مسئلہ۱۶: ۷ ربیع الآخر شریف ۱۳۲۰ ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ کوئی شخص سوتے سے جاگا اور تری کپڑے یا بدن پر پائی یا خواب دیکھا اور تری نہ پائی تو اس پر نہانا واجب ہوا یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للّٰہ ھادی الاحلام بانزال الاحکام والصلوۃ والسلام علی سیدالمعصومین عن الاحتلام واٰلہ الکرام وصحبہ العظام الی یوم یبل فیہ وارد وحوضہ ببل الاکرام اٰمین۔
یہ مسئلہ کثیر الوقوع ہے اور ہر شخص کو اس کی ضرورت اور کتابوں میں اختلاف بکثرت لہٰذا ضرور ہے کہ فقیر بعون القدیر اُس کی ضروری توضیح وتشریح اور مذہب معتمدو مختار کی تنقیح کرے۔
فاقول وباللہ التوفیق(تومیں اللہ تعالی کی توفیق سے کہتاہوں۔) یہاں چھ صورتیں ہیں:
اوّل : تری کپڑے یا بدن کسی پر نہ دیکھی۔
دوم: دیکھی اور یقین ہے کہ یہ منی یا مذی نہیں بلکہ ودی یا بول یا پسینہ یا کچھ اور ہے ان دونوں صورتوں میں مطلقاً اجماعاً غسل اصلا نہیں اگرچہ خواب میں مجامعت اور اس کی لذت اور انزال تک یاد ہو۔
غنیہ میں ہے: تذکر الاحتلام ولم یربللا لاغسل علیہ اجماعا ۱؎۔
کسی کو خواب دیکھنا یاد آیا اور تری نہ پائی تو بالاجماع ا س پر غسل نہیں۔( ت)
(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی طہارۃ الکبرٰی سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۳)
درمختار میں ہے: لاان تذکر ولو مع اللذۃ والا نزال ولم یربلا اجماعا ۲؎۔
بالاجماع غسل نہیں ہے اس صورت میں جب کہ خواب یاد آیا اگرچہ لذت اور انزال بھی یاد ہو مگر تری نہ پائی۔ (ت)
(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۱)
ردالمحتار میں ہے: لایجب اتفاقا فیما اذا علم انہ ودی مطلقا ۳؎۔
بالاتفاق مطلقًا غسل واجب نہیں اس صورت میں جب کہ اسے تری کے ودی ہونے کا یقین ہو۔( ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ موجبات الغسل داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/۱۱۰)
جامع الرموز میں ہے: احترز بقولہ المنی والمذی عن الودی فانہ غیر موجب عندھم وان تذکر الاحتلام کما فی الحقائق ۴؎۔
لفظ منی و مذی لکھ کر ودی سے احتراز کیا ہے اس لئے کہ ان ائمہ کے نزدیک اس سے غسل واجب نہیں ہوتا اگرچہ خواب دیکھنا یاد ہو۔جیسا کہ حقائق میں ہے ۔(ت)
(۴؎ جامع الرموز کتاب الطہارۃ بیان الغسل مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران ۱ /۴۴)
سوم : ثابت ہو کہ یہ تری منی ہے اس میں بالاتفاق نہانا واجب ہے اگرچہ خواب وغیرہ اصلا یاد نہ ہو۔
فی ردالمحتاریجب الغسل اتفاقا اذاعلم انہ منی مطلقا ۱؎۔
ردالمحتار میں ہے:بالاتفاق غسل واجب ہے مطلقًا جب یقین ہو کہ یہ تری منی ہے۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ موجبات الغسل داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۱۰)
اسی طرح عامہ کتب میں اس پر اجماع منقول، لکن فی شرح النقایۃ للقہستانی کان الفقیہ ابو جعفر یقول ھذا عند ابی حنیفۃ ومحمد رحمھما اللّٰہ تعالٰی واما عند ابی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالٰی فلا غسل علیہ اذا لم یتذکرالاحتلام کذا فی شرح الطحاوی ۲؎ اھ
لیکن علامہ قہستانی کی شرح نقایہ میں ہے: فقیہ ابو جعفر فرماتے تھے کہ یہ امام ابو حنیفہ و امام محمد رحمہما اﷲ تعالٰی کے نزدیک ہے، امام ابو یوسف رحمہ اﷲ تعالٰی کے نزدیک خواب یاد نہ آنے کی صورت میں اس پر غسل نہیں۔ایسا ہی شرح طحاوی میں ہے اھ ۔(ت)
(۲؎ جامع الرموز کتاب الطہارۃ بیان الغسل مکتبہ اسلامیہ گنبدقاموس ایران ۱/ ۴۳)
اقول:لعل وجہہ واللّٰہ تعالٰی اعلم ان نزول المنی لایوجب الغسل مطلقا بل اذا نزل عن شھوۃ دفقا فاذا نذکر الاحتلام ثم راٰہ علم انہ نزل عن شھوۃ واذالم یتذکر احتمل ان یکون نزل ھکذا من دون شھوۃ فلا یجب الغسل بالشک والجواب ان بالنوم تتوجہ الحرارۃ الی الباطن ولھذا یحصل الانتشار غالبا فالسبب مظنون والاحتمال الخلاف اعنی الخروج بلاشھوۃ نادر فلا یعتبر۔
اقول:شاید اس کی وجہ – واﷲ تعالٰی اعلم – یہ ہے کہ مطلقاًمنی نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا بلکہ اس وقت جب کہ جست کے طور پر شہوت سے نکلے تو جب خواب دیکھنا یاد ہو پھر منی بھی دیکھے تو یقین ہوگا کہ شہوت سے ہی نکلی ہے اور جب احتلام یاد نہ ہو تو احتمال ہوگا کہ شاید یونہی بغیر شہوت کے نکل آئی ہے اس لئے شک سے غسل واجب نہ ہوگا-جواب یہ ہے کہ نیند سے حرارت جانبِ باطن کا رخ کرتی ہے اسی لئے عمومًا انتشارآلہ ہوتا ہے یہ سب غلبہ ظن کا حامل ہے اس کے خلاف کا احتمال یعنی بلا شہوت نکل آنا نادر ہے اس لئے قابل اعتبار نہیں۔( ت)
شرح نقایہ برجندی میں ہے: قد ظھر انہ لاخلاف فی رؤیۃ المنی حیث یجب الغسل اجماعا ونقل فی شرح الطحاوی عن الفقیہ ابی جعفر ان رؤیۃ المنی ایضا علی ھذا الاختلاف والمشھور ھو الاول ۱؎ اھ۔
واضح ہوگیاکہ منی دیکھنے کی صورت میں کوئی اختلاف نہیں بالا جماع غسل واجب ہے-اورشرح طحاوی میں فقیہ ابو جعفر سے منقول ہے کہ یہ اختلاف منی دیکھنے کی صورت میں بھی ہے-اور مشہور اول ہی ہے۔اھ۔
(۱؎ شرح نقایۃ برجندی کتاب الطہارۃ نولکشور لکھنؤ بالسرور ۱ /۳۰)
اب رہیں تین صورتیں اُس تری (۴) کے منی ہونے کا احتمال ہو مذی(۵) ہونے کا علم ہو منی(۶) نہ ہونا تو معلوم مگر مذی ہونے کا احتمال ہو۔پس اگر خواب میں احتلام ہونا یاد ہے تو ان تینوں صورتوں میں بھی بالاتفاق نہانا واجب ہے۔
فی رد المحتار یجب اتفاقا اذا علم انہ مذی اوشک مع تذکر الاحتلام۲؎ اھ مختصر۔
رد المحتارمیں ہے: بالا تفاق غسل واجب ہے جب خواب یاد ہونے کے ساتھ اس بات کا یقین یا احتمال ہوکہ یہ تری مذی ہے اھ مختصراً۔
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۱۰)
اقول:وقد تظافرت الکتب علی ھذا متونا وشروحا وفتاوی فلا نظر الی ما فی الحلیۃ عن المصفی عن المختلفات”انہ اذا تیقن بالاحتلام وتیقن انہ مذی فانہ لایجب الغسل عندھم جمیعا۳؎ ”
اقول:اس حکم پر متون، شروح ،فتاوٰی تینوں درجے کی کتابیں متفق ہیں- تو وہ قابل تو جہ نہیں جو حلیہ میں مصفٰی سے اس میں مختلفات سے منقول ہے کہ : ”جب احتلام کا یقین ہو اور یہ بھی یقین ہو کہ یہ تری مذی ہے تو ان تینوں ائمہ کے نزدیک غسل واجب نہیں۔”
(۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
و رأیتنی کتبت علی ھامش نسختی الحلیۃ ھھنا مانصہ”عامۃ المعتبرات علی نقل الاجماع فی ھذہ الصورۃ علی وجوب الغسل،و فی بعضھا جعلوھا خلافیۃ بین ابی یوسف وصاحبیہ اماحکایۃ الاجماع فیھا علی عدم الوجوب فمخالفۃ لجمیع المعتبرات ولقد کدت ان اقول ان لاوقعت زائدۃ من قلم الناسخین لولا انی رأیت فی جامع الرموز مانصہ لو تیقن بالمذی لم یجب تذکر الاحتلام ام لا و ھذا عندھم علی ما فی المصفی عن المختلفات لکن فی المحیط وغیرہ انہ واجب حینئذ ۱؎ اھ” ماکتبت علیہ۔
میں نے اپنے نسخہ حلیہ پر یہاں دیکھا کہ میں نے حاشیہ لکھا ہے: عامہ کتب معتبرہ نے اس صورت میں وجوب غسل پر اجماع نقل کیا ہے- بعض کتابوں کے اندر اس صورت میں امام ابو یوسف اور طرفین کا اختلاف بتایا ہے-لیکن یہ حکایت کہ اس صورت میں عدم وجوب پر تینوں ائمہ کا اجماع ہے یہ تمام معتبر کتابوں کے خلاف ہے ۔ میں تو یہ کہہ دیتا کہ لفظ ”لا”( نہیں )-ناقلوں کے قلم سے زیادہ ہوگیا ہے لیکن جامع الرموز میں بھی دیکھا کہ یہ لکھا ہوا ہے: اگر مذی ہونے کا یقین ہو تو غسل واجب نہیں ،احتلام یاد ہو یا نہ ہو، اور یہ تینوں ائمہ کے نزدیک ہے اس کے مطابق جو مصفی میں مختلفات سے نقل ہے۔ لیکن محیط وغیرہ میں ہے کہ اس صورت میں غسل واجب ہے اھ”حلیہ پر میرا حاشیہ ختم ہوا۔
(۱؎ حواشی امام احمد رضا علی حلیۃ المحلی)
وانا الان عــہ ایضا لا استبعد ان الامرکما ظننت من وقوع لا زائدۃ فی نسخۃ المصفی او المختلفات ونقلہ القہستانی بالمعنی ولم یتنبہ لما اسمعنا،واللّٰہ تعالٰی اعلم ۔
اور میں اس وقت بھی یہ بعید نہیں سمجھتا کہ حقیقت وہی ہو جو میرے خیال میں ہے کہ مصفی یا مختلفات کے نسخے میں”لا”( نہیں) زیادہ ہوگیا ہے اور قہستانی نے اسے بالمعنی نقل کردیا اور اس کاخیال نہ کیا جو ہم نے بیان کیا۔ واللہ تعالٰی اعلم
عــہ وسیاتی تاویل نفیس فانتظر اھ منہ۔
عــہ اس کی ایک عمدہ تاویل بھی آگے آرہی ہے،انتظار کیجئے ۱۲منہ (ت)
والخلاف الذی اشرت الیہ ھو ما فی الحصر والمختلف و العون و فتاوی العتابی والفتاوی الظھیریۃ ان برؤیۃ المذی لایجب الغسل عند ابی یوسف تذکر الاحتلام اولم یتذکر ۲؎ کما فی فتح اللّٰہ المعین ۱؎ للسید ابی السعود الا زھری
جس اختلاف کا میں نے اشارہ کیا وہ یہ ہے کہ حصر ، مختلف،عون،فتاوٰی عتابی اورفتاوٰی ظہیریہ میں یہ ہے کہ مذی دیکھنے سے امام ابو یوسف کے نزدیک غسل واجب نہیں ہوتا احتلام یاد ہو یا یاد نہ ہو جیسا کہ سید ابو السعود ازہری کی فتح اللہ المعین میں ہے۔
(۲؎ فتح المعین کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/ ۵۹)
ونقلہ فی التبیین ۱؎ عن غایۃ السروجی عن الامام الفقیہ ابی جعفر الھندوانی عن الامام الثانی رحمہم اللّٰہ تعالی۔ وفی ابی السعود عن نوح افندی عن العلامۃ قاسم ابن قطلوبغا مانصہ ”قلت فیحتمل ان یکون عن ابی یوسف روایتان۲؎ اھ”
اور تبیین الحقائق میں اسے غایۃ السروجی سے ،اس میں امام فقیہ ابوجعفر ہندوانی کے حوالے سے امام ثانی سے نقل کیا ہے رحمہم اللہ تعالٰی ۔اور ابوالسعود میں علامہ نوح آفندی کے حوالہ سے علامہ قاسم ابن قطلوبغاسے یہ نقل ہے : میں کہتا ہوں ہوسکتاہے امام ابو یوسف سے دو روایتیں ہوں اھ۔
(۱؎ تبیین الحقائق کتاب الطہارۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۶۷
۲؎ فتح المعین کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/ ۵۹)
شرح مصابیح میں فرمایا کہ وضو اسی وقت مستحب ہے جب پہلے وضو سے کوئی نماز ادا کر لی ہو ایسا شرعۃ الاسلام اور قنیہ میں ہے اھ اسی طرح وہ بھی ہے جو مناوی نے شرح جامع صغیر میں با وضو ہوتے ہوئے دس نیکیاں ملنے سے متعلق حدیث کے تحت فرمایا کہ مراد وہ وضو ہے جس سے کوئی فرض یا نفل نماز ادا کر چکا ہوجیسا کہ راوی حدیث حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے عمل سے اس کا بیان ظاہر ہوتا ہے تو پہلے وضو سے جس نے کوئی نماز ادا نہ کی اس کے لئے تجدید مسنون نہیں اھ ا ور اس کا مقتضا یہ ہے کہ اگر مجلس بدل جائے تو بھی دوبارہ وضو مکروہ ہو جب تک نما ز یا ایسا ہی کوئی عمل ادا نہ کر لے اھ(ت)
وفی الحلیۃ وجوب الاغتسال فیما اذا تیقن کون البلل مذیا وھو متذکر الاحتلام باجماع اصحابنا علی ما فی کثیر من الکتب المعتبرۃ وفی المصفی ذکر فی الحصر والمختلف والفتاوی الظہیریۃ اذارای مذیا وتذکر الاحتلام لاغسل علیہ عند ابی یوسف فیحتمل ان یکون عن ابی یوسف روایتان۳؎ اھ مختصرا۔
اور حلیہ میں یہ ہے کہ اس صورت میں غسل واجب ہے جب یقین ہو کہ یہ تری مذی ہے اور اسے احتلام بھی یاد ہواس حکم پر ہمارے ائمہ کا اجماع ہے جیسا کہ بہت سی کتب معتبرہ میں مذکور ہے ۔اور مصفی میں یہ لکھا ہے کہ حصر ، مختلف اور فتاوٰی ظہیریہ میں ذکر کیا ہے کہ جب مذی دیکھے اور احتلام یاد ہو تو امام ابو یوسف کے نزدیک اس پر غسل نہیں۔ تو ہوسکتا ہے کہ امام ابو یوسف سے دوروایتیں ہوں اھ مختصراً ۔
(۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
اقول: بل ثلث فـــ الاولی لا غسل بلا تذکر وان رأی منیا کما مرعن شرحی النقایۃ عن الامام علی الاسبیجابی”الثانیۃ لا الا بالمنی وان رأی المذی متذکرا و ھی”ھذہ والثالثۃ یغتسل فی التذکر باحتمال المذی ایضا وفی عدمہ بعلم المنی وھی الاظھر الاشھر ومرویۃ الاکثر بل عند رابعۃ نحوقولھما علی ما فی القھستانی عــــہ عن العیون وغیرھا واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
اقول : بلکہ تین روایتیں(۱) احتلام یاد آئے بغیر غسل نہیں اگرچہ منی ہی دیکھ لے جیسا کہ امام علی اسبیجابی کے حوالے سے دونوں شرح نقایہ (قہستانی وبرجندی) سے نقل گزری ۔(۲) بغیر منی دیکھے غسل نہیں اگرچہ مذی دیکھے اور احتلام بھی یاد ہو۔یہی وہ اختلافی روایت ہے جس کا ذکر ہورہا ہے(۳) احتلام یاد ہونے کی صورت میں تری کے بارے میں مذی کا احتمال ہونے سے بھی غسل واجب ہے اور احتلام یاد نہ ہونے کی صورت میں جب تری کے منی ہونے کا یقین ہو تو غسل واجب ہے ۔یہی اظہر واشہر اور مرویِّ اکثر ہے ۔بلکہ امام ابو یوسف سے ایک چوتھی روایت قول طرفین کے مطابق بھی ہے۔
جیسا کہ قہستانی میں عیون وغیرہا کے حوالے سے نقل ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم (ت)
فــ: تطفل ما علی الحلیۃ والعلامۃ قاسم۔
عــہ حیث ذکرالوجوب عندھما بالمذی وان لم یتذکر ثم قال وکذا عند ابی یوسف اذا تذکرالاحتلام واما اذا لم یتذکر فلا غسل وفی العیون وغیرہ انہ واجب عندہ فلعل عنہ روایتین کما فی الحقائق۱؎اھ فالروایتان ھھنا عدم الوجوب بالمذی اذا لم یتذکر وھی المشہورۃ والوجوب بہ وان لم یتذکر وھی التی فی العیون وھی کما فی مذھبھما والروایتان فی قول العلامۃ قاسم والحلیۃ الوجوب بالمذی اذا تذکر وھی المشہورۃ وعدمہ بہ وان تذکر وھی التی فی العیون فروایتا العون والعیون علی طرفی نقیض ھذا مایعطیہ سوق القھستانی واللّٰہ اعلم بحقیقۃ الحال ۱۲ منہ (م)
اس میں یہ ذکر ہے کہ طرفین (امام اعظم و امام محمد کے نزدیک مذی سے غسل واجب ہے اگرچہ احتلام یاد نہ ہو پھر یہ بتایا کہ ایسا ہی امام ابو یوسف کے نزدیک بھی ہے جب کہ احتلام یاد ہو۔ اور یاد نہ ہو تو ان کے نزدیک غسل نہیں ۔اور عیون وغیرہ میں ہے کہ اس صورت میں بھی ان کے نزدیک غسل واجب ہے ۔توشاید ان سے دو روایتیں ہوں جیسا کہ حقائق میں ہے اھ۔ تویہاں پر دو روایتیں یہ ہوئیں(۱) مذی سے غسل واجب نہیں جب کہ احتلام یاد نہ ہو ، یہی مشہور روایت ہے (۲) مذی سے غسل واجب ہے اگرچہ احتلام یاد نہ ہو۔یہ وہ روایت ہے جو عیون میں ہے۔ اور یہ مذہب طرفین کے مطابق ہے۔اور علامہ قاسم اور حلیہ کے کلام میں جو روایتیں مذکور ہوئیں وہ یہ ہیں (۱) مذی سے غسل واجب ہے۔جب کہ احتلام یاد ہو۔یہ وہی مشہور روایت ہے(۲) مذی سے غسل واجب نہیں اگرچہ احتلام یاد ہو۔یہ وہ روایت ہے جو عیون میں مذکور ہے۔ تو عون اور عیون کی دونوں روایتیں بالکل ایک دوسری کی ضد ہیں۔قہستانی کے سیاق سے یہی حاصل ہوتاہے،اور حقیقتِ حال خدائے برترہی کو خوب معلوم ہے ۱۲منہ ۔(ت)
(۱؎ جامع الرموز کتاب الطہارۃ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران ۱ /۴۳)
اور اگر احتلام یاد نہیں تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالٰی کے نزدیک ان تینوں صورتوں میں اصلا غسل نہیں وھو الاقیس وبہ اخذ الامام الاجل العارف باللّٰہ خلف بن ایوب والامام الفقیہ ابو اللیث السمرقندی کما فی الفتح وغیرہ۔
اور یہی زیادہ قرین قیاس ہے۔اسی کو امام بزرگ عارف باللہ خلف بن ایوب اور امام فقیہ ابواللیث سمر قندی نے اختیارکیا ، جیساکہ فتح القدیر وغیرہ میں ہے ( ت)
شکل اخیر یعنی ششم میں طرفین یعنی حضرت سیدنا امام اعظم وامام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی امام ابویوسف کے ساتھ ہیں یعنی جہاں نہ منی کا احتمال نہ مذی کا یقین بلکہ مذی کا احتمال ہے غسل بالاتفاق واجب نہیں۔
فی رد المحتارلایجب اتفاقا فیما اذا شک فی الاخیرین (یعنی المذی والودی) مع عدم تذکر الاحتلام ۱؎۔
ردالمحتار میں ہے کہ بالاتفاق غسل واجب نہیں اس صورت میں جبکہ مذی و ودی میں شک ہو اور احتلام یاد نہ ہو۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۱۰)
اور شکل اول یعنی چہارم میں کہ منی کا احتمال ہو خواہ یوں کہ منی ومذی محتمل ہوں یا منی و ودی یا تینوں (اور ودی سے مراد ہر وہ تری کہ منی ومذی کے سوا ہو) ان سب صورتوں میں دونوں حضرات بالاتفاق روایات غسل واجب فرماتے ہیں۔
فی رد المحتار یجب عندھما فیما اذا شک فی الاولین (ای المنی والمذی) اوفی الطرفین (ای المنی والودی)اوفی الثلثۃ احتیاطا ولا یجب عند ابی یوسف للشک فی وجود الموجب ۲؎۔
رد المحتارمیں ہے :امام اعظم و امام محمد علیہما الرحمہ کے نزدیک احتیاطاً اس صورت میں غسل واجب ہے جب منی و مذی میں یا منی و ودی میں یا تینوں میں شک ہو۔اور امام ابو یوسف کے نزدیک واجب نہیں کیونکہ موجب کے وجود میں شک ہے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۱۰)
لیکن جہاں منی کے ساتھ مذی کا احتمال نہ ہو صرف ودی کا شبہہ ہو وجوب مطلق ہے اور جہاں مذی کا بھی شک ہو اُس میں ایک صورت کا استشناء،وہ یہ کہ اگر سونے سے کچھ پہلے اسے شہوت تھی ذکر قائم تھا اب جاگ کر تری دیکھی جس کا مذی ہونا محتمل ہے اور احتلام یاد نہیں تو اسے مذی ہی قرار دیں گے غسل واجب نہ کریں گے جب تک اس کے منی ہونے کا ظن غالب نہ ہو اور اگر ایسا نہ تھا یعنی نیند سے پہلے شہوت ہی نہ تھی یا تھی اور اُسے بہت دیر گزر گئی۔ مذی جو اس سے نکلنی تھی نکل کر صاف ہوچکی اس کے بعد سویا اور تری مذکور پائی جس کا منی ومذی ہونا مشکوک ہے تو بدستور صرف اسی احتمال پر غسل واجب کردیں گے منی کے غالب ظن کی ضرورت نہ جانیں گے، صور استثناء کہ مذکور ہوئے،یاد رکھئے کہ آئندہ اس پر بحث ہونے والی ہے ان شاء اللہ تعالٰی۔
اب رہی شکل ثانی یعنی پنجم کہ مذی کا یقین ہو اس میں طرفین رضی اللہ تعالٰی عنہما کے بیان مذہب میں علماء کا اختلاف شدید ہے بہت اکابر نے جزم فرمایا کہ اس صورت میں بھی مثل صورت ششم غسل واجب نہ ہونے پر ہمارے ائمہ ثلثہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کا اتفاق ہے(۱) مبسوط امام شیخ الاسلام بکر خواہر زادہ و(۲) محیط امام برہان الدین و(۳) مغنی و(۴)مصفی للامام النسفی و(۵) فتح القدیر نقلاً و (۶) منیۃ المصلی و (۷) شرح نقایہ للعلامۃ البرجندی و(۸)جامع الرموز للعلامۃ القہستانی و (۹)حاشیہ الفاضل عبدالحلیم الرومی علی الدرر والغرر و(۱۰)بحر الرائق و(۱۱) نہرالفائق و(۱۲) در مختار و(۱۳) حواشی الدر للسید الحلبی و(۱۴) السید الطحطاوی و(۱۵) السید الشامی و(۱۶) مسکین علی الکنز و(۱۷) فتح المعین للسید الازہری و (۱۸) تعلیقات ابیہ السید علی بن علی بن علی بن ابی الخیر الحسینی و(۱۹) رحمانیہ و(۲۰) ہندیہ و(۲۱) طحطاوی علی مراقی الفلاح و(۲۲) منحۃالخالق اسی طرف ہیں۔
فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے : ان رأی بللا الا انہ لم یتذکر الاحتلام فان تیقن انہ مذی لایجب الغسل وان شک انہ منی اومذی قال ابو یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی لایجب حتی یتیقن بالاحتلام وقالا یجب ھکذا ذکرہ شیخ الاسلام کذا فی المحیط ۱؎۔
اگر تری دیکھے مگر احتلام یاد نہ آئے تو اگر یقین ہے کہ تری مذی ہے تو غسل واجب نہیں۔اور اگر شک ہے کہ وہ منی ہے یا مذی ہے تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ غسل واجب نہیں جب تک احتلام کا یقین نہ ہو۔اور طرفین نے فرمایا : واجب ہے۔ایسا ہی شیخ الاسلام نے ذکر کیا۔ایسا ہی محیط میں ہے۔(ت)
(۱؎ الفتاوی الہندیہ کتاب الطہارۃ ، الباب الثانی الفصل الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۱۵)
بحرالرائق میں ہے: لایجب الغسل اتفاقاً فیما اذا تیقن انہ مذی ولم یتذکر الاحتلام۲؎۔
اس صورت میں بالاتفاق غسل واجب نہیں جب تری کے مذی ہونے کا یقین ہو اور احتلام یاد نہ ہو۔ (ت)
(۲؎ بحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/ ۵۶)
درمختار میں دربارہ عدم تذکر احتلام ہے: اذا علم انہ مذی فلا غسل علیہ اتفاقا ۳؎۔ جب یقین ہو کہ یہ تری مذی ہے بالاتفاق اس پر غسل نہیں۔(ت)
(۳؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۱)
ردالمحتار میں ہے: لایجب اتفاقا فیما اذا علم انہ مذی مع عدم تذکر الاحتلام ۴؎۔
اس صورت میں بالاتفاق غسل واجب نہیں جب اسے یقین ہو کہ وہ مذی ہے اور احتلام یاد نہ ہو۔(ت)
(۴؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۱۰)
بعینہٖ اسی طرح منحۃ الخالق میں ہے، حاشیہ طحطاوی میں ہے: اذا علم انہ مذی مع عدم التذکر لایجب الغسل اتفاقا ۱؎۔
جب یقین ہو کہ وہ مذی ہے اور احتلام یاد نہ ہو تو بالاتفاق غسل واجب نہیں۔(ت)
(۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الطہارۃ المکتبۃ العربیۃ کوئٹہ ۱/ ۹۳)
برجندی میں ہے: ذکر فی المبسوط والمحیط والمغنی ھھنا تفصیلات وھو انہ اذا استیقظ ورأی بللا ولم یتذکر الاحتلام فان تیقن انہ مذی لایجب الغسل وان تیقن انہ منی یجب وان شک انہ مذی اومنی قال ابو یوسف لایجب وقالا یجب ۲؎۔
مبسوط، محیط اور مغنی میں یہاں کچھ تفصیلات ذکر کی ہیں ، وہ یہ کہ جب بیدار ہو کر تری دیکھے اور احتلام یاد نہ ہوتو اگر اسے یقین ہو کہ یہ منی ہے تو واجب اور اگر شک ہو کہ مذی ہے یا منی تو امام ابو یوسف نے فرمایا :غسل واجب نہیں ، اور طرفین نے فرمایا : واجب ہے ۔(ت)
(۲؎ شرح نقایہ للبرجندی کتاب الطہارۃ نولکشورلکھنؤ ۱/ ۳۰)
رحمانیہ میں محیط سے ہے: استیقظ فوجد علی فراشہ او فخذہ بللا ولم یتذکر الاحتلام فان تیقن انہ منی یجب الغسل والا لایجب وان شک انہ منی اومذی قال ابو یوسف لایجب الغسل ۳؎ اھ
بیدار ہونے کے بعد اپنے بستر یا ران پر تری پائی اور احتلام یاد نہیں تو اگر اسے یقین ہوکہ یہ تری منی ہے تو غسل واجب ہے ورنہ (اگر ایسا نہیں تو)واجب نہیں۔اور اگر شک ہو کہ منی ہے یا مذی تو امام ابو یوسف نے فرمایا:غسل واجب نہیں اھ ۔(ت)
(۳؎ رحمانیہ )
اقول:فی قولہ فـــ والا لایجب تدافع ظاھر مع مسألۃ الشک ولعل الجواب انھا حلت محل الاستثناء ویعکرہ لزوم ان لایجب وفاقا اذا شک انہ منی او ودی لانہ لم یستثن الا الشک فی المنی والمذی الا ان یقال ان المراد بالمذی غیر المنی وھو ظاھر البعد والاولی ان یقال ان اصل قولہ والا لایجب وان لامفصولا والتقدیر وان تیقن انہ لامنی لایجب۔
اقول:ان کی عبارت ”والا لایجب”ورنہ واجب نہیں میں مسألہ شک کے ساتھ کھلا ہوا ٹکراؤ ہے (اول سے معلوم ہوا کہ منی کایقین ہونے کی صورت میں۔جس میں صورتِ شک بھی داخل ہے۔ بالاتفاق غسل واجب نہیں، اور مسئلہ شک سے معلوم ہو اکہ طرفین کے نزدیک غسل واجب ہے)شاید اس کا یہ جواب دیا جائے کہ مسئلہ شک استثناء کے قائم مقام ہے ( یعنی صوتِ شک کے سوا اور صورتوں میں بالاتفاق غسل واجب نہیں ) مگراس جواب پر یہ اعتراض پڑتاہے کہ پھر لازم ہے کہ اس صورت میں بالاتفاق غسل واجب نہ ہو جب منی یا ودی ہونے میں شک ہو کیونکہ استثناء صرف منی اور مذی میں شک کی صورت کا ہوا۔ مگر اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ مذی سے مراد غیر منی ہے ، خواہ ودی ہی ہو۔ اور اس مراد کا بعید ہونا ظاہر ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ کہا جائے کہ ان کے قول ”والا لایجب” کی اصل ”وان لا” فصل کے ساتھ ہے، اور تقدیر عبارت یہ ہوگی کہ وان تیقن انہ لامنی ، لایجب ۔ اور اگر یقین ہو کہ وہ منی نہیں تو غسل واجب نہیں۔(ت)
شرح الکنز للعلامۃ مسکین میں ہے: اذا لم یتذکر الاحتلام وتیقن انہ مذی فلاغسل علیہ ۱؎۔
جب احتلام یاد نہ ہواوریقین ہوکہ یہ تری مذی کی ہے تو اس پر غسل نہیں۔(ت)
(۱؎ شرح الکنزلملا مسکین علی ھامش فتح المعین کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۵۹)
ابو السعود میں ہے: اما صور مالا یجب فیھا الغسل اتفاقا فاربعۃ (الی قولہ) الثالثۃ علم انہ مذی ولم یتذکر ۱؎۔
لیکن بالاتفاق غسل واجب نہ ہونے کی چار صورتیں ہیں – تیسری صورت یہ کہ مذی ہونے کا یقین ہو اور احتلام یاد نہ ہو۔(ت)
(۱؎ فتح المعین کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/ ۵۸ و ۵۹)
حلیمی علی الدرر میں ہے: لاغسل علیہ ان تیقن انہ مذی وکذا لوشک انہ مذی او ودی ولم یتذکر الاحتلام ۲؎۔
اس پر غسل واجب نہیں اگر اسے یقین ہو کہ یہ مذی ہے اسی طرح اگراسے شک ہو کہ مذی ہے یا ودی اور احتلام یاد نہ ہو۔( ت)
(۲؎ حاشیۃ الدررعلی الغررلعبد الحلیم دار سعادت ۱/ ۱۵)
فتح القدیر میں ہے : مستیقظ وجد فی ثوبہ اوفخذہ بللا ولم یتذکر احتلاما لوتیقن انہ مذی لایجب اتفاقا لکن التیقن متعذر مع النوم ۳؎ اھ۔
بیدار ہونے والے نے اپنے کپڑے یا ران میں تری پائی اور احتلام یاد نہیں تو اگر اسے یقین ہوکہ وہ مذی ہے تو بالاتفاق غسل واجب نہیں ۔ لیکن سونے کے باوجود اس بات کا یقین متعذر ہے۔( ت)
(۳؎ فتح القدیر کتاب الطہارات فصل فی الغسل مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۵۴)
طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے: لایجب الغسل اتفاقا فیما اذا تیقن انہ مذی ولم یتذکر والمراد بالتیقن غلبۃ الظن لان حقیقۃ الیقین متعذرۃ مع النوم ۴؎۔
بالاتفاق غسل واجب نہیں اُس صورت میں جب کہ اسے یقین ہو کہ وہ مذی ہے اور احتلام یاد نہ ہو اور یقین سے مراد غلبہ ظن ہے اس لئے کہ حقیقت یقین باوجود نیند کے متعذر ہے ۔
(۴؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الطہارۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۹۹)
اقول:کانہ یشیر الی الجواب عما اورد المحقق وما کان المحقق لیغفل عن مثل ھذا وانما ھو لتحقیق انیق سنعود الیہ بتوفیق من لا توفیق الا من لدیہ۔
اقول:گویا یہ حضرت محقق کے اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ ہے اور حضرت محقق اس طرح کی بات سے غافل رہنے والے نہیں دراصل ان کی عبارات ایک دلکش تحقیق کے پیش نظر ہے ، آگے ہم اس کی طرف لوٹیں گے اس کی توفیق جس کے سوا اور کسی سے توفیق نہیں۔(ت)
منیہ میں ہے: ان تیقن انہ مذی فلا غسل علیہ اذا لم یتذکر الاحتلام ۱؎۔
اگر یقین ہوکہ وہ مذی ہے تواس پر غسل نہیں جب کہ احتلام یاد نہ ہو۔(ت)
(۱؎ منیہ المصلی کتاب الطہارۃ مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ص۳۳)
مصفی میں ہے: ان رای بللا ولم یتذکر الاحتلام ان تیقن انہ ودی او مذی لایجب الغسل وان تیقن انہ منی یجب وان شک انہ منی اومذی قال ابو یوسف لایجب حتی تیقن بالاحتلام وقالا یجب کذافی المحیط والمغنی ومبسوط شیخ الاسلام وفتاوی قاضی خان والخلاصۃ ۲؎ ۔
تری دیکھی اور احتلام یاد نہیں اگر یقین ہو کہ وہ ودی یا مذی ہے تو غسل واجب نہیں ۔اور اگر یقین ہو کہ منی ہے تو واجب ہے۔اور اگر شک ہو کہ منی ہے یا مذی تو امام ابو یوسف نے فرمایا : غسل واجب نہیں یہاں تک کہ احتلام کا یقین ہو اور طرفین نے فرمایا: واجب ہے ۔ ایسا ہی محیط ،مغنی،مبسوط شیخ الاسلام ، فتاوٰی قاضی خان اور خلاصہ میں ہے۔(ت)
(۲؎ مصفی)
حلیہ میں یہ کلام مصفی نقل کرکے فرمایا: لیس فی الفتاوی الخانیۃ ولا الخلاصۃ ذلک کما ذکرہ مطلقا وکذا لیس فی محیط رضی الدین واما المغنی ومبسوط شیخ الاسلام فلم اقف علیہا ۳؎ اھ۔
فتاوی خانیہ اور خلاصہ میں یہ اس طرح نہیں جیسے انہوں نے مطلقاً ذکر کیا ہے ایسے ہی محیط رضی الدین میں بھی نہیں ، اور مغنی و مبسوط شیخ الاسلام سے متعلق مجھے اطلاع نہیں اھ۔(ت)
(۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
اقول:اما المبسوط فقد قدمنا نقلہ عن الہندیۃ عن المحیط عن المبسوط وکذا عن البرجندی عن المبسوط وکذلک عنہ عن المغنی والمرادفــ۱بالمحیط المحیط البرھانی لاالرضوی وقد تقدم النقل عنہ عن الھندیۃ وعن البرجندی نعم لم ار ھذا فی الخانیۃ بل الواقع فیھافــ۲خلاف ھذا کما سیاتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی واما الخلاصۃ فنصہا علی ما فی نسختی ھکذا ان احتلم ولم یرشیا لاغسل علیہ بالاتفاق وان تذکر الاحتلام ورأی بللا ان کان ودیا لایجب الغسل بلا خلاف وان کان مذیا اومنیا یجب الغسل بالاجماع ولسنا نوجب الغسل بالمذی لکن المنی یرق باطالۃ المدۃ فکان مرادہ مایکون صورتہ المذی لاحقیقۃ المذی الثالث اذا رأی البلل علی فراشہ ولم یتذکر الاحتلام عندھما یجب علیہ الغسل وعند ابی یوسف لاغسل علیہ ۱؎ اھ وھوفـــ۳ فیما اری عارٍ عن ذکر المسألۃ اصلا
اقول:مبسوط کی عبارت تو پہلے ہم ہندیہ کے حوالے سے نقل کرآئے ہیں ہندیہ میں محیط اس میں مبسوط سے نقل ہے اسی طرح برجندی کے حوالہ سے مبسوط سے ، اور ایسے ہی بحوالہ برجندی مغنی سے نقل گزرچکی ہے۔اور محیط سے مراد محیط برہانی ہے محیط رضوی نہیں۔اور اس سے نقل ہندیہ کے حوالے سے اور برجندی کے حوالے سے بلکہ اس میں اس کے بخلاف واقع ہے جیسا کہ آگے ان شاء اللہ آئے گا ۔ رہا خلاصہ تو میرے نسخہ میں اس کی عبارت اس طرح ہے : اگر خواب دیکھا اور کوئی تری نہ پائی تو بالاتفاق اس پر غسل نہیں اور اگر خواب دیکھنا یاد ہے اور تری بھی پائی اگر وہ ودی ہو تو بلااختلاف غسل واجب نہیں اور اگر مذی یا منی ہو تو بالاجماع غسل واجب ہے اور ہم مذی سے غسل واجب نہیں کرتے لیکن بات یہ ہے کہ دیر ہوجانے سے منی رقیق ہوجاتی ہے ۔ تو اس سے مراد وہ ہے جو مذی کی صورت میں ہے ، حقیقتِ مذی مراد نہیں ۔ سوم جب اپنے بستر پر تری دیکھے اور احتلام یاد نہیں تو طرفین کے نزدیک اس پر غسل واجب ہے اور امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک اس پر غسل نہیں اھ میرا خیال ہے کہ زیر بحث مسئلہ کا اس عبارت میں سرے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں۔
(۱؎ خلاصۃ الفتاوی کتاب الطہارۃ الفصل الثانی فی الغسل مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۱۳۔)
فـــ۱ :تطفل علی الحلیۃ
فـــ۲ : تطفل علی مصفی الامام النسفی ۔
فـــ۳ : تطفل آخر علیہ ۔
فان قلت بل فیہ خلاف ما فی المصفی حیث ارسل البلل ارسالا فشمل المذی وقد اوجب فیہ الغسل مع عدم التذکر ومثلہ مافی الخانیۃ عن مبسوط الامام محرر المذھب محمد بن الحسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ حیث قال وفی صلاۃ الاصل اذا استیقظ وعندہ انہ لم یحتلم و وجد بللا علیہ الغسل فی قول ابی حنیفۃ ومحمد رحمھما اللّٰہ تعالٰی ۱؎ ۔
اگر یہ کہو کہ نہیں بلکہ اس میں مصفی کے برخلاف تذکرہ موجود ہے کیونکہ اس میں تری کو بغیر کسی قید کے مطلق ذکرکیا ہے تو یہ مذی کو بھی شامل ہے اور اس میں یاد نہ ہونے کے باوجود غسل واجب کیا ہے ۔ اسی کے مثل وہ بھی ہے جو خانیہ میں محرر مذہب امام محمد بن الحسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مبسوط سے نقل ہے۔ امام قاضی خاں فرماتے ہیں : مبسوط کتاب الصلوٰۃ میں ہے : جب بیدار ہو اور اس کے خیال میں یہ ہے کہ اس نے خواب نہ دیکھا اور اس نے تری پائی تو اس پر امام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہمااللہ تعالٰی کے قول پر غسل واجب ہے۔
(۱؎ فتاوی قاضی خان کتاب الطہارۃ فصل فیما یوجب الغسل نو لکشور لکھنؤ ۱/ ۲۱)
قلت:لا تعجل و اورد الکلام موردہ فانہ اما ان یکون المراد بلل معلوم الحقیقۃ اوغیر معلومھا او اعم لاسبیل الی الاول لانہ ارسل البلل ارسالا فیشمل ما اذا علم انہ منی ولیس مرادا قطعا لان فیہ الغسل بلاخلاف وما اذا علم انہ ودی ولیس مرادا قطعا اذ لا غسل فیہ بالاتفاق ولا الی الثالث لشمولہ الاول فیعود المحذوران فتعین الثانی وکانہ لھذا ابھم وارشد بالابہام اللفظی الی الابہام المعنوی فالمعنی رأی بللا لایدری ماھو فھذہ صورۃ الشک فی انہ منی اوغیرہ ولا مساس لھا بصورۃ علم المذی ونظیرہ قول مسکین اذا استیقظ فوجد فی احلیلہ بللا ۱؎ اھ فقال ابو السعود وشک فی کونہ منیا اومذیا خانیۃ ۲؎ اھ وقول المنیۃ ان استیقظ فوجد فی احلیلہ بللا ۳؎ الخ فقال فی الغنیۃ لایدری ا منی ھو ام مذی ۴؎ اھ
تومیں کہوں گا جلدی نہ کرو اور کلام کو اس کے مورد ہی پر وارد کرو۔ اس لئے کہ یا تو ایسی تری مراد ہے جس کی حقیقت معلوم ہے یا نہ معلوم ہے یا وہ جو دونوں سے عام ہے اول ماننے کی کوئی سبیل نہیں اس لئے کہ اس میں تری کو مطلق ذکر کیا ہے تو یہ اس صورت کو بھی شامل ہے جب یقین ہو کہ وہ منی ہے اور یہ قطعاً مراد نہیں اس لئے کہ اس میں بلا اختلاف غسل ہے اور اس صورت کو بھی شامل ہے جب یقین ہوکہ وہ ودی ہے ۔ اور یہ بھی قطعاً مراد نہیں اس لئے کہ اس میں بالاتفاق غسل نہیں ہے۔ اور سوم ماننے کی بھی گنجائش نہیں اس لئے کہ وہ اول کو بھی شامل ہے تو اس کے تحت جو دونوں خرابیاں ہیں وہ پھر لوٹ آئیں گی اب دوسری صورت متعین ہوگئی شاید اسی لئے امام محمد نے ابہام رکھا اور لفظی ابہام سے معنوی ابہام کی جانب رہنمائی فرمائی۔تو معنی یہ ہے کہ ایسی تری دیکھی جس کے بارے میں اسے پتہ نہیں کہ وہ کیا ہے تو یہ اس تری کے منی یا غیر منی ہونے میں شک کی صورت ہوئی۔ اور اسے مذی کے یقین کی صورت سے کوئی مس نہیں۔ اسی کی نظیر مسکین کی یہ عبارت ہے: اگر بیدارہونے کے بعد ذَکر کی نالی میں تری پائی الخ اس پر ابو السعود نے لکھا:اور اس کے منی یا مذی ہونے میں اسے شک ہوا-خانیہ – اھ۔ اور اسی طرح منیہ کی یہ عبارت ہے :اگر بیدار ہونے کے بعد ذَکر کی نالی میں تری پائی الخ ۔ اس پر غنیہ میں لکھا: اور اسے پتہ نہیں کہ وہ منی ہے یا مذی اھ
(۱؎ شرح الکنز لملامسکین علی ھامش فتح المعین کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۵۹
۲؎ فتح المعین کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۵۹
۳؎ منیۃ المصلی مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ لاہور ص۳۳
۴؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبری سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۳)
اقول:وبہ فــ ظھر الجواب عن ایراد الحلیۃ بقولہ انت علیم بما فی ھذا الاطلاق فانہ یشتمل المنی والمذی ولاشک ان المنی غیر مراد منہ بالاتفاق فلاجرم ان ذکر المصنف انہ لوتیقن انہ منی فعلیہ الغسل ۵؎ اھ ونظائر ھذا کثیر فی کلامھم غیر یسیر۔
اقول:اسی سے حلیہ کے اس اعتراض کا جواب بھی واضح ہوگیا جو ان الفاظ میں ہے : اس اطلاق میں جو خامی ہے وہ تمہیں معلوم ہے اس لئے کہ وہ منی و مذی دونوں کو شامل ہے۔ اور بلا شبہ اس سے منی بالاتفاق مراد نہیں تو لا محالہ مصنف نے یہ ذکر فرمایا کہ اگر اسے منی ہونے کا یقین ہے تو اس پر غسل ہے اھ۔ اور اس کی نظیریں کلامِ علماء میں ایک دو نہیں بہت ہیں۔(ت)
فــ :تطفل علی الحلیۃ
(۵؎ منیۃ المصلی مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ لاہور ص۳۳)
اور عامہ متون مذہب وجما ہیرا جلّہ عمائد کی تصریح ہے کہ صورت پنجم بھی مثل صورت چہارم ہمارے ائمہ میں مختلف فیہ ہے طرفین غسل واجب فرماتے ہیں اور امام ابو یوسف کا خلاف ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین (۱)وقایہ (۲) ونقایہ (۳) واصلاح (۴) وغرر (۵) ونور الایضاح (۶) و تنویر الابصار (۷) و ملتقی الابحر (۸) و بدائع (۹) واسبیجابی (۱۰) و صدرالشریعۃ (۱۱) وحلیہ (۱۲) و غنیہ (۱۳) و ایضاح (۱۴) و درر (۱۵) و مراقی الفلاح (۱۶) وجوہرہ نیرہ (۱۷) و تبیین الحقائق (۱۸) و مستخلص (۱۹) و شمنی (۲۰) و مجمع الانہر (۲۱) و فتوائے امام اجل نجم الدین نسفی (۲۲) و جواہرالفتاوی للامام الکرمانی (۲۳) و خانیہ (۲۴) و سراجیہ (۲۵) و خجندی (۲۶) و بزازیہ (۲۷) و تجنیس (۲۸) و حصر (۲۹) و مختلف (۳۰) و ظہیریہ (۳۱) و خزانۃ المفتین (۳۲) و ارکان اربعہ اور شروح حدیث سے(۳۳) لمعات (۳۴) و مرقاۃ جزماً اسی طرف ہیں اور(۳۵) امام محقق علی الاطلاق نے بحثاً اُس کا افادہ فرمایا کما مر ویاتی بیانہ ان شاء اللّٰہ تعالٰی(جیساکہ گزرا اور اس کا بیان ان شاء اللہ تعالی آگے آئیگا۔ت)
وقایہ وشرح میں ہے:(رؤیۃ المستیقظ المنی والمذی وان لم یحتلم) امافی المنی فظاھر واما فی المذی فلاحتمال کونہ منیا رق بحرارۃ البدن وفیہ خلاف لابی یوسف ۱؎۔
(اور بیدار ہونے والے کا منی یا مذی دیکھنا اگرچہ احتلام یاد نہ ہو )منی میں تو وجہ ظاہر ہے ۔ مذی میں اس لئے کہ ہو سکتا ہے وہ منی رہی ہو جو بدن کی حرارت سے رقیق ہوگئی اور اس کے بارے میں امام ابویوسف کا اختلاف ہے ۔
(۱؎ شرح الوقایۃ کتاب الطہارۃ موجبات الغسل مکتبہ امدادیہ ملتان ۱/ ۸۲)
