مسئلہ ۱۳ تا ۲۰: مسئولہ حافظ میر عبدالجلیل صاحب مارہروی ۲۵صفرمظفر ۱۳۲۲ھ
الفاظ جمع مذکر سالم مانند خاسئین ، قانتون ، کٰرھین ، خیر الفاتحین وامثالھا
(۱ ) جن کو منشی اشرف علی نے اپنے مصحف میں محذوف الالف لکھا ہے اوراکثر جگہ حوالہ شمع قراء ت اور خلاصۃ الرسوم وغیرہ کا دیا ہے ۔ اورمولوی احمد علی سہارنپوری نے الفاظ موصوفہ کو باثبات الف اپنے مصحف میں لکھاہے بلکہ ایسے الفاظ قلیل الدور کی ایک فہرست اپنے مصحف کے ابتداء میں لکھ دی ہے کہ وہ باثبات الف ہیں۔ا ن کی بابت آپ کا حکم کیاہے ؟
(۲) لفظ ”کلام ”ملک العلام میں صرف چار جگہ ہے ، ایک جگہ سورہ بقرہ میں یسمعون کلٰم اللہ ۱ (اللہ کا کلام سنتے ہیں۔ت)
(۱القرآن الکریم ۲ /۷۵)
دوم سورہ اعراف میں : قال یا موسٰی انی اصطفیتک علی الناس برسٰلتی وبکلامی۲ ۔ فرمایا : اے موسٰی !میں نے تجھے لوگوں سے چن لیا اپنی رسالتوں اوراپنے کلام سے (ت)
(۲القرآن الکریم ۷ /۱۴۴)
سوم سورہ توبہ میں : فاجرہ حتی یسمع کلٰم اللہ۳ ۔ (تو اسے پناہ دو کہ اللہ کا کلام سنے ۔ ت)
(۳القرآن الکریم ۹ /۶)
چہارم سورۃ الفتح میں ہے : یریدون ان یبدلو ا کلام اللہ۱ ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا کلام بد ل دیں۔ (ت)
(۱القرآن الکریم ۴۸ /۱۵)
ان سب کو بعض مصاحف وکتب رسم الخط میں باثبات الف لکھا ہے اوربعض میں محذوف الالف اوربعض نے بعض کو مع الالف___________ اوربعض کو بغیر الف لکھا جاتاہے ۔ آپ کی ان کے باب میں کیا رائے ہے؟
(۳) لفظ قیام دو مقام پر سورہ نساء میں ، اوّلاً: ولا تؤتوالسفہاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیٰما۲۔ بے عقلوں کو انکے مال نہ دو جو تمہارے پا س ہیں جن کو اللہ نے تمہاری بسر اوقات کیا ہے ۔(ت)
(۲ القرآن الکریم ۴/ ۵)
دوم: فاذکروااللہ قیاماوقعود اوعلٰی جنوبکم۳۔ اللہ کی یاد کرو کھڑے بیٹھے اورکروٹوں پر لیٹے ۔ (ت)
(۳ القرآن الکریم ۴ /۱۰۳)
سوم سورۃ المائدہ میں : جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیٰماللناس۴۔ اللہ نے اد ب والے گھر کعبہ کو لوگوں کے قیام کا باعث کیا۔ (ت)
(۴ القرآن الکریم ۵ / ۹۷)
چہارم سورہ فرقان: والذین یبیتون لربھم سجداوقیاما۵۔ اوروہ جورات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لئے سجدے اورقیام میں۔(ت)
(۵ القرآن الکریم ۲۵ /۶۴)
پنجم سورہ زمر میں: ثم نفخ فیہ اخرٰی فاذا ھم قیام ینظرون ۶۔ پھر وہ دوبارہ پھونکا جائے گاجبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے ۔(ت)
(۶القرآن الکریم ۳۹ /۶۸)
ششم سورہ ذاریات میں : فماا ستطاعوا من قیام وما کانوا منتصرین۱۔ تووہ نہ کھڑے ہوسکے اورنہ وہ بدلہ لے سکتے تھے ۔ (ت)
(۱ القرآن الکریم ۵۱ /۴۵)
عام مصاحف میں یعنی مولوی احمد علی صاحب سہارنپوری اوران کے مقلدین نے سورہ نساء کے پہلے اور سورہ مائدہ والے کو بدوں الف لکھا ہے ۔ اورباقی سب جگہ مع الف۔ اوریہی رسالہ مرتع الغزلان سے ثابت ہے مگر منشی اشرف علی نے صرف آخر کے تینوں کو باثباتِ الف اوراول کے تینوں کو بدون الف لکھاہے ۔
