زبان و بیان, فتاوی رضویہ

فرق درمیان بدعت و مباح و تخصیص حدیثیں۔

مسئلہ ۱۴ : ازسہسرام ضلع گیا محلہ پٹیاں ٹولی عرف نیم کالے خان مرسلہ حکیم سراج الدین احمد صاحب ۱۷ شوال ۱۳۳۵ھ
دیوبندی سہارنپوری نانوتوی والہ آبادی وغیر ہم واعظین مدارس و مساجد کی تعمیر و تحفظ میں بلا ترجیح یکدیگر جو کچھ اقوالِ مختلفہ بیان کرتے ہیں کہاں تک حق بجانب ہے تاوقتیکہ بدعت واجب مندوب مباح حرام مکروہ اور بدعت کی وجہ حسن و قبح اور فرق درمیان بدعت و مباح و تخصیص حدیثیں۔

(۱) من سنّ سنّۃ حسنۃ ومن سنّ سنۃ سیّئۃ ۔۱؂ جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا اور جس نے بُرا طریقہ ایجاد کیا (ت)

(۱؂ مسند الامام احمد بن حنبل المکتب الاسلامی بیروت۴/ ۳۶۱ وصحیح مسلم کتاب العلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۴۱)

(۲) من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فہوردّ ۔۲؂ جو شخص ہمارے دین میں کوئی نئی نکالے وہ مردود ہے۔(ت)

(۲؂ صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۷۷)

(۳) من ابتدع بدعۃ ضلالۃ لایرضا ھا اﷲ ورسولہ ۔۳؂ جس نے کوئی ایسی نئی بات نکالی جو بُری ہے جسے اﷲ و رسول پسند نہیں فرماتے۔(ت)

(۳؂ جامع الترمذی کتاب العلم باب الاخذ بالسنۃ واجتناب البدعۃ امین کمپنی دہلی ۲/ ۹۲)

کے مطابق ہر امورِ حسنہ کو سیئہ سے پاک رہنے کا حال مفصل نہ کہہ سنائیں کہ عوام غلط فہمی سے حق تلفی کرکے امور حسنہ کو بآمیزش ممنوعات کے مذموم نہ کردیں اگر اس کا التزام مذکورین اپنے اپنے وعظ میں نہ کریں تو موردِ الزام ہوسکتے ہیں یا نہیں؟

الجواب : واعظ کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمان ہو دیوبندی عقیدے والے مسلمان ہی نہیں ان کا وعظ سننا حرام اور دانستہ انہیں واعظ بنانا کفر علمائے حرمین شریفین نے فرمایا ہے کہ:

من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر ۱ ؎ جس نے ان کے کفر اور عذاب میں شک کیا اس نے کفر کیا۔(ت)

(۱؂ الدرالمختار کتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۶)
(حسام الحرمین علی منحرالکفروالمین مطبع اہلسنت وجماعت بریلی ص ۹۴)

اسی طرح تمام وہابیہ و غیر مقلدین فانّھم جمیعا اخوان الشیاطین ۔ ( کہ وہ سب شیطانوں کے بھائی ہیں۔ت) دوسری شرط سنی ہونا غیر سنی کو واعظ بنانا حرام ہے اگرچہ بالفرض وہ بات ٹھیک ہی کہے ۔

حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: من وقرصاحب بدعۃ فقد اعان علٰی ھدم الاسلام ۲؂ جس نے کسی بدمذہب کی توقیر کی اس نے دین اسلام کے ڈھانے پر مد دد ی۔

(۲؂ کنزالعمال حدیث ۱۱۰۲ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱/ ۲۱۹)

تیسری شرط عالم ہونا جاہل کو واعظ کہنا ناجائز ہے جیسا کہ ارشا دہے: اتخذالناس رؤسا جہا لا فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا واضلوا ۔۳؂ لوگوں نے جاہلوں کو سردار بنالیا پس جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بے علم احکام شرعی بیان کرنے شروع کیے تو آپ بھی گمراہ ہوئے اور اوروں کو بھی گمراہ کیا ۔

(۳؂ صحیح البخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۰)

چوتھی شرط فاسق نہ ہونا ۔ تبیین الحقائق وغیرہ میں ہے: لان فی تقدیمہ للامامۃ تعظیمہ وقدوجب علیہم اھانتہ شرعاً ۔ کیونکہ اسے امامت کے لیے مقدم کرنے میں اس کی تعظیم ہے حالانکہ شرعاً مسلمانوں پر اس کی توہین واجب ہے۔(ت)

(۴؂ تبیین الحقائق باب الامامۃ والحدث فی الصلوۃ المطبعۃ الکبرٰی بولاق مصر ۱/ ۱۳۴)

اور جب یہ سب شرائط مجتمع ہوں سنی صحیح القعیدہ عالم دین متقی وعظ فرمائے تو عوام کو اس کے وعظ میں دخل دینے کی اجازت نہیں وہ ضرور مصالح شرعیہ کا لحاظ رکھے گا ہاں اگر کسی جگہ کوئی خاص مصلحت ہو جس پر اُسے اطلاع نہیں تو پیش از وعظ مطلع کردیا جائے کہ یہاں یہ حالت ہے واﷲ تعالٰی اعلم۔