اصلاح وایضاح میں ہے: (و رؤیۃ المستیقظ المنی اوالمذی وان لم یتذکر الاحتلام) فان ماظھر فی صورۃ المذی یحتمل ان یکون منیا رق بحرارۃ البدن او باصابۃ الھواء فمتی وجب من وجہ ما فالاحتیاط فی الایجاب وفیہ خلاف لابی یوسف ۲؎۔
(اوربیدار ہونے والے کا منی یا مذی کو دیکھنا ہے اگرچہ احتلام یاد نہ ہو) اس لئے کہ جو تری مذی کی صورت میں نظر آرہی ہے ہو سکتاہے کہ منی رہی ہو جو بدن کی حرارت سے یا ہوا لگنے سے رقیق ہوگئی ہو تو جب کسی صورت سے غسل کا وجوب ہوتاہے تو احتیاط واجب رکھنے ہی میں ہے اور اس میں امام ابویوسف کا اختلاف ہے۔ (ت)
(۲؎ اصلاح وایضاح)
مختصر الوقایہ میں ہے: ورؤیۃ المستیقظ المنی اوالمذی ۱؎۔ بیدار ہونے والے کا منی یا مذی دیکھنا۔
(۱؎ مختصر الوقایۃ کتاب الطہارۃ نورمحمد کتب کارخانہ تجارت کتب کراچی ص۴)
غرر ودرر میں ہے: (وعند رؤیۃ مستیقظ منیا اومذیا وان لم یتذکر حلما) لان الظاھر انہ منی رق بھواء اصابہ ۲؎۔
(اور بیدار ہونے والے کے منی یا مذی دیکھنے کی صورت میں اگرچہ اسے کوئی خواب یاد نہ ہو) اس لئے کہ ظاہر یہ ہے کہ وہ منی تھی جو ہوا لگنے سے رقیق ہوگئی۔(ت)
(۲؎ دررالحکام شرح غرر الاحکام کتاب الطہارۃ فرض الغسل میر محمدکتب خانہ کراچی ۱/ ۱۹)
متن وشرح علامہ شرنبلالی میں ہے: ومنھا (وجود ماء رقیق بعد) الانتباہ من (النوم) ولم یتذکر احتلاما عندھما خلافا لابی یوسف وبقولہ اخذ خلف بن ایوب وابو اللیث لانہ مذی وھو الاقیس ولھما ماروی انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سئل عن الرجل یجد البلل ولم یذکر احتلاما قال یغتسل ولان النوم راحۃ تھیج الشھوۃ وقد یرق المنی لعارض والاحتیاط لازم فی العبادات۳؎۔
اور انہی اسباب میں سے (یہ ہے کہ نیند) سے بیدارہونے (کے بعد رقیق پانی پائے) اور اسے احتلام یاد نہ ہو۔یہ طرفین کے نزدیک ہے امام ابویوسف اس کے خلا ف ہیں اور امام ابو یوسف ہی کا قول خلف بن ایوب اور امام ابواللیث نے اختیار کیا ہے اس لئے کہ وہ مذی ہے۔اور یہی زیادہ قرین قیاس ہے۔ اور طرفین کی دلیل وہ روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اس مرد کے بارے میں سوال ہوا جو تری پائے اور اسے احتلام یاد نہ ہو تو فرمایا غسل کرے ۔ اور اس لئے بھی کہ نیند میں ایک راحت ہوتی ہے جو شہوت کو برانگیختہ کرتی ہے اور منی کبھی عارض کی وجہ سے رقیق ہوجاتی ہے اور عبادات کے معاملے میں احتیاط لازم ہے ۔(ت)
(۳؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی فصل مایوجب الاغتسال دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۹۹)
تنویر الابصار میں ہے: ورؤیۃ المستیقظ منیا اومذیا وان لم یتذکر الاحتلام ۱؎۔
اور بیدار ہونے والے کا منی یا مذی دیکھنااگرچہ اسے احتلام یاد نہ ہو۔(ت)
(۱؎ الدرالمختارشرح تنویر الابصار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۱)
ملتقی ومجمع میں ہے: (و) فرض (لرؤیۃ مستیقظ لم یتذکر الاحتلام بللا ولو مذیا) عند الطرفین (خلافالہ) ای لابی یوسف لہ ان الاصل براء ۃ الذمۃ فلایجب الا بیقین وھو القیاس ولھما ان النائم غافل والمنی قد یرق بالھواء فیصیر مثل المذی فیجب علیہ احتیاطا ۲؎۔
(اوربیدارہونے والا جسے احتلام یاد نہ ہو اس کے تری دیکھنے کے سبب اگرچہ وہ مذی ہی ہو )غسل فرض ہے طرفین کے نزدیک ۔(بخلاف ان کے ) یعنی امام ابو یوسف کے۔انکی دلیل یہ ہے کہ اصل یہ ہے کہ اس کے ذمہ غسل نہیں ہے پھر اس کے بخلاف اس پر غسل کا وجوب ، بغیر یقین کے نہ ہوگا اور قیاس یہی ہے۔ طرفین کی دلیل یہ ہے کہ سونے والا غافل ہوتا ہے۔ اور منی کبھی ہوا سے رقیق ہوکر مذی ہوجاتی ہے تو احتیاطاً اس پر غسل واجب ہوگا۔(ت)
(۲؎ مجمع الانہرشرح ملتقی الابحر کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۲۳)
جوہر نیرہ میں ہے: فی الخجندی ان کان منیا وجب الغسل بالاتفاق وان کان مذیا وجب عندھما تذکر الاحتلام او لا وقال ابو یوسف لایجب الا اذا تیقن الاحتلام ۳؎۔
خجندی میں ہے:اگر منی ہو تو بالاتفاق غسل واجب ہے۔ اور اگرمذی ہو تو طرفین کے نزدیک واجب ہے احتلام یاد ہو یا نہ یاد ہو۔ اور امام ابو یوسف نے فرمایا:غسل واجب نہیں مگر جب احتلام کا یقین ہو۔(ت)
(۳؎ الجوہرۃ النیرۃ کتاب الطہارۃ مکتبہ امدادیہ ملتان ۱/ ۱۲)
شرح امام زیلعی میں ہے: غشی فــ علیہ اوکان سکران فوجد علی فخذہ او فراشہ مذیا لم یلزمہ الغسل لانہ یحال بہ علی ھذا السبب الظاھر بخلاف النائم ۱؎۔
بے ہوش ہوا یا نشے میں تھا پھر اپنی ران یا بستر پر مذی پائی تو اس پر غسل لازم نہ ہوگا اس لئے کہ اس مذی کو اسی ظاہری سبب کے حوالے کیا جائے گا بخلاف سونے والے کے۔(ت)
فـــ:مسئلہ بیماری وغیرہ سے غش آگیا یا معاذاللہ نشہ سے بیہوش ہوا اس کے بعد جو ہوش آیا تو اپنے کپڑے یا بدن پر مذی پائی تو اس پر سوا وضو کے غسل نہ ہوگا اس کا حکم سوتے سے جاگ کر مذی دیکھنے کے مثل نہیں کہ وہاں غسل واجب ہوتا ہے۔
(۱؎ تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق کتاب الطہارۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۶۸)
مستخلص الحقائق میں ہے: (لامذی و ودی واحتلام بلابلل) روی الشیخ ابو منصور الماتریدی باسنادہ الی عائشۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم انہ قال اذا رأی الرجل بعد ماینتبہ من نومہ بللا ولم یتذکر الاحتلام اغتسل وان تذکر الاحتلام ولم یر بللا فلا غسل علیہ وھذا النص فی الباب کذا فی البدائع ثم قولہ بلابلل مطلقا یتناول المنی والمذی وقال ابو یوسف لاغسل علیہ فی المذی وھذا نص فی المنی اعتبارا بحالۃ الیقظۃ ولہما اطلاق الحدیث ولان المنی قد یرق بمرور الزمان فیصیر فی صورۃ المذی کذافی البدائع ایضا ۱؎۔
(مذی اور ودی اور بغیرتری کے صرف خواب دیکھنا موجب غسل نہیں) شیخ ابو منصور ماتریدی نے اپنی سند سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا روایت کی وہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:مرد جب نیند سے بیدارہونے کے بعد تری دیکھے اور اسے احتلام یاد نہ ہو تو غسل کرے اور اگر خواب دیکھا اور تری نہ پائی تو اس پر غسل نہیں۔ اور یہ اس باب میں نص ہے۔ ایسا ہی بدائع میں ہے۔ پھر متن میں ” بغیر تری کے ” مطلق ہے منی و مذی دونوں کو شامل ہے ۔ اور امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ مذی کی صورت میں اس پر غسل نہیں۔ اور ان کے نزدیک یہ نص منی سے متعلق ہوگا جیسے بیداری کی حالت میں اور طرفین کی دلیل یہ ہے کہ حدیث مطلق ہے۔ اور اس لئے بھی کہ منی کبھی وقت گزرنے کی وجہ سے رقیق ہوکر مذی کی صورت میں ہوجاتی ہے ۔ ایسا بدائع میں بھی ہے۔(ت)
(۲؎ مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق کتاب الطہارۃ رام کانشی پرنٹنگ ورکس لاہور ص۱/ ۵۰ و ۵۱)
جواہر الفتاوٰی کے باب رابع میں کہ فتاوائے امام اجل نجم الدین نسفی کے لئے معقود ہوتا ہے فرمایا:
استیقظ وتذکر انہ رأی فی منامہ مباشرۃ ولم یربللا علی ثوبہ ولا فرشہ ومکث ساعۃ فخرج مذی لایجب الغسل لظاھر الحدیث من احتلم ولم یربللا فلاشیئ علیہ ولیس ھذا کما استیقظ ورأی بلۃ یلزمہ الغسل عند ابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی لانھما یحملان انہ کان منیا فرق بمرور الزمان وھھنا عاین خروج المذی فوجب الوضوء دون الغسل قال ولا یلزم ھذا من احتلم لیلا فاستیقظ ولم یربللا فتوضأ وصلی الفجر ثم نزل المنی یجب الغسل وجازت صلاۃ الفجر عند ابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالٰی لانہ انما یجب الغسل بنزول المنی بعد ما استیقظ ولہذا لایعید الفجر بخلاف مسألتنا لانہ زال المذی بعدما استیقظ وھو یراہ فلم یلزم الغسل لانہ مذی ۱؎ اھ بنحو اختصار ۔
نیند سے بیدار ہوا اور اسے یاد آیا کہ اس نے خواب میں مباشرت دیکھی ہے اور اپنے کپڑے اور بستر پر کوئی تری نہ پائی اور کچھ دیر کے بعد مذی نکلی تواس پر غسل واجب نہیں ، اس کی دلیل اس حدیث کا ظاہر ہے کہ ” جس نے خواب دیکھا اور تری نہ پائی تواس پر کچھ نہیں ”۔اور یہ اس صورت کی طرح نہیں جب بیدار ہوا اور تری دیکھے ۔اس پر امام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہما اللہ تعالٰی کے نزدیک غسل لازم ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک وہ اس پر محمول ہے کہ منی تھی وقت گزرنے کے کی وجہ سے رقیق ہوگئی۔ اور یہاں تو اس نے مذی نکلنے کا مشاہدہ کیا ہے اس لئے اس پر وضو واجب ہے غسل نہیں۔ فرماتے ہیں:اس پر اس مسئلے سے اعتراض نہ ہوگا کہ کسی نے رات کو خواب دیکھا اور بیدار ہوا تو تری نہ پائی ، وضو کرکے نمازِ فجر ادا کرلی پھر منی نکلی تو اس پر غسل واجب ہے اور نمازِ فجر ہوگئی ۔ امام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہما اللہ تعالٰی کے نزدیک – اس لئے کہ یہاں بیداری کے بعد منی نکلنے کی وجہ سے غسل واجب ہوا اسی لئے اسے نمازِ فجر کا اعادہ نہیں کرنا ہے اور مسئلہ سابقہ میں ایسا نہیں اس لئے کہ بیدار ہونے کے بعد اس کے سامنے مذی نکلی تو مذی ہونے کی وجہ سے اس پر غسل لازم نہ ہوا،اھ کچھ اختصار کے ساتھ عبارت ختم ہوئی ۔(ت)
(۱؎ جواہر الفتاوٰی الباب الرابع قلمی فوٹو ص ۵ و ۶)
فتاوٰی امام قاضی خان میں ہے: انتبہ ورأی علی فراشہ اوفخذہ المذی یلزمہ الغسل فی قول ابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی تذکر الاحتلام اولم یتذکر ۲؎۔
بیدار ہوا اپنے بستر یا ران پر مذی دیکھی توامام ابو حنیفہ اورامام محمد رحمہمااللہ تعالٰی کے قول پر غسل اس پر لازم ہے احتلام یاد ہو نہ ہو۔
(۲؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الطہارۃ فصل فیما یوجب الغسل نولکشور لکھنؤ ۱/ ۲۱)
اسی میں ہے: مغمی علیہ افاق فوجد مذیا لاغسل علیہ وکذا السکران ولیس ھذا کالنوم لان مایراہ النائم سببہ مایجدہ من اللذۃ والراحۃ التی تھیج منھا الشہوۃ والاغماء والسکر لیسا من اسباب الراحۃ ۳؎۔
بے ہوش تھا افاقہ ہوا تو مذی پائی اس پر غسل نہیں ۔یہی حکم نشہ والے کا ہے اور یہ نیند کی طرح نہیں،اس لئے کہ سونے والا جو دیکھتا ہے اس کا سبب اسے محسوس ہونے والی وہ لذت و راحت ہے جس سے شہوت برانگیختہ ہوتی ہے اور بیہوشی و نشہ،راحت کے اسباب سے نہیں۔
(۳؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الطہارۃ فصل فیما یوجب الغسل نولکشور لکھنؤ ۱/ ۲۲)
سراجیہ میں ہے: اذا استیقظ النائم فوجد علی فراشہ بللا علی صورۃ المذی اوالمنی علیہ الغسل وان لم یتذکر الاحتلام ۴؎۔
سونے والا بیدار ہوکر اپنے بستر پر مذی یا منی کی صورت میں تری پائے تو اس پر غسل ہے اگرچہ احتلام یاد نہ ہو۔(ت)
(۴؎ الفتاوی السراجیۃ کتاب الطہارۃ باب الغسل نولکشورلکھنؤ ص۳)
وجیر امام کردری میں ہے: احتلم ولم یربللا لاغسل علیہ اجماعا ولو منیا اومذیا لزم لان الغالب انہ منی رق لمضی الزمان ۱؎۔
خواب دیکھا اور تری نہ پائی تو اس پر بالاجماع غسل نہیں۔ اور اگر منی یا مذی دیکھی تو غسل لازم ہے اس لئے کہ غالب گمان یہی ہے کہ وہ منی ہے جو وقت گزرنے سے رقیق ہوگئی ۔ (ت)
(۱؎ الفتاوی البزازیۃ علی ھامش الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ الفصل الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۴/ ۱۰ )
اُسی میں ہے : افاق بعد الغشی اوالسکر و وجد علی فراشہ مذیا لاغسل علیہ بخلاف النائم ۲؎۔
بے ہوشی یا نشہ کے بعد ہوش آیا اور اپنے بستر پر مذی پائی تو اس پر غسل نہیں ، بخلاف سونے والے کے۔ (ت)
(۲؎ الفتاوی البزازیۃ علی ہامش الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ الفصل الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۴/ ۱۰ )
التجنیس والمزید میں ہے: استیقظ فوجد علی فراشہ مذیا کان علیہ الغسل ان تذکر الاحتلام بالاجماع وان لم یتذکر فعند ابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی لان النوم مظنۃ الاحتلام فیحال علیہ ثم یحتمل انہ منی رق بالھواء اوالغذاء فاعتبرناہ منیااحتیاطا ۳؎ اھ من الفتح ملتقطا۔
بیدار ہوکر اپنے بستر پر مذی پائی تواس پر غسل ہو گا اگراحتلام یاد ہو تو بالاجماع-اور یاد نہ ہو تو امام ابو حنیفہ اورامام محمد رحمہمااللہ تعالٰی کے نزدیک -اس لئے کہ نیند گمان احتلام کی جگہ ہے تو اسے اسی کے حوالے کیا جائے گا پھر یہ احتمال بھی ہے کہ وہ منی تھی جو ہوا یا غذا سے رقیق ہوگئی ، توہم نے احتیاطاً اسے منی ہی مانا اھ من فتح القدیر ملتقطاً۔( ت)
(۳؎التجنیس والمزید کتاب الطہارات مسئلہ۱۰۳ ادارۃالقرآن کراچی ۲/ ۱۷۸ و ۱۷۹)
حلیہ میں مصفی سے ہے: ذکر فی الحصر والمختلف والفتاوی الظھیریۃ انہ اذا استیقظ فرأی مذیا وقد تذکر الاحتلام اولم یذکرہ فلاغسل علیہ عند ابی یوسف وقالا علیہ الغسل ۴؎۔
حصر، مختلف اور فتاوی ظہیریہ میں ذکر کیا ہے کہ جب بیدار ہوکرمذی دیکھے اور احتلام یاد ہے یا نہیں توامام ابو یوسف کے نزدیک اس پر غسل نہیں، اور طرفین نے فرمایا اس پر غسل ہے۔ (ت)
(۴؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
اُسی میں ہے: وجوب الغسل اذالم یتذکر حلما وتیقن انہ مذی اوشک فی انہ منی اومذی قول ابی حنیفۃ ومحمد خلافا لابی یوسف۱؎۔
جب خواب یاد نہ ہو اور یقین ہو کہ یہ مذی ہے یا شک ہو کہ منی ہے یا مذی تو اس صورت میں وجوبِ غسل کا حکم امام ابو حنیفہ وامام محمد کا قول ہے بخلاف امام ابویوسف کے، رحمہم اللہ تعالٰی۔ (ت)
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
اُسی میں ہے: اطلق الجم الغفیر انہ اذا استیقظ ووجدمذیایعنی ماصورتہ صورۃ المذی ولم یتذکر الاحتلام یجب علیہ الغسل عند ابی حنیفۃ ومحمد خلافا لابی یوسف۲؎۔
جم غفیر نے بتایا کہ جب بیدار ہو اور مذی پائے یعنی وہ جو مذی کی صورت میں ہے اور احتلام یاد نہیں تو امام ابو حنیفہ وامام محمدکے نزدیک اس پر غسل واجب ہے بخلاف امام ابویوسف کے۔(ت)
(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
خزانہ امام سمعانی میں برمزطح لشرح الطحاوی ہے: استیقظ فوجد علی فراشہ بللا فانکان مذیا فعند ابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالٰی یجب الغسل احتیاطاتذکرالاحتلام اولم یتذکر وقال ابو یوسف رحمہ اللّٰہ تعالٰی لاغسل علیہ حتی یتیقن بالاحتلام ۳؎۔
بیدار ہوکر اپنے بستر پر تری پائی اگر وہ مذی ہوتوامام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہمااللہ تعالٰی کے نزدیک احتیاطاً اس پر غسل واجب ہے ۔ احتلام یاد ہویانہ ہو۔اورامام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا:اس پر غسل نہیں یہاں تک کہ اسے احتلام کا یقین ہو ۔(ت)
(۳؎ خزانۃ المفتین کتاب الطہارۃ فصل فی الغسل (قلمی فوٹو) ۱/ ۵)
ارکان بحرالعلوم میں ہے: من موجبات الغسل وجدان المستیقظ البلل سواء کان منیااومذیاوسواء تذکرالاحتلام ام لا عند الامام ابی حنیفۃ والامام محمد وقال ابویوسف لالان الغسل لایجب بالاحتمال ولھماماروی الترمذی وابوداؤد عن ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا(فذکرالحدیث المذکور ثم قال)المعنی فی وجوب الغسل علی المستیقظ الواجد البلل ان النوم حالۃ غفلۃ ویتوجہ الی دفع الفضلات ویکون الذکرصلباشاھیاللجماع ولذایکثر فی النوم الاحتلام وخروج المنی یکون بشھوۃ غالبابخلاف حالۃ الیقظۃ فانہ یندرفیہ خروج المنی بلاتحریک فاذاوجدالمستیقظ البلل فالغالب انہ منی دفعہ الطبیعۃ بشھوۃ وان کان البلل رقیقا مثل الذی فالغالب فیہ انہ رق بحرارۃ البدن فاوجب الشارع فی البلل الغسل مطلقا لانہ مظنۃ الخروج بالشھوۃ فافھم ۱؎۔
غسل کے موجبات میں سے یہ ہے کہ بیدار ہونے والا تری پائے خواہ وہ منی ہو یا مذی اور خواہ اسے احتلام یاد ہویانہ ہوامام ابو حنیفہ وامام محمد کے نزدیک ۔اورامام ابو یوسف نے نفی کی اس لئے کہ محض احتمال سے غسل واجب نہیں ہوتا۔اور طرفین کی دلیل وہ حدیث ہے جو ترمذی و ابوداؤد نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت کی(اس کے بعد حدیثِ مذکور بیان کی ، پھر بیان فرمایا:) بیدار ہوکر تری پانے والے پر غسل واجب ہونے کا سبب یہ ہے کہ نیند غفلت اور فضلات دفع کرنے کی جانب توجہ کی حالت ہے اوراس وقت ذَکر میں سختی و شہوتِ جماع ہوتی ہے۔اسی لئے نیند میں احتلام اور شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا زیادہ ہوتا ہے۔بیداری کی حالت میں ایسا نہیں ، اس میں بغیر تحریک کے منی نکلنا نادر ہے ۔تو بیدار ہونے والا جب تری پائے تو غالب گمان یہی ہے کہ وہ منی ہے جسے طبیعت نے شہوت کے ساتھ دفع کیا ہے ۔ اورتری اگر مذی کی طرح رقیق ہوتو اس کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ وہ بدن کی حرارت سے رقیق ہوگئی ہے تو شارع نے تری میں مطلقاً غسل واجب کیا اس لئے کہ اس میں شہوت سے نکلنے کے گمان کا موقع ہے ۔فافہم (ت)
(۱؎رسائل الارکان الرسالۃالاولٰی فی الصّلوٰۃ فصل فی الغسل مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۲۳)
کبیری علی المنیہ میں قول مذکور متن کو عند ابی یوسف سے مقید کرکے وعندھما یجب۲؎ فرمایا ۔
(۲؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبرٰی سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۲ و ۴۳)
پھر محل دلیل میں افادہ کیا: قولھماوجوب الغسل اذاتیقن انہ مذی ولم یتذکرالاحتلام لان النوم حال ذھول وغفلۃ شدیدۃ یقع فیہ اشیاء فلا یشعربھافتیقن کون البلل مذیالایکاد یمکن الا باعتبارصورتہ و رقتہ وتلک الصورۃ کثیراما تکون للمنی بسبب بعض الاغذیۃ ونحوھا مما یوجب غلبۃ الرطوبۃ ورقۃ الاخلاط والفضلات وبسبب فعل الحرارۃ والھواء فوجوب الغسل ھوالوجہ ۱؎۔
طرفین کا قول کہ غسل واجب ہے جب یقین ہوکہ وہ مذی ہے اور احتلام یاد نہ ہو ، اس کی وجہ یہ ہے کہ نیند ذہول اور شدید غفلت کی حالت ہے اس میں بہت سی ایسی چیزیں واقع ہوجاتی ہیں جن کا سونے والے کو پتہ نہیں چلتا تو تری کے مذی ہونے کا یقین اس کی صورت اور رقت ہی کے اعتبار سے ہوپائے گا اور یہ صورت بارہا منی کی بھی ہوتی ہے جس کا سبب بعض غذائیں اور ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن سے رطوبت زیادہ ہوجاتی ہے ۔ خِلطیں اور فضلات رقیق ہوجاتے ہیں اور حرارت وہوا کے عمل سے بھی ایسا ہوتا ہے تو غسل کا وجوب ہی صحیح صورت ہے۔ (ت)
(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبرٰی سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۲ و ۴۳)
سنن دارمی وابو داؤد وترمذی وابن ماجہ میں ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے: قالت سئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم عن الرجل یجد البلل ولا یتذکر احتلاما قال صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یغتسل وعن الرجل الذی یری انہ قداحتلم ولا یجد بللا قال لاغسل علیہ ۲؎۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے استفتاء ہو اکہ آدمی تری پائے اور احتلام یاد نہیں ۔ فرمایا : نہائے عرض کی : احتلام یاد ہے اور تری نہ پائی ۔ فرمایا : اس پر غسل نہیں ۔
(۲؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب فی الرجل یجد البلۃ فی منامہ آفتاب عالم پریس لاہور۱/۳۱
سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب من احتلم ولم یر بللا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۴۵
سنن الترمذی ابواب الطہارۃ حدیث ۱۱۳ دارالفکر بیروت ۱/۱۶۴
سنن الدارمی باب من یری بللا حدیث ۷۷۱ دارالمحاسن الطباعۃ القاھرہ ۱/۱۶۱)
مولٰنا علی قاری شرح مشکوٰۃ میں یجد البلل کے نیچے لکھتے ہیں: منیا کان او مذیا ۳؎۔ (منی ہو یا مذی۔ت)
(۳؎مرقاۃ المفاتیح کتاب الطہارۃ باب الغسل تحت الحدیث ۴۴۱ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۲/۱۴۴)
لمعات التنقیح میں ہے: مذھب ابی حنیفۃ ومحمد انہ اذا رأی المستیقظ بللا منیا کان اومذیا وجب الغسل یتذکر الاحتلام اولم یتذکر قال الشُّمُنِّی قال ابو یوسف لاغسل اذارأی مذیا ولم یتذکر الاحتلام لان خروج المذی یوجب الوضوء لاالغسل ومتمسکہما ھذا الحدیث ۱؎۔
امام ابو حنیفہ وامام محمد کا مذہب یہ ہے کہ جب بیدار ہونے والا تری دیکھے ۔منی ہو یا مذی ۔ تو اس پر غسل واجب ہے احتلام یاد ہو یا نہ ہو۔ شمُنّی نے فرمایا:امام ابو یوسف کا قول ہے کہ اس صورت میں غسل نہیں جب مذی دیکھے اوراحتلام یاد نہ ہو اس لئے کہ مذی نکلنے سے وضو واجب ہوتا ہے غسل نہیں، اور طرفین کا استدلال اسی حدیث سے ہے۔ (ت)
(۱؎لمعات التنقیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب الطہارۃ باب فی الغسل حدیث ۴۴۱ المکتبۃ المعارف العلمیہ لاہور ۲/۱۱۳و۱۱۴)
فقیر کہتا ہے غفراللہ تعالٰی لہ فقہ وغیرہ ہر فن میں اختلاف اقوال بکثرت ہوتا ہے مگر اس رنگ کا اختلاف نادر ہے کہ ہر فریق یوں کلام فرماتا ہے گویا مسئلہ میں ایک یہی قول ہے قول دیگر واختلاف باہم کا اشعار تک نہیں کرتا گویا خلاف پر اطلاع ہی نہیں یہاں تک کہ جہاں ایک فریق کے شراح نے اپنے مشروح کا خلاف بھی کیا وہاں بھی ایرادیااصلاح کارنگ برتانہ یہ کہ مسئلہ خلافیہ ہے اور ہمارے نزدیک ارجح یہ ہے مثلاً عبارت مذکور تنویر الابصار میں کہ فریق دوم کے موافق تھی مدقق علائی نے یہ استثنا بڑھایا:
الا اذا علم انہ مذی اوشک انہ مذی اوودی اوکان ذکرہ منتشرا قبل النوم فلا غسل علیہ اتفاقا ۲؎۔
مگر جب یقین ہو کہ وہ مذی ہے ، یا شک ہوکہ مذی ہے یا ودی ، یا سونے سے پہلے ذَکر منتشر تھا تو بالاتفاق اس پر غسل نہیں۔ (ت)
(۲؎ الدرمختار شرح تنویر الابصار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۳۱)
علامہ طحطاوی نے فرمایا: یرد علی المصنف انہ فی صورۃ المذی مع عدم التذکر لایلزمہ الغسل وقدافادہ الشارح بقولہ الا اذا علم ۱؎۔
مصنف پر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ احتلام یادنہ ہونے کے ساتھ مذی کی صورت میں غسل لازم نہیں ہوتا ، شارح نے اپنے قول”مگر جب یقین ہو الخ”سے اس کا افادہ کیا۔(ت)
(۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الطہارۃ المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۹۲)
علامہ شامی نے فرمایا: اعلم ان الشارح قد اصلح عبارۃ المصنف فان قولہ اومذیایحتمل انہ رأی مذیا حقیقۃ بان علم انہ مذی اوصورۃ بان شک انہ مذی اوودی اوشک انہ مذی اومنی فاستثنی ماعدا الاخیر وصار قولہ اومذیا مفروضا فیما اذا شک انہ مذی اومنی فقط فھذہ الصورۃ یجب فیھا الغسل وان لم یتذکر الاحتلام لکن بقیت ھذہ صادقۃ بما اذاکان ذکرہ منتشرا قبل النوم اولا مع انہ اذاکان منتشرا لایجب الغسل فاستثناہ ایضا فصارجملۃ المستثنیات ثلث صور لایجب فیھا الغسل اتفاقا مع عدم تذکر الاحتلام الخ۲؎۔
واضح ہو کہ شارح نے عبارتِ مصنف کی اصلاح فرمائی ہے اس لئے کہ ان کے قول” اومذیا ” میں احتمال تھا کہ اس نے حقیقۃً مذی دیکھی ہو اس طرح کہ اسے یقین ہو کہ وہ مذی ہے۔یا صورۃً مذی دیکھی اس طرح کہ اسے شک ہو کہ وہ مذی ہے یا ودی ، یا شک ہو کہ وہ مذی ہے یا منی ۔ تو ماسوائے اخیر کا استثناء کردیا اور ان کا قول ”او مذیا”کی صورت مفروضہ ہوگئی جس میں صرف یہ شک ہے کہ مذی ہے یامنی۔ تواس صورت میں غسل واجب ہے اگرچہ احتلام یاد نہ ہو۔ لیکن یہ اس صورت پر بھی صادق ٹھہری جب سونے سے قبل ذَکر منتشر رہاہویانہ رہاہوحالاں کہ منتشر ہونے کی صورت میں غسل واجب نہیں ہوتا تو اس صورت کا بھی استثناء کردیا اب کل تین صورتیں مستثنٰی ہوگئیں جن میں احتلام یاد نہ ہونے کے ساتھ بالاتفاق غسل واجب نہیں ہوتا(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۱۰۹)
اور اسی کے مثل جامع الرموز علامہ قہستانی سے آتا ہے ان شاء اللہ تعالٰی ۔اُدھر صاحب منیۃ المصلی نے جو عبارت مذکورہ میں فریق اول کا قول اختیار کیا۔ علامہ ابراہیم حلبی نے غنیہ میں اس پر یوں فرمایا:
المصنف مشی علی قول ابی یوسف ولم ینبہ علیہ فیوھم انہ مجمع علیہ علی ان الفتوی علی قولھما ۱؎۔
مصنف کی مشی امام ابو یوسف کے قول پر ہے مگر اس پر تنبیہ نہ کی جس سے یہ وہم ہوتاہے کہ اس حکم پر تینوں ائمہ کا اجماع ہے ۔ علاوہ ازیں فتوٰی طرفین کے قول پر ہے۔ (ت)
(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبرٰی سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۳)
حالانکہ فریق اول کے طور پر ضروریہ قول مجمع علیہ ہی تھایوہیں حلیہ میں عبارت مذکورہ مصفی سے مبسوط ومحیط ومغنی کے نصوص نقل کرکے فرمایا: یفید عدم الوجوب بالاجماع فی المذی کمافی الودی ولیس کذلک بل ھو علی الخلاف کما صرح بہ نفس صاحب المصفی فی الکافی وقاضی خان فی فتاوٰیہ وغیرھمامن المشائخ ۲؎ اھ
اس کا مفاد یہ ہے کہ ودی کی طرح مذی میں بھی بالاجماع غسل واجب نہیں ، حالاں کہ ایسا نہیں بلکہ اس میں اختلاف ہے جیسا کہ خود صاحبِ مصفی نے کافی میں ، امام قاضی خاں نے اپنے فتاوٰی میں اور دیگر مشائخ نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ (ت)
(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃالمصلی )
بالجملہ یہ خلاف نوادر دہر سے ہے اور راہ تطبیق ہے یا ترجیح۔اگر ترجیح لیجئے فاقول وہ تو سردست بوجوہ قول دوم کیلئے حاضر۔
اولاً : اسی پر متون ہیں۔
ثانیا : اسی طرف اکثر ہیں وانما العمل بما علیہ الاکثر۳؎۔ (عمل اسی پر ہوتا ہے جس پر اکثر ہوں۔ت)
(۳؎ردالمحتار کتاب الصلوٰۃ باب صلوٰۃ المریض دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۵۱۰)
ثالثاً : اسی میں احتیاط بیشتر اور امر عبادات میں احتیاط کا لحاظ اوفر۔
رابعاً : اس کے اختیار فرمانے والوں کی جلالتِ شان جن میں امام اجل فقیہ ابو اللیث سمرقندی صاحب حصرو امام ملک العلما ابو بکر مسعود کا شانی وامام اجل نجم الدین عمر نسفی وامام علی بن محمد اسبیجابی ہردو استاذ امام برہان الدین صاحبِ ہدایہ وخودامام اجل صاحبِ تجنیس وہدایہ وامام ظہیر الدین محمد بخاری وامام فقیہ النفس قاضیخان وامام محقق علی الاطلاق وغیرہم ائمہ ترجیح وفتوے بکثرت ہیں اور قول اول کی طرف زیادہ متاخرین قریب العصر۔
اور اگر تطبیق کی طرف چلئے تو نظر ظاہر میں وہ توفیق حاضر جسے علامہ شامی (عــہ) رحمہ اللہ تعالٰی نے اختیار کیااور من وجہ اُس کاپتااور بعض کتب سے بھی چلتاہے کہ قولِ اوّل میں حقیقت مذی مراد ہے یعنی جب یقین یا غلبہ ظن سے کہ وہ بھی فقہیات میں مثل یقین ہے معلوم ہو کہ یہ تری حقیقۃً مذی ہے، اُس کا منی ہونا محتمل نہیں تو بالاجماع غسل نہ ہوگااور قول دوم میں صورت مذی مقصود ہے یعنی صورۃً مذی ہونے کا علم ویقین ہواور دربارہ حقیقت تردد کہ شاید منی ہو جو گرمی پاکر اس شکل پر ہوگئی۔عبارت درِمختار ابھی گزری،
(عــہ) قال رحمہ اللّٰہ تعالٰی تحت قول الماتن رؤیۃ مستیقظ منیااومذیا۲؎ قولہ اومذیا یقتضی انہ اذا علم مذی ولم یتذکر احتلامایجب الغسل وقدعلمت خلافہ وعبارۃ النقایۃ کعبارۃ المصنف واشارالقہستانی الی الجواب حیث فسرقولہ اومذیابقولہ ای شیا شک فیہ انہ منی اومذی فالمراد ماصورتہ المذی لاحقیقتہ اھ فلیس فیہ مخالفۃ لما تقدم فافھم۳؎ اھ فافادان المراد فی قول النفاۃ العلم بحقیقۃ المذی وفی قول الموجبین العلم بصورتہ فلا خلاف اھ منہ ۔
(عــہ) علامہ شامی رحمہ اللہ تعالٰی نے متن کی عبارت ”رؤیۃ مستیقظ منیا اومذیا” (بیدار ہونے والے کا منی یا مذی دیکھنا موجب غسل ہے)کے تحت فرمایا عبارتِ متن”او مذیا” کا تقاضا یہ ہے کہ جب اسے مذی ہونے کا یقین ہو اور احتلام یاد نہ ہوتو غسل واجب ہوا،اور تمہیں اس کے خلاف حکم معلوم ہوچکا، اور نقایہ کی عبارت بھی عبارتِ مصنف ہی کی طرح ہے اس کے تحت قہستانی نے جواب کی طر ف اشارہ کیا ۔ اس طرح کہ عبارتِ نقایہ ”اومذیا”کی تفسیر یہ کی یعنی ایسی چیز جس کے بارے میں شک ہو کہ وہ منی ہے یامذی ، تو مراد وہ ہے جو مذی کی صورت میں ہے وہ نہیں جو حقیقتاً مذی ہے اھ تو اس میں حکم سابق کی مخالفت نہیں فافہم اھ۔ اس سے علامہ شامی نے یہ افادہ کیا کہ وجوبِ غسل کی نفی کرنے والے حضرات کے قول میں حقیقت مذی کا یقین مراد ہے اور وجوبِ غسل قراردینے والوں کے قول میں صورت مذی کا یقین مراد ہے تو کوئی اختلاف نہیں ۱۲ منہ( ت)
(۲؎الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۱
۳؎ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۱۰)
عبارت نقایہ رؤیۃ المستیقظ المنی اوالمذی ۱؎ کی جامع الرموز میں یوں تفسیر کی:
(المنی) ای شیا یتیقن انہ منی (اوالمذی)ای شیایشک فیہ انہ منی اومذی تذکر الاحتلام اولا وھذا عندھماالخ ۱؎
(منی) یعنی ایسی چیز جس کے متعلق اس کا یقین یہ ہے کہ وہ منی ہے(یا مذی)یعنی ایسی چیز جس کے بارے میں اسے شک ہے کہ وہ منی ہے یا مذی۔احتلام یاد ہو یا نہ ہو۔ اور یہ طرفین کے نزدیک ہے الخ۔(ت)
(۱؎مختصر الوقایہ فی مسائل الھدایہ کتاب الطہارۃ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص۴
۱؎ جامع الرموز کتاب الطہارۃ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران ۱ /۴۳)
عبارت مذکورہ وقایہ پر ذخیرۃ العقبی میں لکھا: لایقال قد صرح فی جمیع المعتبرات بانہ لایوجب الغسل کالودی فما بال المصنف رحمہ اللّٰہ تعالٰی عدرؤیتہ من الموجبات لانا نقول الذی یحکم علیہ بعدم کونہ موجبا ھوالمذی یقینا والذی عدموجباھومایکون فی صورتہ مع احتمال کونہ منیارقیقاکمااشارالیہ الشارح رحمہ اللّٰہ تعالٰی بقولہ اماالمذی فلاحتمال کونہ الخ ۲؎
یہاں اعتراض ہوسکتاہے کہ تمام معتبر کتابوں میں تصریح ہے کہ ودی کی طرح مذی سے بھی غسل واجب نہیں ہوتا پھر کیا وجہ ہے کہ مصنف نے مذی دیکھنے کو موجباتِ غسل میں شمار کیا مگر اس کا جواب یہ ہے کہ جس مذی کے غیر موجب ہونے کا حکم ہے وہ مذی یقینی ہے اور جسے موجب غسل شمار کیاہے وہ ایسی تری ہے جو مذی کی صورت میں ہے اور اس کے بارے میں احتمال ہے کہ وہ رقیق منی ہو جیسا کہ اس طرف شارح رحمہ اللہ تعالٰی نے اپنے ا س قول سے اشارہ فرمایاکہ ”لیکن مذی تو اس لئے کہ احتمال ہے کہ ”الخ ۔(ت)
(۲؎ ذخیرۃ العقبی کتاب الطہارۃ المبحث فی موجبات الغسل المطبعۃ الاسلامیہ لاہور ۱/ ۱۳۰و۱۳۱)
اور تحقیق چاہئے توحقیقت امر وہ ہے جس کی طرف محقق علی الاطلاق نے اشارہ فرمایا یعنی قول اول ضرور فی نفسہٖ ایک ٹھیک بات ہے۔ واقعی جب ثابت ہوجائے کہ یہ تری فی الحقیقۃ مذی ہے تو بالضرورۃ منی ہونا محتمل نہ رہے گا اور جب منی کا احتمال تک نہیں تو با لاجماع عدم وجوب غسل میں کوئی شک نہیں مگر مانحن فیہ یعنی سوتے سے اٹھ کر تری دیکھنے میں یہ صورت کبھی موجود نہ ہوگی جب مذی دیکھی جائے گی منی ضرور محتمل رہے گی کہ بارہا بدن یا ہوا کی گرمی سے منی رقیق ہو کر شکل مذی ہوجاتی ہے تو بیدار ہوکر دیکھنے والے کو علم مذی ہمیشہ احتمال منی ہے اورشک نہیں کہ مذہب طرفین میں اُسے احتمال منی ہمیشہ موجب غسل ہے اگرچہ احتلام یاد نہ ہو تو اس صورت میں بھی امام اعظم وامام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہما کے نزدیک وجوبِ غسل لازم بالجملہ ترجیح لویا تطبیق چلو۔ بہرحال صحیح وثابت وہی قول دوم ہے وباللہ التوفیق۔
اقول : وبیان ذلک علی ماظھر للعبد الضعیف بحسن التوقیف من المولی اللطیف ان فـــــ الحکم بشیئ اماان یحتمل خلافہ احتمالاصحیحاناشئاعن دلیل غیر ساقط حتی یکون للقلب الیہ رکون اولا الاول ھو الظن باصطلاح الفقہ والثانی العلم ویشمل مااذالم یکن ثمہ تصورماللخلاف اصلا وھو الیقین بالمعنی الاخص اوکان تصورہ بمجردامکانہ فی حدنفسہ من دون ان یکون ھھنامثارلہ من دلیل مااصلا وھو الیقین بالمعنی الاعم اوکان عن دلیل ساقط مضمحل لایرکن الیہ القلب و ھو غالب الظن واکبرالرأی والیقین الفقہی لالتحاقۃ فیہ بالیقین ۔
اقول : اس کا بیان جیسا کہ رب لطیف کے حسن توقیف سے بندہ ضعیف پر منکشف ہوایہ ہے کہ کسی شئی کا حکم کرنے میں یا تو اس کے خلاف کا احتمال ہوگا۔ایسااحتمال صحیح جو دلیل غیر ساقط سے پیدا ہوا ہویہاں تک کہ اس کی جانب دل کاجھکاؤ ہو۔یا اس کے خلاف کا ایسا احتمال نہ ہوگا۔اول اصطلاح فقہ میں ظن کہلاتاہے ۔ اور ثانی کو علم و یقین کہا جاتاہے۔اس علم کے تحت تین صورتیں ہوتی ہیں(۱)خلاف کا وہاں بالکل کوئی تصور ہی نہ ہو۔یہ یقین بمعنی اخص ہے (۲)خلاف کا تصور محض اس کے فی نفسہٖ ممکن ہونے کی حد تک ہو،اس پر کسی طرح کی کوئی دلیل بالکل نہ ہویہ یقین بمعنی اعم ہے(۳)خلاف کا تصور ایسی کمزور ساقط دلیل سے پیدا ہو جس کی طرف دل کا جھکاؤ نہ ہو ۔ یہ غالب ظن ، اکبر رائے اور یقین فقہی کہلاتا ہے اس لئے کہ فقہ میں اسے یقین کا حکم حاصل ہے ۔
فــــ:فائدہ معانی العلم والظن والاحتمال فی اصطلاح الفقہ۔
وبہ علم ان فی الاحکام الفقھیۃ لاعبرۃ بالاحتمال المضمحل الساقط اصلاکما لاحاجۃ الی الیقین الجازم بشیئ من المعنیین کذلک ففی بناء الاحکام اذااطلقواالاحتمال فانما یریدون الاحتمال الصحیح وھو الناشیئ عن دلیل غیرساقط واذااطلقواالعلم فانمایعنون المعنی الاعم الشامل لاکبرالرأی ای مالایحتمل خلافہ احتمالاصحیحاوبہ علم ان غلبۃ الظن بشیئ واحتمال ضدہ لایمکن اجتماعھمابالمعنی المذکور۔
اسی سے معلوم ہواکہ فقہی احکام میں کمزور ساقط احتمال کا بالکل کوئی اعتبار نہیں ۔ جیسے اس میں ان دونوں معنوں میں یقین جازم کی بھی احتیاج نہیں ۔ تو فقہابنائے احکام میں جب لفظ احتمال بولتے ہیں تو اس سے احتمال صحیح مراد لیتے ہیں۔یہ وہی ہے جو کسی غیر ساقط دلیل سے پیدا ہوا ہو۔اور جب لفظ علم ویقین بولتے ہیں تو اس سے وہ معنی اعم مراد لیتے ہیں جو اکبر رائے کو بھی شامل ہے یعنی جس کے خلاف کا کوئی صحیح احتمال نہ ہو۔اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی شئی کا غلبہ ظن اور اس کی ضد کا احتمال بمعنی مذکور دونوں باتیں جمع نہیں ہوسکتیں۔
ثم ان الاشیاء ثلثۃ منی ومذی وودی نعنی بہ کل مالیس منیاولامذیا فصورۃ رؤیۃ البلل بالنظرالی تعلق العلم اوالاحتمال باحدالثلثۃ تتنوع الی سبع صور ثلث للعلم واربع فی الاحتمال وذلک ان یتردد المرئی بین منی ومذی اومنی وودی اومذی وودی اوبین الثلثۃ ومرجع الاربع الی ثنتین احتمال المنی مطلقاوھوفیماعدا الثالث واحتمال المذی خاصۃ ای یحتملہ لاالمنی فعادت السبع خمساوھی مع صورۃ عدم رؤیۃ البلل ست کمافعلنا۔
اب دیکھئے کہ تین چیزیں ہیں: منی، مذی،ودی۔ودی سے ہماری مراد ہر وہ تری جونہ منی ہو نہ مذی۔ تینوں میں سے کسی ایک سے علم یااحتمال متعلق ہونے پر نظر کرتے ہوئے تری کے دیکھنے کی صورت سات صورتوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ تین صورتیں علم کی ہیں اور چار احتمال کی۔وہ اس طرح کہ مرئی میں تردّد منی و مذی کے درمیان ہوگا یا منی و ودی یا مذی و ودی یا تینوں کے درمیان ہوگا۔ان چاروں کا مآل دو صورتیں ہیں۔ منی کا احتمال ہو مطلقاً ، یہ تیسری صورت کے ماسوا میں ہے ۔صرف مذی کااحتمال ہو منی کا احتمال نہ ہو تو اب (احتمال کی دوصورتیں اور یقین کی سابقہ تین صورتیں رہ گئیں ) سات صورتیں صرف پانچ ہو گئیں ان کے ساتھ تری نہ دیکھنے کی صورت کو بھی ملالیا جائے توکل چھ صورتیں ہوتی ہیں ۔جیسا کہ ہم نے یہی کیا ۔
وضابطہا ان تقول یکون المنی او المذی معلوما اومحتملا اولاولا۔ اقول وان اخذت الاحتمال بحیث یشمل العلم ای تسویغ شیئ سواء ساغ معہ ضدہ فکان احتمالا بالمعنی المعروف اولا فکان علما فحینئذ یرجع التخمیس تثلیثا بان یقال یحتمل منی اومذی اولاولا فیندرج علم المنی واحتمالہ مع مذی او ودی اومعھمافی الاول وعلم المذی واحتمالہ مع ودی فی الثانی وعلم الودی ھو الثالث۔
اسے بطورضا بطہ یوں کہیں کہ منی یامذی معلوم یا محتمل ہوگی یا یہ دونوں نہ معلوم ہوں گی نہ محتمل ۔( ت)اقول اور اگر احتمال کو اس طرح لیجئے کہ علم و یقین کو بھی شامل ہو ۔یعنی کسی شئی کا جواز ہو خواہ اس کے ساتھ اس کی ضد کابھی جواز ہو۔جواحتمال بمغی معروف ہے۔یا اس کی ضد کا کوئی جواز نہ ہو ،جو علم بمعنی معروف ہے ۔ تو اس تقدیر پر پانچ صورتیں صرف تین ہو جائیں گی ۔وہ اس طرح کہ ہم کہیں منی کا احتمال ہو گا یا مذی کا یا دونوں کا احتمال نہ ہوگا۔تو منی کا علم اور مذی یا ودی یا دونوں کے ساتھ اس کا احتمال شق اول میں مندرج ہوجائے گا۔اور مذی کا علم اور ودی کے ساتھ اس کا احتمال شق دوم میں مندرج ہوگا ۔اور ودی کا علم یہ تیسری شق ہے ۔
