مسئلہ ۱۲: مسئولہ مولوی علی احمد صاحب مصنف تہذیب الصبیان ۱۵ جمادی الاولٰی ۱۳۱۴ھ
کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ فرائض غسل جنابت جو تین ہیں ان میں مضمضہ واستنشاق واسا لۃ الماء علی کل البدن سے کیسا مضمضہ واستنشاق واسا لہ ماء مراد ہے، بینوا توجروا(بیان فرمائیے اجر پائیے۔ت)
الجواب
مضمضہ:سارے دہن کامع اس کے ہر گوشے پر زے کنج کے حلق کی حد تک دھلنا درمختارمیں ہے: فرض الغسل غسل کل فمہ ۱؎
(غسل میں پورے منہ کو دھونافرض ہے۔( ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۸)
ردالمحتارمیں ہے: عبر عن المضمضۃ بالغسل لافادۃ الاستیعاب اھ۱؎ ۔
مضمضہ کی تعبیر غسل(دھونے) سے کی تاکہ احاطہ کرلینے کا افا دہ ہو۔اھ(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارت داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۰۲)
وفی افادتہ بنفس لفظ الغسل کلام قدمہ فی الوضوء والصحیح ان مفیدہ لفظ کل۔
صرف لفظ غسل سے احاطہ کاافادہ ہونے میں کلام ہے جو خود علامہ شامی وضو کے بیان میں ذکرکرچکے ہیں۔ اورصحیح یہ ہے کہ احاطہ کاافادہ لفظ”کل ”سے ہو رہا ہے۔
اقول:وعلی فـــ التسلیم فلیست دلالتہ علی الاستیعاب ظاھرۃ کدلالۃ کل فلا یرد ما قال ش لکن علی الاول لاحاجۃ الی زیادۃ کل ۲؎۔
اقول اگر یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ لفظ غَسل (دھونا)احاطہ کوبتارہا ہے تو بھی احاطہ پر اس کی دلالت واضح نہیں جیسے اس معنی پرلفظ کل کی دلالت واضح ہے ۔تو وہ اعتراض نہ وارد ہوگا جو علامہ شامی نے کیا، کہ بر تقدیر اول ‘لفظِ کل بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔(ت)
فـــ: معروضہ علی العلامۃ ش۔
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارت داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۰۲)
اسی میں بحرالرائق سے ہے: المضمضۃ اصطلاحا استیعاب الماء جمیع الفم ۳؎۔ اصطلاح میں مضمضہ یہ ہے کہ پانی پورے منہ کا احاطہ کرے ۔(ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الطہارت داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۷۸)
اور ہم نے دھلنا کہا دھونا نہ کہا اس لئے کہ طہارت میں کچھ اپنا فعل یا قصد شرط نہیں پانی گزرنا چاہئے جس طرح ہو۔
اقول: وبہ ظھر ان عبارۃ البحر احسن من عبارۃ الدرالا ان یجعل الغسل مبنیا للمفعول ای مغسولیۃ کل فمہ۔
اقول اور اسی سے ظاہر ہوا کہ عبارتِ بحر عبارتِ درمختار سے بہتر ہے مگر یہ کہ عبارتِ در میں لفظِ غَسل کو مصدر مجہول مانا جائے یعنی پورے منہ کا دُھل جانا۔(ت)
آج کل بہت بے علم اس مضمضہ کے معنی صرف کُلّی کے سمجھتے ہیں ،کچھ پانی منہ میں لے کر اُگل دیتے ہیں کہ زبان کی جڑ اور حلق کے کنارہ تک نہیں پہنچتا،یوں غسل نہیں اُترتا،نہ اس غسل سے نماز ہوسکے نہ مسجد میں جاناجائزہوبلکہ فرض ہے کہ داڑھوں کے پیچھے گالوں کی تہ میں دانتوں کی جڑ میں دانتوں کی کھڑکیوں میں حلق کے کنارے تک ہرپرزے پر پانی بہے یہاں تک کہ اگر کوئی سخت فـــ۱ چیز کہ پانی کے بہنے کو روکے گی دانتوں کی جڑ یا کھڑکیوں وغیرہ میں حائل ہو تو لازم ہے کہ اُسے جُداکرکے کُلّی کرے ورنہ غسل نہ ہوگا،ہاں اگر اُس کے جُدا فـــ۲ کرنے میں حرج و ضرر و اذیت ہو جس طرح پانوں کی کثرت سے جڑوں میں چونا جم کر متحجرہوجاتا ہے کہ جب تک زیادہ ہوکر آپ ہی جگہ نہ چھوڑ دے چھڑانے کے قابل نہیں ہو تا یاعورتوں کے دانتوں میں مسی کی ریخیں جم جاتی ہیں کہ ان کے چھیلنے میں دانتوں یا مسوڑھوں کی مضرت کا اندیشہ ہے تو جب تک یہ حالت رہے گی اس قدر کی معافی ہوگی فان الحرج مدفوع بالنص(اس لیےکہ نص سے ثابت ہے کہ جہاں حرج ہواسے دفع کیاجائے ۔ت)