(۴) للرجال نصیب مما ترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدان والاقربون مما قل منہ اوکثر۲۔ مردوں کےلئے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑگئے ماں باپ اور قرابت والے اورعورتوں کےلئے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑگئے ماں باپ اورقرابت والے ترکہ تھوڑا ہو یا بہت ۔(ت)
(۲القرآن الکریم ۴ /۷)
او ر لکل جعلنا موالی مما ترک الوالدان ۳الآیۃ۔ ہم نے سب کےلئے مال کے مستحق بنادیے ہیں جو کچھ چھوڑ جائیں ماں باپ۔(ت)
(۳القرآن الکریم ۴ /۳۳)
یہ سب مصاحف مروجہ ہندی میں الف اول موجود اورثانی مفقود ہے مگر مؤلف خلاصۃ الرسوم دونوں کا حذف فرماتے ہیں اوروالدین یا و نون سے سب جگہ مع الالف ہے ۔ (۵) لاتقربوا الصلوٰۃ وانتم سکٰرٰی۴۔ نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ۔ (ت)
(۴القرآن الکریم ۴ /۴۳)
سورہ حج میں : وتری الناس سکٰرٰی وما ھم بسکٰرٰی۵ ۔ اورتو لوگوں کو دیکھے گا جیسے نشہ میں ہیں اورنشہ میں نہ ہوں گے۔ (ت)
(۵القرآن الکریم ۲۲ /۲)
تینوں کو منشی اشرف علی اور مولوی ہادی علی صاحب نے اپنے مکتوب مصاحف میں محذوف الالف لکھا ہے ، اورعام مصاحف میں خاص سورہ نساء میں بدوں الف اورباقی دونوں کو مع الالف ، خلاصۃ الرسوم اوررسالہ نورِ سرمدی سے قول اول ثابت ہے مگر مرتع الغزلان میں لکھا ہے : ع
گیر از حج دوجا سکٰرٰی یاد۱ یعنی محذوفات میں دو کا ذکر کیا تیسرے سے کچھ تعرض نہ کیا۔
(۱مرتع الغزلان فی رسم الخط القرآن)
(۶) علامہ ابو عمرو الدانی ارشادکرتے ہیں: کذٰلک سؤۃ وسوءٰ تکم وسیئ وسیئت وبریؤن وھنیئا مریئا وبریئا وشبھہ۲۔ یعنی ان سب کا ہمزہ بدوں مرکز ہے لیکن کل مصاحف ہندی میں سواٰتکم وغیرہ الف سے مرقوم ہیں بالاتفاق کسی نے اس میں خلاف بھی بیان نہیں کیا۔
(۲التیسیر فی قواعد علم التفسیرللامام محمد بن سلمان )
(۷) ومن خزی یومئذ۳ ۔ سورہ ہود میں قراء ت مفتوح المیم کو کتاب تیسیر میں نافع اورابن عامر کے نام سے لکھاہے ،
(۳القرآن الکریم ۱۱/ ۶۶)
اورخلاصۃ الرسوم میں مرقوم ہے : بکسر میم ست بقراء ت غیر سوسی۴ سوسی کے غیر کی قراء ۃ میں میم کے کسرہ کے ساتھ ہے ۔(ت)
(۴ خلاصۃ الرسوم)
(۸) اعوذباللہ کے باب میں روایت کتاب تحفہ نذریہ مؤلفہ قاری عبدالرحمن پانی پتی یہ ہے کہ : اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم مختار جمیع قراء است ۵۔ اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم تمام قراء کا مختارہے ۔ (ت)
(۵تحفہ نذریہ )
آگے بیان کرتے ہیں کہ : اگرکسے لفظ دیگر درتعوّذ کفت آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ازاں لفظ منع فرمود۶۔ اگرکسی نے کوئی دوسرا لفظ تعوّذ میں کہا تو حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس لفظ سے منع فرمایا ہے ۔ (ت)
(۶تحفہ نذریہ)
پھر لکھتے ہیں : باوجود اس منع وتعلیم الفاظ دیگر ہم مروی شدہ اند، پس تلفظ تعوّذبآں الفاظ ہم جائز است اگرچہ مختار نیست ،انتہی عبارتہ بقدر ضرورت ۱۔ اس منع وتعلیم کے باوجود کچھ دوسرے الفاظ بھی مروی ہیں، چنانچہ ان الفاظ کے ساتھ بھی تعوذجائز ہے اگرچہ مختار نہیں ہے ۔ تحفہ نذریہ کی عبارت ختم ہوئی جس قدر ضرورت تھی۔ (ت)