ثم ان لکل من الثلثۃ صورۃ وحقیقۃ۔ اقول ومعلوم قطعا ان العلم بحقیقۃ شیئ ینفی احتمال ضدہ الکلامی الکلامی والفقھی الفقھی وکذااحتمالہالایکون احتمالہ وان صحب احتمالہ بخلاف العلم بصورتہ اواحتمالہ فانہ لاینفی احتمال حقیقۃ ضدہ بل ربما یفیدہ اذا امکن ان تکون تلک الصورۃ لہ فحینئذ یجامع العلم الفقھی بل الکلا می بصورۃ شیئ الاحتمال الکلامی بل الفقھی لحقیقتہ اذا کان ناشئاعن دلیل غیر مضمحل ۔
پھر تینوں میں سے ہر ایک کی ایک صورت ہے اور ایک حقیقت ہے۔ (ت)اقول اور یہ قطعاً معلوم ہے کہ کسی شئی کی حقیقت کا یقین اس کی ضد کے احتمال کی نفی کرتا ہے ۔یقین کلامی احتمال کلامی کی نفی کرتاہے اور یقین فقہی احتمال فقہی کی ۔اسی طرح حقیقت شئی کااحتمال ضد شئی کااحتمال نہیں ہوتا اگر چہ اس کے احتمال کے ساتھ ہو ۔اور شئی کی صورت کے علم یااحتمال کا حکم اس کے بر خلاف ہے ۔اس لئے کہ وہ ضد شئی کی حقیقت کے احتمال کی نفی نہیں کرتا بلکہ بار ہااس کا افادہ کرتا ہے جب کہ یہ ممکن ہو کہ وہ صورت اس کی ضد ہو ۔ تو ایسی حالت میں کسی شئی کی صورت کا یقین فقہی بلکہ کلامی بھی اس کی ضد کی حقیقت کے احتمال کلامی بلکہ فقہی کے ساتھ بھی جمع ہوتاہے جب کہ وہ احتمال کسی دلیل غیر مضمحل سے پیدا ہو ۔
اذا وعیت ھذا۔فاقول لامساغ لان تؤخذ الصورھھناباعتبارتعلق العلم بحقیقۃ الشیئ عینا لوجوہ یجمعھا۔اولھافـــ وھوانہ یبطل مااجمعواعلیہ من وجوب الغسل بعلم المذی عند تذکرالحلم کیف واذاعلم انہ مذی حقیقۃ لم یحتمل کونہ منیااصلا واذا لم یحتمل کونہ منیاامتنع ان یوجب غسلا ولوتذکرالف حلم لماعلم من الشرع ضرورۃ ان لاماء موجبا للماء الا المنی فیکون ایجابہ بماعلم انہ مذی حقیقۃ تشریعاجدیداوالعیاذ باللّٰہ تعالی اما تراھم مفصحین بانالانوجب الغسل بالمذی بل قدیرق المنی فیری کالمذی کماتقدم فقد ابانوا ان لیس المراد العلم بحقیقۃ المذی والا لم تحتمل المنویۃ لما علمت۔
جب یہ ذہن نشین ہو گیا تو میں کہتاہوں اس کی گنجائش نہیں کہ یہاں مذ کورہ صورتیں معین طور پر شئی کی حقیقت سے علم متعلق ہونے کے اعتبار سے لی جائیں ۔اس کی چند وجہیں ہیں جن کی جامع وجہ اول ہے وہ یہ کہ اس سے وہ باطل ہوجائیگا جس پر اجماع ہے کہ خواب یا دہونے کی صورت میں مذی کے علم ویقین سے غسل واجب ہو تاہے۔یہ کیسے ہو سکے گا جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ حقیقۃ مذی ہے تو اس کے منی ہونے کا احتمال بالکل نہ رہا ۔اور جب اس کے منی ہو نے کا احتمال نہ رہا تو ناممکن ہے کہ اس سے غسل واجب ہواگر چہ اسے ہزار خواب یاد ہوں اس لئے کہ شرع سے ضروری طور پر معلوم ہے کہ سوامنی کے کوئی پانی ، غسل واجب نہیں کرتا ۔توا سے جس پانی کے حقیقۃ مذی ہونے کا یقین ہو گیا اس سے غسل واجب کرنا ایک نئی شریعت نکا لنا ہوگا ، والعیاذ باللہ تعالٰی ۔دیکھتے نہیں کہ علماء صاف لکھتے ہیں کہ ہم مذی سے غسل واجب نہیں کرتے بلکہ بات یہ ہے کہ کبھی منی رقیق ہو کر مذی کی طرح دکھائی دیتی ہے ۔جیسا کہ گزرا۔ان الفاظ سے ان حضرات نے واضح کردیا کہ حقیقت مذی کا یقین وعلم مراد نہیں ، ورنہ منی ہونے کااحتمال ہی نہ رہتا ۔وجہ ابھی معلوم ہوئی ۔
فــــ:معروضہ علی العلامۃ ش۔
فاقول : وباللّٰہ التوفیق یظھر لی ان الحق مع المحقق حیث اطلق وبیانہ ان المذی وان باین المنی صدقا لکنہ یجامع تحققا فرب مذی معہ منی کما ان کل منی معہ مذی وغلبۃ ظن المذویۃ بعد النوم المانع لاحاطۃ علم المستیقظ بحقیقۃ البلۃ عینا ان کان فانما یکون لاحدی ثلث صورۃ المذی اووجود اسبابہ المفضیۃ الیہ غالبا اورؤیۃ اٰثارہ المخصوصۃ بہ ولا شیئ منھاینفی احتمال المنی ۔
فاقول: وباللہ التوفیق،مجھے یہ سمجھ میں آتاہے کہ حق حضرت محقق علی الا طلاق کے ساتھ ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ مذی کامصداق اگر چہ منی کے مباین ہے مگر تحقق میں مذی، منی کے ساتھ مجتمع ہوتی ہے۔ بہت سی مذی وہ ہے جس کے ساتھ منی بھی ہوتی ہے جیسے ہر منی کے ساتھ مذی ہوتی ہے۔اور نیند جو اس سے مانع ہے کہ بیدار ہونے والے کا علم تری کی حقیقت کا معین طور پر احاطہ کرسکے اس نیند کے بعدمذی ہونے کا غلبہ ظن اگر ہوگا تو تین چیزوں میں سے کسی ایک کے سبب ہوگا(۱) مذی کی صورت (۲)ان اسباب کا وجود جن کے نتیجے میں عموما مذی نکلتی ہے (۳)ان آثار کامشاہدہ جو مذی ہی کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ان تینوں میں سے کوئی چیز بھی احتمال منی کی نفی نہیں کرتی ۔
اماالاول فظاھر فانہ لاینافی کون المرئی کلہ منیا فضلا عن نفیہ وجود منی ھناک وذلک لان الصورۃ ربما تکون لہ۔
اول کاحال توظاہر ہے۔ اس لئے مذی کی صورت ہونا اس کے منافی نہیں کہ جو نگاہ کے سامنے ہے کل کی کل منی ہی ہو وہاں ذرا سی منی کے وجود کی بھی نفی کرنا تو دور کی بات ہے اس لئے کہ یہ صورت بارہا منی کی بھی ہوتی ہے ۔
واما الثانی فلانہ انما یقتضی غلبۃ الظن بان فی المرئی مذیا لا ان لیس فیہ منی اصلا کیف والاسباب المفضیۃ الی الامذاء غالبا اسباب داعیۃ الی الامناء فتحققہا لاینفی المنویۃ بل ھو من مقدماتہا ۔
دوم اس لئے کہ اس کا تقاضاصرف اس قدر ہے کہ شیئ مرئی میں کچھ مذی ہو،اس کا تقاضا یہ نہیں کہ اس میں منی بالکل ہی نہ ہو، یہ ہو بھی کیسے جب کہ وہ اسباب جو عام طور سے مذی نکلنے کا سبب ہوتے ہیں وہ منی نکلنے کے داعی اسباب بھی ہوتے ہیں ۔ تو ان اسباب کا تحقق منی ہونے کی نفی نہیں کرتا بلکہ وہ تو اس کے مقدمات سے ہے۔
واما الثالث فلانہ ان قضی فبان غالب المرئی مذی لاان لیس فیہ مزج منی فان الممزوج یکون فیہ لزوجۃ ورقۃ والقلۃ ایضا لاتنفی المنی لان الکثرۃ لاتلزمہ الا تری ان الشرع اوجب الغسل بایلاج الحشفۃ فقط وان اخرجہا من فورہ ولم یرعلیہا بلۃ اصلا سوی نداوۃ من رطوبۃ الفرج وماھو الا لان الا یلاج مظنۃ خروج المنی وربمایکون قلیلا لایحس بہ حتی انہ لم ینظرفیہ الی ان المنی اذانزل بشہوۃ یحس بہ المستیقظ لانہ یدفق ویلذذ ویحرک العضو بل یحس نازلا وانمالم ینظر الیہ لان ھذہ الاثار لکمال الانزال لا لخروج قطرہ بشھوۃ ربما لایتنبہ لھا لشغل البال اذ ذاک بمطلوب خطیر فثبت ان شیا من صورۃ المذی واسبابہ وآثارہ لاینفی احتمال المنویۃ اصلا ثم النوم من اسباب الاحتلام لانہ یوجب الشھوۃ والانتشار وتوجہ الطبع الی دفع الفضلات و وجود بلۃ لاتخرج الابشھوۃ اعنی منیا اومذیا مؤذن بحصول قوۃ فی الانتشاروالشہوۃ الی ان ادت الی اندفاع تلک الفضلات فانھا لا تندفع بکل شھوۃ وانتشارمالم یمتد او یشتد۔
سوم اس لئے کہ اس کا فیصلہ اگر ہوگا تو صرف اس قدر کہ شیئ مرئی کا اکثر حصہ مذی ہے، یہ نہیں کہ اس میں منی کی آمیزش بھی نہیں۔ اس لئے کہ اس امتزاج یا فتہ چیز میں لزوجت(چسپیدگی) اور رقت(پتلا پن) ہوتی ہے۔ اور کم ہونا بھی منی کی نفی نہیں کرتا اس لئے کہ اس کے لئے زیادہ ہونا کوئی ضروری نہیں ۔ دیکھئے شریعت نے وقتِ جماع صرف مقدارِ حشفہ داخل کرنے پر غسل واجب کردیاہے اگرچہ فوراًنکال لیا ہو اور اس پر کوئی تری نظربھی نہ آتی ہو سوا اس کے کہ رطوبت فرج کی کچھ نمی ہو۔ اس کا سبب یہی ہے کہ داخل کرناخروجِ منی کا مظنّہ ہے(گمان غالب کا محل ہے)اور منی بعض اوقات اتنی کم ہوتی ہے کہ اس کا احساس نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس پر بھی نظر نہ فرمائی کہ منی جب شہوت سے نکلے گی تو بیدار شخص کو اس کااحساس ہوگا کیونکہ وہ جست کے ساتھ نکلے گی، لذت پیدا کرے گی، عضو کو حرکت دے گی بلکہ نکلتی ہوتی محسوس ہوگی۔اس پر نظر اسی لئے نہ فرمائی کہ یہ آثار کمال انزال کے ہیں۔ شہوت کے ساتھ ایک قطرہ نکلنے کے آثار نہیں جس کابسا اوقات اسے پتہ بھی نہ چلے گا کیونکہ اس وقت اس کا دل کسی خاص مطلوب میں مشغول ہوگا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مذی کی صورت(۱)، اس کے(۲) اسباب اور اس کے(۳) آثار میں سے کوئی چیز بھی منی ہونے کے احتمال کی بالکل نفی نہیں کرتی۔پھر نیند احتلام کے اسباب میں سے ہے اس لئے کہ وہ شہوت ، انتشارِ آلہ اور دفع فضلات کی طرف طبیعت کی توجہ کا باعث ہوتی ہے۔ اور کسی بھی ایسی تری کا وجود جو شہوت سے نکلتی ہے۔یعنی منی یا مذی اس بات کی خبر دیتا ہے کہ انتشار اور شہوت میں زورپیدا ہو جس کے نتیجے میں ان فضلات کا دفعیہ ظہور پذیر ہوا کیوں کہ یہ فضلات ہر شہوت اور انتشار سے دفع نہیں ہوتے جب تک کہ کچھ مدت و شدت کا وجود نہ ہو۔
فباجتماع ھذہ الوجوہ لا یکون احتمال المنی ضعیفامضمحلا بل ناشئا عن دلیل لایطرحہ القلب فیعمل بہ فی الاحتیاط فظھر ان علم المستیقظ بصورۃ المذی لایکون علما بحقیقتہ ولافقھیا ولا عراء لہ عن احتمال صحیح للمنویۃ فوجب ایجاب الغسل کما فی التذکر۔
تو ان وجہوں کے اجتماع کے پیشِ نظر احتمال منی ضعیف مضمحل نہیں بلکہ وہ ایسی دلیل سے پیدا ہے جسے قلب نظر انداز نہیں کرتا تو حالت احتیاط میں اس پر عمل ہوگا۔اس تفصیل سے واضح ہو ا کہ بیدار ہونے والے کو صورت مذی کا یقین نہیں یقین فقہی بھی نہیں اوریہ یقین،منی ہونے کے احتمال صحیح سے جدا نہیں ہو سکتا تو غسل واجب قرار دیناضروری ہے جیسے احتلام یاد ہونے کی صورت میں ضروری ہے۔یہ بحث تمام ہوئی۔
ھذا ولنقررالمقام بتوفیق العلام بحیث یبین العلل لجمیع الاحکام فی تلک الصور الست والاقسام۔فاقول النوم سبب ضعیف للامناء لعدم غلبۃ الافضاء بل غلبۃ عدم الافضاء بدلیل الحدیث المذکور وتجربۃ الدھور فلربما ینام الرجل شھور الا یحتلم وکثرتہ یعد من الامراض ۔
اب ہم رب علام کی توفیق سے اس مقام کی تقریر اس انداز سے کریں کہ ان شش گانہ صورتوں اور قسموں میں تمام احکام کی علّتیں عیاں ہوجائیں۔ فاقول نیند منی نکلنے کا سبب ضعیف ہے۔ اس لئے کہ نیند کا خروج منی تک موصل ہونا غالب واکثر نہیں ہے،بلکہ موصل نہ ہونا غالب واکثر ہے جس کی دلیل وہ حدیث ہے جو ذکر ہوئی اور مدتوں کا تجربہ بھی اس پر شاہد ہے۔ بہت ایسا ہوتا ہے کہ آدمی مہینوں سوتا رہتا ہے اوراسے احتلام نہیں ہوتا۔اور کثرتِ احتلام کا شمار امراض میں ہوتا ہے۔
ومامر عن الفتح عن التجنیس انہ مظنۃ الاحتلام ومثلہ فی الغنیۃ وغیرھا فلیس بمعنی المظنۃ المصطلح والالدار الحکم علیہ و وجب الغسل بعلم الودی بل بمجرد النوم کالوضوء لکونہ مظنۃ خروج الریح ۔
اورفتح القدیرمیں تجنیس کے حوالے سے جو منقول ہے کہ:نیندمظنہ احتلام ہے۔اور اسی کے مثل غنیہ وغیرہا میں بھی ہے تو وہاں مظنہ اصطلاحی معنی میں نہیں ورنہ اسی پر حکم کا مدار ہوجاتا۔ اور ودی کے علم ویقین بلکہ محض نیند ہی سے غسل واجب ہوجاتاجیسے نیند کے خروج ریح کا مظنہ ہونے کی وجہ سے (محض نیند ہی سے )وضو واجب ہو جاتا ہے ۔
اما ما مر عن الارکان الاربعۃ انہ یکثر فی النوم الاحتلام وخروج المنی بشھوۃ غالبا فمرادہ الکثرۃ الاضافیۃ بالنظر الی الیقظۃ بدلیل قولہ”بخلاف حالۃ الیقظۃ فانہ یندر فیہ خروج المنی بلاتحریک ۱؎۔
اوروہ جو ارکان ِاربعہ کے حوالے سے نقل ہوا کہ نیند میں احتلام اور عام طور سے شہوت سے منی کا نکلنا بکثرت ہوتا ہے تو وہاں بیدار ی کے مقابلہ میں اضافی کثرت مراد ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد ہی لکھا ہے:بخلاف حالت بیداری کے،کہ اس میں بغیر تحریک کے منی کا نکلنا نادر ہے۔
(۱؎ رسائل الارکان الرسالۃ الاولٰی فی الصلوٰۃ بیان موجبات الغسل مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۲۳)
فان قلت الیس قال قبلہ ان النوم حالۃ غفلۃ ویتوجہ الی دفع الفضلات ویکون الذکر صلبا شاھیا للجماع ولذا یکثر ۱؎ الخ ومعلوم ان ھذا الذی فرع کثرۃ الاحتلام علیہ فالنوم سبب مفض الیہ۔
اگر یہ کہو کہ کیا اس سے پہلے یہ نہیں فرمایا ہے کہ:”نیند غفلت اور فضلات دفع کرنے کی جانب توجہ کی حالت ہے اور اس وقت ذکر میں سختی وشہوتِ جماع ہوتی ہے اسی لئے نیند میں احتلام اور شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا زیادہ ہوتا ہے”۔او ر معلوم ہے کہ جس امر پر کثرتِ احتلام کو متفرع قرار دیا ہے، نیند اس کا سبب موصل ہے۔
(۱؎ رسائل الارکان الرسالۃ الاولٰی فی الصلوٰۃ،بیان موجبات الغسل مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۲۳)
قلت نعم ھو مفض الی الانتشار بید ان الانتشار غیر مفض الی الامناء وقد نص فی الحلیۃ انہ اذا لم یکن الرجل مذاء فالانتشار لایکون مظنۃ تلک البلۃ ۲؎ اھ فاذا لم یفض الی الامذاء فکیف بالامناء وبالجملۃ فالمفضی الی السبب البعید لایکون مفضیا الی المسبب فما النوم سبب بالامناء الا من وراء وراء وراء فھو سبب بعید وحصول شھوۃ توجب انتشارا یمتد او یشتد حتی یوجب نزول بلۃ لاتنبعث الا عن شھوۃ سبب وسیط والاحتلام اعنی اندفاق المنی فی النوم وانفصالہ عن مقرہ بشھوۃ سبب قریب۔
میں کہوں گاہاں نیند انتشارِ آلہ کی جانب موصل ہے مگر یہ ہے کہ انتشار،خروجِ منی تک موصل نہیں- حلیہ میں تو تصریح موجود ہے کہ جب مرد کثیر المذی نہ ہو تو انتشار اُس تری کا مظنہ نہیں۔ تو انتشار جب خروجِ منی( مذی)تک موصل نہیں تو خروجِ منی تک موصل کیسے ہوگا؟ مختصر یہ کہ سبب بعید تک جو موصل ہو وہ مسبّب تک موصل نہیں ہوتا۔ تو نیند خروج منی کا سبب اگر ہے تو بہت دور دراز فاصلے سے۔ لہذا یہ سبب بعید ہے۔ اور اس شہوت کا حصول جو ایسے انتشار مدیدیا شدید کی موجب ہوجو اس تری کے نکلنے کا موجب ہو جائے جو بغیر شہوت کے اپنی جگہ سے نہیں ابھرتی،سبب وسیط ہے۔اور احتلام یعنی نیند کی حالت میں منی کا جست کرنا اور اپنے مستقر سے شہوت کے ساتھ الگ ہونا سبب قریب ہے۔
(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
ولیس من الاسباب مفضیا قطعا لایمکن التخلف عنہ عادۃ فلربما یری الانسان حلما ویکون من اضغاث احلام لا اثر لہ فی الخارج۔
اور ان اسباب میں سے کوئی بھی سبب ایسا موصلِ قطعی نہیں جس سے عادۃً تخلف ممکن نہ ہو کیونکہ بہت ایسا ہوتا ہے کہ انسان خواب دیکھتا ہے اور وہ بس ایک پر اگندہ خواب ثابت ہوتاہے، جس کا خارج میں کوئی اثر رونما نہیں ہوتا۔
فاذا لم یربلل یحتمل انبعاثہ عن شہوۃ لم یجب الغسل وان تذکر الحلم لعدم الموجب قطعا ولا احتمالا فیشمل ما اذا لم یر بلل اصلا او رئ ودی ای صورۃ لاتحتمل منیا ولا مذیا۔
(۱۔۲) اس لئے جب وہ تری نظر نہ آئے جس کے شہوت سے نکلنے کا احتمال ہوتا ہے تو غسل واجب نہ ہوگا اگر چہ خواب یا د ہو اس لئے کہ وہ چیزہی موجود نہیں جو قطعاً یا احتمالاً موجب غسل ہوتی ہے۔ یہ حکم اس صورت کو بھی شامل ہے جب کوئی تری بالکل ہی نہ دیکھی جائے اور اس صورت کو بھی جب ودی دیکھی جائے یعنی ایسی صورت جو منی یا مذی کسی کا احتمال نہیں رکھتی۔
واذا رئ بلل یعلم او یحتمل انبعاثہ عن شہوۃ وان کان علی صورۃ منی وجب مطلقا للعلم بنزول المنی لان صورتہ لاتکون لغیرہ والنوم سبب الشھوۃ المفضی الیھا غالبا فیحال علیہ فیجب الغسل وفاقا ولا ینظر الی احتمال انفصالہ عندنا او خروجہ عندالامام ابی یوسف لا عن شھوۃ لندرتہ وقد انعقد سبب الشھوۃ فلا اغماض عنہ ۔
(۳) اور جب ایسی تری نظر آئے جس کے شہوت کے ساتھ اپنی جگہ سے ابھرنے کا یقین یا احتمال ہوتو اگر وہ منی کی صورت میں ہے تو مطلقاً غسل واجب ہے اس لئے کہ منی کے نکلنے کا یقین ہے کیونکہ اس کی صورت کسی اور کی نہیں ہوتی۔اور نیند شہوت کا سبب ہے جو اکثر اس تک موصل ہوتاہے۔ تو اس منی کو اسی سے وابستہ کردیا جائے گا۔ اور اس صورت میں بالاتفاق غسل واجب ہوگا۔اور اس احتمال پر نظر نہ ہوگی کہ اس کا اپنی جگہ سے انفصال ۔ہمارے نزدیک۔یا عضو سے اس کا خروج۔امام ابویوسف کے نزدیک-بغیر شہوت کے ہوا ہو کیوں کہ ایسا ہونا نادر ہے۔اور شہوت کا سبب پایا جا چکا ہے تو اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
وکذا ان کان مراٰہ مترددا بین منی و ودی لانھما احتملا من جہۃ ما یری وقد ترجح جانب المنی بالنوم الموجب للراحۃ واللذۃ وھیجان الحرارۃ والشھوۃ والانتشار ورب شیئ صلح مؤید او ان لم یصلح مثبتا فوجب عندھما احتیاطا وان لم یتذکراما ان تذکر فقد ترجح باقوی مرجح فوجب اجماعا۔
(۴)یوں ہی اگر شکل مرئی میں منی اور ودی کے درمیان تردّد ہو۔اس لئے کہ دونوں کا احتمال شکل مرئی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اور جانب منی کو نیند کی وجہ سے ترجیح حاصل ہے کیونکہ نیند راحت ولذت کا اور حرارت وشہوت کے ہیجان اور انتشار کا باعث ہے۔اور بہت ایسی چیـزیں ہوتی ہیں جو مؤید بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں اگرچہ مثبت بننے کے قابل نہ ہوں۔ تو طرفین کے نزدیک احتیاطاًغسل واجب ہوا اگرچہ احتلام یادنہ ہو۔ اور اگر احتلام یاد ہو توجانب منی کو زیادہ قوی مرجح سے ترجیح مل جاتی ہے اس لئے اس صورت میں اجماعاًغسل واجب ہے۔
وکذا ان کان علی صورۃ مترددۃ بین منی ومذی بالاولی للعلم بان البلۃ ھی التی تنبعث عن شھوۃ وصورۃ المذی نفسھا تحتمل المنویۃ فیکون کونہ مذیا مجردا احتمالا فی احتمال فلا یعتبر ویجب الغسل وان لم یتذکر فان تذکر وافق الثانی ایضا وکان الاجماع۔
(۵)اسی طرح اگر اس شکل مرئی میں منی اور مذی کے درمیان تردّد ہو تو بدرجہ اولٰی غسل واجب ہے۔ اس لئے کہ معلوم ہے کہ یہ تری وہی ہے جو شہوت سے ابھرتی اورنکلتی ہے اور خود مذی کی صورت منی ہونے کا احتمال رکھتی ہے تو اس کامذی ہونا محض احتمال دراحتمال ہے اس لئے قابل اعتبار نہیں۔ اور غسل واجب ہے اگرچہ خواب یاد نہ ہو۔ اگرخواب بھی یاد ہو توامام ثانی بھی موافقت فرماتے ہیں اور بالاجماع غسل واجب ہوتاہے۔
وان کان علی صورۃ مذی فقد علم حصول بلۃ عن شھوۃ وعلمت ان صورۃ المذی لاتنفک عن احتمال المنویۃ وقد تأید بحصول السبب الوسیط وان لم یتذکر فکان احتمالا صحیحا یوجب الاحتیاط اما اذا تذکر فقد تأید بالسبب الاقوی فوجب اجماعا۔
(۶) اور اگر وہ مذی کی صورت میں ہو تو اتنا یقینی ہے کہ یہ ایسی تری ہے جو شہوت سے نکلی ہے۔اور یہ بھی واضح ہوچکا کہ مذی کی صورت، منی ہونے کے احتمال سے جدا نہیں ہوتی۔اور اس احتمال کو سبب وسیط کے حصول سے بھی تائید مل گئی ہے اگرچہ خواب اسے یاد نہیں۔ تو یہ ایسا احتمال صحیح ہے جو احتیاط لازم کرتاہے۔ اور خواب بھی یاد ہوتو اسے سبب اقوی سے تائید مل جاتی ہے لہذا اجماعاً غسل واجب ہوتا ہے۔
وان تردد مراٰہ بین مذی و ودی فلم یتحقق حصول تلک البلۃ التی لاتخرج عادۃ الا عن شھوۃ فکان احتمال المنی احتمالا علی احتمال فلم یعتبر اجماعا مالم یتأکد بالسبب الی قوی بتذکر الاحتلام۔
(۷) اور اگر شکل مرئی میں مذی و ودی کے درمیا ن تردّد ہو تو اس تری کا حصول متحقق نہ ہو ا جو عادۃ بغیر شہوت کے نہیں نکلتی۔ایسی حالت میں منی کا احتمال،احتمال دراحتمال ہے۔اس لئے بالا جماع اس کا اعتبار نہیں جب تک کہ سبب اقوی احتلام یاد ہونے سے وہ مؤکد نہ ہوجائے۔
فعلم ان الماشی علی الجادۃ قول الموجبین وبالجملۃ قول النفاۃ ان علم المذی بحیث لایحتمل المنی لم یجب الغسل قول صحیح فی نفسہ اذ لا غسل الا بالمنی ولا عبرۃ بمجرد سببیۃ النوم لما علمت انہ سبب ضعیف لاینھض موجبا لکن الشان فی تحقق مقدم ھذہ الشرطیۃ فی صورۃ التیقظ من النوم لما حققنا ان علم الذی فیہ سواء کان عن صورۃ اوسبب او اثر لاینفک عن احتمال المنی فقول الموجبین ان علم المذی ای واحتمل المنی وجب الغسل شرطیۃ قد علم لمقدمھا صحۃ الوقوع فعندہ یؤل التعلیق الی التنجیز وقول النفاۃ شرطیۃ لایصح وقوع مقدمھا فلا نزول لجزائھا فی شیئ من الصور فلانتفاء الشرط یکون الواقع ابدا نفی الجزاء ای سلب عدم وجوب الغسل فیحصل الوجوب وھو المطلوب ھکذا ینبغی التحقیق باذن من بیدہ وحدہ التوفیق۔
اس سے معلوم ہوا کہ راہ عام پر چلنے والا ان ہی حضرات کا قول ہے جو غسل کا وجوب قرار دیتے ہیں۔ اورنفی کرنے والے حضرات کا یہ قول کہ”اگرمذی کا ایسا یقین ہو کہ منی کا احتمال نہ ہو تو غسل واجب نہیں” اگرچہ فی نفسہ ایک صحیح قول ہے اس لئے کہ غسل بغیر منی کے واجب نہیں ہوتا اور نیند کے محض ایک سبب ہونے کا اعتبار نہیں کیونکہ واضح ہوچکاکہ وہ سبب ضعیف ہے جو موجب نہیں بن سکتا۔لیکن نیند سے بیدار ہونے کی صورت میں معاملہ اس قضیہ شرطیہ کے مقدم (اگر ایسا یقین ہو کہ احتمال منی نہ ہوسکے) کے تحقق اور ثبوت کا ہے۔ اس لئے کہ ہم تحقیق کر آئے کہ اس صورت میں مذی کا یقین خواہ صورت کی وجہ سے ہو یا سبب سے یا اثر سے ، وہ احتمال منی سے جدا نہیں ہوسکتا۔ تو وجوب غسل قراردینے والوں کا یہ قول” اگر مذی کا علم ہو۔ یعنی احتمالِ منی بھی ہو۔ تو غسل واجب ہے” ایسا شرطیہ ہے جس کے مقدم (اگرمذی کا علم مع احتمال منی ہو)کے وقوع کی صحت معلوم ہے تو بوقت وقوع یہ شرط وتعلیق، تنجیزو تنفیذ کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔اور اہل نفی کا قول ایسا شرطیہ ہے جس کے مقدم کو صحت و قوع حاصل نہیں تو اس شرطیہ کی جزا(غسل واجب نہیں) کسی بھی صورت میں وقوع نہیں پاتی۔تو انتفائے شرط کے باعث ہمیشہ نفی جزا ہی واقع ہوتی ہے نفی جزا یعنی عدم وجوب غسل کا سلب ہوتا ہے تو وجوب غسل حاصل آتا ہے اور وہی مطلوب ہے ۔ اسی طرح تحقیق ہونی چاہئے اس کے اذن سے جس کے سوا اور کسی کی قدرت میں توفیق نہیں۔
ولا باس بایراد تنبیہات عدیدۃ نافعۃ مفیدۃ :
اب یہاں چند نفع بخش مفید تنبیہات لانے میں حرج نہیں:
الاول بما قررنا علم ان من فسر علم الذی بالشک فی المنی والمذی کما فعل القھستانی وغیرہ ان اراد الشک فی الحقیقۃ دون الصورۃ لم یزد ولم یحاول بل اتی بما ھو المراد ومرجع المفاد لکن المدقق العلائی صرح انہ اذا علم المذی فلا غسل علیہ ۱؎
پہلی تنبیہ:ہماری تقریر سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے”علم مذی” کی تفسیر منی و مذی میں شک ہونے سے کی ہے۔ جیسا کہ قہستانی وغیرہ نے کیا ہے۔ اگر ان کی مراد یہ ہے کہ حقیقت میں شک ہے، صورت میں نہیں، تو کوئی اضافہ نہ کیا، نہ ہی اس کا ارادہ کیا، بلکہ وہی ذکر کیا جو مراد اورمآلِ مفاد ہے۔لیکن مدقق علائی نے تصریح کردی کہ جب مذی کا یقین ہو تو غسل نہیں ۔
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۱)
وزاد القھستانی ففرع علی تفسیرہ العلم بالشک انہ لو تیقن بالمذی لم یجب تذکر الاحتلام ام لا ۱؎ الخ فعن فـــ۱ھذا دخل علیھما الا یراد وظھر ان تفسیر العلائی لیس اصلاحا للمتن کمافـــ۲ زعم العلامۃ الشامی بل تحویل لہ عن الصلاح اما یوسف چلپی فلم ار فی کلامہما فاحببت ان لایعد اسمہ فی الفریق الاول۔
اور قہستانی نے علم کی تفسیر شک سے کرنے کے بعد اس پر اس تفریع کا اضافہ کردیا کہ اگر مذی کا یقین ہو تو غسل واجب نہیں،احتلام یاد ہو یا نہ ہوالخ۔ اسی لئے ان دونوں حـضرات پراعتراض وارد ہوا اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ مدقق علائی کی تفسیرسے متن کی اصلاح نہ ہوئی۔ جیسا کہ علامہ شامی نے اسے اصلاح سمجھا۔بلکہ یہ تو اسے صلاح و درستی سے منحرف کرنا ہوا۔ لیکن میں نے علامہ یوسف چلپی کے کلام میں ایسی کوئی بات نہ دیکھی جیسی ان دونوں حضرات کے کلام میں ہے اس لئے میں نے یہ پسند کیاکہ ان کا نام فریق اول میں شمار نہ ہو۔
فـــ۱ :تطفل علی المدقق العلائی و القہستانی۔
فـــ۲ : معروضۃ علی العلامۃ ش۔
(۱؎ جامع الرموز کتاب الطہارۃ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران ۱ /۴۳)
الثانی بما بینا من ان المعتبر ھو الاحتمال لا الاحتمال علی الاحتمال ظھر الجواب عما کان یختلج ببالی وذکرتہ فیما علقتہ علی ردالمحتار فی تائید الفریق الاول ان لوکان علم المذی مع عدم التذکر موجبا للغسل بناء علی انہ لایعری عن احتمال المنویۃ لوجب ان یجب ایضا باحتمال المذی اعنی التردد بین المذی والودی فی عدم التذکرلان بالتقریر المذکور کل احتمال مذی احتمال منی و احتمال المنی موجب عندھما مطلقا فیبطل الفرق بین التذکر وعدمہ فیجب القول بان احتمال المنی انما یکون باحد شیئین احدھما ان تکون الصورۃ مترددۃ بین المنی وغیرہ سواء تذکر الحلم او لا والاخر ان یری ماھو مذی ولو احتمالا ویتذکر الاحتلام فان تذکرہ اقوی دلیل علی الامناء فلاجلہ یحمل ما یری مذیا علی انہ منی رق اما اذا لم یتذکر ولم تحتمل الصورۃ المنویۃ فلم یعدل عن حکم الصورۃ من دون دلیل داع الیہ وتقریر الجواب واضح ممافتح القدیر الان من فیض فتح القدیر وللّٰہ الحمد۔
دوسری تنبیہ:ہم نے بیان کیا کہ احتمال کا اعتبار ہے، احتمال دراحتمال کا نہیں۔اس سے اس خیال کا جواب ظاہر ہوگیا جو میرے دل میں پیدا ہوتا تھا اور اسے میں نے اپنے حاشیہ رد المحتار میں فریق اول کی تائید میں ذکر کیا تھا کہ اگر احتلام یاد نہ ہونے کے باوجود مذی کا علم موجبِ غسل ہوتا اس بنا پر کہ وہ منی ہونے کے احتمال سے خالی نہیں تو ضروری تھا کہ یاد نہ ہونے کی صورت میں مذی کے احتمال سے بھی غسل واجب ہو ۔ احتمال مذی کا معنٰی یہ کہ مذی اور ودی ہونے کے درمیان تردّد ہو۔اس لئے کہ تقریر مذکور کی رُوسے ہراحتمال مذی،احتمال منی ہے۔اور طرفین کے نزدیک احتمال منی سے مطلقا غسل واجب ہوتاہے تو یاد ہونے اور نہ ہونے کی تفریق بیکار ہے۔تو یہ کہنا ضروری ہے کہ منی کا احتمال دوباتوں میں سے کسی ایک سے ہونا ہے(۱)یہ کہ صورت کے اندر منی اور غیر منی کے درمیان تردّد ہو ، خواب یاد ہو یانہ ہو(۲) وہ شکل نظر آئے جو مذی ہے اگرچہ احتمالاسہی۔اوراحتلام بھی یاد ہو کیوں کہ اس کا یاد ہونا منی نکلنے کی قوی دلیل ہے تو اس کی وجہ سے جو مذی کی شکل میں نظرآرہا ہے اسے اس پر محمول کیا جائے گا کہ وہ منی ہے جو رقیق ہوگئی۔لیکن احتلام یاد نہ ہونے اور صورت منویہ کا احتمال نہ ہونے کی حالت میں حکم صورت سے انحراف نہ ہوا جب تک کہ اس کی داعی کوئی دلیل نہ ہو اور جواب کی تقریر اس سے واضح ہے جو اس وقت ربِ قدیر نے بفیض فتح القدیر مجھ پر منکشف فرمایا۔وللہ الحمد۔
الثالث عــہ۱ مع قطع النظر عن التحقیق الذی ظھرنا علیہ اقول انما عُلم المنی یتصور مذیا ولیس ھذا للودی ولا تترک الصورۃ لمحض امکان فعلم المذی لایکون احتمال الودی ولذا لم یفسروہ الا بالشک فی المنی والمذی فاستثناء عــہ۲ الدرالشک فــ فی المذی والودی منقطع قطعا۔
تیسری تنبیہ: اقول قطع نظر اس تحقیق سے جو ہم پر واضح ہوئی۔میں کہتا ہوں منی سے متعلق معلوم ہے کہ وہ مذی کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔یہ بات ودی میں نہیں۔ اورصورت محض امکان کی وجہ سے ترک نہیں کی جاسکتی ۔تو مذی کے علم کی حالت میں ودی کا احتمال نہ ہوگا۔ اسی لئے علماء نے علم مذی کی تفسیر میں صرف منی و مذی کے درمیا ن شک ہونے کو ذکر کیا۔تو صاحب درمختار نے مذی و ودی کے مابین شک کاجو استثناء کیا وہ قطعا استثنا سے منقطع ہے۔
فــــ:معروضۃ اخری علیہ۔
عــہ۱: ای ماقدمنا ان العلم بالحقیقۃ لاالیہ سبیل للمستیقظ ولا لارادتہ مساغ فی کلام العلماء اھ منہ غفرلہ (م)۔
یعنی وہ تحقیق جو ہم پیش کر چکے کہ نیند سے بیدار ہونے والے کے لئے علم حقیقت کی کوئی سبیل نہیں اور کلامِ علماء میں اس کے مراد ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ۱۲منہ(ت)
عــہ۲: قدمنا عبارۃ التنویر فی نصوص الفریق الثانی وذکرنا بعد انھاء المنقول مااستثنی فی الدر وبعدہ کلام العلامۃ الشامی الشارح قد اصلح ۱؎ الخ ۔
ہم نے فریق ثانی کے نصوص کے تحت تنویر الابصار کی یہ عبارت ذکر کی ہے (ورؤیۃ المستیقظ منیا او مذیا وان لم یتذکر الاحتلام۔ بیدار ہونے والے کا منی یا مذی دیکھنا اگرچہ اسے احتلام یاد نہ ہو) ۔اور نقول ختم کرنے کے بعد درمختار کا استثنا ذکر کیا: (مگر جب اسے مذی کاعلم ہو یا اس میں شک ہوکہ مذی ہے یا ودی یا سونے سے پہلے ذکر منتشر تھا تو بالاتفاق اس پر غسل نہیں) اس کے بعد علامہ شامی کا یہ کلام ذکر کیا کہ ” شارح نے عبارتِ مصنف کی اصلاح کی ہے۔ الخ۔”
(۱؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/۱۱۰)
وتمامہ وبھذا الحل الذی ھو من فیض الفتاح العلیم ظھر ان ھذا المتعاطفات مرتبطۃ ببعضھا وان الاستثناء فیھا کلہا متصل وللّٰہ در ھذا الشارح الفاضل فکثیرا ما تخفی اشاراتہ علی المعترضین و کانوا من الماھرین فافھم ۱؎ اھ وعرض بہ علی العلامۃ ح محشی الدر المعترض علیہ والعلامۃ ط المجیب بالتزام ان لاضیر فی عطف الاستثناء المنقطع علی المتصل۔
اس کے آگے علامہ شامی کی پوری عبارت اس طرح ہے:فتاح علیم کے فیض سے منکشف ہونے والے اس حل سے ظاہر ہوگیا کہ یہ معطوفات باہم ایک دوسرے سے مرتبط ہیں اور ان سب میں استثنا ئے متصل ہے اور یہ حضرت شارح فاضل کا کمال ہے کہ ان کے اشارات ماہر معترضین کی نظر سے بھی مخفی رہ جاتے ہیں اھ اس سے علامہ شامی نے محشی درمختار علامہ حلبی معترض پر تعریـض کی ہے اور علامہ طحطاوی پر جنہوں نے استثنا ئے منقطع مان کر یہ جواب دیا ہے کہ استثنائے متصل پر استثنا ئے منقطع کا عطف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(۱؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/۱۱۰)
اقول لاشک وقد اعترف ھذا المحقق ایضا ان المراد بالرؤیۃ العلم والاخرج الاعمی فقول المتن ورؤیۃ المستیقظ مذیا معناہ یجب الغسل اذا علم المذی وان لم یتذکر وانتم جعلتموہ محتملا لمعنیین الاول ان یکون المراد بالمذی حقیقتہ والثانی صورتہ وجعلتم الاول علما بانہ مذی والا خیر شکا فیہ وفی غیرہ فعلی الاول معنی المتن اذا علم حقیقۃ المذی ولا شک انہ ھو المراد بقول الشارح الا اذا علم انہ مذی فیکون استثناء الشیئ عن نفسہ ویکون حاصل الاستثناء الثانی یجب اذا علم حقیقۃ المذی الا اذا شک انہ مذی او ودی ولا شک انہ استثناء منقطع وعلی الثانی معنی المتن یجب الغسل اذا علم صورۃ المذی وشک فی حقیقۃ انہ مذی اوغیرہ فیکون قول الشارح الا اذا علم حقیقۃ المذی استثناء منقطعا قطعا ولیس ھذا سبیل ماقصدتم بل کان ینبغی ان یقال ان المراد فی کلام المصنّف العلم بالصورۃ لا غیرکما ذکرتموہ فی التوفیق والعلم بالصورۃ المذی یشمل ما اذا علم انہ فی الحقیقۃ ایضا مذی وما اذا شک انہ ھو اوغیرہ من منی او ودی اذ لا معنی للقطع بانہ لیس مذیا حقیقۃ مع العلم بانہ مذی صورۃ الا اذا احاط علمہ بانہ کان منیا تحول مذیا صورۃ ولا سبیل الی ذلک فی النوم فلا اقل من احتمال المذی ولامانع عندکم من العلم بحقیقتہ علی ماقررنا للفریق الاول فکان کلام المصنّف بحملہ علی علم الصورۃ شاملا لثلث صور علم بحقیقۃ المذی والشک من المذی والودی والشک بین المذی والمنی وکل ذلک من صور العلم بصورۃ المذی لامجرد صورتی الشک کما قلتم وعند ذلک یکون استثناء علم الحقیقۃ والشک الاول کل متصلا کما قصدتم فوقعت الزلۃ من وجھین فی تردید المتن بین الحملین وفی تخصیص الاخیر بالشک ثم ھذا کلہ اذا سلمنا لہ ان فی العلم بالمذی ای صورتہ یبقی احتمال الودی فی حقیقتہ لما علمت ان لا عبرۃ لمحض احتمال مستند الی مجرد امکان ذاتی بلا دلیل یدل علیہ فی خصوص المقام ولا دلیل للمستیقظ علی ان ھذا الذی ھو مذی قطعا بصورتہ ودی اصلا فی حقیقتہ بخلاف المنی کما علمت علی ان صورۃ المذی لم یثبت کونھا للودی کما ثبت للمنی فلا معنی لحمل رؤیۃ المذی علی معنی الشک بین المذی والودی واذ لم یشملہ کلام المصنف فاستثنائہ منہ لایکون قطعا الا منقطعا فھذہ زلۃ ثالثۃ اعظم من اختیہا والرابعۃ لما تقدم من التحقیق وبہ ظھر ان کلام المصنف لامحل فیہ لشیئ من ھذین الاستثنائین فاستثناء الحقیقۃ باطل اذ لا سبیل الیہ واستثناء احتمال الودی ضائع اذلا دلیل علیہ وباللّٰہ التوفیق اھ منہ غفرلہ (م)
اقول:اس میں کوئی شک نہیں اور ان محقق نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ دیکھنے سے مراد علم ہے ورنہ نابینا اس حکم سے خارج ہو جائے گا تو عبارت متن:(بیدار ہونے والے کا مذی دیکھنا) کا معنی یہ ہے کہ جب مذی کا علم ہو تو غسل واجب ہے اگرچہ احتلام یاد نہ ہو۔ او ر آپ نے اس عبارت میں دو معنوں کا احتمال بتایا ہے۔ اول یہ کہ مذی سے حقیقتِ مذی مراد ہو۔ دوم یہ کہ صورتِ مذی مراد ہو۔ اور اول کو آپ نے مذی ہونے کا علم قرار دیا ہے اور دوم کو مذی اور غیر مذی کے درمیان شک ٹھہرایا ہے۔ تو برتقدیر اول متن کا معنٰی یہ ہوا کہ جب حقیقت مذی کا علم ہو(تو غسل واجب ہے) اور بلاشبہ شارح کے کلام ”الااذاعلم انہ مذی۔مگر جب اسے علم ہو کہ وہ مذی ہے” سے وہی (حقیقت مذی کا علم) مراد ہے تو یہ شیئ کا خوداسی شیئ سے استثناء ہوگا۔ استثنائے ثانی کا حاصل یہ ہوگا کہ غسل واجب ہے جب حقیقت مذی کا علم ہو مگر جب اسے شک ہو کہ مذی ہے یا ودی(توبالاتفاق واجب نہ ہوگا)بلا شبہہ یہ استثنا ئے منقطع ہے۔برتقدیر دوم متن کا معنٰی یہ ہو کہ غسل واجب ہے۔ جب اسے مذی کی صورت کا علم ویقین ہو اور اس کی حقیقت میں شک ہو کہ وہ مذی ہے یا غیرمذی ۔ اب شارح کا قول” مگر جب اسے حقیقت مذی کا علم ہو”قطعاًاستثنا ئے منقطع ہوگا۔ تو آپ کا جو مقصد تھا(استثنائے متصل کا اثبات) اس کی یہ راہ نہ تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے تھا کہ مصنف کے کلام میں صورتِ مذی کا علم مراد ہے کچھ اور نہیں۔ جیسا کہ تطبیق میں آپ نے یہی ذکر کیاہے۔اور صورت مذی کا علم اس حالت کو بھی شامل ہے جب اسے علم ہو کہ وہ حقیقت میں بھی مذی ہی ہے،اور اس حالت کو بھی شامل ہے جب اسے شک ہو کہ وہ مذی ہی ہے یا کچھ اور ہے یعنی منی یا ودی ۔ اس لئے کہ صورۃ مذی ہونے کا علم ہوتے ہوئے یہ قطعی حکم کرنے کا کوئی معنٰی نہیں کہ وہ حقیقۃً مذی نہیں ، ہاں جب احاطہ کے ساتھ اسے علم ہو کہ وہ تری پہلے منی تھی اب مذی کی صورت میں بدل گئی تو وہ قطعی حکم ہو سکتاہے مگرنیند میں ایسے علم و احاطہ کی گنجائش نہیں ۔تو کم ازکم مذی کا احتمال ضرور ہوگا۔اور آپ کے نزدیک اس کی حقیقت کے علم سے کوئی مانع نہیں جیسا کہ ہم نے فریق اول کی تقریر پیش کی۔ توعلم صورت پر محمول کرنے سے کلامِ مصنف تین صورتوں کو شامل ہوا:(۱)حقیقتِ مذی کاعلم(۲) مذی اور ودی میں شک(۳)مذی اورمنی میں شک۔اور تینوں میں سے ہر ایک صورتِ مذی کے علم ہی کی صورتوں میں سے ہے ۔تو دو طرح لغزش ہوئی، ایک یہ کہ متن میں حقیقت اور صورت دونوں مراد ہونے کا احتمال مانا، دوسرے یہ کہ ارادہ صورت کو حالتِ شک سے خاص کردیا(حالانکہ وہ علم حقیقت کو بھی شامل ہے)۔پھر یہ سب کچھ اس وقت ہے جب ہم یہ تسلیم کرلیں کہ مذی یعنی صورتِ مذی کا یقین ہونے کی حالت میں بھی یہ احتمال باقی رہتا ہے کہ ہو سکتا ہے وہ حقیقت میں ودی ہو۔اس لئے کہ یہ واضح ہوچکا ہے کہ ایسے احتمال محض کا اعتبار نہیں جس کا استناد صرف امکان ذاتی پر ہو اور اس پر اس خاص مقام میں کوئی دلیل نہ ہو۔ اور بیدارہونے والے کے پاس کوئی دلیل نہیں کہ یہ جو صورت میں قطعاً مذی ہے حقیقت میں اصلاً ودی ہے۔ بخلاف منی کے جیسا کہ معلوم ہوچکا۔علاوہ ازیں مذی کی صورت ودی کے لئے ہونا ثابت نہیں، جیسے منی کے لئے ہونا ثابت ہے۔ تو مذی دیکھنے کو مذی و ودی کے درمیان شک ہونے کے معنی پر محمول کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔اور جب اسے کلامِ مصنف شامل نہیں تو اس سے اس کا استثنا قطعاً استثنائے منقطع ہی ہوگا۔ تو یہ تیسری لغزش ہے جو پہلی دونوں سے بڑی ہے۔ اور چوتھی لـغزش اس تحقیق کے پیش نظر جو بیان ہوئی، اور اسی سے یہ بھی واضح ہوا کہ کلامِ مصنف میں ان دونوں استثناء میں سے کسی کی کوئی گنجائش نہیں۔استثنائے حقیقت تو باطل ہی ہے اس کی کوئی صورت نہیں اور احتمال ودی کا استثناء بے کار ہے کیونکہ اس پر کوئی دلیل نہیں، وباللہ التوفیق ۱۲ منہ(ت)
علی ان جعل فــــ العلامۃ ش مراد المتن مترددا بین ارادۃ الحقیقۃ والصّورۃ ثم حصرفـــ۱ الا خیر فی الشک عاد نقضا علی المقصود لان الارادتین لاتجتمعان وقد استثنی العلم والشک معا فاحدھما منقطع لاشک والحق فـــ۲ان لا محل لشیئ منھما فی کلام المصنف۔
