مسئلہ ۲۲: ۲۲ محرم الحرام ۱۳۲۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جنب کو کلام اللہ شریف کی پوری آیت پڑھنی ناجائز ہے یا آیت سے کم بھی، مثلاً کسی کام کیلئے حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل یا کسی تکلیف پر انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون کہہ سکتا ہے کہ یہ پوری آیتیں نہیں آیتوں کے ٹکڑے ہیں یا اس قدر کی بھی اجازت نہیں۔ بینوا توجروا
الجواب
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
حمد المن انزل کتابہ وقدس جنابہ فحرم قراء تہ حال الجنابۃ والصلاۃ والسّلٰم علٰی من اٰتاہ خطابہ وطھر رحابہ وعلی الاٰل والصحابۃ وامۃ الاجابۃ۔ حمد ہے اسے جس نے اپنی کتاب نازل فرمائی اور اس کی بارگاہ مقدس رکھی، کہ اس کی قرأت بحالتِ جنابت حرام فرمائی۔ اور درودوسلام ہو ان پر جنہیں اپنا کلام عطا کیا، اورجن کا صحن پاکیزہ رکھا، اور ان کے آل واصحاب اور امتِ اجابت پر بھی ۔ (ت)
اولا یہ معلوم فـــ رہے کہ قرآن عظیم کی وہ آیات جو ذکر وثنا ومناجات ودُعا ہوں اگرچہ پوری آیت ہو جیسے آیۃ الکرسی متعدد آیات کاملہ جیسے سورہ حشر شریف کی اخیر تین آیتیں ھو اللّٰہ الذی لاالٰہ الا ھو عالم الغیب والشھادۃ۱؎ سے آخر سورۃ تک ،بلکہ پوری سورت جیسے الحمد شریف بہ نیت ذکر ودعا بے نیت تلاوت پڑھنا جنب وحائض ونُفسا سب کو جائز ہے اسی لئے کھانے یا سبق کی ابتدا میں بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کہہ سکتے ہیں اگرچہ یہ ایک آیت مستقلہ ہے کہ اس سے مقصود تبرک واستفتاح ہوتا ہے، نہ تلاوت، تو حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل اور انّا اللّٰہ وانّا الیہ راجعون کہ کسی مہم یا مصیبت پر بہ نیت ذکر ودعا، نہ بہ نیت تلاوت قرآن پڑھے جاتے ہیں، اگرچہ پوری آیت بھی ہوتی تو مضائقہ نہ تھا جس طرح کسی چیز کے گُمنے پر عسٰی ربنا ان یبدلنا خیرا منھا انّا الی ربنا راغبون۲؎ کہنا ۔
فـــ:مسئلہ جو آیت پوری سورت خالص دعا وثنا ہو جنب و حائض بے نیت قرآن صرف دعا و ثنا کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں جیسے الحمد و آیۃ الکرسی۔
(۱؎ القرآن الکریم ۵۹ /۲۲) (۲؎ القرآن الکریم ۶۸ /۳۲)
بحر میں ذکر مسائل ممانعت ہے: ھذا کلہ اذا قرأ علی قصد انہ قراٰن اما اذا قراہ علی قصد الثناء اوافتتاح امر لایمنع فی اصح الرویات وفی التسمیۃ اتفاق انہ لایمنع اذا کان علی قصد الثناء اوافتتاح امرکذا فی الخلاصۃ وفی العیون لابی اللیث ولو انہ قراء الفاتحۃ علی سبیل الدعاء اوشیئا من الایات التی فیہا معنی الدعاء ولم یرد بہ القراء ۃ فلا باس بہ اھ واختارہ الحلوانی وذکر غایۃ البیان انہ المختار۳؎۔
یہ سب اس وقت ہے جب بقصدِ قرآن پڑھے۔لیکن جب ثنایاکسی کام کے شروع کرنے کے ارادے سے پڑھے تواصح روایات میں ممانعت نہیں۔ اورتسمیہ کے بارے میں تواتفاق ہے کہ جب اسے ثنا یا کسی کام کے شروع کرنے کے ارادے سے پڑھے توممانعت نہیں۔ایسا ہی خلاصہ میں ہے۔ امام ابو اللیث کی عیون المسائل میں ہے:اگر سورہ فاتحہ بطور دُعا پڑھی یا کوئی ایسی آیت پڑھی جو دُعا کے معنی پر مشتمل ہے اوراس سے تلاوتِ قرآن کاقصد نہیں رکھتاتوکوئی حرج نہیں اھ۔ اسی کو امام حلوانی نے اختیارکیا اورغایۃ البیان میں مذکور ہے کہ یہی مختار ہے۔(ت)
(۳؎ البحر الرائق کتاب الطہارۃ باب الحیض ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۱۹۹)
ہاں آیۃ الکرسی یا سورہ فاتحہ اور ان کے مثل ایسی قراء ت کہ سننے والا جسے قرآن سمجھے اُن عوام کے سامنے جن کو اس کا جنب ہونا معلوم ہو بآواز بہ نیت ثنا ودعا بھی پڑھنا مناسب نہیں کہ کہیں وہ بحال جنابت تلاوت جائز نہ سمجھ لیں یا اس کا عدمِ جواز جانتے ہوں تو اس پر گناہ کی تہمت نہ رکھیں۔
وھذا معنی ما قال الامام الفقیہ ابو جعفر الھندوانی لاافتی بھذا وان روی عن ابی حنیفۃ ۱؎ اھ قالہ فی الفاتحۃ قال الشیخ اسمٰعیل بن عبدالغنی النابلسی والدالسید العارف عبدالغنی النابلسی فی حاشیۃ علی الدرر لم یرد الھند وانی رد ھذہ الروایۃ بل قال ذلک لما یتبادر الی ذھن من یسمعہ من الجنب من غیر اطلاع علی نیۃ قائلہ من جوازہ منہ وکم من قول صحیح لایفتی بہ خوفا من محذورا خر ولم یقل لااعمل بہ کیف وھو مروی عن ابی حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی ۲؎ اھ
یہی اس کا معنی ہے جو امام فقیہ ابو جعفر ہندوانی نے فرمایا کہ میں اس پر فتوٰی نہیں دیتا اگرچہ یہ امام ابو حنیفہ سے مروی ہے اھ۔یہ بات انہوں نے سورہ فاتحہ سے متعلق فرمائی۔شیخ اسمٰعیل بن عبدالغنی نابلسی ،سیدی العارف عبدالغنی نابلسی کے والد گرامی اپنے حاشیہ دررمیں فرماتے ہیں: امام ہندوانی کا مقصد اس روایت کی تردید نہیں، بلکہ یہ انہوں نے اس خیال سے فرمایاہے کہ جو اس جنابت والے کی نیت جانے بغیر اس سے سنے گاتو اس کاذہن اس طرف جائے گا کہ بحالتِ جنابت تلاوت جائز ہے۔
(۱؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ،باب الحیض ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۱۹۹
۲؎ منحۃ الخالق علی البحر الرائق کتاب الطہارۃ،باب الحیض ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۱۹۹)
اقول: وقید بالجھر وکونہ عند من یعلم من العوام انہ جنب لان المحذور انما یتوقع فیہ وھذا محمل حسن جدا وما بحث البحر تبعا للحلیۃ فسیأتی جوابہ وما احلی قول الشیخ اسمٰعیل انہ مروی عن الامام وکیف یرد ماقالت خدام۔
اوربہت ایسی صحیح باتیں ہوتی ہیں جن پر کسی اورخرابی کی وجہ سے فتوٰی نہیں دیا جاتا۔انہوں نے یہ نہ فرمایاکہ میں اس پر عمل نہیں کرتااوریہ کیسے ہوسکتاہے جب کہ وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی سے مروی ہے اھ۔