(۱ تحفہ نذریہ)
اس کے باب میں آپ کا کیا حکم ہے ؟
الجواب
(۱) یہ علم سمع ہے نہ قیاس ۔ کلمات علمائے کرام سے دو ضابطے ملتے ہیں :
اول : مطردہ کہ ہر جمع مذکر سالم کثیر الدورمحذوف الالف ہے جبکہ اس الف پر مد نہ ہو۔
دوم : اکثری یہ کہ الف پرمد ہویعنی اس کے بعد ہمزہ یا حرف مشدد آئے تو ثابت الالف ہے مگر ذوات الہمزہ میں حذف بھی بکثرت پایاگیا ہے ۔ اورجمع مونث سالم تو مطلق محذوف الالف والالفین ہے اگرچہ قلیل الدور ہو، اگرچہ الف ممدود ہومگر گنتی کے حروف جیسے سورہ شورٰی میں روضٰت الجنّٰت ، یونس میں اٰیاتنا بیّنٰت ، اسی میں مکر فی اٰیاتنا ، حٰم سجدہ میں سمٰوٰت ، فاطر میں علٰی بینات علی الخلاف الٰی غیر ذلک من حروف قلائل ۔ امام عمرو دانی رحمۃ اللہ علیہ مقنع میں فرماتے ہیں : اتفقوا علی حذف الالف من جمع السالم الکثیر الدور من المذکر والمونث جمیعا الصٰبرین والصٰدقین والقٰنتین والشیٰطین والظٰلمون والسٰحرون والطیبٰت والخیبثٰت والمتصدقٰت والثیبٰت والغرفٰت وماکان مثلہ ۔ فان جاء بعد الالف ھمزۃ او حرف مضعف نحو السائلین والقائمین والظانین والعادین وحافین وشبھہ اثبت الالف علی انی تتبعت مصاحف اھل المدینۃ واھل العراق القدیمۃ فوجد ت فیھا مواضع کثیرۃ مما بعد الالف فیہ ھمزۃ قد حذف الالف منھا واکثر ماوجدتہ فی جمع المونث لثقلہ والاثبات فی المذکر اکثر قال ابوعمرو ما اجتمع فیہ الفان من جمع المونث السالم فان الرسم فی اکثر المصاحف بحذفھا جمیعا سواء کان بعد الالف حرف مضعف اوھمزۃ نحو الحٰفظٰت والصٰدقٰت والنٰزعٰت والصٰفّٰت والعٰدیٰت والصّٰئمٰت وغیٰبٰت وسٰئحٰت وشبھہ قد امعنت النظر فی ذٰلک فی مصاحف اھل العراق اھلیۃ اذ عدمت النص فی ذٰلک فلم ارھا مختلف فی حذف ذٰلک ۔ وقال محمد بن عیسٰی اصفھانی فی کتابہ ھجاء المصاحف قوم طاغون و والذاریٰت والطور وفی روضات الجنّٰت فی عسق مرسومہ بالالف ۔ وقال ابو عمر وکذا رأیتھا انا فی مصاحف اھل العراق ورأیت فی بعضھا کراماً کاتبین بالالف فی بعضھا بغیر الالف ۱۔ اھ مختصرًا۔
تمام لوگوں نے جمع مذکر ومونث سالم کثیر الدور سے الف کے حذف کرنے پر اتفاق کیا، جیسے صٰبرین، صٰدقین ، قٰنتین، شیٰطین، ظالمون، سٰحرون، طیبٰت، خبیثٰت ، متصدقٰت ، ثیبٰت، تئبٰت،غرفٰت اور جو اس کے مثل ہواورالف کے بعد ہمزہ یا حرف مشدد آئے جیسے سائلین ، قائلین، ظانین، عادین ،حافین اوراس کے مشابہ ۔ مگر میں نے اہل مدینہ اوراہل عراق کے قدیم مصاحف کا تتبع کیا تو بہت سے مقاما ت پر جہاں الف کے بعد ہمزہ تھا وہاں سے بھی الف حذف کردیا ہے اورایسا اکثر جمع مونث میں اس کے ثقل کی وجہ سے ہوا ہے ۔ اورمذکر میں زیادہ طور پر الف کا اثبات ہے ۔امام ابو عمر وفرماتے ہیں جہاں جمع مونث سالم میں دوالف جمع ہوجائیں وہاں عام طور سے دونوں الف کو حذف کردیتے ہیں۔ اس کے بعد ہمزہ اورحرف مشدد ہویا نہ ہو ، جیسے حٰفظٰت ، صٰدقٰت ، نٰزعٰت ، صٰفّٰت ، عٰدیٰت، صٰئمٰت ، غیٰبٰت ، سٰئحٰت اوراس کے اشباہ ۔ میں نے اہل عراق کے اصل مصاحف میں غور سے دیکھا جہاں مجھے کوئی تصریح نہ ملی تو ہرجگہ انہیں کو محذوف پایا۔