علاوہ ازیں شامی پہلے تو عبارت متن میں حقیقت اور صورت دونوں مراد ہونے کا احتمال رکھا۔
پھر ارادہ صورت کو شک میں منحصر کردیا۔جو خود ان کے مقصود کے خلاف ہوگیا۔ اس لئے کہ ایک ساتھ حقیقت اور صورت دونوں مراد نہیں ہوسکتیں۔ اور شارح نے علم اور شک دونوں کا استثناء کیا تو ایک استثنا ضروراستثنائے منقطع ہے۔ اور حق یہ ہے کہ کلامِ مصنف میں ان میں سے کسی استثنا کی گنجائش نہیں۔
فــــ:معروضۃ ثالثۃ علیہ۔
فـــ۱:معروضۃ رابعۃ علیہ۔
فـــ۲:معروضۃ علی الدر۔
الرابع : لکلام الغنیۃ جنوح الی ارادۃ الحقیقۃ حیث یقول النوم حال ذھول وغفلۃ شدیدۃ یقع فیہ اشیاء فلا یشعربھا فتیقن کون البلل مذیالایکاد یمکن الا باعتبار صورتہ ورقتہ ۱؎ الخ۔
چوتھی تنبیہ: عبارت غنیہ میں ارادہ حقیقت کی جانب کچھ میلان ہے وہ اس طرح کہ اس کے الفاظ یہ ہیں: نیند شدید غفلت وذہول کی حالت ہے۔اس میں ایسی چیزیں واقع ہوتی ہیں جن کا سونے والے کو پتہ بھی نہیں چلتا تو تری کے مذی ہونے کا یقین نہ ہوپائے گا مگر اس کی صورت اور رقت ہی کے اعتبار سے ، الخ۔
(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبری سہیل اکیڈمی لاہور، ص۴۳)
فلیس ملحظ ھذہ العبارۃ ماقررنا ان التیقن انما ھوبا لصورۃ مع التردد فی کونہ منیا اومذیا حقیقۃ بل جعلہ واثقابانہ مذی ونبہ علی خطأہ فی وثوقہ فکانہ رحمہ اللّٰہ تعالی یقول ھذا الذی یزعم انہ تیقن بالمذی یقینہ مدخول فیہ ای ظن ظنہ یقینا و لیس بہ ، اذا لیس منشأہ الا الاعتماد علی مایری من الصورۃ والرقۃ وھواعتماد من غیرعمدۃ وقد یشیرالیہ کلام الحلیۃ ایضافیما اذا تیقن المذی متذکراحیث قال الظاھر کونہ لیس کذلک حقیقۃ لوجود سبب المنی ظاھراو ھو الا حتلام وکون المنی مما تعرض لہ الرقۃ الخ ۱؎۔
اس عبارت کا مطمع نظر وہ نہیں جو ہم نے ثابت کیاکہ یقین صورت ہی کاہوگا ساتھ ہی حقیقت میں اس کے منی یا مذی ہونے میں تردّد ہوگا ، بلکہ اس میں تو اس شخص کو اس بارے میں پُر وثوق ٹھہر ایا ہے کہ وہ مذی ہے اور اس کے وثوق کی خطا پر تنبیہ کی ہے توگویا صاحبِ غنیہ رحمہ اللہ تعالٰی یہ فرمارہے ہیں کہ یہ شخص جو گمان کر رہا ہے کہ اسے مذی کا یقین حاصل ہے اس کا یقین ایک دھوکا ہے یعنی اس نے اپنے گمان کو یقین سمجھ لیا ہے حالاں کہ وہ یقین نہیں اس لئے کہ اس کی بنیاد صرف اس پر ہے کہ اس نے دیکھی جانے والی اس صورت و رقت پر اعتماد کرلیا ہے اور یہ اعتماد بلا عماد ہے۔ اس طرف عبارتِ حلیہ میں بھی اشارہ ملتا ہے ۔ احتلام یاد ہوتے ہوئے مذی کا یقین ہونے کی صورت میں لکھتے ہیں: ظاہر یہ ہے کہ وہ حقیقت میں مذی نہیں اس لئے کہ منی کا سبب ۔احتلام۔ ظاہراً موجود ہے اور منی ایسی چیز ہے جسے رقت عارض ہوتی ہے الخ۔
(۱؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول:ارادۃ الحقیقۃ علی ھذاالوجہ لاباس بھاولا ینافی ماقدمت من التحقیق بیدان فـــ فیہ اطلاق العلم والیقین علی ظن ظنہ الظان بالغلط یقینا فالاحری بنا ان لا نحمل کلام العلماء علی مثل ھذا المحمل والوجہ الذی اخترتہ صاف لاکدر فیہ وللّٰہ الحمد۔
اقول:اس طورپرحقیقت مرادلینے میں کوئی حرج نہیں اور یہ ہماری بیان کردہ تحقیق کے منافی نہیں۔ مگر یہ ہے کہ اس میں علم و یقین کا اطلاق اس گمان پر کردیا ہے جسے گمان کرنے والے نے غلطی سے یقین سمجھ لیا۔ تو ہمارے لئے مناسب یہ ہے کہ کلامِ علما کو اس طرح کے معنی پر محمول نہ کریں۔ اور میں نے جو صورت اختیار کی ہے وہ صاف بے غبار ہے، وللہ الحمد۔
فـــ: تطفل علی الغنیۃ۔
الخامس : قول الحلیۃ وجوب الغسل اذالم یتذکر حلماو تیقن انہ مذی اوشک فی انہ منی اومذی ۱؎ الخ یخالف ظاھرہ ماحققنا ان العلم بالمذی ھھنا مجامع للشک فی المذی والمنی۔
پانچویں تنبیہ:حلیہ کی یہ عبارت: ”وجوب غسل ہے جب اسے خواب یاد نہ ہو اور یقین ہو کہ وہ مذی ہے ، یا اسے شک ہو کہ وہ منی ہے یا مذی”۔ بظاہر ہماری اس تحقیق کے خلاف ہے کہ یہاں مذی کا علم ویقین مذی ومنی میں شک کے ساتھ جمع ہوگا۔
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
فانہ رحمہ اللّٰہ تعالی جعل التیقن مقابلا للشک وجوابہ اما بالحمل علی الصورۃ کما ھو مسلکنافیعود الی انہ تیقن بان الصورۃ صورۃ مذی اوتردد فی الصورۃ فلا ینافی الشک فی الحقیقۃ اوبالحمل علی زعم التیقن من دون یقین فی الحقیقۃ کما ھو مسلک الغنیۃ فالمعنی سواء کان متیقنا بزعمہ اوشاکا۔
مخالف اس لئے کہ صاحبِ حلیہ رحمہ اللہ تعالی نے یقین کو شک کے مقابلہ میں رکھا ہے۔ اور جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یاتوصورت کا یقین ہے جیسا کہ یہ ہمارا مسلک ہے تو اب معنی عبارت یہ ہو گا کہ ”اسے یقین ہے کہ صورت، مذی کی صورت ہے یا اسے صورت کے بارے میں تردّد ہے کہ وہ منی کی ہے یا مذی کی ” تو یہ حقیقت میں شک ہونے کے منا فی نہ ہوگا۔یا اس سے مراد یہ ہے کہ اسے یقین ہونے کا گمان ہے اور درحقیقت یقین نہیں ہے جیسا کہ یہ غنیہ کا طرز ہے، تو معنٰی یہ ہوا کہ اپنے گمان میں خواہ وہ یقین رکھنے والا ہو یا شک کرنے والا ہو۔
السادس : حصر الغنیۃ ذرائع علم المذی فی الصورۃ والرقۃ وکلام فـــ۱الفقیر انہ اما بالصورۃ اوالاسباب اوالاثار والکل لاتنفی المنویۃ اجمع وانفع وللّٰہ الحمد۔
چھٹی تنبیہ:صاحب غنیۃ نے علم مذی کے ذرائع کو صورت اور رقت میں منحصر رکھاہے اور کلامِ فقیر میں یہ ہے کہ یہ علم یا تو صورت سے ہوگا یا اسباب سے یاآثار سے ، اور کسی سے بھی منی ہونے کی نفی نہیں ہوتی۔ تو یہ زیادہ جامع اور زیادہ نافع ہے، وللہ الحمد۔
فـــ۱:۔تطفل علی الغنیۃ
وبالجملۃ فــ۲اطلاق المتون والشروح وقدوتھم محمد فی المبسوط کماقدمناعن الخانیۃ عن الاصل وتصریح فــ۳ امثال الخانیۃ والمحیط والذخیرۃ وغیرھم وعمدتھم محمد فی النوادر لایترکان للبحث مجالا والحمدللّٰہ سبحنہ وتعالٰی۔
مختصر یہ کہ ایک تو متون اور شروح میں اطلاق ہے اور ان کے پیشوا امام محمد ہیں جنہوں نے مبسوط میں سب سے پہلے ذکر کیا جیسا کہ ہم نے خانیہ سے بحوالہ مبسوط نقل کیا۔ دوسرے اصحاب خانیہ ،محیط، ذخیرہ وغیرہم کی تصریحات ہیں اور ان کے معتمد امام محمد ہیں جنہوں نے نوادرمیں ذکر کیا۔ ان دونوں کے پیشِ نظر بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ والحمدللہ سبحانہ وتعالٰی۔
فــ۲:تطفل ثالث علیہ ۔
فـــ۳:تطفل رابع علیہ ۔
وفوق فـــ۱ کل ذلک اطلاق ماروینا من الحدیث فلا اتجاہ للبحث روایۃ ولا درایۃ واللّٰہ سبحنہ ولی الھدایۃ۔
اور ان سب سے بڑھ کر اس حدیث کا اطلاق ہے جو ہم نے روایت کی ۔ تو روایت، درایت کسی طرح بھی بحث کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی۔ اور خدا ئے پاک ہی والیِ ہدایت ہے۔
فـــ۱:تطفل خامس علیہ ۔
فائدہ ، اقول : وظھرلک مماقدمناان ذکرھم الامساک فیمالواحتلم اونظربشھوۃ فامسک ذکرہ حتی سکن ثم ارسل فانزل وجب الغسل عندھماخلافا للثانی غیرقید فان فــ۲ من الناس من یمسک المنی بمجرد التنفس صعداء عدۃ مرار وقدیبلغ ضعف الدفق فی بعضھم الی حدانہ اذااحس بالانفصال فصرف خاطرہ عن الالتذاذوشغل بالہ بشیئ اخر وقعدان کان مستلقیااوتضور فی فراشہ او رش علی صلبہ ماء باردایقف المنی عن الخروج ثم اذا مشی اوبال ینزل وھو فاترفیجب الغسل فی ھذہ الصور ایضاعندھما لتحقق المناط وھو خروج منی زال عن مکانہ بشھوۃ فاحفظہ فقد کانت حادثۃ الفتوی۔
فائدہ، اقول : اگر احتلام ہوایا شہوت سے نظر کی پھر ذکر تھام لیا یہاں تک کہ منی ٹھہر گئی پھر چھوڑ دیاتو انزال ہوا،طرفین کے نزدیک غسل واجب ہو گیا بخلاف امام ثانی کے۔ہمارے بیان سابق سے واضح ہے کہ اس جزئیہ میں ذکرتھامنے کا جو ذکر ہے وہ قید وشرط نہیں (بلکہ کسی طرح بھی کچھ دیر کے لئے منی کا روک لینا مقصود ہے) اس لئے کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو چند بارصرف سانس اوپر کھینچ کر منی روک لیتے ہیں، اور کسی میں ضعف جست اس حد کو پہنچ جاتاہے کہ جب منی کے اپنی جگہ سے جدا ہونے کا احساس کرتا ہے لذت سے اپنی خاطر پھیر کر کسی اور چیز میں دل کو مشغول کرلیتاہے یا اگر لیٹا ہو تو بیٹھ جاتاہے یا بستر پر کروٹ بدل دیتاہے یا پشت پر ٹھنڈے پانی کا چھینٹا مارتاہے منی رک جاتی ہے پھر جب چلتایا پیشاب کرتا ہے تو منی اس وقت نکلتی ہے جب اس میں کسل وفتورآگیااور شہوت ختم ہوچکی توطرفین کے نزدیک ان صورتوں میں بھی غسل واجب ہوتاہے اس لئے کہ مدارو مناط متحقق ہے وہ یہ کہ منی اپنی جگہ سے شہوت کے ساتھ ہٹی ہے۔تو یہ ذہن نشین رہے، ایک بار خاص اسی معاملہ میں مجھ سے استفتاء ہوچکا ہے۔
فــ۲:مسئلہ منی کواپنے محل یعنی مرد کی پشت ،عورت کے سینہ سے جدا ہوتے وقت شہوت چاہئے پھر اگرچہ بلا شہوت نکلے غسل واجب ہوجائے گا مثلا احتلام ہوا یا نظر یافکر یاکسی اور طریق سوائے ادخال سے منی بشہوت اتری اس نے عضو کو تھام لیا نہ نکلنے دی یہاں تک کہ شہوت جاتی رہی یا بعض لوگ سانس اوپر چڑھا کر اترتی ہوئی منی کو روک لیتے ہیں یابعض میں ضعف شہوت کے سبب منی خیال بدلنے یاکروٹ لینے یا اٹھ بیٹھنے یاپشت پر پانی کاچھینٹا دے لینے سے رک جاتی ہے غرض کسی طرح شہوت کے وقت اترتی ہوئی منی کو روک لیا یاخود رک گئی پھر جب شہوت جاتی رہی نکلی تو امام اعظم وامام محمد کے نزدیک غسل واجب ہوجائے گا کہ اترتے وقت شہوت تھی اگرچہ نکلتے وقت نہ تھی اورامام ابویوسف کے نزدیک نہ ہوگا کہ ان کے نزدیک نکلتے وقت بھی شہوت شرط ہے ہاں جب تک نکلے گی نہیں غسل بالاتفاق واجب نہ ہوگا کہ نکلنا ضرور شرط ہے ۔
الثا من : اکتساء المنی صورۃ المذی لرقۃ تعرضہ احالہا فی شرح الوقایۃ علی حرارۃ البدن وفی الدرر والذخیرۃ علی الھواء و عبرفی البدائع و الخلاصۃ والبزازیۃ والجواھربمرور الزمان وھو یشملھماوجمعھما ابن کمال فی الایضاح واشارالی الاعتراض علی صدر الشریعۃ انہ قصر بالاقتصار۔
آٹھویں تنبیہ:منی کا کسی عارض ہونے والی رقت کی وجہ سے مذی کی صورت اختیار کرلینا،اسے شرح وقایہ میں حرارت بدن کے حوالہ کیا، درمختار اور ذخیرہ میں ہوا کو سبب بنایا۔ بدائع، خلاصہ، بزازیہ اور جواہر میں مرورِزمان سے تعبیرکیا۔اور یہ حرارت وہوا دونوں کو شامل ہے۔ اور علامہ ابن کمال نے ایضاح میں دونوں کو جمع کیا، اور صدر الشریعہ پر اقتصار کے سبب اعتراض کا اشارہ کیا۔
اقول فــ ومثل ذالک لایعد اعتراضافانما یکون المراد افادۃ تصویر لاالحصر وان کان فعلی العلامۃ فــ المعترض مثلہ اذفی الفتح عن التجنیس رق بالھواء والغذاء۱؎
اقول اس طرح کی بات اعتراض کے شمار میں نہیں اس لئے کہ اس سے بس صورت مسئلہ کا افادہ مقصود ہو تا ہے حصر مراد نہیں ہوتا۔اور اگر یہ اعتراض ہے تو علامہ معترض پر بھی ویسے ہی اعتراض پڑے گا اس لئے فتح القدیر میں تجنیس کے حوالہ سے ہے: منی ہوا اور غذا سے رقیق ہوگئی۔
فــ:تطفل علی العلامۃ ابن کمال۔
فــ: تطفل آخر علیہ۔
(۱؎فتح القدیر کتاب الطہارات فصل فی الغسل مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۵۴)
وجمع الکل فی الغنیۃ فقال بسبب بعض الاغذیۃ ونحوھاممایوجب غلبۃ الرطوبۃ و رقۃ الاخلاط والفضلات وبسبب فعل الحرارۃ والھواء۲؎ اھ
اور غنیہ میں سب کو جمع کر کے کہا: بعض غذاؤں اور ان جیسی چیزوں کے سبب جو رطوبت کے غلبہ اور اخلاط وفضلات کی رقت کا باعث ہوتی ہیں اور عمل حرارت وہوا کے سبب اھ۔
(۲؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبرٰی سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۳)
ومااحسن قول الحلیۃ والمراقی قدیرق لعارض ۳؎ اھ
اور حلیہ ومراقی الفلاح کی عبارت کیا ہی خوب ہے: قدیرق لعارض اھ کسی عارض کی وجہ سے رقیق ہوجاتی ہے اھ۔
(۳؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃالطحطاوی کتاب الطہارۃ دار الکتب العلمیہ بیروت ص۹۹)
اقول:ولا یھمناتنوع عباراتھم ھنالولا ان عدھم الغذاء وقدیوھم جوازان یخرج المنی متغیرامن الباطن وحینئذ ینشؤ منہ سؤال علی مسألۃ وھو ما اذا استیقظ ذاکرحلم ولم یربللا ثم خرج مذی فقدقدمناعن الذخیرۃ والغنیۃ والھندیۃ وغیرھاان لا غسل ومثلہ فی الخلاصۃ وخزانۃ المفتین والبرجندی والحلیۃ وفی الغیاثیۃ عن غریب الروایۃ وعن فتاوی الناصری برمز(ن)وفی القنیۃ عن فتاوی ابی الفضل الکرمانی وفی غیرماکتاب وعلی ھذایجب الایجاب لان الاحتلام اقوی دلیل علی المنویۃ وصورۃ المذی لاتنفک اذن عن احتمال المنویۃ وان خرج بمراٰہ ولم یعمل فیہ حربدن وھواء لاحتمال التغیر فی الباطن بغذاء
اقول: ہمیں یہاں ان کی عبارتوں کے تنوع کی فکر نہ ہوتی۔ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ان حضرات کے غذا کو سبب شمار کرنے کی وجہ سے یہ وہم پیداہوتا ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ منی اندر سے ہی متغیر(اور رقیق) ہو کر نکلی ہو ۔اور اس تقدیر پر اس سے ایک مسئلہ پر سوال پیدا ہوگا وہ یہ کہ خواب یاد رکھتے ہوئے جب بیدار ہوا اور تری نہ پائی پھر مذی نکلی تو ذخیرہ ، غنیہ ، ہندیہ وغیرہا کے حوالہ سے گزرا کہ اس پرغسل نہیں۔اور اسی کے مثل خلاصہ، خزانۃ المفتین، بر جندی، حلیہ میں بھی ہے۔اور غیاثیہ میں غریب الروایہ سے اور فتاوٰی ناصری سے برمز (ن) منقول ہے اور قنیہ میں فتاوٰی ابو الفضل کرمانی سے نقل ہے اور متعدد کتابوں میں ہے۔اور اس تقدیر پر غسل واجب کرنا ضروری ہے اس لئے کہ احتلام منی ہونے کی قوی تر دلیل ہے اور مذی کی صورت پر تقدیر مذکور احتمال منویت سے جدا نہ ہوگی اگرچہ اس کی آنکھ کے سامنے نکلی ہو اور اس میں بدن کی حرارت اور ہوا اثر انداز نہ ہوئی ہو اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ غذا کی وجہ سے اندر ہی متغیر ہوئی ہو۔
لکن نص الامام الجلیل مفتی الجن والانس نجم الدین النسفی قدس سرہ ان التغیر لایکون فی الباطن کما قدمنا عن جواھر الفتاوی عن ذلک الامام من التفرقۃ بین ھذا وبین من استیقظ فوجد بلۃ حیث یجب الغسل لاحتمال کونہ منیارق بمرور الزمان اما ھھنا فقد عاین خروج المذی فوجب الوضوء دون الغسل والتفرقۃ بینہ وبین ما اذامکث فخرج منی ان الغسل انماوجب بالمنی وھھنا زال المذی وھویراہ فلم یلزم لانہ مذی وصریح النص مانقل عنہ الامام الزیلعی فی التبیین حیث ذکر جوابہ فی المسألۃ انہ لایلزمہ شیئ قال فقیل لہ ذکر فی حیرۃ الفقہاء فیمن احتلم ولم یربللا فتوضأ وصلی ثم نزل منی انہ یجب علیہ الغسل فقال یجب بالمنی بخلاف المذی اذارأہ یخرج لانہ مذی ولیس فیہ احتمال انہ کان منیا فتغیر لان التغیر لایکون فی الباطن ۱؎ اھ ومثلہ فی الحلیۃ عن مجموع النوازل عن الامام نجم الدین وزادامافی الظاھر فقد یکون ۲؎ اھ
لیکن امام جلیل مفتی جن وانس نجم الدین نسفی قدس سرہ نے تصریح فرمائی ہے کہ تغیر باطن میں نہیں ہوتا۔جیسا کہ ان سے ہم نے بحوالہ جواہر الفتاوٰی فرق نقل کیاہے اس میں اور اُس میں جو بیدار ہو کر تری پائے کہ اس پر غسل واجب ہوتا ہے اس لئے کہ ہوسکتاہے وہ منی رہی ہوجو وقت گزرنے سے رقیق ہوگئی ۔ لیکن یہاں تو اس نے مذی نکلتے آنکھ سے دیکھی ہے تو وضو واجب ہوا غسل نہ ہوا۔ اور ان سے فرق نقل کیا۔ اس میں اور اُس صورت میں جب وہ کچھ دیر ٹھہر چکا ہو پھر منی نکلی ہو کہ غسل منی ہی سے واجب ہوا اور یہاں اس کے سامنے مذی نکلی ہے تو غسل لازم نہ ہواکیونکہ یہ مذی ہے۔اور صریح نص وہ ہے جو ان سے امام زیلعی نے تبیین الحقائق میں نقل کیاہے۔اس طرح کہ صورتِ مسئلہ میں ان کا یہ جواب ذکر کیاکہ اس پرکچھ لازم نہیں۔اس پر ان سے کہا گیا کہ حیرۃ الفقہاء میں مذکور ہے کہ جسے احتلام ہوا اور تری نہ پائی۔ وضو کر کے نماز ادا کرلی۔اس کے بعد منی نکلی تو اس پر غسل واجب ہے۔تو فرمایا منی کی وجہ سے واجب ہے بر خلاف مذی کے،جب کہ مذی کو نکلتے دیکھا ہو اس لئے کہ وہ مذی ہے اور اس میں یہ احتمال نہیں کہ منی رہی ہو پھر متغیر ہو گئی ہو اس لئے کہ تغیر باطن میں(اندر) نہیں ہوتااھ۔اسی کے مثل حلیہ میں مجموع النوازل کے حوالہ سے امام نجم الدین سے منقول ہے اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے: لیکن ظاہر میں تغیر ہوتا ہے اھ۔
(۱؎ تبیین الحقائق کتاب الطہارۃ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/۶۸
۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
اقول فعلی ھذا یجب ان یراد بکلام التجنیس ومن تبعہ ان الغذاء ونحوہ یعد المنی لسرعۃ التغیرفی الخارج بعمل حرارۃ تصلہ فیہ من بدن اوھواء وبھذایخرج جواب عمااوردنا علی العلامۃ ابن کمال من وجود قصور فی کلامہ ایضالکن وقع فی الخلاصۃ مانصہ وعلی ھذا لواغتسل قبل ان یبول ثم خرج من ذکرہ مذی یغتسل ثانیا وعند ابی یوسف لایغتسل ۱؎ اھ قال فی الحلیۃ بعد نقلہ یرید خرج منہ ماھو علی صورۃ المذی کما صرح بہ ھو وغیرہ وقدمناہ فکن منہ علی ذکر ۲؎ اھ۔
اقول تو اس بنیاد پر ضروری ہے کہ صاحب تجنیس اور ان کے متبعین کے کلام سے مراد یہ ہو کہ غذا اور اس جیسی چیز منی کو اس قابل بنادیتی ہے کہ خارج میں وہ اس حرارت کے عمل سے جو بدن یا ہواسے پہنچے جلد متغیر ہوجائے ۔ اسی سے اس کا بھی جواب نکل آئے گا جو ہم نے علامہ ابن کمال پر اعتراض کیا کہ ان کی عبارت میں بھی قصورو کمی موجود ہے۔لیکن خلاصہ میں یہ عبارت آئی ہے۔ اور اسی بنیاد پر اگر پیشاب کرنے سے پہلے غسل کرلیا پھر مذی نکلی تو دوبارہ غسل کرے گا۔اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالٰی کے نزدیک غسل نہ کرے گا اھ۔ حلیہ میں اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد لکھا:اس سے مرادوہ ہے جو مذی کی صورت پرنکلے جیسا کہ اس کی تصریح صاحبِ خلاصہ اوردوسرے حـضرات نے کی ہے اور پہلے ہم اسے پیش کر چکے ہیں۔ تو وہ یاد رہے اھ۔
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الطہارۃ الفصل الثانی مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۱۲
۲؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول : ایش یفیدفـــ التاویل بعدما تظافرت النقول عن اجلۃ الفحول منھم صاحب الخلاصۃ نفسہ انہ اذا احتلم فاستیقظ فلم یجد شیئا ثم نزل المذی لایغتسل فان بالاغتسال قبل البول وان لم یعلم انقطاع مادۃ المنی الزائل بشھوۃ لکن عاین خروج المذی والتغیرفی الباطن لایکون فکیف یجب الغسل بالمذی بل لعل الامرھھنااستھل لانہ قدامنی مرۃ واغتسل وبقاء شیئ مما زال فی داخل البدن غیرلازم بل ولاغالب بل الغالب ان المنی اذا اندفق اندفع بخلاف مااذا احتلم ولم یخرج شیئ ثم نزل مایشبہ مذیافان کونہ ھوالذی زال بالاحتلام اظھرمن کون النازل مرۃ اخری بقیۃ المنی الزائل۔
اقول : تاویل کا کیا فائدہ جب کہ اجلّہ علماء سے بالاتفاق نقول وارد ہیں ، ان میں خود صاحبِ خلاصہ بھی ہیں،وہ یہ کہ جب احتلام ہو پھر بیدار ہوکرکچھ نہ پائے پھر مذی نکلے تو غسل نہیں۔اس لئے کہ پیشاب کرنے سے پہلے غسل کرنے سے شہوت کے ساتھ جدا ہونے والی منی کے مادہ کا ختم ہونا اگرچہ معلوم نہ ہوالیکن جب اس نے آنکھ سے دیکھ لیا کہ مذی نکلی ہے اور تغیر اندر نہیں ہوتا،تو مذی سے غسل کیسے واجب ہوگا۔بلکہ معاملہ یہاں شاید زیادہ سہل ہے اس لئے کہ ایک بار اس سے منی نکلی اور اس نے غسل کرلیااور جداہونے والی منی میں سے کچھ اندر رہ جانالازم نہیں،بلکہ غالب بھی نہیں،بلکہ عموماًیہ ہوتاہے کہ منی جست کرتی ہے تو مندفع ہوجاتی ہے بخلاف اس صورت کے جب اسے احتلام ہوا اور کچھ باہر نہ آیا پھروہ چیز نکلی جو مذی کے مشابہ ہے تو اس کا احتلام ہی سے جدا ہونے والی ہونا زیادہ ظاہر ہے بہ نسبت اس کے کہ دوسری بار نکلنے والی چیز، پہلی بار جدا ہونے والی منی کا بقیہ ہو۔
فـــ:تطفل علی الحلیۃ ۔
فان قلت الاحتلام قد یکون من اضغاث احلام فان النائم ربما یری مالا حقیقۃ لہ۔قلت نعم لاحقیقۃ لما رأی من الافعال لکن اثرھا علی الطبع کمثلہا فی الخارج ولذا لایتخلف الانزال عن الاحتلام الا نادرا الا تری ان ائمتنا جمیعا اعتبروا مجرد احتمال المذی بدون احتمال منی اصلا مو جبا للغسل عند تذکر الحلم فلو لا انہ من اقوی الادلۃ علی الامناء لم یعتبروا المنویۃ الکائنۃ من جہۃ المرای احتمالا علی احتمال ومع ذلک تصریحہم جمیعا بان لواحتلم فرأی فی الیقظۃ زوال مذی لاغسل علیہ ناطق بان ماینزل بمرأی العین لایکون الا مایری وقد وافقہم علیہ صاحب الخلاصۃ قائلا ولورأی فی منامہ مباشرۃ امرأۃ ولم یربللا علی فراشہ فمکث ساعۃ فخرج منہ مذی لایلزمہ الغسل ۱؎ اھ
اگریہ کہو کہ احتلام بعض اوقات بس ایک پر اگندہ خواب ہوتا ہے اس لئے کہ سونے والا کبھی وہ دیکھتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ میں کہوں گاہاں جو افعال اس نے دیکھے ان کی کوئی حقیقت نہیں لیکن طبیعت پر ان کا اثر ویسے ہی ہوتاہے جیسے ان افعال کا خارج میں ہوتاہے-یہی وجہ ہے کہ عموماً احتلام کے بعد انزال ضرور ہوتاہے،اس کے خلاف نادراًہی ہوتاہے۔یہی دیکھئے کہ ہمارے تمام ائمہ نے خواب یاد ہونے کے وقت محض احتمال مذی کو موجبِ غسل مانا ہے بغیر اس کے کہ وہاں منی کا کوئی احتمال ہو۔تو احتلام اگر منی نکلنے کی قوی تردلیل نہ ہوتا تو اس منویت کا اعتبارنہ کرتے جو شکل مرئی کے لحاظ سے احتمال دراحتمال ہے۔ اس کے باوجود تمام حضرات کی تصریح ہے کہ اگر احتلام کے بعد بیداری میں مذی نکلنے کا مشاہدہ کیا تو اس پرغسل نہیں ، یہ تصریح ناطق ہے کہ آنکھ کے سامنے نکلنے والی تری وہی ہے جو دیکھنے میں آر ہی ہے۔ اس مسئلہ پر ان تمام حضرات کی موافقت صاحبِ خلاصہ نے بھی کی ہے اور کہا ہے کہ: ”اگرخواب میں اپنے کو کسی عورت سے مباشرت کرتے دیکھا اور بستر پر کوئی تری نہ پائی پھر تھوڑی دیر رُکنے کے بعد اس سے مذی نکلی تو اس پر غسل لازم نہیں اھ۔”
(۱؎ خلاصۃ الفتاوی کتاب الطہارات الفصل الثانی مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱/۱۳)
والعبد الفقیر راجع الخانیۃ والبزازیۃ والفتح والبحر وشرح النقایۃ للقھستانی والبرجندی والمنیۃ والغنیۃ والھندیۃ وشرح الوقایۃ والسراجیۃ والغیاثیۃ وتبیین الحقائق ومجمع الانھر وشرح مسکین وابا السعود ومراقی الفلاح و ردالمحتار وغیرھا من الاسفار فوجدتھم جمیعا انما ذکروا فی المسألۃ خروج المنی وکذا رأیتہ منقولا عن الاجناس والمحیط والذخیرۃ والمصفی والمجتبی والنھر وغیرھا ولم ار احدا ذکر المذی الاما فی خزانۃ المفتین فانہ ذکر اولا خروج بقیۃ المنی ثم قال ولو اغتسل قبل ان یبول ثم خرج من ذکرہ مذی یغتسل ثانیا ۲؎ ۔
اور فقیر نے (ا)خانیہ (۲) بزازیہ (۳) فتح القدیر (۴) البحر الرائق (۵) شرح نقایہ ازقہستانی اور(۶) برجندی (۷) منیہ (۸) غنیہ (۹)ہندیہ (۱۰) شرح وقایہ (۱۱) سراجیہ (۱۲) غیاثیہ (۱۳) تبیین الحقائق (۱۴) مجمع الانہر (۱۵) شرح مسکین (۱۶) ابو السعود (۱۷) مراقی الفلاح (۱۸) رد المحتار وغیرہا کتابوں کی مراجعت کی تو دیکھا کہ سب نے مذکورہ مسئلہ میں منی کا نکلنا ذکر کیا ہے(یعنی یہ کہ اگر پیشاب سے پہلے غسل کرلیا پھر منی نکلی تو دوبارہ غسل کرے گا برخلاف خلاصہ کے کہ اس میں یہاں مذی نکلنا مذکر(مذکور)ہے ۱۲ م ) اسی طرح اس کو(۱۹) اجناس (۲۰) محیط (۲۱) ذخیرہ (۲۲) مصفی(۲۳) مجتبی(۲۴) النہر الفائق وغیرہا سے منقول پایا- اور کسی کو نہ دیکھا کہ یہاں مذی کا ذکر کیا ہو مگر وہ جو خزانۃ المفتین میں ہے کہ اس میں پہلے بقیہ منی کا نکلنا ذکر کیا، پھر کہا:”اور اگر پیشاب کرنے سے پہلے غسل کرلیا، پھر اس سے مذی نکلی تو دوبارہ غسل کرے گا۔”
(۲؎ خزانۃ المفتین فصل فی الغسل (قلمی فوٹو کاپی) ۱ /۵)
ثم ذکر مسائل و رمز فی اخرھا (طح) ای شرح الطحاوی للامام الاسبیجابی فھذا ھو سلف الخلاصۃ فی ما اعلم ثم رأیت فی جواھر الاخلاطی ما نصہ بال بعد الجماع فاغتسل وصلی الوقتیۃ ثم خرج بقیۃ المنی لاغسل علیہ بخلاف ما لولم یبل قبل الاغتسال علیہ الغسل عندھما وکذا بخروج المذی ۱؎ اھ۔
اس کے بعد کچھ اور مسائل ذکر کئے اور ان کے آخر میں(طح) یعنی امام اسبیجابی کی شرح طحاوی کا رمز دے دیا تو میرے علم میں صاحبِ خلاصہ کے پیش رو یہی ہیں۔ پھر میں نے جواہرالاخلاطی میں یہ عبارت دیکھی:جماع کے بعد پیشاب کیا پھر غسل کیا اور اس وقت کی نماز ادا کرلی پھر بقیہ منی نکلی تو اس پر غسل نہیں،اس کے بر خلاف اگر غسل سے پہلے پیشاب نہیں کیا تھا تو طرفین کے نزدیک اس پر غسل واجب ہے۔ اور اسی طرح مذی نکلنے سے بھی۔اھ۔
(۱؎ جواہر الاخلاطی کتاب الطہارۃ فصل فی الغسل (قلمی فوٹو کاپی) ص۷)
ولیس ھو فی الاعتماد کھؤلاء الاربعۃ اعنی الاسبیجابی و البخاری والسمعانی والحلبی رحمہم اللّٰہ تعالٰی فلایزیدون بہ قوۃ وھم ناصون فی مسألۃ المحتلم الذی عاین خروج المذی بعدم الغسل وفاقا لسائر الکبراء فقد نقل ماقدمنا عن الخلاصۃ فی الحلیۃ وخزانۃ المفتین واقراہ، ومعلوم قطعا ان لاوجہ لہ الا ان المذی اذا خرج عیانا لایجعل قط الا مذیا کما نص علیہ الامام الاجل مفتی الثقلین والامام ابن ابی المفاخر الکرمانی والامام الفخر الزیلعی وغیرھم رحمہم اللّٰہ تعالٰی فقولھم فی الوفاق احب الی من قولھم فی الخلاف وجادۃ واضحۃ سلکوھا مع الجمیع احق بالقبول مما تفردوا بہ ولایعرف لہ وجہ الا القیاس علی المحتلم یستیقظ فیجد مذیا حیث یجب الغسل عند ائمتنا وقد علمت من کلام الامام مفتی الجن والانس انہ قیاس لایروج ھذا ماظھر للعبد الضعیف ومع ذلک ان تنزہ احد فھو خیرلہ عند ربہ واللّٰہ تعالی اعلم۔
اور اعتماد میں ان کا وہ مقام نہیں جو ان چار حضرات یعنی اسبیجابی صاحب شرح طحاوی، طاہر بن احمد بخاری صاحب خلاصۃ الفتاوی، حسین بن محمد سمعانی صاحبِ خزانۃالمفتین، اور محقق حلبی صاحبِ حلیہ رحمہم اللہ تعالٰی کا ہے۔ تواخلاطی کی عبارت سے ان کی قوت میں کچھ اضافہ نہ ہوگا۔اور یہ حضرات بموافق دیگر اکابر،خروج مذی کا مشاہدہ کرنے والے محتلم کے مسئلہ میں عدم غسل کی تصریح کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے خلاصہ کی عبارت جو پہلے پیش کی اسے صاحبِ حلیہ وصاحبِ خزانۃ المفتین نے بھی نقل کیا ہے اور بر قرار رکھا ہے اور قطعاً معلوم ہے کہ اس کی سوا اس کے کوئی وجہ نہیں کہ مذی جب سامنے نکلے تو مذی ہی قرار دی جائے گی جیسا کہ امام اجل مفتی ثقلین، امام ابن ابی المفاخر کرمانی، امام فخرالدین زیلعی وغیرہم رحمہم اللہ تعالٰی نے اس کی تصریح فرمائی ہے تو میرے نزدیک موافقت میں ان حضرات کا کلام ان کے مخالفت والے کلام سے زیادہ پسندیدہ ہے۔اور صاف واضح راہ جس پر وہ سب کے ساتھ چلے ہیں اس سے زیادہ قابل قبول ہے جس میں وہ متفرد ہیں۔اور اس کی کوئی وجہ بھی معلوم نہیں ہوتی سوا اس کے کہ اس محتلم پر قیاس کیا ہو جو بیدار ہو کر مذی پائے کہ ہمارے ائمہ کے نزدیک اس پر غسل واجب ہوتاہے۔اور امام مفتی جن وانس کے کلام سے واضح ہوچکا ہے کہ یہ قیاس چلنے والا نہیں۔ یہ وہ ہے جو بندہ ضعیف پر منکشف ہوا، اس کے بعد اگر کوئی نزاہت اختیار کرے تو یہ اس کے لئے اس کے رب کے یہاں بہتر ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔
فائدہ: اقول : یتراأی لی ان الحل مامر عن الحلیۃ عن المصفی عن المختلفات انہ اذا تیقن بالاحتلام وتیقن انہ مذی لایجب الغسل عندھم جمیعا علی ھذہ المسألۃ المتظافرۃ علیھا کلمات العلماء من دون خلاف اعنی المحتلم یستیقظ فیخرج المذی بمرأی منہ والدلیل علیہ ماقدمنا تحقیقہ ان التیقن لاسبیل الیہ لمن خرجت البلۃ وھو نائم انما ھو لمن تیقظ فخرجت بمرأی عینہ وحینئذ ھی مسألۃ صحیحۃ لاغبار علیھا وللّٰہ الحمد۔
فائدہ: اقول : وہ مسئلہ جو حلیہ کے حوالہ سے بواسطہ مصفی مختلفات سے نقل ہوا کہ جب احتلام کا یقین ہو اور تری کے مذی ہونے کا یقین ہو تو اس پر ان سبھی ائمہ کے نزدیک غسل واجب نہیں، اس سے متعلق مجھے خیال ہوتا ہے کہ اسے اسی مسئلہ پر محمول کروں جس پر کلماتِ علماء بغیر کسی اختلاف کے باہم متفق ہیں یعنی وہ محتلم جو بیدار ہو پھر اس کے سامنے مذی نکلے، اور اس پر دلیل ہماری سابقہ تحقیق ہے کہ سوتے میں جس سے تری نکلی اس کے لئے یقین کی کوئی راہ نہیں ، یہ تو اس کے لئے ہے جو بیدار ہوا پھر اس کی آنکھ کے سامنے تری نکلی۔اس صورت میں یہ مسئلہ صحیح بے غبار ہے۔وللہ الحمد۔
التاسع فـــ : اجمعوا ان لو بال اونام اومشی کثیرا ثم خرج بقیۃ المنی بدون شھوۃ لایجب الغسل تظافرت الکتب علی نقل الاجماع فی ذلک کالتبیین والفتح والمصفی والمجتبی والحلیۃ والغنیۃ والخانیۃ والخلاصۃ والبزازیۃ وغیرھا غیر ان منھم من یقتصر علی ذکر البول کالخانیۃ ومنھم من یزید النوم کالمحیط والاسبیجابی والذخیرۃ وخزانۃ المفتین ومنھم من زاد المشی ایضا کالتبیین والفتح والمنتقی والظہیریۃ ثم اطلق المشی کثیر وقیدہ الزاھدی بالکثیر وھو الاوجہ کما ترجاہ فی الحلیۃ وجزم بہ فی البحر لان الخطوۃ والخطوتین لایکون منھما ذلک ونقل ش عن العلامۃ المقدسی قال فی خاطری انہ عین لہ اربعون خطوۃ فلینظر ۱؎ اھ۔
نویں تنبیہ: اس پر اجماع ہے کہ اگر پیشاب کیا، یا سوگیا، یا زیادہ چلا۔ پھر بقیہ منی بلا شہوت نکلی تو غسل واجب نہیں۔ اس بارے میں نقل اجماع پر کتابیں متفق ہیں۔ جیسے تبیین الحقائق، فتح القدیر، مصفی، مجتبی، حلیہ، غنیہ، خانیہ ، خلاصہ، بزازیہ وغیرہا۔فرق یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے صرف پیشاب کے ذکر پر اکتفاکی ہے جیسے خانیہ کسی نے اس پرسونے کا اضافہ کیا جیسے محیط، اسبیجابی،ذخیرہ، خلاصہ ، وجیز اور خزانۃ المفتین۔ اور کسی نے چلنے کا بھی اضافہ کیا جیسے تبیین ، فتح القدیر، منتقی اور ظہیریہ۔ پھر کـثیر نے چلنے کو مطلق رکھا اور زاہدی نے اسے کثیر سے مقید کیا (زیادہ چلنا کہا)۔ اور یہی اوجہ ہے جیسا کہ حلیہ میں اسے بطور توقع کہا اور بحر میں اس پر جزم کیا اس لئے کہ وہ قدم دو قدم چلنے سے نہ ہوگا۔اور علامہ شامی نے علامہ مقدسی سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ اس کے لئے چالیس قدم مقرر ہیں تو اس پر غور کرلیا جائے ۔اھ۔
ف: مسئلہ جماع یا احتلام پر سونے،چلنے پھرنے یا پیشاپ کرنے کے بعدجو اور منی بلاشہوت نکلے اس سے غسل نہ ہوگا اور چلنے کی بعض نے چالیس قدم تعداد بتائی ،اور صحیح یہ ہونا چاہئے کہ جب اتنا چل لیا جس سے اطمینان ہوگیا کہ پہلی منی کا بقیہ ہوتا تو نکل چکتا اس کے بعد بلاشہوت نکلی تو غسل نہیں۔
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۰۸)
اقول ھذافــ۱ ماعین بعضھم فی الاستبراء وقال بعضھم یزید بعد اربعین سنۃ بکل سنۃ خطوۃ وھو کما تری ناش عن منزع حسن لکن المنی اثقل واسرع زوالا ویظھر لی ان یفوض فــ۲ الی رأی المبتلی بہ کما ھو داب اما منا رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی امثال المقام ای یعلم من نفسہ ان انقطع مادۃ الزائل بشھوۃ ولو کان لہ بقیۃ لخرج کیف وان الطبائع تختلف وھذا ماصححوہ فی الاستبراء کمافی الحلیۃ وغیرھا وقیدفـــ۳ مسألۃ الخروج بعد البول فی عامۃ الکتب بان لا یکون ذکرہ اذ ذاک منتشرا والا وجب الغسل قال المحقق فی الفتح بعد نقلہ عن الظہیریۃ ھذا بعد ماعرف من اشتراط وجود الشھوۃ فی الانزال فیہ نظر ۱؎ الخ وکتبت علیہ مانصہ فان مجرد الانتشار لایستلزم الشھوۃ الا تری ان الانتشار ربما یحصل باجتماع البول حتی للطفل وانہ یبقی مدۃ صالحۃ بعد الانزال مع عدم الشھوۃ۔
اقول:یہ وہ ہے جو بعض حضرات نے استبرا ء میں مقرر کیا ہے (استبرا، پیشاب کے بعد بعـض طریقوں سے اس بات کا اطمینان حاصل کرنا کہ اب قطرہ نہ آئے گا ۱۲ م)اور بعض نے کہا چالیس سال کی عمر کے بعد ہر سال ایک قدم کا اضافہ کرے۔ یہ خیال جیسا کہ پیشِ نظر ہے ایک اچھی بنیادسے پیدا ہوا ہے لیکن منی زیادہ ثقیل اور زائل ہونے میں زیادہ سریع ہوتی ہے۔ اور میرا خیال یہ ہے کہ اسے خود مبتلا کی رائے کے سپرد کیا جائے جیسا کہ اس طرح کے مقام میں ہمارے امام رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہی دستور ہے، یعنی اسے خود اطمینان ہو جائے کہ شہوت سے جدا ہونے والی منی کا مادہ ختم ہوگیا اور اگرکچھ بقیہ ہوتا تو نکل آتا۔ یہ کیوں نہ رکھا جائے جب کہ طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں اور استبرا میں بھی علماء نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ حلیہ وغیرہامیں ہے ۔ پیشاب کے بعد منی نکلنے کے مسئلہ میں عامہ کتب نے یہ شرط رکھی ہے کہ اس وقت ذکر منتشر نہ ہو ورنہ غسل واجب ہوگا۔اسے محقق علی الا طلاق نے فتح القدیر میں ظہیریہ سے نقل کرنے کے بعد لکھا: یہ محلِ نظر ہے اس لئے کہ معلوم ہوچکا کہ انزال میں شہوت کا موجود ہونا شرط ہے الخ۔ اس کے حاشیہ پر ، میں نے یہ لکھا: کیوں کہ صرف انتشار ، شہوت کو مستلزم نہیں۔ انتشار تو بار ہا پیشاب اکٹھا ہونے سے بھی ہوجاتاہے یہاں تک کہ بچے کو بھی۔ اور انزال کے بعد بھی خاصی دیر تک باقی رہ جاتا ہے باوجودیکہ شہوت ختم ہو چکی۔
فـــ۱ :مسئلہ پیشاپ کے بعد مرد پر استبرا واجب ہے یعنی وہ افعال کرنا جس سے اطمینان ہوجائے کہ قطرات نکل چکے اب نہ آئیں گے مثلاً کھنکارنا یا ٹہلنا یا ران پر ران رکھ کر عضو کو دبانا وغیرہ ذلک اس میں ٹہہرنے کی مقدار بعض نے چالیس قدم رکھی بعض نے یہ کہ چالیس برس کی عمر تک اسی قدر اور زیادہ پر فی برس ایک قدم اور۔اور صحیح یہ کہ جہاں تک میں اطمینان حاصل ہو خواہ چالیس سے کم یا زائد۔
فـــ۲ :تطفل علی العلامۃ المقدسی و الشامی۔
فـــ۳ :مسئلہ وہ جو مسئلہ گزرا کہ پیشاب کے بعد منی اترے تو غسل نہیں اس میں یہ شرط ہے کہ اس وقت شہوت نہ ہو ورنہ یہ جدید انزال ہوگا۔
(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ فصل فی الغسل مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۵۳)
اقول والجواب فـــ ان المراد ھو الشھوۃ ووقع التعبیر باللازم مسامحۃ ۲؎ اھ ماکتبت۔ قال المحقق بخلاف ماروی عن محمد فی مستیقظ وجد ماء ولم یتذکر احتلاما ان کان ذکرہ منتشرا قبل النوم لایجب والا فیجب لانہ بناہ علی انہ المنی عن شھوۃ لکن ذھب عن خاطرہ ۳؎ اھ
میں کہتا ہوں جواب یہ ہے کہ مراد شہوت ہی ہے اور تسا محاً لازم سے تعبیر ہوئی ہے اھ میرا حاشیہ ختم۔ آگے حضرت محقق لکھتے ہیں: بخلاف اس کے جو امام محمد سے مروی ہے کہ بیدار ہونے والا پانی دیکھے اور اسے احتلام یاد نہیں ، اگر سونے سے پہلے ذکر منتشر تھا تو غسل واجب نہیں، ورنہ واجب ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے اس حکم کی بنیاد اس پر رکھی ہے کہ اسے منی شہوت سے نکلی مگر اسے خیال نہ رہا۔اھ۔
فــ:تطفل علی الفتح
(۲؎ حاشیہ امام احمد رضا علی فتح القدیر کتاب الطہارۃ فصل فی الغسل قلمی فوٹو ص۳
۳؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ فصل فی الغسل مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۵۳)
اقول لم یصل فــ الی فھمہ قاصر ذھنی فان محل الاستشھاد قولہ ان کان ذکرہ منتشرا قبل النوم لایجب بناء علی ان المذی المرئی بعد التیقظ یحال علیہ کمافی الخانیۃ وعامۃ الکتب ولفظ الامام قاضی خان لانہ اذا کان منتشرا قبل النوم فما وجد من البلۃ بعد الانتباہ یکون من اثار ذلک الانتشار فلا یلزمہ الغسل الا ان یکون اکبر رأیہ انہ منی ۱؎ الخ
اقول:ان کے فہم تک میرے ذہن قاصر کی رسائی نہ ہو سکی،اس لئے کہ محلِ استشہاد یہ قول ہے کہ :” اگر سونے سے پہلے ذکر منتشر تھا تو غسل واجب نہیں” اس بنیاد پر کہ بیدار ہونے کے بعد دیکھی جانے والی مذی اسی کے حوالہ کی جائے گی۔ جیسا کہ خانیہ اور عامہ کتب میں ہے ۔امام قاضی خاں کے الفاظ یہ ہیں: اس لئے کہ جب سونے سے پہلے ذکر منتشر تھا تو بیدار ہونے کے بعد جو مذی پائی گئی اسی انتشار کے اثر سے ہوگی تو اس پر غسل واجب نہ ہوگا مگر یہ کہ اس کا غالب گمان یہ ہو کہ وہ منی ہے۔الخ۔
فــہ:تطفل اٰخر علیہ۔
(۱؎ فتاوی قاضی خاں کتاب الطہارۃ فصل فیما یوجب الاغتسال نولکشور لکھنؤ ۱ /۲۱ و ۲۲)