اقول: میں نے بآواز بلندپڑھنے کی قید لگائی اوریہ کہ ان عوام کے سامنے جن کو اُس کاجنب ہونا معلوم ہواس لئے کہ خرابی کا اندیشہ اسی صورت میں ہے۔اوریہ کلامِ ابو جعفرکا بہت نفیس مطلب ہے۔ اور بحر نے بہ تبعیتِ حلیہ جو بحث کی ہے آگے اس کاجواب آرہا ہے ۔اورشیخ اسمٰعیل کا یہ جملہ کتنا شیریں ہے کہ یہ امام سے مروی ہے اورخدّام کا کلام اس کی تردید میں کیسے ہوسکتاہے؟
ثانیا آیت فــ طویلہ کا پارہ کہ ایک آیت کے برابر ہو جس سے نماز میں فرض قراء ت مذہب سیدنا امام اعظم کی روایت مصححہ امام قدوری وامام زیلعی پر ادا ہوجائے جس کے پڑھنے والے کو عرفاً تالی قرآن کہیں جنب کو بہ نیت قرآن اُس سے ممانعت محل منازعت نہ ہونی چاہئے۔
فـــ:مسئلہ کسی آیت کا اتنا ٹکڑا کہ ایک چھوٹی آیت کے برابر ہو بہ نیت قرآن جنب و حائض کوبالاتفاع( بالاتفاق) ممنوع ہے۔
اقول: کیف وھو قرآن حقیقۃ وعرفا فیشملہ قولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لایقرء الجنب ولا الحائض شیئامن القرآن رواہ الترمذی۱؎ وابن ماجۃ وحسنہ المنذری و صححہ النووی کما فی الحلیۃ۔
اقول: اس میں نزاع کیوں ہو؟ جب کہ یہ حقیقۃً وعرفاً قرآن ہے توسرکار اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ ارشاد قطعاً اسے شامل ہے: ”جنب اور حائض قرآن سے کچھ بھی نہ پڑھیں” اسے ترمذی وابن ماجہ نے روایت کیا،اور منذری نے اسے حسن اورامام نووی نے صحیح کہا، جیسا کہ حلیہ میں ہے۔
(۱؎ سنن الترمذی ابواب الطہارۃ،باب ماجاء فی الجنب والحائض،حدیث۱۳۱ دارلفکر بیروت ۱ /۱۸۲)
سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ،باب ماجاء فی قراء ۃ القرآن الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۴۴)
قطعاًکون کہہ سکتا ہے کہ آیہ مدانیت کے اول سے یا ایھا الذین اٰمنوا یا آخر سے لفظ علیم چھوڑ کر ایک صفحہ بھر سے زائد کلام اللہ بہ نیت کلام اللہ پڑھنے کی جُنب کو اجازت ہے ردالمحتار میں ہے: لوکانت طویلۃ کان بعضہا کاٰیۃ لانھا تعدل ثلث ایات ذکرہ فی الحلیۃ عن شرح الجامع لفخر الاسلام ۱؎ اھ آیت اگر طویل ہو تواس کا بعض حصہ ایک آیت کے حکم میں ہوگا اس لئے کہ پوری آیت تین آیتوں کے برابر ہے، اسے حلیہ میں فخرالاسلام کی شرح جامع صغیر کے حوالے سے ذکر کیا ہے اھ۔(ت)
(۱؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۱۶
البحرالرائق کتاب الطہارۃ،باب الحیض ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۱۹۹)
اقول: ذھب قدس سرہ الی مصطلح الفقہاء ان الطویلۃ ھی التی یتأدی بھا واجب ضم السورۃ وھی التی تعدل ثلث ایات ولکن فـــ۱ ارادۃ ھذا المعنی غیرلازم ھھنا اذا لمناط کون المقروء قدرما یتأدی بہ فرض القراء ۃ عند الامام وھو الذی یعدل ایۃ فلو کانت اٰیۃ تعدل اٰیتین عدل نصفھا ایۃ فینبغی ان یدخل تحت النھی قطعا وقس علیہ۔
اقول:حضرت موصوف قدس سرہ اصطلاحِ فقہاء کی طرف چلے گئے کہ لمبی آیت وہ ہے جس سے واجبِ نماز، ضمِّ سورہ کی ادائیگی ہوجائے اوریہ وہ ہے جو تین آیتوں کے برابر ہو۔ لیکن یہاں پر یہ معنی مراد لینا ضروری نہیں اس لئے کہ مدارِ حرمت اس پر ہے کہ جتنے حصے کی تلاوت ہو وہ اس قدر ہوجس سے حضرت امام کے نزدیک فرضِ قراء ت ادا ہوجاتا ہے اور یہ وہ ہے جو ایک آیت کے برابر ہو ۔توپوری آیت اگر دوآیتوں کے برابر ہے تو اس کا نصف ایک آیت کے برابر ہوگا تو اسے نہی کے تحت قطعاً داخل ہونا چاہئے۔ اورمزید اسی پر قیاس کرلو۔
فـــ۱:تطفل خویدم ذلیل علی خدام الامام الجلیل فخر الاسلام ثم الحلیۃ و ش
وکیف یستقیم فـــ۲ ان لایجوز تلاوۃ ثُلث ایۃ تعدل ثلٰث ایات لکونہ یعدل ایۃ ویجوز تلاوۃ ایۃ تعدل ایتین بترک حرف منھا مع انہ یقرب قدر اٰیتین فتبصر۔
اور یہ بات کیسے درست ہوسکتی ہے کہ تین آیت کے مساوی ایک آیت کے تہائی حصّہ کی تلاوت جائز نہیں اس لئے کہ وہ ایک آیت کے برابر ہے۔ اور دو آیتوں کے مساوی ایک آیت کی تلاوت اس کا کوئی حرف چھوڑ کر جائز ہے؟ حالانکہ وہ تقریباً دوآیت کے برابر ہے۔ توبصیرت سے کام لو۔(ت)
فـــ۲:تطفل اٰخرعلیہم۔
ہاں جوفـــ پارہ آیت ایسا قلیل ہو کہ عرفاً اُس کے پڑھنے کو قرأت قرآن نہ سمجھیں اُس سے فرض قراء ت یک آیت ادا نہ ہو اتنے کو بہ نیت قرآن پڑھنے میں اختلاف ہے امام کرخی منع فرماتے ہیں امام ملک العلماء نے بدائع اور امام قاضی خان نے شرح جامع صغیر اور امام برہان الدین صاحبِ ہدایہ نے کتاب التجنیس والمزید اور امام عبدالرشید ولو لوالجی نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصحیح فرمائی ہدایہ وکافی وغیرہما میں اسی کو قوت دی درمختار میں اسی کو مختار کہا حلیہ وبحر میں اسی کو ترجیح دی تحفہ وبدائع میں اسی کو قول عامہ مشایخ بتایا اور امام طحاوی اجازت دیتے ہیں خلاصہ کی فصل حادی عشر فی القراء ۃ میں اسی کی تصحیح کی امام فخر الاسلام نے شرح جامع صغیر اور امام رضی الدین۔ سرخسی نے محیط پھر محقق علی الاطلاق نے فتح میں اسی کی توجیہ کی اور زاہدی نے اس کو اکثر کی طرف نسبت کیا۔
فــ:مسئلہ صحیح یہ ہے کہ بہ نیت قرآن ایک حرف کی بھی جنب و حائض کو اجازت نہیں۔
غرض یہ دو قول مرجح ہیں:
اقول: اور اول یعنی ممانعت ہی بوجوہ اقوی ہے۔
اوّلا :اکثر تصحیحات اُسی طرف ہیں۔
ثانیا: اُس کے مصححین کی جلالت قدر جن میں امام فقیہ النفس جیسے اکابر ہیں جن کی نسبت تصریح ہے کہ اُن کی تصحیح سے عدول نہ کیا جائے۔
ثالثا: اُسی میں احتیاط زیادہ اور وہی قرآن عظیم کی تعظیم تام سے اقرب۔
رابعا: اکثر ائمہ اُسی طرف ہیں اور قاعدہ ہے کہ العمل بما علیہ الاکثر ۱؎ ( عمل اسی پرہوگا جس پر اکثر ہوں۔ ت) اور زاہدی کی نقل امام اجل علاء الدین صاحبِ تحفۃ الفقہاء وامام اجل ملک العلماء صاحبِ بدائع کی نقل کے معارض نہیں ہوسکتی۔
(۱؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ،فصل فی البئر دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۵۱)
