔

وبما قررنا ظھرضعف ماوقع فی عمدۃ القاری تحت الحدیث فیہ اباحۃ السواک فی المسجد لان عند یقتضی الظرفیۃ حقیقۃ فیقتضی استحبابہ فی کل صلاۃ وعند بعض المالکیۃ کراھتہ فی المسجد لاستقذارہ والمسجد ینزہ عنہ ۱؎ اھ۔

ہماری اس تقریر سے اس کا ضُعف واضح ہوگیاجوعمدۃ القاری میں اس حدیث کے تحت رقم ہوگیاکہ:اس سے مسجد کے اندرمسواک کرنے کا جواز ثابت ہوتاہے، اس لئے کہ ”عند” حقیقۃً ظرفیت چاہتاہے تواس کا تقاضایہ ہوگاکہ مسواک ہرنمازکے اندرمستحب ہو۔ اور بعض مالکیہ کے نزدیک یہ ہے کہ مسجد میں مسواک کرنامکروہ ہے کیونکہ اس سے گندگی ہوگی اور مسجدکواس سے بچایاجائے گااھ۔

(۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الجمعہ باب السواک یوم الجمعۃ تحت حدیث ۸۸۷دارالکتب العلمیہ بیروت۶ /۲۶۳)

اقول اولا : فــ۱حقیقۃالظرفیۃغیر معقولۃ فی الصّلوٰۃ ولا ھی مفاد عند کما علمت۔

اقول : ا س پرچند کلام ہیں، اول : نماز کے اندرحقیقی ظرفیت کاتصورنہیں ہوسکتااوریہ ”عند”کا مفاد بھی نہیں جیساکہ ابھی واضح ہوا۔

فــ۱:تطفل علی الامام العینی ۔

وثانیا : قد قال فــ۲الامام العینی نفسہ قبل ھذا بورقۃ مانصہ فان قلت کیف التوفیق بین روایۃ عند کل وضوء وروایۃ عند کل صلاۃ قلت السواک الواقع عند الوضوء واقع للصلاۃ لان الوضوء شرع لہا ۲؎ اھ۔

دوم : اس سے ایک ورق پہلے خود امام عینی یہ لکھ چکے ہیں: اگرسوال ہوکہ عندکل وضوء کی روایت اور عند کل صلوٰۃ کی روایت میں تطبیق کیسے ہوگی؟ تومیں کہوں گا: وضو کے وقت ہونے والی مسواک نماز کے لئے بھی واقع ہے اس لئے کہ وضو نماز ہی کے لئے مشروع ہواہے اھ۔

فــ۲:تطفل آخرعلیہ ۔

(۲؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الجمعہ باب السواک یوم الجمعۃ تحت حدیث ۸۸۷دارالکتب العلمیہ بیروت۶ /۲۶۰)

وثالثا : کیف فــ۳یباح الاستیاک فــ۴ فی المسجد مع حرمۃ المضمضۃ والتفل فیہ والسواک یستعمل مبلولا ویستخرج الرطوبات فلا یؤمن ان یقطر منھا شیئ وکل ذلک لایجوز فی المسجد الا ان یکون فی اناء اوموضع فیہ معد لذلک من حین البناء کما بیناہ فی فتاوٰنا۔

سوم : مسجدمیں مسواک کرنا،جائزکیسے ہوگا جب اس میں کُلی کرنااور تھوکناحرام ہے ۔اورمسواک ترکرکے استعمال ہوتی ہے اورمنہ سے رطوبتیں بھی نکالتی ہے جن میں سے کچھ مسجد میں ٹپکنے کابھی اندیشہ ہے اور یہ سب مسجد میں جائز نہیں مگریہ کہ کسی برتن کے اندر ہویا کوئی ایسی جگہ ہو جو تعمیر مسجدکے وقت ہی سے اسی لئے بنارکھی گئی ہو۔جیسا کہ اسے ہم نے اپنے فتاوٰی میں بیان کیاہے۔

فــ۳:تطفل ثالث علیہ ۔
فــ۴:مسئلہ مسجد میں مسواک کرنی نہ چاہیے ۔مسجد میں کلی کرناحرام مگریہ کہ کسی برتن میں یابانی مسجد نے وقت بنا ئے مسجداس میں کوئی جگہ خاص اس کام کے لئے بنادی ہوورنہ اجازت نہیں ۔

و رابعا : ما ذکرہ فــ۱لیس قول بعض المالکیۃ بل قول امام دارالھجرۃنفسہ حکاہ عند القرطبی فی المفھم کما فی المواھب اللدنیۃ۔

چہارم : جو انہوں نے ذکرکیا وہ بعض مالکیہ کاقول نہیں بلکہ خودامام دارالہجرۃ کا قول ہے ان سے قرطبی نے المفہم میں اس کی حکایت کی ہے ، جیساکہ مواہب لدنیہ میں ہے۔

فــ۱:تطفل رابع علیہ ۔

ثانیا : عند الوضوء فــ۲ میں خصوصیت وقت مضمضہ بھی نہیں تو حدیث اگر بوجہ عدم افادہ مواظبت سنیت ثابت نہ کرے گی بوجہ عدم تعین وقت استحباب عند المضمضہ بھی نہ بتائے گی فافہم۲میں خصوصیت وقت مضمضہ بھی نہیں تو حدیث اگر بوجہ عدم افادہ مواظبت سنیت ثابت نہ کرے گی بوجہ عدم تعین وقت استحباب عند المضمضہ بھی نہ بتائے گی فافہم

فــ۲:تطفل آخرعلی الفتح ۔

حدیث دوم : طبرانی اوسط میں ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان العبداذا غسل رجلیہ خرجت خطایاہ واذا غسل وجہہ وتمضمض وتشوص واستنشق ومسح براسہ خرجت خطایا سمعہ وبصرہ ولسانہ واذا غسل ذراعیہ وقدمیہ کان کیوم ولدتہ امہ ۱؎۔

بے شک بندہ جب اپنے پاؤں دھوتاہے اُس کے گناہ دورہوجاتے ہیں اورجب مُنہ دھوتااورکُلی کرتادھوتا مانجھتاپانی سونگھتاسرکا مسح کرتاہے اس کے کانوں ، آنکھوں اور زبان کے گناہ نکل جاتے ہیں،اورجب کلائیاں اورپاؤں دھوتاہے ایسا ہوجاتاہے جیسا اپنی ماں سے پیدا ہوتے وقت تھا۔

(۱؎المعجم الاوسط حدیث ۴۳۹۴ مکتبۃ المعارف ریاض ۵ /۲۰۲)
(کنز العمال حدیث ۲۶۰۴۸ موسسۃ الرسالۃ بیروت ۹ /۲۸۹)

اقول اولا : شوص دھونا اور پاک کرنا ہے کما فی الصحاح (جیساکہ صحاح میں ہے ۔ت)

وقال الرازی: الشوص الغسل والتنظیف ۲؎ اھ

شوص کے معنے دھونا اورصاف کرناہے اھ۔(ت)

(۲؎ الصحاح( للجوہری) با ب الصاد فصل الشین داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۸۷۶)

وفی القاموس الدلک بالید ومضغ السواک والاستنان بہ اوالا ستیاک ووجع الضرس والبطن والغسل والتنقیۃ ۱؎۔

اور قاموس میں ہے: ہاتھ سے ملنا۔مسواک چبانا اور اس سے دانت مانجنا۔یامسواک کرنا۔ڈاڑھ اور پیٹ کادرد ۔ دھونا اور صاف کرنا۔(ت)

(۱؎ القاموس المحیط باب الصاد فصل الشین مصطفی البابی مصر ۲ /۳۱۸)

ثانیا : حدیث میں افعال بترتیب نہیں تو ممکن کہ مسواک سب سے پہلے ہو اور یہی حدیث کہ امام احمد نے بسند حسن مرتباً روایت کی اس میں ذکر شوص نہیں، اس کے لفظ یہ ہیں: عن ابی امامۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم قال ایما رجل قام الی وضوئہ یرید الصلاۃ ثم غسل کفیہ نزلت کل خطیئۃ من کفیہ مع اول قطرۃ فاذا مضمض واستنشق واستنثر نزل کل خطیئۃ من لسانہ وشفتیہ مع اول قطرۃ فاذا غسل وجہہ نزلت کل خطیئۃ من سمعہ وبصرہ مع اول قطرۃ فاذا غسل یدہ الی المرفقین ورجلہ الی الکعبین سلم من کل ذنب کھیاۃ یوم ولدتہ امہ ۲؎۔ (حضرت ابی امامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:)جب آدمی نماز کے ارادے سے وضو کواٹھے پھر ہاتھ دھوئے توہاتھ کے سب گناہ پہلے قطرہ کے ساتھ نکل جائیں،پھر جب کُلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے اور صاف کرے زبان ولب کے سب گناہ پہلی بوند کے ساتھ ٹپک جائیں،پھر جب منہ دھوئے آنکھ کان کے سب گناہ پہلے قطرہ کے ساتھ اُترجائیں، پھر جب کُہنیوں تک ہاتھ اور گٹّوں تک پاؤں دھوئے سب گناہوں سے ایساخالص ہوجائے جیساجس دن ماں کے پیٹ سے پیداہواتھا۔

(۲؎ مسند احمد بن حنبل عن ابی امامۃ الباہلی المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۲۶۳)

فائدہ: فــ یہ نفیس وعظیم بشارت کہ امت محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر رب عزوجل کا عظیم فضل اور نمازیوں کیلئے کمال تہنیت اور بے نمازوں پر سخت حسرت ہے بکثرت احادیث صحیحہ معتبرہ میں وارد ہوئی اس معنی کی حدیثیں حدیث ابو امامہ کے علاوہ صحیح مسلم شریف میں امیر المومنین عثمٰن عـ۱ غنی وابو ہریرہ عــ۲ وعمرو بن عــ۳ عبسہ اور مالک واحمد ونسائی وابن ماجہ وحاکم کے یہاں عبداللہ صنابحی اور طحاوی ومعجم کبیر طبرانی میں عباد والد ثعلبہ اور مسند احمد میں مرہ بن کعب اور مسند مسددو ابی یعلی میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہم سے مروی ہیں ان میں حدیث صنابحی وحدیث عمرو سب سے اتم ہیں کہ ان میں ناک کے گناہوں کا بھی ذکر ہے اور مسحِ سر کرنے سے سر کے گناہ نکل جانے کا بھی۔

فــ : وضوسے گناہ دھلنے کی حدیثیں۔
عــ۱ : رواہ ایضااحمد وابن ماجۃ ۱۲منہ ۔
عــ۱ : اوراسے امام احمد وابن ماجہ نے بھی روایت کیا۱۲منہ (ت)۔
عــ۲ : ورواہ ایضامالک والشافعی والترمذی والطحاوی ۱۲منہ۔
عــ۲ : اوراسے اما م مالک،اما م شافعی اورترمذی وطحاوی نے بھی روایت کیا۱۲منہ (ت)
عــ۳: ورواہ ایضا احمدوابوبکر بن ابی شیبۃ والامام الطحاوی والضیاء وھوعند الطبرانی فی الاوسط مختصراوابن زنجویۃ بسندصحیح ۱۲منہ ۔
عــ۳ : اوراسے امام احمد ابوبکربن ابی شیبہ ،امام طحاوی اورضیاء نے بھی روایت کیااوریہ طبرانی کی معجم اوسط میں مختصرا اورابن زنجویۃ کے یہاں بسندصحیح مروی ہے ۱۲منہ (ت)

ففی الاول اذا استنثر خرجت الخطایا من انفہ ثم قال بعد ذکر الوجہ والیدین فاذا مسح رأسہ خرجت الخطایا من رأسہ حتی تخرج من اذنیہ۱؎

حدیث صنابحی میں یہ ہے:”جب ناک صاف کرے توناک کے گناہ گرجائیں”۔پھر چہرہ اور دونوں ہاتھوں کے ذکر کے بعد ہے:”پھراپنے سرکامسح کرے تو اس کے سر سے گناہ نکل جائیں یہاں تک کہ کانوں سے بھی نکل جائیں”۔

(۱؎کنز العمال بحوالہ مالک ،حم،ن،ھ،ک حدیث۲۶۰۳۳ مؤسسۃ الرسالۃبیروت ۹ /۲۸۵)
(مؤطا الامام مالک کتاب الطہارۃ،باب جامع الوضوء میر محمد کتب خانہ کراچی ص۲۱)
(مسند احمد بن حنبل حدیث ابی عبد اللہ الصنابحی المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۳۴۸ و ۳۴۹)
(سنن النسائی کتاب الطہارۃ،باب مسح الاذنین مع الرأس نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۲۹)
(المستدرک للحاکم کتاب الطہارۃ دار الفکر بیروت ۱ /۱۲۹)

وفی الثانی مامنکم رجل یقرب وضوء ہ فیتمضمض ویستنشق ویستنثر الاخرجت خطایا وجہہ من فیہ وخیاشمہ ثم قال بعد ذکر الوجہ والیدین ثم یمسح رأسہ الاخرجت خطایا رأسہ من اطراف شعرہ مع الماء ۱؎۔

اورحدیثِ عمرو میں ہے :”تم میں جوبھی وضو کے لئے جاکر کُلی کرے ناک میں پانی ڈالے اور جھاڑ ے تواس کے چہرے کے گناہ منہ سے اور ناک کے بانسوں سے نکل پڑیں”۔پھرچہرہ اور دونوں ہاتھوں کے ذکرکے بعد ہے:” پھراپنے سرکامسح کرے تواس کے سر کے گناہ بال کے کناروں سے پانی کے ساتھ گرجائیں”۔(ت)

(۱؎ کنزالعمال بحوالہ مالک ،حم ،م حدیث ۲۶۰۳۵ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹ /۲۸۶)
(صحیح مسلم کتاب صلوۃالمسافرین،باب اسلام عمروبن عبسۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۷۶)

بہت علماء فرماتے ہیں یہاں گناہوں سے صغائر مراد ہیں۔

اقول: تحقیق یہ ہے کہ کبائر بھی دُھلتے ہیں اگرچہ زائل نہ ہوں یہ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ اکابر اولیائے کرام قدست اسرارہم کا مشاہدہ ہے جسے فقیر نے رسالہ ”الطرس المعدل فی حدالماء المستعمل(۱۳۲۰ھ)” میں ذکر کیا اور کرم مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بحرِ بے پایاں ہے حدث عن البحر ولاحرج والحمدللّٰہ رب العٰلمین (بحرسے بیان کیا،اس میں کوئی حرج نہیں والحمدللہ رب العلمین ۔ت)اور بات وہ ہے جو خود مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت بیان کرکے ارشاد فرمائی کہ لاتغتروا اس پر مغرور نہ ہونا رواہ البخاری۲؎عن عثمٰن ذی النورین رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم وحسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل۔

(۲؎ صحیح البخاری کتاب الرقاق باب یایہاالناس ان وعد اللہ حق…الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۵۲)

حدیث سوم : سنن بیہقی میں ہے: عن عبداللّٰہ بن المثنی قال حدثنی بعض اھل بیتی عن انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رجلا من الانصار من بنی عمرو بن عوف قال یا رسول اللّٰہ انک رغبتنا فی السواک فھل دون ذلک من شیئ قال اصبعک سواک عند وضوء ک تمر بھا علی اسنانک انہ لاعمل لمن لانیۃ لہ ولا اجر لمن لاخشیۃ لہ ۱؎۔

عبداللہ بن المثنی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں مجھے میرے گھر والوں میں سے کسی نے بیان کیاکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ بنی عمرو بن عوف سے ایک انصاری نے عرض کی یارسول اللہ! حضورنے مسواک کی طرف ہمیں ترغیب فرمائی کیااس کے سوابھی کوئی صورت ہے؟ فرمایا: وضوکے وقت تیری انگلی مسواک ہے کہ اپنے دانتوں پرپھیرے،بیشک بے نیت کے کوئی عمل نہیں اوربے خوف الہٰی کے ثواب نہیں۔

(۱؎ السنن الکبری کتاب الطہارۃ،باب الاستیاک بالاصابع دارصادربیروت ۱ /۴۱)

اقول اولاً : یہ حدیث ضعیف ہے لما تری من الجہالۃ فی سندہ وقد ضعفہ البیہقی۔ (جیساکہ تو دیکھتا ہے اس کی سند میں جہالت ہے،اور امام بیہقی نے اسے ضعیف کہا ہے۔ت)

ثانیا و ثالثاً : لفظ عند وضوء ک میں وہی مباحث ہیں کہ گزرے۔

حدیث چہارم : ایک حدیث مرسل میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: الوضوء شطر الایمان والسواک شطر الوضوء رواہ ابو بکر بن ابی شیبۃ۲؎ عن حسان بن عطیۃ و رستۃ فی کتاب الایمان عنہ بلفظ السواک نصف الوضوء والوضوء نصف الایمان۳؎ ۔

وضوایمان کا حصّہ ہے اور مسواک وضوکاحصہ ہے۔اس کو ابوبکربن ابی شیبہ نے حسان بن عطیہ سے روایت کیا،اور رستہ نے اس کو ان سے کتاب الایمان میں ان الفاظ سے روایت کیاکہ:مسواک نصف وضو ہے اور وضونصف ایمان۔(ت)

(۲؎ المصنّف لابن ابی شیبہ ماذکر فی السواک حدیث ۱۸۰۳ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۱۵۷)
(۳؎ الجامع الصغیر(للسیوطی ) بحوالہ رستۃ حدیث ۴۸۳۵ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲ /۲۹۷)

اقول : یعنی ایمان بے وضو کامل نہیں ہوتا اور وضو بے مسواک۔اس سے مسواک کا داخل وضو ہونا ثابت نہیں ہوتا جس طرح وضو داخل ایمان نہیں ہاں وجہ تکمیل ہونا مفہوم ہوتا ہے وہ ہر سنت کیلئے حاصل ہے قبلیہ ہو یا بعدیہ جس طرح صبح و ظہر کی سنتیں فرضوں کی مکمل ہیں واللہ تعالٰی اعلم۔

ثالثا اقول : جب محقق ہو لیا کہ مسواک سنّت ہے اور ہمارے علما اُسے سنّتِ وضو مانتے اور شافعیہ کے ساتھ اپنا خلاف یونہی نقل فرماتے ہیں کہ اُن کے نزدیک سنّتِ نماز ہے اور ہمارے نزدیک سنّتِ وضو اور متون مذہب قاطبۃًیک زبان یک زبان صریح فرمارہے ہیں کہ مسواک سننِ وضو سے ہے تو اُس سے عدول کی کیا وجہ ہے،سنّتِ شے قبلیہ ہوتی ہے یا بعدیہ یا داخلہ جیسے رکوع میں تسویہ ظہر۔ مگر روشن بیانوں سے ثابت ہواکہ مسواک وضو کی سنت داخلہ نہیں کہ سنت بے مواظبت نہیں اور وضو کرتے میں مسواک فرمانے پر مداومت درکنار اصلا ثبوت ہی نہیں اور سنت بعدیہ نہ کوئی مانتا ہے نہ اس کا محل ہے کہ مسواک سے خون نکلے تو وضو بھی جائے۔

بحرالرائق میں ہے: وعللہ السراج الھندی فی شرح الھدایۃ بانہ اذا استاک للصلاۃ ربما یخرج منہ دم وھو نجس بالاجماع وان لم یکن ناقضا عندالشافعی رضی اللّٰہ تعالی عنہ۱؎ ۔

اور سراج ہندی نے اپنی شرح ہدایہ میں اس کی علّت یہ بیان فرمائی کہ جب نماز کے لئے وضوکرے گاتوبعض اوقات اس سے خون نکل جائے گا۔ اوریہ بالاجماع نجس ہے اگرچہ امام شافعی کے نزدیک ناقضِ وضو نہیں۔(ت)

(۱؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ ،سنن الوضوء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۰)

لاجرم ثابت ہواکہ سنت قبلیہ ہے اوریہی مطلوب تھااورخود حدیث صحیح مسلم اس کی طرف ناظر،اورحدیث ابی داؤد اس میں نص ۔ کما تقدم اما تعلیل التبیین عدم استنانہ فی الوضوء بانہ لایختص بہ ۔ جیسا کہ گزرا،مگر تبیین میں مسواک کے سنتِ وضونہ ہونے کی علّت یہ بتانا کہ مسواک وضو کے ساتھ خاص نہیں۔(ت)

اقول اولا : لا یلزم فـــ۱ لسنۃ الشیئ الاختصاص بہ الا تری ان ترک اللغوسنۃ مطلقا ویتأکد استنانہ للصائم والمحرم والمعتکف والتسمیۃ کمالا تختص بالوضوء لاتختص بالاکل ولا یسوغ انکار انھا سنۃ للاکل،وثانیا اذافـــ۲ واظب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی شیئ فی شیئین فہل یکون ذلک سنۃ فیہما او فی احدھما اولا فی شیئ منھما الثالث باطل و الا یختلف المحدود مع صدق الحد وکذا الثانی مع علاوۃ الترجیح بلا مرجح فتعین الاول وثبت ان الاختصاص لایلزم الاستنان۔

اقول : اس پر اوّلا یہ کلام ہے کہ سنّتِ شَے ہونے کے لئے یہ لازم نہیں کہ اس شَے کے ساتھ خاص بھی ہو۔دیکھئے ترک لغومطلقاً سنت ہے اورروزہ درا،صاحبِ احرام اورمعتکف کے لئے اس کامسنون ہونااورمؤکّد ہو جاتاہے۔ اورتسمیہ جیسے وضو کے ساتھ خاص نہیں کھانے کے ساتھ بھی خاص نہیں مگر تسمیہ کے کھانے کی سنت ہونے سے انکارکی گنجائش نہیں۔دوسرا کلام یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کسی عمل پردوچیزوں کے اندر مواظبت فرمائیں تووہ ان دونوں میں سنت ہوگا یاایک میں ہوگایاکسی میں نہ ہوگا۔تیسری شق باطل ہے ورنہ لازم آئے گا کہ تعریف صادق ہے اور مُعَرَّف صادق ہی نہیں۔یہی خرابی دوسری شق میں بھی لازم آئے گی،مزیدبرآں ترجیح بلامرجّح بھی۔توپہلی شق متعین ہوگئی اورثابت ہوگیا کہ سنت ہونے کے لئے خاص ہونا لازم نہیں۔

فـــ۱:تطفل علی الامام الزیلعی ۔
فـــ۲:تطفل آخرعلیہ ۔

اما ما فی عمدۃ القاری اختلف العلماء فیہ فقال بعضھم انہ من سنۃ الوضوء وقال اخرون انہ من سنۃ الصلاۃ وقال اخرون انہ من سنۃ الدین وھو الاقوی نقل ذلک عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۱؎ اھ ذکرہ فی باب السواک من ابواب الوضوء زاد فی باب السواک یوم الجمعۃ ان المنقول عن ابی حنیفۃ انہ من سنن الدین فحینئذ یستوی فیہ کل الاحوال ۲؎ اھ۔

اب رہا وہ جو عمدۃ القاری میں ہے:اس کے بارے میں علماء کااختلاف ہے،بعض نے فرمایا سنتِ وضوہے بعض دیگر نے کہاسنتِ نماز ہے۔اور کچھ حضرات نے فرمایاسنتِ دین ہے، اوریہی زیادہ قوی ہے،یہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے اھ،یہ علامہ عینی نے ابواب الوضو کے باب السواک میں ذکرکیا،اور باب السواک یوم الجمعہ میں اتنا اضافہ کیا:امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ”مسواک دین کی سنتوں میں سے ہے”۔تو اس میں تمام احوال برابر ہوں گے اھ۔

(۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الوضوء ،باب السواک تحت حدیث ۲۴۴ دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۲۷۴)
(۲؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الجمعۃ،باب السواک…الخ تحت حدیث ۸۸۷ دارالکتب العلمیہ بیروت ۶ /۲۶۱)

اقول : یؤیدہ حدیث الدیلمی عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم السواک سنۃ فاستاکوا ای وقت شئتم۳؎ ۔

اقول : اس کی تائید دیلمی کی اس حدیث سے ہوتی ہے جوحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:مسواک سنت ہے توتم جس وقت چاہومسواک کرو۔

(۳؎ کنزالعمال بحوالہ فر حدیث ۲۶۱۶۳ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۳۱۱)

ولکن اوَّلاً : لاکونہ فــ۱ سنۃ فی الوضوء ینفی کونہ من سنن الدین بل یقررہ ولاکونہ سنۃ مستقلۃ ینافی کونہ من سنن الوضوء کما قررنا الا تری ان الماثور عنہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ انہ من سنن الدین واطبقت حملۃ عرش مذھبہ المتین المتون انہ من سنن الوضوء ونصھا عین نصہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ۔

لیکن اوّلاً : نہ تواس کاسنتِ وضوہونا، سنتِ دین ہونے کی نفی کرتاہے۔بلکہ اس کی تائیدکرتاہے۔ اورنہ ہی اس کا سنت مستقلہ ہونا، سنتِ وضو ہونے کے منافی ہے جیسا کہ ہم نے تقریر کی۔ یہی دیکھئے کہ امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ مسواک دین کی ایک سنت ہے اوران کے مذہب متین کے حامل جملہ متون کااس پر اتفاق ہے کہ مسواک وضو کی ایک سنت ہے۔اورنصِ متون خود امام رضی اللہ تعالٰی عنہ کانص ہے۔