محمد بن عیسی اصفہانی اپنی کتاب ”ہجاء المصاحف”میں فرماتے ہیں کچھ ذار یات اورطور میں طاغون کو اورروضات الجنّٰت الف سے لکھتے ہیں ۔
ابو عمرو فرماتے ہیں مصاحف اہل عراق میں کراماً کاتبین کو الف اور بغیر الف دونوں طرح تحریر پایا۔ انتہی مختصرا۔
(۱المقنع فی رسم المصحف لعثمان بن سعید )
اس کے سوا جمع مذکر سالم قلیل الدور عدیم المد کے لئے کوئی ضابطہ نہیں اور خاص خاص الفاظ میں اختلاف مصاحف ثابت ۔
مقطع میں ہے : فی بعضھا فارھین وفی بعضھا فرھین بغیر الف وکذٰلک حاذرون وحٰذرون۲۔ بعض مصاحف میں فارھین باالف اوربعض بغیر الف ۔ اسی طرح حاذرون بھی دونوں طرح تحریر پایاگیا۔
(۲ المقطع فی رسم المصحف )
اسی طرح دخان وطور ومطففین فاکھین اورلیس کے فاکھون سب کو فرمایا کہ فی بعضھا بالف وفی بعضھا بغیر الف تو مطلقاً ایک حکم کلی اثبات خواہ حذف کا لگا دینا ہرگز صحیح نہیں، بلکہ ہر کلمہ میں رجوع بنقل پھر بحالت اتفاق اس کا اتباع لازم ، اوربحالت اختلاف اکثرواشہر کی تقلید کی جائے اورتساوی ہوتو حذف واثبات میں اختیار ہے ۔اوراحسن یہ کہ جہاں اختلاف قراء ت بھی ہو جیسے فٰکھین اورفاکھین وہاں حذف معمول بہ رکھیں لیحتمل القراءتین ۔ اوراگر نقل اصلاً نہ ملے تو ناچار رجوع بہ اصل ضرور ، اوروہ اثبات ہے کہ اصل کتابت میں اتباع ہجاء ہے ۔
علامہ علم الدین سخاوی شرح عقلیہ میں زیر قول مصنف قدس سرہ ع وبالذی غافر عن بعضہ الف فرماتے ہیں : اصل ماجھل اصلہ ان یکتب بالالف علی ماینطق۳ ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔ جس کی اصل نہ معلوم ہو تو قاعدہ یہ ہے کہ جس طرح باالف پڑھا جاتا ہے اسی طرح لکھا جائے ۔
(۳شرح عقلیہ) الوسیلۃ فی کشف العقیلہ)
(۲) امام الاقاصی والادانی فی الرسم القرآنی ابو عمرو دانی فرماتے ہیں: قال الغازی بن قیس العذاب والعقاب والحساب والبیان والغفار والجبار والساعۃ والنھار بالالف یعنی فی المصاحف وذٰلک علی اللفظ قال ابو عمرو کذٰلک رسمواکل ماکان علی وزن فعال وفعال بفتح الفاء وکسرھا وعلی وزن فاعل نحو ظالم وفعال نحو خوار وفعلان نحوبنیان وفعلان نحو رضوان وکذٰلک المیعاد والمیقات والمیزان وما اشبھہ مما الفہ زائد البناء وکذٰلک ان کانت منقلبۃ من یاء او واؤحیث وقعت ۱ اھ باختصار الامثلۃ۔ غازی بن قیس فرماتے ہیں کہ عذاب ، عقاب، حساب ، بیان ، غفار، جبار، ساعۃ ، نہار مصاحف میں الف کے ساتھ مرقوم ہے ۔ جیسا کہ لفظ ہے ۔ ابو عمرو فرماتے ہیں یونہی تحریر کیا ہر وہ لحظہ جو فعال اور فِعال کے وزن پر ہویا فاعل کے وزن پر ہو جیسے ظالم یا فعال کے وزن پر ہو جیسے خوار اورفعلان کے وزن پر ہو جیسے بنیان اور فعلان کے وزن پر ہوجیسے رضوان ، اورایسے ہی میعاد ، میقات ، میزان اوراس کے مشابہ الفاظ جس میں الف زائد بناء کے لیے ہو۔ ایسے ہی یا اورواو سے بدلاہوا بھی جہاں کہیں ہو مثالوں میں اختصار کردیاہے ۔
(۱ المقنع فی رسم المصحف)
یہ مبارک کلام مفید عام کل سے ابتداء اورحیث وقعت پر انتہاہوکر تاکید الافادہ عموم لایا، اگرچہ بحکم: ما من عام الاوقد خص منہ البعض حتی ھذہ القضیۃ لنفسھا بمثل قولہ سبحٰنہ وھو بکل شیئ علیم۲۔