خامسا :اطلاق احادیث بھی اُسی طرف ہے کہ فرمایا جنب وحائض قرآن میں سے کچھ نہ پڑھیں۔
سادسا:خاص جزئیہ کی تصریح میں امیر المؤمنین مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کا ارشاد موجود کہ فرماتے ہیں:
اقرؤا القراٰن مالم یصب احدکم جنابۃ فان اصابہ فلا ولا حرفا واحدا۔رواہ الدار قطنی ۱؎ وقال ھو صحیح عن علی رضی اللّٰہ تعالی عنہ۔
قرآن پڑھو جب تک تمہیں نہانے کی حاجت نہ ہواور جب حاجتِ غسل ہوتو قرآن کا ایک حرف بھی نہ پڑھو۔(اسے دارقطنی نے روایت کیااور کہا یہی صحیح ہے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔ت)
(۱؎سنن الدار قطنی کتاب الطہارۃ،باب فی النہی للجنب والحائض،حدیث۴۱۸ /۶ دار المعرفۃ بیروت ۱ /۲۹۳ و ۲۹۴)
سابعا: وہی ظاہر الروایۃ کا مفاد ہے امام قاضی خان شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں: لم یفصل فی الکتاب بین الایۃ وما دونھا وھو الصحیح ۲؎ اھ امام محمد نے کتاب میں آیت اورآیت سے کم حصہ میں کوئی تفریق نہ رکھی اوریہی صحیح ہے اھ۔(ت)
(۲؎ شرح الجامع الصغیرللامام قاضی خان)
بخلاف قولِ دوم کہ روایت نوادر ہے۔ رواھا ابن سماعۃ عن الامام رضی اللّٰہ تعالی عنہ کما ذکرہ الزاھدی۔ اسے ابن سماعہ نے حضرت امام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے جیساکہ زاہدی نے ذکر کیا ہے۔ (ت)
ثامنا :قوت دلیل بھی اسی طرف ہے تو اسی پر اعتماد واجب۔
ویظھر ذلک بالکلام علی مااستدلوا بہ للامام الطحاوی فاعلم انہ وجہہ رضی الدین فی محیطہ والامام فخر الاسلام فی شرح الجامع الصغیر بان النظم والمعنی یقصر فیما دون الایۃ ویجری مثلہ فی محاورات الناس وکلامھم فتمکنت فیہ شبھۃ عدم القران ولھذا لاتجوز الصّلٰوۃ بہ ۱؎ اھ
یہ ان دلیلوں پرکلام سے ظاہر ہوگا جن سے اُن مرجحین نے امام طحاوی کی حمایت میں استدلال کیا ہے۔ اب واضح ہوکہ محیط میں رضی الدین نے اور شرح جامع صغیرمیں امام فخرالاسلام نے مذہب امام طحاوی کی توجیہ میں یہ ذکر کیا ہے کہ مادون الآیۃ(جو حصہ ایک آیت سے کم ہے اس) میں نظم ومعنی دونوں میں قصوروکمی ہے۔اوراس طرح کی عبارت لوگوں کی بول چال اور گفتگو میں بھی آتی رہتی ہے تواس میں عدم قرآن کاشبہہ جاگزیں ہو جاتاہے اور اسی لئے اتنے حصہ سے نمازجائز نہیں ہوتی اھ۔(ت)
(۱؎ البحر الرائق بحوالہ المحیط کتاب الطہارۃ،باب الحیض ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۱ /۱۱۹)
اقول: ذھب قدس سرہ الی مصطلح الفقہاء ان الطویلۃ ھی التی یتأدی بھا واجب ضم السورۃ وھی التی تعدل ثلث ایات ولکن فـــ۱ ارادۃ ھذا المعنی غیرلازم ھھنا اذا لمناط کون المقروء قدرما یتأدی بہ فرض القراء ۃ عند الامام وھو الذی یعدل ایۃ فلو کانت اٰیۃ تعدل اٰیتین عدل نصفھا ایۃ فینبغی ان یدخل تحت النھی قطعا وقس علیہ۔
اقول:حضرت موصوف قدس سرہ اصطلاحِ فقہاء کی طرف چلے گئے کہ لمبی آیت وہ ہے جس سے واجبِ نماز، ضمِّ سورہ کی ادائیگی ہوجائے اوریہ وہ ہے جو تین آیتوں کے برابر ہو۔ لیکن یہاں پر یہ معنی مراد لینا ضروری نہیں اس لئے کہ مدارِ حرمت اس پر ہے کہ جتنے حصے کی تلاوت ہو وہ اس قدر ہوجس سے حضرت امام کے نزدیک فرضِ قراء ت ادا ہوجاتا ہے اور یہ وہ ہے جو ایک آیت کے برابر ہو ۔توپوری آیت اگر دوآیتوں کے برابر ہے تو اس کا نصف ایک آیت کے برابر ہوگا تو اسے نہی کے تحت قطعاً داخل ہونا چاہئے۔ اورمزید اسی پر قیاس کرلو۔
فـــ۱:تطفل خویدم ذلیل علی خدام الامام الجلیل فخر الاسلام ثم الحلیۃ و ش
وکیف یستقیم فـــ۲ ان لایجوز تلاوۃ ثُلث ایۃ تعدل ثلٰث ایات لکونہ یعدل ایۃ ویجوز تلاوۃ ایۃ تعدل ایتین بترک حرف منھا مع انہ یقرب قدر اٰیتین فتبصر۔
اور یہ بات کیسے درست ہوسکتی ہے کہ تین آیت کے مساوی ایک آیت کے تہائی حصّہ کی تلاوت جائز نہیں اس لئے کہ وہ ایک آیت کے برابر ہے۔ اور دو آیتوں کے مساوی ایک آیت کی تلاوت اس کا کوئی حرف چھوڑ کر جائز ہے؟ حالانکہ وہ تقریباً دوآیت کے برابر ہے۔ توبصیرت سے کام لو۔(ت)
فـــ۲:تطفل اٰخرعلیہم۔
ہاں جوفـــ پارہ آیت ایسا قلیل ہو کہ عرفاً اُس کے پڑھنے کو قرأت قرآن نہ سمجھیں اُس سے فرض قراء ت یک آیت ادا نہ ہو اتنے کو بہ نیت قرآن پڑھنے میں اختلاف ہے امام کرخی منع فرماتے ہیں امام ملک العلماء نے بدائع اور امام قاضی خان نے شرح جامع صغیر اور امام برہان الدین صاحبِ ہدایہ نے کتاب التجنیس والمزید اور امام عبدالرشید ولو لوالجی نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصحیح فرمائی ہدایہ وکافی وغیرہما میں اسی کو قوت دی درمختار میں اسی کو مختار کہا حلیہ وبحر میں اسی کو ترجیح دی تحفہ وبدائع میں اسی کو قول عامہ مشایخ بتایا اور امام طحاوی اجازت دیتے ہیں خلاصہ کی فصل حادی عشر فی القراء ۃ میں اسی کی تصحیح کی امام فخر الاسلام نے شرح جامع صغیر اور امام رضی الدین۔ سرخسی نے محیط پھر محقق علی الاطلاق نے فتح میں اسی کی توجیہ کی اور زاہدی نے اس کو اکثر کی طرف نسبت کیا۔
فــ:مسئلہ صحیح یہ ہے کہ بہ نیت قرآن ایک حرف کی بھی جنب و حائض کو اجازت نہیں۔
غرض یہ دو قول مرجح ہیں:
اقول: اور اول یعنی ممانعت ہی بوجوہ اقوی ہے۔
اوّلا :اکثر تصحیحات اُسی طرف ہیں۔
ثانیا: اُس کے مصححین کی جلالت قدر جن میں امام فقیہ النفس جیسے اکابر ہیں جن کی نسبت تصریح ہے کہ اُن کی تصحیح سے عدول نہ کیا جائے۔
ثالثا: اُسی میں احتیاط زیادہ اور وہی قرآن عظیم کی تعظیم تام سے اقرب۔
رابعا: اکثر ائمہ اُسی طرف ہیں اور قاعدہ ہے کہ العمل بما علیہ الاکثر ۱؎ ( عمل اسی پرہوگا جس پر اکثر ہوں۔ ت) اور زاہدی کی نقل امام اجل علاء الدین صاحبِ تحفۃ الفقہاء وامام اجل ملک العلماء صاحبِ بدائع کی نقل کے معارض نہیں ہوسکتی۔