فــ۱:تطفل علی الامام العینی۔

وثانیا : ھذا الامام العینی فــ۲نفسہ ناصا قبل ھذا بنحو ورقۃ ان باب السواک من احکام الوضوء عند الاکثرین ۱؎ اھ فلم نعدل عن قول الاکثرین وعن اطباق المتون لروایۃ عن الامام لاتنافیہ اصل۔

ثانیاً : خود امام عینی نے اس سے ایک ورق پہلے صراحت فرمائی ہے کہ اکثرحضرات کے نزدیک مسواک کاباب احکامِ وضوسے ہے اھ توہم قولِ اکثراوراتفاق متون سے امام کی ایک ایسی روایت کے سبب عدول کیوں کریں جو اس کے منافی بھی نہیں ہے۔

فــ۲:تطفل آخرعلیہ ۔

(۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الوضوباب السواک دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۲۷۲)

وثالثا: اعجب فــ۳من ھذا قولہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی شرح قول الکنز وسنتہ غسل یدیہ الی رسغیہ ابتداء کالتسمیۃ والسواک اذ قال الامام الزیلعی قولہ والسواک یحتمل وجھین احدھما ان یکون مجرورا عطفا علی التسمیۃ والثانی ان یکون مرفوعا عطفا علی الغسل والاول اظھر لان السنۃ ان یستاک عند ابتداء الوضوء۱؎ اھ مانصہ بل الاظھر ھو الثانی لان المنقول عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ علی ما ذکرہ صاحب المفید ان السواک من سنن الدین فحینئذ یستوی فیہ کل الاحوال ۲؎ اھ۔

ثالثا : اس سے زیادہ عجیب شرح کنز میں علامہ عینی کاکلام ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ کنز کی عبارت یہ ہے:”سنتہ غسل یدیہ الی رسغیہ ابتداء کالتسمیۃ والسواک”۔(وضو کی سنت گٹوں تک دونوں ہاتھوں کو شروع میں دھونا ہے جیسے تسمیہ اور مسواک)۔اس پر امام زیلعی نے فرمایا:لفظ السواک کی دو ترکیبیں ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ لفظ التسمیۃ پر معطوف ہوکرمجرورہو۔دوسری یہ کہ لفظ غسل (دھونا) پر معطوف ہوکر مرفوع ہو۔ اوراول زیادہ ظاہر ہے اس لئے کہ سنت یہ ہے کہ ابتدائے وضوکے وقت مسواک کرے اھ۔ اس پر علامہ عینی فرماتے ہیں: بلکہ زیادہ ظاہر ثانی ہے اس لئے کہ جیسا کہ صاحبِ مفید نے ذکرکیا ہے امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول یہ ہے کہ مسواک دین کی سنتوں میں سے ہے تواس صورت میں اس کے اندرتمام احوال برابر ہیں اھ۔

فــ۳:ثالث علیہ۔

(۱؎ تبیین الحقائق کتاب الطہارۃ ،سنن الوضوء دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۳۵)
(۲؎ حاشیۃ الشلبی علٰی تبیین الحقائق کتاب الطہارۃ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۳۵)

اقول : کونہ من سنن الدین کان یقابل عندکم کونہ من سنن الوضوء فما یغنی الرفع مع کونہ عطفا علی خبر سنتہ ای سنۃ الوضوء وبوجہ اخرفـــ ما المراد باستواء الاحوال نفی ان یختص بہ حال بحیث تفقد السنیۃ فی غیرہ ام نفی التشکیک بحسب الاحوال بحیث لایکون التصاقہ ببعضھا ازید من بعض علی الاول لاوجہ لاستظہار الثانی فلو کان سنۃ فی ابتداء الوضوء ای اشد طلبا فی ھذا الوقت والصق بہ لم ینتف استنانہ فی غیر الوضوء وعلی الثانی لاوجہ للثانی ولا للاول فضلا عن کون احدھما اظھر من الاخر۔

اقول : آپ کے نزدیک مسواک کا سنتِ دین ہونا،سنتِ وضو ہونے کے مقابل تھا تولفظ السواک کے مرفوع ہونے سے کیاکام بنے گاجب کہ وہ لفظ سنتہ (یعنی سنتِ وضو)کی خبرپرعطف ہوگا(یعنی یہ ہوگاکہ اور – وضو کی سنت-مسواک کرنابھی ہے۔ تواس ترکیب پربھی سنتِ دین کے بجائے سنتِ وضو ہوناہی نکلتاہے۱۲م) بطرزِ دیگر تمام احوال کے برابر ہونے سے کیا مراد ہے (۱)یہ کہ کسی حال میں مسواک کی ایسی کوئی خصوصیت نہیں جس کے باعث وہ دوسرے حال میں مسنون نہ رہ جائے (۲)یا احوال کے لحاظ سے تشکیک کی نفی مقصود ہے اس طرح کہ مسواک کابعض احوال سے تعلق بعض دیگر سے زیادہ نہ ہو۔اگرتقدیراول مراد ہے تولفظ السواک کے رفع کوزیادہ ظاہرکہنے کی کوئی وجہ نہیں۔کیونکہ مسواک اگر ابتدائے وضو میں سنت ہو۔یعنی اس وقت میں اس کا مطالبہ اوراس سے اس کا تعلق زیادہ ہو۔تواس سے غیر وضو میں اس کی مسنونیت کی نفی نہیں ہوتی۔برتقدیر دوم نہ ترکیب ثانی کی کوئی وجہ رہ جاتی ہے نہ ترکیب اوّل کی کسی ایک کادوسری سے زیادہ ظاہر ہوناتودرکنار۔(کیونکہ تمام احوال کے برابر ہونے کا مطلب جب یہ ٹھہراکہ کسی بھی حال سے اس کا تعلق دوسرے سے زیادہ نہیں، تو نہ یہ کہنے کی کوئی وجہ رہی کہ ابتدائے وضومیں سنت ہے نہ یہ ماننے کی وجہ رہی کہ وضو میں مطلقاً سنّت ہے۱۲م)

فــ:تطفل رابع علیہ ۔

والعجب من البحر صاحب البحرانہ جعل الاولی کون وقتہ عند المضمضۃ لاقبل الوضوء وتبع الزیلعی فی ان الجر اظھر لیفید ان الابتداء بہ سنۃ نبہ علیہ اخوہ فی النھر رحمھم اللّٰہ تعالی جمیعا۔

اور صاحبِ بحر پرتعجب ہے کہ ایک طرف توانہوںنے یہ ماناہے کہ وقت مسواک حالتِ مضمضہ میں ہونا اولٰی ہے قبلِ وضونہیں،اوردوسری طرف انہوںنے کنز میں لفظ السواک کاجرزیادہ ظاہر ماننے میں امام زیلعی کی پیروی بھی کرلی ہے جس کا مفادیہ ہے مسواک وضو کے شروع میں ہوناسنّت ہے۔ اس پر ان کے برادر نے النہر الفائق میں تنبیہ کی، رحمہم اللہ تعالٰی جمیعا۔

اما تعلیل الفتح ان لاسنیۃ دون المواظبۃ۱؎ ولم تثبت عند الوضوء۔

اب رہی فتح القدیر کی یہ تعلیل کہ بغیر مداومت کے سنّیت ثابت نہیں ہوتی اور وقتِ وضو مداومت ثابت نہیں۔

(۱؎فتح القدیر کتاب الطہارۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۲۲)

اقول : الدلیل فـــ۱ اعم من الدعوی فان المقصود نفی الاستنان للوضوء والدلیل نفی کونہ من السنن الداخلۃ فیہ فلم لایختار کونہ سنۃ قبلیۃ للوضوء۔

اقول: دلیل دعوی سے اعم ہے،اس لئے کہ مدعایہ ہے کہ مسواک وضو کے لئے سنت نہیں۔ اور دلیل یہ ہے کہ مسواک وضو کے اندر سنت نہیں ۔ توکیوں نہ یہ اختیارکیاجائے کہ مسواک وضو کی سنتِ قبلیہ ہے(یعنی وضو کے اندر تو نہیں مگر اس سے پہلے مسواک کرلینا سنتِ وضو ہے۱۲م)

فـــ۱:تطفل علی الفتح ۔

بالجملہ : بحکم متون واحادیث اظہر،وہی مختار بدائع وزیلعی وحلیہ ہے کہ مسواک وضو کی سنت قبلیہ ہے، ہاں سنت مؤکدہ اُسی وقت ہے جبکہ منہ میں تغیر ہو،اس تحقیق پر جبکہ مسواک وضو کی سنّت ہے مگر وضو میں نہیں بلکہ اُس سے پہلے ہے تو جو پانی کہ مسواک میں صرف ہوگا اس حساب سے خارج ہے سنّت یہ ہے کہ مسواک فـــ۲ کرنے سے پہلے دھولی جائے اور فراغ کے بعد دھو کر رکھی جائے اور کم از کم اُوپر کے دانتوں اور نیچے کے دانتوں میں تین تین بار تین پانیوں سے کی جائے۔

فـــ۲:مسئلہ مسواک دھو کر کی جائے اور کرکے دھولیں اورکم ازکم تین تین بارتین پانیوں سے ہو۔

دُرمختار میں ہے : اقلہ ثلاث فی الاعالی وثلاث فی الاسافل بمیاہ ثلثۃ ۲؎۔

اس کی کم سے کم مقداریہ ہے کہ تین بار اوپرکے دانتوں میں، تین بارنیچے کے دانتوں میں، تین تین پانیوں سے ہو۔

(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۱)

صغیری میں ہے: یغسلہ عد الاستیاک وعند الفراغ منہ ۱؎۔

مسواک کو مسواک کرنے کے وقت اوراس سے فارغ ہونے کے بعد دھولے۔(ت)

(۱؎ صغیری شرح منیۃ المصلی ومن الآداب ان یستاک مطبع مجتبائی دہلی ص۱۴)

(۵) اس قدر تو درکار ہی ہے اور اُس کے ساتھ اگر منہ میں کوئی تغیر رائحہ ہوا تو جتنی بار مسواک اور کُلّیوں سے اس کا ازالہ ہو لازم ہے اس کیلئے کوئی حد مقرر نہیں بدبو دار کثیف فــ۱ بے احتیاطی کا حقّہ پینے والوں کو اس کا خیال سخت ضروری ہے اور اُن سے زیادہ سگریٹ والے کہ اس کی بدبو مرکب تمباکو سے سخت تر اور زیادہ دیرپا ہے اور ان سب سے زائد اشد ضرورت تمباکو کھانے والوں کو ہے جن کے منہ میں اُس کا جِرم دبا رہتا اور منہ کو اپنی بدبو سے بسا دیتا ہے یہ سب لوگ وہاں تک مسواک اور کُلّیاں کریں کہ منہ بالکل صاف ہوجائے اور بُو کا اصلاً نشان نہ رہے اور اس کا امتحان یوں ہے کہ ہاتھ اپنے منہ کے قریب لے جاکر منہ کھول کر زور سے تین بار حلق سے پوری سانس ہاتھ پر لیں اور معاً سونگھیں بغیر اس کے اندر کی بدبو خود کم محسوس ہوتی ہے،اور جب منہ میں فــ۲ بدبو ہوتو مسجد میں جانا حرام نماز میں داخل ہونا منع واللّٰہ الہادی۔

فــ۱:مسئلہ حقہ اورسگرٹ پینے اورتمباکوکھانے والوں کے لئے مسواک میں کہاں تک احتیاط واجب ہے اوران کے امتحان کاطریقہ۔
فــ۲:مسئلہ منہ میں بدبو ہوتوجب تک صاف نہ کرلیں مسجدمیں جانایانمازپڑھنامنع ہے۔

(۶) یوں ہی جسے تر کھانسی ہو اور بلغم کثیر ولزوج کہ بمشکل بتدریج جُدا ہو اور معلوم ہے کہ مسواک کی تکرار اور کُلیوں غراروں کا اکثار اُس کے خروج پر معین تو اُس کے لئے بھی حد نہیں باندھ سکتے۔
(۷) یہی حال زکام کا ہے جبکہ ریزش زیادہ اور لزوجت دار ہو اُس کے تصفیہ اور بار بار ہاتھ دھونے میں جو پانی صرف ہو وہ بھی جدا اور نامعین المقدار ہے۔
(۸) پانوں کی فــ۳ کثرت سے عادی خصوصاً جبکہ دانتوں میں فضا ہو تجربہ سے جانتے ہیں کہ چھالیا کے باریک ریزے اور پان کے بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس طرح منہ کے اطراف واکناف میں جاگیر ہوتے ہیں کہ تین بلکہ کبھی دس بارہ کُلیاں بھی اُن کے تصفیہ تام کو کافی نہیں ہوتیں، نہ خلال اُنہیں نکال سکتا ہے نہ مسواک سوا کُلیوں کے کہ پانی منافذ میں داخل ہوتا اور جنبشیں دینے سے اُن جمے ہوئے باریک ذرّوں کو بتدریج چھڑ چھڑا کرلاتا ہے اس کی بھی کوئی تحدید نہیں ہوسکتی اور یہ کامل تصفیہ بھی بہت مؤکد ہے متعددفــ۱ احادیث میں ارشاد ہوا ہے کہ جب بندہ نماز کو کھڑا ہوتا ہے فرشتہ اس کے منہ پر اپنا منہ رکھتا ہے یہ جو کچھ پڑھتا ہے اس کے منہ سے نکل کر فرشتہ کے منہ میں جاتا ہے اُس وقت اگر کھانے کی کوئی شے اُس کے دانتوں میں ہوتی ہے ملائکہ کو اُس سے ایسی سخت ایذا ہوتی ہے کہ اور شے سے نہیں ہوتی۔

فــ۳ :مسئلہ پان کے عادی کوکلیوں میں کتنی احتیاط لازم ۔
فـــ:مسئلہ نمازمیں منہ کی کمال صفائی کالحاظ لازم ہے ورنہ فرشتوں کوسخت ایذاہوتی ہے ۔

البیہقی فی الشعب وتمام فی فوائدہ والدیلمی فی مسند الفردوس والضیاء فی المختارۃ عن جابر رضی اللّٰہ تعالی عنہ بسند صحیح قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذا قام احدکم یصلی من اللیل فلیستک فان احدکم اذا قرأ فی صلاتہ وضع ملک فاہ علی فیہ ولا یخرج من فیہ شیئ الادخل فم الملک ۱؎ ۔

بیہقی شعب الایمان میں،تمام فوائد میں، دیلمی مسندالفردوس میں،اور ضیاء مختارہ میں حضرت جابررضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسندِ صحیح راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کھڑاہوتو مسواک کرلے اس لئے کہ جب وہ اپنی نمازمیں قراء ت کرتاہے توایک فرشتہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ دیتا ہے اور جو قراء ت اس کے منہ سے نکلتی ہے فرشتے کے منہ میں جاتی ہے۔

(۱؎ کنز العمال بحوالہ شعب الایمان وتمام والدیلمی حدیث ۲۶۲۲۱ مؤسسۃ الرسالۃبیروت ۹ /۳۱۹)

وللطبرانی فی الکبیر عن ابی ایوب الانصاری رضی اللّٰہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قال لیس شیئ اشد علی الملکین من ان یریابین اسنان صاحبھما شیئا وھو قائم یصلی ۲؎ وفی الباب عند ابن المبارک فی الزھد عن ابی عبدالرحمن السلمی عن امیر المومنین علی رضی اللّٰہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم والدیلمی عن عبداللّٰہ بن جعفر رضی اللّٰہ تعالی عنہما عنہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم وابن نصر فی الصّلاۃ عن الزھری عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مرسلا والاٰجری فی اخلاق حملۃ القراٰن عن علی کرم اللّٰہ وجہہ موقوفا۔

اورمعجم طبرانی کبیر میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:دونوں فرشتوں پر اس سے زیادہ گراں کوئی چیزنہیں کہ وہ اپنے ساتھ والے انسان کے دانتوں کے درمیان کھانے کی کوئی چیز پائیں جب وہ کھڑانماز پڑھ رہاہو۔اوراس بارے میں امام عبداللہ بن مبارک کی کتاب الزہد میں بھی حدیث ہے جوابوعبدالرحمٰن سلمی سے مروی ہے وہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے راوی ہیں۔اوردیلمی نے بھی عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالٰی عنہماسے ،نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اورابن نصرنے کتاب الصّلوٰۃ میں امام زہری سے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مرسلاً، اورآجری نے اخلاق حملۃ القرآن میں حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ سے موقوفاً روایت کی ہے۔(ت)

(۲؎ المعجم الکبیر حدیث ۴۰۶۱ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ۴ /۱۷۷)

تنبیہ : سیدنافــ امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حسن بن زیاد کی روایت کہ مستثنی پانیوں سے آب اول کے نیچے گزری جس کا حاصل یہ تھا کہ ایک رطل پانی سے استنجا اور ایک رطل منہ اور دونوں ہاتھ اور ایک رطل دونوں پاؤں کیلئے، اور اسی کو علّامہ شرف بخاری رحمہ الباری نے مقدمۃالصلاۃ میں ذکرفرمایاکہ ؎ (۱) در وضو آب یک من ونیم ست
غسل راچار من زتعلیم ست
(۲) در وضو کن بہ نیم من استنجا
دار مردست وروئے نیمن را
(۳) پس بداں نیم من کہ مے ماند
پائے شوید ہرانکہ مے داند ۱؎

(۱) پانی وضومیں ڈیڑھ سیرہے غسل کے لیے چارسیرکی تعلیم ہے۔
(۲) وضومیں آدھے سیرسے استنجاکر،ہاتھ اورمنہ کے لیے آدھے سیرکورکھ ۔
(۳) پھراس آدھے سیرسے جوبچتاہے پاؤں دھوئے وہ جوکہ جانتاہے ۔

فــ:مسئلہ منہ دھونے سے پہلے کی تینوں سنتیں بھی اسی ایک مُد میں داخل ہیں یانہیں ۔

(۱؎ نامِ حق فصل سوم دربیان مقدار آب وضوو غسل مکتبہ قادریہ لاہور ص۱۴)

اقول:

اس سے ظاہریہ ہے واللہ تعالٰی اعلم کہ وضو میں صرف فرائض غسل کا حساب بتایا ہے کہ جتنا پانی دونوں پاؤں کیلئے رکھا ہے اُسی قدر مُنہ اور دونوں ہاتھ کیلئے،اول تو اسی قدرے بُعد ہے۔پاؤں کی ساخت اگر عالم کبیر میں شتر کی نظیر ہے جس کے سبب اُس کے تمام اطراف پر گزرنے کیلئے پانی زیادہ درکار ہے تو شک نہیں کہ ناخنِ دست سے کہنی کے اُوپر تک ہاتھ کی مساحت پاؤں سے بہت زائد ہے تو غایت یہ کہ ہاتھ کے برابر پاؤں پر صرف ہو نہ کہ منہ اور دونوں ہاتھ کے مجموعہ کے برابر پاؤوں پر ولہذا حدیث میں ہاتھوں اور پاؤوں پر برابر صرف کا ذکر آیا۔ بخاری و نسائی عــہ وابو بکر بن ابی شیبہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:

انہ توضأ فغسل وجہہ اخذ غرفۃ من ماء فتمضمض بھا واستنشق ثم اخذ غرفۃ من ماء فجعل بھا ھکذا اضافھا الی یدہ الاخری فغسل بھا وجہہ ثم اخذ غرفۃ من ماء فغسل بھا یدہ الیمنی ثم اخذ غرفۃ من ماء فغسل بھا یدہ الیسری ثم مسح برأسہ ثم اخذ غرفۃ من ماء فرش علی رجلہ الیمنی حتی غسلہا ثم اخذ غرفۃ اخری فغسل بھا رجلہ الیسری ثم قال ھکذا رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ۱؎۔

انہوں نے وضوکیا تو اپناچہرہ دھویا ایک چُلو پانی لے کر اس سے کُلی کی اورناک میں ڈالا پھر ایک چُلو لے کر اس طرح کیا۔اسے اپنے بائیں ہاتھ میں ملاکراس سے اپناچہرہ دھویا۔پھرایک چُلوپانی لے کر اس سے اپنا داہنا ہاتھ دھویا۔ پھرایک چُلو پانی لے کر اس سے اپنا بایاں ہاتھ دھویا پھر سرکا مسح کیا۔ پھر ایک چُلو پانی لے کر اسے دائیں پاؤں پرڈال کر اسے دھویا پھر دوسراچلو لے کر اس سے بایاں پاؤں دھویا پھر فرمایا: میں نے اسی طرح رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو وضوکرتے دیکھا۔ (ت)

عــہ و رواہ ابو داؤد مختصرا ویاتی وابن ماجۃ ایضا فاختصرہ جدا وفرقہ اھ منہ (م)
عــہ ابو داؤد نے اسے مختصراً روایت کیا۔یہ روایت آگے آئے گی۔او راسے ابن ماجہ نے بھی روایت کیامگر بہت مختصر کردیااوراسے الگ الگ کردیا۱۲منہ۔(ت)

(۱؎ صحیح البخاری کتاب الوضوباب غسل الوجہ بالیدین من غرفۃٍ واحدۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶)
(سنن النسائی باب مسح الاذنین مع الرأس…الخ نورمحمدکتب خانہ کراچی ۱ /۲۹)
(المصنف لابن ابی شیبہ فی الوضوکم ھو مرۃ حدیث ۶۴ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۱۷)

اور اگر اس سے قطع نظر کیجئے تو دونوں ہاتھ کلائیوں تک دھونا، کُلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، منہ دھونا، دونوں ہاتھ ناخنِ دست سے کہنیوں کے اوپر تک دھونا اس تمام مجموعہ کے برابر صرف دونوں پاؤوں پر صرف ہونا غایت استبعاد میں ہے تو ظاہر یہی ہے کہ ابتدائی سُنتیں یعنی کلائیوں تک ہاتھ تین بار دھونا تین کُلّیاں تین بار ناک میں پانی یہ سب بھی اس حساب یک مُد سے خارج ہو عجب نہیں کہ حدیث رُبیع رضی اللہ تعالٰی عنہا جس میں پورا وضو مع سنن مذکور ہوا اور وضو کا برتن بھی دکھایا اور راوی نے اُس کا تخمینہ ایک مُد اور تہائی تک کیا اُس کا منشا یہی ہو کہ سنن قبلیہ کیلئے ثُلث مُد بڑھ گیا مگر احادیث مطلقہ سے متبادر وضو مع السنن ہے واللہ تعالٰی اعلم۔

امر چہارم فـــ: کیا پانی کی یہ مقداریں کہ مذکور ہوئیں حد محدود ہیں کہ ان سے کم وبیش ممنوع۔ ائمہ دین وعلمائے معتمدین مثل امام ابو زکریا نووی شرح صحیح مسلم اور امام محمود بدر عینی شرح صحیح بخاری اور امام محمد بن امیر الحاج شرح منیہ اور ملّا علی قاری شرح مشکوٰۃ میں اجماعِ امت نقل فرماتے ہیں کہ ان مقادیر پر قصر نہیں مقصود یہ ہے کہ پانی بلاوجہ محض زیادہ خرچ نہ ہو نہ ادائے سنت میں تقصیر رہے پھر کسی قدر ہو کچھ بندش نہیں،حدیث وظاہر الروایۃ میں جو مقادیر و چارمد آئیں اُن سے مراد ادنٰی قدر سنت ہے۔

فـــ :مسئلہ مسلمانوں کااجماع ہے کہ وضو و غسل میں پانی کی کوئی مقدارخاص لازم نہیں ۔

حلیہ میں ہے : ثم اعلم انہ نقل غیر واحد اجماع المسلمین علی ان الماء الذی یجزئ فی الوضوء والغسل غیر مقدر بمقدار بعینہ بل یکفی فیہ القلیل والکثیر اذا وجد شرط الغسل و ھو جریان الماء علی الاعضاء وما فی ظاھر الروایۃ من ان ادنی مایکفی فی الغسل صاع وفی الوضوء مدللحدیث المتفق علیہ لیس بتقدیر لازم بل ھو بیان ادنی قدرالماء المسنون فی الوضوء والغسل السابغین ۱؎۔

پھرواضح ہوکہ متعدد حضرات نے اس بات پر اجماعِ مسلمین نقل کیا ہے کہ وضووغسل میں کتنا پانی کافی ہوگااس کی کوئی خاص مقدار مقرر نہیں بلکہ کم وبیش اس میں کفایت کرسکتاہے جب کہ دھونے کی شرط پالی جائے وہ یہ کہ پانی اعضاء پر بہَہ جائے۔ اور وہ جو ظاہرالروایہ میں ہے کہ کم سے کم جتنا پانی غسل میں کفایت کرسکتاہے وہ ایک صاع ہے اور وضو میں ایک مُدکیوں کہ اس بارے میں متفق علیہ حدیث آئی ہے ، تویہ کوئی لازمی مقدارنہیں بلکہ یہ کامل وضو وغسل میں پانی کی ادنٰی مقدار مسنون کا بیان ہے۔(ت)

(۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

اُسی میں ہمارے مشائخ کرام سے ہے: من اسبغ الوضوء والغسل بدون ذلک اجزأہ وان لم یکفہ زاد علیہ۱؎۔

جواس سے کم میں وضووغسل کامل کرلے اس کے لئے کافی ہے اوراگراتناکفایت نہ کرے تواس پراضافہ کرلے۔(ت)

(۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

بلکہ ہمارے علماء فـــ۱نے تصریح فرمائی کہ غسل میں ایک صاع سے زیادت افضل ہے۔

فـــ۱:مسئلہ غسل میں ایک صاع سے زیادہ پانی خرچ کرناافضل ہے جب تک حداسراف بے سبب یاوسوسہ کی حالت نہ ہو۔

خلاصۃ الفتاوی میں ہے : الافضل ان لایقتصر علی الصاع فی الغسل بل یغتسل بازید منہ بعد ان لایؤدی الی الوسواس فان ادی لایستعمل الا قدرالحاجۃ ۲؎۔

افضل یہ ہے کہ غسل میں ایک صاع پرمحدود نہ رکھے بلکہ اس سے زائد سے غسل کرے بشرطیکہ وسوسے کی حد تک نہ پہنچائے اگر ایساہوتوصرف بقدرِ حاجت استعمال کرے۔(ت)

(۲؎خلاصۃالفتاوی کتاب الطہارۃ ،فی کیفیۃ الغسل مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۱۴)

اس عبارت میں تصریح ہے کہ قدر حاجت سے زیادہ خرچ کرنا مستحب ہے جبکہ حد وسوسہ تک نہ پہنچے ہاں
وسوسہ کا قدم درمیان ہوتو حاجت سے زیادہ صَرف نہ کرے۔

اقول: وباللّٰہ التوفیق فـــ۲ مراتب پانچ ہیں: (۱) ضرورت(۲) حاجت(۳) منفعت(۴) زینت(۵) فضول۔

فـــ۲:شیئ کے پانچ مرتبے ہیں :ضرورت،حاجت ،منفعت ،زینت،فضول ،اوران کی تحقیق اورمکان وطعام ولباس وطہارت میں ان کی مثالیں ۔

ضرورت : یہ کہ اُس کے بغیر گزر نہ ہوسکے جیسے مکان میں جُحر یتدخلہ۳؎ وہ سوراخ جس میں آدمی بزور سما سکے۔

(۳؎مسند الامام احمد بن حنبل حدیث ابی عسیب رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۸۱)

کھانے میں لقیمات یقمن صلبہ ۴؎ چھوٹے چھوٹے چند لقمے کہ سدرمق کریں ادائے فرائض کی طاقت دیں۔

(۴؎سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمہ،باب الاقتصادفی الاکل…الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۴۸)

لباس میں خرقۃ تواری عورتہ ۱؎ اتنا ٹکڑا کہ ستر عورت کرے۔

(۱؎سنن الترمذی کتاب الزہد حدیث ۲۳۴۸ دارالفکربیروت ۵ /۱۵۳)
(مسند احمدبن حنبل المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۶۲و ۵ /۸۱)

حاجت: یہ کہ بے اُس کے ضرر ہو،جیسے مکان اتنا کہ گرمی جاڑے برسات کی تکلیفوں سے بچا سکے، کھانا اتنا جس سے ادائے واجبات وسُنن کی قوت ملے، کپڑا اتنا کہ جاڑا روکے اتنا بدن ڈھکے جس کا کھولنا نماز و مجمع ناس میں خلاف ادب وتہذیب ہے مثلاً خالی پاجامے فــ سے نماز مکروہ تحریمی ہے۔

فــ : مسئلہ خالی پاجامہ سے نمازمکروہ تحریمی ہے ۔

ابو داؤد والحاکم عن بریدۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم نھی ان یصلی الرجل فی سراویل ولیس علیہ رداء ۲؎۔

ابو داؤد اورحاکم نے حضرت بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ آدمی بے چادر اوڑھے صرف پاجامے میں نماز پڑھے۔

(۲؎سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ،باب من قال تیزر بہ اذاکان ضیقا آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۹۳)
(المستدرک للحاکم کتاب الصلوۃ ونہی ان یصلی الرجل وسراویل…الخ دارالفکربیروت ۱ /۲۵۰)

مسند احمد وصحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایصلین احدکم فی الثوب الواحد لیس علی عاتقیہ من شیئ۳؎۔

ہرگزکوئی ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے کہ دونوں شانے کھُلے ہوں۔

(۳؎صحیح البخاری کتاب الصلوۃ باب اذاصلی فی الثوب الواحد…الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۲)
(صحیح مسلم کتاب الصلوۃ ،باب الصلوۃ فی ثوب واحد وصفۃ لبسہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۹۸)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۲۴۳)

ولفظ البخاری عاتقۃ بالافراد (اور بخاری نے مفرد لفظ عاتقہ ذکر کیا ہے۔ ت)

خلاصۃ الفتاوٰی میں ہے : لوصلی مع السراویل والقمیص عندہ یکرہ۱؎۔

اگر کُرتا ہوتے ہوئے صرف پاجامے میں نماز پڑھی تومکروہ ہے۔(ت)

(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الطہارۃ ،الجنس فیمایکرہ فی الصلوۃ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۵۸)

یوں ہی تنہا فــ۱پاجامہ پہنے راہ میں نکلنے والا ساقط العدالۃ مردود الشہادۃ خفیف الحرکات ہے۔ یہ مسئلہ خوب یاد رکھنے کا ہے کہ آج کل اکثر لوگوں میں اس کی بے پرواہی پھیلی ہے خصوصاً وہ جن کے مکان سرراہ ہیں۔

فــ۱ :مسئلہ تنہاپاجامہ پہنے راہ میں نکلنے والاساقط العدالۃ مردودالشہادۃ ہے ۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے : لاتقبل شہادۃ من یمشی فی الطریق بسراویل وحدہ لیس علیہ غیرہ کذا فی النھایۃ۲؎۔

اس کی شہادت مقبول نہیں جو راستے میں اس طرح چلتاہوکہ اس کے جسم پرصرف پاجامہ ہو، اور کچھ نہ ہو۔ایسا ہی نہایہ میں ہے۔(ت)

(۲؎ الفتاوٰی الہندیۃ کتاب الشہادات الفصل الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۳ /۴۶۹)

منفعت : یہ کہ بغیر اس کے ضرر تو موجود نہیں مگر اُس کا ہونا اصل مقصود میں نافع ومفید ہے جیسے مکان میں بلندی و وسعت، کھانے میں سرکہ چٹنی سیری، لباس نماز میں عمامہ۔

زینت : یہ کہ مقصود سے محض بالائی زائد بات ہے جس سے ایک معمولی افزائش حسن وخوشنمائی کے سوا اور نفع وتائید غرض نہیں جیسے مکان کے دروں میں محرابیں، کھانے میں رنگتیں کہ قورمہ خوب سُرخ ہو فرنی نہایت سفید براق ہو،کپڑے میں بخیہ باریک ہو قطع میں کج نہ ہو۔

فضول : یہ کہ بے منفعت چیز میں حد سے زیادہ توسع وتدقیق جیسے مکان میں سونے چاندی کے کلس دیواروں پر قیمتی غلاف، کھانا کھائے پر میوے شیرینیاں، پائچے گٹوں سے نیچے اوّل مرتبہ فرض میں ہے دوم واجب وسنن مؤکدہ سوم وچہارم سنن غیر مؤکدہ سے مستحبات وآداب زائدہ تک پنجم باختلاف مراتب مباح ومکروہ تنزیہی وتحریمی سے حرام تک، قال المحقق علی الاطلاق فی الفتح ثم السید الحموی فی الغمز قاعدۃ الضرر یزال ھھنا خمسۃ مراتب ضرورۃ وحاجۃ ومنفعۃ وزینۃ وفضول فالضرورۃ بلوغہ حدا ان لم یتناول الممنوع ھلک او قارب وہذا یبیح تناول الحرام والحاجۃ کالجائع الذی لولم یجد ما یاکلہ لم یھلک غیرانہ یکون فی جہد ومشقۃ وھذا لایبیح الحرام ویبیح الفطر فی الصوم والمنفعۃ کالذی یشتھی خبزا لبر ولحم الغنم والطعام الدسم والزینۃ کالمشتھی الحلوی والسکر و الفضول التوسع باکل الحرام والشبھۃ۱؎ اھ

محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں،پھر سیدحموی نے غمزالعیون میں فرمایا : قاعدہ -ضرر دورکیاجائے گا۔یہاں پانچ مراتب ہیں۔ ضرورت، حاجت ، منفعت،زینت،فضول۔ضرورت:اس حد کوپہنچ جائے کہ اگر ممنوع چیز نہ کھائے تو ہلاک ہوجائے یا ہلاکت کے قریب پہنچ جائے۔اس سے حرام کاکھانا،جائز ہوجاتا ہے۔اورحاجت جیسے اتنا بھُوکا ہوکہ اگر کھانے کی چیز نہ پائے توہلاک تونہ ہومگر تکلیف اور مشقت میں پڑجائے۔اس سے حرام کا کھانا،جائز نہیں ہوتااورروزے میں افطار مباح ہوجاتاہے۔منفعت جیسے وہ شخص جوگیہوں کی روٹی ،بکری کے گوشت اور چکنائی والے کھانے کی خواہش رکھتاہو۔ زینت جیسے حلوے اورشکرکی خواہش رکھنے ولا۔اور فضول یہ کہ حرام اور مشتبہ چیزکھانے کی وسعت اختیارکرنا۔(ت)

(۱؎ غمز عیون البصائرمع الاشباہ والنظائر الفن الاول القاعدۃ الخامسہ ادارۃ القرآن الخ کراچی ۱ /۱۱۹)

اقول : تکلم رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی مادۃ واحدۃ بخصوصہا وقنع عن التعریفات بالامثلۃ احالۃ علی فھم السامع وفی جعل فــ الحلوی والسکر من الزینۃ تامل فان فی الحلوی منافع لیست فی غیرھا وقد کان صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یحب الحلواء والعسل کما اخرجہ الستۃ ۱؎ عن ام المومنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا وما کان لیحب ما لا منفعۃ فیہ وقدنہاہ ربہ تبارک وتعالٰی عن زھرۃ الحیوۃ الدنیا فلولم تکن الازینۃ لما احبہا ولعل ماذکر العبد الضعیف امکن وامتن۔

اقول:حضرت محقق رحمہ اللہ تعالٰی نے صرف ایک بات (کھانے) پرکلام کیااورتعریفات پیش کرنے کے بجائے فہم سامع کے حوالے کرتے ہوئے مثالوں پر اکتفاکی۔اورحلوے وشکّر کوزینت شمارکرنا محلّ تامل ہے اس لئے کہ حلوے میں کچھ ایسے فوائد ہیں جو دوسری چیز میں نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حلوا اورشہد پسندفرماتے تھے جیساکہ اصحابِ ستّہ نے ام المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی ہے۔ اور سرکار کی یہ شان نہ تھی کہ ایسی چیز محبوب رکھیں جس میں کوئی فائدہ نہ ہو۔حالاں کہ انہیں رب تعالٰی نے
دنیاوی زندگی کی آرائش سے منع فرمایا ہے تویہ اگر محض زینت ہوتا توسرکار اسے پسند نہ فرماتے۔اورشاید بندہ ضعیف نے جوذکرکیاوہ زیادہ پختہ اورمضبوط ہے۔(ت)

فـــ : تطفل علی الفتح والحموی ۔

(۱؎ صحیح البخاری کتاب الاشربۃ،باب شرب الحلواء والعسل قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۸۴۰)
(سنن ابی داؤد کتاب الاشربۃ ،باب فی شرب العسل آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۱۶۶)
(سنن الترمذی کتاب الاطعمۃباب ماجاء فی حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم الحلو و العسل،حدیث ۱۸۳۸ دارالفکربیروت ۳ /۳۲۷)
(سنن ابن ماجۃ کتاب الاطعمۃ ،باب الحلواء ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ص۲۴۶)

انہیں مراتب کو طہارت میں لحاظ کیجئے تو جس عضو کا جتنا دھونا فرض ہے اُس کے ذرّے ذرّے پر ایک بار پانی تقاطر کے ساتھ اگرچہ خفیف بہہ جانا مرتبہ ضرورت میں ہے کہ بے اس کے طہارت ناممکن اور تثلیث مرتبہ حاجت میں ہے یوں ہی وضو میں مُنہ دھونے سے پہلے کی سنن ثلاث کہ یہ چاروں مؤکدات ہیں اور ان کے ترک میں ضرر من زاد او نقص فقد تعدی وظلم (جس نے اس سے زیادہ یا کم کیا تو اس نے حد سے تجاوز کیا اور ظلم کیا۔ ت) اور ہر بار پانی بفراغت بہنا جس سے کمال تثلیث میں کوئی شبہ نہ گزرے اور ہر ہر ذرّہ عضو پر غور وتامل کی حاجت نہ پڑے یہ منفعت ہے اور غرہ وتحجیل فــ کی اطاعت زینت اور کسی عضو کو قصداً چار بار دھونا فضول۔

فــ:مسئلہ وضو میں غرہ و تحجیل کا بڑھانا مستحب ہے اور اس کے معنٰی کا بیان۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان امتی یدعون یوم القٰیمۃ غرا محجلین من اٰثار الوضوء فمن استطاع منکم ان یطیل غرتہ فلیفعل ۱؎ رواہ الشیخان عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وفی لفظ المسلم عنہ انتم الغر المحجلون یوم القٰیمۃ من اسباغ الوضوء فمن استطاع منکم فلیطل غرتہ وتحجیلہ ۲؎۔

یعنی میری امت کے چہرے اورچاروں ہاتھ پاؤں روزِقیامت وضو کے نور سے روشن و منورہوں گے تو تم میں جس سے ہوسکے اسے چاہئے کہ اپنے اس نور کو زیادہ کرے اسے شیخین نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا اور مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: تم لوگ وضو کامل کرنے کی وجہ سے روزِقیامت روشن چہرے، چمکتے دست و پا والے ہوگے تو تم میں جس سے ہوسکے اپنے چہرے اورہاتھوں کی روشنی زیادہ کرے۔(ت)

(۱؎ صحیح البخاری کتاب الوضوء،باب فضل الوضوء الغر المحجلون من آثار الوضوء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۵)
(صحیح مسلم کتاب الطہارۃ،باب استحباب اطالۃ الغرۃ والتحجیل فی الوضوء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۲۶)
(۲؎ صحیح مسلم کتاب الطہارۃ،باب استحباب اطالۃ الغرۃ والتحجیل فی الوضوء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۲۶)

یعنی میری اُمّت کے چہرے اور چاروں ہاتھ پاؤں روزِقیامت وضو کے نور سے روشن ہوں گے توتم میں جس سے ہوسکے اُسے چاہئے کہ اپنے اس نور کو زیادہ کرے یعنی چہرہ کے اطراف میں جو حدیں شرعاً مقرر ہیں اُس سے کچھ زیادہ دھوئے اور ہاتھ نصف بازو اور پاؤں نیم ساق تک۔

دُرمختار میں ہے: من الاٰداب اطالۃ غرتہ وتحجیلہ۳؎۔

آدابِ وضو میں سے یہ ہے کہ اپنے چہرے اور دست و پا کے نشاناتِ نور زیادہ کرے۔(ت)

(۳؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۴)

ردالمحتار میں ہے: فی البحر اطالۃ الغرۃ بالزیادۃ علی الحد المحدود وفی الحلیۃ التحجیل فی الیدین والرجلین وھل لہ حد لم اقف فیہ علی شیئ لاصحابنا ونقل النووی اختلاف الشافعیۃ علی ثلثۃ اقوال الاول الزیادۃ بلا توقیف الثانی الی نصف العضد والساق الثالث الی المنکب والرکبتین قال والاحادیث تقتضی ذلک کلہ اھ ونقل ط الثانی عن شرح الشرعۃ مقتصرا علیہ ۱؎ اھ

بحر میں ہے: چہرے کی روشنی زیادہ کرنااس طرح کہ مقررہ حد سے زیادہ دھوئے۔اورحلیہ میں ہے کہ تحجیل کا تعلق دونوں ہاتھ پاؤں سے ہے(ہاتھ پاؤں کومقدار سے زیادہ دھوئے)کیا زیادتی کی کوئی حدبھی ہے اس بارے میں اپنے اصحاب کی کسی بات سے واقفیت مجھے نہ ہوئی۔امام نووی نے اس بارے میں شافعیہ کے تین اقوال لکھے ہیں اول یہ کہ بغیر کسی تحدید کے زیادتی ہو۔دوم یہ کہ آدھے بازو اورنصف ساق تک زیادتی ہو۔سوم یہ کہ کاندھے اور گھٹنوں تک زیادتی ہو۔فرمایاکہ احادیث کامقتضا یہ سب ہے اھ۔اور علامہ طحطاوی نے قولِ دوم کوشرح شرعہ سے نقل کیااوراسی پراکتفا کی اھ۔(ت)

(۱؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۸۸)

درمختار مکروہات وضو میں ہے : والاسراف ومنہ الزیادۃ علی الثلاث ۲؎۔

اور اسراف،اسی سے یہ بھی ہے کہ تین بار سے زیادہ دھوئے ۔(ت)

(۲؎ الدر المختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۴ )

اُسی میں ہے: لوزاد (ای علی التثلیث) لطمانینۃ القلب لاباس بہ۳؎۔

اگر اطمینانِ قلب کے لئے تین بارسے زیادہ دھویا تواس میں حرج نہیں۔(ت)

(۳؎ الدر المختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۲ )

ردالمحتار میں ہے : لانہ امر بترک مایریبہ الی مالا یریبہ وینبغی ان یقید ھذابغیرالموسوس اما ھو فیلزمہ قطع مادۃ الوسواس عنہ وعدم التفاتہ الی التشکیک لانہ فعل الشیطان وقد امرنا بمعاداتہ ومخالفتہ رحمتی۴؎۔

اس لئے کہ اسے حکم ہے کہ شک کی حالت چھوڑکر عدم شک کی حالت اختیارکرے، اوریہ حکم غیر وسوسہ زدہ کے ساتھ مقید ہونا چاہئے۔ وسوسے والے پر تویہ لازم ہے کہ وسوسے کا مادّہ قطع کرے اور تشکیک کی جانب التفات نہ کرے کیوں کہ یہ شیطان کا فعل ہے اور ہمیں حکم یہ ہے کہ اس سے دشمنی رکھیں اورا س کی مخالفت کریں-رحمتی-(ت)

(۴؎رد المحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۸۱)

اور شک نہیں کہ صرف ایک صاع سے غسل میں سر سے پاؤں تک بفراغ خاطر تثلیث کا حصول دشوار لہٰذا ہمارے علماء نے اطمینان قلب کیلئے صاع سے زیادت کو افضل فرمایا۔
ۤ

لقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم دع مایریبک الی مالا یریبک فان الصدق طمانینۃ وان الکذب ریبۃ رواہ الائمۃ احمد والترمذی ۱؎ وابن حبان بسند جید عن الحسن المجتبی ریحانۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ ثم علیہ وسلم وھو عند ابن قانع عنہ بلفظ فان الصدق ینجی ۲؎ ۔

کیونکہ حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشادہے:”تجھے جوچیز شک میں ڈالے اسے چھوڑکر وہ اختیار کرجس میں تجھے شک نہ ہو۔اس لئے کہ صدق طمانینت ہے اورکذب شک وقلق ۔اسے امام احمد،ترمذی،اورابن حبان نے بسندِجیّدریحانہ رسول حضرت حسن مجتبٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا۔ اور ابن قانع نے ان سے جو روایت کی اس میں یہ الفاظ ہیں: اس لئے کہ صدق نجات بخش ہے۔(ت)

(۱؎ سنن الترمذی کتاب صفۃ القیامۃ حدیث۲۵۲۶ دارالفکر بیروت ۴ /۲۳۲)
(مسند احمد بن حنبل عن حسن رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۰۰)
(موار الظمآن الٰی زوائد ابن حبان حدیث۵۱۲ المطبعۃ السلفیۃ ص۱۳۷)

(نوٹ:موارد الظمآن کے الفاظ میں ہے:ان الخیر طمانیۃ والشر ریبۃ۔)

(۲؎ کشف الخفاء بحوالہ ابن قانع عن الحسن حدیث۱۳۰۵ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۳۶۰)

اور یہ ضرور فوق الحاجۃ ہے کہ منفعت ہے یونہی میل کا چھڑانا داخل زینت اور اس میں جو زیارت ہو وہ بھی فوق الحاجۃ۔ یہ معنی ہیں قول خلاصہ کے کہ غیر موسوس کو حاجت سے زیادہ صرف کرنا افضل ہے۔

اقول وبما و فقنی المولی تبارک وتعالی من ھذا التقریر المنیر ظھر الجواب عما اوردہ الامام ابن امیر الحاج اذ قال بعد نقل ماقدمنا عن الخلاصۃ لایعری اطلاق الافضیلۃ المذکورۃ من نظر کما لایخفی علی المتأمل۱؎ اھ وللّٰہ الحمد۔

اقول: اس تقریرمنیر سے۔جس سے مولٰی تبارک وتعالٰی نے مجھ کوواقف کرایا۔اس اعتراض کاجواب واضح ہوگیاجوامام ابن امیر الحاج نے خلاصہ کی سابقہ عبارت نقل کرنے کے بعد پیش کیاکہ: مذکورہ افضلیت کومطلق رکھنا محلِ نظر ہے جیساکہ تأمل کرنے والے پر مخفی نہیں اھ۔ وللہ الحمد۔

(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

تنبیہ : ماذکرت ان تثلیث الغسل بالطمانینۃ عسیر بالصاع شیئ تشہد لہ التجربۃ وایش انا وانت وقد استبعدہ ریحانۃ من ریاحین المصطفی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وعلیھم وسلم اعنی السید الامام الاجل محمدا الباقر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اخرج البخاری فــ(وعزاہ فی الحلیۃ لھما ولم ارہ لمسلم ولا عزاہ الیہ فی العمدۃ ولا الارشاد) عن ابی اسحٰق حدثنا ابو جعفر انہ کان عند جابر بن عبداللّٰہ ھو و ابوہ رضی اللّٰہ تعالی عنھم وعندہ قوم فسألوہ عن الغسل فقال یکفیک صاع فقال رجل مایکفینی فقال جابر کان یکفی من ھو اوفی منک شعرا وخیرا منک ثم امّنا فی ثوب۲؎

تنبیہ: یہ جومیں نے ذکر کیا کہ ایک صاع سے غسل میں اعضا کو تین تین بار دھولینا مشکل ہے ایسی بات ہے جس پر تجربہ شاہد ہے اور ما و شما کیاہیں اسے گلشنِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ایک گُلِ تر امامِ اجل سیّدنا محمد باقر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بعید سمجھا۔امام بخاری نے (حلیہ میں اس پربخاری ومسلم دونوں کا حوالہ دیا ہے،اورمیں نے یہ حدیث مسلم میں نہ دیکھی۔اورعمدۃ القاری وارشاد الساری میں بھی مسلم کا حوالہ نہ دیا)ابواسحاق سے روایت کی انہوں نے فرمایا ہم سے ابو جعفر(امام محمد باقر)نے حدیث بیان فرمائی کہ وہ اور اُن کے والد حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے پاس تھے۔ اورکچھ دوسرے لوگ بھی وہاں موجودتھے۔ان حضرات نے حضرت جابر سے غسل کے بارے میں پوچھا انہوں نے فرمایا: ایک صاع تمہیں کافی ہے۔ ایک شخص نے کہا:مجھے کافی نہیں ہوتا۔اس پر حضرت جابر نے فرمایا: کافی تو انہیں ہوجاتا تھاجوتم سے زیادہ بال اور خیر وخوبی والے تھے۔ پھر انہوں نے ایک ہی کپڑا اوڑھ کر ہماری امامت بھی فرمائی ہے۔

فـــ:تطفل اٰخر علیہا۔

(۲؎ صحیح البخاری کتاب الغسل،باب الغسل بالصاع و نحوہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۹)

قال فی العمدۃ فی مسند اسحٰق بن راھویہ ان متولی السؤال ھو ابو جعفر ۱؎ وقولہ قال رجل المراد بہ الحسن بن محمد بن علی بن ابی طالب الذی یعرف ابوہ بابن الحنفیۃ ۲؎ اھ وتبعہ القسطلانی۔

عمدۃ القاری میں ہے کہ مسند اسحٰق بن راہویہ میں ہے کہ سوال کرنے والے ابو جعفر(امام محمد باقر) تھے۔ اورانکی عبارت”ایک شخص نے کہا” میں قائل سے مراد حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب ہیں جن کے والد ابن الحنفیہ کے ساتھ معروف تھے اھ۔اس پرقسطلانی نے بھی عینی کی پیروی کی ہے۔

(۱؎ و ۲؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری باب الغسل،تحت الحدیث ۲۵۲ دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۲۹۵)

اقول : حدیث فــ الحسن بن محمد علی ما فی الصحیحین ھکذا عن ابی جعفر قال لی جابر اتانی ابن عمک یعرض بالحسن بن محمد بن الحنفیۃ قال کیف الغسل من الجنابۃ فقلت کان النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یاخذ ثلث اکف فیفیضھا علی رأسہ ثم یفیض علی سائر جسدہ فقال لی الحسن انی رجل کثیر الشعر فقلت کان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اکثر منک شعرا ۳؎ ھذا لفظ “خ” ونحوہ “م”