ومعلوم ان المذی لایکون من اثار انتشار بغیر شھوۃ فکما اطلق محمد الانتشار واراد الشھوۃ وتبعہ العامۃ علی ذلک فکذا فی قولھم ھنا وجواب المحقق لایمسہ فلیتامل۔قال المحقق ومحمل الاول (ای مامر عن الظہیریۃ) انہ وجد الشھوۃ یدل علیہ تعلیلہ فی التجنیس بقولہ لان فی الوجہ الاول یعنی حالۃ الانتشار وجد الخروج والانفضال علی وجہ الدفق والشھوۃ ۱؎ اھ وتبعہ فی البحر قال الشامی بعد عزوہ للبحر عبارۃ المحیط کما فی الحلیۃ رجل بال فخرج من ذکرہ منی ان کان منتشرا فعلیہ الغسل لان ذلک دلالۃ خروجہ عن شھوۃ۲؎ اھ
اور معلوم ہے کہ مذی بغیر شہوت انتشار کے ا ثر سے نہیں ہوتی تو جس طرح امام محمد نے انتشار کہا اور شہوت مراد لی اور اس میں عامہ مصنفین نے ان کا اتباع کیا ویسے ہی ان حضرات کے قول میں یہاں ہے اور حضرت محقق کے جواب کو اس سے کوئی تعلق نہیں۔ تو اس میں تامل کی ضرورت ہے۔ آگے حضرت محقق نے فرمایا: اول( وہ جو ظہیریہ کے حوالہ سے گزرا)کا مطلب یہ ہے کہ اس نے شہوت پائی ، اس کی دلیل یہ ہے کہ تجنیس میں اس کی تعلیل ان الفاظ میں پیش کی ہے : اس لئے کہ پہلی صورت۔ یعنی حالت انتشار۔ میں جست اور شہوت کے طور پر منی کا جدا ہونا اورنکلنا پایا گیا اھ۔ اور بحر میں اسی کا اتباع ہے۔ علامہ شامی نے بحر کا حوالہ پیش کرنے کے بعد لکھا: محیط کی عبارت، جیسا کہ حلیہ میں ہے، اس طرح ہے: ایک مرد نے پیشاب کیا پھر اس سے منی نکلی اگر ذکر منتشر تھا تو اس پر غسل ہے اس لئے کہ یہ منی کے شہوت سے نکلنے کی دلیل ہے اھ۔
(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارات فصل فی الغسل مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۵۳
۲؎ردالمحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۰۸)
اقول : وایاک ان تتوھم من تعقیبہ کلام البحر بہ انہ یرید بہ الاخذ علی البحر والفتح فی اشتراط وجد ان الشھوۃ لان المحیط یعنی الرضوی اذعنہ نقل فی الحلیۃ جعل نفس الانتشار دلیل الشھوۃ و ذلک لان فیہ نظرا ظاھرا لمن احاط بما قدمنا من الکلام وانما ملحظ الامام رضی الدین السرخسی فی ھذا القول عندی واللّٰہ تعالی اعلم الایمان الی جواب عن سؤال اختلج ببالی وھو ما اقول ان الجنابۃ قضاء الشھوۃ بالانزال کمافی الفتح والحلیۃ والبحر وشتان مابینہ وبین مجرد مقارنۃ الشھوۃ لنزول منی فان الانزال الذی تقضی بہ الشھوۃ یعقب الفتور و زوال الشھوۃ ولامانع لان ینفصل منی من مقرہ بدون شھوۃ بعد ما بال ثم ینتعش الرجل قلیلا فینتشر فینزل ھذا المنفصل بلاشھوۃ مع شھوۃ فلایورث فتورا ولا تکسرا فیکون قدخرج حین الشھوۃ ولم یکن جنابۃ لعدم قضاء الشھوۃ بہ فاومٰی الی الجواب وتقریرہ علی ما اقول انا لا ننکر ان المنی قدینفصل بدون شھوۃ ولا نقول ان الشھوۃ ھو السبب المتعین لہ لکن المسبب لعدۃ اسباب اذا وجد و وجد معہ سبب لہ فانما یحال علی ھذا الموجود لایلتفت الی انہ لعلہ حصل بسبب اخر کما قال الامام رضی اللّٰہ تعالی عنہ فی حیوان وجد فی البئر میتا ولا یدری متی وقع یحال موتہ علی الماء ولا یقال لعلہ مات بسبب اخر والقی فیہ میتا فاذا نزل عندالشھوۃ کان ذالک دلالۃ خروجہ عن شھوۃ فاوجب الغسل اما حدیث تعقیب الفتورفانما ذلک فی کمال الانزال الاتری کیف اوجب الشارع الغسل بمجرد ایلاج حشفۃ نظرا الی کونہ مظنۃ الانزال مع انہ لایعقبہ الفتور بل ربما یزید الانتشار ھکذا ینبغی ان یفہم ھذا المقام واللّٰہ تعالٰی ولی الانعام۔
اقول : ہر گز وہم نہ ہو کہ عبارت بحر کے بعد یہ عبارت لا کر علامہ شامی بحر وفتح پر شہوت پائے جانے کی شرط لگانے کے معاملہ میں گرفت کرنا چاہتے ہیں کہ محیط- یعنی محیط رضوی، کیونکہ حلیہ میں اسی سے نقل کیا ہے۔نے تو خود انتشار ہی کو دلیل شہوت قرار دیاہے۔ وہ اس لئے کہ اس سے ان پر گرفت ماننے میں نظر ہے جو ہمارے کلام سابق سے آگاہی رکھنے والے پر ظاہر ہے۔ میرے نزدیک اس کلام سے امام رضی الدین سرخسی کا مطمح نظر- واللہ تعالٰی اعلم – ایک سوال کے جواب کی طرف اشارہ ہے ۔ یہ سوال جو میرے دل میں آیا ہے اس طر ح ہے:اقول جنابت انزال سے قضائے شہوت کانام ہے۔ جیسا کہ فتح، حلیہ اوربحر میں ہے۔ انزال سے قضائے شہوت، اور انزال منی کے ساتھ شہوت کی صرف مقارنت ومعیت دونوں میں بڑا فرق ہے۔ اس لئے کہ جس انزال سے قضائے شہوت کا وقوع ہوتاہے اس کے بعد فتور اور زوالِ شہوت کا ظہور ہوتاہے۔ اور یہ ہوسکتاہے کہ پیشاب کے بعد کوئی منی اپنے مستقر سے بلا شہوت جداہو پھر آدمی میں کچھ نشاط پیدا ہو تو انتشار ہو جائے پھر یہ بلا شہوت جدا ہونے والی منی شہوت کے ساتھ ساتھ، اترآئے اور اس سے نہ کوئی فتور پیدا ہو نہ کوئی شکستگی آئے تو ہوگا یہ کہ منی حالتِ شہوت میں باہر آئی ہے اور جنابت نہیں کیونکہ اس سے قضائے شہوت واقع نہیں ۔تو صاحبِ محیط نے اس سوال کے جواب کی طرف اشارہ فرمایا۔ اور تقریر جواب اس طرح ہوگی، اقول ہمیں اس سے انکار نہیں کہ منی کبھی بغیر شہوت کے بھی جدا ہوتی ہے اور نہ ہی ہم اس کے قائل ہیں کہ شہو ت ہی اس کا سبب معین ہے۔ لیکن جو امر کئی اسباب کا مسبّب ہے جب اس کا وجود ہو اور اس کے ساتھ اس کاکوئی ایک سبب بھی موجود ہو تو اسے اسی سبب موجود کے حوالہ کیا جائے گا اور اس طرف التفات نہ ہوگا کہ ہو سکتا ہے وہ کسی اور سبب سے وجود میں آیا ہو۔ جیسا کہ حضرت امام رضی اللہ تعالی عنہ کا اس حیوان سے متعلق ارشاد ہے جو کنویں میں مردہ ملا اور پتہ نہیں اس میں کب واقع ہو ا تو اس کی موت کو آب ہی کے حوالہ کیا جائے گا اور یہ نہ کہا جائے گاکہ ہوسکتاہے وہ کسی اور سبب سے مراہو، اور مرا ہو ا اس میں ڈال دیاگیاہو۔ تو جب وقت شہوت انزال ہوا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس منی کا نکلنا شہوت ہی سے ہے اس لئے غسل واجب ہوا۔ رہی اس کے بعد سستی اور فتور آنے کی بات تو وہ کمال انزال میں ہے شریعت نے محض ادخالِ حشفہ سے غسل کیسے واجب کیا؟ اسی پر نظر کرتے ہوئے کہ یہ مظنّہ انزال ہے باوجودیکہ اس کے بعد کسل و فتور نہیں ہوتابلکہ بارہا انتشار میں اضافہ ہوجاتاہے۔ اسی طرح اس مقام کو سمجھنا چاہئے۔ اور خدائے بر تر ہی مالکِ فضل واحسان ہے۔
العاشر فـــ۱ : فی تعریف الجنابۃ قد علمت ما افادہ الفتح وتبعہ الحلبی والبحر ۔
دسویں تنبیہ : تعریف جنابت سے متعلق- اس بارے میں ابھی وہ معلوم ہواجو صاحب فتح نے افادہ کیا اور حلبی وبحر نے جس میں ان کا اتباع کیا۔
فــ۱ :بحث تعریف الجنابۃ۔
اقول وظھرفـــ۲ لک مماقررنا ان مایعطیہ ظاھرہ غیر مراد والاولی انھاالانزال عن شھوۃ ثم فـــ۳ الحق انہ تعریف بالسبب ویستفاد من نھایۃ ابن الاثیرانھاوجوب الغسل بجماع اوخروج منی۔
اقول: تم پر ہماری تقریر سے واضح ہوگیا ہو گا کہ ان کا ظاہر کلام جو معنی ادا کر رہا ہے وہ مراد نہیں۔
اور بہتر یہ کہنا ہے کہ جنابت شہوت سے انزال کا نام ہے۔ پھر حق یہ ہے کہ یہ سبب کے ذریعہ تعریف ہے ( یعنی انزال سبب جنابت ہے خود جنابت نہیں۱۲م)اور نہایہ ابنِ اثیر سے یہ تعریف مستفاد ہوتی ہے:جنابت جماع یا خروجِ منی سے وجوبِ غسل کا نام ہے۔
فـــ۲ :تطفل علی الفتح والحلیۃ و البحر۔
فـــ۳ :تطفل اٰخر علیھا۔
اقول : واطلق عن قید الشھوۃ بناء علی مذھبہ الشافعی ثم ھذا فـــ۱ تعریف بالحکم وحق الحدلھاما اقول انھاوصف حکمی اعتبرہ الشرع قائمابالمکلف مانعالہ عن تلاوۃ القرآن اذاخرج منہ ولوحکمامنی نزل عنہ بشھوۃ فقولی ولوحکمالادخال ادخال الحشفۃ بشروطہ وقولی نزل عنہ بشھوۃ لاخراج اخراج المرأۃ فـــ۲ منی زوجہا من فرجہافانما لاتجنب بہ وان اجنبت بالایلاج بل قدیخرج منیہ منھا ولاتجنب اصلاکما اذا اولج نصف حشفۃ فامنی فدخل المنی فرجہا فخرج ولم اقل الی غایۃ استعمال المزیل کما قال الفتح والبحر وغیرھما فی حدالحدث اذلافـــ۱ حاجۃ الیہ فان زوال المنع بزوال المانع مما لاحاجۃ الی التنبیہ علیہ فضلا عن الاحتیاج الی اخذہ فی الحد فافھم ۔
اقول:اس میں انہوں نے اپنے مذہب شافعی کی بناء پر شہوت کی قید نہ لگائی۔ پھر یہ حکم کے ذریعہ تعریف ہے( یعنی وجوبِ غسل حکم جنابت ہے خود جنابت نہیں۱۲م)اور اس کی کماحقّہ تعریف یہ ہے: اقول جنابت ایک حکمی وصف ہے جسے شریعت نے مکلف کے ساتھ قائم،اس کے لئے تلاوتِ قرآن سے مانع ماناہے جب کہ اس سے اس منی کا خروج ہو جو اس سے شہوت کے ساتھ اُتری، اگرچہ یہ خروج حکما ہی ہو ۔” اگرچہ حکماً” میں نے اس لئے کہا کہ ادخالِ حشفہ کی صورت بھی اس کی مقررہ شرطوں کے ساتھ، اس تعریف میں داخل ہوجائے۔اور میں نے کہا”اس سے شہوت کے ساتھ اتری” تاکہ وہ صورت اس تعریف سے خارج ہو جائے جب عورت کی شرم گاہ سے زوج کی منی باہر آئے، کیوں کہ عورت کے لئے اس سے جنابت ثابت نہیں ہوتی، اگرچہ ادخال سے وہ جنابت والی ہوجاتی ہے۔ بلکہ ایسابھی ہوگاکہ زوج کی منی عورت سے نکلے اور عورت جنابت زدہ بالکل نہ ہو مثلاً اس نے نصف حشفہ داخل کیا پھر باہر اس سے منی نکلی جو عورت کی شرم گاہ میں چلی گئی پھر باہر آئی۔اور میں نے ” الٰی غایۃ استعمال المزیل” نہ کہا جیسا کہ فتح وبحر وغیرہما میں حدث کی تعریف میں کہا ہے( یعنی یہ کہ شریعت نے اس وصف کومانع قرار دیاہے جب تک کہ مکلف اس وصف کو ”زائل کرنے والی چیز استعمال نہ کرلے” مثلاً غسل یا تیمم جنابت نہ کرلے۱۲م)اس لئے کہ یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ مانع ختم ہوجانے سے ممانعت کا ختم ہوجانا خود ہی ظاہر ہے اس پر تو تنبیہ کی حاجت نہیں، کسی تعریف میں اسے داخل کرنے کی حاجت کیا ہوگی؟۔ اسے سمجھ لو۔
فـــ۱ :تطفل علی ابن کثیر۔
فـــ۲ :مسئلہ زوج کی منی اگر عورت کی فرج سے نکلے تو اس پر وضو واجب ہوگا اس کے سبب غسل نہ ہوگا۔
فـــ۱ :تطفل علی الفتح و البحر وغیرھما۔
واقتصرت مما یمنع بھا علی التلاوۃ لعدم الحاجۃ الی استیعاب الممنوعات فی التعریف وانما ذلک عند تعریف الاحکام۔
جنابت کی وجہ سے شرعاً جو چیزیں ممنوع ہوجاتی ہیں ان میں صرف تلاوت کے ذکر پر میں نے اکتفا کی، اس لئے کہ تعریف کے اندر ممنوعات کا احاطہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔یہ ضرورت تو احکام بتانے کے وقت ہے (کہا جاسکتاہے کہ مانع تلاوت ہونے کا ذکر کرنے کی بھی کیا حاجت؟ اس کے جواب میں کہا ۱۲م):
اقول: والحاجۃ الٰی ذکرہ اخراج نجاسۃ المنی الحقیقیۃ وحکم البلوغ باول انزال الصبی واخترت القراٰن علی قربان الصلاۃ لان المنع منھالایختص بالحدث الاکبر ولم اقل قائما بظاھر بدن المکلف کی یصح الحمل علی کلامعنیی الحدث مایتجزی منہ وھی النجاسۃ الحکمیۃ القائمۃ بسطوح الاعضاء الظاھرۃ ومالا وھوتلبس المکلف بہاکمابینتہ فی الطرس المعدل فی حد الماء المستعمل ولوقلتہ لاختص بالاول۔
اقول:اس کے ذکر کی حاجت یہ ہے کہ منی کی نجاستِ حقیقیہ تعریف سے خارج ہوجائے، اوربچےّ کے پہلی بار انزال سے ہی اس کے لئے بلوغ کا حکم ہوناثابت ہوجائے۔ اور میں نے مانع نمازہونے کے بجائے مانع تلاوت ہونااختیار کیا اس لئے کہ نمازسے ممانعت حدثِ اکبر کے ساتھ خاص نہیں۔ میں نے(قائم بمکلف کہا)” مکلف کے ظاہر بدن کے ساتھ قائم”نہ کہاتاکہ حدث کے دونوں معنوں پر محمول کرنا صحیح ہو سکے۔حدث کا ایک معنٰی تو وہ ہے جس کی تجز ّی اورانقسام ہو سکتاہے۔ یہ وہ نجاست حکمیہ ہے جو ظاہری اعضا کی سطحوں سے لگی ہوئی ہے (اس کی تجز ی مثلاً یوں ہو سکتی ہے کہ بعض اعضا دھولئے ان سے نجاست حکمیہ دور ہوگئی اور بعض دیگر پر باقی رہ گئی ۱۲م) اور ایک معنی وہ ہے جس کی تجزی نہیں ہوسکتی۔وہ ہے مکلف کا اس نجاست حکمیہ سے متلبس ہونا(بعض اعضا کے دھلنے سے مکلف کی ناپا کی کا حکم ختم نہیں ہوگا جب تک کہ مکمل طورپرتطہیرنہ ہوجائے۔سب دھونے کے بعد ہی وہ پاک کہلائے گااسی طرح تیمم کی صورت میں ۱۲م )جیسا کہ میں نے اسے”الطرس المعدل فی حدالماء المستعمل” میں بیان کیاہے۔ اگر میں”قائم بظاہرِ بدن مکلف:کہہ دیتا تو یہ تعریف صرف معنی اول کے ساتھ خاص ہوجاتی۔
اقول: وبہ ظھران فی حد الحدث المذکور فی الحلیۃ انہ الوصف الحکمی الذی اعتبر الشارع قیامہ بالاعضاء مسبباعن الجنابۃ والحیض والنفاس والبول والغائط وغیرھمامن نواقض الوضوء ومنع من قربان الصّلاۃ ومافی معناھامعہ حال قیامہ بمن قام بہ الی غایۃ استعمال مایعتبرہ زائلا بہ ۱؎ اھ
اقول:اسی سے ظاہر ہوا کہ حدث کی درج ذیل تعریف جو صاحبِ حلیہ نے کی ہے اس میں کھلا ہوا تسامح ہے وہ لکھتے ہیں: ”حدث وہ وصف حکمی ہے شارع نے ” اعـضا کے ساتھ جس کے قائم ” ہونے کو جنابت،حیض،نفاس ، پیشاب، پاخانہ اوران دونوں کے علاوہ نواقض وضو کا مسبّب مانا ہے۔اور اس وصف کے ساتھ نماز اور ان چیزوں کے قریب جانے سے روکا ہے جو نماز کے معنی میں ہیں اس حالت میں کہ یہ وصف جس کے ساتھ لگا ہے اس سے لگا ہوا ہو یہا ں تک کہ وہ چیز استعمال کرے جس سے شارع اس وصف کو زائل مانے ”۔اھ۔
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
تسامحا فــ۱ ظاھرا فی جعل الحدث مسبباعن الجنابۃ بل ھی نفسہا احد الحدثین فان وجہ بان الحد للحدث بمعنی التلبس والمراد بالجنابۃ تلک النجاسۃ الحکمیۃ ولا بعد ان یقال ان تلبسہ بھا مسبب عن وجودھا۔
تسامح اس طرح کہ حدث کو جنابت کا مسبّب قرار دیا ہے حالاں کہ خود جنابت ایک حدث ہے۔حدثِ اکبر۔اب اگر یہ توجیہ کی جائے کہ یہ تعریف حدث بمعنی تلبّس کی ہے اور جنابت سے مراد وہ نجاست حکمیہ ہے( جو اعضاء میں لگی ہوئی ہے۱۲م)اور بعید نہیں کہ یہ کہا جائے کہ جنابت سے مکلف کا تلبّس اُس نجاست حکمیہ کے موجود ہونے کا مسبّب ہے۔
فــ :۱ تطفل علی الحلیۃ۔
قلت یدفعہ قولہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی قیامہ بالاعضاء فالقائم بھا ھی النجاسۃ الحکمیۃ دون تلبس المکلف بھا فلا محیدالا ان یرتکب المجاز فی الحدفیرادبھا المنی النازل عن شھوۃ۔
میں کہوں گایہ توجیہ صاحبِ حلیہ کے الفاظ”اعضاء کے ساتھ قائم”سے رد ہوجاتی ہے، کیوں کہ اعضاء کے ساتھ قائم تو وہی نجاست حکمیہ ہے، مکلف کا اس سے تلبّس اعضاء کے ساتھ قائم نہیں۔ تواس سے مفر نہیں کہ تعریف میں مجاز کاارتکاب ماناجائے اورجنابت سے مراد وہ منی لی جائے جو شہوت سے اُتری ہو۔
ثم اقول خلل فــ۲اخرفی مانعتیہ فان الواوات فی قولہ والحیض والنفاس الخ بمعنی اوفیشمل التعریف الوصف الحکمی الذی یقوم بالاعضاء عند تلوثھابنجاسات الحیض وما بعدہ الحقیقۃ فانھا ایضاتمنع من قربان الصّلاۃ الخ وکونھانجاسات حقیقۃ لاینافی کون الوصف الذی یحصل للاعضاء بھاحکمیاکما حققہ المحقق حیث اطلق اذیقول فی الفتح من بحث الماء المستعمل معنی الحقیقۃ لیس الاکون النجاسۃ موصوفا بھا جسم محسوس مستقل بنفسہ عن المکلف ولیس التحقق لنامن معناھاسوی انھااعتبارشرعی منع الشارع من قربان الصلاۃ والسجودحال قیامہ لمن قام بہ الی غایۃ استعمال الماء فیہ فاذا استعملہ قطع ذلک الاعتبارکل ذلک ابتلاء للطاعۃ فاماان ھناک وصفاحقیقیاعقلیا اومحسوسافلا ومن ادعاہ لایقدرفی اثباتہ علی غیرالدعوی فلا یقبل ویدل علی انہ اعتباراختلافہ باختلاف الشرائع الاتری ان الخمرمحکوم بنجاسۃ فی شریعتناوبطہارتہ فی غیرھافعلم انہا لیست سوی اعتبار شرعی الزم معہ کذاالی غایۃ کذا ابتلاء ۱؎ اھ ولا عطربعدعروس۔
ثم اقول ا س تعریف کے مانع ہونے میں ایک اورخلل ہے۔وہ اس طرح کہ ان کی عبارت”والحیض والنفاس الخ” میں واؤ بمعنی اَوْ (یا) ہے تو یہ تعریف اس وصف حکمی کو بھی شامل ہوگی جوحیض اور اسکے بعد ذکر شدہ چیزوں کی نجاست حقیقیہ سے اعضاء کے آلودہ ہونے کے وقت اعضاء کے ساتھ قائم ہو۔ اس لئے کہ یہ بھی نماز وغیرہ کے قریب جانے سے مانع ہے۔ اور ان کا نجاست حقیقیہ ہونا اس کے منافی نہیں کہ ان سے اعضاء کو حاصل ہونے والا وصف، حکمی ہو۔ جیساکہ محقق علی الاطلاق نے اس کی تحقق فرمائی ہے ، وہ فتح القدیر بحث مائے مستعمل میں لکھتے ہیں:حقیقیہ کا معنی صرف اس قدر ہے کہ مکلف سے جُدا ایک مستقل محسوس جسم اس نجاست سے متصف ہے اور ہمارے لئے اس کامعنی بس اتناہی محقق ہے کہ یہ ایک اعتبار شرعی ہے کہ جس کے ساتھ وہ قائم ہے اس سے قائم ہوتے ہوئے شارع نے اسے نماز و سجدہ کے قریب جانے سے روکا ہے یہاں تک کہ اس میں پانی کااستعمال کرے،جب پانی استعمال کرلے گا تو وہ اعتبار ختم ہوجائے گا۔یہ سب اطاعت کی آزمائش کے لئے ہے۔ لیکن یہ کہ وہاں کوئی عقلی یا محسوس وصف حقیقی ہے توایسا نہیں۔ جواس کامدعی ہو وہ اس کے ثبوت میں دعوٰی سے زیادہ کچھ پیش نہیں کرسکتا۔اس لئے یہ قابلِ قبول نہیں۔ اور اعتبار ہونے کی دلیل یہ ہے کہ شریعتوں کے مختلف ہونے سے یہ مختلف ہوتارہا ہے ۔ دیکھئے ہماری شریعت میں شراب کی نجاست کا حکم ہے اور دوسری شریعت میں اس کی طہارت کاحکم رہا ہے تومعلوم ہوا کہ یہ نجاست صرف ایک اعتبار شرعی ہے جس کے ساتھ شریعت نے آزمائش کے لئے فلاں چیز فلاں حدتک لازم فرمائی ہے اھ۔ ولاعطر بعد عروس۔(اس صاف تصریح کے بعد مزید تو ضیح واثبات کی حاجت ہی نہیں۱۲)۔
فـــ۲:تطفل آخر علیہا۔
(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۷۵)
الحادی عشر عدم وجوب الغسل بمنی خرج بعدالبول ونحوہ من دون الشھوۃ وقع تعلیلہ فی مصفی الامام النسفی رحمہ اللّٰہ تعالی بانہ مذی ولیس بمنی لان البول والنوم والمشی یقطع مادۃ الشھوۃ ۲؎ اھ نقلہ فی البحر واقر۔
گیارھویں تنبیہ: پیشاب وغیرہ کے بعد بلاشہوت نکلنے والی منی غسل واجب نہ ہونے کی تعلیل امام نسفی رحمہ اللہ تعالٰی کی مصفّی میں یہ واقع ہوئی کہ وہ مذی ہے، منی نہیں ہے۔ اس لئے کہ پیشاب، نیند،اورچلنا مادہ شہوت قطع کردیتاہے اھ۔اسے بحر میں نقل کر کے بر قرار رکھا۔
(۲؎ البحرالرائق بحوالہ المصفی کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۵۵)
اقول وفیہ نظرفـــ۱ ظاھر فان صورۃ المنی لاتکون قط للمذی وفی قولہ رحمہ اللّٰہ تعالی انھا تقطع مادۃ الشھوۃ تسامح فـــ۲ واضح وانما تقطع مادۃ المنی المنفصل فیؤمن بھا ان یکون الخارج بعدھا بقیۃ منی کان نزل بشھوۃ وھذاھوالصحیح فی تعلیل المسألۃ کماافادہ فی التبیین وغیرہ فان لیس خروج کل منی مجنبا بل منی نزل عن شھوۃ وقد انقطع مادتہ بہا فالخارج الان منیا منی قطعا لکن غیر نازل عن شھوۃ فلایوجب الغسل خلافا للامام الشافعی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔
اقول یہ واضح طور پر محلِ نظر ہے۔اس لئے کہ منی کی صورت،مذی کے لئے کبھی نہیں ہوتی۔اور امام موصوف رحمہ اللہ تعالٰی کے کلام”یہ سب مادہ شہوت کو قطع کردیتے ہیں” میں کھلا ہوا تسامح ہے۔ یہ چیزیں صرف جدا ہونے والی منی کا مادہ منقطع کردیتی ہیں تو ان کے باعث اس بات سے اطمینان ہوجاتا ہے کہ ان کے بعدنکلنے والی چیزاس منی کا بقیہ حصہ ہوجو شہوت کے ساتھ اُتری تھی۔اور یہی مسئلہ کی صحیح تعلیل ہے جیسا کہ تبیین وغیرہ میں اس کا افادہ کیا ہے۔اس لئے کہ ہر منی کانکلنا جنابت لانے والا نہیں،بلکہ صرف وہ منی سببِ جنابت ہوتی ہے جو شہوت سے اتری ہواور مذکورہ چیزوں سے اس کامادہ منقطع ہوگیا۔ تو اس وقت منی کی صورت میں نکلنے والی چیزقطعاً منی ہی ہے لیکن وہ شہوت سے اترنے والی نہیں اس لئے موجبِ غسل نہیں بخلاف امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے۔
فـــ۱:تطفل علی المصفی والبحر۔
فـــ۲:تطفل آخر علیہما۔
فان قلت الیس افاد فی الفتح ان مانزل عن غیر شھوۃ لایکون منیا قال رحمہ اللّٰہ تعالٰی کون المنی عن غیر شھوۃ ممنوع فان عائشۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا اخذت فی تفسیرھا ایاہ الشھوۃ قال ابن المنذر حدثنا محمد بن یحیی حدثنا ابو حنیفۃ حدثنا عکرمۃ عن عبدربہ بن موسٰی عن امہ انھا سألت عائشۃ رضی اللّٰہ تعالی عنھا عن المذی فقالت ان کل فحل یمذی وانہ المذی والودی والمنی فاماالمذی فالرجل یلاعب امراتہ فیظہر علی ذکرہ الشیئ فیغسل ذکرہ وانثییہ ویتوضأولا یغتسل واماالودی فانہ یکون بعد البول یغسل ذکرہ وانثییہ ویتوضأولایغتسل واماالمنی فانہ الماء الاعظم الذی منہ الشھوۃ وفیہ الغسل و روی عبدالرزاق فی مصنفہ عن قتادۃ وعکرمۃ نحوہ فلایتصورمنی الامن خروجہ بشھوۃ والافیفسد الضابط الذی وضعتہ لتمییز المیاہ لتعطی احکامھا ۱؎ اھ
اگر یہ سوال ہو کہ کیا فتح القدیر میں افادہ نہیں فرمایا ہے جو بلا شہوت نکلے وہ منی نہیں۔ وہ فرماتے ہیں:منی کا بغیر شہوت ہونا تسلیم نہیں۔اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اس کی جو تفسیر کی ہے اس میں شہوت کو لیا ہے۔ ابن المنذر نے کہا ہم سے محمد بن یحیٰی نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا ہم سے ابو حنیفہ نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہاہم سے عکرمہ نے حدیث بیا ن کی، انہوں نے عبداللہ بن موسٰی سے ، انہوں نے اپنی ماں سے روایت کی، کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مذی کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایاہرنر کو مذی آتی ہے۔ اور مذی، ودی، منی تین چیزیں ہیں۔مذی یہ کہ مرد اپنی بیوی سے ملاعبت کرتاہے تواس کے ذکر پر کچھ ظاہر ہوجاتاہے ۔ وہ اپنے ذکر اور انثیین کو دھوئے اور وضو کر ے، اسے غسل نہیں کرنا ہے۔ اور ودی پیشاب کے بعد آتی ہے ۔ ذکر اور انثیین کو دھوئے گااو روضو کرے گا، غسل نہیں کرنا ہے ۔ لیکن منی تو وہ آب اعظم ہے جس سے شہوت ہوتی ہے اور اسی میں غسل ہے۔ اور عبدالرزاق نے اپنی مصنّف میں حضرت قتادہ سے انہوں نے عکرمہ سے اسی کے ہم معنی روایت کی ہے۔اور شہوت کے ساتھ نکلے بغیر منی ہونا متصور نہیں۔ ورنہ وہ ضابطہ ہی فاسد ہوجائے گاجو ام المومنین نے احکام بتانے کے لئے پانیوں کے باہمی امتیاز کے لے وضع کیا ۔اھ۔
(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ فصل فی الغسل مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۵۳و۵۴)
قلت : علی تسلیمہ ایضا لایصح جعلہ مذیا بل ان کان فلخروجہ بعد البول ودیا۔
قلتُ (میں جواب دوں گا) : اس کلام محقق کو اگر تسلیم کرلیاجائے تو بھی اسے (پیشاب وغیرہ کے بعد نکلنے والی منی کو) مذی قرار دینا درست نہیں۔ بلکہ اگر وہ ہو سکتی ہے تو پیشاب کے بعد نکلنے کی وجہ سے ودی ہو سکتی ہے۔
علا ان ما افادالمحقق شیئ تفردبہ لااظن احداسبقہ الیہ اوتبعہ علیہ وقول التبیین قال صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذاحذفت الماء فاغتسل وان لم تکن حاذفا فلا تغتسل فاعتبرالحذف وھو لایکون الا بالشھوۃ ۱؎ اھ
علاوہ ازیں حضرت محقق نے جو افادہ کیا اس میں وہ متفرد ہیں۔ میرے خیال میں ان سے پہلے کسی نے یہ بات نہ کہی اور نہ ان کے بعد اس میں کسی نے ان کی پیروی کی۔اور تبیین کی یہ عبارت کلامِ فتح کی طرح نہیں، تبیین میں ہے:حضور اقدس نے فرمایا جب تو پانی پھینکے تو غسل کر، اور اگر پھینکنے والانہ ہو توغسل نہ کر۔ تو حضور نے پھینکنے کا اعتبار فرمایا اور یہ شہوت ہی کے ساتھ ہوتاہے ۔اھ۔
(۱؎ تبیین الحقائق کتاب الطہارۃ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۶۵)
لیس کمثلہ لمن تأمل ففی الحذف الدفق ولا یکون الا بشھوۃ بخلاف نفس خروج المنی کیف فـــ۱وقد نطقت الکتب عن اخرھامتونھاوشروحہاوفتاوٰھا بتقیید المنی الذی یوجب الغسل بکونہ ذاشہوۃ وان ھذاالقیداحترازی وان المنی فـــ۲اذا خرج من ضربۃ اوسقطۃ اوحمل ثقیل من دون شھوۃ لایوجب الغسل ۔
یہ عبارت ویسی اس لئے نہیں کہ حذف (پھینکنے) میں دفق(جست کرنا) ہوتاہے اور وہ شہوت ہی سے ہوتاہے، نفس خروج منی میں ایسا نہیں۔ اور یہ کیسے ہوسکتاہے جب کہ متون ، شروح، فتاوٰی تمام ترکتابوں میں غسل واجب کرنے والی منی کے ساتھ شہوت والی ہونے کی قید لگی ہوئی ہے۔ اور یہ احترازی ہے اور یہ بھی ہے کہ جب ضرب سے یا گرنے سے وزنی چیز اٹھانے سے بلا شہوت منی نکل آئے تو اس سے غسل واجب نہیں ہوتا۔
فـــ:تطفل علی الفتح۔
فــــ۲:مسئلہ چوٹ لگنے یاگرنے بوجھ اٹھانے سے منی بے شہوت نکل جائے تو غسل نہ ہوگاصر ف وضو آئے گا۔
امااحتجاجہ بقول ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالی عنہا ۔
رہا حضرت محقق کا کلام ام المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہا سے استدلال اس پر چند کلام ہے۔
فاقول فیہ فــ۳اولا ان امناانماترید تعریف المیاہ بخواص لہا اغلبیۃ والتعریف بالخاص سائغ شائع لاسیما فی الصدر الاول
اقول، اول ہماری ماں رضی اللہ تعالٰی عنہا ان پانیوں کی تعریف ان کے اکثری خواص سے کرناچاہتی ہیں اور خاص سے تعریف روا اور عام ہے خصوصاً زمانہ اولی میں۔
فـــــ۳:تطفل آخر علی الفتح ۔
وثانیا ماذایرادفـــ۴ بالضابط اٰالصدق الکلی من جانب المیاہ اوالخواص اوالجانبین والکل منقوض ۔
ثانی ضابطہ سے کیا مراد ہے؟۔ پانیوں کی جانب سے صدق کلی، یا خواص کی جانب سے ، یا ونوں جانب سے ؟ کوئی بھی درست نہیں۔
فــ۴:تطفل ثالث علیہ ۔
اماالاول فمع عدم وفائہ بالمقصودلان لزوم المنویۃ للشھوۃ لایستلزم لزوم الشھوۃ للمنویۃ وانما الکلام فیہ لایصح فی نفسہ لان الرجل قد یمنی بالملاعبۃ فیکون ھذا الانزال مذیا ولا یوجب الغسل وقد یمنی بشھوۃ عقیب البول کما تقدم عن المحقق فیکون ھذا الامناء ودیا ولا غسل وکلاھماخلاف للاجماع ۔
اول اس لئے کہ ایک تو اس سے مقصد حاصل نہیں کیوں کہ اگر شہوت کو منی ہونالازم بھی ہو تو یہ اسے مستلزم نہیں کہ منی ہونے کو شہوت بھی لازم ہو، اور کلام اسی میں ہے۔ دوسرے یہ کہ خود بھی صحیح نہیں( کہ جب بھی شہوت ہو تو منی بھی ہو)اس لئے کہ مرد کو کبھی ملاعبت سے منی آتی ہے تویہ انزال مذی ہوجاتاہے اور غسل واجب نہیں کرتا۔اور کبھی اسے پیشاب کے بعد شہوت کے ساتھ منی آتی ہے۔ جیسا کہ حضرت محقق سے نقل ہوا۔تویہ اِمنا(منی آنا) ودی قرار پاتا ہے اور غسل نہیں ہوتا۔ اور دونوں ہی خلافِ اجماع ہیں( کیوں کہ شہوت کے ساتھ انزال اور اِمناقطعاً موجب غسل ہے)
واما الثانی فلان الانتشاربنظراوفکر من دون ملاعبۃ ربمایورث الامذاء لاسیما اذا کان الرجل مذاء وھل لایمذی الاعزب ابدا اذلا مرأۃ یلاعبہامع انہاقالت کل فحل یمذی فاذا لم یفسد الضابط بالتخلف فی المذی لایفسد ایضافی المنی ۔
دوم اس لئے کہ بغیر ملاعبت کے نظر یا فکر سے بھی انتشارِ آلہ سے بعض اوقات مذی آتی ہے خصوصاً جب مرد زیادہ مذی والا ہو۔اور کیابیوی نہ رکھنے والے کو کبھی مذی نہیں آتی اس لئے کہ کوئی عورت نہیں جس سے وہ ملاعبت کرے باوجودیکہ انہوں نے فرمایا ہر نر کو مذی آتی ہے۔ تو جب مذی کے بارے میں تخلّف سے ضابطہ فاسد نہیں ہوتا تو منی میں تخلّف سے بھی فاسد نہ ہو گا۔
وثالثاوھوفــ الطرازالمعلم والحل المحکم ان ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالی عنہا لم تقل ھو الماء الاعظم الذی من الشہوۃ لیلزم ان لایخرج منی الا بشھوۃ وانماقالت منہ الشھوۃ فانما یلزم ان لزم ان لکل منی دخلافی ایراث الشہوۃ وما یورث الشہوۃ لایلزم ان لایخرج الابھافقد یعتریہ عارض یزیلہ عن مکانہ بدون شہوۃ ولا شک ان تخلق المنی فی البدن ھو الذی یولد الشھوۃ لتوجہ الطبع الی دفع تلک الفضلۃ فالمنی وان خرج لعارض بغیر شھوۃ لایخرج من انہ الماء الذی یولد الشھوۃ لایبعد ان ویکون لک جزء منہ دخل فیما لان کلہ فضلہ ومن المعلوم انہ کلما ازدادالمنی تزدادالشھوۃ ۔
ثالث اور یہی نشان زدہ نقش ونگار اور محکم حل ہے۔امّ المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا کہ” یہ وہ آب اعظم ہے جو شہوت سے ہوتا ہے”کہ یہ لازم آسکے کہ کوئی منی بغیر شہوت کے نہیں نکلتی۔ انہوں نے تو فرمایا ہے: منہ الشھوۃ” اس سے شہوت ہوتی ہے۔اس سے اگر لازم آئے گا تو یہی لازم آئے گا کہ ہر منی کو شہوت پیدا کرنے میں کچھ دخل ہوتاہے۔اور جوچیزشہوت کو پید ا کرنے والی ہوضروری نہیں کہ شہوت کے ساتھ ہی نکلے۔ ایسا بھی عارض درپیش ہوگا جو اسے اس کی جگہ سے بغیر شہوت کے ہٹادے۔ اور اس میں شک نہیں کہ بدن میں منی کاپیدا ہونا ہی شہوت کی تولید کرتاہے کیوں کہ طبیعت اس فضلہ کو دفع کرنے کی جانب متوجہ ہوتی ہے۔ تو منی اگرچہ کسی عارض کے باعث بلا شہوت نکلی ہو مگر اس سے باہر نہ ہوگی کہ یہ وہ پانی ہے جو شہوت پیدا کرتاہے۔ اور بعید نہیں کہ اس کے ہر جُز کو شہوت میں کچھ دخل ہو اس لئے کہ ہر جُز فضلہ ہی ہے۔ اور معلوم ہے کہ جب منی زیادہ ہوتی ہے شہوت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
فــ : تطفل رابع علیہ ۔
فقول ام المؤمنین لایمس مااراد المحقق ولکن لاغروفلکل جواد کبوۃ ولکل صارم نبوۃ وابی اللّٰہ الصحۃ کلیۃ الالکلامہ وکلام صاحب النبوۃ صلوات اللّٰہ تعالی وسلامہ علیہ وعلی اٰلہ وصحبہ اولی الفتوۃ ونسأل المولی سبحنہ وتعالی عافیتہ وعفوہ۔
تو اُم المومنین کے ارشاد کو حضرت محقق کی مراد سے کوئی مس نہیں۔ مگر تعجب کی بات نہیں ا س لئے کہ (عرب نے کہا ہے) ہر اسپ خوش رفتار ٹھوکر بھی کھاتا ہے،اورہر شمشیربراں ناموافق بھی ہوجاتی ہے، اور خدا کو اپنے کلام اور اپنے نبی کے کلام کے سوا کسی اور کلام کی بالکلیہ صحت منظور نہیں۔ خدا ئے برتر کا درودوسلام ہو حضرت نبی اور ان کے جوانمردآل واصحاب پر۔اور ہم مولا ئے پاک وبرتر سے اس کی عافیت وعفو کے طالب ہیں۔
الثانی عشر : المرأۃ فـــ۱کالرجل فی الاحتلام نص علیہ محمد کمافی مختصر الامام الحاکم الشہید فان احتلمت ولم تربللا لاغسل علیہا ھو المذھب کما فی البحروالدر وبہ یؤخذ قالہ شمس الائمۃ الحلوانی وھوالصحیح قالہ فی الخلاصۃ وعلیہ الفتوی قالہ فی معراج الدرایۃ والبحر والمجتبی والحلیۃ والہندیۃ وبہ افتی الفقیہ ابوجعفر واعتمدہ فقیہ النفس فی الخانیۃ فلا تعویل علی ماروی عن محمدانہایجب علیہاالغسل احتیاطا وھذہ غیر روایۃ الاصول عنہ فان محمدانص فی الاصل ان المرأۃ اذا احتملت لایجب علیہا الغسل حتی تری مثل مایری الرجل کما فی الحلیۃ ۱؎ عن الذخیرۃ۔
بارھویں تنبیہ:احتلام کے معاملے میں عورت بھی مرد ہی کی طرح ہے۔امام محمد نے اس کی تصریح فرمائی ہے،جیسا کہ امام حاکم شہید کی مختصر میں ہے۔ تو اگرعورت کو احتلام ہواور تری نہ دیکھے تو اس پرغسل نہیں۔ یہی مذہب ہے۔ جیسا کہ البحر الرائق ودرمختار میں ہے۔اور اسی کولیاجائے گا،یہ شمس الائمہ حلوانی نے فرمایا۔یہی صحیح ہے۔یہ خلاصہ میں فرمایا۔اسی پر فتوٰی ہے۔یہ معراج الدرایہ، البحر الرائق، مجتبی ، حلیہ اور ہندیہ میں کہا۔اور اسی پر فقیہ ابو جعفر نے فتوٰی دیا۔ اسی پر فقیہ النفس نے خانیہ میں اعتماد فرمایا۔ تو اس پر اعتماد نہیں جو امام محمد سے ایک روایت ہے کہ اس عورت پر احتیاطاً غسل واجب ہے۔ یہ روایت امام محمد سے روایت اصول کے علاوہ ہے۔ اس لئے کہ امام محمد نے مبسوط میں نص فرمایا ہے کہ عورت کو جب احتلام ہو تو اس پر غسل واجب نہیں یہاں تک کہ اسی کے مثل دیکھے جو مرد دیکھتا ہے۔ جیسا کہ حلیہ میں ذخیرہ سے نقل ہے۔
فــــ۱:مسئلہ عورت کو اگر احتلام یاد ہو اور جاگ کر تری نہ پائے تو مرد کی طرح اس پر بھی غسل نہیں اور اسی پر فتوٰی ،اور بعض مشائخ کرام فرماتے ہیں کہ اگر خواب میں انزال ہونے کی لذت یاد ہو تو غسل واجب ہے بعض فرماتے ہیں کہ اس وقت چت لیٹی ہو تو غسل واجب ہے لہذا ان صورتوں میں بہتر یہ ہے کہ نہالے ۔
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول فقول فـــ۱المنیۃ قال محمد لیس کما ینبغی وحمل الامام برھان الدین فی تجنیسہ ھذہ الروایۃ علی ما اذا وجدت لذۃ الانزال ثم اختارھا معللا بان ماء ھا لایکون وافقا کماء الرجل وانما ینزل من صدرھا ۱؎ اھ واعتمدہ البزازی فی الوجیز فجزم بالوجوب قال وقیل لایلزمھا کالرجل ۲؎ اھ
اقول تو(روایت نوادر سے متعلق ۱۲م) منیہ کا قول: قال محمد(امام محمد نے فرمایا) مناسب نہیں۔ اور امام برہان الدین نے اپنی کتاب تجنیس میں اس روایت کو اس صورت پر محمول کیا ہے جب عورت لذتِ انزال محسوس کرے۔ پھر انہوں نے اسی روایت کو اختیار کیا یہ علّت بیان کرتے ہوئے کہ عورت کا پانی مرد کے پانی کی طرح دفق اور جست والا نہیں ہوتاوہ اس کے سینے سے اترتا ہے اھ۔ اور اس پر بزازی نے وجیز میں اعتماد کرکے وجوب غسل پر جزم کیاپھر لکھاکہ ”اورکہاگیااس پر غسل لازم نہیں جیسے مردپر لازم نہیں۔اھ۔
فـــ۱:تطفل علی المنیۃ۔
(۱؎التجنیس والمزید کتاب الطہارات مسئلہ ۱۰۲ ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۱۷۷
(۲ ؎الفتاوٰی البزازیہ علی ھامش الفتاوٰی الھندیہ کتاب الطہارۃالفصل الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۱۱)
اقول واغرب فی فــ۲السراجیۃ فقال علیھا الغسل افتی ابو بکر بن الفضل البخاری وعن محمد انہ لایجب ۳؎ اھ فجعل الظاھرنادرا والنادرظاھراو حکی روایۃ محمدکقول الکل وجعل قول الکل روایۃ عن محمد ثم ان المحقق ایضااستوجہہ فی الفتح وللامام الزیلعی فی التبیین ایضا میل الی اختیارھا حیث قدمہا جازما بھا واخردلیلہا وعللہاکالتجنیس بقولہ لان ماء ھا ینزل من صدرھا الی رحمہا بخلاف الرجل حیث یشترط الظہور الی ظاھر الفرج فی حقہ حقیقۃ ۱؎ اھ فھذا ماوجدت الان فی تشیید ھذہ الروایۃ۔
اقول اور سراجیہ میں توعجیب روش اختیار کی۔اس میں لکھا:اس عورت پر غسل ہے۔اسی پر ابو بکر بن الفضل بخاری نے فتوٰی دیا۔اور امام محمد سے روایت ہے کہ اس پر غسل واجب نہیں۔اھ۔یوں لکھ کر ظاہرالرویہ کو نادر اور نادر کو ظاہر بنا دیا اور امام محمد کی روایت کی حکایت اس طرح کی جیسے یہ تینوں ائمہ کا قول ہو اور جو سب کا قول تھا اسے امام محمد سے ایک روایت قراردے دیا۔ پھر حـضرت محقق نے بھی فتح القدیر میں ا س کوباوجہ قراردیاہے۔اور تبیین میں امام زیلعی کا بھی اس کی ترجیح کی جانب میلان ہے اس طرح کہ جزم فرماتے ہوئے اسے پہلے ذکر کیاہے اور اس کی دلیل بعد میں ذکرکی۔اور تجنیس کی طرح ان الفاظ سے اس کی تعلیل فرمائی ہے:اس لئے کہ اس کا پانی سینے سے رحم کی جانب اترتاہے، اور مرد کا یہ حال نہیں کیونکہ اس کے حق میں بیرون شرم گاہ حقیقۃً ظاہر ہونا شرط ہے ۔اھ۔یہ وہ ہے جو میں نے اس وقت اس روایت کی تائید میں پایا۔
فـــ:تطفل علی السراجیہ۔
(۳؎ فتاوٰی سراجیہ کتاب الطہارۃ باب الغسل نولکشور لکھنؤ ص۳
(۱؎ تبیین الحقائق کتاب الطہارۃ دارالکتب العلمیہ ۱ /۶۸)
اما التعلیل فاقول حاصلہ ان منی المرأۃ وان کان لہ دفق لشہادۃ قولہ تعالی” ماء دافق یخرج من بین الصلب والترائب” ۲؎ لکن لاکمنی الرجل وذلک لانہ ینزل من صلبہ الی انثییہ الی ذکرہ وھو طریق ذوعوج فلولم یندفع بقوۃ شدیدۃ لبقی فی بعض الطریق بخلاف منیہافانہ ینزل من ترائبہاالی رحمہاوھوطریق مستقیم فکان یکفیہ السیلان غیران نزولہ بحرارۃ فلزمہ نوع دفق ولاوجہ لانکارہ فانہ مشہودمعلوم۔
لیکن تعلیل تو میں کہتا ہوں اس کاحاصل یہ ہے کہ عورت کی منی میں اگر چہ کچھ دفق(جست) ہوتا ہے جس کی شہادت ارشادِ باری تعالٰی:” اچھلتاپانی جو پشت اور سینے کی پسلیوں کے درمیان سے نکلتا ہے”ہے لیکن وہ مرد کی منی کی طرح نہیں ہے۔اس لئے کہ وہ اس کی پشت سے انثیین پھر ذکر کی جانب اترتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ راستہ ہے۔ اس لئے وہ اگر شدید قوت کے ساتھ دفع نہ ہوتوراستے ہی میں رہ جائے بخلاف عورت کی منی کے۔ اس لئے کہ وہ اس کے سینے کی پسلیوں سے رحم کی جانب اترتی ہے،یہ سیدھاراستہ ہے، تو اس کے لئے بہناکافی ہے مگر یہ ہے کہ اس کااترناکچھ حرارت کے ساتھ ہوتاہے تو ایک طرح کا دفق اسے بھی لازم ہے اور اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں،اس لئے کہ یہ معلوم ومشاہد ہے۔
(۲؎ القرآن ۸۶ /۷)
ولکن العجب من المدقق العلائی حیث قال لم یذکر الدفق لیشمل منی المرأۃ لان الدفق فیہ غیر ظاھرامااسنادہ الیہ فی الایۃ فیحتمل التغلیب فالمستدل بہا کالقہستانی تبعا لاخی چلپی غیر مصیب تامل ۱؎ اھ
لیکن مدقق علائی پر تعجب ہے کہ وہ یوں لکھتے ہیں: دفق ذکر نہ کیاتاکہ عورت کی منی کو بھی شامل رہے اس لئے کہ اس میں دفق غیر ظاہر ہے۔رہایہ کہ اس کی جانب بھی آیت میں دفق کی نسبت موجود ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے یہ نسبت بطور تغلیب ہو(کہ دراصل صرف مرد کی منی میں دفق ہوتاہے اسی لحاظ سے اس پانی کو مطلقا دفق والا فرمادیاگیا۱۲م) تو اثباتِ دفق میں اس آیت سے استدلال کرنے والا درستی پر نہیں۔ جیسے قہستانی نے اخی چلپی کی تبعیت میں اس سے استدلال کیاہے۔تامل کرو، اھ۔(درمختار)