فـــ۱:مسئلہ دانتوں کی جڑ یاکھڑکی میں سخت چیز جمی ہوتوچھڑا کرکلی کرنالازم ورنہ غسل نہ اترے گا۔
فـــ۲:مسئلہ چونایامسی کی ریخیں جن کے چھڑانے میں ضرر ہومعاف ہیں ۔
درمختار میں ہے : لایمنع طعام بین اسنانہ اوفی سنہ المجوف بہ یفتی وقیل ان صلبا منع وھو الاصح ۱؎۔
کھانے کا ٹکڑا جو دانتوں کے درمیان یا خول دار دانت کے اندر ہو وہ مانع نہیں، اسی پر فتوٰی ہے۔ اور کہا گیاکہ اگر سخت ہو تو مانع ہے اور یہی اصح ہے۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۹)
ردالمحتار میں ہے: قولہ بہ یفتی صرح بہ فی الخلاصۃ وقال لان الماء شیئ لطیف یصل تحتہ غالبا اھ ویرد علیہ ماقدمناہ اٰنفا (ای ان مجرد الوصول غیرکاف بل الواجب الاسالۃ والتقاطر) ومفادہ ای مفاد مافی الخلاصۃ عدم الجواز اذ اعلم انہ لم یصل الماء تحتہ(ای لان غلبۃ الوقوع لاتعارض العلم بعدم الوقوع) قال فی الحلیۃ وھواثبت قولہ وھو الاصح صرح بہ فی شرح المنیۃ وقال لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورۃ والحرج اھ ولایخفی ان ھذا التصحیح لاینافی ماقبلہ ۱؎ اھ ملخصا مزیدا ما مابین الاھلۃ۔
عبارتِ شارح ”اسی پر فتوٰی ہے ”خلاصہ میں اس کی تصریح ہے،اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ : وجہ یہ ہے کہ پانی لطیف شے ہے غالب یہی ہے کہ اس کے نیچے پہنچ جائے گا اھ۔اس پر وہ اعتراض وارد ہوگا جو ابھی ہم نے ذکر کیا( یعنی یہ کہ محض پہنچناکافی نہیں ، بلکہ بہانا اور قطرے ٹپکنا واجب ہے) اور اس کا مفاد( یعنی کلامِ خلاصہ کا مفاد) یہ ہے کہ اگر معلوم ہوجائے کہ نیچے پانی نہ پہنچا تو جواز نہ ہوگا(یعنی اس لئے کہ جب یقین ہو کہ اس خاص حالت میں وقوع نہ ہواہو تواکثر حالات میں واقع ہونااس کے معارض نہیں ہوسکتا)حلیہ میں کہا :یہ اثبت ہے۔ عبارت شارح”یہی اصح ہے ”اس کی تصریح شرح منیہ میں کی۔اور یہ بھی لکھا کہ وجہ یہ ہے کہ سخت ہونے کی صورت میں پانی نفوذ نہ کرسکے گااور ضرورت و حرج کی صورت بھی نہیں اھ ۔ مخفی نہیں کہ یہ تصحیح اگلی تصحیح کے منافی نہیں۔ رد المحتار کی عبارت ہلالین کے درمیان ہمارے اضافوں کے ساتھ ختم ہوئی ۔
(۱؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۰۴)
بالجملہ غسل میں ان احتیاطوں سے روزہ دار کوبھی چارہ نہیں ہاں غرغرہ فــــــــــ اسے نہ چاہئے کہ کہیں پانی حلق سے نیچے نہ اتر جائے غیر روزہ دار کے لیےغرغرہ سنت ہے ۔
فـــ:مسئلہ:وضو و غسل میں غرغرہ سنت ہے مگرروزہ دار کو مکروہ ۔
درمختار میں ہے: سنتہ المبالغۃ بالغرغرۃ لغیر الصائم لاحتمال الفساد ۲؎۔
وضو و غسل میں غرغر ہ کر کے مبالغہ سنت ہے اس کے لئے جو روزہ دار نہ ہو ، روزہ دار کے لئے نہیں کیونکہ اس میں روزہ جانے کا احتمال ہے۔(ت)
(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارت مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۱)
اسی کے بیان غسل میں ہے : سننہ کسنن الوضوء سوی الترتیب ۱؎ الخ غسل کی سنتیں وضوکی سنتوں کی طرح ہیں بجز ترتیب کے الخ ۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۹)
