طہارت RAZ, فتاوی رضویہ

مسئلہ نمبر 21

مسئلہ ۲۱: ازپیلی بھیت محلہ پنجابیاں مرسلہ شیخ عبدالعزیز صاحب ۱۳۰۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اِن مسائل میں اول یہ کہ سوا مصحف خاص کے کہ جس کے چھُونے کی جنب اور محدِث کے حق میں شریعت سے ممانعت صریح واقع ہوئی ہے بعض مصاحف اس قسم کے رائج ہوئے ہیں کہ اُن میں علاوہ نظم قرآن شریف کے دیگر مضامین بھی شامل ہوتے ہیں چنانچہ بعض قسم اُس کی مترجم ہیں کہ مابین السطور ترجمہ فارسی یا اردو کا ہوتا ہے اور بعض مترجم کے حواشی پر کچھ کچھ فوائد بھی متعلق ترجمہ کے ثبت ہوتے ہیں بلکہ بعض میں فوائد متعلق قراء ت اور رسم خط وغیرہ بھی درج ہوتے ہیں اور بعض اقسام مترجم کے حاشیوں پر کوئی کوئی تفسیر بھی چڑھی ہوتی ہے بعض پر عربی مثل جلالین وغیرہ کے اور بعض میں فارسی اور اردو مثل حسینی وغیرہ کے چڑھاتے ہیں علی ہذا القیاس اس قسم کے مصاحف کے مس کرنے کا حکم بحق جنب اور محدث کے حرام ہے یا مکروہ اور در صورت کراہت تحریمی ہوگی یا تنزیہی یا جائز بلا کراہت ہے بینوا توجروا۔

الجواب
محدث کو مصحف چھونا مطلقاً حرام ہے خواہ اُس میں صرف نظم قرآن عظیم مکتوب ہو یا اُس کے ساتھ ترجمہ وتفسیر ورسم خط وغیرہا بھی کہ ان کے لکھنے سے نامِ مصحف زائل نہ ہوگا آخر اُسے قرآن مجید ہی کہا جائے گا ترجمہ یا تفسیر یا اور کوئی نام نہ رکھا جائےگا یہ زوائد قرآن عظیم کے توابع ہیں اور مصحف شریف سے جُدا نہیں ولہٰذافـــ۱ حاشیہ مصحف کی بیاض سادہ کو چھُونا بھی ناجائز ہوا بلکہ پٹھوں کو بھی بلکہ چولی پر سے بھی بلکہ ترجمہ کا چھونافـــ۲ خود ہی ممنوع ہے اگرچہ قرآن مجید سے جُدا لکھا ہو ہندیہ میں ہے: منھا حرمۃ مس المصحف لا یجوز لہما وللجنب والمحدث مس المصحف الا بغلاف متجاف عنہ کالخریطۃ والجلد الغیر المشرز لابما ھو متصل بہ ھو الصحیح ھکذا فی الھدایۃ وعلیہ الفتوی کذا فی الجوھرۃ النیرۃ والصحیح منع مس حواشی المصحف والبیاض الذی لاکتابۃ علیہ ھکذا فی التبیین ۱؎۔ ان ہی امور میں سے مصحف چھونے کی حرمت بھی ہے۔ حیض ونفاس والی کے لئے ،جنب کے لئے ،اوربے وضو کے لئے مصحف چھونا جائز نہیں۔مگر ایسے غلاف کے ساتھ جو اس سے الگ ہوجیسے جزدان اوروہ جلد جو مصحف کے ساتھ لگی ہوئی نہ ہو، اس غلاف کے ساتھ چھُونا جائز نہیں جو مصحف سے جُڑا ہوا ہو یہی صحیح ہے، ایسا ہی ہدایہ میں ہے، اسی پر فتوٰی ہے اسی طرح جوہرہ نیرہ میں ہے ۔اور صحیح ہے کہ مصحف کے کناروں اوراس بیاض کو بھی چھونا منع ہے جس پر کتابت نہیں ہے۔ایسا ہی تبیین میں ہے۔(ت)

فـــ۱:مسئلہ بے وضو آیت کو چھونا تو خود ہی حرام ہے اگرچہ آیت کسی اور کتاب میں لکھی ہو مگر قرآن مجید کے سادہ حاشیہ بلکہ پٹھوں بلکہ چولی کا بھی چھونا حرام ہے ہاں جزدان میں ہو تو جزدان کو ہاتھ لگاسکتاہے۔
فـــ۲:مسئلہ قرآن مجید کا خالی ترجمہ اگر جدا لکھا ہو اسے بھی بے وضو چھونا منع ہے۔

(۱؎ الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ،الباب السادس،الفصل الرابع نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۳۸ و ۳۹)

اُسی میں ہے: لوکان القراٰن مکتوبا بالفارسیۃ یکرہ لھم مسہ عند ابی حنیفۃ وھکذا عندھما علی الصحیح ھکذا فی الخلاصۃ۱؎۔

اگر قرآن فارسی میں لکھا ہوا ہو تومذکورہ افراد کے لئے امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کا چھونا مکروہ ہے اور صحیح یہ ہے کہ صاحبین کے نزدیک بھی ایسا ہی ہے۔ اسی طرح خلاصہ میں ہے۔(ت)

(۱؎ الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ،الباب السادس،الفصل الرابع نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۳۹)

درمختار میں ہے: ولو مکتوبا بالفار سیۃ فی الاصح الا بغلافہ المنفصل۲؎۔ اصح یہ ہے کہ فارسی میں قرآن لکھا ہوتوبھی چھونا جائز نہیں مگر ایسے غلاف کے ساتھ جو مصحف سے الگ ہو۔ (ت)

(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ،باب الحیض مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۵۱)

ردالمحتار میں ہے: دون المتصل کالجلد المشرز ھو الصحیح وعلیہ الفتوی لان الجلد تبع لہ سراج ۳؎۔ اس غلاف کے ساتھ نہیں جو مصحف سے ملا ہوا ہو جیسے اس کے ساتھ جُڑی ہوئی جلد،یہی صحیح ہے، اوراسی پر فتوٰی ہے اس لئے کہ جلد تابع ہے۔ سراج۔(ت)

(۳؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ،باب الحیض دار احیاء التراث العربی ۱ /۱۹۵)

اُسی فـــ میں ہے: فی السراج عن الایضاح ان کتب التفسیر لایجوز مس موضع القراٰن منہا ولہ ان یمس غیرہ وکذا کتب الفقہ اذا کان فیہا شیئ من القراٰن بخلاف المصحف فان الکل فیہ تبع للقراٰن۱؎ اھ واللّٰہ سبحٰنہ وتعالی اعلم۔

سراج میں ایضاح کے حوالے سے ہے کہ کتب تفسیر میں جہاں قرآن لکھا ہوا ہے اس جگہ کو چھونا جائز نہیں، اور وہ دوسری جگہ کوچھوسکتاہے۔ یہی حکم کتب فقہ کاہے جب ان میں قرآن سے کچھ لکھا ہوا ہو، بخلاف مصحف کے کہ اس میں سب قرآن کے تابع ہیں اھ۔واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔(ت)

فـــ:مسئلہ کتب تفسیر و حدیث و فقہ میں جہاں آیت لکھی ہو خاص اس جگہ بے وضو ہاتھ لگانا حرام ہے باقی عبارت میں افضل یہ ہے کہ باوضو ہو۔

(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ،قبیل باب المیاہ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۱۸ و ۱۱۹)