(۱؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ،فصل فی البئر دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۵۱)
خامسا :اطلاق احادیث بھی اُسی طرف ہے کہ فرمایا جنب وحائض قرآن میں سے کچھ نہ پڑھیں۔
سادسا:خاص جزئیہ کی تصریح میں امیر المؤمنین مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کا ارشاد موجود کہ فرماتے ہیں:
اقرؤا القراٰن مالم یصب احدکم جنابۃ فان اصابہ فلا ولا حرفا واحدا۔رواہ الدار قطنی ۱؎ وقال ھو صحیح عن علی رضی اللّٰہ تعالی عنہ۔
قرآن پڑھو جب تک تمہیں نہانے کی حاجت نہ ہواور جب حاجتِ غسل ہوتو قرآن کا ایک حرف بھی نہ پڑھو۔(اسے دارقطنی نے روایت کیااور کہا یہی صحیح ہے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔ت)
(۱؎سنن الدار قطنی کتاب الطہارۃ،باب فی النہی للجنب والحائض،حدیث۴۱۸ /۶ دار المعرفۃ بیروت ۱ /۲۹۳ و ۲۹۴)
سابعا: وہی ظاہر الروایۃ کا مفاد ہے امام قاضی خان شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں: لم یفصل فی الکتاب بین الایۃ وما دونھا وھو الصحیح ۲؎ اھ امام محمد نے کتاب میں آیت اورآیت سے کم حصہ میں کوئی تفریق نہ رکھی اوریہی صحیح ہے اھ۔(ت)
(۲؎ شرح الجامع الصغیرللامام قاضی خان)
بخلاف قولِ دوم کہ روایت نوادر ہے۔ رواھا ابن سماعۃ عن الامام رضی اللّٰہ تعالی عنہ کما ذکرہ الزاھدی۔ اسے ابن سماعہ نے حضرت امام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے جیساکہ زاہدی نے ذکر کیا ہے۔ (ت)
ثامنا :قوت دلیل بھی اسی طرف ہے تو اسی پر اعتماد واجب۔
ویظھر ذلک بالکلام علی مااستدلوا بہ للامام الطحاوی فاعلم انہ وجہہ رضی الدین فی محیطہ والامام فخر الاسلام فی شرح الجامع الصغیر بان النظم والمعنی یقصر فیما دون الایۃ ویجری مثلہ فی محاورات الناس وکلامھم فتمکنت فیہ شبھۃ عدم القران ولھذا لاتجوز الصّلٰوۃ بہ ۱؎ اھ
یہ ان دلیلوں پرکلام سے ظاہر ہوگا جن سے اُن مرجحین نے امام طحاوی کی حمایت میں استدلال کیا ہے۔ اب واضح ہوکہ محیط میں رضی الدین نے اور شرح جامع صغیرمیں امام فخرالاسلام نے مذہب امام طحاوی کی توجیہ میں یہ ذکر کیا ہے کہ مادون الآیۃ(جو حصہ ایک آیت سے کم ہے اس) میں نظم ومعنی دونوں میں قصوروکمی ہے۔اوراس طرح کی عبارت لوگوں کی بول چال اور گفتگو میں بھی آتی رہتی ہے تواس میں عدم قرآن کاشبہہ جاگزیں ہو جاتاہے اور اسی لئے اتنے حصہ سے نمازجائز نہیں ہوتی اھ۔(ت)
(۱؎ البحر الرائق بحوالہ المحیط کتاب الطہارۃ،باب الحیض ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۱ /۱۱۹)
اقول: ذھب قدس سرہ الی مصطلح الفقہاء ان الطویلۃ ھی التی یتأدی بھا واجب ضم السورۃ وھی التی تعدل ثلث ایات ولکن فـــ۱ ارادۃ ھذا المعنی غیرلازم ھھنا اذا لمناط کون المقروء قدرما یتأدی بہ فرض القراء ۃ عند الامام وھو الذی یعدل ایۃ فلو کانت اٰیۃ تعدل اٰیتین عدل نصفھا ایۃ فینبغی ان یدخل تحت النھی قطعا وقس علیہ۔
اقول:حضرت موصوف قدس سرہ اصطلاحِ فقہاء کی طرف چلے گئے کہ لمبی آیت وہ ہے جس سے واجبِ نماز، ضمِّ سورہ کی ادائیگی ہوجائے اوریہ وہ ہے جو تین آیتوں کے برابر ہو۔ لیکن یہاں پر یہ معنی مراد لینا ضروری نہیں اس لئے کہ مدارِ حرمت اس پر ہے کہ جتنے حصے کی تلاوت ہو وہ اس قدر ہوجس سے حضرت امام کے نزدیک فرضِ قراء ت ادا ہوجاتا ہے اور یہ وہ ہے جو ایک آیت کے برابر ہو ۔توپوری آیت اگر دوآیتوں کے برابر ہے تو اس کا نصف ایک آیت کے برابر ہوگا تو اسے نہی کے تحت قطعاً داخل ہونا چاہئے۔ اورمزید اسی پر قیاس کرلو۔
فـــ۱:تطفل خویدم ذلیل علی خدام الامام الجلیل فخر الاسلام ثم الحلیۃ و ش
وکیف یستقیم فـــ۲ ان لایجوز تلاوۃ ثُلث ایۃ تعدل ثلٰث ایات لکونہ یعدل ایۃ ویجوز تلاوۃ ایۃ تعدل ایتین بترک حرف منھا مع انہ یقرب قدر اٰیتین فتبصر۔
اور یہ بات کیسے درست ہوسکتی ہے کہ تین آیت کے مساوی ایک آیت کے تہائی حصّہ کی تلاوت جائز نہیں اس لئے کہ وہ ایک آیت کے برابر ہے۔ اور دو آیتوں کے مساوی ایک آیت کی تلاوت اس کا کوئی حرف چھوڑ کر جائز ہے؟ حالانکہ وہ تقریباً دوآیت کے برابر ہے۔ توبصیرت سے کام لو۔(ت)
فـــ۲:تطفل اٰخرعلیہم۔
ہاں جوفـــ پارہ آیت ایسا قلیل ہو کہ عرفاً اُس کے پڑھنے کو قرأت قرآن نہ سمجھیں اُس سے فرض قراء ت یک آیت ادا نہ ہو اتنے کو بہ نیت قرآن پڑھنے میں اختلاف ہے امام کرخی منع فرماتے ہیں امام ملک العلماء نے بدائع اور امام قاضی خان نے شرح جامع صغیر اور امام برہان الدین صاحبِ ہدایہ نے کتاب التجنیس والمزید اور امام عبدالرشید ولو لوالجی نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصحیح فرمائی ہدایہ وکافی وغیرہما میں اسی کو قوت دی درمختار میں اسی کو مختار کہا حلیہ وبحر میں اسی کو ترجیح دی تحفہ وبدائع میں اسی کو قول عامہ مشایخ بتایا اور امام طحاوی اجازت دیتے ہیں خلاصہ کی فصل حادی عشر فی القراء ۃ میں اسی کی تصحیح کی امام فخر الاسلام نے شرح جامع صغیر اور امام رضی الدین۔ سرخسی نے محیط پھر محقق علی الاطلاق نے فتح میں اسی کی توجیہ کی اور زاہدی نے اس کو اکثر کی طرف نسبت کیا۔
فــ:مسئلہ صحیح یہ ہے کہ بہ نیت قرآن ایک حرف کی بھی جنب و حائض کو اجازت نہیں۔
غرض یہ دو قول مرجح ہیں:
اقول: اور اول یعنی ممانعت ہی بوجوہ اقوی ہے۔
اوّلا :اکثر تصحیحات اُسی طرف ہیں۔
ثانیا: اُس کے مصححین کی جلالت قدر جن میں امام فقیہ النفس جیسے اکابر ہیں جن کی نسبت تصریح ہے کہ اُن کی تصحیح سے عدول نہ کیا جائے۔
ثالثا: اُسی میں احتیاط زیادہ اور وہی قرآن عظیم کی تعظیم تام سے اقرب۔
رابعا: اکثر ائمہ اُسی طرف ہیں اور قاعدہ ہے کہ العمل بما علیہ الاکثر ۱؎ ( عمل اسی پرہوگا جس پر اکثر ہوں۔ ت) اور زاہدی کی نقل امام اجل علاء الدین صاحبِ تحفۃ الفقہاء وامام اجل ملک العلماء صاحبِ بدائع کی نقل کے معارض نہیں ہوسکتی۔