اقول:حضرت حسن بن محمد کی حدیث صحیحین میں اس طرح ہے :ابوجعفرسے مروی ہے کہ مجھ سے حضرت جابرنے فرمایا: میرے پاس تمہارا عم زاد۔حسن بن محمد بن الحنفیہ کی جانب اشارہ ہے۔ آیا۔کہا:غسلِ جنابت کس طرح ہوتا ہے؟ میں نے کہا:نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تین کف پانی لے کراپنے سرپربہاتے پھر باقی جسم پر بہاتے۔اس پر حسن نے مجھ سے کہا: میرے بال بہت ہیں۔ میں نے کہا: نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بال تم سے زیادہ تھے۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں۔اوراسی کے ہم معنی مسلم کی روایت میں بھی ہے،

فـــ:تطفل علی الامام العینی والقسطلانی۔

(۳؎ صحیح البخاری کتاب الغسل،باب من افاض علی رأسہٖ ثلثا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۹)

وفیہ قال جابر فقلت لہ یاابن اخی کان شعر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اکثر من شعرک واطیب ۱؎ وھو نص فی ان محمدا لم یشھد مخاطبتہ جابر والحسن وانما حکاھا لہ جابر بخلاف حدیث الباب وفی الکلام ایضا نوع تفاوت بل الرجل القائل ھو الامام ابو جعفر نفسہ اومن قال منھم مع تسلیم الباقین اخرج النسائی عن ابی اسحاق عن ابی جعفر قال تمارینا فی الغسل عند جابر بن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما فقال جابر یکفی من الغسل من الجنابۃ صاع من ماء قلنا مایکفی صاع ولا صاعان قال جابر قدکان یکفی من کان خیرا منکم واکثر شعرا ۲؎ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔

اوراس میں یوں ہے کہ جابر نے فرمایا: میں نے اس سے کہا جانِ برادر! رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بال تمہارے بالوں سے زیادہ اور پاکیزہ ترتھے۔یہ روایت اس بارے میں نص ہے کہ امام محمد باقرحضرت جابروحسن کی گفتگوکے وقت موجود نہ تھے اور ان سے حضرت جابر نے قصہ بتایا بخلاف زیر بحث حدیث کے،(جس میں خود ان کی موجودگی مذکورہے) اورکلام میں کچھ تفاوت ہے۔بلکہ اس حدیث میں ناکافی ہونے کی بات کہنے والے خود امام ابو جعفرہیں یاان حضرات میں سے کوئی اورشخص جنہوں نے کہا اور باقی نے تسلیم کیا۔ (کیوں کہ نسائی کی روایت میں یہ تفصیل ہے)امام نسائی نے ابواسحٰق سے روایت کی وہ ابو جعفر سے راوی ہیں انہوں نے کہا :ہم نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کے پاس غسل کے بارے میں اختلاف کیا۔ حضرت جابرنے کہا: غسل جنابت میں ایک صاع پانی کافی ہے۔ ہم نے کہا: ایک صاع دو صاع ناکافی ہے۔ حضرت جابرنے فرمایا: کافی تو انہیں ہوجاتا تھاجوتم لوگوں سے بہتراورتم سے زیادہ بال والے تھے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

(۱؎ صحیح مسلم کتاب الحیض،باب استحباب افاضۃ الماء علٰی الرأس وغیرہ…الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۹)
(۲؎ سنن النسائی کتاب الطہارۃ،باب ذکر القدر الذی یکتفی بہ الرجل من الماء للغسل نورمحمد کارخانہ تجار ت کراچی۱ /۴۶)

قال فی الحلیۃ یشعر ایضا بان ھذا التقدیر لیس بلازم فی کل حالۃ لکل واحد ومن ثمہ قال الشیخ عزالدین بن عبدالسلام ھذا فی حق من یشبہ جسدہ جسدالنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم انتھی یعنی فی الحجم ولعل انکار جابر وردہ علی القائل لظھور ان جسد القائل کان نحوجسد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مع فھم جابر عند الشک فی کون ذلک کافیا لہ اما لوسوسۃ اوغیرھا فاتی برد عنیف لیکون اقلع لذلک السبب من النفس واجمع فی التأسی بہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی ذلک۔

حلیہ میں لکھتے ہیں:اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ تحدید ہر حال میں،ہرشخص کے لئے لازم نہیں۔اسی لئے شیخ عزّالدین بن عبدالسلام نے فرمایایہ اس کے حق میں ہے جس کا جسم ،نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم کی طرح ہو۔انتہی۔ یعنی حجم میں۔شاید حضرت جابرکاانکاراورقائل کی تردید اسی لئے تھی کہ ظاہر یہ تھاکہ قائل کا جسم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم کی طرح تھا،ساتھ ہی حضرت جابرنے قائل سے متعلق یہ سمجھا کہ اسے ایک صاع کے کافی ہونے میں شک ہے جس کی وجہ وسوسہ ہے یااورکچھ۔تو اس کی ایسی سخت تردید فرمائی جو نفس سے اس شک کا سبب نکال باہر کردے اور اس بارے میں رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اقتدا پر طمانینت قلب پیدا کردے۔

ھذا التوجیہ الذی وفقنا لہ اولی من قول غیر واحد من المشائخ ان مافی ظاھر الروایۃ (ای ماتقدم ان الصاع والمداد فی مایکفی) بیان لمقدار الکفایۃ ثم یرد فونہ بقولھم حتی ان من اسبغ الوضوء والغسل بدون ذلک اجزاء ہ وان لم یکفہ زاد علیہ وکذا الکلام فیما روی الحسن عن ابی حنیفۃ (ای ماتقدم من رطل ورطلین وثلثۃ فی الاحوال) فی الوضوء ۱؎ اھ کلامہ الشریف مزید اما بین الاھلۃ۔

یہ توجیہ جس کی ہمیں توفیق ملی متعددمشائخ کے اس قول سے بہتر ہے کہ ظاہرالروایۃ کاکلام (یعنی وہ جوپہلے گزرا کہ صاع اورمُد،ادنٰی مقدار کفایت ہے)مقدار کفایت کابیان ہے پھر اس کے بعد وہی مشائخ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو وضو اور غسل اس سے کم مقدار میں کامل کرلے اس کے لئے وہی کافی ہے اوراگر یہ اس کے لئے کافی نہ ہوتواضافہ کرلے ۔اسی طرح اس میں بھی کلام ہے جوحسن بن زیادنے وضو کے بارے میں امام ابو حنیفہ سے روایت کی(یعنی وہ جوگزرا کہ مختلف احوال میں ایک رطل،دو رطل اورتین رطل کافی ہے)محقق حلبی کا کلام ہلالین کے درمیان ہمارے اضافوں کے ساتھ ختم ہوا۔

(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

اقول اولا : نظرفــ۱ رحمہ اللّٰہ تعالٰی الی لفظ البخاری قال رجل ولوکان متذکرا ما فی النسائی من قول الامام الباقر رضی اللّٰہ تعالی عنہ قلنا لم یرض۱؎ بذکر الوسوسۃ فحاشا محمد الباقر عنھا۔

اقول اوّلاً : صاحب حلیہ رحمہ اللہ تعالی نے بخاری کے الفاظ”ایک شخص نے کہا”پرنظررکھی اگر انہیں وہ یادہوتاجونسائی میں امام باقررضی اللہ تعالٰی عنہ کاقول مذکورہے کہ ”ہم نے کہا” تو وسوسہ کا تذکرہ پسندنہ کرتے۔کیوں کہ امام محمد باقر وسوسہ سے دُور ہیں۔

(۱؎ سنن النسائی کتاب الطہارۃ،باب ذکر القدر الذی یکتفی بہ الرجل… الخ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱/ ۴۶)

ثانیا : لوکانت فــ۲ علی ذکر منہ لم یذکر قولہ لظھور ان جسد القائل الخ فان ذلک ان فرض مستقیما ففی جسد بعضھم کالامام الباقر لا کلھم والقائلون القوم لقولہ قلنا وقول جابر من کان خیرا منکم وان تولی التکلم احدھم۔

ثانیاً: وہ روایت یاد رہتی تو یہ بات نہ کہتے کہ”ظاہر یہ تھاکہ قائل کا جسم الخ”۔کیوں کہ اسے اگر درست بھی مان لیاجائے توان میں سے بعض جیسے امام باقر کے جسم سے متعلق یہ بات ہوسکتی ہے سب سے متعلق نہیں جب کہ قائل سبھی حضرات تھے کیونکہ امام باقر کے الفاظ یہ ہیں کہ”ہم نے کہا”اورحضرت جابر کے الفاظ یہ ہیں کہ”تم لوگوں سے بہتر تھے”۔اگرچہ بولنے والے ان حضرات میں سے ایک ہی فرد رہے ہوں۔

فــ:تطفل اٰخرعلیہا۔

وثالثا : لایقتصرفــ۳ الامر علی المقاربۃ فی الحجم وحدہ بل یختلف فــ۴ باختلاف بدنین نعومۃ وخشونۃ و رطوبۃ ویبوسۃ وکون الشخص اجرد اواشعر وکث اللحیۃ اوخفیفھا وتام الوفرۃ اومحلوقہا الی غیر ذلک من الاسباب بل یختلف لشخص واحد باختلاف الفصول والبلدان والعمر والمزاج وغیر ذلک ۔

ثالثا : معاملہ صرف حجم میں قریب قریب ہونے پرمحدود نہیں، بلکہ فرق یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک بدن نرم ہو دوسرا سخت ،ایک رطب ہودوسرا یابس،اوریُوں بھی کہ ایک شخص کم بال والا ہو دوسرا زیادہ بال والا،ایک کی داڑھی گھنی دوسرے کی خفیف،ایک کے سر پرلمبے لمبے بال ہوں دوسرے کا سر مُنڈاہوا ہو، اور اس طرح کے فرق کے بہت سے اسباب ہوتے ہیں۔بلکہ موسم،شہر ،عمر ،مزاج وغیرہ کی تبدیلیوں سے خود ایک ہی شخص کاحال مختلف ہواکرتاہے۔

فـــ۳ : تطفل ثالث علیہا۔

فـــ۴ سب کے لیے غسل و وضو میں پانی کی مقدارجس طرح عوام میں مشہور ہے محض باطل ہے ایک شخص دیو قامت ہے ایک نہایت نحیف دبلا پتلا،ایک بہت درازقد ہے دوسراکمال ٹھنگنا، ایک بدن نرم و نازک و تر دوسرا خشک کُھرّا،ایک کے تمام اعضاء پر بال ہیں دوسرے کا بدن صاف ،ایک کی داڑھی بڑی اور گھنی،دوسرا بے ریش یا چند بال،ایک کے سر پر بڑے بڑے بال انبوہ دوسرے کا سر منڈھا ہوا۔ان سب کے لئے ایک مقدار کیونکر ممکن بلکہ شخص واحد کیلئے فصلوں اور شہروں اور عمر و مزاج کے تبدل سے مقدار بدل جاتی ہے،برسات میں بدن میں تری ہوتی ہے پانی جلد دوڑتا ہے،جاڑے میں خشکی ہوتی ہے وعلٰی ہذاالقیاس۔

ورابعا : بہ فــ۱ ظھران لوفرض لھم مداناۃ فی الحجم کان من المحال العادی المداناۃ فی جمیع اسباب الاختلاف بل ھو محال قطعا فمن اعظمھا النعومۃ ومن بدنہ کبدن ھذا القمر الزاھر صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم

رابعاً: اسی سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ بالفرض ان سب حضرات میں حجم کاقریب قریب ہوناظاہرتھاتومحال عادی ہے کہ تمام اسباب اختلاف میں باہم قرب رہاہو،بلکہ یہ محال قطعی ہے کیونکہ سب سے عظیم سبب فرق بدن کی نرمی و لطافت ہے اورایساکون ہوسکتاہے جس کابدن اس ماہِ انورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بدن جیساہو۔

فــ۱:تطفل رابع علیھا۔

وخامسا : لقی فــ۲ الامام الباقر سیدنا جابرا رضی اللّٰہ تعالی عنہما انما کان بعد ما صار بصیرا فکیف یعرف حجم ابدانھم۔

خامساً: امام باقرکی ملاقات سیدناجابر رضی اللہ تعالٰی عنہماسے اس وقت ہوئی جب حضرت جابر آنکھوں سے معذور ہو چکے تھے تو وہ ان لوگوں کے حجم کی شناخت کیسے کرتے۔

فـــ۲:تطفل خامس علیھا۔

وسادسا : کلام فــ۳ جابر نفسہ یدل انہ انما بناہ علی کثرۃ شعرالراس وقلتہ ۔

سادساً: خود حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا کلام بھی بتارہا ہے کہ انہوں نے بنائے کلام سر کے بالوں کی کثرت وقلّت پررکھی تھی۔

فــ۳:تطفل سادس علیھا۔

وسابعا : یریدفــ۱رحمہ اللّٰہ تعالٰی الاخذ علی المشایخ انھم حملوا ظاھر الروایۃ علی ادنی مابہ الکفایۃ ثم عادوا علیہا بالنقض بقولھم من اسبغ بدونہ اجزأہ مع انہ ھو الناقل لفظ الظاھر ماتقدم ان ادنی مایکفی فی الغسل صاع وفی الوضوء مد فلا محمل لہا الا ماذکروا مابدلوا وما غیروا۔

سابعاً : صاحبِ حلیہ رحمہ اللہ تعالٰی حضرات مشایخ پر یہ گرفت کرناچاہتے ہیں کہ”انہوں نے ظاہر الروایہ کوادنٰی مقدار کفایت پر محمول کیاپھرخودہی اس کے خلاف اس کے قائل ہوئے کہ جو اس سے کم میں پورا کرے تو اسے وہی کافی ہے”۔حالانکہ صاحبِ حلیہ نے خودہی ظاہرالروایہ کے الفاظ یہ نقل کئے کہ غسل میں ادنٰی مقدار کافی ایک صاع اور وضو میں ایک مُد ہے۔ظاہر الروایہ کا مطلب ان حضرات نے جوذکرکیااس کے سوا کچھ اور نہیں۔ اوران حضرات نے کوئی تغیّر وتبدّل نہ کیا۔

فــ۱:تطفل سابع علیھا۔

وثامنا : لایجوزفــ۲ ان یکون مراد الظاھر والمشائخ تقدیر ھذا لشخص واحد فی الدنیا یکون اضأل الناس واقصرھم واھزلھم واصغرھم حتی لایمکن لغیرہ ان یغتسل فی قدر مایکفیہ وانما ھی متمسکۃ فی ذلک بالحدیث کما ذکرتم وتقدم ولا یسبق الی وھم انھم لایفرقون بین قصیر صغیر ضیئل اجرد امرد محلوق الراس وطویل کبیر عبل اشعرکث اللحیۃ وافی الوفرۃ فیحکموا ان ھذا ھو ادنی مایکفی کلا منھما فاذن لم یریدوا الا رجلا سویا معتدل الخلق متوسط الاحوال وحینئذ لایکون ما اردفوا بہ مناقضا لظاھر الروایۃ ولا مغایرا للتوجیہ الذی نحوتم الیہ وبالجملۃ اری فھمی القاصر متقاعدا عن درک مرام ھذا الکلام۔

ثامناً : ممکن نہیں کہ ظاہر الروایہ اورحضرات مشائخ کی مراد یہ ہوکہ تحدید دنیا کے ایسے فرد واحد کے لئے ہے جو سارے انسانوں سے کم جُثّہ، پست قد، دُبلا پتلا اور چھوٹا ہوکہ اس کے لئے جس قدر پانی کافی ہوجاتاہے اتنے میں دوسرے کسی شخص کے لئے غسل کرلینا ممکن ہی نہ ہو۔دراصل اس مقدار کے سلسلے میں ظاہر الروایہ کا استناد حدیثِ پاک سے ہے جیساکہ آپ نے ذکرکیااورحدیث بھی گزرچکی۔اور کسی کو وہم بھی نہیں ہوسکتاکہ یہ حضرات پست قامت اور دراز قامت،چھوٹے اوربڑے،نحیف اورفربہ،کم مُداور بال دار ،بے ریش اورگھنی داڑھی والے، سرمُنڈے اوروافرگیسووالے کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اورایک طرف سے یہ حکم کرتے ہیں کہ یہی وہ ادنٰی مقدار ہے جو دونوں میں سے ہرایک کوکافی ہے۔ توان کی مراد کیاہے؟ تندرست،معتدل ہیأت،متوسط حالت کا آدمی۔ جب ایسا ہے توبعد میں جوانہوں نے ذکرکیا(اس سے کم میں ہوجائے تو وہ کافی اوراتنے میں نہ ہوسکے تواضافہ کرے) وہ نہ ظاہرالروایہ کے مخالف نہ اس توجیہ کے مغایر جوآپ نے اختیار کی۔بالجملہ میری فہم ناقص اس کلام کے مقصود کی دریافت سے قاصر ہے۔

فـــ۲:تطفل ثامن علیھا۔

وبعد اللتیا والتی انما بغینی ان ھذا الامام رحمہ اللّٰہ تعالی جعل الحدیث المذکور مشعرا بعدم التحدید ولا یستقیم الاشعار الابان یسلّم استبعاد الامام الباقر ویجعل رد سیدنا جابر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما حذار ان یکون ذلک عن وسوسۃ او نحوھا وحثا علی التأسی مھما امکن لاایجابا لانہ یکفی کلاما کان یکفیہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم وفیہ المقصود۔

اس ساری بحث وتمحیص کے بعدعرض ہے کہ میرا مقصود صرف یہ ہے کہ امام حلبی رحمہ اللہ تعالٰی نے یہ مانا ہے کہ حدیث مذکور پتا دے رہی ہے کہ تحدید نہیں، اوریہ پتادینا اسی وقت راست آسکتاہے جب وُہ امام باقر کا استبعاد تسلیم کریں اوریہ مانیں کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہماکی تردید اس اندیشہ سے تھی کہ وہ بات کہیں وسوسہ یااسی جیسی کسی چیز کے باعث نہ ہو، اوراس بات پرآمادہ کرنے کی خاطرکہ جہاں تک ہوسکے سرکار کی پیروی کی جائے۔ یہ تردید ایجاب کے مقصدسے نہ تھی اس لئے کہ اس کے لئے تویہی کہنا کافی تھاکہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے یہ مقدار کافی تھی اور مقصوداتنے ہی میں حاصل تھا۔

ثم اقول : اذا کان فـــ ھذا الاستبعاد فی الصاع فما ظنک بما یقتضیہ ظاھر حدیث الغرفات المار تحت الامر الثالث عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالی عنہما فانہ یفیدا استیعاب کل من الوجہ والید والرجل بغرفۃ واحدۃ وظاھر ان المراد الاغتراف بالکف بل صرح بہ قولہ اخذ غرفۃ فاضافہا الی یدہ الاخری فاذن یعسرجدا استیعاب الوجہ بغرفۃ واحدۃ فانھا لاتزید علی قدر الکف بل لاتبلغہ اذ لا بد للاغتراف من تقعیر فی الکف وعرض الوجہ مابین الاذنین اکبر بکثیر من طول الکف فماء قدر کف لایستوعب الوجہ طولا وعرضا بحیث یمر علی کل ذرۃ منہ بالسیلان واضافتہ الی الید الاخری لاتزیدہ قدرا بل لوابقی الکفان متلاصقتین لم یبلغ عرض مجموعھما عرض الوجہ وان فرق بینھما ووضعتا علی الجبینین طولا لم یستوعبہما الماء بحیث ینحدر من جمیع مساحۃ الطولین سیالا الی منتھی سطح الوجہ فان امر الید علی مسیل الماء ودلک بہا مالم یبلغہ من الوجہ کان غسلا لبعض ودھنا لبعض وکل ذلک معلوم مشاھد وامر الذراع والقدم اشد اشکالا اذلھما اطراف متباینۃ السمٰوٰت واحاطۃ ماء قدرکف بجمیع اطراف الید من الظفر الی المرفق مما لایعقل والکف نفسہ لاتحیط بالذراع فی امرار واحد وان امرت علی ظھر الذراع ثم اعیدت علی البطن اوبالعکس لم یصحبھا من الماء مایزید علٰی قدر الدَّھن وکذلک فی القدم مع مافیھا من الصعود بعد الھبوط لاجل الاسالۃ الی فوق الکعبین وعمل الید قدذکرنا مافیہ ومن ادعی تیسر ھذا فلیرنا کیف یفعل فبالامتحان یکرم الرجل اویھان ۔

ثم اقول:جب ایک صاع کے بارے میں یہ استبعا د ہے تو اس سے متعلق کیاخیال ہے جو امر سوم کے تحت بیان شدہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماکی، چُلّووں کے تذکرہ والی حدیث کے ظاہرکامقتضا ہے۔کیونکہ اس کامفاد تویہ ہے کہ بس ایک چُلو میں چہرے،ہاتھ، اور پاؤں ہر ایک کا استیعاب ہوجاتاتھا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ہتھیلی ہی سے چُلو لینا مراد ہے بلکہ اس قول میں تواس کی صراحت بھی ہے کہ ”ایک چُلو لے کر اسے اپنے دوسرے ہاتھ سے ملایا”۔ جب ایسا ہے توایک ہی چُلومیں پورے چہرے کودھولینا بہت ہی مشکل ہے۔اس لئے کہ ایک چلوہتھیلی بھر سے زیادہ نہ ہوگا بلکہ ہتھیلی بھربھی نہ ہوگا اس لئے کہ چُلو لینے کی لئے ضروری ہے کہ ہتھیلی کچھ گہری رکھی جائے۔اورایک کان سے دوسرے کان تک چہرے کی چوڑائی دیکھی جائے تووہ ہتھیلی کی لمبائی سے بہت زیادہ ہے توہتھیلی بھر پانی طول اورعرض دونوں میںچہرے کا اس طرح احاطہ نہیں کرسکتاکہ اسکے ہر ذرّے پر بہہ جائے۔اور اسے دوسرے ہاتھ سے ملالیں تواس کی مقدار میں اس سے کچھ اضافہ نہ ہوسکے گا بلکہ اگر دونوں ہتھیلیاں ملی ہوئی رکھی جائیں تو ان کی مجموعی چوڑائی بھی چہرے کی چوڑائی کے برابر نہ ہوگی۔ اور اگر ان کو الگ الگ کر کے پیشانی کے دونوں حصو ں پر لمبائی میں رکھاجائے توان دونوں میں اتنا پانی بھرا ہوا نہ ہوگا کہ دونوں کے طول کی پوری مساحت سے ڈھلک کر بہتے ہوئے چہرے کی سطح زیریں کے آخری حصہ تک پہنچ جائے۔ اوراگرایساکرے کہ جتنے حصے پرپانی بہہ گیا ہے وہاں ہاتھ پھیرکران حصوں پر مل لے جہاں پانی نہیں پہنچا ہے تو یہ بعض حصوں کو دھونا اور بعض کو ملنا ہوا۔ سب کو دھونا نہ ہوا۔ اور یہ سب مشاہدہ وتجربہ سے معلوم ہے۔ کلائی اور پاؤں کامعاملہ تواور زیادہ مشکل ہے اس لئے کہ ان کے کنارے الگ الگ سمتوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ہتھیلی بھر پانی ہی ناخن سے لے کرکہنی تک ہاتھ کے تمام اطراف وجوانب کا احاطہ کرلے ، یہ عقل میں آنے والی بات نہیں۔ اورایک بارپھیر نے میں خود ہتھیلی پوری کلائی کا احاطہ نہیں کرسکتی اور اگر ایک بار کلائی کی پشت پرہتھیلی پھیرے، پھر اس کے پیٹ پر پھیرے یا اس کے برعکس کرے تواس میں اتنا پانی نہ رہ سکے گا جو ملنے سے زیادہ کام کرسکے۔یہی حال پاؤں کاہے مزید اس میں یہ بھی ہے کہ پانی کو نیچے اترنے کے بعد پھر ٹخنوں کے اوپر تک بہنے کے لئے چڑھنا بھی ہے۔اورہاتھ کیا کام کرسکتاہے بس وہی جو ہم نے ابھی بتایا۔جودعوی رکھتا ہوکہ یہ آسان ہے وہ کر کے دکھادے کہ امتحان ہی سے آدمی کوعـزت ملتی ہے یا ذلّت۔

فـــ : اشکال فی حدیث البخاری والکلام علیہ حسب الاستطاعۃ۔

وقد استشعر الکرمانی فی الکواکب الدراری ورود ھذا وقنع بان منع ومرواثرہ الامام العینی واقر حیث قال قال الکرمانی فان قلت لایمکن غسل الرجل بغرفۃ واحدۃ قلت الفرق ممنوع ولعل الغرض من ذکرہ علی ھذا الوجہ بیان تقلیل الماء فی العضو الذی ھو مظنۃ الاسراف فیہ ۱؎ اھ۔

الکواکب الدراری میں امام کرمانی کو اس اعتراض کاخیال ہوا اور صرف ناقابل تسلیم کہہ کر گزر گئے اورامام عینی نے بھی ان کا کلام نقل کرکے برقرار رکھا۔وہ لکھتے ہیں کرمانی فرماتے ہیں: اگر یہ کہوکہ ایک چلو میں پاؤں دھونا ممکن نہیں تو میں کہوں گا ہم یہ فرق نہیں مانتے۔اور شاید اس طرح ذکر کرنے سے ان کامقصد یہ ہے کہ پانی اس عضو میں کم صرف کیاجائے جس میں اسراف ہونے کاگمان ہے اھ۔

(۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الوضوء، تحت الحدیث۱۴۰ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۴۰۰ و ۴۰۱)

