زبان و بیان, فتاوی رضویہ

اشعار کا مطلب

مسئلہ ۱۳ : از پیلی بھیت محلہ احمد زئی مرسلہ مولوی سید محمد عمر الہ آبادی سہروردی ۱۸ رجب ۱۳۳۲ھ)
(۱) من آن وقت بودم کہ آدم نبود کہ حوا عدم بود آدم نبود
(۲) من آں وقت کردم خداراسجود کہ ذات وصفات خدا ہم نبود

(۳) غور سے ہم نے محمد کو جو دیکھا فرحاں تین سو ساٹھ برس پایا خدا سے پہلے
(۱) میں اس وقت تھا کہ آدم نہ تھا کہ حوا معدوم تھی اور آدم نہ تھا۔
(۲) میں نے اس وقت خدا کو سجدہ کیا کہ خدا کی ذات و صفات بھی موجود نہ تھیں۔ت)
ان تینوں شعروں کا مطلب تحریر فرمائیے کہ یہ اشعار کس کے ہیں اور کس کتاب میں ہیں؟ ایک شخص نے مجھ سے ان شعروں کا مطلب دریافت کیا ہے مگر مجھے نہیں معلوم میں کیسے بتلاؤں لہذا آنجناب سے سوال ہے کہ مطلب تحریر فرمائیے فقط المستفتی محمد عمر۔

الجواب : ایسے اشعار کا مطلب اس وقت پوچھا جاتا ہے جب معلوم ہو کہ قائل کوئی معتبر شخص تھا ورنہ بے معنی لوگوں کے ہذیان کیا قابلِ التفات ۔
شعر اول کے مصرعہ اخیر میں آں دم نبود چاہیے ورنہ قافیہ غلط ہے بہرحال اس کا مطلب صحیح و صاف ہے وجود ارواحِ قبل اجسام کی طرف اشارہ ہے۔
شعر دوم صریح کفر ہے۔

شعر سوم میں دراصل تین سو تیرہ برس کا لفظ ہے فرحان ہمارے بریلی کے شاعر تھے ان کی زندگی میں ان کی یہ غزل چھپی تھی فقیر نے جبھی دیکھی تھی اس میں تین سو تیرہ کا لفظ تھا اس میں شاعر نے یہ مہمل و بے ہودہ و لغو مطلب رکھا ہے کہ لفظ محمد کے عدد ۹۲ ہیں اور لفظ خدا کے عدد ۶۰۵ ظاہر ہے کہ ۶۰۵ سے ۹۲ بقدر ۵۱۳ کے مقدم ہے۔ بے ہودہ معنی اور بے معنی بات واستغفراﷲ العظیم یہ وہ ہے جو شاعر صاحب نے سمجھا تھا اور اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محمد سے مراد مرتبہ رسالت حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم اجمعین ہو جس کا سر صرف ر ہے کہ رویت و روایت و ردیت درائے سب کا مبدا ہے اور انہار رسالت کی یہی منابع ہیں۔
اس کے عدد ۲۰۰ ہیں اور رسول ۳۱۳ کہ حقیقۃً سب ظلال رسالت محمدیہ علیہ صاحبہا افضل الصلوۃ والتحیۃ ہیں مجموع ۵۱۳ ہوا۔ رسل کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی سیرمن اﷲ الی الخلق ہے اور امت کی سیر من الرسل الی اﷲ جب تک رسولوں پر ایمان نہ لائے اﷲ عزوجل پر ایمان نہیں مل سکتا۔ پھر اس تک رسائی تو بے وساطت رسل محال ہے اور تصدیق سب رسولوں کی جزء ایمان ہے۔ لانفرق بین احد من رسلہ۱؂ ( ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے) برس کو عربی میں حول کہتے ہیں کہ تحویل سے مشعر ہے رسولوں کی بدلیاں بھی تحویل تھیں اور برس بمعنی بارش ہے ہر رسول کی رسالت بارش رحمت ہے یعنی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے آدم سے خاتم تک رائے رسالت میں یہ تین سو تیرہ تطور فرمائے تین سو تیرہ ابر رحمت برسائے جب تک ان سب کی تصدیق سے بہرہ ور ہو خدا تک رسائی ناممکن ہے واﷲ تعالٰی اعلم۔

(القرآن الکریم ۲ /۲۸۵)