(۱؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ،فصل فی البئر دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۵۱)
خامسا :اطلاق احادیث بھی اُسی طرف ہے کہ فرمایا جنب وحائض قرآن میں سے کچھ نہ پڑھیں۔
سادسا:خاص جزئیہ کی تصریح میں امیر المؤمنین مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کا ارشاد موجود کہ فرماتے ہیں:
اقرؤا القراٰن مالم یصب احدکم جنابۃ فان اصابہ فلا ولا حرفا واحدا۔رواہ الدار قطنی ۱؎ وقال ھو صحیح عن علی رضی اللّٰہ تعالی عنہ۔
قرآن پڑھو جب تک تمہیں نہانے کی حاجت نہ ہواور جب حاجتِ غسل ہوتو قرآن کا ایک حرف بھی نہ پڑھو۔(اسے دارقطنی نے روایت کیااور کہا یہی صحیح ہے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔ت)
(۱؎سنن الدار قطنی کتاب الطہارۃ،باب فی النہی للجنب والحائض،حدیث۴۱۸ /۶ دار المعرفۃ بیروت ۱ /۲۹۳ و ۲۹۴)
سابعا: وہی ظاہر الروایۃ کا مفاد ہے امام قاضی خان شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں: لم یفصل فی الکتاب بین الایۃ وما دونھا وھو الصحیح ۲؎ اھ امام محمد نے کتاب میں آیت اورآیت سے کم حصہ میں کوئی تفریق نہ رکھی اوریہی صحیح ہے اھ۔(ت)
(۲؎ شرح الجامع الصغیرللامام قاضی خان)
بخلاف قولِ دوم کہ روایت نوادر ہے۔ رواھا ابن سماعۃ عن الامام رضی اللّٰہ تعالی عنہ کما ذکرہ الزاھدی۔ اسے ابن سماعہ نے حضرت امام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے جیساکہ زاہدی نے ذکر کیا ہے۔ (ت)
ثامنا :قوت دلیل بھی اسی طرف ہے تو اسی پر اعتماد واجب۔
ویظھر ذلک بالکلام علی مااستدلوا بہ للامام الطحاوی فاعلم انہ وجہہ رضی الدین فی محیطہ والامام فخر الاسلام فی شرح الجامع الصغیر بان النظم والمعنی یقصر فیما دون الایۃ ویجری مثلہ فی محاورات الناس وکلامھم فتمکنت فیہ شبھۃ عدم القران ولھذا لاتجوز الصّلٰوۃ بہ ۱؎ اھ
یہ ان دلیلوں پرکلام سے ظاہر ہوگا جن سے اُن مرجحین نے امام طحاوی کی حمایت میں استدلال کیا ہے۔ اب واضح ہوکہ محیط میں رضی الدین نے اور شرح جامع صغیرمیں امام فخرالاسلام نے مذہب امام طحاوی کی توجیہ میں یہ ذکر کیا ہے کہ مادون الآیۃ(جو حصہ ایک آیت سے کم ہے اس) میں نظم ومعنی دونوں میں قصوروکمی ہے۔اوراس طرح کی عبارت لوگوں کی بول چال اور گفتگو میں بھی آتی رہتی ہے تواس میں عدم قرآن کاشبہہ جاگزیں ہو جاتاہے اور اسی لئے اتنے حصہ سے نمازجائز نہیں ہوتی اھ۔(ت)
(۱؎ البحر الرائق بحوالہ المحیط کتاب الطہارۃ،باب الحیض ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۱ /۱۱۹)
اقول اولا :لم فـــ یصل فھمی القاصر الی قصور النظم والمعنی فیما دون الایۃ فبعض ایۃ ربما یکون جملۃ تامۃ مستقلۃ بالافادۃ کقولہ تعالی واصبر۲؎ وایۃ تامۃ لاتکون کذلک کقولہ تعالی اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح o۳؎ ھذا فی المعنی والنظم یتبعہ وان ارید التحدی فلیس الا بنحوا قصر سورۃ لابکل ایۃ ایۃ فابلغ ماوردبہ التحدی قولہ تعالی فاتوا بسورۃ من مثلہ۴؎۔
اقول اولا :مادون الایۃ میں نظم ومعنی کے قصور وکمی تک میرے فہم قاصر کی رسائی نہ ہوسکی۔ اس لئے کہ جزوآیت کبھی پورا جملہ اور افادہ معنٰی میں مستقل ہوتا ہے جیسے باری تعالٰی کاارشاد :واصبر(اورصبرکر)اورکبھی پوری آیت ایسی نہیں ہوتی جیسے ارشاد باری تعالٰی ہے:”جب خدا کی مدد فتح آئے”۔یہ گفتگومعنی سے متعلق ہوئی اور نظم اسی کے تابع ہے۔ اوراگر یہ مراد ہے کہ مادون الاٰیۃ سے مقابلے کا چیلنج نہیں تو چیلنج توصرف سب سے مختصر سورہ کے مثل سے ہے ہر ہر آیت سے نہیں کیوں کہ سب سے زیادہ مبالغہ کے ساتھ جو تحدّی(چیلنج) وارد ہے وہ یہ ارشادِ ربانی ہے:”تواس کے مثل کوئی سورہ لے آؤ”۔
فـــ:تطفل ثالث علی خدام الامام فخرالاسلام وعلی الامام رضی الدین السرخسی۔
(۲؎ القرآن الکریم ۱۱ /۱۱۵ ۳) (؎ القرآن الکریم ۱۱۰ /۱) (
۴؎ القرآن الکریم ۲ /۲۳)
وثانیا:رب فـــ۱ایۃ تامۃ تجری الفاظھا علی الالسنۃ فی محاورات الناس کقولہ تعالی ثم نظر o۱؎ وقول تعالی لم یلد o۲؎ وقولہ تعالی ولم یولد o۳ ؎ علی انھما ایتان وقولہ تعالی مدھامتان o ۴؎۔
ثانیاً : بہت سی پوری آیتیں بھی ایسی ہیں جن کے الفاظ لوگوں کی بول چال میں زبانوں پر آتے رہتے ہیں جیسے ارشادِ باری تعالٰی :”ثم نظر” پھر دیکھا۔اور ارشادِ حق تعالٰی:”لم یلد ” وہ والد نہیں۔ اوراس کا ارشاد: ”ولم یُولد” اور وہ مولود نہیں۔ باوجود یکہ یہ دو آیتیں ہیں۔ اور اس کا ارشاد: ”مدھامّتان”۔
فـــ۱:تطفل رابع علیہ و ثان علی السرخسی۔
(۱؎ القرآن الکریم ۷۴ /۲۱) (۲؎ القرآن الکریم ۱۱۲ /۳)
(۳؎ القرآن الکریم ۱۱۲ /۳) ( ۴؎ القرآن الکریم ۵۵ /۶۴)
وثالثا: جریانہ فـــ۲ فی تحاور الناس انما یورث الشتباہ علی السامع انہ جری علی لسانہ وافق لفظہ نظم القراٰن اوقصد قراء ۃ القراٰن فتتمکن الشبھۃ عند السامع اما ھو فالانسان علی نفسہ بصیرۃ فاذا قصد التلاوۃ فلا معنی للاشتباہ عندہ وانما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئ مانوی ۵؎ والاشتباہ عندالسامع لاینفی مایعلمہ من نفسہ۔
ثالثا: لوگوں کی گفتگو میں اس کے جاری ہونے سے صرف سامع پر اشتباہ ہوتا ہے کہ بولنے والے کی زبان پر وہ عبارت یوں آگئی جس کے الفاظ نظم قرآن کے موافق ہوگئے یا اس نے قرآن پڑھنے کی نیت کی ہے،توسننے والے کے نزدیک شبہہ جاگزیں ہوجاتاہے۔رہا اس عبارت کوادا کرنے والا توانسان اپنے متعلق پوری طرح آشناہوتاہے اگر واقعی اس کی نیت تلاوت کی ہے تو اس کے نزدیک اشتباہ کا کوئی معنی نہیں۔”اور اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اورہرشخص کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی”۔اورسامع کا اشتباہ اُس علم کی نفی نہیں کرسکتا جو قاری کو خود اپنی ذات سے متعلق حاصل ہے۔