کوئی عام نہیں کہ اس سے بعض کی تخصیص نہ ہو خاص اس قضیہ میں بھی اللہ تعالٰی کے قول ھو بکل شیئ علیم کی طرح جیسا کہ عقل سلیم پر ظاہر ہے ۔
(۲القرآن الکریم ۲ /۲۹)
بعض مستثنیات رکھتاہے ، جنہیں خود امام ممدوح نے مقنع میں مواضع متفرقہ پر افادہ فرمایا ہے ، مثل عٰلم الغیب ولبلٰغ وبلغاوالضلٰل ومن خلٰلہ وظلٰلہ وغیرھا۳ ۔
(۳ المقنع فی رسم المصحف)
ولہذا ”مرتع الغزلان فی رسم خط القرآن” میں فرمایا: ع وزن فعال وفاعل وفعلان
ھم فعال وفعال وھم فعلان
نیز فعلان ومفعل وفعال
ھم فعال ومفاعل وافعال
ھم مفاعیل ومفاعل وافعال
بافعالی فواعل وفعال
جملگی فعلہا ومصدرہا
الف منقلب ز واؤ و زیا
ہمہ گی ثابت است درہمہ جا
جزحروفے کہ گشتہ مستثنٰی ۱
فعال اورفاعل اورفعلان کا وزن ____فعال اورفعال اورفعلان کا وزن _____فُعلان اورمفعل اورفعّال بھی
فُعال اورمفاعل اورافعال بھی ____ مفاعیل اورمفعل اورمفعال بھی____ فعالٰی فواعل اورفِعّال
اورافعال اورتمام مصادر____ جن کا الف واؤ سے بدلا ہو یا یا ء سے بدلاہوا ____تمام مقامات میں ایسا الف باقی اورثابت رہے گا البتہ چند حروف اس قاعدہ سے مستثنٰی ہیں۔
(۱ مرتع الغزلان فی رسم خط القرآن)
مگرشک نہیں کہ وہ ہمیں ایک ضابطہ نافعہ بتاتا ہے کہ مستثنیات کے سوا ایسے سب کلمے ثابتات الالف ہیں ۔تو جب تک بالخصوص نقل معتمد سے خلاف ثابت نہ ہو ثابت ہی رکھیں گے کہ وہی اصل اور خود اصل رسم میں اصل ۔ خلاصۃ الرسوم سے بکلمی اور یبدلوا کلم اللہ بالحذف مترشح ہے ۔اخیر کی وجہ ظاہر ہے کہ امام حمزہ وامام کسائی نے یہاں کَلِم بر وزن کَنِفْ پڑھا ہے مگر کلامی میں مثل دو باقی فقیر کے نزدیک اثبات ارجح ہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(۳) یہ کلمہ سات جگہ آیا ہے ، سب سے پہلے سورہ آل عمران میں :
لایٰت لاولی الالبابo الذین یذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم ۲۔ نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لیے جو اللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اوربیٹھے اورکروٹوں پر لیٹے ۔(ت)
(۲ القرآن الکریم ۳ /۱۹۰ و ۱۹۱)
عام مصاحف میں یہاں بھی مع الالف ہے ۔ صاحب خلاصۃ الرسوم علامہ عثمان طالقانی رحمۃ اللہ علیہ نے صرف مائدہ کو ذکر کیا کہ : قیٰماً بحذف الف مرسوم است از جہت اشتمال برہردو قراء ت یا بنام اختصار۳۔ قیٰماً الف کے حذف کے ساتھ لکھا گیا ہے ، دونوں قراء ت پر مشتمل ہونے کی وجہ سے یا اختصار کیلئے ۔(ت)
(۳ خلاصۃ الرسوم )
اورحرف اول نساء کو اگرچہ لفظاًنہ بتایا مگر رسماً بحذف لکھا جس سے ظاہر باقی پانچ میں اثبات ہے اوریہی قول مرتع ع قیٰماً و ز ابتداء نساء ع آخر مائدہ قیٰماً داں۱ کا مفاد ہے ۔
(۱مرتع الغزلان فی رسم خط القرآن )
اوراس کی وجہ واضح ہے کہ امام نافع اورامام اجل ابن عامر نے حرف نساء جعل اللہ لکم قیٰما۲اورابن عامر نے حرف مائدہ قیٰماللناس۳ کو بے الف پڑھا فی التیسیر ، باقی سب میں اثباتِ الف ہے باتفاق قراء سبعہ والرسم یتبع اللفظ لاسیما وھو فعّال کما مر ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(۲ القرآن الکریم ۴/ ۵) (۳ القرآن الکریم ۵ /۹۷)