(۱؎ الدر المختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۰)
اقول فــ : النصوص تحمل علی ظواھرھامالم یصرف عنہادلیل فاحتمال التغلیب محتاج الی اثبات عدم الدفق فی منیہا واذلا دلیل فلا سبیل الا الاحتمال فلا اخذ علی الاستدلال۔
اقول : نصوص اپنے ظاہر ہی پر محمول ہوں گے جب تک کہ کوئی دلیل ظاہرسے پھیرنے والی موجود نہ ہو۔ تو تغلیب کا احتمال اس کا محتاج ہےکہ پہلے عورت کی منی میں عدمِ دفق ثابت کیا جائے۔ اور جب ا س پر کوئی دلیل نہیں تو احتمال کی کوئی سبیل نہیں، لہذا استدلال پر کوئی گرفت نہیں ہوسکتی۔
فــ:تطفل علی الدر۔
قال العلامۃ ط الدلیل اذا طرقہ الاحتمال سقط بہ الاستدلال ۱؎ اھ
علامہ طحطاوی فرماتے ہیں: دلیل میں جب احتمال کا گزر ہوجائے تو اس سے استدلال ساقط ہوجاتا ہے۔اھ۔
(۱؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الطہارۃ المکتبۃ العربیہ کراچی ۱ /۹۱)
اقول الاحتمال فــ۱اذا لم یدل دلیل علیہ لم ینظرالیہ وکان المدقق رحمہ اللّٰہ تعالی الی ھذااشار بقولہ تامل۔
اقول جب احتمال پر کسی دلیل کی دلالت نہ ہو تو وہ نظر اندازہوجائے گا۔اورشاید حضرت مدقّق صاحبِ درمختار رحمہ اللہ تعالٰی نے اپنے قول”تامل کرو” سے اسی جانب اشارہ کیا ہے۔
فــ۱:معروضۃ علی العلامہ ط۔
وقال العلامۃ ش لعلہ یشیر الی امکان الجواب لان کون الدفق منہاغیرظاھریشعر بان فیہ دفقا وان لم یکن کالرجل افادہ ابن عبدالرزاق ۲؎ اھ
اور علامہ شامی فرماتے ہیں: شاید وہ اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ اس کلام کا جواب دیا جاسکتاہے۔ اس لئے کہ عورت کی منی میں دفق کا غیرظاہرہونا پتہ دیتاہے کہ اس میں کچھ دفق ہوتاہے اگر چہ مرد کی طرح نہ ہو۔ اس کا ابن عبدالرزاق نے افادہ کیا۔اھ۔
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۰۸)
اقول لو ان فــ۲المدقق اراد ھذالناقض اول کلامہ اخرہ بل لم فــ۳یستقم اولہ لانہ بنی شمول الکلام لمنیہا علی ترک ذکر الدفق ولو کان فیہ دفق ولو خفیالشملہ وان ذکر بل مرادہ غیر ظاھر ای غیر ثابت ولا معلوم۔
اقول اگر حضرت مدقق کی مرادیہ ہوتو ان کے اول و آخر کلام میں تنا قض ٹھہرے گا بلکہ اول کلام درست ہی نہ ہوسکے گا اس لئے کہ عورت کی منی شاملِ کلام ہونے کی بنیادانہوں نے اس پر رکھی ہے کہ دفق کاذکر ترک کر دیا گیا ہے ، اور اگر اس میں کچھ دفق ہوتا اگرچہ خفی ہی ہو تو دفق ذکرکرنے سے بھی اسے شامل رہتا۔بلکہ لفظ غیر ظاہر سے ان کی مرادغیرثابت و غیر معلوم ہے۔
فـــ۲:معروضۃ علی العلامتین ش وابن عبدالرزاق۔
فـــ۳:معروضۃ اخری علیھما ۔
رجعنا الی تقریر دلیل التجنیس۔اقول فاذاکان الامر کما وصفنا لم یجب فی انزالہا خروج المنی من الفرج الخارج الی الفخذ او الثوب غالباکما فی الرجل فعسی ان یخرج من الفرج الداخل ویبقی فی الفرج الخارج والضعف الدفق یکون قلیلا ولرقتہ یختلط برطوبۃ الفرج فلا یحس بہ فاذا کان الامر علی ھذا الحد من الخفاء اقمناوجدانھا لذۃ الانزال مقام الخروج کما اقام الشرع ایلاج الحشفۃ مقامہ لعین ذلک الوجہ اعنی الخفاء کما بینہ فی الھدایۃ وشروحہا کیف ولیس المراد بقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی حدیث الشیخین عن انس رضی اللّٰہ عالٰی عنہ لما سألتہ ام سلیم رضی اللّٰہ تعالی عنہا یارسول اللّٰہ ان اللّٰہ لایستحیی من الحق فھل علی المرأۃ من غسل اذا احتلمت قال نعم اذارأت الماء ۱؎ ۔
اب پھر دلیلِ تجنیس کی تقریر کی طرف لوٹے اقول جب حقیقت امروہ ہے جو ہم نے بیان کی تو عورت کے انزال میں منی کا فرج خارج سے ران یا کپڑے کی جانب نکلنا عموماً ضروری نہیں جیسے مرد میں ہے۔ ہوسکتاہے فرج داخل سے نکل کر فرج خارج میں رہ جائے اور ضعفِ دفق کی وجہ سے قلیل ہو اور رقیق ہونے کی وجہ سے رطوبتِ فرج سے مخلوط ہوجائے تو محسوس ہی نہ ہوسکے۔جب اس حد تک خفاوپوشیدگی کا معاملہ ہے تو ہم نے لذّتِ انزال محسوس کرنے کو خروجِ منی کے قائم مقام کردیاجیسے شریعت نے ادخالِ حشفہ کو بعینہ اسی وجہ(خفا کی وجہ)سے اس کے قائم مقام کیا ہے،جیسا کہ اسے ہدایہ اور اس کی شرحوں میں بیان کیا ہے۔خصوصاً اس لئے بھی کہ درج ذیل حدیث میں رؤیت سے رؤیت عینی نہیں بلکہ رؤیت علمی مراد ہے۔ شیخین نے حضرت انس رضی اللہ تعالے عنہ سے روایت کی ہے کہ جب حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالٰی عنہا نے رسول اللہ سے سوال کیا یا رسول اللہ! خدا حق سے حیا نہیں فرماتا، کیا عورت پر غسل ہے جب اسے احتلام ہو؟ تو سرکار نے جواب دیا: ہاں پانی دیکھے۔
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الغسل باب اذا احتلمت المرأۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۲
صحیح مسلم کتاب الحیض باب وجوب الغسل علی المرأۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۶)
و رؤیۃ البصر قطعا فقد تکون عمیاء بل الرؤیۃ العلمیۃ والظن الغالب علم فی الفقہ والخروج ھو المظنون فی الانزال وقد علم بما قررنا ان عدم الاحساس بہ بصرا ولا لمسا لایعارض فی المرأۃ ھذا الظن فادیر الحکم علیہ وکان وجدانھا لذۃالانزال کرؤیتہا ایاہ خارجا فنحن لانقول ان الغسل یجب علیہا وان لم ترماء حتی یرد علینا الحدیث بل نقول اذا وجدت لذۃ الانزال فقد رأت الماء علی الوجہ الذی بینا ولا تحتاج الی ان تحس المنی خارج فرجہا ببصراولمس ھذا تقریرالدلیل بفیض الملک الجلیل۔
یہاں دیکھنے سے آنکھ کادیکھنا قطعاً مراد نہیں اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ عورت نابیناہو، بلکہ یقین و علم مراد ہے۔ فقہ میں ظنِ غالب بھی علم ویقین ہے۔ اور انزال میں ظن غالب خروج ہی کا ہے۔ اور ہماری تقریر سابق سے یہ بھی معلوم ہواکہ دیکھنے اور چھُونے سے اس کا احساس نہ ہونا عورت کے سلسلے میں اس ظن کے معارض نہیں۔اس لئے حکم کا مداراسی پر رکھا گیا۔اور عورت کا لذتِ انزال محسوس کرنا ہی گویا منی کونکلتے ہوئے دیکھنا ہے۔ تو ہم اس کے قائل نہیں کہ عورت پر غسل واجب ہے اگرچہ وہ پانی نہ دیکھے کہ حدیث مذکور سے ہم پر اعتراض وارد ہو بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اس نے لذتِ انزال محسوس کی تو اس کا پانی دیکھنا متحقق ہوگیا۔اسی طور پر جو ہم نے بیان کیا۔ اور اس کی ضرورت نہیں کہ وہ فرج کے باہر دیکھ کر یا چھُو کر منی محسوس کرے۔یہ بفیضِ رب جلیل اس دلیل کی تقریر ہوئی۔
وھذا معنی ماقالہ المحقق فی الفتح والحق ان الاتفاق علی تعلق وجوب الغسل بوجود المنی فی احتلامھا والقائل بوجوبہ فی ھذہ الخلافیۃ انما یوجبہ بناء علی وجودہ وان لم ترہ یدل علی ذلک تعلیلہ فی التجنیس احتلمت ولم یخرج منہا الماء ان وجدت شھوۃ الانزال کان علیہا الغسل والا لالان ماء ھا لایکون دافقا۱؎ الی اخر مامر قال فھذا التعلیل یفھمک ان المرام بعدم الخروج فی قولہ ولم یخرج منہا لم ترہ خرج فعلی ھذا الاوجہ وجوب الغسل فی الخلافیۃ والاحتلام یصدق برؤیتھا صورۃ الجماع فی نومھا وھو یصدق بصورتی وجود لذۃ الانزال وعدمہ فلذا لما اطلقت ام سلیم السؤال عن احتلام المرأۃ قید صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم جوابہا باحدی الصورتین فقال اذا رأت الماء ومعلوم ان المراد بالرؤیۃ العلم مطلقا فانہا لوتیقنت الانزال بان استیقظت فی فور الاحتلام فاحست بیدھا البلل ثم نامت فما استیقظت حتی جف فلم تربعینھا شیا لایسع القول بان لاغسل علیہا مع انہ لارؤیۃ بصر بل رؤیۃ علم ورأی یستعمل حقیقۃ فی معنی علم باتفاق اللغۃ قال (رأیت اللّٰہ اکبر کل شیئ) ۱؎ اھ وبما قررنا الدلیل بفیض فتح القدیر عزجلالہ ظھر ان الرادین علی کلام المحقق ھذا وھم العلماء الجلۃ تلمیذہ المحقق الحلبی فی الحلیۃ والمحقق ابرھیم الحلبی فی الغنیۃ والعلامۃ السید الشامی فی المنحۃ اکثرھم لم یمنعوا النظر فی کلامہ رحمہ اللّٰہ تعالی وایاھم ورحمنا بہم۔
اور یہی فتح القدیر میں حضرت محقق کے درج ذیل کلام کا مقصود ہے، وہ فرماتے ہیں: حق یہ ہے کہ اس پر اتفاق ہے کہ عورت کے احتلام میں وجوبِ غسل کا تعلق منی کے پائے جانے ہی سے ہے۔ اور اس اختلافی روایت میں جو لوگ وجوب غسل کے قائل ہیں وہ اسی بناء پر غسل واجب کہتے ہیں کہ منی پائی جا چکی ہے اگرچہ عورت نے اسے دیکھا نہیں۔ اس کی دلیل تجنیس کی یہ تعلیل ہے:”عورت کو احتلام ہوا اور اس سے پانی نہ نکلا ،اگر اس نے شہوتِ انزال محسوس کی ہے تو اس پر غسل واجب ہے ورنہ نہیں۔اس لئے کہ اس کا پانی مردکی طرح دفق والا نہیں ہوتا،وہ تو اس کے سینے سے اترتا ہے”۔ تو یہ تعلیل بتا رہی ہے کہ ان کے قول ”اس سے پانی نہ نکلا” کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ” نکلتے دیکھا نہیں”۔ اس بنیاد پر اوجہ یہی ہے کہ اس اختلافی روایت میں غسل کا وجوب ہو۔ اوراحتلام کا معنی اس سے صادق ہوجاتاہے کہ عورت اپنے خواب میں جماع کی صورت دیکھے۔اور یہ لذت انزال پانے، نہ پانے دونوں ہی صورتوں میں صادق ہے۔ اسی لئے حضرت ام سلیم نے احتلام زن سے متعلق جب سوال مطلق رکھاتو حضور نے اپنے جواب کو ایک صورت سے مقید کر کے فرمایا: ہاں جب پانی دیکھے۔اور معلوم ہے کہ دیکھنے سے مطلقاً علم مراد ہے۔ اس لئے کہ اگر اسے انزال کا یقین ہوگیا۔ مثلاً وہ احتلام کے فوراً بعد بیدار ہوگئی اور ہاتھ سے اس نے تری محسوس کرلی پھر سو گئی، بیدار اس وقت ہوئی جب تری خشک ہو چکی تھی، اس طرح اپنی آنکھ سے اس نے کچھ بھی نہ دیکھا۔ تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس پر غسل واجب نہیں۔باوجودیکہ یہ آنکھ کا دیکھنا نہیں بلکہ صرف علم ویقین ہے۔ اور لفظ رأی باتفاق اہل لغت علم کے معنی میں حقیقۃً استعمال ہوتاہے۔کسی نے کہا: رأیت اللہ اکبر کل شئی ، میں نے خدا کو ہر شے سے بڑا دیکھا (یعنی جانا اوریقین کیا) اھ۔ ہم نے بفیض فتح القدیر عزّ جلالہ جو تقریر دلیل رقم کی ہے اس سے واضح ہے کہ حضرت محقق کے اس کلام پر رد کرنے والے اکثر حضرات نے ان کے کلام میں اچھی طرح غورنہ کیا۔رَد کرنے والے یہ جلیل القدر علماء ہیں (۱) صاحب فتح کے تلمیذ، محقق حلبی حلیہ میں (۲) محقق ابراہیم حلبی غنیہ میں (۳) علامہ سیّد شامی منحۃ الخالق میں۔ خدا کی رحمت ہو حضرت محقق پر ، اور ان حضرات پر اور ان کے طفیل ہم پر بھی رحمت ہو۔
(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارات فصل فی الغسل مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۵۵
(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارات فصل فی الغسل مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۵۵)
اما الشامی فظن ان المحقق یرید بدعوی الاتفاق التوفیق بین الروایتین بان مراد الظاھرۃ عدم الوجوب اذالم یوجد الانزال ومرادالنادرۃ الوجوب اذاوجدولم ترہ المرأۃ بعینہافاخذ علیہ بما ھوعنہ بریئ اذیقول ”یفھم من کلام الفتح ان مرادہ انھم اتفقوا علی انہ اذاوجد المنی فقد وجب الغسل ومحمد قال بوجوبہ بناء علی وجود المنی وان لم ترہ فلم یخرج علی معنی ولم ترہ خرج لکن لایخفی ان غیر محمد لایقول بعدم الوجوب والحالۃ ھذہ فکیف یجعلون عدم الوجوب ظاھرالروایۃ اللھم الا ان یکون مرادہ الاعتراض علیھم فی نقل الخلاف وانھم لم یفھموا قول محمد وان مرادہ بعدمالخروج عدم الرؤیۃ ولا یخفی بعد ھذافانھم قید وا الوجوب عند غیر محمد بما اذاخرج الی الفرج الخارج فان کان مرادہ (یعنی محمدا) بعدم الرؤیۃ البصریۃ فھو ممالا یسع احدا ان یخالف فیہ وان کان العلمیۃ فلم یحصل الاتفاق علی تعلق الوجوب بوجود المنی فالظاھروجود الخلاف وان مافی التجنیس مبنی علی قول محمد وحینئذ لادلالۃ لہ علی ما ادعاہ فلیتامل ۱؎ اھ۔
علامہ شامی رحمہ اللہ تعالٰی نے یہ سمجھ لیا کہ حضرت محقق دعوائے اتفاق کرکے دونوں روایتوں میں تطبیق دینا چاہتے ہیں کہ ظاہر الروایہ سے مراد اس صورت میں عدمِ وجوب ہے جب انزال نہ پایا جائے، اور روایت نادرہ سے مراداس صورت میں وجوب ہے جب انزال پایاجاچکا ہو اور عورت نے اپنی آنکھ سے اسے دیکھا نہ ہو۔یہ سمجھ کر ان پراس معنی کے تحت گرفت کی جس سے وہ بری ہیں۔علامہ شامی لکھتے ہیں : کلامِ فتح سے سمجھ میں آتاہے کہ ان کی مراد یہ ہے کہ ان حضرات کا اس پر اتفاق ہے کہ جب منی پائی جائے تو غسل واجب ہے۔اور امام محمد نے اس بنا پرغسل واجب کہا کہ منی پائی جاچکی ہے اگرچہ عورت نے اسے دیکھا نہیں تو”پانی نہ نکلا”کا معنی یہ ہے کہ ”اس نے نکلتے دیکھا نہیں”۔ لیکن مخفی نہ ہوگاکہ امام محمد کے علاوہ حضرات بھی اس حالت میں عدم وجوب کے قائل نہیں ہیں توعلماء عدم وجوب کو ظاہر الروایہ کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ مگر یہ کہ حضرت محقق کا مقصد ان علماء پر نقل اختلاف کے بارے میں اعتراض کرناہوکہ انہوں نے امام محمدکا قول سمجھا نہیں، عدم خروج سے ان کی مراد عدمِ رؤیت ہے۔ اور اس مراد کا بعید ہونا پوشیدہ نہیں۔ اس لئے کہ ان علماء نے غیر امام محمد کے نزدیک وجوب کو اس صورت سے مقید کیا ہے جب منی فرج خارج کی جانب نکل آئے۔ تو عدم رؤیت میں رؤیت سے اگر امام محمد کی مراد آنکھ سے دیکھنا ہے تو کوئی بھی اس کے خلاف نہیں جاسکتا اوراگراس سے ان کی مراد علم ویقین ہے تووجود منی سے وجوب غسل متعلق ہونے پر اتفاق کہاں ہے؟پس ظاہر یہی ہے کہ اختلاف باقی ہے اور تجنیس کا کلام امام محمد کے قول پر مبنی ہے۔ اس صورت میں حضرت محقق کے دعوے پر کلامِ تجنیس میں کوئی دلیل نہیں ۔تو اس میں تامل کیا جائے۔اھ۔
(۱؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۵۷)
اقول لاھوفـــ ینکر الخلاف ولا ان ما فی التجنیس مبنی علی ماروی عن محمد ولا ھو یرید ببیان الاتفاق ابداء الوفاق وانما الامر انھم ظنوا ان محمدا فی ھٰذہ الروایۃ لایشترط فی احتلامھا وجود الماء لقول التجنیس وغیرہ المبنی علی تلک الروایۃ احتلمت ولم یخرج منھا الماء فردوا علیہا بقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم نعم اذا رأت الماء علق ایجاب الغسل علیہا برؤیہ الماء فکیف یجب ولم یخرج ۔
اقول:حضرت محقق کو نہ اختلاف سے انکار ہے نہ اس سے انکار ہے کہ کلامِ تجنیس اس پر مبنی ہے جو امام محمدسے ایک روایت ہے۔ نہ ہی بیان اتفاق سے ان کا مقصد اظہارِ مطابقت ہے۔معاملہ صرف یہ ہے کہ لوگوں نے سمجھا کہ اس روایت میں امام محمداحتلامِ زن میں وجود منی کی شرط قرار نہیں دیتے کیونکہ اس روایت پر مبنی تجنیس وغیرہ کے کلام میں یہ آیا ہے کہ ”عورت کو احتلام ہوا اور اس نے پانی نہ دیکھا”۔ یہ سمجھ کران حضرات نے اس روایت پر اس حدیث سے رد کیاکہ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے :” ہاں جب وہ پانی دیکھے”۔ سرکار نے وجوبِ غسل کو پانی دیکھنے سے مشروط فرمایا۔ تو اس صورت میں غسل کیسے واجب ہوسکتا ہے جب پانی نہ نکلا ہو۔
فـــ : معروضۃ علی العلامۃ ش۔
فاشار المحقق الی الجواب عنہ بان وجدان الماء شرط بالاجماع ولاتنکرہ ھذہ الروایۃ انما نشأ الخلاف من واد اخر وذلک ان العلم بالشیئ قد یحصل بنفسہ وقد یحصل بالعلم بسببہ فالروایۃ الظاھرۃ شرطت العلم بالوجہ الاول وقالت لاغسل علیہا وان وجدت لذۃ الامناء مالم تحس بمنی خرج من فرجہا الداخل سواء کان الاحساس بالبصر اوباللمس کما ھو فی الرجل بالاتفاق و روایۃ محمد فرقت بینہا وبین الرجل بما بینا فاجتزت فیہا بالعلم بلذۃ الانزال وجعلتہ علما بخروج المنی وان لم تحس منیا خارج فرجہا ھذا مراد الکلام فاین فیہ رفع الخلاف او انکار ابتناء کلام التجنیس علی الروایۃ النادرۃ۔
حضرت محقق نے اس کے جواب کی طرف اشارہ فرمایا کہ منی کا پایا جانا بالاجماع شرط ہے اور اس روایت میں بھی اس کا انکار نہیں ہے۔ اختلاف ایک دوسری جگہ سے رونما ہوا ہے وہ یہ کہ شیئ کا علم کبھی خود شیئ سے ہوتاہے اور کبھی اس کے سبب کے علم سے ہوتاہے۔روایت ظاہرہ میں بطریق اول علم کی شرط ہے اور اس میں یہ حکم ہے کہ عورت پر غسل نہیں اگرچہ اسے لذتِ انزال محسوس ہوجب تک کہ یہ محسوس نہ کرے کہ منی اس کی فرج داخل سے باہر آئی ،یہ احساس خواہ دیکھنے سے ہویا چھُونے سے ہو۔ جیسا کہ مرد کے بارے میں بالا تفاق یہ شرط ہے۔ اور اما م محمدکی روایت میں، عورت اور مرد کے درمیان فرق ہے اس طورپرجو ہم نے بیان کیا۔ یہ روایت عورت کے بارے میں لذتِ انزال کے علم کو کافی قرار دیتی ہے اور اسی کوخروجِ منی کا علم مانتی ہے اگرچہ عورت فرج خارج میں منی محسوس نہ کرے۔ یہ ہے حضرت محقق کے کلام کی مراد۔ اس میں اختلاف کو ختم کرنا یا کلام تجنیس کی روایت نادرہ پر مبنی ہونے کا انکار کہاں ہے؟
ولو رأیتم فــ۱ ”فعلی ھذا الاوجہ وجوب الغسل فی الخلافیۃ”لعلمتم انہ یبقی الخلاف ویرید الترجیح لارفع الخلاف وابداء التوفیق ولکن سبحٰن من لایزل۔
اگر آپ ان کی یہ عبارت ملاحظہ کرتے ”فعلی ھذا الا وجہ وجوب الغسل فی الخلافیۃ”( اس بنیاد پر اوجہ یہی ہے کہ اس اختلافی روایت میں غسل کا وجوب ہو) توآپ کو معلوم ہوتاکہ وہ یہ مانتے ہیں کہ اختلاف باقی ہے اور ترجیح دینا چاہتے ہیں یہ نہیں کہ وہ اختلاف اٹھانا اور تطبیق دینا چاہتے ہیں۔ لیکن پاک ہے وہ ذات جسے لغزش نہیں۔
فـــ۱:معروضۃ اخری علیہ۔
قولکم لایخفی ان غیر محمد لایقول ۱؎ الخ اقول بلی فــ۲ ان غیر محمد بل و محمدا ایضا فی ظاھر الروایۃ یقول بعدم الوجوب اذا لم یحط علمہا بنفس خروج المنی اصالۃ وفی النادرۃ یقول بالوجوب اذا علمت وجود المنی علما فقہیا بوجدان لذۃ الانزال ۔
علامہ شامی: مخفی نہ ہوگا کہ امام محمد کے علاوہ حضرات بھی اس حالت میں عدمِ وجوب کے قائل نہیں اقول:کیوں نہیں امام محمد کے علاوہ حضرات اور خود امام محمد بھی ظاہرالروایہ میں عدمِ وجوب کے قائل ہیں جب عورت کو نفس خروج کا پورے طور پر اصالۃً علم نہ ہو۔ اور روایت نادرہ میں وجوب کے قائل ہیں جب لذّت انزال کے احساس کے ذریعہ اسے وجودِ منی کا علم فقہی حاصل ہو۔
فـــ۲:معروضۃ ثالثۃ علیہ۔
(۱؎ منحۃ الخالق علی البحر الرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/ ۵۷)
قولکم الا ان یکون مرادہ الاعتراض ۱؎ اقول لم یردہ ولم فــ۱ یرد الخلاف بل اراد الجواب عما اورد علی محمد من مخالفۃ الحدیث بان الرؤیۃ فی الحدیث علمیۃ اجماعا ولا یسع احدا ان یخالف فیہ وھو اذن یعم العلم الحاصل بسبب العلم بالسبب۔
علامہ شامی :مگر یہ کہ ان کامقصداعتراض ہو اقول:یہ اُن کامقصد نہیں،نہ ہی انہوں نے اختلاف کی تردید فرمائی ہے بلکہ امام محمد پر مخالفتِ حدیث کا جو اعتراض قائم کیاگیا وہ اس کاجواب دیناچاہتے ہیں کہ حدیث میں دیکھنے سے مراد علم ہے بالا جماع۔ اور کوئی بھی اس کے خلاف نہیں جاسکتا۔ اور جب علم مراد ہے توعلم اس علم کو بھی شامل ہے جو علم بالسبب کے ذریعہ حاصل ہو۔
فـــ۱:معروضۃ رابعۃ علیہ۔
(۱؎ منحۃ الخالق علی البحر الرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۵۷)
قولکم وان کان العلمیۃ۲؎ الخ اقول نعم فــ۲ ھو المراد عند محمد وغیرہ جمیعا انما الخلف فی اشتراط العلم بالشیئ اصالۃ وعدمہ فلاینافی الاتفاق علی تعلق الوجوب بالوجود
علامہ شامی:اوراگراس سے مرادعلم ویقین الخ اقول:ہاں یہی مراد ہے امام محمد کے نزدیک بھی اور دوسرے حـضرات کے نزدیک بھی۔اختلاف صرف اس میں ہے کہ شے کا علم اصالۃً اوربراہِ راست شرط ہے یا نہیں(بلکہ بالواسطہ علم بھی کافی ہے) تو یہ وجودِ منی سے وجوب غسل متعلق ہونے پر اتفاق کے منافی نہیں۔
فــ۲:معروضۃ خامسۃ علیہ۔
(۲؎ منحۃ الخالق علی البحر الرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۵۷)
اما الغنیۃ فقال فیھا بعد نقل کلام المحقق ”ھذا لایفید کون الاوجہ وجوب الغسل فی المسألۃ المختلف فیھا لحدیث ام سلیم رضی اللّٰہ تعالی عنہا سواء کانت الرؤیۃ بمعنی البصر اوبمعنی العلم فانھا لم تربعینھا ولا علمت خروجہ اللھم الا ان ادعی ان المراد برأت رؤیا الحلم ولکن لادلیل لہ علی ذلک فلایقبل منہ ۱؎ اھ۔
صاحبِ غنیہ حضرت محقق کا کلام نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: اس سے یہ مستفاد نہیں ہوتا کہ اس اختلافی مسئلہ میں حدیث ام سلیم رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سبب اوجہ ، وجوب غسل ہے خواہ رؤیت آنکھ سے دیکھنے کے معنی میں ہو یا علم ویقین کے معنی میں ہو،اس لئے کہ خروج منی عورت نے نہ اپنی آنکھ سے دیکھا نہ اسے اس کا علم ہوا۔ مگر یہ کہ دعوٰی کیاجائے کہ دیکھنے سے مراد خواب میں دیکھنا ہے، لیکن اس پر کوئی دلیل نہیں لہذا یہ قابلِ قبول نہیں اھ۔
(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبری سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۴)
فاصاب فی فھم ان مراد المحقق الترجیح لاالتوفیق والعجب فــ۱ ان العلامۃ ش نقل کلامہ برمتہ بعد ما قدمنا عنہ ولم یحن منہ التفات الی مااعطاہ الغنیۃ من مفاد کلام المحقق۔
یہ انہوں نے صحیح سمجھا کہ حضرت محقق کامقصد ترجیح ہے تطبیق نہیں- اور تعجب ہے کہ علامہ شامی نے غنیہ کی پوری عبارت اپنی گزشتہ بحث کے بعد نقل کی ہے اور اس طر ف ا ن کی توجہ نہ کی گئی کہ غنیہ کی عبارت سے حضرت محقق کے کلام کا مفاد متعین ہوتا ہے۔
فـــ۱:معروضۃ سادسۃ علیہ۔
اقول : وحاشا فـــ۲المحقق ان یرید بالرؤیۃ رؤیا حلم بل اراد الرؤیۃ العلمیۃ کما قد افصح عنہ وقولکم ولا علمت ۱؎ مبنی علی حصر العلم بالشیئ فی العلم المتعلق بنفسہ اصالۃ وھو باطل قطعاً الاتری ان الشرع اوجب الغسل بغیبۃ الحشفۃ واقامھا مقام رؤیۃ المنی مع عدم العلم المتعلق بنفسہ قطعا۔
اقول:حضرت محقق اس سے بری ہیں کہ رؤیت سے خواب میں دیکھنا مراد لیں، انہوں نے رؤیتِ علمی مراد لی ہے جیساکہ خودہی اسے صاف لفظوں میں کہا- اور آپ کا قول”ولا علمت-نہ اسے اس کا علم ہوا”-اس پر مبنی ہے کہ شیئ کاعلم صرف اس عالم میں منحصر ہے کہ جو اس سے براہِ راست متعلق ہو۔ اور یہ بنیاد قطعاً باطل ہے کیا آپ نے نہ دیکھاکہ شریعت نے حشفہ غائب ہونے سے غسل واجب کیا ہے اور غیبتِ حشفہ کو ہی رؤیت منی کے قائم مقام رکھا ہے باوجودیکہ یہ وہ علم قطعاً نہیں جو خود منی سے متعلق براہِ راست ہو۔
فــ۲:تطفل علی الغنیۃ۔
(۲؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبری سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۴)
ثم اخذ المحقق الحلبی یوھن کلام التجنیس قائلا لااثر فی نزول مائھا من صدرھا غیر دافق فی وجوب الغسل فان وجوب الغسل فی الاحتلام متعلق بخروج المنی من الفرج الداخل کما تعلق فی حق الرجل بخروجہ من رأس الذکر ۱؎ الی اخر مااطال۔
اس کے بعد محقق حلبی نے ان الفاظ سے کلام تجنیس کی تضعیف شروع کی: عورت کا پانی اس کے سینے سے بغیردفق کے اترتاہے ،اس کاوجوب غسل پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔احتلام میں وجوب غسل کا تعلق تواس سے ہے کہ منی فرج داخل سے نکلے جیسے مرد کے حق میں، اس کا تعلق اس سے ہے کہ سرذکر سے نکلے۔ ان کے آخر کلام طویل تک ۔
(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبری سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۴)
اقول لم یردفــ التجنیس ان مجرد نزول مائھا من صدرھا یوجب الغسل بدون خروج وانما اثر النزول من صدرھا الی رحمہا فی عدم الدفق فی منیہا مثل الرجل وعدم الدفق اثر فی ضعف دلالۃ عدم الاحساس خارج الفرج علی عدم الخروج کما قررنا بما یکفی ویشفی وبہ وبالرقۃ وباشتمال فرجہا الخارج علی الرطوبۃ فارقت الرجل کما تقدم۔
اقول: تجنیس کی مراد یہ نہیں کہ عورت کا پانی سینے سے اترنا بس اتنی ہی بات موجب غسل ہے اگرچہ خروجِ منی نہ ہو۔ سینے سے رحم کی طرف اترنے کا اثرصرف یہ ہے کہ اس کی منی میں مرد کی طرح دفق نہیں ہوتا،اورعدمِ دفق کا اثر یہ ہے کہ بیرون فرج منی محسوس نہ ہونے کی دلالت عدم خروجِ منی پر ضعیف ٹھہری جیساکہ کافی و شافی طور پر ہم اس کی تقریرکرچکے۔ اور عورت کا حکم اسی عدمِ دفق سے ، اورمنی کے رقیق ہونے سے ، اور فرج خارج کی رطوبت پر مشتمل ہونے سے مردکے برخلاف ہوا۔ جیسا کہ گزرا۔
فــ تطفل اخر علیہ۔
ثم قال علی ان فی مسألتنا لم یعلم انفصال منیہا عن صدرھا وانما حصل ذلک فی النوم واکثر مایری فی النوم لاتحقق لہ فکیف یجب علیہا الغسل ۱؎ اھ
آگے فرماتے ہیں: علاوہ ازیں زیرِ بحث مسئلہ میں عورت کی منی کا سینے سے جدا ہونامعلوم نہ ہوا۔ یہ بات خواب میں حاصل ہوئی۔ اور خواب میں دیکھی جانے والی اکثر باتوں کا تحقق نہیں ہوتاتواس پر غسل کیسے واجب ہوگا۔اھ
(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبری سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۵)
اقول قدمنا فــ فی التنبیہ الثامن ان تلک الافعال المرئیۃ علما وان لم تکن لہا حقیقۃ تؤثر علی الطبع کمثل الواقع منہا فی الخارج او ازید وقد جعل فی الغنیۃ نفس النوم مظنۃ الاحتلام قال وکم من رؤیا لا یتذکرھا الرائی فلا یبعد انہ احتلم ونسیہ فیجب الغسل ۲؎ اھ ای فیما اذا رأی بللا وتیقن انہ مذی ولیس منیا ولم یتذکر الحلم فاذا کان ھذا فی عدم التذکر فکیف وقد تذکرت الاحتلام وتذکرت شیا اخر فوقہ وھو وجد ان لذۃ الانزال فلو اھمل مایری فی النوم لضاع الفرق بالتذکر وعدمہ مع اجماع ائمتنا علیہ وبقیۃ الکلام یظھر مما قدمت ویاتی۔
اقول:ہم آٹھویں تنبیہ میں بتاچکے ہیں کہ خواب میں دیکھے جانے والے ان افعال کی اگرچہ کوئی حقیقت نہیں ہوتی لیکن طبیعت پریہ ویسے ہی اثر اندازہوتے ہیں جیسے خارج میں ہونے والے یہ افعال،یا ان سے بھی زیادہ۔اورخود غنیہ میں نیند کو مظنہ احتلام بتایا ہے اور لکھا ہے کہ:کتنے خواب ہیں جو دیکھنے والے کو یاد نہیں رہتے تو بعید نہیں کہ اس نے خواب دیکھا ہواور بھول گیاہو، تواس پرغسل واجب ہے اھ یعنی اس صورت میں جب کہ اس نے تری دیکھی اور اسے یقین ہے کہ وہ مذی ہے،منی نہیں ہے اور خواب اسے یاد نہیں۔جب یہ حکم خواب یادنہ ہونے کی صورت میں ہے تو اس صورت میں کیاہوگاجب عورت کوخواب دیکھنا بھی یادہے اور اس سے زیادہ بھی یاد ہے وہ ہے لذّتِ انزال کا احساس،توجوکچھ خواب میں نظرآتاہے اگر سب مہمل ٹھہر ایا جائے تویاد ہونے نہ ہونے کافرق بیکار ہوجائے حالاں کہ ہمارے ائمہ کا اس فرق پراجماع ہے۔اور باقی کلام اس سے ظاہر ہے جوگزرچکا اور جو آئندہ آئے گا۔
فــ : تطفل ثالث علیہا۔
(۲؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبری سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۲ و ۴۳)
ثم قال نعم قال بعضہم لوکانت مستلقیۃ وقت الاحتلام یجب علیہا الغسل لاحتمال الخروج ثم العود فیجب الغسل احتیاطا وھو غیر بعید۱؎ الخ۔
آگے فرماتے ہیں: ہاں بعض نے کہا ہے کہ اگر وقتِ احتلام چت لیٹی ہوئی تھی تواس پر غسل واجب ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے منی نکلی ہوپھر عود کرگئی ہو تو احتیاطاً غسل واجب ہوگا۔اور وہ بعید نہیں۔ الخ
(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبری سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۵)
اقول مثل فــ الکلام من شان ھذا المحقق بعید فانہ اذا جعل مایری فی النوم لاحقیقۃ لہ وجعلہا مع تذکرھا الاحتلام و وجدانھا لذۃ الانزال غیر عالمۃ بالخروج وصرح انھا لم تر ولا علمت وان الحدیث ناطق بتعلیق الغسل علی رؤیتھا الماء بصرا اوعلما فمع انتفائہا مطلقا کیف یجب علیہا الغسل بمجرد کونہا علی قفاھا برؤیا حلم لاحقیقۃ لھا وقد قلتم ان لادلیل علیہ فلا یقبل والعود انما یکون بعد الخروج وھھنا نفس الخروج غیر متحقق فما معنی احتمال العود فالحق ان استقرا بہ ھذا الکلام عود منہ الی قبول المرام۔
اقول:اس طرح کی بات صاحبِ غنیہ جیسے محقق کی شان سے بعید ہے۔اس لئے کہ ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ خواب میں جو کچھ نظر آئے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔اورعورت کو احتلام یاد ہونے اورلذّتِ انزال کا احساس کرنے کے باوجودخروج منی سے بے خبر قرار دیتے ہیں اور تصریح کرتے ہیں کہ اس نے دیکھا نہ جانا، اورحدیث نے نظر سے دیکھنے یاعلم و یقین حاصل ہونے سے غسل کو مشروط رکھا ہے۔دوسری طرف ان ساری باتوں کے نہ ہونے کے باوجود عورت پر صرف اس وجہ سے غسل واجب مانتے ہیں کہ وہ چت لیٹی ہوئی تھی۔کیا یہ وجوب خواب کے مشاہدہ کی وجہ سے ہوا جس کی کوئی حقیقت نہیں اورجس کے بارے میں آپ نے فرمایاکہ اس پر کوئی دلیل نہیں اس لئے قابلِ قبول نہیں۔ اور لوٹنا،عودکرنا توخروج کے بعد ہی ہوگا۔یہاں خروج ہی متحقق نہیں۔تو احتمالِ عودکا کیامعنی؟۔حق یہ ہے کہ محض حلبی کا اس کلام کے قریب جانا، قبول مقصود کی طرف عود فرمانا ہے۔
فــ:تطفل رابع علیھا۔
ثم ان القائل بھذا الشرط اعنی الاستلقاء الامام ابو الفضل مجد الدین فی الاختیار شرح متنہ المختار ولفظہ کما فی الحلیۃ المرأۃ اذا احتلمت ولم تربللا ان استیقظت وھی علی قفاھا یجب الغسل لاحتمال خروجہ ثم عودہ لان الظاھر فی الاحتلام الخروج بخلاف الرجل فانہ لایعود لضیق المحل وان استیقظت وھی علی جہۃ اخری لایجب ۱؎ اھ
پھر اس شرط یعنی چت لیٹنے کی شرط کے قائل امام ابو الفضل مجدالدین ہیں جنہوں نے اپنے متن ”مختار” کی شرح ”اختیار” میں اسے لکھا ہے۔ حلیہ کی نقل کے مطابق ان کے الفاظ یہ ہیں: عورت کوجب احتلام ہو اورتری نہ دیکھے ، اگروہ اس حالت میں بیدار ہوئی کہ چت لیٹی ہوئی تھی توغسل واجب ہے اس لئے کہ احتمال ہے کہ منی نکلی ہو پھر لوٹ گئی ہو کیونکہ احتلام میں ظاہر یہی ہے کہ منی نکلی ہو۔مردکا حال ایسا نہیں کہ جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے اس کی منی عود نہ کر سکے گی۔اور اگر عورت کسی دوسری جہت پر بیدار ہوئی توغسل واجب نہیں۔اھ۔
(۱؎ الاختیارلتعلیل المختار کتاب الطہارۃ فصل فرض الغسل…الخ دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۳)
اقول : فانظرکیف فـــ۱بنی الامر علی ان الظاھر فی الاحتلام الخروج فقد جعلہ معلوما بحسب الظاھر ولو کان الامر کما قال فی الغنیۃ ان لم تر ولا علمت لم یکن معنی لایجاب الغسل وافاد ان عدم الوجدان بعد التیقظ لایعارض ھذا الظن اذا کانت مستلقیۃ لاحتمال العود۔
اقول:تو دیکھئے انہوں نے کیسے بنائے کار اس پر رکھی کہ احتلام میں ظاہر یہی ہے کہ منی نکلی ہو۔ انہوں نے بطورظاہر اسے معلوم قرار دیا۔اور اگر وہ بات نہ ہوتی جو غنیہ میں ہے کہ ”اس نے نہ دیکھا نہ اسے علم ہوا”تو غسل واجب کرنے کا کوئی معنی ہی نہ تھا اور یہ افادہ کیا کہ بیدارہونے کے بعد تری نہ پانا اس گمان خروج کے معارض نہیں جب کہ وہ چت لیٹی ہوئی ہے اس لئے کہ ہوسکتاہے عود کر گئی ہو۔
فــ۱:تطفل خامس علیھا۔
ثم اقول : بل ھو بعیداولا فــ۲ لانہ ذھب عنہ ان نفس کون منیہا غیر بین الدفق رقیقا قابلا للامتزاج برطوبۃ الفرج الخارج کاف فی دفع ھذہ المعارضۃ کما بینا بتوفیق اللّٰہ تعالٰی۔
اقول : بلکہ یہ بعید ہے۔ اوّلاً اس لئے کہ- انہیں خیال نہ رہاکہ- تری نہ پانے کے معارضہ کو دفع کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ عورت کی منی میں دفق نمایاں نہیں ہوتا،ساتھ ہی وہ رقیق اور اس قابل ہوتی ہے کہ فرج خارج کی رطوبت سے مختلط ہوجائے جیسا کہ بتوفیقہ تعالٰی ہم نے بیان کیا۔
فــ۲:تطفل علی الاختیار شرح المختار۔
وثانیا : اذالم فــ۳ ینظر الی ذلک فلقائل ان یقول احتمال العود بعد الخروج احتمال من غیر دلیل فلا یعتبر،واستلقاؤھا لیس علۃ العود ولا ظنا بل ان کان فرفع مانع وعدم المانع لیس من الدلیل فی شیئ کما تقرر فی الاصول ۔
ثانیاً : اگر یہ نظر انداز ہوتوکہنے والا کہہ سکتاہے کہ احتمالِ عود،بعدِ خروج ایک بے دلیل احتمال ہے اس لئے لائقِ اعتبار نہیں، اورچت لیٹنا عود کی علت نہیں۔ ظناًّ بھی نہیں۔ بلکہ اگر ہے توصرف اتناکہ رفع مانع ہے اور عدمِ مانع ہر گز کوئی دلیل نہیں جیسا کہ اصول میں طے شدہ ہے۔
فـــ۳ :تطفل آخرعلیہ۔
وثالثا المانع وھو فــ۱ضیق المحل انمایتحقق فی الاضطجاع لالتقاء الاسکتین وانسداد المسلک اما الانبطاح فکالاستلقاء فی اتساع المحل فلم خص الحکم بالاستلقاء فان اعتل بانھا ان کانت منبطحۃ وخرج المنی یسقط علی الفراش فلا یعود قلت ان ارید الخروج من الفرج الخارج ففی الاستلقاء ایضا اذا خرج منہ نزل الی الیتیہا فلا یعود و وان ارید الخروج من الفرج الداخل مع البقاء فی الفرج الخارج فالا ستلقاء کالانبطاح فی جواز العود ۔
ثالثا مانع مقام کاتنگ ہونا۔صرف اضطجاع میں متحقق ہوگاکیوں کہ دونوں کنارے مل جائیں گے اور گزر گاہ بند ہو جائے گی ۔لیکن منہ کے بل لیٹناکشادگی مقام میں چت لیٹنے ہی کی طرح ہے تو استلقاء (چت لیٹنے) سے حکم کی تخصیص کیوں؟ اگریہ علّت بتائی جائے کہ منہ کے بل ہونے کی صورت ہو اور منی نکلے توبسترپرگرجائے گی، عود نہ کر سکے گی۔ قلت(میں کہوں گا)اگرفرجِ خارج سے نکلنا مراد ہے تواستلقا کی صورت میں بھی جب اس سے باہر آئے گی تو سرینوں کی طرف ڈھلک آئے گی،عود نہ کر سکے گی۔ اور اگر فرج خارج میں باقی رہنے کے ساتھ فرج داخل سے نکلنا مراد ہے تو امکانِ عودمیں صرف استلقا، مُنہ کے بل لیٹنے ہی کی طرح ہے۔
فـــ۱:تطفل ثالث علیہ
و رابعا سنذکرفــ۲ اٰنفافی تجویز العود مالایبقی للفرق مساغا۔
رابعاً امکان عود کے بارے میں ہم ابھی وہ ذکر کریں گے جس کے بعد فرق کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے گی۔
فـــ۲:تطفل رابع علیہ ۔
وخامسا : بل فـــ۳ یجوز ان تکون مضطجعۃ وقد وضعت بین فخذیھا وسادۃ ضخمۃ فیبقی الفرج متسعا کالا ستلقاء اوافرج ۔
خامساً : بلکہ ہوسکتاہے کہ اضطجاع کی حالت ہواور رانوں کے درمیان موٹاساتکیہ رکھ لیاہو توشرمگاہ حالت استلقا کی طرح یا اس سے زیادہ کشادہ رہ جائے گی۔
فـــ۳:تطفل خامس علیہ
وسادساان استلقت فـــ۱وقدالتفت الساق بالساق لایکون للاستلقاء فضل علی الاضطجاع فی باب الاتساع فالقصر علیہ منقوض طردا وعکسا ولہ صور اخری لاتخفی۔
الا ان یقال ذکرالاستلقاء ونبہ بہ علی صور اتساع الفرج فیشمل الانبطاح والاضطجاع المذکور والمراد بجھۃ اخری جہۃ التقاء الشفرین ولو فی الاستلقاء علی الوجہ المزبور۔
سادسا اگر حالتِ استلقاء میں ران،ران سے لپٹی ہوئی ہوتوکشادگی کے معاملے میں استلقا کو اضطجاع پر کوئی زیادتی حاصل نہ ہوگی تو اس پر اقتصار جمعاً اورمنعاً کسی طرح درست نہیں رہ جاتا۔اس کی اوربھی صورتیں ہیں جو مخفی نہ ہوں گی۔
مگر جواباً یہ کہاجاسکتا ہے کہ انہوں نے استلقا کو ذکر کرکے اس سے کشادگی کی صورتوں پر تنبیہ کردی ہے لہذا منہ کے بل لیٹنے اور مذکورہ صورت پر لینے کو بھی شامل ہے۔ اور کسی دوسری جہت سے ان کی مراد یہ ہے کہ دونوں کنارے باہم ملے ہوئے ہوں اگرچہ یہ ملنا مذکورہ صورتِ استلقا ہی میں ہو۔
فـــ۱:تطفل سادس علیہ ۔
ثم الصواب ما عبربہ فــ۲فی الاختیار من ان تجد نفسہامستلقیۃ اذا تیقظت ولاحاجۃ الی ان تعلم استلقاء ھاحین احتلمت کما وقع فی الغنیۃ۔
پھر صحیح تعبیر وہ ہے جو ”اختیار” میں آئی کہ بیدار ہونے کے وقت اپنے کو چت لیٹی ہوئی پائے۔ اور اس کی ضرورت نہیں کہ اسے وقتِ احتلام اپنے چت ہونے کا علم ہو۔ جیسا کہ غنیہ میں تعبیر کی۔
فـــ۲:تطفل سادس علی الغنیۃ ۔
ثم اخذ المحقق الحلبی یردمااختارفی الاختیارفقال الاان ماء ھااذا لم ینزل دفقا بل سیلانا یلزم اماعدم الخروج ان لم یکن الفرج فی صبب اوعدم العودان کان فی صبب فلیتامل ۱؎ اھ
اس کے بعد محقق حلبی نے اس کی تردید شروع کی جسے ”اختیار” میں اختیار کیا۔کہتے ہیں:مگریہ ہے کہ جب اس کا پانی بطور دفق نہیں اترتا بلکہ بہاؤ کے طور پراترتا ہے ۔تو دو باتوں میں سے ایک لازم ہے۔ اگر فرج بہاؤ کیجانب میں نہ ہو تو عدم خروج لازم ہے اور اگر بہاؤ کی جانب میں ہوتوعدمِ عود لازم ہے۔ تو اس پر تامل کی ضرورت ہے۔اھ ۔
(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبری سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۵)
