تجوید و قرات raz, فتاوی رضویہ

قالا الحمد کا الف پڑھا جائے گا یا نہیں

مسئلہ ۲۱ : از دھرم پور ضلع بلند شہر مرسلہ سید پرورش علی صاحب ۸شعبان ۱۳۲۳ھ
چہ می فرمایند عالمان کتاب مبین کہ الف ذاقا، واستبقاالباب اوردعوااللہ اورقالا الحمد خواندہ شود یانہ ؟ بینوا توجروا۔

کتا ب مبین کے علماء کیافرماتے ہیں کہ ذاقا، واستبقاالباب ،دعوااللہ اورقالا الحمد کا الف پڑھا جائے گا یا نہیں ؟بیان فرمایئے اجر دئے جاؤگے ۔(ت)

الجواب : درسجاوندی ایں چہار فتحہ رابقدر خفیف کہ تا الف تام نہ رسد اشباع فرمودہ است، سجاوندی کتاب معتبر ست ودر دیگر کتب از تصریح بداں نیست خلافش نیز نیست وجہش مواجہ است کہ تمیز تثنیہ از مفرد است پس عمل بداں محذورے ندارد ونظیرش فصل خفیف درقال اللہ تعالٰی علٰی ما نقول وکیل۱؂ وقال النار مثوکم۲؂ وامثالھا است تامبتداء بفاعل ملتبس نہ شود ۔ واللہ تعالٰی اعلم

سجاوندی میں ان چار فتحوں میں ہلکا سا اشباع فرمایا گیا ہے تاکہ الف تام کی حد تک نہ پہنچے ، سجاوندی معتبر کتاب ہے ۔ دوسری کتابوں میں اگرچہ اس کی تصریح نہیں ہے مگر مخالفت بھی نہیں ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے تثنیہ مفرد سے ممتاز ہوجائے گا ۔ لہذا اس پر عمل کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔اس کی نظیر اللہ تعالٰی کے ارشاد علی مانقول وکیل وقال النار مثوٰکم اوراس جیسی دیگر مثالوں میں ہلکا سافصل ہے تاکہ مبتداء کا فاعل کے ساتھ التباس لازم نہ آئے ، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

(۱؂ القرآن الکریم ۲۸ /۲۸)
(۲؂ القرآن الکریم ۶ /۱۲۸)

فتاوی رضویہ