مسئلہ۲ ف: از بلگرام ضلع ہردو ئی محلہ میدان پورہ مرسلہ حضرت سید ابراہیم صاحب از صاحبزادگان مار ہر ہ شریف ۸جمادی الاولی۱۳۱۱ ھ
ف :مسئلہ مسواک کا طول بالشت بھر سے زیادہ نہ چاہئے ۔
ماقولکم دام فضلکم (آپ کی فضلیت قائم ودائم رہے آپ کیا فرماتے ہیں ۔ت) کہ مسواک کتنی طول میں ہونا چاہئے ؟ ”سنا ہے کہ غایۃ السواک فی مسائل المسواک ” مولفہ مولوی وحافظ شوکت علی سندیلی میں بیان ہے کہ اگر بالشت بھر سے زائد مسواک ہے تو وہ مرکب شیطان (شیطان کی سواری ۔ت )ہے ، امید کہ اس کی سند لکھی جائے ، بینوا تو جروا (بیان فرمائیے آپ کو اجر وثواب دیا جائے گا ۔ ت)
الجواب :یہ قول امام عارف باللہ حکیم الامہ سیدی محمد بن علی ترمذی قد س سر ہ سے منقول ہے ، درمختار میں ہے ۔ لایزاد علی الشبر والا فالشیطان یرکب علیہ۱؎ (مسواک ایک بالشت سے زیادہ نہ ہو ورنہ اس پر شیطان بیٹھتا ہے ۔ت)
(۱؎ الدر المختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۱)
حاشیہ طحطاویہ علٰی مراقی الفلاح میں ہے : یکون طول شبرعــــــہ مستعملہ لان الزائد یرکب علیہ الشیطان۱؎ مسواک جو استعمال کرنے والاہے اس کی بالشت بھرہونی چاہئے اس لئے کہ جو زیادہ ہو اس پر شیطان بیٹھتا ہے ۔(ت)
(۱؎ حاشیۃ طحطاوی علی مراقی الفلاح،کتاب الطہارۃ ،فصل فی سنن الوضوء، دار الکتب العلمیہ بیروت۱ /۴۰)
عـــہ ھل المراد شبر المستعمل اوالوسط تر دد فیہ ط فی حاشیۃ الدرر وقال یحرر۳؎ اھ وقال ش الظاھر الثانی لانہ محمل الاطلاق غالبا۴؎ اھ
استعمال کرنے والے کی بالشت مراد ہے یا متوسط بالشت ؟ اس بارے میں سید طحطاوی نے حاشیہ درمختار میں تر د د ظاہر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی تنقیح کی ضرورت ہے اھ اور علامہ شامی نے کہا ہے کہ ظاہر ، ثانی ہے اس لئے کہ مطلق بولنے کے وقت عموما وہی مراد ہوتا ہے اھ ۔
(۳؎ حاشیہ طحطاوی علی الدر المختار کتاب الطہارۃ مکتبہ العربیہ کوئٹہ ۱ /۷۰)
(۴؎ردالمحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۷۸)
اقول نقل العلامۃ نفسہ فی حاشیہ المراقی ھذا الذی نراہ لکنہ نسبہ الی بعضہم فان کان ذالک البعض ممن یعتمد علی قولہ فہذا نص فی الباب والافالظاھر مع ش واللہ تعالی اعلم ۱۲منہ دام فیضہ ۔
اقول خود علامہ طحطاوی نے مراقی الفلاح کے حاشیہ میں یہ عبارت نقل کی ہے جو پیش نظر ہے لیکن اسے ” بعض” کی طرف منسوب کیا ہے اور ” بعض ” اگر کوئی ایسی شخصیت ہے جس کے قول پر اعتماد کیا جاتا ہے جب تو یہ اس باب میں نص ہے ورنہ ظاہر علامہ شامی کے ساتھ ہے ، اور خدائے بزرگ و بر تر ہی کو خوب علم ہے ۱۲منہ فیضہ ( ت)
شرح نقایہ علامہ قہستانی میں ہے : قال الحکیم الترمذی لایزاد علی الشبر والا فالشیطان رکب علیہ ۲؎ (حکیم ترمذی نے فرمایا:مسواک ایک بالشت سے زیادہ نہ کی جائے ورنہ اس پر شیطان بیٹھتا ہے)
(۲؎ جامع الرموز کتاب الطہارۃ مکتبہ اسلامیہ گنبدقابوس ایران ۱ /۲۹)
اقول۴۴ شک نہیں ف کہ ظاہر حقیقت ہے جب تک کوئی صارف نہ ہو ولا مانع منھا فالشیطان موجود ورکوبہ ممکن واللّٰہ اعلم بحقیقۃ الحال ۔
(اوراس سے کوئی مانع نہیں اس لئے کہ شیطان موجود ہے اور اس کا بیٹھنا ممکن ہے اور حقیقت حال خدا ہی خوب جانتا ہے ۔ت )
(ف:معروضۃ علی العلامۃ ط۔)
اگر چہ علامہ طحطاوی نے حاشیہ در میں فرمایا : لعل المراد من ذلک انہ ینسیہ استعمالہ اویوسوس لہ اھ ۱؎ شاید اس سے مرادیہ ہے کہ وہ اسے استعمال کرنا بھلادیتا ہے یا اسے وسوسہ میں مبتلا کرتا ہے اھ ۔
( ۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الطہارۃ مکتبۃ العربیۃ کوئٹہ ۱ /۷۰)
اقول ۴۵ظاھرہ فــــــ انہ فھم رجوع ضمیر علیہ الی المستاک وانما ھو الی السواک کما یفصح عنہ مانقل ھو نفسہ فی حاشیۃ المراقی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
اقول ۔ اس عبارت سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ ”علیہ ”(اس پر ) کی ضمیر کا مرجع انہوں نے مسواک کرنے والے کو سمجھاہے حالانکہ وہ ضمیر مسواک کی طر ف لوٹ رہی ہے جیسا کہ حاشیہ مراقی کی وہ عبارت اسے صاف بتارہی ہے جو انہوں نے خود نقل کی ہے ۔ اور خدائے بر تر ہی کو خوب علم ہے ۔ ت)
فــــ: معروضۃ ۲۷ اخری علیہ