اقول : کلا اللاز مین منتف اما الاول فــ۱فلماحققناان منیہالایخلوعن دفق وان لم یکن کدفق الرجل فلا نسلم لزوم عدم الخروج اذالم یکن الفرج فی صبب الاتری انھن ربما یوطأن بوضع وسادۃ تحت اعجازھن فیکون الفرج مرتفعا ومع ذلک یرمین بماء ھن بل وبماء الرجل ایضا،
اقول : دو باتوں میںسے ایک بھی لازم نہیں۔ اول اس لئے کہ ہم تحقیق کر چکے کہ عورت کی منی دفق سے خالی نہیں ہوتی اگرچہ وہ مرد کے دفق کی طرح نہ ہوتوہمیں یہ تسلیم نہیں کہ جب شرم گاہ بہاؤکی جانب میں نہ ہو توعدم خروج لازم ہے۔کیا معلوم نہیں کہ عورتوں سے وطی یوں بھی ہوتی ہے کہ ان کے سرینوں کے نیچے تکیہ رکھ دیتے ہیں جس سے شرمگاہ اونچائی پرہوجاتی ہے اس کے باوجود اس سے پانی باہرآتاہے بلکہ اس کے ساتھ اس مرد کاپانی بھی باہر آتاہے۔
فــ۱:تطفل سابع علیھا۔
واما الثانی فــ۲فلان للرحم قوۃ جاذبۃ شدیدۃ الجذب فربما یجوزان یخرج المنی من الفرج الداخل ویکون فی الفرج الخارج وتھیج جاذبۃ الرحم فتجذبہ من الفرج الخارج وان کان الفرج فی صبب بل یجوز ان یجوز المنی الفرج الخارج ایضا ثم یعود بجذب الرحم ۔
دوم اس لئے کہ رحم میں جذب کی شدید قوت ہوتی ہے۔ توبعض اوقات ہوسکتاہے کہ منی فرجِ داخل سے نکل کر فرج خارج میں ہو اور رحم کی قوتِ جاذبہ اُبھر کر اسے فرج خارج سے جذب کرلے اگرچہ فرج بہاؤ کی جانب میں ہی ہو۔بلکہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ منی فرج خارج سے بھی تجاوز کرجائے پھر بھی کشش رحم سے عود کر آئے۔
فـــ۲:تطفل ثامن علیہا۔
الا تری الی مانصواعلیہ ان لوجومعت فـــ فیمادون الفرج فسبق الماء الی فرجہا اوجومعت البکر لاغسل علیہا لفقد السبب وھوالانزال ومواراۃ الحشفۃ حتی لو حبلت کان علیہاالغسل لانھالاتحبل الااذا انزلت والمسألۃ فی الخانیۃ والخلاصۃ والوجیز والکبری وخزانۃ المفتین والفتح والبحر والغنیۃ۱؎ وغیرھا فقد جوزوا حتی فی البکران یقع الماء خارج فرجہاالخارج ثم ینجذب فیدخل فی الرحم۔
دیکھئے فقہا تصریح فرماتے ہیں کہ اگرعورت سے قریب فرج جماع کیاپھر منی اس کی شرم گاہ میں چلی گئی،یا کنواری سے جماع کیا اور اس کی بکارت زائل نہ ہوئی، توان صورتوں میں عورت پر غسل نہیں اس لئے کہ غسل کا سبب۔ انزالِ زن یاد خولِ حشفہ۔ نہ پایاگیا۔ یہاں تک کہ اگر اسے حمل ٹھہر جائے تواس پر غسل ہوگا اس لئے کہ یہ اس کاثبوت ہے کہ عورت کو بھی انزال ہوا تھا کیوں کہ اس کے انزال کے بغیر استقرارِ حمل نہیں ہوسکتا۔ یہ مسئلہ خانیہ، خلاصہ، وجیز ، کبرٰی ، خزانۃ المفتین ، فتح القدیر ، البحر الرائق، غنیہ وغیرہا میں مذکور ہے ۔ توانہوں نے اس کا جواز مانا ہے۔یہاں تک کہ کنواری میں بھی، کہ منی اس کی فرج خارج سے باہر واقع ہوپھر جذب وکشش پاکر رحم میں چلی جائے۔
فـــ:مسئلہ عورت کی ران پر جماع کیا اور منی اس کی فرج میں چلی گئی یاکنواری کی فرج میں جماع کیا اور اس کی بکارت زائل نہ ہوئی تو ان دونوں صورتوں میں عورت پر غسل نہ ہوگا کہ نہ اس کا انزال ثابت ہوا نہ اس کی فرج داخل میں حشفہ غائب ہوا ورنہ بکارت جاتی رہتی ہاں ان جماعوں سے اگر عورت کو حمل رہ گیاتواب اس پر اسی وقت جماع سے غسل واجب ہونے کاحکم دیں گے اور آج تک جتنی نمازیں قبل غسل پڑھی ہیں سب پھیرے کہ حمل رہ جانے سے ثابت ہواکہ عورت کو خود بھی انزال ہوگیاتھا ورنہ حمل نہ رہتا۔
(۱؎فتاوٰی قاضی خاں کتاب الطہارۃ فصل فیما یوجب الاغتسال نولکشورلکھنؤ ۱ /۲۱
خلاصۃ الفتاوٰی الفصل الثانی فی الغسل مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۱۳
الفتاوٰی البزازیہ علی ھامش الفتاوٰی الھندیہ کتاب الطہارۃ الفصل الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۱۱
فتح القدیر کتاب الطہارۃ فصل فی الغسل مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۵۵
البحر الرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۵۷)
قال فی الغنیۃ بعد ذکر ھذہ المسألۃ الاخیرۃ لاشک انہ مبنی علی وجوب الغسل علیہا بمجرد انفصال منیہا الی رحمہا وھو خلاف الاصح الذی ھو ظاھر الروایۃ قال فی التاترخانیہ وفی ظاھر الروایۃ یشترط الخروج من الفرج الداخل الی الفرج الخارج وفی النصاب وھو الاصح ۱؎ اھ اھ وقد تواردہ علیہ العلامۃ الشامی فی المنحۃ فقال اقول لایخفی ان الحبل یتوقف علی انفصال الماء عن مقرہ لاعلی خروجہ فالظاھر ان وجوب الغسل مبنی علی الروایۃ السابقۃ عن محمد تامل ۲؎ اھ
غنیہ میں آخری مسئلہ ذکر کرنے کے بعدلکھاکہ:اس میں شک نہیں کہ یہ حکم اس پر مبنی ہے کہ عورت پر صرف اس سے کہ اس کی منی جدا ہو کر رحم میں چلی جائے غسل واجب ہے، اور یہ اصح ، ظاہر الروایہ کے خلاف ہے۔ تاتارخانیہ میں ہے کہ ظاہر الروایہ میں، فرج داخل سے نکل کر فرج خارج کی طرف آنا شرط ہے۔اور نصاب میں ہے کہ :یہی اصح ہے اھ اھ ۔اس بات پر صاحبِ غنیہ سے علامہ شامی کا بھی توارد ہوا ہے،وہ منحۃ الخالق میں لکھتے ہیں: میں کہتا ہوں، مخفی نہیں کہ استقرارِحمل صرف اس پر موقوف ہے کہ منی اپنی جگہ سے جدا ہوجائے ، وہ منی کے باہر آنے پر موقوف نہیں۔ توظاہر یہ ہے کہ اس صورت میں وجوبِ غسل کا حکم اس روایت پر مبنی ہے جو امام محمد سے ماسبق میں نقل ہوئی۔ تامل کرو۔اھ۔
(۱؎ غنیۃ المستملی مطلب فی الطہارۃ الکبرٰی سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۵و۴۶
۲؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۵۷)
ثم رأی الحلبی صرح بہ فی الغنیۃ فحمد اللہ تعالی علیہ وقد تبعہ ایضافی الدر اذ نقل عنہ مافی شرحہ الصغیر ان فیہ نظرلان خروج منیہامن فرجھا الداخل شرط لوجوب الغسل علی المفتٰی بہ ولم یوجد۱؎اھ فبزیادۃ قولہ علی المفتٰی بہ اشار الی ابتنائہ علی روایۃ محمد۔
یہ لکھنے کے بعدعلامہ شامی نے غنیہ میں دیکھا کہ محقق حلبی نے اس کی تصریح کی ہے۔ تواس پرخداکاشکر اداکیا۔ حلبی کا اتباع درمختار میں بھی ہے۔ کیونکہ اس میں ان کی شرح صغیر کا کلام نقل کیا ہے کہ یہ محلِ نظر ہے اس لئے کہ عورت کی منی کافرج داخل سے باہرآنا وجوبِ غسل کے لئے مفتٰی بہ قول پرشرط ہے، اوریہ شرط نہ پائی گئی۔اھ۔ تو ”مفتی بہ قول پر” کا اضافہ کرکے اس طرف اشارہ کیا کہ یہ امام محمد کی روایت پر مبنی ہے۔
(۳؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۲)
اقول وھذافــ ماشبہ علی بعض الانظارفزعمت ان الروایۃ النادرۃلاتشترط الخروج وقد ازالہا المحقق وبیناہ بمایکفی ویشفی فلا وجہ لھذا الحمل امامایذکرعن المنصوریۃ انہ اعتبر فی منیھا الخروج الی فرجہا الخارج عند الفقیہ ابی جعفر والی فرجہا الداخل عند الامامین الحلوانی والسرخسی علی مانقل عنہاالبرجندی۲؎
اقول یہ ان بعض نظروں کا اشتباہ ہے جس کے سبب انہوں نے یہ سمجھ لیاکہ روایت نادرہ میں خروج کی شرط نہیں اور محقق علی الاطلاق نے اس شبہ کاازالہ فرمایا ہے اورہم اسے کافی وشافی طور پر بیان کرآئے ہیں۔ تو اس روایت پر محمول کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ لیکن وہ جو منصوریہ کے حوالے سے بیان کیاجاتا ہے کہ فقیہ ابو جعفر کے نزدیک عورت کی منی میں فرج خارج کی طرف نکلنے کا اعتبار ہے اور امام حلوانی وامام سرخسی کے نزدیک صرف فرج داخل کی طرف نکلنے کااعتبار ہے۔ جیسا کہ بر جندی میں منصوریہ سے نقل کیاہے۔
فــ: تطفل علی الغنیۃ والمنحۃ ۔
(۲؎شرح مختصرالوقایہ للبرجندی کتاب الطہارۃ نولکشور لکھنؤ ۱ /۳۰)
فاقول : متوغل فی الاغراب مثل ذلک الکتاب الاتری ان الامام الحلوانی ھو القائل لتلک الروایۃ عن محمد لایؤخذ بھذہ الروایۃ فان النساء یقلن ان منی المرأۃ یخرج من الداخل کمنی الرجل فھوجواب ظاھرالروایۃ کما فی الحلیۃ عن الذخیرۃ عنہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی فکیف ینسب الیہ ھذا۔
فاقول : اس کتاب کی طرح ان دونوں اماموں کی طرف یہ انتساب بھی انتہائی غریب ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ امام حلوانی ہی نے تو امام محمد کی اس روایت نادرہ سے متعلق فرمایاکہ یہ روایت نہ لی جائے گی، اس لئے کہ عورتیں بتاتی ہیں کہ عورت کی منی مرد کی منی کی طرح فرج داخل سے باہر آتی ہے اور یہی ظاہرالروایہ کاحکم ہے، جیسا کہ حلیہ میں ذخیرہ سے، اس میں امام حلوانی رحمہ اللہ تعالٰی سے نقل ہے توان کی جانب یہ انتساب کیسے ہوسکتاہے؟
فان قلت : ففرع الحبل مامعناہ قلت معناہ فــ ظاھران شاء اللّٰہ تعالی فان بالحبل ثبت انزالہا والغالب فی الانزال الخروج والغالب کالمتحقق فی الفقہ فلاینافیہ نفی التوقف علی الخروج بمعنی لولاہ لم یکن ۔
اگر دریافت کرو کہ پھر استقرارِ حمل سے متعلق جوجزئیہ ہے اس کا مطلب کیاہے؟۔ میں کہوں گا اس کا مطلب واضح ہے۔ اِن شاء اللہ تعالٰی۔ اس لئے کہ حمل سے عورت کو انزال ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔اور انزال میں غالب یہی ہے کہ منی باہرآتی ہے۔ اور غالب فقہ میں متحقق کاحکم رکھتا ہے۔ تو یہ بات اس کے منافی نہیں کہ حمل خروج منی پر موقوف نہیں بایں معنی کہ اگر خروج نہ ہو توحمل ہی نہ ہو۔
فـــ:تطفل آخر علیہم ۔
فان قلت بل الحبل دلیل عدم الخروج لاجل الانعقاد الاتری انھن حین یحبلن یمسکن ماء الرجل فلا یرمین منہ الا شیأقلیلا قلت الانزال یقتضی الخروج والانعقاد یکون بجزء من الماء لابکلہ الاتری انھن حین یحبلن یرمین بشیئ من ماء الرجل ایضاولا یمسکن منہ الاجزء قدر اللّٰہ تعالٰی ان یکون منہ الزرع بل قدلا یرمین بہ الاحین ینزلن تبعا لمائھن وبالجملۃ دلالۃ الانزل علی خروج البعض لایعارضھادلالۃالحبل علی امساک البعض ھذاماظھرلی۔
اگر یہ کہو کہ نہیں بلکہ حمل توعدم خروج کی دلیل ہے اس لئے کہ استقرار ہو چکا ہے۔معلوم ہے کہ عورتوں کوجب حمل ٹھہر تا ہے تو وہ مرد کا پانی بھی روک لیتی ہیں،اس میں سے بہت قلیل باہرگرتا ہے۔ میں کہوں گا انزال کا تقاضایہ ہے کہ خروجِ منی ہو۔ اور استقرار تو آب منی کے ایک جُز سے ہوتاہے کل سے نہیں۔ معلوم ہے کہ جب انہیں حمل ہوتاہے تومرد کاکچھ پانی ان سے باہر آگرتا ہے۔ اور اس میں سے صرف وہی جز رکتا ہے جس سے نسل کاوجود خدا تعالٰی نے مقدر فرمایاہے۔بلکہ ایسابھی ہے کہ مرد کاپانی بھی اسی وقت گرتا ہے جب ان کے انزال کے ساتھ ان کاپانی بھی گرتاہے۔ مختصریہ کہ انزال بعض حصہ منی کے باہر آنے کی دلیل ہے دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ یہ وہ ہے جو مجھ پرظاہر ہوا۔
ثم رأیت العلامۃ ط رحمہ اللّٰہ تعالٰی جنح الی بعض ماذکرتہ فقال قلت والنظر لایتم الااذاکانت البکارۃ تمنع خروج المنی والامربخلاف ذلک لخروج الحیض من ذلک المحل فلماکان الغالب فی تلک الحالۃ النزول خصوصا وقد ظھر الحبل وھو اکبر دلیل علیہ اعتبروہ واقاموا اللازم مقام الملزوم ومن یعرف مواقع الفقہ لایستبعد ذلک ۱؎ اھ فقد افادواجاد علیہ رحمۃ الجواد۔
پھر میں نے دیکھا کہ میری مذکورہ کچھ باتوں کی طرف علامہ طحطاوی، رحمہ اللہ تعالٰی کابھی رجحان ہے وہ فرماتے ہیں: میں کہتاہوں یہ نظر(جودرمختار میں منقول ہے ۱۲م)اسی صورت میں تام ہوسکتی ہے جب بکارت خروج سے مانع ہو اور معاملہ اس کے برخلاف ہے اس لئے کہ خونِ حیض بھی اسی جگہ سے باہر آتا ہے۔ تو اس حالت میں چوں کہ غالب منی کااترنا ہے۔ خصوصاً جب کہ حمل ظاہر ہوچکا اور یہ اس کی بڑی دلیل ہے،اس لئے اس کا اعتبار کرلیا گیااور لازم کو ملزوم کے قائم مقام قرار دیاگیا۔اور جو فقہ کے مقامات سے آشنا ہے وہ اسے بعید نہ جانے گا ۔اھ۔ ان الفاظ سے انہوں نے افادہ کیا اور خوب افادہ فرمایا، رب جو اد کی ان پر رحمت ہو۔
(۱؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الطہارۃ المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۹۵)
اقول غیرفــ ان فی قولہ خصوصاحزازۃ ظاھرۃ لان الکلام ھھنافی اغلبیۃ الخروج عند الانزال ولامزیۃ فیہ لصورۃ الحبل بل المزیۃ لصورۃ عدمہ لماقدمت من وجوب الامساک فی الحبل للانعقاد۔
اقول مگر یہ ہے کہ ان کا لفظ ”خصوصاً ” نمایاں طورپر کھٹک رہاہے اس لئے کہ یہاں وقت انزال خروج منی کے اکثر ہونے سے متعلق گفتگو ہے اوراس میں صورت حمل کو کوئی خصوصیت نہیں،بلکہ خصوصیت عدم حمل کو ہے کیوں کہ ابھی بیان ہواکہ حمل میں بوجہ استقرار(کچھ پانی) روک لینا ضروری ہے۔
فـــ: معروضۃ علی العلامۃ ط۔
ثم المستفادفــ من کلامہ ان مرادہ اغلبیۃ الانزال فی حالۃ الجماع وعلیہ یستقیم قولہ خصوصافان دلالۃ الحبل علی الانزال اظھر وازھر ولکن لوکان الاغلب انزالہابالجماع لوجب الحکم علیھابالغسل وان لم یظھر الحبل لان الغالب کالمتحقق بل الاغلب فی النساء عدم الانزال بکل جماع الااحیاناکماصرح بہ اھل المعرفۃ بھذاالشان حتی قالوا لوانھاکلماجومعت انزلت لھلکت سریعاھذاالکلام مع الغنیۃ۔
پھران کے کلام سے مستفادیہ ہے کہ ان کی مراد حالتِ جماع میں اکثریت انزال ہے اسی مراد پران کا لفظ ”خصوصاً” ٹھیک بیٹھ سکتاہے کیونکہ انزال پر حمل کی دلالت بہت واضح وروشن ہے لیکن جماع سے اگر اسے انزال ہوجانااکثر و غالب ہوتاتوحمل ظاہرنہ ہوتے ہوئے بھی (مسئلہ مذکورہ میں) اس پر غسل کا حکم کرنالازم ہوتا۔اس لئے کہ غالب واکثر، متحقق کاحکم رکھتا ہے۔ بلکہ عورتوں میں اکثروغالب یہی ہے کہ ہر جماع سے انہیں انزال نہ ہومگربعض اوقات میں۔ جیسا کہ اس امر کی معرفت رکھنے والوں کی تصریح موجود ہے بلکہ انہوں نے تویہاں تک کہا ہے کہ اگرہرجماع کے ساتھ اسے انزال ہو توجلد ہی ہلاک ہوجائے۔یہ کلام غنیہ پر ہوا۔
فــــ:معروضۃ اخرٰی علیہا
اماالحلیۃ فنقل فیھاکلام المحقق ثم نازعہ بقولہ دعوی وجودالمنی شرعافیمن احتملت ثم استیقظت وتذکرت لذۃ انزال مناما ولم تجد بللا لمساولا رؤیۃ ممنوعۃ لان مایتذکر وقوعہ فی نفس الامرفی النوم انما یکون محقق الوجود شرعا اذا وجد فی الیقظۃ مایشھد بذلک ولیس الشاھد لتحقق وجود المنی منھا مناما الا علمہا بوجودہ فی الفرج الخارج یقظۃ بلمس اوبصر فاذافقد فقد ظھر عدم وجودہ وان المرئی لہا فی المنام کان خیالا وھذہ الصورۃ فیمایظھرھی محل الخلاف فظاھرالروایۃ لایجب الغسل وعن محمد نعم ولاشک فی ضعفھا کیف لاوھی مخالفۃ لظاھر النص وکذا القیاس الصحیح علی امثال ذلک من البول و الحیض ونحوھما فان الشارع لم یعتبر ھٰذہ الاشیاء موجودۃ الا اذا برزت من الفرج الداخل الی الفرج الخارج کذا ھذا ۱؎ اھ
لیکن حلیہ تواس میں محقق علی الاطلاق کاکلام نقل کرنے کے بعدان الفاظ میں اس سے نزاع کیا ہے:عورت جسے احتلام ہوا، پھر بیدار ہوئی او رخواب میں انزال کی لذت اسے یاد ہے مگر اسے چھونے یا دیکھنے سے کوئی تری نہ ملی اس عورت سے متعلق یہ دعوٰی کہ شرعاً اس کی منی پالی گئی، قابلِ تسلیم نہیں۔ اس لئے کہ خواب میں واقعی طور پر جس بات کا واقع ہونا یادآتاہے شرعاً اس کا وجود اسی وقت ثابت ہوگاجب بیداری میں اس کا کوئی شاہد مل جائے۔اور خواب میں اس سے منی پائے جانے کے تحقق پر شاہد یہی ہے کہ بیداری میں چھونے یادیکھنے سے اس کو فرج خارج میں وجود منی کا علم ہوجب یہ شاہد موجود نہیں تو ظاہرہو گیاکہ منی پائی نہ گئی اور جوکچھ اس نے خواب میں دیکھاوہ محض ایک خیال تھا۔اورظاہر یہی ہے کہ یہی صورت محلِ اختلاف ہے۔ اسی سے متعلق ظاہر الروایہ میں ہے کہ غسل واجب نہیں، اور امام محمد سے ایک روایت ہے کہ واجب ہے،اور اس روایت کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں،اورضعیف کیوں نہ ہو جب کہ وہ ظاہر نص کے مخالف ہے۔ اسی طرح اس کے مثل پیشاب حیض وغیرہ پر قیاس صحیح کے بھی خلاف ہے اس لئے کہ شارع نے ان چیزوں کاوجود اسی وقت مانا ہے جب یہ فرج داخل سے نکل کر فرج خارج میں ظاہر ہوں۔ تویہی حکم منی کا بھی ہوگا اھ۔
(۱؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول والجواب فـــ مااٰذناک مرارا ان تذکرالاحتلام دلیل اعتبرہ الشرع لاسیما مع تذکرلذۃ الانزال ومن ثم نشأ الفرق بین الاحکام فی التذکروعدمہ فلولم یکن دلیلا علی نزول المنی کان احتمال المنی احتمالاعلی احتمال فی من تذکرو رأی بللا یعلم انہ لیس منیا بل ولایعلم ایضاانھابلۃ ناشئۃ عن شھوۃ انمایسوغہ لترددھا بین مذی وودی ومعلوم ان الاحتمال علی الاحتمال لایعبؤبہ فکان کمن رأھاولم یتذکر مع اجماعھم علی الفرق بینھمافماھوالالان التذکردلیل خروج المنی فترقی بہ عن الاحتمال علی الاحتمال الی الاحتمال فوجب احتیاطالان الاحتمال معتبرفی محل الاحتیاط۔
اقول اس کا جواب وہی ہے جو ہم نے بار بار بتایا کہ احتلام یاد ہونا ایک ایسی دلیل ہے جس کا شریعت نے اعتبار کیا ہے خصوصاً جب کہ لذتِ انزال بھی یاد ہو۔ یہیں سے تو یاد ہونے اورنہ ہونے میں احکام کا فرق رونماہوا۔اگریہ نزول منی کی دلیل نہ ہوتا تومنی کا احتمال،احتمال دراحتمال ہوتا اس شخص کے بارے میں جسے احتلام یاد ہے اور بیداری میں اس نے ایسی تری دیکھی جسے وہ جانتا ہے کہ منی نہیں بلکہ وہ یہ بھی نہیں جانتاکہ یہ کوئی ایسی تری ہے جو شہوت سے نکلی ہے۔اس کا صرف امکان مانتاہے اس لئے کہ اس میں مذی اور ودی کے درمیان تردّد ہے۔اور معلوم ہے کہ احتمال در احتمال کاکوئی اعتبارنہیں تو یہ شخص اسی کی طرح ہواجس نے تری دیکھی اور اسے احتلام یادنہیں،حالانکہ دونوں کے درمیان تفریق پر ہمارے ائمہ کااجماع ہے اس کاسبب اس کے سواکچھ نہیں کہ احتلام یاد ہونا خروج منی کی دلیل ہے اسی وجہ سے وہ احتمال در احتمال سے ترقی کر کے احتمال کے درجہ تک آگیا۔ تو احتیاط واجب ہوئی اس لئے کہ مقام احتیاط میں احتمال معتبر ہے۔
فـــ:تطفل علی الحلیۃ ۔
قولکم انمایکون محقق الوجود شرعا۱؎الخ اقول ماقام فـــ علیہ دلیل شرعی فقد تحقق وجودہ شرعاولا یحتاج الی شاھد من لمس اوبصرالا تری ان المولج المکسل قام فیہ الدلیل الشرعی علی انزالہ فاعتبرموجودا شرعامع عدم شھادۃ لمس ولا بصر نعم یحتاج الحکم بالدلیل الی عدم المعارض وعدم وجدان الرجل المحتلم معارض لدلالۃ التذکر بخلاف المرأۃ کما بینا نعم دلالۃ الایلاج یقظۃ اعظم واقوی من دلالۃ الاحتلام فلم یقم لہا ھذا المعارض لاحتمالات بعیدۃ لم تکن تحمل لولا غایۃ مافی ھذا الدلیل من عظم القوۃ بخلاف تذکر الحلم۔
صاحب حلیہ :شرعاً اس کا وجود اسی وقت ثابت ہوگاالخ اقول جس امر پر دلیل شرعی قائم ہوگئی، شرعاً اس کا وجود ثابت ہوگیا اور چھونے ، دیکھنے جیسے شاہد کی حاجت نہ رہی۔ کیا معلوم نہیں کہ ادخالِ حشفہ والے شخص کے بارے میں انزال پر دلیلِ شرعی قائم ہوگئی تو انزال کو شرعاً موجود مان لیا گیا باوجود یکہ دیکھنے چھونے کی کوئی شہادت نہیں۔ ہاں دلیل پر حکم کرنے میں اس کی ضرورت ہے کہ اس کا کوئی معارض نہ ہو۔ اور جس مرد نے خواب دیکھا اور احتلام اسے یاد ہے مگر اس نے کوئی تری نہ پائی تو اس کے یاد ہونے کا اعتبار نہ ہوا۔اس لئے کہ تری نہ پانا، دلیلِ تذکر(یاد ہونا)کے معارض ہے۔ اور عورت کی یہ حالت نہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا۔ ہاں بیداری میں ادخال کی دلالت،خواب یاد ہونے کی دلالت سے زیادہ عظیم اور قوی ہے اس لئے یہ معارض(تری نہ پانا) اس کے سامنے نہ ٹھہر سکا ایسے بعید احتمالات کی وجہ سے جو اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے اگر اس دلیل میں انتہائی قوت نہ ہوتی اور خواب یاد ہونے کی دلیل ایسی قوی نہیں۔
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
ف:تطفل آخر علیہا۔
قولکم مخالفۃ لظاھر النص۱؎اقول لواوجبت فـــ من دون دلیل علی الخروج لخالفت واذ قدبنت الامرعلی الدلیل وقد اعترفتم انہ لاشک فی الاتفاق علی وجوب الغسل بوجود المنی فی احتلامہا وفی ان المراد بالرؤیۃ العلم بوجودہ لارؤیۃ البصر۱؎ اھ ففیم الخلاف۔
صاحب حلیۃ :یہ روایت ظاہر نص کے مخالف ہے۔ اقول اگراس میں خروج منی کی دلیل کے بغیر وجوبِ غسل کاحکم ہوتاتو وہ نص کے مخالف ہوتی اورجب اس نے بنائے حکم دلیل پر رکھی ہے(تومخالفت کس بات میں رہی)اور آپ کوبھی اعتراف ہے کہ عورت کے احتلام میں منی پائے جانے سے وجوبِ غسل پر اتفاق ہونے میں کوئی شک نہیں اوراس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رؤیت سے مراد وجود منی کا علم ہے آنکھ سے دیکھنا مراد نہیں ۔اھ۔ اب مخالفت کہاں ہوئی؟
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
ف:تطفل ثالث علیہا۔
(۱؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )
قولکم والقیاس الصحیح۲؎
صاحب حلیۃ :قیاس صحیح کے بھی خلاف ہے۔
(۲؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول ماذافـــ۱المناط فی المقیس علیہا تعلق العلم بنفسہا اصالۃ ام اعم الثانی حاصل ھھناکماعلمت والاول غیر مسلم فی المقیس علیہا ففی الاشباہ ذکر عن فــ۲ محمد رحمہ اللّٰہ تعالی انہ اذا دخل بیت الخلاء وجلس للاستراحۃ وشک ھل خرج منہ اولا کان محدثاوان فـــ۱ جلس للوضوء ومعہ ماء ثم شک ھل توضأ ام لاکان متوضیا عملا بالغالب فیھما ۱؎ اھ
اقول مقیس علیہ(پیشاب، حیض وغیرہ۱۲م) میں مدار کیا ہے؟ خود ان چیزوں سے براہِ راست علم ویقین کاتعلق ، یا اس سے اعم (وہ علم جو دلیل کے ذریعہ علم کو بھی شامل ہو۱۲م) ثانی تویہاں حاصل ہے جیسا کہ واضح ہوا۔ اور اول خودمقیس علیہ میں تسلیم نہیں۔ کیونکہ اشباہ میں امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی سے یہ مسئلہ نقل کیا ہے :یہ یاد ہے کہ بیت الخلا میں داخل ہوا اور قضائے حاجت کے لئے بیٹھا تھااور اس میں شک ہے کہ کچھ خارج ہوا تھا یا نہیں تو وہ بے وضو قرار پائے گا۔ اور اگر یہ یاد ہے کہ وضو کے لئے پانی لے کر بیٹھا تھامگراس میں شک ہے کہ وضوکیا تھایا نہیں تو یہ مانیں گے کہ وضوکرلیا تھا۔ دونوں مسئلوں میں غالب پر عمل کی رو سے یہ حکم ہے۔اھ۔
فـــ۱:تطفل رابع علیہا۔
فــ۲:مسئلہ یہ یاد ہے کہ بیت الخلاء میں گیا اور قضائے حاجت کے لئے بیٹھا تھا مگر یہ یاد نہیں کہ پیشاب وغیرہ کچھ ہوا یانہیں تو یہی ٹھہرائیں گے کہ ہواتھاوضولازم ہے ۔
فــــ۱:مسئلہ وضو کے لئے پانی لے کر بیٹھنایادہے مگر وضوکرنایادنہیں تویہی قرار دیں گے کہ وضوکرلیا۔
(۱؎الاشباہ والنظائر الفن الاول القاعدۃ الثانیہ ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۸۷)
وقد جزم بالفرع فی الفتح فقال شک فی الوضوء اوالحدث وتیقن سبق احدھما بنی علی السابق الا ان تأید اللاحق فعن محمد علم المتوضیئ دخولہ الخلاء للحاجۃ وشک فی قضائھاقبل خروجہ علیہ الوضوء ثم ذکرمسألۃ الوضوء ثم قال وھذایؤید ماذکرناہ من الوجہ فی وجوب وضوء المفضاۃ ۲؎ اھ
اس جُزئیہ پر فتح القدیر میں جزم کیا ہے،اس کے الفاظ یہ ہیں: وضو یاحدث میں شک ہوا اور اس سے پہلے دونوں میں سے ایک کایقین ہے توسابق پربنا ء رکھے مگر یہ کہ لاحق کوکسی چیز سے تقویت حاصل ہو۔ کیونکہ امام محمد سے منقول ہے کہ باوضو شخص کو حاجت کے لئے خلاء میں جانے کا یقین ہے۔ اوراس میں شک ہے کہ نکلنے سے پہلے قضائے حاجت کیایانہیں تواسے وضو کرناہے۔ اس کے بعد مسألہ وضو ذکر کیا پھر فرمایا:اس سے اُس وجہ کی تائید ہوتی ہے جو مفضاۃ پر وضو واجب ہونے کے بارے میں ہم نے ذکر کی ۔اھ۔
(۲؎ فتح القدیر کتاب الطہارات فصل فی نواقض الوضوء مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۴۸)
ای اذافـــ۲ خرج لہاریح لاتعلم ھل ھی من القبل او الدبرتجعل من الدبرلانہ الغالب فیجب علیہا الوضوء فی روایۃ ھشام عن محمد وبہ اخذ الامام ابوحفص الکبیر و مال المحقق الی ترجیحہ بماعلمت خلافالمافی الہدایۃ وغیرھاانہا انمایستحب لہا الوضوء لعدم التیقن بکونہا من الدبر فھذا بول مثلا اعتبر موجودا شرعامع عدم احاطۃ العلم بہ عینا وفی الدر المختار النفاس دم فلولم فـــ ترہ ۱؎ (بان خرج الولد جافابلادم ۲؎ ش) ھل تکون نفساء المعتمدنعم ۳؎ اھ
مفضاۃ وہ عورت جس کے دونوں راستے پردہ پھٹ کر ایک ہوگئے۔اس سے متعلق مسئلہ یہ ہے کہ جب اس سے ریح نکلی اوراسے علم نہیں کہ آگے کے مقام سے ہے یا پیچھے سے، تو پیچھے کے مقام سے قراردی جائے گی،اس لئے کہ یہی غالب ہے، تواس پر وضو واجب ہوگا۔یہ امام محمد سے ہشام کی روایت میں ہے اور اسی کوامام ابو حفص کبیر نے اختیار کیا ہے۔وجہ مذکورسے اسی کی ترجیح کی جانب حضرت محقق کامیلان ہے اس کے برخلاف جو ہدایہ وغیرہا میں ہے کہ اس پر وضو صرف مستحب ہے کیونکہ اس کے پیچھے کے مقام سے ہونے کا یقین نہیں۔ تو مذکورہ بالاجزئیہ میں یہ مثلاً پیشاب وپاخانہ ہے جسے شرعاً موجود مان لیا گیاباوجود یکہ بعینہ اس سے متعلق احاطہ علم نہیں۔ اب دم سے متعلق دیکھئے۔درمختار میں ہے :نفاس ایک خون ہے تواگراسے نہ دیکھے (شامی میں ہے مثلاً یوں کہ بچہ خشک نکل آیاجس پر خون کا کوئی نشان نہیں) توکیا وہ نفاس والی ہوگی یانہیں؟۔ معتمدیہ ہے کہ ہوگی اھ۔
فــ۲:مسئلہ جس عورت کے دونوں مسلک پردہ پھٹ کرایک ہوگئے اسے جو ریح آئے احتیاطا وضوکرے اگرچہ احتمال ہے کہ یہ ریح فرج سے آئی ہے۔
فــ:مسئلہ بچہ بالکل صاف پیداہوا جس کے ساتھ خون کااصلا نشان نہیں نہ بعد کو خون آیا پھر بھی زچہ پر احتیاطا غسل واجب ہے ۔
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ باب الحیض مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۵۲
۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ باب الحیض داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۹۹
۳؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ باب الحیض مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۵۲)
وفی المراقی من الوضوء قال ابو حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ علیہا الغسل احتیاطا لعدم خلوہ عن قلیل دم ظاھراوصححہ فی الفتاوٰی وبہ افتی الصدرالشہید رحمہ اللّٰہ تعالٰی عنہ ۱؎ اھ وفی حاشیتھا للعلامۃ ط من النفاس اکثر المشایخ علی قول الامام رضی اللہ تعالی عنہ ۲؎اھ فھذا فی النفاس۔
مراقی الفلاح میں باب وضو کے تحت ہے: امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایااحتیاطاً اس پر غسل ہے اس لئے کہ ظاہراً نفاس دم قلیل سے خالی نہیں ہوتا،اسی کو فتاوٰی میں صحیح قرار دیا،اوراسی پرصدرشہید رحمہ اللہ تعالٰی نے فتوٰی دیا۔اھ۔اور علامہ طحطاوی کے حاشیہ مراقی الفلاح میں نفاس کے بیان میں ہے:اکثر مشائخ حضرت امام رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قول پر ہیں اھ۔یہ نفاس سے متعلق ہوگیا۔
(۱؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی کتاب الطہارۃفصل ینقض الوضوء دارالکتب العلمیہ بیروت ص۸۷
۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الطہارۃباب الحیض والنفاس دارالکتب العلمیہ بیروت ص۱۴۰)
ثم اقول : فی قولہ فـــ۱رحمہ اللّٰہ تعالٰی مشیرا الی البول والحیض ونحوھما انھالاتعتبرالا اذا برزت من الفرج الداخل الی الفرج الخارج تسامح ظاھربالنظرالی البول فانہ لایخرج من الفرج الداخل بل من ثقبۃ فی الفرج الخارج فوق مدخلالذکر فکان الاولی اسقاط قولہ من الفرج الداخل۔
ثم اقول حلبی رحمہ اللہ تعالٰی نے پیشاب ،حیض اور ان جیسی چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ ان کا اعتبار اسی وقت ہوتاہے جب یہ فرج داخل سے فرج خارج کی طرف نکلیں۔ اس عبارت میں پیشاب کی بہ نسبت کھلاہو ا تسامح ہے اس لئے کہ پیشاب فرج داخل سے نہیں نکلتا بلکہ اس سوراخ سے نکلتا ہے جو فر ج خارج میں مدخل ذکرسے اوپر ہوتاہے تو بہتر یہ تھاکہ لفظ”فرج داخل” عبارت میں نہ لاتے۔
فــ:تطفل خامس علی الحلیۃ ۔
ثم اورد فی الحلیۃ کلام الاختیارکماقدمناعنھاقال ویطرقہ ان الاحتیاط العمل باقوی الدلیلین وھو ھنامفقود ۱؎ اھ
اس کے بعد حلیہ میں اختیار کی عبارت ذکر کی ہے جیساکہ اس کے حوالہ سے ہم پیش کرچکے ۔پھر لکھا ہے کہ:اس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ احتیاط دلیل اقوی پر عمل میں ہے اور وہ یہاں مفقود ہے ۔اھ۔
(۱؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول بل موجود کماعلمت قال وکون الظاھر فی الاحتلام الخروج ممنوع بل قد وقد ۲؎اھ۔
اقول بلکہ موجود ہے جیسا واضح ہوچکا۔آگے فرمایا: یہ کہ احتلام میں ظاہر خروج منی ہے، قابل تسلیم نہیں۔ بل قَد وقَد(یعنی بلا خروج منی بھی احتلام ہوتا ہے۱۲م)۔
(۲؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول ان فـــ اراد التساوی فغیر صحیح والا لبطل دلالۃ التذکرعلی ان ھذا المتردد بین المذی والودی منی وان اراد ان الخروج قد یتخلف فنعم ولا یقدح فی الظھور۔
اقول اگریہ مرادہے کہ خروج اور عدمِ خروج دونوں احوال برابری پر ہیں تویہ صحیح نہیں ورنہ احتلام یاد ہونے کی دلالت اس امر پرباطل ہوئی کہ یہ شکل جس میں مذی وودی کے درمیان تردّد ہے ،وہ منی ہی ہے۔ اور اگر یہ مراد ہے کہ کبھی ایساہوتاہے کہ احتلام ہواور خروجِ منی نہ ہوتوبات صحیح ہے مگراس سے اس میں کوئی خلل نہیں آتاکہ ظاہر خروج ہے۔
فـــ:تطفل سادس علیہا۔
قال ثم لم یظھرمن الشارع اعتبارھذا الاحتمال بل قیدالشارع وجوب الغسل علیھابعلمہاوجودہ لم یطلق لھا فی الجواب کمااطلقت (ای ام سلیم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا) فی السؤال فانعم النظر تجدہ تحقیقا لاغبار علیہ ان شاء اللّٰہ تعالٰی ۱؎ اھ
آگے فرماتے ہیں: پھر شارع کی جانب سے اس احتمال کا اعتبار ظاہر نہ ہوا بلکہ شارع نے عورت پر وجوبِ غسل اس سے مقید فرمایاکہ اسے وجودِمنی کا علم ہوجائے اور اس کے لئے جواب مطلق نہ رکھا جیسے(حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالٰی عنہا کا) سوال مطلق تھا۔ توغور سے نظر ڈالویہ ایسی تحقیق ثابت ہوگی جس پر کوئی غبار نہیں ان شاء اللہ تعالٰی۔اھ۔
(۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول اما الاحتمال الذی ابداہ فی الاختیار وھو العود حین الاستلقاء فقد عرفت الکلام علیہ وان لاحاجۃ الیہ وان العلم بالوجودمتحقق احتیاطاکمااسلفناو الحمدللّٰہ ۔
اقول وہ احتمال جو اختیار میں ظاہر کیا کہ ہو سکتاہے حالت استلقاء میں منی نکل کر عود کرگئی ہو تواس پرمکمل کلام گزر چکا اور وہاں واضح ہواکہ اس کی کوئی حاجت نہیں وجود منی کا علم یوں ہی احتیاطاً ثابت ومتحقق ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا، والحمد للہ۔
فھذامنتھی الکلام فی مسألۃ المرأۃ ولا اقول انا الذی وجھتھا بہ یوجب التعویل علی الروایۃ النادرۃ انما اقول ان الرد علی کلام المحقق غیر یسیر۔
مسئلہ زن سے متعلق یہ منتہائے کلام ہے اور میں یہ نہیں کہتا کہ میں نے جوتوجیہ پیش کی ہے اس کے باعث روایتِ نادرہ پر اعتماد واجب ہے۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ حضرت محقق کے کلام کی تردید آسان نہیں۔
اماالتعویل فعلی ماحکم بہ ائمتنا فی ظاھر الروایۃ ونص علی انہ الاصح وانہ الصحیح وبہ یؤخذ وعلیہ فتوی ائمۃ الدرایۃ فسقط معہ للبحث مجال وانماعلینا اتباع مارجحوہ وماصححوہ کما لوافتونا فی حیاتھم اعاد اللّٰہ علینا من برکاتھم ومع ذلک ان تنزہ احد فھو خیرلہ عند ربہ واللّٰہ سبحنہ وتعالی اعلم۔
اعتماد تواسی پرہے جس پر ہمارے ائمہ نے ظاہر الروایہ میں حکم فرمایااورائمہ درایت نے جس کے بارے میں تصریح فرمائی کہ وہ اصح ہے۔ صحیح ہے۔ بہ یؤخذ(اسی کواختیار کیا جائے گا)اوراسی پر ائمہ درایت کا فتوٰی ہے۔اس کے ہوتے ہوئے بحث کی جگہ ہی نہیں۔ہمارے ذمہ تواسی کااتباع لازم ہے جسے ان حضرات نے راجح وصحیح قرار دیاجسے اگروہ اپنی حیات میں ہمیں فتوٰی دیتے توہمارے ذمہ یہی ہوتا۔ہم پر اللہ تعالی ان کی برکتیں پھرو اپس لائے۔اس کے باوجود اگر کوئی نزاہت اختیار کرے تو یہ اس کے لئے اس کے رب کے یہاں بہتر ہے، واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم(ت) ۔
صُورت استثناء پر کلام
اس کے بیان کو تین تنبیہیں اور اضافہ کریں:
تنبیہ ثالث عشر : احتلام یاد ہونے کی حالت میں طرفین رضی اللہ تعالٰی عنہما کے نزدیک احتمال منی پر وجوبِ غسل کا حکم ظاہر الروایۃ میں مطلق ہے اور تمام متون اسی پر ہیں مگر نوادر ہشام میں محرر مذہب سیدنا امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے وہ قید مروی ہوئی کہ اگر سونے سے کچھ پہلے شہوت تھی جاگ کر یہ تری دیکھی جس کے منی یا مذی ہونے میں شک ہے تو غسل واجب نہ ہوگا
تبیین الحقائق میں ہے: ذکر ھشام فی نوادرہ عن محمداذا استیقظ فوجدبللا فی احلیلہ ولم یتذکرالحلم فان کان ذکرہ قبل النوم منتشر افلا غسل علیہ وان کان غیر منتشر فعلیہ الغسل ۱؎۔
امام ہشام نے اپنی نوادر میں امام محمد سے یہ روایت ذکر کی ہے کہ جب بیدار ہوکر احلیل(ذکر کی نالی ) میں تری پائے اور خواب یاد نہ ہوتواگرسونے سے پہلے ذکر منتشرتھاتو اس پر غسل نہیں، اور اگر منشتر نہ تھا تواس پرغسل ہے۔(ت)
(۱؎ تبیین الحقائق کتاب الطہارۃ موجبات الغسل دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۶۷)
فتح القدیر میں ہے: روی عن محمد فی مستیقظ وجدماء ولم یتذکر احتلاماان کان ذکرہ منتشرا قبل النوم لایجب والایجب ۲؎۔
امام محمدسے روایت ہے بیدار ہونے والاتری پائے اوراسے احتلام یاد نہیں تواگرسونے سے پہلے منتشرتھاغسل واجب نہیں ورنہ واجب ہے۔(ت)
(۲؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ فصل فی الغسل مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۵۳)
اوراس کی وجہ یہ افادہ فرماتے ہیں کہ شہوت خروج مذی کی باعث ہے تو پیش از خواب قیام شہوت بتائے گاکہ یہ مشکوک تری مذی ہے اور مذی سے غسل واجب نہیں ہوتا بخلاف اسکے کہ سونے سے پہلے شہوت نہ ہو تواب سبب مذی بیداری میں نہ تھا اور نیند مظنہ احتلام ہے لہذا اسے منی ٹھہرائیں گے اور رقت وغیرہ سے مذی کااشتباہ معتبر نہ رکھیں گے کہ منی بھی گرمی پہنچ کر رقیق ہوجاتی ہے۔
غیاثیہ میں ہے : ان کان منتشرا عند النوم فعلیہ الوضوء لاغیر لانہ وجد سبب خروج المذی فیعتقدکونہ مذیا ویحال بہ الیہ الا اذا کان اکبر رأیہ انہ منی رق فحینئذ یلزمہ الغسل ۱؎ اھ
اگرسونے کے وقت ذکر منتشر تھا تواس پرصرف وضو ہے ۔ اس لئے کہ خروجِ مذی کا سبب موجود ہے تواسے مذی ہی ماناجائے گااور اسے اسی کے حوالے کیاجائے گا۔ لیکن جب اسے غالب گمان ہوکہ یہ منی ہے جو رقیق ہوگئی ہے توایسی صورت میں اس پر غسل لازم ہے۔اھ۔
(۲؎الفتاوٰی الغیاثیہ نوع فی اسباب الجنابۃ واحکامہا مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص ۱۸و۱۹)
واطال فی الحلیۃ فی بیانہ بماحاصلہ ان النوم مظنۃ للمنی والانتشارللمذی وقد سبق والسبق سبب الترجیح مع ان الاصل براء ۃ الذمۃ وعدم التغیر فی المنی ثم قال ولا یدفعہ ماعن عائشۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہاقالت سئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم عن الرجل یجدالبلل ولایذکراحتلاماقال یغتسل وعن الرجل یری انہ قداحتلم ولم یجد بللا قال لاغسل علیہ فان الظاھران المراد بالبلل المذکور المنی بالاجماع علی ان فی سندہ عبداللّٰہ العمری ضعیف ۱؎ اھ مختصرا۔
اور حلیہ کے اندر اس کے بیان میں طول کلام ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ نیند منی کا مظنّہ ہے اور انتشارِ آلہ مذی کا مظنّہ ہے او ر انتشار سابق ہے اور سبقت سببِ ترجیح ہے باوجود یکہ اصل یہ ہے اس کے ذمہ غسل نہیں اور منی میں تغیر نہیں۔ پھرفرمایا:اس کی تردید اس سے نہیں ہوسکتی جوحضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ سے اس مرد کے بارے میں پوچھاگیاجوتری پائے احتلام یاد نہ ہو، فرمایا غسل کرے اوراس مرد کے بارے میں پوچھاگیا جو یہ خیال رکھتاہے کہ اس نے خواب دیکھا ہے اور تری نہ پائے،فرمایااس پرغسل نہیں۔اس لئے کہ ظاہر یہ ہے کہ مذکور ہ تری سے مراد منی ہے بالاجماع علاوہ ازیں اس کی سند میں عبداللہ عمری راوی ضعیف ہے ۔ مختصرا۔
(۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول فــ۱الحدیث قداحتج بہ اصحابنالامام المذھب ومحررہ فی ایجابھما الغسل بالمذی اذا لم یتذکرحلماکماتقدم وقدمناعن البدائع انہ نص فی الباب۲؎ وان ابا یوسف یحملہ علی المنی وان للامامین اطلاق الحدیث۔