شرح میں ہے : امر بفتح المیم فی قولہ تعالٰی ومن خزی یومئذ ومن عذاب یومئذ ببنیہ فی المعارج المشار الیھما بالھمزۃ والراء فی قولہ اتی رضا وھما نافع والکسائی ۔ ثم اخبر ان المشارالیھم بحصن وھم الکوفیون ونافع قرأوا بالنمل وھم من فزع یومئذ یومئذ فتعین لمن لم یذکرہ فی الترجمتین القراء ۃ بکسر اما اصلہ وھو علی الحقیقۃ الخفض فی المواضع۱ ۔الخ اللہ تعالٰی کے قول من خزی یومئذ او رمن عذاب یومئذ ببینہ میں جو سورہ معارج میں ہے میم کے فتحہ کا حکم دیا اورہمزہ اور راء سے مصنف کے قول ”اتی رضا ”میں نافع اورکسائی کی طرف اشارہ ہے ۔ پھر یہ بتایا کہ لفظ حصن سے کوفیوں اورنافع کی طرف اشارہ ہے ۔ ان لوگوں نے سورہ نمل کے من فزع یومئذ کو یومئذ پڑھا۔ تو یہ ثابت ہوگئی کہ دونوں ترجموں میں جن لوگوں کا ذکر نہیں ہے وہ اصل حقیقی پر تینوں جگہ مکسور پڑھتے ہیں ۔
(۱ سراج القاری لعلی بن عثمان المعروف بابن القاصع )
غیث النفع میں ہے : خزی یومئذ قرأنا فع وعلی بفتح المیم والباقون بالکسر۲۔ خزی یومئذ کو نافع اور علی نے بفتح میم اورباقی قراء نے بالکسر پڑھا۔
(۲ غیث النفع )
بعینہ اسی طرح اس کی سورۃ سأل میں ہے ان اجلہ اکابر کی تصریحات جلیلہ پر اعتماد لازم ہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(۸) تعوذ میں یہ صیغہ مختار قراء کرام ہونا ضرور صحیح ہے ، امام ابو عمر ودانی تیسیر میں فرماتے ہیں: المستعمل عند القراء الحذاق من اھل الاداء فی لفظھا اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم دون غیرہ وذٰلک لموافقۃ الکتاب والسنۃ فاما الکتاب ماجاء فی تنزیل العظیم قولہ عزوجل لنبیہ الکریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وھو اصدق القائلین ”فاذا قرأت القراٰن فاستعذ باللہ من الشیطٰن الرجیم ”واما السنۃ فما رواہ نافع ابن جبیر ابن مطعم عن ابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہما عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انہ استعاذ قبل قرأۃ القراٰن بھٰذا اللفظ بعینہ وبذٰلک قرأت وبہ اٰخذ۱۔ ادائے قرآن میں ماہر قاریوں میں استعاذہ کیلئے یہی الفاظ مستعمل ہیں اورنہیں ، وجہ یہ ہے کہ یہ الفاظ قرآن وحدیث نبوی کے موافق ہیں، اللہ تعالٰی قرآن عظیم میں فرماتاہے ، جب قرآن پڑھنا ہو تو اعوذباللہ من الشیطان الرجیم پڑھو۔ اورحضرت نافع ابن جبیر ابن مطعم اپنے والد سے وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تلاوت قرآن پاک سے قبل خاص انہیں الفاظ میں اعوذباللہ پڑھتے ۔ یہ حدیث سے ثبوت ہوا۔ امام ابو عمرو فرماتے ہیں میں ایسا ہی پڑھتاہوں اوریہی میرا مذہب ہے ۔
(۱ التیسیر فی قواعد علم التفسیر للامام محمد بن سلیمان )
غیث النفع میں ہے : اما صیغتھا فالمختار عند جمیع القراء اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم وکلھم یجیز غیر ھذہ الصیغۃ من الصیغ الوارد ۃ نحو اعوذباللہ السمیع العلیم من الشیطٰن الرجیم واعوذباللہ العظیم من الشیطٰن الرجیم واعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم انہ ھو السمیع العلیم واعوذباللہ السمیع العلیم من الشیطٰن الرجیم۲۔ صیغہ استعاذہ کے لیے تمام قاریوں کا مختار اورپسندیدہ لفظ اعوذباللہ من الشیطان الرجیم ہے ، اس کے باوجود ان دوسروے صیغوں کو بھی سبھی جائز قرار دیتے ہیں جو اس باب میں وارد ہیں جیسے اعوذباللہ السمیع العلیم من الشیطٰن الرجیم وغیرہ ۔الخ