فـــ۲:تطفل خامس علیہ و ثالث علی السرخسی۔
(۵؎ صحیح البخاری باب کیف کان بدؤ الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲)
وکانہ لاجل ھذا عدل المحقق علی الاطلاق فی الفتح عن ھذا التقریر واقتصر علی ماحط علیہ کلامھما اخرا وھو عدم جواز الصلاۃ بہ حیث قال وجہہ ان مادون الایۃ لایعد بہ قارئا قال تعالی فاقرؤا ما تیسر من القراٰن کما قال صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم لایقرأ الجنب القراٰن فکما لایعد قارئا بما دون الایۃ حتی لاتصح بھا الصّلوۃ کذا لایعدبھا قارئا فلا یحرم علی الجنب والحائض ۱؎ اھ
شاید اسی لئے محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں اس تقریر سے ہٹ کر صرف اُس پر اکتفا کی جوصاحبِ محیط وامام فخر الاسلام کے آخرکلام میں واقع ہے وہ یہ کہ اس قدرسے نماز نہیں ہوتی۔حضرت محقق لکھتے ہیں: اس کی وجہ یہ ہے کہ مادون الاٰیۃ پڑھنے والے کو قراء ت کرنے والاشمار نہیں کیاجاتا۔باری تعالٰی کا ارشاد ہے:”توقرآن جو میسر آئے پڑھو”۔ جیسے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”جنابت والا قرآن کی قراء ت نہ کرے”۔ توجیسے وہاں مادون الاٰیۃ پڑھنے سے اس کو قراء ت کرنے والا شمار نہیں کیاجاتاکہ اتنے سے نماز درست نہیں ہوتی اسی طرح یہاں بھی اتنے حصے سے اس کوقراء ت کرنے والاشمار نہ کیاجائے گا تو اتنا پڑھنا جنب وحائض پر حرام نہ ہوگا اھ۔
(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ،باب الحیض والاستحاضۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۱۴۸)
وردہ المحقق الحلبی فی الحلیۃ تبعا للامام النسفی فی الکافی باطلاق الحدیث من دون فصل بین قلیل وکثیر قالا وھو تعلیل فی مقابلۃ النص فیرد لان شیا نکرۃ فی موضع النفی فتعم وما دون الایۃ قراٰن فیمتنع کالایۃ ۱؎ اھ وتبعھما البحر ثم ش۔
اسے محقق حلبی نے حلیہ میں کافیِ امام نسفی کی تبعیت میں رَد کردیا کہ حدیث مطلق ہے اس میں قلیل وکثیر کا کوئی فرق نہیں۔یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں:یہ نص کے معاملہ میں تعلیل ہے اس لئے قابل قبول نہیں کیوں کہ حدیث (لایقرأ الجنب والحائض شیئامن القراٰن) میں شیئامقام نفی میں نکرہ ہے اس لئے وہ عام ہوگا اور مادون الاٰیۃ بھی قرآن ہے تو اس کا پڑھنا بھی نا جائز ہوگاجیسے پوری آیت کا پڑھنا اھ۔ اس تردید میں ان دونوں حضرات کی پیروی بحر پھر شامی نے بھی کی ہے۔
(۱؎ البحر الرائق کتاب الطہارۃ،باب الحیض ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۱۹۹)
ورأیتنی علقت علیہ مانصہ۔اقولالمحقق فـــ لایقیس المسألۃ علی المسألۃ بل یرید ان الاحادیث انما حرمت علی الجنب قراء ۃ القران وقد علمنا ان قراء ۃ مادون الایۃ لاتعد قراء ۃ القران شرعا والا لجازت بہ الصلاۃ لان قولہ تعالی فاقرؤا ما تیسر من القراٰن قد فرض القراء ۃ من دون فصل بین قلیل وکثیر مع تاکید الاطلاق بما تیسر وحینئذ لاحجۃ لکم فی اطلاق الاحادیث فافھم اھ۲؎ ۔
میں نے دیکھااس پرمیں نے یہ حاشیہ لکھا: اقول حضرت محقق مسئلہ کا مسئلہ پرقیاس نہیں کررہے ہیں بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ احادیث نے جنب پر قراء تِ قرآن حرام کی ہے اورہمیں معلوم ہے کہ مادون الاٰیۃ(آیت سے کم حصہ)کو پڑھنا،شرعاً قراء تِ قرآن شمار نہیں ہوتا ورنہ اس سے نماز ہوجاتی۔اس لئے کہ ارشادِ باری تعالٰی فاقرؤا ماتیسر من القراٰن (تو قراء ت کرو جو بھی قرآن سے میسر آئے)نے قراء ت فرض کی،جس میں قلیل وکثیر کاکوئی فرق نہیں، ساتھ ہی ماتیسّر(جو بھی میسر آئے) کے اطلاق کی تاکید بھی ہے،جب ایسا ہے تو اطلاقِ احادیث میں بھی تمہارے لئے حجّت نہیں ،تو اسے سمجھو۔
فــ:تطفل علی الحلیۃ والبحر و ش۔
(۲؎ جد الممتار علی رد المحتار کتاب الطہارۃ المجمع الاسلامی مبارکپور ہند ۱ /۱۱۷)
ثم لما قال الدر لوقصد التعلیم ولقن کلمۃ کلمۃ حل فی الاصح ۱؎ وکتب علیہ ش ھذا علی قول الکرخی وعلی قول الطحاوی تعلّم نصف ایۃ نہایۃ وغیرھا ونظر فیہ فی البحر بان الکرخی قال باستواء الایۃ وما دونھا فی المنع واجاب فی النھر بان مرادہ بما دونھما مابہ یسمی قارئا وبالتعلیم کلمۃ کلمۃ لایعد قارئا ۲؎ اھ۔
پھر درمختار کی عبارت ہے: اگر سکھانے کا قصد ہو اور ایک ایک کلمہ بول کر سکھائے توبرقولِ اصح جائز ہے۔ اس پر علامہ شامی نے لکھا:یہ حکم امام کرخی کے قول پر ہے۔اور امام طحاوی کے قول پر نصف آیت سکھائے۔ نہایہ وغیرہا۔اس پر بحرنے یہ کلام کیا کہ امام کرخی کے نزدیک آیت اور مادون الآیۃ یہ دونوں ہی عدمِ جواز میں برابر ہیں۔نہر میں اس کا یہ جواب دیا کہ مادون الآیۃ سے ان کی مراد اس قدر ہے جتنے سے اس کو قراء ت کرنے والا کہاجاسکے اور ایک ایک کلمہ سکھانے سے اس کو قراء ت کرنے والا شمارنہ کیا جائے گا اھ اھ۔
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۳
۲؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۱۶)
کتبت علیہ اقول ھذا فـــ یؤید کلام المحقق فانکم ایضا لم تنظروا ھھنا الی ان الاحادیث لم تفصل بین القلیل والکثیر وانما مفزعکم فیہ الی ان من قرأ کلمۃ لایعد قارئا مع ان تلک الکلمۃ ایضا بعض القران قطعا فکذلک ھم یقولون ان من قرأ مادون الایۃ لایعد قارئا ایضا والا لکان ممتثلا لقولہ تعالی فاقرؤا ماتیسر منہ ولزم جواز الصلاۃ بما دون الایۃ ۱؎ بالمعنی المذکور وھو خلاف مااجمعنا علیہ اھ۔
اس پر میں نے یہ حاشیہ لکھا: اقول اس سے کلام محقق کی تائید ہوتی ہے۔ اسی لئے کہ یہاں آپ حضرات کی نظر بھی اس طر ف نہیں کہ احادیث میں قلیل وکثیر کے درمیان کوئی تفریق نہیں بلکہ یہاں آپ نے صرف اس کا سہارا لیا ہے کہ جس نے ایک کلمہ پڑھااسے قاری شمار نہیں کیاجاتاباوجودیکہ وہ کلمہ بھی قطعاً بعضِ قرآن ہے۔اسی طرح وہ حضرات بھی کہتے ہیں کہ جس نے مادون الآیہ پڑھا اسے بھی قراء ت کرنے والا شمار نہیں کیاجاتاورنہ وہ ارشادِ باری تعالٰی فاقرؤا ماتیسر منہ کی بجاآوری کرنے والا قرار پاتا اور مادون الآیہ بمعنی مذکورسے نماز کا جواز لازم ہوتا۔حالانکہ یہ ہمارے اور آپ کے اجماعی حکم کے برخلاف ہے اھ۔