اقول اس حدیث سے ہمارے اصحاب نے امام مذہب اور محررمذہب علیہما الرحمہ کی تائید میں اس بارے میں استدلال کیا ہے کہ یہ دونوں حضرات احتلام یا د نہ ہونے کی صورت میں مذی سے غسل واجب قرار دیتے ہیں۔جیسا کہ گزرا۔اورہم نے بدائع کے حوالہ سے نقل کیا کہ یہ حدیث اس باب میں نص ہے، اورامام ابویوسف اسے منی پر محمول کرتے ہیں اورطرفین کی تائید اطلاق حدیث سے ہوتی ہے۔
فــــ۱:تطفل علی الحلیۃ۔
(۲؎ بدائع الصنائع کتاب الطہارۃفصل فی احکام الغسل دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۲۷۸)
ثم العمری انمافـــ۲ضعفہ یحیی القطان من قبل حفظہ وقال النسائی وغیرہ لیس بالقوی ۔
پھر عبداللہ عمری کو یحیٰی قطان نے کمی حفظ کی وجہ سے ضعیف کہاہے اور امام نسائی وغیرہ نے لیس بالقوی (قوی نہیں) کہا ہے۔
فــ۲:تمشیۃ عبداللہ العمری المکبر
اقول وبون بین بینہ وبین لیس بقوی، وقال ابن معین لیس بہ باس یکتب حدیثہ۳؎ قیل لہ کیف حالہ فی نافع قال صالح ثقۃ۴؎
اقول:لیس بالقوی(قوی نہیں) کہا اور لیس بقوی(ذرا بھی قوی نہیں) میں نمایاں فرق ہے۔ اور ابن معین نے کہا: ان میں کوئی حرج نہیں ان کی حدیث لکھی جائے گی۔ پوچھا گیا:نافع سے روایت میں ان کا کیا حال ہے۔ فرمایا: صالح ثقہ ہیں۔
(۳؎ میزان الاعتدال ترجمہ عبد اللہ بن عمر العمری۴۴۷۲ دار المعرفۃ بیروت ۲ /۴۶۵
۴؎ میزان الاعتدال ترجمہ عبد اللہ بن عمر العمری۴۴۷۲ دار المعرفۃ بیروت ۲ /۴۶۵ )
وقال احمد صالح لاباس بہ۱؎ وقال ابن عدی فی نفسہ صدوق۲؎ وقال ایضا لاباس بہ وقال یعقوب بن شیبۃ صدوق ثقۃ فی حدیثہ اضطراب وقال الذھبی صدوق فی حفظہ شیئ۳؎،وھذا مسلم قد اخرج لہ فی صحیحہ۔
امام احمد نے فرمایا: صالح ہیں ان میں کوئی حرج نہیں۔ ابن عدی نے کہا :راست باز ہیں،اور یہ بھی کہا: ان میں کوئی حرج نہیں۔اور یعقوب بن شیبہ نے کہا: صدوق، ثقہ ہیں،ان کی حدیث میں کچھ اضطراب ہے۔ ذہبی نے کہا: صدوق ہیں ان کے حفظ میں کچھ خامی ہے۔اور یہ امام مسلم ہیں جنہوں نے اپنی صحیح میں ان کی حدیث روایت کی ہے۔
(۱؎ میزان الاعتدال ترجمہ عبد اللہ بن عمر العمری۴۴۷۲ دار المعرفۃ بیروت ۲ /۴۶۵
۲؎ میزان الاعتدال ترجمہ عبد اللہ بن عمر العمری۴۴۷۲ دار المعرفۃ بیروت ۲/ ۴۶۵
۳؎ میزان الاعتدال ترجمہ عبد اللہ بن عمر العمری۴۴۷۲ دار المعرفۃ بیروت ۲ /۴۶۵ )
وبالجملۃ فـــ لیس ممن یسقط حدیثہ ولا عبرۃ بما تعود بہ ابن حبان من عبارۃ واحدۃ یذکرھا فی کل من یرید، بل لایبعد حدیثہ عن درجۃ الحسن ان شاء اللّٰہ تعالٰی لاجرم ان سکت ابو داؤد علیہ۔
مختصر یہ کہ وہ ان میں سے نہیں جن کی حدیث ساقط ہوتی ہے اور اس کا اعتبارنہیں جس کے ابن حبان عادی ہیں ایک ہی عبارت ہے جس کے لئے چاہتے ہیں استعمال کردیتے ہیں ،بلکہ ان کی حدیث ان شاء اللہ تعالٰی درجہ حسن سے دور نہیں، یہی وجہ ہے کہ ابوداؤد نے ان پرسکوت اختیار کیا۔
فـــ:تطفل اٰخر علیھا۔
اما الجواب عنہ فاقول ظاھر ان السؤال عن بلل ینشؤ بسبب النوم ولذا قال ولم یذکر احتلاما ای یجد المسبب ولا یذکر السبب،قال یغتسل ثم سئل یذکر السبب ولا یجد المسبب قال لاغسل علیہ وحینئذ بمعزل عنہ مانحن فیہ۔
لیکن اس کا جواب فاقول ظاہر ہے کہ سوال اس تری سے متعلق ہے جو نیندکے سبب پیدا ہوتی ہے اسی لئے سائل نے کہا”اسے احتلام یاد نہیں”۔ یعنی مسبّب موجود ہے اور سبب یاد نہیں، فرمایا: غسل کرے۔ پھرسوال ہے کہ سبب یاد ہے مسبب کا وجود نہیں، فرمایا: اس پرغسل نہیں۔ ایسی صورت میں یہ حدیث ہمارے مبحث سے الگ ہے۔
ثم انہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی اعترض:
آگے صاحبِ حلیہ رحمہ اللہ تعالٰی نے چنداعتراض کئے ہیں:
اعتراض اول عبارت مسئلہ سے متعلق ہے کہ اس میں تری مطلق ذکر ہے فرماتے ہیں:اسمیں کوئی شک نہیں کہ منی مراد نہیں۔ اسی لئے مصنف نے ذکرکیاکہ اگر اسے منی ہونے کا یقین ہے تواس پرغسل ہے۔اھ۔
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
وقد قدمنا الجواب عنہ ان المراد بلل لایدری ا منی ھو ام مذی قال فی الخانیۃ فی تصویر المسألۃ ”استیقظ فوجد علی طرف احلیہ بلۃ لایدری انھا منی او مذی ۲؎ الخ ولفظ الغیاثیۃ ذکر ھشام عن محمد فی نوادرہ انہ وجد البلل فی طرف احلیہ شبہ المذی ولم یذکر حلما ۳؎ الخ”۔
اور اس کا جواب ہم پیش کر آئے ہیں کہ مراد ایسی تری ہے جس کے بارے میں اسے پتہ نہیں کہ منی ہے یا مذی، خانیہ میں صورتِ مسئلہ کے بیان میں کہا: بیدار ہوکر سرِاحلیل پر ایسی تری پائی جس کے بارے میں وہ نہیں جانتاکہ منی ہے یا مذی الخ۔ اور غیاثیہ کے الفاظ یہ ہیں : ہشام نے نوادر میں امام محمدسے نقل کیاہے کہ جب کنارہ احلیل پر مذی کے مشابہ تری پائے اوراسے خواب یاد نہیں الخ۔
(۲؎ فتاوی قاضی خاں کتاب الطہارۃ فصل فیما یوجب الغسل نولکشور لکھنؤ ۱ /۲۱
۳؎ الفتاوی الغیاثیہ نوع اسباب الجنابۃ واحکامہا مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۱۸)
اقول: ونص الہندیۃ عن المحیط والحلیۃ عن الذخیرۃ کلیھما عن القاضی الامام ابی علی النسفی عن ھشام عن محمد اذا استیقظ فوجد البلل فی احلیلہ ۴؎ الخ۔
اقول: ہندیہ میں محیط کے حوالہ سے اورحلیہ میں ذخیرہ کے حوالہ سے دونوں قاضی امام ابو علی نسفی سے ناقل ہیں وہ ہشام سے وہ امام محمد سے :جب بیدارہوکر اپنے احلیل میں تری پائے۔الخ۔
(۳؎ الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ الباب الثانی الفصل الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۱۵)
فاذا فــ۱ کان ھذا لفظ محمد فلا معنی للاعتراض علیہ وانما کان سبیلہ بیان المراد کما فعل فقیہ النفس وغیرہ من الامجاد۔
توجب یہ امام محمد کے الفاظ ہیں تواس پراعتراض کاکوئی معنی نہیں۔اس کا طریقہ یہ تھاکہ مراد بیان کی جاتی جیسا کہ امام فقیہ النفس وغیرہ بزرگوں نے کیا۔
فــ۱:تطفل ثالث علیھا۔
ثم اعترض علی ما استشھد بہ من عبارۃ المنیۃ لوتیقن انہ منی بانہ یفید بمفھومہ ان لو لم یتیقن لاغسل فیفید ان لو کان اکبر رأیہ انہ منی لایجب لکنہ یجب کما صرح بہ قاضی خان فی فتاویہ ۱؎ اھ۔
اس کے بعد منیہ کی جو عبارت بطور شاہدپیش کی اس پراعتراض کیاکہ ”اگراسے یقین ہے کہ وہ منی ہے تو غسل ہے” اس عبارت کے مفہوم سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ اگریقین نہ ہوتوغسل نہیں۔اب مفادیہ ہوگا کہ اگر اسے منی ہونے کا غالب گمان ہوتوغسل واجب نہیں۔حالاں کہ اس صورت میں بھی غسل واجب ہے جیساکہ امام قاضی خاں نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصریح فرمائی ہے اھ۔
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
اقول فــ۲اکبر الرأی فی الفقہیات ملتحق بالیقین بل ربما اطلقوا علیہ الیقین ھذا۔
اقول:غالب گمان اور اکبر رائے فقہیات کے اندریقین میں شامل ہے بلکہ بارہا اس پر یقین کا اطلاق کرتے ہیں۔یہ ذہن نشین رہے۔
فـــ۲: تطفل رابع علیھا۔
واعتراض ثانیا علی دلیل المسألۃ بما حاصلہ منع ان الانتشار مظنۃ الامذاء الا اذا کان الرجل مذاء قال”اما اذا لم یکن فینفرد النوم مظنۃ ۱؎ اھ مختصرا۔
اعتراض دوم دلیل مسئلہ پرہے،اس کا حاصل یہ ہے کہ ہمیں تسلیم نہیں کہ انتشار مذی نکلنے کامظنہ ہے ہاں مگر جب کہ مرد کثیر المذی ہو، فرماتے ہیں: لیکن جب ایسا نہ ہوتوتنہا نیندمظنّہ ہے اھ مختصراً۔
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول ان ارادفــ۱المظنۃ المصطلحۃ فقدمنا ان النوم ایضا لیس مظنۃ الامناء فالمراد السبب مطلقا ولولا مطلقا بھذا المعنی لاشک ان الانتشار مظنۃ الامذاء۔وان فــ۲ بغیت التحقیق فاقول دونک مشرعا اعطیتک من قبل بہ یظھر تعلیل المسألۃ والجواب عن ایراد الحلیۃ معا فان النوم سبب ضعیف للامناء وانما کان یتقوی باحد شیئین تذکر الاحتلام او ان یحدث بلۃ لاتنبعث الا عن شھوۃ وقد انتفیا ھھنا اما الحلم فلعدم الذکر واما البلۃ فلا نعقاد سببہا قبل النوم فلم تدل علی احداثہ انتشارا شدیدا مدیدا یورث خروج بلۃ عن شھوۃ فلم یبق الا محض النوم وکان سببا ضعیفا فتقاعد ان ینتھض موجبا فجعلہما مظنتین وترجیح الانتشار بالسبق وعند عدمہ افراد النوم بالمظنّیۃ کلہ بمعزل عن التحقیق واللّٰہ سبحنہ ولی التوفیق۔
اقول:اگرمظنّہ اصطلاحی مراد ہے توہم بیان کر آئے کہ نیند بھی منی نکلنے کا مظنہ نہیں۔ تومطلقاً سبب ہونا مراد ہے اگرچہ سبب مطلق مرادنہ ہو۔ اور اس میں بلاشبہہ انتشار مذی نکلنے کامظنہ ہے اور اگرناظرکوتحقیق کی طلب ہے تو میں کہتاہوں وہ قاعدہ لے لو جو پہلے میں دے چکاہوں اس سے مسئلہ کی تعلیل اور اعتراض حلیہ کا جواب دونوں واضح ہوجائیں گے۔ اس لئے کہ نیند منی نکلنے کا سبب ضعیف ہے اگرچہ اسے دو باتوں میں کسی ایک سے قوّت مل جاتی ہے۔یاتواحتلام یادہو۔ یا ایسی تری نمودارہو جو بغیر شہوت کے اپنی جگہ سے نہیں اٹھتی۔اوریہاں ایک بھی نہیں خواب یاد ہی نہیں، اورتری ہے تو اس کا سبب سونے سے پہلے ہی متحقق ہوچکا ہے اس لئے یہ تری اس کی دلیل نہیں کہ نیند سے انتشارِ شدید مدید پیداہواجو شہوت سے تری نکلنے کا موجب ہے، تو اب صرف نیندرہ گئی ، وہ سبب ضعیف ہے اس لئے موجب نہ بن سکی۔تو صاحبِ حلیہ کا نیند اورانتشار کو دو مظنّہ شمار کرنا اور انتشار کو بربنائے سبقت ترجیح دینا، اوریہ نہ ہونے کے وقت تنہا نیند کو مظنّہ ٹھہرانا سب تحقیق سے بے گانہ ہے۔ اور خدائے پاک ہی مالکِ توفیق ہے۔
فــ۱:تطفل خامس علیھا۔
فــ۲:تطفل سادس علیھا۔
وثالثا تکعکع عن قبولھا قائلا ان تم تقیید وجوب الغسل بالانتشار لاحدی الاحوال فکذا فی باقیھا والا فالکل علی الاطلاق ۱؎ اھ۔
اعتراض سوم اس روایت کو ماننے سے یہ کہتے ہوئے پس وپیش کی: اگر انتشار سے وجوبِ غسل کو مقید کرنا کسی ایک حالت میں درست ہے تو باقی حالتوں میں بھی ایسا ہی ہوگا،ورنہ کسی میں تقیید نہ ہوگی اھ۔
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
اقول ان فــ۱کان ھذا لما عن لہ من الایراد فقد علمت الجواب عنہ وان کان لان الروایات الظاھرۃ والمتون مطلقۃ فلا غر و فی القول بقید ذکر عن احد ائمۃ المذھب الثلثۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم وتلقاہ الجملۃ الفحول بالتسلیم والقبول حتی ان المحقق الشرنبلالی ادخلہ فی متنہ نورالایضاح ونعما فعل وقصد المدقق العلائی تکمیل متن التنویر بزیادۃ ھذا الاستثناء وجعلہ الشامی اصلاح المتن۔
اقول:یہ بات اگراس اعتراض کی وجہ سے ہے جو ان کے ذہن میں آیا، تو اس کاجواب واضح ہو چکا۔ اوراگراس وجہ سے ہے کہ روایات ظاہرہ اور متون میں تقیید نہیں ہے توایک ایسی قید کوماننے میں کوئی عجب نہیں جو تینوں ائمہ مذہب میں کسی ایک سے نقل کی گئی ہے اور اجلّہ اکابر نے اسے تسلیم وقبول کے ساتھ لیا ہے یہاں تک کہ محقق شرنبلالی نے اسے اپنے متن نور الایضاح میں داخل کیا۔ اور بہت اچھاکیا۔ اور مدقق علائی نے اس استثناء کا اضافہ کر کے متنِ تنویر کی تکمیل کرنی چاہی اورعلامہ شامی نے اسے متن کی اصلاح قرار دیا۔
فــ۱: تطفل سابع علیھا
اقول و مع فــ۲ ذالک جواب التنویر نیر مستنیر ان المتون لم توضع الا لنقل ما فی الروایات الظاھرۃ من المذھب وھھنا تم بیان ان لا قصور فی عبارۃ المتن اصلا ولا حاجۃ لہا الی شیئ من الاستثناء ات الثلثۃ ھذا۔
اقول:اس کے باوجود تنویر کا جواب روشن و واضح ہے کہ متون کی وضع اسی مذہب کی نقل کے لئے ہوئی ہے جو روایاتِ ظاہرہ میں ہے۔اور یہاں اس بات کا بیان مکمل ہوجاتاہے کہ عبارت متن میں بالکل کوئی کمی نہیں اور اس میں درمختار کے مذکورہ تینوں استثناء میں سے کسی کی حاجت نہیں۔ یہ ذہن نشین رہے۔
فــ۲: معروضات علی العلامۃ ش۔
وقد قال شمس الائمۃ الحلوانی ان ھذہ المسألۃ یکثر وقوعھا والناس عنھا غافلون فیجب ان تحفظ کما فی المحیط والخانیۃ والمنیۃ والغیاثیۃ والہندیۃ وغیرھا۱؎ وھکذا اوصی بحفظھا فی الذخیرۃ کما نقل عنھا فی الحلیۃ وقد قال فی الغنیۃ فی مسألۃ فـــ عفو بول انتضح کرؤس الابراذ قیدتہ روایۃ مذکورۃ فی الحلیۃ وغیرھا عن النھایۃ عن المحبوبی عن البقالی عن المعلی عن ابی یوسف بان یکون بحیث لا یری اثرہ فان کان یری فلا بد من غسلہ مانصہ التقیید بعدم ادراک الطرف ذکرہ المعلی فی النوادر عن ابی یوسف
امام شمس الائمہ حلوانی نے فرمایاہے کہ یہ مسئلہ کثیر الوقوع ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں تواسے حفظ رکھنا ضروری ہے، ان سے اسی طرح محیط،خانیہ، منیہ، غیاثیہ، ہندیہ وغیرہا میں منقول ہے۔ اسی طرح ذخیرہ میں اسے حفظ رکھنے کی تاکید کی ہے جیسا کہ اس سے حلیہ میں منقول ہے۔ سوئی کی نوک جیسی پیشاب کی باریک باریک بُندکیوں کے معاف ہونے کامسئلہ ہے اس میں ایک قید کا اضافہ ہوا اس روایت کے باعث جوحلیہ وغیرہا میں نہایہ سے ، اس میں محبوبی سے پھر بقالی سے ، معلی سے، امام ابو یوسف سے منقول ہے کہ وہ بُندکیاں ایسی ہوں کہ ان کانشان و اثر دکھائی نہ دیتا ہو اگر نشان دکھائی دیتا ہے تو دھونا ضروری ہے- اس مسئلہ اور قید کے تحت غنیہ میں ہے:نگاہ سے محسوس نہ ہونے کی قید معلی نے نوادر میں امام ابویوسف سے روایت کی ہے۔
فــ:مسئلہ سوئی کی نوک کے برابر باریک باریک بُندکیاں نجس پانی یا پیشاپ کی،کپڑے یا بدن پر پڑگئیں معاف رہیں گی اگرچہ جمع کرنے سے روپے بھر سے زائد جگہ میں ہوجائیں مگر پانی پہنچا اور نہ بہایا غیر جاری پانی وہ کپڑا گر گیا تو پانی نجس ہوجائے گا اور اب اس کی نجاست سے کپڑا بھی ناپاک ٹہہرے گا۔
(۱؎ فتاوٰی غیاثیہ نوع فی اسباب الجنابۃ مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۱۹
البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۵۸
الفتاوی الہندیۃ بحوالہ المحیط کتاب الطہارۃ الباب الثانی الفصل الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۱۵
فتاوٰی قاضی خان کتاب الطہارۃ فصل فیما یوجب الغسل نولکشورلکھنؤ ۱ /۲۲
منیۃ المصلی موجبات الغسل مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ص۳۳)
واذا صرح فــ۱ بعض الائمۃ بقید لم یروعن غیرہ منھم تصریح بخلافہ یجب ان یعتبر ۱؎ الخ وبالجملۃ لاوجہ للعدول مع اتفاق الفحول علی تلقیہ بالقبول۔
اورجب ائمہ میں کسی ایک سے کسی ایسی قیدکی تصریح آئی ہوجس کے خلاف کی تصریح دوسرے حضرات سے مروی نہ ہوتو واجب ہے کہ اس قید کااعتبار کیاجائے الخ۔ مختصر یہ کہ جب اس روایت کے قبول پراکابر کا اتفاق موجود ہے تو اس سے انحراف کی کوئی وجہ نہیں۔
فــ۱: فائدہ: اذا جاء قید فی مسئلۃ عن احد الائمۃ و لم یصرح غیرہ منہم بخلافہ وجب قبولہ۔
(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی الشرط الثانی الطہارۃ من الانجاس سہیل اکیڈمی لاہور ص۱۷۹ و ۱۸۰ )
تنبیہ رابع عشر(۱۴) اقول : جس طرح فــ۲یہ استثنا نہ احتلام ہونے کی کسی صورت سے متعلق نہ یاد ہونے کی حالت میں صورت سوم یعنی علم منی سے اُسے تعلق نہ شکل ششم یعنی علم عدم منی میں اس کی کچھ حاجت کہ اس صورت میں خود ہی غسل کی ضرورت نہیں،یونہی شکل چہارم کی صورت احتمال منی و ودی سے بھی اُسے کچھ علاقہ نہیں کہ نیند سے پہلے شہوت و انتشار تو دلیل مذی ہوتے جب معلوم ہے کہ یہ تری مذی نہیں تو اُن کا ہونا نہ ہونا یکساں ہوا اور بوجہ احتمال منی مطلقا غسل واجب رہا۔
فــ۲:صورت استثنا صرف اس حالت سے متعلق ہے کہ احتلام یاد نہ ہو اور تری خاص مذی ہو یا منی و مذی میں مشکوک۔
ولقد احسن العلامۃ ط اذقال”یجب الغسل عندھما لا عند ابی یوسف فیما اذا شک انہ منی اومذی ولم یکن ذکرہ منتشرا او منی او ودی ولم یتذکر الاحتلام فیھم ۱؎ اھ۔
اسے علامہ طحطاوی نے اچھے انداز میں بیان کیا: ان کے الفاظ یہ ہیں: طرفین کے نزدیک غسل واجب ہے۔امام ابویوسف کے نزدیک نہیں۔اس صورت میں جب کہ اسے شک ہو کہ منی ہے یا مذی ، اور ذکر منتشر نہ رہا ہو یا شک ہو کہ منی ہے یا ودی، اور ان دونوں صورتوں میں احتلام یاد نہ ہو۔ اھ(ت)
(۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار کتاب الطہارۃ المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۹۲ و ۹۳)
ففصل ھذہ عن الثنیا وخصہ بالاولٰی اماما فی البحر من بیانہ اولا صورتی الخلاف بین الثانی والطرفین مطلقا ثم قولہ بعد ذکر صورۃ الثنیا”ھذہ تقید الخلاف المتقدم بین ابی یوسف وصاحبیہ بما اذا لم یکن ذکرہ منتشرا۲؎ اھ فرأیتنی کتبت علی ھامشہ۔اقول ای الصورۃ الواحدۃ من صورتی الخلاف وھی ما اذا شک فی المنی والمذی اما اذاشک فی المنی والودی فلا دخل فیہ للانتشار قبل النوم اھ فاعرف ولاتزل۔
تو احتمال منی و ودی کی صورت کو انہوں نے استثناسے الگ کردیا اور استثنا کو صرف پہلی صورت سے خاص کیا مگر بحر میں امام ثانی اور طرفین کے درمیان اختلاف کی دونوں صورتیں پہلے مطلقاً بیان کی ہیں، پھرصورتِ استثنا ذکر کرکے لکھا ہے یہ صورت استثناامام ابویوسف اورطرفین کے درمیان ذکر شدہ سابقہ اختلاف کو اس حالت سے مقید کردیتی ہے جب ذکر منتشرنہ رہا ہواھ۔یہاں میں نے دیکھا کہ اس کے حاشیہ پرمیں نے یہ لکھا ہے : اقول:یعنی اختلاف کی دو صورتوں میں سے ایک صورت کو مقید کرتی ہے وہ منی یا مذی میں شک کی صورت ہے لیکن جب منی یا ودی میں شک ہو تواس میں سونے سے پہلے انتشارِ آلہ کا کوئی دخل نہیں اھ۔تو تم اس سے آگاہ رہنا اور لغزش میں نہ پڑنا۔(ت)
(۲؎ البحرا الرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۵۸)
اب رہی شکل چہارم کی وہ صورت جس میں منی ومذی مشکوک ہو اور شکل پنجم جس میں مذی کا علم ہو عامہ کتب میں اُسے صورتِ اولٰی یعنی حالت شک سے متعلق فرمایا ہے کما مر عن الخانیۃ وغیرھا (جیساکہ خانیہ وغیرہا سے گزرا۔ت)
اقول: مگر اس سے متعلق کرنا ہی صورت ثانیہ یعنی علم مذی سے بدرجہ اولٰی تعلق بتاتا ہے کہ احتلام یاد نہ ہونے کی حالت میں جبکہ سوتے وقت شہوت ہونے سے صرف احتمال مذی پر مذی ٹھہرایا اور احتمال منی کا لحاظ نہ فرمایا تو جہاں مذی کا علم ہے بروجہ اولٰی مذی ہی قرار پائے گی اور غسل واجب نہ ہوگا۔کتب میں حالت اولٰی کے ساتھ اس کی تخصیص فریق اول کے طور پر تو ظاہر کہ اُن کے نزدیک علم مذی کی صورت میں خود ہی غسل نہ تھا کسی استثناکی کیا حاجت،اور فریق دوم نے صورت خفا پر تنصیص فرمائی کہ بحال احتمال منی بھی صرف احتمال مذی سے مذی ٹھہرنا معلوم ہوجائے،دوسری صورت کا حکم اس سے خود روشن ہوجائےگا لاجرم حلیہ میں فرمایا:
یکون الغسل اذا وجد البلۃ التی مذی بطریق شک اوفی غالب الرأی اوالیقین بشرط کونہ غیر ذاکر للاحتلام ولا منتشر الذکر قبیل النوم ۱؎ اھ
غسل ہوگاجب وہ تری پائے جس کے مذی ہونے کاشک یاظن غالب یایقین ہے بشرطیکہ احتلام یادنہ ہو، نہ ہی سونے سے پہلے ذکرمنتشر رہاہواھ۔(ت)
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
تنبیہ خامس عشر(۱۵)عامہ کتب مثل فتاوی امام قاضی خان و ذخیرہ ومحیط برہانی وتبیین الحقائق وفتح القدیر وجوہرہ نیرہ و خزانۃ المفتین و مجتبی وغیاثیہ وبحرالرائق وجامع الرموز و شرح نقایہ برجندی وعالمگیریہ و رحمانیہ ونورالایضاح ومراقی الفلاح وغیرہا میں یہ استثنا یونہی مذکور ہے مگر منیہ میں اس استثنا میں ایک استثنا بتایا اور اُسے محیط وذخیرہ اور درمختار ومجمع الانہر میں جواہر کی طرف نسبت فرمایا وہ یہ کہ اس استثنا کا حکم صرف اُس صورت سے خاص ہے کہ آدمی کھڑا یا بیٹھا سویا ہو اور اگر لیٹ کر سویا تو مطلقا صورت مذکورہ میں غسل واجب ہوگا اگرچہ سونے سے پہلے ذکر قائم اور شہوت حاصل ہو منیہ میں ہے: ھذا اذا نام قائما اوقاعدا اما اذا نام مضطجعا اوتیقن انہ منی فعلیہ الغسل وھذا مذکور فی المحیط والذخیرۃ قال شمس الائمۃ الحلوانی ھذہ مسألۃ یکثر و قوعھا والناس عنھا غافلون ۱؎ اھ وتبعہ مسکین فی شرح الکنز فعزاہ لھما۔
یہ اس صورت میں ہے جب کھڑا یا بیٹھاسویا ہو اور اگر لیٹ کرسویا ہویا اسے منی ہونے کا یقین ہو تو اس پر غسل واجب ہے۔اوریہ محیط وذخیرہ میں مذکور ہے۔ شمس الائمہ حلوانی نے فرمایا: یہ مسئلہ کثیر الوقوع ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں اھ۔ شرح کنز میں مسکین نے بھی صاحبِ منیہ کا اتباع کرتے ہوئے دونوں کاحوالہ دیا ہے(ت)
(۱؎ منیۃ المصلی موجبات الغسل مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ص۳۳)
مگر اولا فــ۱اس کا پتا نہ ذخیرہ میں ہے نہ محیط میں واللہ اعلم صاحب منیہ رحمہ اللہ تعالٰی کو یہ اشباہ کیونکر ہوا
فــ۱: تطفل علی المنیۃ و شرح الکنز لمسکین۔
قال الشامی ذکر فی الحلیۃ انہ راجع الذخیرۃ والمحیط البرھانی فلم یرتقیید عدم الغسل بما اذانام قائما اوقاعدا ۲؎ اھ۔
علامہ شامی نے فرمایا:حلیہ میں ذکرہے کہ انہوں نے ذخیرہ اور محیط برہانی کی مراجعت فرمائی تواس میں کھڑے یا بیٹھے ہوئے سونے کی صورت سے عدم غسل کی تقییدنہ پائی اھ۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۱۰)
اقول فــ ۲ : رحم اللّٰہ السید متی راجع العلامۃ الحلبی المحیط البرھانی وھو قد صرح فی عدۃ مواضع من الحلیۃ انہ لم یقف علیہ وھکذا صرح ھھنا ایضا حیث یقول اسلفت فی شرح خطبۃ الکتاب ان الظاھر ان مراد المصنف بالمحیط المحیط لصاحب الذخیرۃ وانی لم اقف علیہ نفسہ و راجعت محیط الامام رضی الدین السرخسی فلم ار لھذہ المسألۃ فیہ ذکرا اما الذخیرۃ فراجعتھا فرأیتہ اشار الیہا بما لفظہ قال القاضی الامام ابو علی النسفی ذکر ھشام فی نوادرہ عن محمد اذا استیقظ فوجد البلل فی احلیلہ ولم یتذکر حلما اذا کان قبل النوم منتشرا لاغسل علیہ وان کان قبل النوم ساکنا کان علیہ الغسل قال وینبغی ان یحفظ ھذا فان البلوی کثیر فیہا والناس عنھا غافلون انتھی ۱؎ اھ۔نعم لیس ھو فی المحیط البرھانی ایضا فقد نقل عنہ فی الھندیۃ بعین لفظ الذخیرۃ غیر انہ زاد بعد قولہ لاغسل علیہ الا ان تیقن انہ منی وقال قال شمس الائمۃ الحلوانی ھذہ المسألۃ یکثر وقوعھا والناس عنہا غافلون فیجب ان تحفظ ۲؎ اھ۔
اقول:علامہ شامی پر خدا کی رحمت ہو محقق حلبی نے محیط برہانی کی مراجعت کب فرمائی جب کہ انہوں نے حلیہ کے متعدد مقامات پر تصریح فرمائی ہے کہ انہیں محیط برہانی کی واقفیت بہم نہ ہوئی۔ اسی طرح اس مقام پر بھی انہوں نے تصریح فرمائی ہے،لکھتے ہیں کہ میں خطبہ کتاب کی شرح میں بیان کرچکاہوں کہ ظاہر یہ ہے کہ محیط سے مصنّف کی مراد صاحبِ ذخیرہ کی محیط ہے اور خوداس کی مجھے واقفیت نہ ہوئی۔میں نے امام رضی الدین سرخسی کی محیط دیکھی تو اس میں اس مسئلہ کا ذکر نہ پایا۔ اورذخیرہ کی مراجعت کی تو اس میں ان الفاظ میں اس مسئلہ کی جانب اشارہ پایا:قاضی امام ابو علی نسفی نے فرمایاکہ ہشام نے اپنی نوادر میں امام محمد سے روایت کی ہے کہ جب بیدار ہو کر اپنے احلیل میں تری پائے اور خواب یاد نہیں تو اگر سونے سے پہلے ذکر منتشرتھا تواس پر غسل نہیں، اور اگرسونے سے پہلے ساکن تھا تو اس پر غسل ہے۔فرمایا: اور اسے حفظ رکھنا چاہئے کیونکہ اس میں ابتلابہت ہوتا ہے اورلوگ اس سے غافل ہیں انتہی اھ۔ہاں یہ محیط برہانی میں بھی نہیں ہے کیونکہ اس سے ہندیہ میں بعینہ ان ہی الفاظ کے ساتھ نقل کیاہے جوذخیرہ میں ہیں، سوا اس کے کہ ”اس پرغسل نہیں” کے بعدیہ اضافہ ہے”مگریہ کہ اسے منی ہونے کایقین ہو”۔اور کہاکہ شمس الائمہ حلوانی نے فرمایا ہے کہ یہ مسئلہ بہت واقع ہوتاہے اورلوگ اس سے غافل ہیں تواسے حفظ کرناضروری ہے اھ۔
فـــ۲: معروضۃ علی العلامۃ الشامی۔
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی
۲؎ الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ الباب الثانی الفصل الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۱۵ )
وھکذا نقل عن المحیط فی شرح النقایۃ للبرجندی والرحمانیۃ الا انھما ترکا ذکر الامام ابی علی النسفی والبرجندی قول شمس الائمۃ ایضا ومعلوم فــ ان المحیط اذا اطلق فی المتداولات کان المراد ھو المحیط البرھانی کما یعرفہ من لہ عنایۃ بخدمۃ الفقہ الحنفی، وقال الامام ابن امیر الحاج فی الحلیۃ المحیط البرھانی ھو المراد من اطلاقہ لغیر واحد کصاحب الخلاصۃ والنھایۃ لامحیط الامام رضی الدین السرخسی ۱؎ اھ ثم الھندیۃ قد افصحت بمرادھا فانھا اذا اثرت عن البرھانی اطلقت واذانقلت عن المحیط الرضوی قالت کذا فی محیط السرخسی۔
اسی طرح محیط سے برجندی کی شرح نقایہ اور رحمانیہ میں منقول ہے مگر دونوں نے امام ابو علی نسفی کا ذکر چھوڑ دیا ہے اوربرجندی نے شمس الائمہ کا قول بھی ترک کردیا ہے۔یہ بھی معلوم ہے کہ کتب متداولہ میں محیط جب مطلق بولی جاتی ہے تو محیط برہانی ہی مراد ہوتی ہے جیسا کہ فقہ حنفی کی خدمت سے اعتنا ر کھنے والا اسے جانتا ہے۔اور امام ابن امیر الحاج نے حلیہ میں لکھاہے کہ متعدد حضرات جیسے صاحبِ خلاصہ و نہایہ کے مطلق بولنے سے محیط برہانی ہی مراد ہوتی ہے محیط امام رضی الدین سرخسی نہیں اھ۔ پھر ہندیہ نے تواپنی مراد صاف بتادی ہے کیونکہ اس کا طریقہ یہی ہے کہ محیط برہانی سے نقل ہو تو مطلق محیط لکھا ہوتا ہے اور محیط رضوی سے نقل ہو تو”کذافی محیط السرخسی” سے تعبیر ہوتی ہے اھ(ت)
فـــ :فائدہ : المحیط اذا اطلق فی الکتب المتداولۃ فالمراد بہ المحیط البرھانی لا محیط السرخسی الرضوی۔
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی
۲؎ الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ الباب الثانی الفصل الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۱۵)
ثانیا اقول:بلکہ محیط میں فــ۱ ہے تو اس کا رد ہے اس میں صریح تصریح ہے کہ کھڑے، بیٹھے، چلتے،لیٹے ہر طرح سونے کا تری دیکھنے میں ایک ہی حکم ہے ،
فــ۱:تطفل اٰخری علی المنیۃ و مسکین۔
ففی الھندیۃ فــ۲اذا نام الرجل قاعدا اوقائما اوما شیا ثم استیقظ ووجد بللا فھذا و ما لونام مضطجعا سواء کذافی المحیط۲؎ اھ۔
ہندیہ میں ہے جب مرد کھڑے بیٹھے چلتے سوجائے پھر بیدار ہو اور تری پائے تو یہ اور لیٹ کر سوجائے توسبھی صورتیں برابرہیں،ایساہی محیط میں ہے۔ اھ۔(ت)
(۲؎ الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ الباب الثانی الفصل الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۱۵)
ثالثا اقول فــ۳منتہائے مسئلہ امام محمد ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کے لفظ کریم ذخیرہ ومحیط وتبیین وفتح القدیر وغیرہا سے سُن چکے اُن میں اس نئے استثنا کا کہیں نشان نہیں۔
فـــ۳:تطفل ثالث علیھماوعلی الدرومجمع الانھر۔
رابعا اقول سونے فــ۴کے طبعی وعادی وضع وہی لیٹ کر سوناہے اور کھڑے بیٹھے چلتے سونا اتفاقی تو اگر لیٹ کر سونے میں بحالتِ شہوت سابقہ علم یااحتمال مذی سے غسل نہ آتا اور دیگر اوضاع پر آتااور علما مطلق بیان فرماتے کہ سونے سے پہلے شہوت ہونے میں غسل نہیں تو بعید نہ تھا کہ نادر صورتوں کا لحاظ نہ فرمایا نہ کہ خود لیٹ کر سونا ہی کہ اصل وضع خواب ومعروف ومعتاد ومتبادر الی الفہم ہے اس حکم سے مستثنٰی ہو پھر ائمہ کرام اور خود محرر مذہب رحمہم اللہ تعالٰی اُس کا استنا چھوڑ جائیں یہ کس درجہ بعید ودُور از کار ہے۔
فــ۴:تطفل رابع علیہم۔
خامسا اقول امام شمس الائمہ حلوانی فــ۱کا ارشاد کہ کتب کثیرہ اور خود منیہ میں اس تازہ استثنا کے ساتھ مذکور کہ یہ مسئلہ بکثرت واقع ہوتا ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں تو اس کا حفظ کر رکھنا واجب ہے صاف بتارہا ہے کہ اس کا تعلق صرف اُس صورت خواب سے ہرگز نہیں جو نادر الوقوع ہے۔
فــ۱:تطفل خامس علیھم ۔
سادسا اس تفرقہ پر کوئی دلیل بھی نہیں۔
اماماابداہ فی الغنیۃ اذقال” عدم وجوب الغسل فیما اذا کان منتشرا انما ھو اذا نام قائما اوقاعدا لعدم الاستغراق فی النوم عادۃ فلم یعارض سببیۃ الانتشار سبب اخر فحمل علی انہ ھو السبب وانما یتسبب عنہ المذی لاالمنی والاضطجاع سبب الاسترخاء والاستغراق فی النوم الذی ھو سبب الاحتلام فعارض الانتشار فی السببیۃ فیحکم بسبیتہ للاحتلام وان البلل منی رق احتیاطا ۱؎ اھ وتبعہ السیدان ط وش۔
مگر غنیہ میں یہ رائے ظاہر کی ہے: ذکر منتشرہونے کی صورت میں عدم وجوب غسل اسی وقت ہے جب کھڑے یابیٹھے سویاہوکیونکہ ایسی حالت میں عادۃً گہری نیند نہیں آتی توسبب انتشار کے معارض کوئی اورسبب (اس حالت میں)نہیں پس یہ اس پر محمول ہوگا کہ انتشار ہی سبب ہے اور اس کی وجہ سے مذی ہی آتی ہے منی نہیں آتی۔اور کروٹ لینا اعضا کے ڈھیلے پڑجانے اور سببِ احتلام نیند میں استغراق کا سبب ہوتا ہے تویہ سبب ہونے کے معاملہ میں انتشار کے معارض ہوگااس لئے احتیاطاً اس کے سببِ احتلام ہونے کا حکم ہوگااوراس کا کہ تری منی ہے جو رقیق ہوگئی ۔اھ۔اس رائے میں سید طحطاوی وسید شامی نے بھی غنیہ کا اتباع کیاہے۔
(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی، مطلب فی الطہارۃ الکبری سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۳)
فاقول لافــ۲ متضح ولا متجہ فان النوم کیفما کان لیس سببا قویا للاحتلام کما بیناہ، وانما ینتھض موجبا اذا اعتضد بسبب وسیط اوقریب والاضطجاع لایسلب انعقاد سبب المذی قبل النوم بل یؤکد خروج ماھیأہ ھو للخروج لتمام الاسترخاء فلم یثبت ان النوم احدث تلک البلۃ التی لاتنبعث الا عن شھوۃ فلم یبق الا مجرد المنام وھو ولو مضطجعا لیس سببا قویا للاحتلام، ھذا علی طریقتنا واما علی طریقۃ الحلیۃ فلان الانتشار قد استولی علی المسبب بالسبق فلا وجہ لقطع النسبۃ عنہ الا بتذکر حلم اوعلم منی ولم یعھد الشرع ھھنا فارقا بین نوم ونوم حتی یسقط الترجیح بالسبق لبعض الاوضاع دون بعض۔
اقول یہ رائے نہ واضح ہے نہ باوجہ،اس لئے کہ نیند جس حالت میں بھی ہووہ احتلام کا سبب قوی نہیں، جیساکہ ہم نے بیان کیا۔وہ صرف اس حالت میں موجب بنتی ہے جس سبب وسیط یاقریب سے قوت پاجائے اورسونے سے پہلے جوسبب مذی متحقق ہوچکااضطجاع اسے سلب نہیں کرتا بلکہ اس سبب نے جس تری کو آمادہ خروج کردیا تھا اضطجاع اس کے خروج کو اور مؤکد کردیتاہے کیونکہ اس میں استرخاکامل ہوجاتاہے تویہ ثابت نہ ہوا کہ نیند ہی نے وہ تری پیدا کی تھی جو شہوت ہی سے برانگیختہ ہوتی ہے۔ اب صرف نیند رہ گئی اور نیند خواہ لیٹ ہی کر ہو احتلام کاسبب قوی نہیں۔یہ ہمارے طریقہ پر ہے اور حلیہ کے طریقہ پر یوں کہاجائے گاکہ انتشار سبقت کے باعث مسبّب پرحاوی ہوگیا تواس سے اس مذی کی نسبت منقطع کرنے کی کوئی وجہ نہیں،مگریہ کہ خواب یاد ہویا منی ہونے کا یقین ہواور شریعت سے یہاں ایک نیند اوردوسری نیند میں کوئی تفریق ثابت نہیں کہ انتشار کوسبقت کے باعث جو ترجیح ملی تھی وہ نیند کی بعض صورتوں میں ساقط ہوجائے اور بعض میں ساقط نہ ہو۔
فـــ۲:تطفل علی الغنیۃ وط وش۔
لاجرم امام محقق ابن امیرالحاج نے حلیہ میں اس تفرقہ سے صاف انکارفرمایا،
حیث قال التفرقۃ غیر ظاھر الوجہ فلاجرم ان قال فی الخانیۃ اذانام الرجل قائما اوقاعدا اوماشیا فوجد مذیا کان علیہ الغسل فی قول ابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالٰی بمنزلۃ مالو نام مضطجعا ۱؎ اھ فاطلق فی الکل فان تم تقیید وجوب الغسل بالانتشار لاحدی الاحوال المذکورۃ فکذا فی باقیھا والا فالکل علی الاطلاق اذلایظھر بینھا فی ذلک افتراق ۲؎ اھ ورجع العلامتان ط وش فاثرا انکار الحلیۃ ھذا فی حواشی المراقی والدر و اقراہ۔
اس کے الفاظ یہ ہیں: تفریق کی وجہ ظاہر نہیں ۔ اسی حقیقت کے پیشِ نظر خانیہ میں فرمایا:جب مرد کھڑے بیٹھے یا چلتے ہوئے سوجائے پھرمذی پائے توامام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہما اللہ تعالٰی کے قول پر غسل واجب ہوگا جیسے کروٹ لیٹ کر سوجائے تو واجب ہو گااھ۔توصاحب خانیہ نے حکم سب میں مطلق رکھا۔توانتشارسے وجوب غسل کو مقید کرنامذکورہ حالتوں میں سے کسی ایک میں اگرتام اور درست ہے تو باقی حالتوں میں بھی ایسا ہی ہوگا ورنہ سب ہی حالتیں مطلق رہیں گی۔اس لئے کہ اس بارے میں ان کے درمیان کوئی فرق ظاہر نہیں اھ۔ اور علامہ طحطاوی وشامی نے رجوع کرلیااس طرح کہ مراقی الفلاح اور درمختار کے حواشی میں صاحبِ حلیہ کا یہ انکار نقل کر کے برقراررکھا۔
(۱؎؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی
۲؎؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
اقول غیر فــ ان فی نقل ط وقع ھھنا اخلال یوھم من لم یطالع الحلیۃ انہ کما انکر التفرقۃ انکر نفس الثنیا وحکم بوجوب الغسل علی الاطلاق حیث قال تحت قول الشرنبلالی ”اذالم یکن ذکرہ منتشرا قبل النوم مانصہ لم یفصل بین النوم مضطجعا وغیرہ کغیرہ وقال ابن امیر حاج التفرقۃ غیر ظاھرۃ الوجہ فالکل علی الاطلاق اذلا یظھر بینہما افتراق ۱؎ اھ
اقول مگر یہ ہے کہ یہاں سید طحطاوی کی نقل میں ایک خلل ہے جس سے حلیہ نہ دیکھے ہوئے شخص کو یہ وہم ہوگا کہ صاحبِ حلیہ نے جیسے تفریق کا انکارکیا ہے ویسے ہی استثنا ء کا انکار کیا ہے اورمطلقاً وجوب غسل کا حکم کیا ہے یہ اس طرح کہ علامہ شرنبلالی کے قول”جب کہ سونے سے پہلے اس کا ذکر منتشرنہ رہا ہو”کے تحت سیدطحطاوی لکھتے ہیں: دوسرے حضرات کی طرح انہوں نے بھی کروٹ لیٹنے اور دوسرے طور پر لیٹنے میں فرق نہ کیا اورابن امیر الحاج نے فرمایا: تفریق کی وجہ ظاہر نہیں تو سبھی حالتوں میں حکم مطلق ہے کیونکہ ان کے درمیان کوئی فرق ظاہر نہیں اھ۔
فــ: معروضۃ علی العلامۃ ط۔
(۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الطہارۃ فصل مایوجب الاغتسال دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۹۹)
فان المراد بالکل اوضاع النوم المذکورۃ وبالاطلاق فی کلام الحلیۃ وجوب الغسل سواء کان منتشرا قبلہ اولا وھو لم یجزم بھذا الاطلاق بل بناہ علی ان لایتم تقیید المسألۃ بمامر والافالکل علی التقیید کمالایخفی، وما قدم من الایراد لم یجزم بہ ایضا انما قال لوقال ”قائل کذا لاحتاج الی الجواب ۲؎ اھ فلیتنبہ لذلک وباللّٰہ التوفیق۔
اس لئے کہ سبھی حالتوں سے مراد نیندکی مذکورہ حالتیں ہیں اور کلام حلیہ میں”مطلق ہونے ” سے مراد یہ ہے کہ غسل واجب ہے خواہ سونے سے پہلے ذکر منتشررہاہویا نہ رہا ہواور صاحبِ حلیہ نے اس اطلاق پرجزم نہیں فرمایا ہے بلکہ اسے اس بات پرمبنی رکھاہے کہ مسئلہ کی تقیید مذکورہ امرسے اگرتام نہ ہو، ورنہ سبھی میں تقیید ہوگی۔جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔اورجو اعتراض انہوں نے پہلے ذکر کیا ہے اس پربھی جزم نہیں کیا ہے بلکہ یوں کہاہے کہ اگرکوئی کہنے والا یہ کہے توجواب کی ضرورت ہوگی ۔اھ۔تو اس پر متنبہ رہنا چاہئے اور توفیق خدا ہی سے ہے۔
(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
ثم ان المحقق الحلبی فی الغنیۃ بعد ذکر مسألۃ الثنیا قال وھی تؤید قولھما فی وجوب الغسل اذا تیقن انہ مذی ولم یتذکر الاحتلام ۳؎ اھ
پھر محقق حلبی نے غنیہ میں مسئلہ استثناء ذکر کرنے کے بعدلکھاہے: اس روایت سے طرفین کے اس قول کی تائید ہوتی ہے کہ جب مذی ہونے کایقین ہواوراحتلام یاد نہ ہو تو غسل واجب ہے۔اھ۔
(۳؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبری سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۳)
اقول انما ھی عن فــ محمد وانما تبتنی علی قولھمافکیف یؤید الشیئ بنفسہ ھذا واذا قد خرجت العجالۃ فی صورۃ رسالۃ فلنسمہا ”الاحکام والعلل فی اشکال الاحتلام والبلل” حامدین للّٰہ علی ماعلم ومصلین علی ھذا الحبیب الاکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وصحبہ وبارک وسلم۔واللہ سبحنہ وتعالی اعلم ۔
اقول یہ روایت امام محمد ہی سے تو ہے اور ان ہی کے امام صاحب کے قول پر اس کی بنیاد بھی ہے تو شئی کی تائید خود اپنی ہی ذات سے کیسے ہوگی ؟۔ یہ بحث تمام ہوئی۔اور یہ عُجالہ جب ایک رسالہ کی صورت اختیار کرگیا تو ہم اسے الاحکام والعلل فی اشکال الاحتلام والبلل(۱۳۲۰ھ)(احتلام اور تری کی صورتوں سے متعلق احکام واسباب) سے موسوم کریں خدا کی حمد کرتے ہوئے اس پر جو اس نے سکھایا اور درود بھیجتے ہوئے اس حبیب اکرم پر۔ ان پر اور ان کی آل و اصحاب پر خدائے برتر کی رحمت وبرکت اور سلام ہو۔ اور خدائے پاک وبرتر ہی کو خوب علم ہے۔(ت)
فـــ:تطفل علی الغنیۃ ۔
رسالہ
الاحکام والعلل فی اشکال الاحتلام والبلل
ختم ہوا