(۲ غیث النفع )
حرز الامانی امام محمد قاسم شاطبی قدس سرہ میں ہے : ؎
اذاماارادت الدھر تقرأفاستعذ جھارا من الشیطٰن باللہ مسجلا
علی مااتی فی النحل یسراً وان تزد لربک تنزیھا فلست مجھلا۳ زمانہ میں جب بھی قرآن شریف پڑھنا چاہو تو اعوذباللہ علی الاعلان پڑھو ، یہ سب قاریوں کا مسلک ہے ۔جیسا کہ سورہ نحل شریف میں وارد جو آسان ہے اور اگر اللہ تعالٰی کی کچھ تنزیہات بھی بڑھا دوتوتم جاہل نہ ہوگے ۔
(۳ حزرالامانی ووجہ التہانی باب الاستعاذہ مصطفی البابی مصر ص۱۰)
سراج القاری میں ہے : قولہ مسجّلا ای مطلقا لجمیع القراء فی جمیع القراٰن (علی ما اتی فی النحل )ای استعذ علی اللفظ الذی نزل فی سورۃ النحل جاعلا مکان استعذ اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم ومعنی یسراً ای مسیراً وتیسرہ قلۃ کلماتہ وزیادۃ التنزیہ ان تقول اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم انہ ھو السمیع العلیم ، واعوذباللہ السمیع العلیم من الشیطٰن الرجیم ونحو ذٰلک وقولہ فلست مجھلا ای لست منسوبا الی الجھل لان ذٰلک کلہ صواب ومروی ۱۔ ماتن کا قول مسجلا کا مطلب یہ ہے کہ تمام قراء قرآن کی قراء ت میں ہرجگہ اسی کو راجح قرار دیتے ہیں ۔ علی مااتی فی النحل کا مطلب یہ ہے کہ سورہ نحل شریف میں استعاذہ کے جو الفاظ وارد ہیں انہیں پڑھو ، اوریسراً کے معنی یہ ہیں کہ چونکہ اس استعاذہ میں کلمات کم ہیں اس لئے ان کا پڑھنا آسان ہے اورتنزیہ کے اضافہ کا مطلب یہ ہے کہ اورروایتوں میں جوسمیع العلیم وغیرہ تعریف الہٰی کے کلمات وارد ہیں ان کا اضافہ کروفلست مجھلاکا مطلب یہ کہ ایسا کرنے پر تم جاہل نہ قرار نہ دیے جاؤگے کیونکہ وہ زائد کلمات بھی درست اورمروی ہیں۔
(۱ سراج القاری لعلی بن عثمان المعروف بابن القاصع)
مگر دیگرالفاظ مرویہ سے بھی منع ہرگز نہیں ۔ وہ سب بھی باجماع قراء جائز ہیں۔ غیث وشاطبیہ وشروح کی عبارات ابھی گزریں۔ امام جلال الدین سیوطی اتقان میں فرماتے ہیں : قال الحلوا نی فی جامعہ لیس للاستعاذۃ حدینتھی الیہ ، من شاء زاد ومن شاء نقص۲۔ حلوانی نے اپنی جامع میں لکھا کہ استعاذہ کی کوئی حد نہیں ہے کہ اسی پر بس ہے ۔ تو جو چاہے اضافہ کرے اورجو چاہے کم کرے۔
(۲ الاتقان فی علوم القرآن النوع الخامس والثلاثون داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۳۴۱)
حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دیگر الفاظ سے منع فرمانا ہرگز ثابت نہ ہوا ، اوراگر ثابت ہوجاتا تو کیا معنٰی تھے کہ بعد منع اقدس پھر بھی دیگر الفاظ جائز رہتے ۔ قاری صاحب نے یہاں عجیب بین المتنافیین کیا ہے اورالفاظ سے منع فرمانا بالجزم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا،حالانکہ وہ حدیث ضعیف ہے اورضعیف کی بہ صیغہ جزم نسبت روا نہیں ۔ پھران الفاظ کو بھی جائز رکھا حالانکہ بعد ممانعت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جواز کی طرف راہ اصلاً نہیں ، بلکہ جواز وہی ہے کہ منع ثابت نہ ہو ۔ امام شاطبی بعد کلام مذکور فرماتے ہیں : وقد ذکروا لفظ الرسول فلم یزد ولو صح ھذا النقل لم یبق مجملا۱۔ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے الفاظ میں استعاذہ میں اضافہ نہیں ہے ، اگریہ روایت صحیح ہوتی تو حکم قرآنی مجمل نہ ہوتا۔
(۱ حرزالامانی ووجہ التہانی باب الاستعاذہ مصطفی البابی مصر ص۱۰)
شرح علامہ ابن قاصع میں ہے : اشارالی قول ابن مسعود رضی ا للہ تعالی عنہ قرأت علی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فقلت اعوذباللہ السمیع العلیم من الشیطٰن الرجیم فقال لی قل یا ابن ام عبد اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم وروی نافع عن ابن جبیر ابن مطعم عن ابیہ رضی اللہ تعالی عنہما عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انہ کان یقول قبل القراء ۃ اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم وکلا الحدیثین ضعیف واشاربقولہ ولو صح ھذاالنقل الی عدم صحۃ الحدیثین وقولہ لم یبق مجملا ای لو صح نقل ترک الزیادۃ لذھب اجمال الاٰیۃ واتضح معنا ھا وتعین لفظ النحل دون غیرہ ولکنہ لم یصح فبقی اللفظ مجملا ومع ذٰلک فالمختار ان یقال اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم لموا فقۃ لفظ الاٰیۃ وان کان مجملا لورودالحدیث بہ علی الجملۃ وان لم یصح لاحتمال الصحۃ ۱ ۔واللہ سبحنہ وتعالٰی اعلم مصنف نے اپنے قول سے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اسی حدیث کی طرف اشارہ کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حضور تلاوت کی تو اعوذباللہ السمیع العلیم من الشطٰن الرجیم کہا تو مجھ سے آپ نے فرمایا : اے ام عبد کے لڑکے !صرف اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم کہو، اورنافع نے جبیر ابن مطعم سے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تلاوت سے قبل اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھتے تھے اوریہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں ۔ اورمصنف نے اپنے قول ولو صح ھذا النقل سے دونوں ہی حدیثوں کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے اور مصنف کے قول ”مجمل نہ رہتی” کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ روایت صحیح ہوتی کہ زیادتی کو ترک کیا تو آیت قرآنی کا اجمال ختم ہوجاتااور اس کے معنی واضح ہوجاتے اور سورہ نحل میں وارد الفاظ ہی متعین ہوجاتے لیکن جب حدیث صحیح نہیں توآیت مجمل ہی رہی ۔ اس کے باوجود راجح اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم ہی ہے کیونکہ یہ قرآنی الفاظ کے موافق بھی ہے اورحدیث بھی ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے ، تو اگرروایت صحیح ثابت نہ ہو احتمال صحت تو ہے ۔
(۱شرح الشاطبیۃ سراج القاری للعلامۃ لعلی بن عثمان المعروف بابن القاصع)
فتاوی رضویہ