اقول : ومجردفــ المنع فی امثال الواضحات لایسمع ولا ینفع وحملہ المحقق فی الفتح علی تجدید الماء لکل عضو فقال وما فی حدیث ابن عباس فاخذ غرفۃ من ماء الی اخر ما تقد م یجب صرفہ الی ان المراد تجد ید الماء بقرینۃ قولہ بعد ذلک ثم اخذ غرفۃ من ماء فغسل بھا یدہ الیمنی ثم اخذ غرفۃ من ماء فغسل بھا یدہ الیسری ومعلوم ان لکل من الیدین ثلث غرفات لا غرفۃ واحدۃ فکان المراد اخذ ماء للیمنی ثم ماء للیسری اذلیس یحکی الفرائض فقد حکی السنن من المضمضۃ وغیرھا ولو کان لکان المراد ان ذلک ادنی مایمکن اقامۃ المضمضۃ بہ کما ان ذلک ادنی مایقام فرض الید بہ لان المحکی انما ھو وضوء ہ الذی کان علیہ لیتبعہ المحکی لھم ۱؎ اھ وتبعہ المحقق الحلبی فی الغنیۃ۔

اقول : (میں کہتاہوں) اس طرح کی واضح باتوں میں صرف منع سے کام نہیں چلتا نہ ہی یہ قابل قبول ہوتا ہے۔اورحضرت محقق نے فتح القدیر میں اس کواس پرمحمول کیاہے کہ ہر عضوکے لئے نیا پانی لیتے۔ وہ لکھتے ہیں: وہ جوحضرت ابن عباس کی حدیث میں ہے کہ پھر ایک چلو پانی لیا۔الٰی آخر الحدیث ۔اسے اس طرف پھیرناضروری ہے کہ مراد نیا پانی لینا ہے اس کا قرینہ اس کے بعد ان کایہ قول ہے کہ پھر ایک چلو پانی لیاتو اس سے دایاں ہاتھ دھویا،پھر ایک چلو پانی لیا تو اس سے بایاں ہاتھ دھویا۔ اورمعلوم ہے کہ ہر ہاتھ کے لئے تین چلو لئے ہوں گے ایک ہی چلو نہیں، تومرادیہ ہے کہ کچھ پانی دائیں ہاتھ کے لئے لیا پھر کچھ پانی بائیں ہاتھ کے لئے لیا۔ اس لئے کہ وہ صرف فرائض کی حکایت نہیں فرما رہے ہیں بلکہ مضمضہ وغیرہ سنتیں بھی بیان کی ہیں۔اوراگر وہی ہوتومراد یہ ہے کہ یہ وہ ادنٰی مقدار ہے جس سے عمل مضمضہ کی ادائیگی ہوسکتی ہے۔ جیسے یہ وہ ادنی مقدار ہے جس سے فرضِ دست کی ادائیگی ہوجاتی ہے اس لئے کہ حکایت اُس وضو کی ہورہی ہے جو سرکار نے کیاتھا تاکہ دیکھنے والے لوگ اسی طریقہ کی پیروی کریں اھ۔محقق حلبی نے غنیہ کے اندر اس کلام میں حضرت محقق کی پیروی کی ہے۔

فــ:تطفل علی الامام العینی والکرمانی َ۔

(۱؎ فتح القدیر، کتاب الطہارات مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۲۴)

قلت : ومطمح نظرہ رحمہ اللّٰہ تعالی سلخ الغرفۃ عن الواحدۃ مستندا الی ان المحکی الوضوء المسنون بدلیل ذکر المضمضۃ والاستنشاق والمسنون التثلیث فکیف یراد الواحدۃ وانما معناہ اخذ لکل عمل ماء جدید اوھو اعم من اخذہ مرۃ اومرارا فیکون معنی قولہ غرفۃ من ماء فتمضمض بہا واستنشق ان اخذلھا ماء جدیدا ولو مرارا فلا یدل علی انھما بماء واحد کما یقولہ الامام الشافعی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فھذا مرادہ وھو قد ینفعنا فیما نحن فیہ وان کان کلامہ فی مسألۃ اخری۔

قلت : حضرت محقق رحمہ اللہ تعالٰی کامطمحِ نظر یہ ہے کہ چلو کے لفظ سے وحدت کامفہوم الگ کردیں،اس پران کا استناد اس سے ہے کہ یہاں وضوئے مسنون کی نقل ہو رہی ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ مضمضہ اور استنشاق کا ذکر ہے۔ اورمسنون تین بار دھونا ہے تو وحدت کیسے مرادہوسکتی ہے۔ اس کا معنی بس یہ ہے کہ ہر عمل کے لئے نیاپانی لیا۔اور یہ اس سے اعم ہے کہ ایک بار لیا یا چند بارلیا تو ان کے قول ”پانی کا ایک چلو لے کر اس سے مضمضہ اوراستنشاق کیا” کا معنٰی یہ ہوگا کہ دونوں کے لئے جدید پانی لیااگرچہ چندبار۔تو وہ یہ نہیں بتاتا کہ مضمضہ اور استنشاق دونوں ایک ہی پانی میں ہوا جیسا کہ امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کے قائل ہیں۔یہ ہے حضرت محقق کی مراد۔اور وہ ہمارے زیرِبحث مسئلہ میں بھی کارآمد ہے اگرچہ ان کا کلام ایک دوسرے مسئلہ کے تحت ہے۔

اقول : لکن فــ۱ فیہ بعد لایخفی والمحقق عارف بہ ولذا قال یجب صرفہ لکن الشان فی ثبوت الوجوب وما استند بہ سیاتی الکلام علیہ۔

اقول : لیکن اس میں نمایاں بعدہے۔ اورحضرت محقق اس سے واقف ہیں اسی لئے فرمایا:”اسے پھیرنا” واجب ہے ۔لیکن مشکل معاملہ ثبوت وجوب ہے اورجس سے انہوں نے استناد فرمایا اس پر آگے کلام ہوگا۔

فــ۱ تطفل علی المحقق والغنیۃ ۔

علی ان الحدیث فــ۲رواہ ابن ماجۃ عن زید بن اسلم عن عطاء بن یسار عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما وھذا ھومخرج الحد یث رواہ البخاری عن سلیمن بن بلال عن زید والنسائی عن ابن عجلان عن زید مطولا وقال ابن ماجۃ حدثنا عبداللّٰہ بن الجراح وابو بکر بن خلاد الباھلی ثنا عبدالعزیز بن محمد عن زید فاخرجہ مقتصرا علی قولہ ان رسول اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مضمض واستنشق من غرفۃ ۱؎ واحدۃ

علاوہ ازیں یہ حدیث ابن ماجہ نے زید بن اسلم سے روایت کی ہے وہ عطابن یسارسے وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ہیں۔اورمخرج حدیث یہی زیدبن اسلم ہیں۔ اسے امام بخاری نے سلیمان بن بلال سے روایت کیاوہ زید سے راوی ہیں۔اورنسائی نے ابن عجلان سے روایت کیاوہ زید سے راوی ہیں مطوّلاً۔ اور ابنِ ماجہ نے کہا: ہم سے عبداللہ بن جراح اور ابو بکر بن خلاد باہلی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن محمدنے حدیث بیا ن کی وہ راوی ہیں زیدسے۔ پھر اس میں صرف یہ روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک چلو (من غرفۃ واحدۃ) سے مضمضہ واستنشاق کیا۔

فــ۲تطفل اٰخرعلیہما ۔

(۱؎ سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب المضمضۃ والا ستنشاق الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۳)

ومن ھذا الطریق اخرجہ النسائی فقال اخبرنا الھیثم بن ایوب الطالقانی قال عبد العزیز بن محمد قال ثنازید وفیہ رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضا فغسل یدیہ ثم تمضمض واستنشق من غرفۃ واحدۃ ۱؎ الحدیث فھذا لایقبل الانسلاخ عن الواحدۃ وکافٍ فی الجواب ماافادہ اخرا بقولہ ولو کان لکان الخ مع ماقد م من احادیث ناطقۃ بالمذھب وزاد تلمیذہ المحقق فی الحلیۃ حد ثنا اخر رواہ البزار بسند حسن۔

اوراسی طریق سے امام نسائی نے تخریج کی تو انہوں نے فرمایا: ہمیں ہیثم بن ایوب طالقانی نے خبر دی انہوں نے کہا عبدالعزیز بن محمد نے بتایا انہوں نے کہا ہم سے زید بن اسلم نے حدیث بیان کی۔اس میں یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو فرمایا تو اپنے دونوں ہاتھ دھوئے پھر ایک چلو(من غرفۃ واحدۃ) سے مضمضہ واستنشاق کیا، الحدیث۔تواس روایت سے وحدت کامعنی الگ نہیں کیاجاسکتا(کیوں کہ اس میں غرفۃ واحدۃ صراحۃً موجود ہے)اور جواب میں وہی کافی ہوگا جو آخر میں افادہ فرمایا کہ اگر وہی ہو تو مراد یہ ہے کہ یہ وہ ادنٰی مقدار ہے الخ۔ اس کے ساتھ ہمارے مذہب کی تائید میں بولتی ہوئی وہ احادیث بھی ہیں جوحضرت محقق پہلے پیش کر آئے ۔ اوران کے تلمیذ محقق نے حلیہ میں ایک اور حدیث کا اضافہ کیا جو بزار نے بسندِ حسن روایت کی۔

(۱؎ سنن النسائی کتاب الطہارۃ باب مسح الاذنین نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۲۹)

وانا اقول : وباللّٰہ التوفیق للعبد الضعیف فی الحدیث وجہان :الاوّل حمل الغرفۃ علی المرۃ ای غسل کل عضو مرۃ مرۃ بھذا تنحل العقد بمرۃ ولانسلم ان ذکر المضمضۃ والاستنشاق یستلزم استیعاب جمیع السنن لِمَ لا یجوزا ن یکون ھذا بیانا لجواز الاقتصار علی مرۃ فی الفرائض والسنن وما فیہ من البعد اللفظی یقربہ جمع طرق الحدیث ۔

اقول : وباللہ التوفیق، میرے نزدیک تاویلِ حدیث کے دوطریقے ہیں:

پہلا طریقہ : یہ کہ لفظ غرفۃ کو مرۃ پر محمول کیا جائے یعنی ہرعضوکوایک ایک بار دھویا۔ اسی سے ساری گر ہیں یکبارگی کھل جائیں گی۔اور یہ ہمیں تسلیم نہیں کہ مضمضہ اور استنشاق کاذکر اسے مستلزم ہے کہ تمام سنتوں کااحاطہ رہا ہو۔یہ کیوں نہیں ہوسکتاکہ یہ وضو اس امر کے بیان کے لئے ہو کہ فرائض اورسنن دونوں ہی میں ایک بار پر اقتصار جائز ہے۔اس میں جو لفظی بُعد نظر آرہا ہے وہ اس حدیث کے مختلف طُرق جمع کرنے سے قریب آجائے گا۔

فلعبد الرزاق عن عطاء بن یسار عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما انہ توضأ فغسل کل عضو منہ غسلۃ واحدۃ ثم ذکران النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کان یفعلہ ۱؎

(۱)عبدالرزاق کی روایت میں عطا بن یسارسے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے یہ ہے کہ انہوں نے وضو کیا تو اپنے ہر عضو کوایک بار دھویا۔پھر بتایا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایسا کرتے تھے۔

(۱ ؎ المصنف لعبدالرزاق کتاب الطہارۃ باب کم الوضوء من غسلۃ ا لمکتب الا سلا می بیروت ۱ /۴۱)

ولسعید بن منصور فی سننہ بلفظ توضا النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فادخل یدہ فی الاناء فمضمض واستنشق مرۃ واحدۃ ثم ادخل یدہ فصب علی وجہہ مرۃ وصب علی یدہ مرۃ مرۃ ومسح براسہ واذنیہ مرۃ ثم اخذ ملأ کفہ من ماء فرش علی قدمیہ وھو منتعل ۲؎ اھ وسیاتی تفسیر ھذا الرش فی الحدیث۔

( ۲)سُنن سعید بن منصور کے الفاظ یہ ہیں: نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وضو کیاتو اپنا دستِ مبارک برتن میں ڈالا پھر کُلّی کی اور ناک میں پانی چڑھایا ایک بار۔ پھر اپنا دست مبارک داخل کر کے(پانی نکالا) توایک بار اپنے چہرے پر بہایا اوراپنے ہاتھ پر ایک ایک باربہایا۔ اوراپنے سر اور دونوں کانوں کا مسح کیا۔ پھرہتھیلی بھر پانی لے کر اپنے قدموں پرچھڑکاجب کہ حضور نعلین پہنے ہوئے تھے۔اس چھڑکنے کی تفسیر آگے حدیث ہی میں آئے گی۔

(۲؎ کنز العمال بحوالہ سعید بن منصور حدیث ۲۶۹۳۵ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹ /۴۵۴)

بل روی البخاری قال حدثنا محمد بن یوسف ثناسفیان عن زید بلفظ توضأ النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم مرۃ مرۃ ۱؎

(۳) بلکہ امام بخاری نے روایت کی ، فرمایا :ہم سے محمد بن یوسف نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے حدیث بیان کی وہ زید سے راوی ہیں اس کے الفاظ یہ ہیں :نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک ایک بار وضو کیا۔

(۱؎ صحیح البخاری کتاب الوضو باب الوضوء مرۃ مرۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۷)

وقال ابو داؤد وحدثنا مسددثنا یحیی عن سفیان ثنا زید ۲؎

(۴)ابوداؤد نے کہا: ہم سے مسدّد نے حدیث بیان کی، وہ سفیان سے راوی ہیں انہوں نے کہا مجھ سے زید نے حدیث بیان کی۔

(۲؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب الوضوء مرۃ مرۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۸)

وقال النسائی اخبرنا محمد بن مثنی ثنا یحیی عن سفین ثنا زید ۳؎

(۵)نسائی نے کہا: ہمیں محمدبن مثنی نے خبردی انہوں نے کہا ہم سے یحیٰی نے حدیث بیا ن کی، وہ سفیان سے راوی ہیں انہوں نے کہا ہم سے زید نے حدیث بیان کی۔

(۳؎ سنن النسائی کتاب الطہارۃ باب الوضوء مرۃمرۃ نور محمد کار خانہ تجات کتب کراچی ۱ /۲۵)

وقال الامام الاجل الطحاوی حدثنا ابن مرزوق ثنا ابو عاصم عن سفین عن زید۴؎ ولفظ الاولین فیہ الا اخبر کم بوضؤ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فتوضأ مرۃ مرۃ ۵؎ وبمعناہ لفظ الطحاوی ۔

(۶)امام اجل طحاوی نے کہا: ہم سے ابن مرزوق نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا ہم سے ابو عاصم نے حدیث بیان کی، وہ سفیان سے وہ زید سے راوی ہیں۔ ابو داؤد نسائی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں : کیا میں تم لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وضو نہ بتاؤں۔پھر انہوں نے ایک ایک بار وضو کیا۔ اوراسی کے ہم معنی امام طحاوی کے الفاظ ہیں۔

(۴؎ شرح معانی الاثار کتاب الطہارۃ باب الوضو ء لصلوۃ مرۃ مرۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۸)
(۵؎؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب الوضوء مرۃ مرۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۸)
(سنن النسائی کتاب الطہارۃ باب الوضوء مرۃ مرۃ نور محمد کار خانہ تجات کتب کراچی ۱ /۲۵)

وللنسائی من طریق ابن عجلان المذکور بعد مامر وغسل وجہہ وغسل یدیہ مرۃ مرۃ ومسح برأسہ واذنیہ مرۃ ۱ ؎ الحدیث

(۷)ابن عجلان کے مذکورہ طریق سے نسائی کی روایت میں سابقہ الفاظ کے بعدیہ ہے :اوراپنا چہرہ دھویااور اپنے دونوں ہاتھ ایک ایک بار دھوئے۔ اوراپنے سراور دو نوں کانوں کا ایک بار مسح کیا۔ الحدیث۔

( ۱؎ سنن نسائی کتاب الطہارۃ باب مسح الاذنین نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۲۹)

وفی ھذا والذی مرعن سعید بن منصور ابانۃ ماذکرتہ من ان ذکر المضمضۃ والاستنشاق لایستلزم استیعاب السنن حتی ینافی ترک التثلیث فقد تظافرت الروایات علی لفظ مرۃ والاحادیث یفسر بعضھا بعضا فکیف وقد اتحد المخرج۔

اس میں اور سعید بن منصورسے نقل شدہ روایت میں اس کی وضاحت موجود ہے جو میں نے ذکر کیاکہ مضمضہ واستنشاق کا تذکرہ تمام سنتوں کے احاطہ کو مستلزم نہیں کہ ترک تثلیت کے منافی ہو۔ کیوں کہ روایات”ایک بار”کے لفظ پر متفق ہیں اور احادیث میں ایک کی تفسیر دوسری سے ہوتی ہے۔ پھر جب مخرج ایک(زیدبن اسلم) ہیں توایک حدیث دوسری کی مفسّر کیوں نہ ہوگی۔

اقول : وقد یشد عضدہ ان الحدیث مطولا عند ابن ابی شیبۃ بزیادۃ ثم غرف غرفۃ فمسح رأسہ واذنیہ الحدیث۲؎ فالغرفۃ التی کانت توضی کلا من الوجہ والید والرجل لو استعملت فی الرأس لغسلتہ فانما اراد واللّٰہ تعالی اعلم المرۃ مع التجدید ورحم اللّٰہ ابا حاتم اذقال ماکنا نعرف الحدیث حتی نکتبہ من ستین وجہا وانا اعلم ان الجادۃ فی روایات الوقائع حمل الاعم علی الاخص ولکن لاغروفی العکس لاجل التصحیح۔

اقول : اس کی تقویت اس سے بھی ہوتی ہے کہ ابن ابی شیبہ کے یہاں یہ حدیث مطوّلاً اس اضافہ کے ساتھ ہے: ثم غرف غرفۃ فمسح رأسہ واذنیہ ( پھر ایک چلو لے کر اپنے سر اور دونوں کانوں کا مسح کیا) توجس چلوسے چہرہ ،ہاتھ اور پاؤں میں سے ہر ایک کا وضو ہوجاتا تھا وہ اگر سرمیں استعمال ہوتاتواسے دھونے کاکام کر دیتا(نہ کہ اس سے صرف مسح ہوتا۱۲م)تو مراد۔واللہ تعالٰی اعلم۔ وہی ایک ایک بار ہے ساتھ ہی پانی کی تجدید بھی۔ خدا کی رحمت ہوابوحاتم پرکہ وہ فرماتے ہیں ہمیں حدیث کی معرفت نہ ہوتی جب تک اسے ساٹھ طریقوں سے نہ لکھ لیتے۔ اورمجھے معلوم ہے کہ واقعات کی روایات میں عام راہ یہ ہے کہ اعم کواخص پر محمول کیا جائے مگر تصحیح کی خاطر اس کے برعکس کرنا بھی جائے عجب نہیں۔

(۲؎ المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الطہارۃ باب فی الوضوء کم ھو مرۃ حدیث ۶۴ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱ /۱۷)

والثانی : حمل الغرفۃ علی الحفنۃ ای بکلتا الیدین وربما تطلق علیھا فروی البخاری عن ام المومنین رضی اللّٰہ تعالی عنہا فیما حکت غسلہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ” ثم یصب علی رأسہ ثلث غرف بیدیہ۱؎

دوسرا طریقہ : یہ کہ غرفہ کو حفنہ پر (چلو کو لَپ پر) یعنی دونوں ہاتھ ملا کر لینے پر محمول کیاجائے۔ اور بعض اوقات لفظ غرفہ کا اس معنٰی پر اطلاق ہوتاہے(۱)بخاری کی روایت میں ہے جو حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالی ٰعنہا سے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے غسل مبارک کی حکایت میں آئی ہے کہ :”پھر اپنے سرپرتین چلو دونوں ہاتھوں سے بہاتے”۔

(۱؎ صحیح البخاری کتاب الغسل با ب الوضوء قبل الغسل قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۹)

ولا بی داؤد عن ثوبان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ، اما المرأۃ فلا علیھا ان لاتنقضہ لتغرف علی رأسھا ثلث غرفات بکفیھا ۲؎

(۲) ابو داؤد کی روایت میں ہے جوحضرت ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نبی صلی اللہ تعالٰیعلیہ وسلم سے ہے” لیکن عورت پراس میں کوئی حرج نہیں کہ بال نہ کھولے ،وہ اپنے سرپردونوں ہاتھوں سے تین چلوڈالے”

(۲؎ سُنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب المرأۃ ھل تنقض شعرھا عند الغسل آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۴)

ویؤیدہ حدیث ابی داؤد والطحاوی عن محمد بن اسحٰق عن محمد بن طلحۃ عن عبید اللّٰہ الخولانی عن عبداللّٰہ بن عباس عن علی رضی اللّٰہ تعالی عنہم عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وفیہ ثم ادخل یدیہ جمیعا فاخذ حفنۃ من ماء فضرب بھا علی رجلہ وفیھا النعل فغسلھا بھا ثم الاخری مثل ذلک ۱؎

(۳) اور اس کی تائید ابوداؤد اور طحاوی کی روایت سے ہوتی ہے جس کی سند یہ ہے ۔عن محمد بن اسحاق۔ عن محمد بن طلحہ عن عبیداللہ الخولانی۔ عن عبد اللہ بن عباس عن علی رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

اس میں یہ ہے کہ پھر اپنے دونوں ہاتھ ڈال کر لپ بھر پانی لے کر اسے پاؤں پرمارا۔جبکہ پاؤں میں جوتا موجود تھا۔ تواس سے پاؤں دھویاپھر اسی طرح دوسرا پاؤں دھویا۔

(۱؎ سُنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب صفۃ وضوء النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۶)

ولفظ الطحاوی ثم اخذ بیدیہ جمیعا حفنۃ من ماء فصک بھا علی قدمہ الیمنی والیسری کذلک ۲؎ واخرجہ ایضا احمد وابو یعلی وابن خزیمۃ۳؎ وابن حبان والضیاء وھذا معنی مامر من حدیث سعید بن منصور اِن شاء اللّٰہ تعالٰی والمعنی الاخر المسح وقد نسخ اوکان وفی القدمین جوربان ثخینان علی مابینہ الامام الطحاوی رحمہ اللّٰہ تعالی۔

اور روایت طحاوی کے الفاظ میں یہ ہے: پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے لپ بھر پانی لیا ، تواسے دائیں قدم پر زور سے ماراپھر بائیں پر بھی اسی طرح کیا۔اس کی تخریج امام احمد،ابویعلی،ابن خزیمہ، ابن حبان اور ضیاء نے بھی کی ہے۔اوریہی اس کا معنی ہے۔ ان شاء اللہ تعالٰی۔ جوسعید بن منصور کی حدیث میں آیا(کہ فرش علٰی قدمیہ تو اپنے دونوں قدموں پر چھڑکا”۱۲م) دوسرا معنی مسح ہے جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔یا مسح اس حالت میں ہوا کہ قدموں پر موٹے پاتا بے تھے جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ تعالٰی نے بیان کیا۔

(۲؎ شرح معانی الآثار کتاب الطہارۃ باب فرض الرجلین فی الوضوء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۲)
(۳؎صحیح ابن خزیمہ حدیث ۱۴۸ المکتب الاسلامی بیروت۱ /۷۷)
(مواردالظمآن کتاب الطہارۃ حدیث ۱۵۰ المطبعۃ السلفیہ ص۶۶)
(کنز العمال بحوالہ حم ،د،ع وابن خزیمۃ الخ حدیث ۲۶۹۶۷ مؤسستہ الرسا لۃ بیروت ۹ /۴۵۹۔۴۶۰)

اقول : وما ذکرت من الوجہین فلنعم المحملان ھما لمثل طریق ابن ماجۃ حدثنا ابو بکر بن خلاد الباھلی ثنا یحیی بن سعید القطان عن سفیان عن زید وفیہ رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضأ غرفۃ غرفۃ۱؎

اقول : میں نے جو دوطریقے ذکرکئے یہ بہت عمدہ محمل ہیں اس طرح کی روایات کے جو مثلاً بطریق ابن ماجہ یوں آئی ہیں ہم سے ابو بکر بن خلاد باہلی نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا ہم سے یحیٰی بن سعیدقطان نے حدیث بیان کی وہ سفیان سے وہ زیدسے راوی ہیں۔اس میں یہ ہے کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک ایک چُلو سے وضوکیا۔

(۱؎ سنن ابن ماجہ کتاب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضوء مرۃ مرۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۳)

وحدیث ابن عساکر عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضأ غرفۃ غرفۃ وقال لایقبل اللّٰہ صلاۃ الابہ ۲؎

اور ابن عساکر کی حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک ایک چُلو سے وضوکیا۔اورفرمایا: اللہ نماز قبول نہیں فرماتامگراسی سے ۔

(۲؎ کنز العمال بحوالہ عساکر عن ابی ہریرۃ حدیث ۲۶۸۳۱مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۴۳۱)

فیکون علی الحمل الاول کحدیث سعید بن منصور وابن ماجۃ والطبرانی والدار قطنی والبیہقی عن ابن عمروابن ماجۃ والدار قطنی عن ابی بن کعب والدار قطنی فی غرائب مالک عن زید بن ثابت وابی ھریرۃ معارضی اللّٰہ تعالی عنھم ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضا مرۃ مرۃ وقال ھذا وضؤ لایقبل اللّٰہ صلاۃالابہ ۳؎