فـــ:تطفل علی النھر و ش۔
(۱؎جد الممتار علی رد المحتار کتاب الطہارۃ المجمع الاسلامی مبارکپور ہند ۱ /۱۱۸)
ثم لما قال ش بقی ما لوکانت الکلمۃ ایۃ کصۤ وقۤ نقل نوح افندی عن بعضھم انہ ینبغی الجواز اقول وینبغی عدمہ فی مدھا متان تأمل۲؎ اھ۔
پھر علامہ شامی لکھتے ہیں:یہ صورت رہ گئی کہ اگر وہ کلمہ پوری ایک آیت ہوجیسے صۤ اور قۤ توکیا حکم ہے؟علامہ نوح آفندی نے بعض حضرات سے نقل کیاہے کہ جواز ہونا چاہئے۔میں کہتاہوں اور مدھامّتان میں عدمِ جواز چاہئے۔تأمل کرو اھ۔
( ۲؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۱۶)
کتبت علیہ اقول فـــ و وجہہ علی ذلک ظاھر فانہ لایعد بھذا قارئا والا لجازت الصلوۃ بہ وبہ یظھر وجہ مابحث العلامۃ المحشی فی ”مدھامتان”فانہ تجوز بہ الصلاۃ عندالامام علی ما مشی علیہ ملک العلماء فی البدائع والامام الاسبیجابی فی شرح المختصر وشرح الجامع الصغیر من دون حکایۃ خلاف فیہ علی مذھب الامام رضی اللّٰہ تعالی عنہ وکل ذلک یؤید ماقدمنا فی تقریر کلام المحقق اھ ماعلقت علیہ
اس پر میں نے یہ حاشیہ لکھا:اقول اُس قول کی بنیاد پر اس کی وجہ ظاہر ہے کیونکہ وہ اتنی مقدار پڑھنے سے قراء ت کرنے والا شمارنہ ہوگا ورنہ اس سے نماز جائز ہوتی۔اوراسی سے اس کی وجہ ظاہر ہوجاتی ہے جو علامہ شامی نے مدھامّتان میں بحث کی ہے کیوں کہ اس سے حضرت امام کے نزدیک نماز ہوجاتی ہے جیسا کہ اس پر بدائع میں ملک العلماء اور شرح مختصر وشرح جامع صغیر میں امام اسبیجابی گئے ہیں اور مذہب امام رضی اللہ تعالٰی عنہ پر اس میں کسی خلاف کی کوئی حکایت بھی نہیں۔ان سب سے اُس بیان کی تائید ہوتی ہے جو ہم نے کلام محقق علیہ الرحمہ کی تقریر میں پیش کیا اھ میرا حاشیہ ختم ہوا۔
فـــ:معروضۃ اخرٰی علی العلامۃ ش۔
وھذاکلہ کلام معہم علی ماقرروا انا اقول فــ وباللّٰہ التوفیق انما توجہ ھذا علی کلام النھروش لانھما حملا مذھب الکرخی علی مااٰل بہ الی قول الطحاوی فانا اثبتنا عرش التحقیق ان مایعدبہ قارئا لایجوز وفاقا ولو بعض ایۃ وقد شھدبہ کلام اولئک الاعلام الثلٰثۃ الموجھین قول ابی جعفرکماسمعت وھذافخر الاسلام المختارقولہ مصرحابعدم جواز بعض ایۃ طویلۃ یکون کایۃ فان کان ابو الحسن ایضالایمنع الا مایعدبہ قارئا لم یبق الخلاف فالصحیح مانص علیہ فی الحلیۃ وتبعہ البحر ان منع الکرخی مبقی علی صرافۃ ارسالہ ومحوضۃ اطلاقہ بعد ان تکون القرأۃ بقصد القران وقد سمعت نص امیرالمؤمنین المرتضی رضی اللّٰہ تعالی عنہ ولا حرفاواحدا۔
یہ سب ان حضرات کی تقریرات کے مطابق ان کے ساتھ کلام تھا۔اور میں کہتاہوں۔وباللہ التوفیق۔یہ اعتراض نہروشامی کے کلام پرصرف اس لئے متوجہ ہواکہ ان حضرات نے مذہب امام کرخی کو ایسے معنی پر محمول کیا جس سے وہ امام طحاوی کے قول کی طرف راجع ہوگیا۔ہم نے تو قصر تحقیق کی بنیاد اس پر رکھی ہے کہ جتنے سے بھی اسے قرأت کرنے والا شمار کیاجائے اس کا پڑھنابالاتفاق جائز نہیں اگرچہ وہ بعضِ آیت ہی ہو۔اوراس پرامام ابو جعفر طحاوی کے قول کی توجیہ فرمانے والے اُن تینوں بزرگوں(فخر الاسلام، رضی الدین، حضرت محقق)کا کلام بھی شاہد ہے جیسا کہ ہم نے پیش کیا۔ امام طحاوی کاقول اختیار کرنے والے یہ فخر الاسلام ہیں جو اس بات کی تصریح فرمارہے ہیں کہ کسی لمبی آیت کا اتنا حصہ جو ایک آیت کی طرح ہو ،پڑھنا جائز نہیں۔تو اگر امام ابو الحسن کرخی بھی صرف اسی کو ناجائزکہتے ہیں جس سے اس کو قرأت کرنے والاشمار کیا جائے تب توکوئی اختلاف ہی نہیں رہ جاتا۔ توصحیح وہ ہے جس کی تصریح صاحبِ حلیہ نے فرمائی اوربحر نے ان کا اتباع کیا کہ امام کرخی کی ممانعت اپنے خالص اطلاق وعدم تقیید پر باقی ہے اس شرط کے ساتھ کہ قرأت بہ نیتِ قرآن ہو اور امیر المومنین علی المرتضےٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نص سُن چکے کہ بحالتِ جنابت ”ایک حرف بھی” نہ پڑھو۔
فــ:تطفل آخرعلی النھروثالث علی ش
قال فی الحلیۃ المذکور فی النھایۃ وغیرھا اذا حاضت المعلمۃ فینبغی لہا ان تعلم الصبیان کلمۃ کلمۃ وتقطع بین کلمتین علی قول الکرخی وعلی قول الطحاوی تعلم نصف ایۃ انتھی، قال قلت وفی التفریع المذکور علی قول الکرخی نظر فانہ قائل باستوا الایۃ وما دونھا فی المنع اذا کان بقصد القران کما تقدم فھی حینئذعندہ ممنوعۃ من ذکر الکلمۃ بقصدالقران لصدق مادون الایۃ علیھاوھذا اذا لم تکن الکلمۃایۃفان کانت کمد ھامتان فالمنع اظھر فان قلت لعل مراد ھذا القائل التعلیم المذکور بنیۃ غیر قراء ۃ القران قلت ظاھران الکرخی حینئذ لیس بمشترط ان یکون ذلک کلمۃ بل یجیزہ ولواکثر من نصف ایۃ بعد ان لایکون ایۃ نعم لعل التقیید بالکلمۃ لکونہ الغالب فی التعلیم اولان الضرورۃ تندفع فلا حاجۃ الی فتح باب المزید علیہ ۱؎ اھ ۔
حلیہ میں کہا: نہایہ وغیرہا میں مذکور ہے کہ جب معلّمہ حائض ہو تو اسے چاہئے کہ بچوں کو ایک ایک کلمہ سکھائے اور دوکلموں کے درمیان فصل کردے،یہ حکم امام کرخی کے قول پر ہے۔اورامام طحاوی کے قول پر یہ ہے کہ نصف آیت سکھائے ،انتہی۔صاحبِ حلیہ لکھتے ہیں:میں کہتاہوں امام کرخی کے قول پر تفریع مذکور محلِ نظر ہے اس لئے کہ وہ اس کے قائل ہیں کہ آیت اورمادون الآیہ دونوں ہی کو بقصدِ قرآن پڑھنامنع ہے جیساکہ گزرا ، توان کے نزدیک حائضہ کو بہ قصدِ قرآن ایک کلمہ بھی زبان پرلانے سے ممانعت ہوگی اس لئے کہ مادون الآیہ اس پر بھی صادق ہے۔ یہ گفتگو اس صورت میں ہے جب کہ ایک کلمہ کامل آیت نہ ہو،اگرایسا ہوجیسے مدھامّتان oتو ممانعت اور زیادہ ظاہر ہے۔ اگر یہ سوال ہو کہ شاید اس قائل کی مراد یہ ہوکہ تعلیم مذکور قرأت قرآن کے علاوہ کسی اورنیت سے ہو۔تومیں کہوں گا ظاہرہے کہ ایسی صورت میں امام کرخی ایک کلمہ ہونے کی شرط نہیں رکھتے بلکہ اسے جائز کہتے ہیں اگرچہ نصف آیت سے زیادہ ہو،اس کے بعدکی پوری آیت نہ ہو۔ہاںایک ایک کلمہ کی قید شاید اس لئے ہو کہ سکھانے میں عموماًیہی ہوتاہے یا اس لئے کہ اتنے سے ضرورت پوری ہوجاتی ہے تو اس سے زیادہ کا دروازہ کھولنے کی حاجت نہیں اھ۔