تویہ ہمارے بیان کردہ پہلے طریقہ کے مطابق حضرت ابن عمر سے سعیدبن منصور،ابن ماجہ، طبرانی، دارقطنی اور بیہقی کی حدیث کی طرح ہوجائے گی، اور جیسے حضرت ابی بن کعب سے ابن ماجہ ودارقطنی کی حدیث، اور حضرت زید بن ثابت اور ابو ہریرہ دونوں حضرات رضی اللہ تعالٰی عنہم سے غرائب مالک میں دارقطنی کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک ایک بار وضوکیااورفرمایا:یہ وہ وضو ہے جس کے بغیر اللہ کوئی نماز قبول نہیں فرماتا۔

(۳؎ سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی الوضوء مرۃ و مرتین وثلثا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۴)

وکذا للیدین والرجلین فی حدیث ابن عباس غیرانہ یکدرھما جمیعا فی الوجہ قولہ اخذ غرفۃ من ماء فجعل بھا ھکذا اضافھا الی یدہ الاخری فغسل بھا وجہہ ۱؎

اسی طرح حضرت ابن عباس کی حدیث میں دونوں ہاتھوں اور پیروں سے متعلق جو مذکور ہے اس کا بھی یہ عمدہ محمل ہوگا۔ مگر یہ ہے کہ چہرے سے متعلق دونوں تاویلیں اس سے مکدر ہوتی ہیں کہ ان کا قول ہے”ایک چُلو پانی لے کر اسے اس طرح کیا، اسے دوسرے ہاتھ سے ملا کرچہرہ دھویا۔

(۱؎ صحیح البخاری باب غسل الوجہ بالیدین من غرفۃ واحدۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶)

الا ان یتکلف فیحمل علی ان اضاف الغرفۃ ای الاغتراف الی الید الاخری ایضا غیر قاصر لہ علی ید واحدۃ فیرجع ای الاغتراف بالیدین ویکون کحدیث ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما ایضا عن علی کرم اللّٰہ تعالٰی وجہہ عن رسول اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ادخل یدہ الیمنی فافرغ بھا علی الاخری ثم غسل کفیہ ثم تمضمض واستنثر ثم ادخل یدیہ فی الاناء جمیعا فاخذ بہما حفنۃ من ماء فضرب بھا علی وجہہ ثم الثانیۃ ثم الثالثۃمثل ذلک۲؎

مگر یہ کہ بتکلف اسی معنی پر محمول کیاجائے کہ انہوں نے چلو لینے میں دوسرے ہاتھ کو بھی ملالیاایک ہاتھ پر اکتفانہ کی تو یہ دونوں ہاتھ سے چلو لینے کے معنی کی طرف راجع ہوجائے گا اوراسی طرح ہوجائے گا جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماکی حدیث،حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ،رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ہے کہ اپنا دایاں ہاتھ داخل کرکے اس سے دوسرے ہاتھ پر پانی ڈالا پھر دونوں ہتھیلیوں کودھویا،پھر کُلی کی اورناک میں پانی ڈال کر جھاڑا پھربرتن میں دونوں ہاتھ ڈال کر ایک لپ پانی لے کر چہرے پر مارا، پھر دوسری پھر تیسری باراسی طرح کیا۔

(۲؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب صفۃ وضؤ النبی صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۶)

ورواہ الطحاوی مختصرا فقال اخذ حفنۃ من ماء بیدیہ جمیعا فصک بھما وجہہ ثم الثانیۃ مثل ذلک۳؎ ثم الثالثۃ فذکرالی المضمضۃ والاستنشاق الاغتراف بکف واحدۃ فاذا اتی علی الوجہ اضافہ الی الید الاخری ایضا فان لم یقبل ھذا فقد علمت ان استیعاب الوجہ بکف واحدۃ متعسر بل متعذر۔

اسے امام طحاوی نے مختصراً روایت کیا۔اس میں یہ ہے کہ اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرے پر مارا، پھر دوسری بار اسی طرح کیا،پھرتیسری بارایسے ہی۔ تومضمضہ واستنشاق تک توایک ہاتھ سے چلو لینا ذکر کیا۔جب چہرے پرآئے تودوسراہاتھ بھی ملایا۔اگر یہ تاویل نہ مانی جائے تو معلوم ہوچکا کہ ہتھیلی بھر پانی سے چہرے کا استیعاب دشوار بلکہ متعذر ہے۔(ت)

(۳؎شرح معانی الآثار کتاب الطہارۃ باب الحکم الاذنین فی الوضوءللصلوۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۰ )

اقول : بل لربما تبقی الحفنۃ باقیۃ فضلا عن الکفۃ والدلیل علیہ ھذا الحدیث الذی ذکرنا تخریجہ عن الامام احمد وابی داؤد وابن خزیمۃ وابو یعلی والامام الطحاوی وابن حبان والضیاء عن ابن عباس عن علی عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وعلیہم وسلم حیث قال بعد ذکر غسل الوجہ بثلث حفنات کما تقدم ثم اخذ بکفہ الیمنی قبضۃ من ماء فصبہا علی ناصیتہ فترکہا تستن علی وجہہ ثم غسل ذراعیہ الی المرفقین ثلثا ثلثا۱؎ الحدیث وھذا ایضا معلوم مشاھد۔

اقول : بلکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوگا کہ دونوں ہاتھ سے لینے پر بھی کچھ حصہ باقی رہ جائے گا صرف ہتھیلی بھر لینے کی توبات ہی کیاہے۔ اس پر دلیل یہی حدیث ہے جس کی تخریج ہم نے امام احمد،ابوداؤد،ابن خزیمہ، ابو یعلی، امام طحاوی، ابن حبان اور ضیاء سے ذکر کی، جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کی روایت سے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مروی ہے اس میں جیسا کہ گزرا تین لپ سے چہرہ دھونے کے تذکرے کے بعد ہے، پھر اپنے دائیں ہاتھ سے مٹھی بھرپانی لے کر پیشانی پر ڈال کر اسے چہرے پر بہتا چھوڑدیا۔ پھر اپنی کلائیوںکوکہنیوں تک تین تین بار دھویا۔ یہ بھی تجربہ ومشاہدہ سے معلوم ہے۔

(۱؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب صفۃ وضؤ النبی صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۶)

وبالجملۃ لولم یصرف حدیث الغرفۃ عن ظاھرہ لرجع الغسل الی الدھن وھو خلاف الروایۃ والدرایۃ بل الاجماع والروایۃ الشاذۃ عن الامام الثانی رحمہ اللّٰہ تعالی مؤولۃ کما فی ردالمحتار عن الحلیۃ عن الذخیرۃ وغیرھا فاذن لایبقی الا ان نقول انالا نقدر علی مثل مافعل ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما تلک المرۃ فضلا عن فعل صاحب الاعجاز الجلیل المُرْوی مرار اللجمع الجزیل بالماء القلیل علیہ من ربہ اعلی صلوۃ واکمل تبجیل۔ ویقرب منہ اواغرب منہ ماوقع فی سنن سعید بن منصور عن الامام الاجل ابرھیم النخعی رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال لم یکونوا یلطموا وجوھھم بالماء وکانوا اشد استبقاء للماء منکم فی الوضوء وکانوا یرون ان ربع المد یجزئ من الوضوء وکانوا صدق ورعا واسخی نفسا واصدق عندالباس۱؎۔

الحاصل اگرچُلّو لینے والی حدیث کو اس کے ظاہر سے نہ پھیریں تودھونا بس ملنا ہو کر رہ جائے گا۔اوریہ روایت،درایت بلکہ اجماع کے بھی خلاف ہے۔۔۔ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالٰی سے جو شاذروایت آئی ہے وہ مؤول ہے جیسا کہ ردالمحتار میں حلیہ سے، اس میں ذخیرہ وغیرہا سے نقل ہے۔ تاویل نہ کریں تو بس یہی صورت رہ جاتی ہے کہ ہم یہ کہیں کہ اس بار حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے جس طرح وضوکیاویسے وضو پرہمیں قدرت نہیں۔ اوران کے عمل کی تو بات ہی اور ہے جو ایسے عظیم اعجاز والے ہیں کہ بار ہا بڑے لشکر کو قلیل پانی سے سیراب کردیا۔ان پران کے رب کی جانب سے اعلٰی واکمل درود وتحیّت ہو۔اور اسی سے قریب یا اس سے بھی زیادہ عجیب وہ ہے جو سُنن سعید بن منصور میں اما م اجل ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت آئی ہے کہ انہوں نے فرمایا: وہ حضرات اپنے چہروں پر زورسے پانی نہ مارتے تھے اور وضومیں وہ تم سے بہت زیادہ پانی بچانے کی کوشش رکھتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ چوتھائی مُدوضو کے لئے کافی ہے اس کے ساتھ وہ سچے ورع وپرہیز گاری والے، بہت فیاض طبع، اورجنگ کے وقت نہایت ثابت قدم بھی تھے۔

(۱؎کنزالعمال بحوالہ ص حدیث ۲۰۷۲۶ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۴۷۳)

اقول : فلا ادری کیف اجتزؤا بربع ما جعلہ النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم مجزئابل لایظن بھم انھم قنعوا بالفرائض دون السنن فاذن یکفی لغسل الیدین الی الرسغین والمضمضۃ والاستنشاق وغسل الوجہ والیدین الی المرفقین والرجلین الی الکعبین کل مرۃ سدس رطل من الماء وھذا مما لایعقل ولا یقبل الا بمعجزۃ نبی اوکرامۃ ولی صلی اللّٰہ تعالی علی الانبیاء والاولیاء وسلم۔

اقول : نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جسے کافی قرار دیا(ایک مد۔دو رطل) معلوم نہیں اس کے چوتھائی سے ان حضرات نے کیسے کفایت حاصل کرلی، بلکہ ان کے بارے میں یہ گمان بھی نہیں کیاجاسکتا کہ سنتیں چھوڑ کرانہوں نے صرف فرائض پرقناعت کرلی تو(سنتوں کی ادائیگی کے ساتھ چوتھائی مُد میں تین تین بار جب انہوں نے سارے اعضاء دھوئے۱۲م)لازم ہے کہ گُٹّو ں تک دونوں ہاتھ دھونے ،کُلی کرنے ، ناک میں پانی ڈالنے،چہرہ اور کہنیوں تک دونوں ہاتھ، اور ٹخنوں تک دونوں پاؤں ہرایک کے ایک بار دھونے میں صرف ۶/۱رطل پانی کافی ہوجاتاتھا۔یہ عقل میں آنے والی اور ماننے والی بات نہیں مگر کسی نبی کے معجزے یا ولی کی کرامت ہی سے ایسا ہوسکتا ہے،تمام انبیاء اور اولیاپرخدائے برترکادرودوسلام ہو۔

فان قلت مایدریک لعل المراد بالمد المد العمری المساوی لصاع النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم الاربعا فیکون ربع المد ثلثۃ ارباع المد النبوی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم۔

اگر کہئے آپ کو کیا معلوم شاید مُد سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالٰی کا مُد مرادہوجوچوتھائی کمی کے ساتھ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے صاع کے برابر تھا تو وہ چوتھائی مُد حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے تین چوتھائی(۴/۳) مُد کے برابر ہوگا۔

قلت کلا فان ابرھیم سبق خلافۃ عمر ھذا رضی اللّٰہ تعالی عنھما مات فـــ سنۃ خمس اوست وتسعین وامیر المؤمنین فی رجب سنۃ احدی ومائۃ وخلافتہ سنتان ونصف رضی اللّٰہ تعالی عنہ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔

میں کہوں گا یہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت سے پہلے وفات فرماگئے۔ ان کی وفات ۹۵ھ ؁ یا ۹۶ھ؁ میں ہوئی اورامیرالمومنین کی وفات رجب ۱۰۱ھ؁ میں ہوئی اور مدّتِ خلافت ڈھائی سال رہی، رضی اللہ تعالٰی عنہا۔واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)

فــ:تاریخ وفات حضرت امام ابراہیم نخعی وعمر بن عبد العزیز ۔

رسالہ برکات السماء فی حکم اسراف الماء
(بے جا پانی خرچ کرنے کے حکم کے بار ے میں آسمانی برکات )

امر پنجم : طہارت فــــ میں بے سبب پانی زیادہ خرچ کرنا کیا حکم رکھتا ہے۔

فــــ:مسئلہ وضو یا غسل میں بے سبب پانی زیادہ خرچ کرنے کا کیا حکم ہے اور اس باب میں مصنف کی تحقیق مفرد ۔

اقول : ملاحظہ کلمات علما ء سے اس میں چار قول معلوم ہوتے ہیں، ان میں قوی تر دو ہیں اور فضلِ الٰہی سے امید ہے کہ بعد تحقیق وحصول توفیق اختلاف ہی نہ رہے وباللہ التوفیق۔

(۱) مطلقاً حرام وناجائز ہے حتی کہ اگر نہر جاری میں وضو کرے یا نہائے اُس وقت بھی بلاوجہ صرف گناہ وناروا ہے یہ قول بعض شافعیہ کا ہے جسے خود شیخ مذہب شافعی سیدنا امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں نقل فرماکر ضعیف کردیا اور اسی طرح دیگر محققین شافعیہ نے اُس کی تضعیف کی۔

(۲) مکروہ ہے اگرچہ نہر جاری پر ہو اور کراہت صرف تنز یہی ہے۔ اگرچہ گھر میں ہو یعنی گناہ نہیں صرف خلاف سنت ہے حلیہ وبحرالرائق میں اسی کو اوجہ اور امام نووی نے اظہر اور بعض دیگر ائمہ شافعیہ نے صحیح کہا اور حکم آب جاری کو عام ہونے سے قطع نظر کریں تو کلام امام شمس الائمہ حلوانی وامام فقیہ النفس سے بھی اُس کا استفادہ ہوتا ہے ہاں شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں عموم کی طرف صاف اشارہ کیا،

اور امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں فرمایا: اجمع العلماء علی النھی عن الاسراف فی الماء ولوکان علی شاطیئ البحر والاظھر انہ مکروہ کراھۃ تنزیہ وقال بعض اصحابنا الاسراف حرام ۱؎۔

اس پر علماء کا اجماع ہے کہ پانی میں اسراف منع ہے اگرچہ سمندرکے کنارے پرہو،اوراظہریہ ہے کہ مکروہِ تنزیہی ہے ،اورہمارے بعض اصحاب نے فرمایاکہ اسراف حرام ہے۔(ت)

(۱؎ شرح صحیح مسلم للنووی کتا ب الطہارۃ باب القدر المستحب من الماء الخ دارالفکر بیروت ۲ /۱۳۷۴)

منیہ وحلیہ میں فرمایا: م ولا یسرف فی الماء ۲؎ ش ای لا یستعمل منہ فوق الحاجۃ الشرعیۃ ۳؎ م

(م کے تحت متن کے الفاظ ہیں ش کے تحت شرح کے۱۲م) م پانی میں اسراف نہ کرے ش یعنی حاجتِ شرعیہ سے زیادہ پانی استعمال نہ کرے۔

(۲؎ منیۃ المصلی آداب الوضوء مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ص۲۹)
(۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

وان کان علی شط نھر جار ۱؎ ش ذکر شمس الائمۃ الحلوانی انہ سنۃ وعلیہ مشی قاضی خان وھو اوجہ کما ھو غیر خاف فالاسراف یکون مکروھا کراھۃ تنزیہ وقد صرح النووی انہ الاظھر وحکی حرمۃ الاسراف عن بعض اھل مذھبہ وعبارۃ بعض المتأخرین منھم والزیادہ فی الغسل علی الثلث مکروہ علی الصحیح وقیل حرام وقیل خلاف الاولی ۲؎

م اگرچہ بہتے دریاکے کنارے ش شمس الائمہ حلوانی نے ذکرکیا کہ یہ سنت ہے۔اسی پر قاضی خاں چلے اور یہ اَوجہ ہے جیساکہ پوشیدہ نہیں۔تواسراف مکروہ تنزیہی ہوگا۔ اور امام نووی نے اس کے اظہر ہونے کی تصریح کی اوراسراف کا حرام ہونا اپنے بعض اہل مذہب سے حکایت کیا اوران حضرات شافعیہ کے بعد متاخرین کی عبارت یہ ہے : تین بار سے زیادہ دھونا صحیح قول پر مکروہ ہے او ر کہا گیا کہ حرام ہے اور کہا گیا کہ خلاف اولٰی ہے (ت)

(۱؎ منیۃ المصلی آداب الوضوء مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ص۲۹)
(۲؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

بحرالرائق میں ہے: الاسراف ھو الاستعمال فوق الحاجۃ الشرعیہ وان کان علی شط نھر وقد ذکر قاضی خان ترکہ من السنن ولعلہ الاوجہ فیکون مکروھا تنزیھا۳؎۔

اسراف یہ ہے کہ حاجت شرعیہ سے زیادہ استعمال کرے اگرچہ دریاکے کنارے ہو، اور قاضی خاں نے ذکرکیا ہے کہ اس کا ترک سنت ہے اور شاید یہی اَوجہ ہے تواسراف مکروہ تنزیہی ہوگا۔(ت)

(۳؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۹)

(۳) مطلقا مکروہ تک نہیں نہ تحریمی نہ تنزیہی صرف ایک ادب وامر مستحب کے خلاف ہے بدائع امام ملک العلما ابو بکر مسعود وفتح القدیر امام محقق علی الاطلاق ومنیۃ المصلی وغیرہا میں ترک اسراف کو صرف آداب ومستحبات سے شمار کیا سنت تک نہ کہا اور مستحب کا ترک مکروہ نہیں ہوتا بلکہ سنت کا۔

حلیہ میں ہے : قال فی البدائع والادب فیما بین الاسراف والتقتیر اذالحق بین الغلو والتقصیر قال النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم خیر الامور اوسطہا انتھی وذکر الحلوانی انہ سنہ فعلی الاول یکون الاسراف غیر مکروہ وعلی الثانی کراھۃ تنزیہ ۱؎۔

بدائع میں فرمایا ادب اسراف اور تقتیر(زیادتی اورکمی) کے درمیان ہے اس لئے کہ حق ،غلو اور تقصیر(حد سے تجاوز اور کوتاہی)کے مابین ہے، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:کاموں میں بہتر درمیانی ہیں، انتہی۔اور امام حلوانی نے ذکرفرمایاکہ ترکِ اسراف سنّت ہے توقول اول کی بنیاد پر اسراف مکروہ نہ ہوگا اورثانی کی بنیاد پر مکروہ تنزیہی ہوگا۔(ت)

(۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

بحر میں ہے : فی فتح القدیر ان المندوبات نیف وعشرون ترک الاسراف والتقتیر وکلام الناس ۲؎ الخ فعلی کونہ مندوبا لایکون الاسراف مکروھا وعلی کونہ سنۃ یکون مکروھا تنزیھا۔

فتح القدیر میں ہے کہ مندوباتِ وضو بیس(۲۰) سے زیادہ ہیں۔اسراف وتقتیر اورکلام دنیاکاترک الخ۔توترک مندوب ہونے کی صورت میں اسراف مکروہ نہ ہوگااورسنّت ہونے کی صورت میں مکروہ تنزیہی ہوگا۔(ت)

(۲؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۸)

غنیہ میں ہے: (و) من الاداب (ان کان یسرف فی الماء) کان ینبغی ان یعدہ فی المناھی لان ترک الادب لاباس بہ ۳؎۔

(اور)آداب میں سے یہ ہے کہ (پانی میں اسراف نہ کرے) اسے ممنوعات میں شمارکرناچاہئے تھا اس لئے کہ ترکِ ادب میں توکوئی حرج نہیں۔(ت)

(۳؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی ومن الآداب ان یستاک سہیل اکیڈمی لاہور ص۳۴)

اقول : طہارت فـــــــ میں ترک اسراف کا صرف ایک ادب ہونا مذہب وظاہر الروایۃ ونص صریح محرر المذہب امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے، امام بخاری نے خلاصہ فصل ثالث فی الوضوء میں ایک جنس سنن وآداب وضو میں وضع کی اُس میں

فرمایا:فــ : تطفل علی الغنیۃ ۔

اما سنن الوضوء فنقول من السنۃ غسل الیدین الی الرسغین ثلثا ۱؎الخ

لیکن وضو کی سنتیں،توہم کہتے ہیں سنت ہے دونوں ہاتھ گٹوں تک تین بار دھونا الخ۔(ت)

(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الطہارۃ الفصل الثالث مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۲۱)

پھر سُنتیں گنا کر فرمایا: واما اداب الوضوء فی الاصل من الادب ان لایسرف فی الماء ولا یقتر ان یشرب فضل وضوئہ اوبعضہ قائما اوقاعدا مستقبل القبلۃ ۲؎ الخ

رہے آدابِ وضو، تو اصل(مبسوط) میں ہے کہ ادب یہ ہے کہ پانی میں نہ اسراف کرے نہ کمی کرے اور اپنے وضو کا بچا ہوا کُل یا کچھ پانی کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر قبلہ رُوپی جائے الخ۔(ت)

(۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الطہارۃ الفصل الثالث مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۲۵)

اُسی کا بدائع وفتح القدیر ومنیہ وخلاصہ وہندیہ وغیرہا میں اتباع کیا اور اُس سے زائد کس کا اتباع تھا تو اُس پر مواخذہ محض بے محل ہے واللہ الموفق۔

(۴) نہر جاری میں اسراف جائز کہ پانی ضائع نہ جائے گا اور اس کے غیر میں مکروہ تحریمی۔ مدقق علائی نے درمختار میں اسی کو مختار رکھا علامہ مدقق عمر بن نجیم نے نہر الفائق میں کراہت تحریم ہی کو ظاہر کہا اور اُسی کوامام قاضی خان وامام شمس الائمہ حلوانی وغیرہما اکابر کا مفاد کلام قرار دیا کہ ترک اسراف کو سنّت کہنے سے اُن کی مراد سنتِ مؤکدہ ہے اور سنتِ مؤکدہ کا ترک مکروہ تحریمی، نیز مقتضائے کلام امام زیلعی کہ مطلق مکروہ سے غالباً مکروہ تحریمی مراد ہوتا ہے۔ اور بحرالرائق میں اسے قضیہ کلام منتقٰی بتایا کہ اُس میں اسراف کو منہیات سے شمار فرمایا اور ہر منہی عنہ کم ازکم مکروہ تحریمی ہے۔

اقول : اور یہی عبارت آئندہ جواہر الفتاوٰی سے مستفاد

لفحوٰھا اذا لمفاھیم فـــ معتبرۃ فی الکتب کما فی الدر والغمز والشامی وغیرھا والقضیۃ دلیلہا ایضا کما لایخفی۔

اس کے مضمون وسیاق کے پیش نظر کیونکہ کتابوں میں مفہوم معتبرہوتاہے جیسا کہ درمختار،غمز العیون اورشامی وغیرہا میں ہے۔اوراس کے مقتضائے دلیل کے پیش نظر بھی، جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔(ت)

فـــ :المفاہیم معتبرۃ فی الکتب بالاتفاق۔

شرح تنویر میں ہے: بل فی القہستانی معزیا للجواھر الاسراف فی الماء الجاری جائز لانہ غیر مضیع فتامل ۱؎۔

بلکہ قہستانی میں جوہر کے حوالے سے ہے کہ بہتے پانی میں اسراف جائز ہے اس لئے کہ پانی بے کار نہ جائے گا، تو تامل کرو۔(ت)

(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۲)

پھر فرمایا: مکروھہ الاسراف فیہ تحریما لوبماء النھر ولمملوک لہ اما الموقوف علی من یتطھر بہ ومنہ ماء المدارس فحرام ۲؎۔

پانی میں اسراف مکروہ تحریمی ہے اگر دریاکاپانی یااپنی ملکیت کاپانی استعمال کرے لیکن طہارت حاصل کرنے والوں کے لئے وقف شدہ پانی ہوجس میں مدارِس کا پانی بھی داخل ہے تواسراف حرام ہے۔(ت)

(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۴)

بحر میں ہے: صرح الزیلعی بکراھتہ وفی المنتقی انہ من المنھیات فتکو ن تحریمیۃ ۳؎۔

امام زیلعی نے اس کے مکروہ ہونے کی صراحت فرمائی اورمنتقٰی میں اسے منہیات سے شمار کیا تویہ مکروہِ تحریمی ہوگا۔(ت)

(۳؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/ ۲۹)

منحۃ الخالق میں نہر سے ہے: الظاھر انہ مکروہ تحریما اذ اطلاق الکراھۃ مصروف الی التحریم فما فی المنتقی موافق لما فی السراج عـــہ والمراد بالسنۃ المؤکدۃ لاطلاق النھر عن الاسراف وبہ یضعف جعلہ مندوبا ۱؎۔

ظاہریہ ہے کہ اسراف مکروہِ تحریمی ہے اس لئے کہ کراہت مطلق بولی جائے تو تحریمی کی جانب پھیری جاتی ہے تو منتقٰی کا کلام سراج کے مطابق ہے اورسنت سے مراد سنتِ مؤکدہ ہے اس لئے کہ اسراف سے مطلقاً نہی ہے اور اسی سے اُسے مندوب قراردیناضعیف ہوجاتا ہے۔(ت)

( ۱ ؎منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۹)

عـــہ: قال فی المنحۃ صوابہ لما فی الخانیۃ کما لایخفی اذلا ذکر للسراج فی قولہ ولافی الشارح ۱؎ ای صاحب البحر

وانا اقول : ھذا بعید خطا ومعنی اما الاول فظاھر اذ لامناسبۃ بین لفظی السراج والخانیۃ واما الثانی ف فلان النھر فرع موافقۃ المنتقی المصرح بکونہ من المنھیات علی اطلاق الکراھۃ فان مطلقھا یحمل علی التحریم ولا ذکر للکراھۃ فی عبارۃ الخانیۃ نعم اراد توجیہ ما فی الخانیۃ الی مااستظھرہ بقولہ بعد والمراد بالسنۃ ۲؎الخ واقرب خطا ومعنی بل الذی یجزم السامع بانہ ھو الواقع فی اصل نسخۃ النھر فحرفہ الناسخ ان نقول صوابہ لمافی الشرح والمراد بالشرح التبیین فی شرح مشروح البحر والنھر الکنز للامام الزیلعی فانہ ھو الذی صرح بالکراھۃ واطلقہا ونقلہ البحر وقرنہ بکلام المنتقی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔ اھ عفی عنہ

منحۃ الخالق میں ہے صحیح یہ کہنا ہے کہ ”خانیہ کے مطابق” جیسا کہ پوشیدہ نہیں اس لئے کہ سراج کا کوئی تذکرہ نہ تو کلامِ نہر میں ہے نہ کلامِ شارح یعنی کلامِ بحر میں ہے۔

اقول : یہ خط اورمعنی دونوں اعتبار سے بعید ہے اول توظاہر ہے اس لئے کہ لفظ”سراج” اورلفظ ”خانیہ” میں کوئی مناسبت نہیں۔ اورثانی اس لئے کہ کلام منتقی جس میں اسراف کے منہیات سے ہونے کی تصریح ہے اس کی کلام دیگرکے ساتھ مطابقت کی تفریع صاحبِ نہر نے اس پرفرمائی ہے کہ کراہت مطلق بولی جاتی ہے تو کراہت تحریم پرمحمول ہوتی ہے اور عبارت خانیہ میں کراہت کا کوئی تذکرہ نہیں۔ ہاں انہوں نے کلام خانیہ کی توجیہ اس عبارت سے کرنی چاہی ہے جو بعد میں لکھی ہے کہ سنت سے مراد سنتِ مؤکدہ ہے الخ۔رسم الخط اورمعنی دونوں لحاظ سے قریب تربلکہ جسے سننے کے بعد سامع جزم کرے کہ یقینا نہر کے اصل نسخہ میں یہی ہوگا اور کاتب نے تحریف کردی ہے یہ ہے کہ ہم کہیں صحیح عبارت ”موافق لمافی الشرح” ہے، یعنی کلام منتقی اس کے مطابق ہے جوشرح میں ہے۔ اورشرح سے مرادامام زیلعی کی تبیین الحقائق ہے جو البحر الرائق اور النہر الفائق کے متن کنزالدقائق کی شرح ہے۔اسی میں کراہت کی صراحت اور اطلاق ہے اسی کوصاحبِ بحر نے نقل کیا اور اس کے ساتھ منتقٰی کا کلام ملادیا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)

فــ: معروضۃ علی العلامۃ ش۔

( ۱ ؎منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۹)
(۲ ؎منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۹)

التنبیہ الاول : عرض العلامۃ الشامی نورقبرہ السامی بالمحقق صاحب البحر انہ تبع قولا لیس لاحد من اھل المذھب حیث قال ”قولہ تحریما الخ نقل ذلک فی الحلیۃ عن بعض المتاخرین من الشافعیۃ وتبعہ علیہ فی البحر وغیرہ ۲؎الخ

تنبیہ(۱) علامہ شامی” نور قبرہ السامی”نے محقق صاحبِ بحرپرتعریض فرمائی کہ انہوں نے ایک ایسے قول کااتباع کر لیا جو اہل مذہب میں سے کسی کانہیں،اس طرح کہ وہ درمختار کے قول تحریماالخ کے تحت لکھتے ہیں: اسے حلیہ میں بعض متاخرین شافعیہ سے نقل کیا ہے جس کی پیروی صاحبِ بحر وغیرہ نے کرلی ہے الخ۔

(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۸۹)

اب بتوفیق اللہ تعالٰی یہاں تحقیق مقام وتنقیح مرام وتصحیح احکام ونقض وایرام کیلئے بعض تنبیہات نافعہ ذکر کریں۔

اقول : لم یتبعہ فـــ البحر بل استوجہ کراھۃ التنزیہ ثم نقل عن الزیلعی کراھتہ وعن المنتقی النھی عنہ وافاد ان مقتضاہ کراھۃ التحریم وھذا لیس اختیار الہ بل اخبار عما یعطیہ کلام المنتقی کما اخبر اولا ان قضیۃ عدم الفتح ترکہ من المندوبات عدم کراھتہ اصلا فلیس فیہ میل الیہ فضلا عن الاتباع علیہ ولا سیما لیس فی کلامہ التنصیص بجریان الحکم فی الماء الجاری والاطلاق لایسد ھھنا مسد الفصاح بالتعمیم للفرق البین بالتضییع وعدمہ فکیف یجعل متابعا للقول الاول وعن ھذا ذکرنا کل من قضیۃ کلام المنع فی القول الرابع دون الاول اذلا ینسب الا الی من یفصح بشمول الحکم النھر ایضا نعم تبعہ علیہ فی الغنیۃ اذقال الاسراف مکروہ بل حرام وان کان علی شط نھر جار لقولہ تعالی ولا تبذر ۱؎ تبذیرا اھ

اقول : صاحبِ بحر نے ا س کی پیروی نہیں کی بلکہ انہوں نے مکروہ تنزیہی ہونے کو اَوجَہ کہا پھر امام زیلعی سے اس کا مکروہ ہونا اور منتقی سے منہی عنہ ہونانقل کیا اور افادہ کیا کہ اس کا مقتضاکراہت تحریم ہے۔یہ اس قول کواختیار کرنا نہ ہوا بلکہ منتقٰی سے جو مفہوم اخذ ہوتا ہے اسے بتانا ہوا جیسے اس سے پہلے انہوں نے بتایاکہ صاحبِ فتح کے ترک اسراف کومندوبات سے شمارکرنے کا مقتضایہ ہے کہ اسراف بالکل مکروہ نہ ہوتواس میں اس کا اتباع درکناراس کی جانب میلان بھی نہیں ،خصوصاً جبکہ ان کے کلام میں آبِ رواں کے اندرحکمِ اسراف جاری ہونے کی تصریح بھی نہیں۔اورمطلق بولنا اس مقام پرحکم کوصاف صریح طورپرعام قراردینے کے قائم مقام نہیں ہوسکتااس لئے کہ پانی کوضائع کرنے اور نہ کرنے کا بیّن فرق موجود ہے توانہیں قول اول کا متبع کیسے ٹھہر ایا جاسکتا ہے۔ اسی لئے جن حضرات کے کلام کامقتضا ممانعت ہے انہیں ہم نے قول چہارم میں ذکر کیا،قول اول کے تحت ذکر نہ کیا اس لئے کہ قولِ اوّل اسی کی جانب منسوب ہوسکتا ہے جو صاف طور پر اس کا قائل ہوکہ اسراف کاحکم دریا کوبھی شامل ہے۔ہاں اس قول کی پیروی غنیہ میں ہے کیونکہ اس کے الفاظ یہ ہیں: اسراف مکروہ بلکہ حرام ہے اگرچہ نہر جاری کے کنارے ہو اس لئے کہ باری تعالٰی کا ارشاد ہے ولا تبذر تبذیرا اور فضول خرچی نہ کر اھ۔(ت)

فـــ: معروضۃ ثالثۃ علیہ ۔

(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی ومن الآداب ان یستاک سہیل اکیڈمی لاہور ص۳۵۔۳۴)

التنبیہ الثانی : کان عرّض علی البحر واتی بالتصریح علی الدر فقال ماذکرہ الشارح ھنا قد علمت انہ لیس من کلام مشائخ المذھب ۲؎ اھ

تنبیہ(۲): صاحبِ بحر پر تو تعریض کی تھی اورصاحبِ درمختار کے معاملہ میں توتصریح کردی اور لکھا کہ:”شارح نے یہاں جو بیان کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ مشائخ مذہب میں سے کسی کاکلام نہیں”اھ

(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ دار ا حیاء التراث العربی بیروت ۱ /۹۰)

اقول : والدر فــ ایضا مصفی عن ھذا الکدر کدر مکنون وانما اغتر المحشی العلامۃ بقولہ لوبماء النھر ولم یفرق بین تعبیری التوضی من النھر وبماء النھر ورأیتنی کتبت ھھنا علی الدر قولہ لوبماء النھر۔

اقول : اس کدورت سے دُربھی کسی دُرِّ مکنون کی طرح صاف ہے۔ علامہ محشی کو درمختار کے لفظ”لوبماء النھر”سے دھوکا ہوا اور التوضّی من النھراور التوضّی بماء النھر(دریا سے وضو کرنا اوردریا کے پانی سے وضو کرنا)کی تعبیروں میں فرق نہ کرسکے۔یہاں دُرِ مختار کے قول ”لو بماء النھر” پردیکھا کہ میں نے یہ حاشیہ لکھا ہے:

فـــ: معروضۃ رابعۃ علیہ

اقول : ای فی الارض لافی النھر واراد تعمیم الماء المباح والمملوک اخراجا للماء الموقوف فلا ینافی ماقدمہ عن القھستانی عن الجواھر ۳؎ ماکتبت علیہ۔

اقول : (پانی میں اسراف مکروہ تحریمی ہے اگر نہر کے پانی سے طہارت حاصل کرے) یعنی نہر کے پانی سے زمین میں (وضوکرے) نہر کے اندرنہیں انہوں نے وقف شدہ پانی کو خارج کرنے کے لئے حکم آب مباح اورآب مملوک کو عام کرنا چاہا ہے تو یہ اس کے منافی نہیں جو وہ قہستانی کے حوالے سے جواہر سے سابقاً نقل کرچکے۔ اھ۔میرا حاشیہ ختم ہوا۔

(۳؎جد الممتار علی رد المحتا ر کتاب الطہارۃ المجمع الاسلامی مبارک پور اعظم گڑھ (ہند )۱ /۹۹)

ومما اکد الاشتباہ علی العلامۃ المحشی ان المحقق الحلبی فی الحلیۃ نقل مسألۃ الماء الموقوف وماء المدارس عن عبارۃ الشافعی المتأخر۔فتمامھا بعد قولہ مکروہ علی الصحیح وقیل حرام وقیل خلاف الاولی ومحل الخلاف مااذا توضا ء من نھر اوماء مملوک لہ فان توضأ من ماء موقوف حرمت الزیادۃ والسرف بلا خلاف لان الزیادۃ غیر ماذون فیھا وماء المدارس من ھذا القبیل لانہ انما یوقف ویساق لمن یتوضؤ الوضوء الشرعی ولم یقصدا باحتہا لغیر ذلک ۱؎اھ

اور علامہ شامی کے اشتباہ کو تقویت اس سے بھی ملی کہ محقق حلبی نے آب موقوف اور آب مدارس کا مسئلہ شافعی متاخر کی عبارت سے نقل کیا کیونکہ ان شافعی کے قول” مکروہ برقولِ صحیح ،اور کہا گیا حرام اورکہاگیا خلافِ اولٰی” کے بعد ان کی بقیہ عبارت یہ ہے: اورمحلِ اختلاف وہ صورت ہے جب نہرسے وضوکیاہویااپنی ملکیت کے پانی سے کیا ہوتوزیادتی واسراف بلا اختلاف حرام ہے اس لئے کہ زیادتی کی اجازت نہیں اور مدارِس کاپانی اسی قبیل سے ہے اس لئے کہ وہ ان لوگوں کے لئے وقف ہوتا اورلایا جاتا ہے جو اس سے وضو ئے شرعی کریں اور ان کے علاوہ کے لئے اس کی اباحت مقصود نہیں ہوتی اھ۔

(۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

ثم رأی المسألتین فی عبارتی البحر والدر ورأی الحکم فیھما بکراھۃ التحریم فسبق الی خاطرہ انھما تبعا قیل التحریم العام ولیس کذلک فان حرمۃ الاسراف فی الاوقاف مجمع علیھا وقد غیرا فی التعبیر بما یبرئھما عن تعمیم التحریم فلم یقولا توضأ من نھر بل قال البحر ھذا اذا کان ماء نھر۱؎ وقال الدر لوبماء النھر ۲؎والفرق فی التعبرین لایخفی علی المتأمل ۔

پھرعلامہ شامی نے یہ دونوں مسئلے بحر اوردرکی عبارتوں میں بھی دیکھے یعنی یہ کہ ان دونوں میں کراہت تحریم کا حکم موجود ہے۔تو ان کاذہن اس طرف چلاگیا کہ دونوں نے تحریم عام کے قول کی پیروی کرلی ہے۔حالاں کہ ایسا نہیں۔ اس لئے کہ اوقاف میں اسراف کی حرمت اجماعی ہے اوردونوں حضرات نے تعبیر میں اتنی تبدیلی کردی جس کے باعث تحریم کوعام قرار دینے سے بری ہوگئے۔ توان حضرات نے ”توضّأ من نھر” (دریا سے وضو کیا)نہ کہابلکہ بحرنے کہا: ھذا اذا کان ماء نھر ( یہ حکم اس وقت ہے جب دریا کا پانی ہوالخ) اورصاحب درمختارنے کہا:لوبماء النھر (اگردریا کے پانی سے وضو کرے الخ)اور تأمل کرنے والے پردونوں تعبیروں کافرق مخفی نہیں۔

(۱؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۹)
(۲؎ الدر المختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۴)

وبیان ذلک علی مااقول : ان المتوضیئ من النھر وان لم یدل مطابقۃ الا علی التوضی بالاغتراف منہ لکن یدل عرفا علی نفی الواسطۃ فمن ملأکوزا من نھر واغترف عند التوضی من الکوز لایقال توضأ من النھر بل من الکوز الاعلی ارادۃ حذف ای بماء ماخوذ من النھر والتوضی من نھر بلا واسطۃ انما یکون فی متعارف الناس بان تدخل النھر اوتجلس علی شاطئہ وتغترف منہ بیدک وتتوضأ فیہ فوقوع الغسالۃ فی النھر ھو الطریق المعروف للتوضی من النھر فیدل علیہ دلالۃ التزام للعرف المعہود بخلاف التوضی بماء النھر فلا دلالۃ لہ علی وقوع الغسالۃ فی شیئ اصلا الاتری ان من توضأ فی بیتہ بماء جُلب من النھر تقول توضأ بماء النھر لامن النھر ھذا ھو العرف الفاشی والفرق فی الاسراف بین الماء الجاری وغیرہ بانہ تضییع فی غیرہ لافیہ انما یبتنی علی وقوع الغسالۃ فیہ ولا نھر وسکبہا علی الارض من دون نفع فقد ضیع وان افرغ جرۃ عندہ فی نھر لم یضیع والدال علی ھذا المبنی ھو لفظ من نھر لالفظ بماء النھر کما علمت ففی الاول تکون دلالۃ علی تعمیم التحریم لافی الثانی ھذا ھو الفارق بین تعبیر ذلک الشافعی وتعبیر البحر والدر وحینئذ وغیرھا فلا یکون متبعا لقیل فی غیر المذھب۔

اقول : اس کی توضیح یہ ہے کہ التوضی من النھر(دریاسے وضوکرنا)اگرمعنی مطابقی کے لحاظ سے یہی بتاتا ہے کہ اس سے ہاتھ یا برتن میں پانی لے کروضوکرنا لیکن عرفاً اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس سے بغیرکسی واسطہ کے وضو کرنا تواگر کسی نے برتن میں دریا سے پانی بھر لیا اور وضو کے وقت برتن سے ہاتھ میں پانی لے کر وضو کیا تو یہ نہ کہا جائے گا کہ اس نے دریا سے وضو کیا بلکہ یہی کہا جائے گا کہ برتن سے وضوکیا۔ مگر خذف مراد لے کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ دریا سے۔ یعنی دریا سے لئے ہوئے پانی سے وضو کیا۔ اورنہر سے بلا واسطہ وضو کرنے کی صورت لوگوں کے عرف میں یہ ہوتی ہے کہ کوئی دریا کے اندر جا کر۔یا اس کے کنارے بیٹھ کر اس سے ہاتھ میں پانی لیتے ہوئے اسی میں وضوکرے کہ غُسالہ دریاہی میں گرے یہی نہرسے وضو کا معروف طریقہ ہے کہ غُسالہ اسی میں گرتا ہے تو عرف معلوم کے سبب اس پراس لفظ کی دلالت التزامی پائی جائے گی۔اور التوضی بماء النھر(دریا کے پانی سے وضوکرنے) کا مفہوم یہ نہیں ہوتا اس لفظ کی دلالت کسی چیز کے اندر غسالہ کے گرنے پر بالکل نہیں ہوتی۔دیکھئے اگر کسی نے اپنے گھر میں اُس پانی سے وضو کیاجودریاسے لایاگیاتھا تویہ کہاجائے گا کہ اس نے دریاکے پانی سے وضو کیااوریہ نہ کہاجائے گا کہ اس نے دریاسے وضوکیا۔ یہی عام مشہور عرف ہے۔ آبِ رواں اورغیر رواں کے درمیان اسراف میں یہ فرق کہ غیر جاری میں پانی برباد ہوتا ہے اورجاری میں برباد نہیں ہوتا، اس کی بنیادغسالہ کے اس کے اندر گرنے ہی پرہے۔اور اس فرق میں ہاتھ یا برتن سے پانی لینے کوکوئی دخل نہیں کیوں کہ اگرکسی نے دریا سے گھڑا بھر کر زمین پر بے فائدہ بہادیاتو اس نے پانی بربادکیا۔ا ور اگر اپنے پاس کا بھرا ہوا گھڑادریا میں اُنڈیل دیا تو اس نے پانی برباد نہ کیا اور اس بنیاد کو بتانے والالفظ وہی”من نھر” (دریاسے) ہے” بما النھر” (دریا کے پانی سے)نہیں جیسا کہ واضح ہوا۔ تو من نھر کہنے میں اس پر دلالت ہوتی ہے کہ حکم تحریم دریا سے وضو کوبھی شامل ہے اور بماء النھر کہنے میں یہ دلالت نہیں ہوتی ۔ یہی فرق ہے ان شافعی کی تعبیر میں اور بحر ودر کی تعبیر میں۔اورجب ایسا ہے تو صاحبِ دُر اپنے ساتھ جو اہر کو بھی پائیں گے اور منتقی ونہروغیرہا کو بھی۔تووہ غیر مذہب کے کسی قولِ ضعیف کی پیروی کرنے والے نہ ہوں گے۔

اقول : فـــ بتحقیقنا ھذا ظھر الجواب عما اخذ بہ الامام المحقق الحلبی فی الحلیۃ علی المشائخ حیث یطلقون ھھنا من مکان فی یقولون توضا من حوض من نھر من کذا ویریدون وقوع الغسالۃ فیہ قول فی المنیۃ اذا کان الرجال صفوفا یتوضوء ن من الحوض الکبیر جاز ۱؎ قال فی الحلیۃ التوضی منہ لایستلزم البتۃ وقوع الغسالۃ فیہ بخلاف التوضی فیہ ووقوع غسالاتھم فیہ ھو مقصود الافادۃ ۲؎ واطال فی ذلک وکررہ فی مواضع من کتابہ وھو من باب التدنق والمشائخ یتساھلون باکثر من ھذا فکیف وھو المفاد من جہۃ المعتاد۔

اقول : ہماری اسی تحقیق سے اس کا جواب بھی واضح ہوگیا جو امام محقق حلبی نے حلیہ میں حضرات مشائخ پرگرفت کی ہے اس طرح کہ وہ حضرات یہاں”فی”(میں) کی جگہ”من”(سے) بولتے ہیں کہتے ہیں توضأ من حوض، من نھر، من کذا (حوض سے ،دریا سے، فلاں سے وضو کیا)اور مراد یہ لیتے ہیں کہ غسالہ اسی میں گرا۔ منیہ میں لکھا:جب بہت سے لوگ قطاروں میں کسی بڑے حوض سے وضوکرنا جائز ہے ۔اس پر حلیہ میں لکھا:حوض سے وضو کرناقطعی طورپراس بات کو مستلزم نہیں کہ غسالہ اسی میں گرے بخلاف حوض میں وضو کرنے کے۔ اورلوگوں کاغسالہ اس میں گرتا ہوسے یہی بتانا مقصود ہے۔اس اعتراض کو بہت طویل بیان کیا ہے اور اپنی کتاب کے متعددمقامات پر باربار ذکرکیاہے حالاں کہ یہ عبارت میں بے جا تدقیق کے باب سے ہے۔ حضرات مشائخ تواس سے بہت زیادہ تسامح سے کام لیتے ہیں پھراس میں کیا جب کہ عرف عام اور طریق معمول کا مفاد بھی یہی ہے۔(ت)

فـــ:تطفل علی الحلیۃ ۔

(۱؎ منیۃ المصلی فصل فی الحیاض مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ص۶۷)
(۲؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

تنبیہ(۳) : علامہ عمر بن نجیم نے نہر الفائق میں قول سوم کو دوم کی طرف راجع کیا اور اپنے شیخ اکرم واخ اعظم محقق زین رحمہما اللہ تعالٰی کی تقریر سے یہ جواب دیا کہ ترک اسراف کو ادب یا مستحب گننا اسے مقتضی نہیں کہ اسراف مکروہ تنزیہی بھی نہ ہوا کہ آخر خلاف مستحب ہے اور خلاف مستحب خلاف اولی اور خلاف اولی مکروہ تنزیہی۔

قال فی المنحۃ قال فی النھر لانسلم ان ترک المندوب غیر مکروہ تنزیھا لما فی فتح القدیر من الجنائز والشہادات ان مرجع کراھۃ التنزیہ خلاف الاولی ولا شک ان تارک المندوب اٰت بخلاف الاولٰی۱؎۔ اھ

منحۃ الخالق میں ہے نہر میں کہا:ہم اسے نہیں مانتے کہ ترک مندوب،مکروہ تنزیہی نہیں اسلئے کہ فتح القدیر میں جنائز اورکتاب الشہادات میں لکھا ہے کہ کراہت تنزیہ کامآل خلافِ اولٰی ہے اور مندوب کوترک کرنے والا بلاشبہ خلافِ اولٰی کا مرتکب ہے اھ۔(ت)

(۱؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱ /۲۹)

یہی جواب کلام بدائع پر محقق حلبی کی تقریر سے ہوگا۔ علّامہ شامی نے یہاں اُسے مقرر رکھا اور ردالمحتار میں صراحۃً اس کا اتباع کیا حیث قال مامشی علیہ فی الفتح والبدائع وغیرھما من جعل ترکہ مندوبا فیکرہ تنزیھا ۲؎ اھ (اس طرح کہ وہ لکھتے ہیں:جس پرفتح ،بدائع وغیرہما میں گئے ہیں وہ یہ ہے کہ ترک اسراف کو مندوب قراردیاہے تووہ اسراف تنزیہی ہوگا اھ۔(ت)

(۲؎ردالمحتار کتاب الطہارۃ مطلب فی الاسراف فی الوضوء دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۹۰ )

اقول : وباللّٰہ استعین ( میں اللہ سے مدد طلب کرتا ہوں ) اولا فــ : یہ معلوم کیجئے کہ مکروہ تنزیہی کی تحدید میں کلمات علما ء مختلف بھی ہیں اور مضطرب بھی، فتح القدیر کی طرح نہ ایک کتاب بلکہ بکثرت کتب میں ہے کہ کراہت تنزیہ کا مرجع خلاف اولی ہے اس طور پر ہر مستحب کا ترک بھی مکروہ تنزیہی ہونا چاہئے۔

فــ : مکروہ تنزیہی کی تحدید میں علماء کا اختلاف اورعبارات میں اضطراب۔

درمختار آخر مکروہاتِ نماز میں ہے : یکرہ ترک کل سنۃ ومستحب ۳؎

ہر سنت اور مستحب کا ترک مکروہ ہے۔ (ت)

(۳؎ الدر المختار کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوٰۃ وما یکر ہ فیہا مطبع مجتبائی دہلی۱ /۹۳)

اور بہت محققین کراہت کیلئے دلیل خاص یا صیغہ نہی کی حاجت جانتے ہیں یعنی جبکہ فعل سے باز رہنے کی طلب غیر حتمی پر دال ہو۔

اقول : ولو قطعی فـــ۱ الثبوت فان المدار علی ماذکرنا من حال الطلب کما قدمنا تحقیقہ فی الجود الحلووان قال فی الحلیۃ من صدر الکتاب المنہی خلاف المامور فان کان النھی المتعلق بہ قطعی الثبوت والدلالۃ فحرام وان کان ظنی الثبوت دون الدلالۃ اوبالعکس فمکروہ تحریما وان کان ظنی الثبوت والدلالۃ فمکروہ تنزیہا ۱؎ اھ