(۱؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول: ولہ فــــ ملمح ثالث مثل الاول اوحسن وھو ان المرکب من کلمتین ربما لاتجد فیہ نیۃ غیرالقران کقولہ تعالی انا اللّٰہ ۲؎ وقولہ تعالی فاعبدنی۳؎ وقولہ تعالی عصٰی ادم ۴؎ فان من قالہ فی غیر التلاوۃ فقد غوٰی بخلاف المفردات القرانیۃ فلیس شیئ منھا بحیث یتعین للقرانیۃ ولا یصلح الدخول فی مجاری المحاورات الانسانیۃ فذکرماھو اعم واکفی ولا یحتاج الی ادراک المعنی ولا غائلۃ فیہ اصلا حتی للجہال لاسیما النساء المخدرات فی الجھال ۔
اقول: اس کی ایک تیسری صورت بھی ہے جو اول کے مثل یا اس سے بھی خوب ترہے۔ وہ یہ کہ دو کلموں کے مرکب میں بارہاایسا ہوگا کہ غیر قرآن کی نیت ہی نہ ہو پائے گی جیسے ارشادِ باری تعالٰی: اَناَ اللہ(میں خدا ہوں) اور یہ ارشاد:فاعبد نی(تومیری عبادت کر) اوریہ فرمان: عصی اٰدم،کہ غیر تلاوت میں جو اس طرح کہے گمراہ ہوجائے،اور قرآنی مفردات میں سے کوئی ایسا نہیں کہ اس کا قرآن ہونا ہی متعین ہواور انسانی بول چال کے مقامات میں آنے کے قابل نہ ہوتووہ ذکرکیا جو زیادہ عام اور زیادہ کافی ہواور جس میں ادراک معنی کی حاجت نہ ہو اوراس میں کوئی خرابی نہیں یہاں تک کہ جُہّال خصوصاً پردہ نشین عورتوں کے لئے بھی۔
(عــہ ) ذکرتہ مما شاۃ وسیاتی ان الوجہ عندی الثانی اھ منہ
میری یہ روش ہم قدمی کے طورپرہے ورنہ آگے ذکرہوگاکہ میرے نزدیک باوجہ ثا نی ہے۱۲منہ(ت)
(۲؎القرآن الکریم ۲۸/ ۳۰) (۳؎القرآن الکریم ۲۰/ ۱۴)
(۴؎القرآن الکریم ۲۰/ ۱۲۱)
وھذا(ای افادہ فی الحلیۃ۱۲) کما تری کلام حسن من الحسن بمکان غیر انی اقول لاوجہ فــ لقولہ بعد ان لایکون ایۃ فان ماکان بنیۃ غیر القرآن لایتقید بما دون اٰیۃ کما تقدم وکل من ایۃ وما دونھما قد یصلح لنیۃ غیرہ وقدلا کایۃ الکرسی والابعاض التی تلونا فما صلح صح ولو ایۃ وما لافلا ولو دونھا۔
صاحبِ حلیہ نے جو افادہ کیا بہت عمدہ وباوقعت کلام ہے مگر یہ کہ میں کہتا ہوں ”اس کے بعد کہ پوری آیت نہ ہو” یہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لئے کہ جو غیر قرآن کی نیت سے ہو اس میں یہ قید نہیں کہ ایک آیت سے کم ہو،اور آیت ومادون الاٰیۃ ہر ایک کبھی غیر قرآن کی نیت کے قابل ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا، جیسے آیۃ الکرسی، اور وہ بعض ٹکڑے جو ہم نے تلاوت کئے۔ تو جو غیر قرآن کی نیت کے قابل ہوجائے اس کا پڑھنا صحیح ہے اگرچہ ایک آیت ہو اور جوایسانہ ہو اسے پڑھنا درست نہیں اگرچہ ایک آیت سے کم ہو۔
فــ:تطفل علی الحلیۃ۔
وما بحث فی الفاتحۃ وعدم تغیرھا بنیۃ الثناء والدعاء ان الخصوصیۃ القرانیۃ لازمۃ لہا قطعا کیف لاوھو معجزیقع بہ التحدی فلا یجری فی کل ایۃ کما لایخفی فلا ادری ما الحامل لہ علی التقیید بھا مع انہ ھو الناقل فـــ۱عن الخلاصۃ معتمدا علیہ جواز مثل ثم نظر ولم یولد ثم بحثہ فی مثل الفاتحۃ وان کان لہ تماسک فما کان لبحث ان یقضی علی النص۔
اور صاحبِ حلیہ نے سورہ فاتحہ سے متعلق جو بحث کی ہے اور کہا ہے کہ ثنا ودُعا کی نیت سے اس میں تغیر نہیں ہوتا اس لئے کہ خصوصیت قرآنیہ اسے قطعاً لازم ہے۔کیوں کہ نہ ہو جب کہ یہ وہ قدر مُعجز ہے جس سے تحدی واقع ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بحث ہر آیت میں جاری نہیں ہوتی تو پتہ نہیں کہ آیت کی قید لگانے پر ان کے لئے باعث کیا ہے(یعنی ان کے اس قول میں: اس کے بعد کہ پوری آیت نہ ہو) باجودیکہ خلاصہ سے انہوں نے اعتماد کے ساتھ خود ہی نقل کیا ہے کہ ثم نظر اورلم یولد کے مثل میں جواز ہے۔پھر سورہ فاتحہ کے مثل میں ان کی بحث کواگر کچھ سہارا بھی مل جائے تو بھی کوئی بحث ، نص کے خلاف فیصلہ نہیں کرسکتی۔
فـــ۱:تطفل آخرعلیہا۔
ثم ماذکرہ فــ۲ھھنا سؤالا وتر جیا ان مراد الکرخی فی التعلیم مااذا نوی غیر القران قدجزم بہ من قبل قائلا ینبغی ان یشترط فیہ (ای فی التعلیم) ایضا عدم نیۃ القران لما سنذکرہ عن قریب معنی واثرا ۱؎ اھ وقال عند قول الماتن لایکرہ التھجی بالقران والتعلیم للصبیان حرفا حرفا ھذا فیما یظھر اذا لم ینوبہ القران اما اذا نواہ بہ فانہ یکرہ ۲؎ اھ۔
پھر یہاں سوال اورشاید کے طورپر جوبات ذکر کی ہے کہ”تعلیم میں امام کرخی کی مراد غیر قرآن کا قصد ہونے کی صورت میں ہے” اس کو اس سے پہلے بطورجزم بیان کیا ہے اورکہا ہے کہ تعلیم میں بھی نیتِ قرآن نہ ہوناچاہئے اس کی وجہ ہم معنٰی واثر کے لحاظ سے آگے بیان کریں گے اھ۔ ماتن کی عبارت تھی:”قرآن کی تہجی اور بچوں کوایک ایک حرف سکھانا مکروہ نہیں”اس پر حلیہ میں لکھا: بظاہر یہ حکم اسی صورت میںہے جب نیتِ قرآن نہ ہو اور اگر اس سے قرآن کی نیت ہو تومکروہ ہے اھ۔
فــ:مسئلہ تعلیم کی نیت سے قرآن مجیدقرآن ہی رہے گاصرف اتنی نیت جنب وحائض کوکافی نہیں ۔
(۱؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃالمصلی
۲ حلیۃالمحلی شرح منیۃالمصلی)
اقول وھذا ھو الحق الناصع فمجرد نیۃ التعلیم غیر مغیر فما تعلیم شیئ الاالقاؤہ علی غیرہ لیحصل لہ العلم بہ فاذا قرأ ونوی تعلیم القراٰن فقد اراد قراء ۃ القران لیلقیہ ویلقنہ فنیۃ التعلیم لایغیرہ بل یقررہ فما وقع فـــ۱فی الدرالمختار من عدہ نیۃ التعلیم فی نیات غیر القراٰن لیس فی محلہ فلیتنبہ۔