اقول : اگرچہ دلیل قطعی الثبوت ہواس لئے کہ مداراسی پر ہے جسے ہم نے ذکرکیا یعنی یہ کہ طلب کاحال کیا ہے حتمی ہے یا غیر حتمی،جیساکہ اس کی تحقیق الجَود الحَلُو میں ہم کر چکے ۔اگرچہ حلیہ کے اندر شروع کتاب میں یہ لکھا ہے :منہی،مامور کامخالف ہے۔اگراس سے تعلق رکھنے والی نہی ثبوت اوردلالت میں قطعی ہوتووہ حرام ہے۔اور اگرثبوت میں ظنی ہودلالت میں نہیں،یا برعکس صورت ہوتومکروہِ تحریمی ہے۔اوراگر ثبوت ودلالت میں ظنی ہوتومکروہ تنزیہی ہے اھ۔(ت)

فـــ۱ :تطفل علی الحلیۃ۔

( ۱؎ حلیۃ ا لمحلی شرح منیۃ المصلی )

اور شک نہیں کہ اس تقدیر پر ترکِ مستحب مکروہ نہ ہوگا، مجمع الانہر باب الاذان میں ہے: لاکراھۃ فی ترک المندوب ۲؎ (ترکِ مندوب میں کوئی کراہت نہیں۔(ت)

(۲؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر کتاب الصلوۃ باب الاذان دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۷۵)

اضطراب یہ کہ جن صاحب فــ۲ فتح قدس سرہ نے جابجا تصریح فرمائی کہ خلاف اولٰی مکروہ تنزیہی ہے اور اوقاتِ مکروھہ نماز میں فرمایا کہ جانب ترک میں مکروہ تنزیہی جانب فعل میں مندوب کے رتبہ میں ہے

فـــ۲ تطفل ما علی الفتح ۔

حیث قال التحریم فی مقابلۃ الفرض فی الرتبۃ وکراھۃ التحریم فی رتبۃ الواجب والتنزیہ برتبہ المندوب ۳؎

(ان کے الفاظ یہ ہیں: تحریم رتبہ میں فرض کے مقابل ہے اورکراہت تحریم رتبہ میں واجب کے مقابل اورکراہت تنزیہ مندوب کے رتبہ میں ہے۔(ت)

(۳؎ فتح القدیر کتاب الصلوٰۃ باب المواقیت فصل فی اوقات المکروھۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۲۰۲)

اُنہی نے تحریر الاصول میں تحریر فرمایا کہ مکروہ تنزیہی وہ ہے جس میں صیغہ نہی وارد ہوا جس میں نہی نہیں وہ خلاف اولی ہے اور کراہت تنزیہ کا مرجع خلاف اولی کی طرف ہونا ایک اطلاق موسع کی بنا پر ہے

حیث قال فی الباب الاول من المقالۃ الثانیۃ من التحریر مسألۃ اطلاق المامور بہ علی المندوب مانصہ ”المکروہ منھی ای اصطلاحا حقیقۃ مجاز لغۃ والمراد تنزیھا ویطلق علی الحرام وخلاف الاولی مما لاصیغۃ فیہ والا فالتنزیھیۃ مرجعہا الیہ۱؎۔

اس طرح کہ تحریر الاصول مقالہ دوم کے با ب اول مسألہ اطلاق الماموربہ علی المندوب کے تحت لکھا: مکروہ اصطلاح میں حقیقۃً منہی ہے اور لغت میں مجازاً۔۔۔ اورمکروہ سے مراد تنزیہی ہے اور اس کا اطلاق حرام پر بھی ہوتاہے اور اس خلافِ اولٰی پربھی جس سے متعلق صیغہ نہی وارد نہیں ورنہ کراہت تنزیہ کامرجع وہی ہے (جس میں صیغہ نہی وارد ہو)۔(ت)

(۱؎ التحریر فی الاصول الفقہ المقا لۃ الثا نیۃ البا ب الاول مصطفی البابی مصر ص۲۵۷۔۲۵۶)

جس حلیہ فــ۱ میں یہ فرمایا کہ: علی الاول یکون الاسراف غیر مکروہ ۲؎ (اسراف کو خلاف ادب ٹھہرانے والے قول پر اصراف مکروہ نہ ہوگا (ت)

فـــ۱ تطفل علی الحلیۃ

(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃالمصلی )

اُسی کے صدر میں ہے : المکروہ تنزیھا مرجعہ الی خلاف الاولی والظاھر انھما متساویان ۳؎

مکروہ تنزیہی کا مرجع خلاف اولٰی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ دونوں میں تساوی ہے۔(ت)

(۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃالمصلی )

جس غنیہ فـــ۲ کے اوقات میں باتباع فتح تصریح فرمائی کہ: التنزیھیۃ مقابلۃ المندوب ۴؎ (کراہت تنزیہیہ بمقابلہ مندوب ہے۔ ت)

(۴؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی الشرط الخامس سہیل اکیڈمی لاہور ص۲۳۶)

فـــ۲ تطفل علی الغنیۃ ۔

اُسی کے مکروہات صلوٰۃ میں فرمایا: الفعل ان تضمن ترک واجب فھو مکروہ کراھۃ تحریم وان تضمن ترک سنۃ فھو مکروہ کراھۃ تنزیہ ولکن تتفاوت فی الشدۃ والقرب من التحریمیۃ بحسب تاکد السنۃ ۱؎۔

فعل اگر ترکِ واجب پرمشتمل ہوتو مکروہِ تحریمی ہے اور ترکِ سنّت پر مشتمل ہوتومکروہِ تنزیہی،لیکن یہ شدّت اورمکروہِ تحریمی سے قرب کے معاملہ میں سنّت کے تاکید پانے کے لحاظ سے تفاوت رکھتاہے۔(ت)

(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی فصل مکروہا ت الصلوۃ سہیل اکیڈمی لاہور ص۳۴۵)

نیز صدر کتاب میں فرمایا: (اعلم ان للصلاۃ سننا) وترکھا یوجب کراھۃ تنزیہ (وادبا) جمع ادب ولا باس بترکہ ولا کراھۃ (وکراھیۃ) والمراد بھا ما یتضمن ترک سنۃ وھو کراھۃ تنزیہ اوترک واجب وھو کراھۃ التحریم۲؎۔

(واضح ہوکہ نماز کی کچھ سنتیں ہیں) اور ان کا ترک کراہت تنزیہ کا موجب ہے(اورکچھ آداب ہیں) یہ ادب کی جمع ہے اوراس کے ترک میں کوئی حرج اورکراہت نہیں(اور کچھ مکروہات ہیں)ان سے مرادوہ جو ترکِ سنت پرمشتمل ہویہ مکروہ تنزیہی ہے یا وہ جو ترک واجب پر مشتمل ہویہ مکروہ تحریمی ہے۔(ت)

(۲؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مقدمۃ الکتاب سہیل اکیڈمی لاہور ص۱۳)

جس بحر فــ کے اوقات(نماز ) میں تھا التنزیہ فی رتبۃ المندوب ۳؎ (کراہت تنزیہی مندوب کے مقابل مرتبہ میں ہے۔ ت)

فــ:تطفل علی البحر۔

(۳؎ البحرالرائق کتاب الصلوٰۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۴۹)

اسی کے باب العیدین میں فرمایا : لایلزم من ترک المستحب ثبوت الکراھۃ اذ لابدلھا من دلیل خاص فلذا کان المختار عدم کراھۃ الا کل قبل الصلاۃ ۴؎ اھ ای صلاۃ الاضحٰی۔

ترک مستحب سے کراہت لازم نہیں اس لئے کہ کراہت کے لئے دلیل خاص ضروری ہے۔اسی لئے مختاریہ ہے کہ نمازعید قرباں سے پہلے کھالینا مکروہ نہیں۔(ت)

(۴؎ البحرالرائق کتاب الصلوۃ باب العیدین ایچ ایم سعید کمپنی ۲ /۱۶۳)

اور دربارہ عـــــہ ترک اسراف ان کا کلام گزرا اُسی کے مکروہات نماز میں ایسی ہی تصریح فرما کر پھر خود اُس پر اشکال وارد کردیا کہ ہر مستحب خلافِ اولی ہے اور یہی کراہت تنزیہ کا حاصل۔

عـــہ نیز ثانیا میں ان کا کلام آتا ہے کہ امام زیلعی نے لطم وجہ کو مکروہ لکھا تو اس کا ترک سنت ہوگا نہ کہ مستحب ۱۲ منہ غفرلہ ۔

حیث قال السنۃ ان کانت غیر مؤکدۃ فترکہا مکروہ تنزیھا وان کان الشیئ مستحبا او مندوبا ولیس بسنۃ فینبغی ان لایکون ترکہ مکروھا اصلا کما صرحوا بہ انہ یستحب یوم الاضحٰی ان لایاکل قالوا ولو اکل فلیس بمکروہ فلم یلزم من ترک المستحب ثبوت کراھتہ الا انہ یشکل علیہ ماقالوہ ان المکروہ تنزیھا خلاف الاولی ولا شک ان ترک المستحب خلاف الاولی ۱؎ اھ

ان کے الفاظ یہ ہیں:سنت اگرغیر مؤکدہ ہوتواس کا ترک مکروہ تنزیہی ہے اور کوئی شی مستحب یامندوب ہے اورسنت نہیں ہے تواس کا ترک مکروہ بالکل نہ ہوناچاہئے جیسے علماء نے تصریح فرمائی کہ عیدا ضحٰی کے دن نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا مستحب ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اگر کھالیاتومکروہ نہیں تو ترکِ مستحب سے کراہت کا ثبوت لازم نہ ہوامگر اس پر اشکال علماء کے اس قول سے پڑتا ہے کہ مکروہ تنزیہی خلاف اولٰی ہے اور اس میں شک نہیں کہ ترکِ مستحب خلافِ اولٰی ہے اھ۔

(۱؎ البحرالرائق کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیہا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۳۲)

اما العلامۃ الشامی فاضطراب اقوالہ ھھنا اکثروا وفرففی مستحبات فــ الوضوء نقل مسألۃ الاکل یوم الاضحی واستظھر ان ترک المستحب لایکرہ حیث قال ”اقول : وھذا ھو الظاھر ان النوافل فعلہا اولی ولا یقال ترکہا مکروہ ۲؎ اھ

لیکن علامہ شامی توان کے اقوال کا اضطراب یہاں بہت بڑھا ہوا ہے مستحباتِ وضومیں روزاضحی کھانے کامسئلہ نقل کیااورترکِ مستحب کے مکروہ نہ ہونے کوظاہر کہاعبارت یہ ہے: میں کہتاہوں یہی ظاہر ہے اس لئے کہ نوافل کی ادائیگی اولٰی ہے او ریہ نہیں کہاجاسکتا کہ ان کا ترک مکروہ ہے اھ۔

فــ : معروضۃ علی العلا مۃ ش۔

(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ مستحبات الو ضو دار احیا ء التراث العربی بیروت ۱ /۸۴ )

ثم بعد صفحۃ رجع وقال قدمنا ان ترک المندوب مکروہ تنزیھا ۱؎ اھ

پھر ایک صفحہ کے بعدرجوع کیااورکہا:ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ترکِ مندوب مکروہِ تنزیہی ہے اھ

(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ مستحبات الو ضو دار احیا ء التراث العربی بیروت ۱ /۸۵ )

وقال فی مکروھات الوضوفـــ۱ المکروہ تنزیھا یرادف خلاف الاولی۲؎ اھ

مکروہاتِ وضو میں کہا: مکروہِ تنزیہی خلافِ اولٰی کا مرادف ہے اھ۔

فــــ۱ : معروضۃ اخری علیہ ۔

(۲؎ردا لمحتار کتاب الطہارۃ مکروہات الوضو داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۸۹)

ورجع آخر مکروھات الصلاۃ فقال الظاھر ان خلاف الاولی اعم فقد لایکون مکروھا حیث لادلیل خاص کترک صلاۃ الضحٰی ۳؎ اھ

اور مکروہاتِ نماز کے آخر میں رجوع کرکے کہا: ظاہر یہ ہے کہ خلافِ اولٰی اعم ہے بعض اوقات یہ مکروہ نہیں ہوتا یہ ایسی جگہ جہاں کوئی دلیل خاص نہ ہوجیسے نماز چاشت کا ترک اھ۔

(۳؎ردا لمحتار کتاب الصلوٰ ۃ باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا داراحیاء التراث العربی بیروت۱ /۴۳۹)

وقال فی صدرھافــ۲قلت ویعرف ایضا بلا دلیل نھی خاص بان تضمن ترک واجب اوسنۃ فالاول مکروہ تحریما والثانی تنزیھا ۴؎ اھ

مکروہاتِ نماز کے شروع میں کہا:میں کہتا ہوں اس کی معرفت نہی خاص کی دلیل کے بغیر بھی ہوتی ہے اس طرح کہ کسی واجب یا سنت کے ترک پر مشتمل ہو ۔اوّل مکروہ تحریمی ہے اور ثانی مکروہ تنزیہی اھ۔

فــ۲ـــ :معروضۃ ثالث علیہ۔

(۴؎ردا لمحتار کتاب الصلوٰ ۃ باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا داراحیاء التراث العربی بیروت۱ /۴۲۹)

ورجع فی اخرھا فقال بعد ما مرو بہ یظھر ان کون ترک المستحب راجعا الی خلاف الاولی لایلزم منہ ان یکون مکروھا الا بنھی خاص لان الکراھۃ حکم شرعی فلا بدلہ من دلیل ۵؎ اھ

اور مکروہاتِ نمازکے آخرمیں رجوع کیا اس طرح کہ مذکورہ بالاعبارت کے بعدکہا:اوراسی سے ظاہر ہوتاہے کہ ترک مستحب خلافِ اولٰی کی طرف راجع ہونے سے مکروہ ہونا لازم نہیں مگر یہ کہ خاص نہی ہواس لئے کہ کراہت ایک حکم شرعی ہے تو اس کے لئے کوئی دلیل ضروری ہے۔اھ۔

(۵؎ردا لمحتار کتاب الصلوٰ ۃ باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا داراحیاء التراث العربی بیروت۱ /۴۳۹)

ثم بعدفــ۱ ورقۃ رجع عن ھذا الرجوع فقال فی مسألۃ استقبال النیرین فی الخلاء الظاھر ان الکراھۃ فیہ تنزیہیۃ مالم یرد نھی خاص ۱؎ اھ

پھر ایک ورق کے بعد بیت الخلا میں سورج اور چاندکے رُخ پر ہونے کے مسئلہ میں اس سے رجوع کیا اورکہا :ظاہر یہ ہے کہ کراہت اس میں تنزیہی ہے جب تک کہ کوئی خاص نہی وارد نہ ہواھ۔

فـــ۱ معروضۃ رابعۃ علیہ ۔

(۱؎ ردالمحتار کتاب الصلوٰہ با ب یفسدالصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۴۴۰)

وقال فی فــــــــ۲المنحۃ عند قول البحر قد صرحوا بان التفات فــــ۳البصر یمنۃ ویسرۃ من غیر تحویل الوجہ اصلا غیر مکروہ مطلقا والاولی ترکہ لغیر حاجۃ مانصہ ای فیکون مکروھا تنزیھا کما ھو مرجع خلاف الاولی کمامرعــہ۱

بحر کی عبارت ہے: علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ ذرا بھی چہرہ پھیرے بغیر نگاہ سے دائیں بائیں التفات مطلقاً مکروہ نہیں اوراولٰی یہ ہے کہ کوئی حاجت نہ ہو تواس سے بازر ہے۔اس پر منحۃ الخالق میں لکھا: یعنی ایسی صورت میں یہ مکروہ تنزیہی ہو گا جیسا کہ یہ خلافِ اولٰی کا مآل ہے ۔جیساکہ گزرا۔

فــ۲ معروضۃ خامسۃ علیہ۔
فــ۳ مسئلہ:نماز میں اگر کن انکھیوں سے بے گردن پھیرے ادھر ادھر دیکھے تو مکروہ نہیں ہاں بے حاجت ہوتو خلاف اولٰی ہے ۔
عـــہ۱ای فی البحر صدر المکروہات ان المکروہ تنزیہا ومرجعہ الی ما ترکہ اولی ۲؎اھ منہ
عــہ۱ یعنی بحر کے اندرمکروہات نماز کے شروع میں گزرا کہ مکروہ تنزیہی کا مرجع ترک اولٰی ہے ۱۲منہ (ت)

(۲؎ البحرالرائق کتاب الصلوٰۃ باب یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیہا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۱۹ )

و بہ صرح فی النھر وفی الزیلعی وشرح الملتقی للباقانی انہ مباح لانہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کان یلاحظ اصحابہ فی صلاتہ بموق عینیہ ولعل المراد عند عدم الحاجۃ عـــہ۲ فلا ینافی ماھنا ۱؎ اھ

اور نہر میں بھی اسی کی تصریح کی ہے۔ زیلعی میں اور باقانی کی شر ح ملتقی میں ہے کہ یہ مباح ہے اس لئے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے اصحاب کو نماز میں گوشہ چشم سے ملاحظہ کیاکرتے تھے۔اور شاید مراد عدم حاجت کی حالت ہے تو یہ اس کے منافی نہیں جویہاں ہے اھ۔

عــہ ۲ اقول : لعل لفظۃ عدم وقعت زائدہ من قلم الناسخ فالصواب عدم العدم اھ منہ (م)
عــہ ۲ اقول : شاید لفظ” عدم ”کاتب کے قلم سے سہوازائد ہوگیا ہے کیونکہ صحیح عدم عدم ہے(یعنی یہ کہ مراد وقت حاجت ہے )۱۲منہ ۔ (ت)

(۱؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الصلوۃ باب ما یفسدالصلوۃ وما یکرہ فیہا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۲۱)

ثم رجع عما قریب فقال خلاف الاولی اعم من امکروہ تنزیھا دائما بل قد یکون مکروھا ان وجد دلیل الکراھۃ والافلا ۲؎ اھ

پھرکچھ ہی آگے جاکر اس سے رجوع کرکے کہا:خلافِ اولٰی مکروہ تنزیہی سے اعم ہے اور ترکِ مستحب ہمیشہ خلافِ اولٰی ہوتا ہے ،ہمیشہ مکروہ تنزیہی نہیں ہوتا بلکہ کبھی مکروہ ہوتا ہے اگردلیل کراہت موجود ہوورنہ نہیں۔

( ۲؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الصلوۃ باب ما یفسدالصلوۃ وما یکرہ فیہا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۳۲)

اقول : ومن العجب فـــ۱ ان البحر کان صرح فی الالتفات بنفی الکراھۃ مطلقا وان الاولی ترکہ لغیر حاجۃ فکان نصافی نفی الکراھۃ رأسا مع کونہ ترک الاولی فی بعض الصور ففسرہ بضدہ اعنی اثبات الکراھۃ لکونہ ترک الاولی مع نقلہ عن الزیلعی والباقانی انہ مباح وظاھرہ الاباحۃ الخالصۃ بدلیل الاستدلال بالحدیث فلم یتذکر ھناک ان خلاف الاولی لایستلزم الکراھۃ مالم یرد نھی۔

اقول : اور تعجب یہ ہے کہ بحر نے تصریح کی تھی کہ التفات میں کوئی بھی کراہت نہیں اوراولٰی یہ ہے کہ حاجت نہ ہوتواسے ترک کرے یہ اس بارے میں نص تھا کہ ذرا بھی کراہت نہیں باوجودیکہ یہ بعض صورتوں میں ترک اولٰی ہے۔ علامہ شامی نے اس کی تفسیر اس کی ضد سے کی یعنی چُوں کہ یہ ترک اولٰی ہے اس لئے مکروہ ہے باوجودیکہ زیلعی اور باقانی سے اس کامباح ہونا بھی نقل کیاہے اوراس کا ظاہر یہ ہے کہ مباح خالص ہے جس کی دلیل حدیث سے استدلال ہے توانہیں وہاں یہ یاد نہ رہا کہ خلاف اولٰی کراہت کو مستلزم نہیں جب تک کوئی نہی واردنہ ہو۔

فــــ۱: معرو ضۃ سادسۃ علیہ ۔

بااینہمہ اس میں شک نہیں کہ فتح القدیر میں محقق علی الاطلاق کی تصریحات اسی طرف ہیں کہ ترک مستحب بھی مکروہ تنزیہی ہےتو ان کا فــ ۲آداب میں گننا نفی کراہت تزیہہ پر کیونکر دلیل ہو خصوصاً اسی بحث کے آخر میں وہ صاف صاف کراہت اسراف کی تصریح بھی فرماچکے۔

فــ۲تطفل علی البحر ۔

حیث قال یکرہ الزیادۃ علی ثلث فی غسل الاعضاء ۱؎ ا ھ ان کے الفاظ یہ ہیں: اعضاء کو تین بار سے زیادہ دھونا مکروہ ہے اھ۔(ت)

( ۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکّھر ۱ /۳۲)

ثانیا ،اقول : اور خود علامہ صاحب بحر نے بھی اسے اُن سے نقل فرمایا تو اُس حمل پر باعث کیا رہا۔

اس سے قطع نظر بھی ہو تو محقق نے انہیں آداب میں یہ افعال بھی شمار فرمائے، نزع خاتم علیہ اسمہ تعالی واسم نبیہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم حال الاستنجاء وتعاھد ماتحت الخاتم وان لایلطم وجہہ بالماء والدلک خصوصا فی الشتاء وتجاوز حدود الوجہ والیدین والرجلین لیستیقن غسلہما ۲؎۔

استنجاء کے وقت اس انگوٹھی کو اتارلینا جس پر باری تعالٰی کا یا اس کے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کانام ہو۔

اورانگشتری کے نیچے والے حصہ بدن دھونے میں خاص خیال رکھنا۔چہرے پر پانی کا تھپیڑا نہ مارنا۔اعضاء کو ملنا خصوصاً جاڑے میں۔چہرے،ہاتھوں اور پیروں کی حدوں سے زیادہ پانی پہنچانا،تاکہ ان حدوں کے دُھل جانے کا یقین ہوجائے۔(ت)

(۲؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکّھر ۱ /۳۲)

اور شک ف۱ نہیں کہ وقت استنجاء اُس انگشتری کا جس پر اللہ عزّوجل یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک یا کوئی متبرک لفظ ہو اُتار لینا صرف مستحب ہی نہیں قطعا سنّت اور اُس کا ترک ضرور مکروہ بلکہ اسأت ہے بلکہ مطلقا ف۲کچھ لکھا ہو حروف ہی کا ادب چاہئے بلکہ ف ۳ایسی انگوٹھی پہن کر بیت الخلا میں جانا ہی مکروہ ہے ولہٰذا ف ۴تعویذ لے جانے کی اجازت اُس وقت ہوئی کہ خلاف مثلاً موم جامہ میں ہو اور پھر بھی فرمایا کہ اب بھی بچنا ہی اولی ہے اگرچہ غلاف ہونے سے کراہت نہ رہی۔

ف۱:مسئلہ جس انگشتری پر کوئی متبرک نا م لکھا ہوو قت استنجا ء اس کا اتار لینا بہت ضرور ہے ۔
ف۲:مسئلہ مطلقا حروف کی تعظیم چاہیے کچھ لکھا ہو ۔
ف۳:مسئلہ جس انگشتری پر کچھ لکھا ہواسے پہن کر بیت الخلا میں جانا مکروہ ہے ۔
ف۴:مسئلہ تعویذ اگر غلاف میں ہو تو اسے پہن کربیت الخلا میں جانا مکروہ نہیں پھر بھی اس سے بچنا افضل ہے ۔

ردالمحتار میں ہے : نقلوا فـــ عندنا ان للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ وذکر بعض القراء ان حروف الھجاء قران نزل علی ھود علیہ الصلاۃ والسلام ۱؎ الخ

منقول ہے کہ ہمارے نزدیک حروف کی بھی عزت ہے اگرچہ الگ الگ کلمے ہوں۔اوربعض قرأ نے ذکرکیا کہ حروفِ تہجی وہ قرآن ہیں جس کا نزول حضرت ہود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہوا الخ۔(ت)

ف: حروف ہجا ایک قرآن ہے کہ سیدنا ہود علیہ الصلوۃ والسلام پر اترا ۔

( ۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ فصل الاستنجاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۲۲۷)

اُسی میں عارف باللہ سیدی عبدالغنی قدس سرہ القدسی سے ہے :

حروف الھجاء قران انزلت علی ھود علیہ الصلاۃ والسلام کما صرح بذلک الامام القسطلانی فی کتابہ الاشارات فی علم القراء ات ۲؎۔

حروف تہجی قرآن ہیں یہ حضرت ہود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئے جیسا کہ امام قسطلانی نے اپنی کتاب”الاشارات فی القرأ ت” میں اس کی تصریح کی ہے۔(ت)

( ۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ قبیل باب المیاہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۲۰)

بحرالرائق میں ہے: یکرہ ان یدخل الخلاء ومعہ خاتم مکتوب علیہ اسم اللّٰہ تعالی اوشیئ من القران ۳؎۔ خلا میں ایسی انگوٹھی لے کر جانا مکروہ ہے جس پر اللہ تعالی کانا م یا قرآن سے کچھ لکھا ہو اہو۔ (ت)

(۳؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ باب الانجاس ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۴۳)

دُر مختار میں ہے : رقیۃ فی غلاف متجاف لم یکرہ دخول الخلاء بہ والاحتراز افضل۴؎۔ ایسا تعویذ خلاء میں لے کر جانا مکروہ نہیں جوالگ غلاف میں ہو اور بچنا افضل ہے۔ ت

(۴؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۴)