استنشاق:ناک کے دونوں نتھنوں میں جہاں تک نرم جگہ ہے یعنی سخت ہڈی کے شروع تک دھلنا۔ردالمحتارمیں بحرالرائق سے ہے : الاستنشاق اصطلاحا ایصال الماء الی المارن،ولغۃ من النشق وھو جذب الماء ونحوہ بریح الانف الی داخلہ۲؎۔
اصطلاح میں استنشاق کا معنی ناک کے نرم حصہ تک پانی پہنچانا۔اور لغت میں یہ لفظ نشق سے لیاگیا ہے جس کامعنی پانی اور اس جیسی چیز کو سانس کے ذریعہ ناک کے اندر کھینچنا۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۷۸و۷۹ )
اُسی میں قاموس سے ہے: المارن مالان من الانف۳ ؎ مارن ناک کا وہ حصہ ہے جو نرم ہے(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۷۹)
اور یہ یونہی ہوسکے گا کہ پانی لے کر سونگھے اور اوپر کو چڑھائے کہ وہاں تک پہنچ جائے لوگ اس کابالکل خیال نہیں کرتے اوپر ہی اوپر پانی ڈالتے ہیں کہ ناک کے سرے کو چھو کر گرجاتا ہے بانسے میں جتنی جگہ نرم ہے اس سب کو دھونا تو بڑی بات ہے ظاھر ہے کہ پانی کا بالطبع میل نیچے کوہے اوپربے چڑھائے ہرگزنہ چڑھے گاافسوس کہ عوام توعوام بعض پڑھے لکھے بھی اس بلامیں گرفتار ہیں۔ کاش استنشاق کے لغوی ہی معنی پر نظر کرتے تو اس آفت میں نہ پڑتے استنشاق سانس کے ذریعہ سے کوئی چیز ناک کے اندر چڑھاناہے نہ کہ ناک کے کنارہ کو چھو جانا وضوفــــــــ میں تو خیر اس کے ترک کی عادت ڈالے سے سنت چھوڑنے ہی کاگناہ ہوگاکہ مضمضہ واستنشاق بمعنی مذکور دونوں وضو میں سنتِ مؤکدہ ہیں کمافی الدرالمختار(جیساکہ درمختار میں ہے ۔ت)،اور سنت فـــ۱ مؤکدہ کے ایک آدھ بار ترک سے اگرچہ گناہ نہ ہو عتاب ہی کااستحقاق ہو مگربارہا ترک سے بلاشبہ گناہگار ہوتا ہے کمافی ردالمحتار وغیرہ من الاسفار(جیساکہ معتبرکتاب ردالمحتاروغیرہ میں ہے۔ت) تاہم وضو ہوجاتا ہے اور غسل تو ہرگز اُترے ہی گانہیں جب تک سارامنہ حلق کی حدتک اور سارا نرم بانسہ سخت ہڈی کے کنارہ تک پورا نہ دھل جائے یہاں تک کہ علماء فرماتے ہیں کہ اگر ناک فــــ۲کے اندر کثافت جمی ہے تو لازم کہ پہلے اسے صاف کرلے ورنہ اس کے نیچے پانی نے عبور نہ کیا توغسل نہ ہوگا۔
فـــ:مسئلہ منہ کے ہر ذرہ پر حلق تک پانی بہنا ناک کی ہڈی شروع ہونے تک پانی چڑھانا غسل میں فرض اور وضو میں سنت مؤکدہ ہیں۔
فـــ۱:مسئلہ سنت مؤکدہ کے ترک کی عادت سے گناہگار و مستحق عذاب ہوتاہے۔
فـــ۲:مسئلہ ناک میں کوئی کثافت جمی ہوتوپہلے اس کاچھڑالیناغسل میں فرض اور وضو میں سنت ہے ۔
درمختار میں ہے: فرض الغسل غسل انفہ حتی ماتحت الدرن ۱؎۔ غسل میں ناک کا دھونا فرض ہے یہاں تک کہ وہ حصہ بھی جو کثافت اور میل کے نیچے ہے۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۸)
اس فـــ۳ احتیاط سے بھی روزہ دار کو مفر نہیں،ہاں اس سے اوپرتک اُسے نہ چاہئے کہ کہیں پانی دماغ کو نہ چڑھ جائے غیر روزہ دارکے لئے یہ بھی سنت ہے۔
فـــ۳:مسئلہ وضو وغسل میں سنت ہے کہ ناک کی جڑ تک پانی چڑھائے مگر روزہ دار اس سے بچے ہاں تمام نرم بانسے تک چڑھانااسے بھی ضروری ہے
درمختار میں ہے: سنتہ المبالغۃ بمجاوزۃ المارن لغیر الصائم ۲؎۔ غیر روزہ دار کے لئے نرمہ سے اوپر پانی پہنچا کر مبالغہ سنت ہے۔(ت)
(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۱)
اسالۃ الماء علی ظاھر البدن سر کے بالو ں سے تلووں سے نیچے تک جسم کے ہر پرزے،رونگٹے کی بیرونی سطح پر پانی کا تقاطر کے ساتھ بہہ جانا سوا اُس موضع یا حالت کے جس میں حرج ہو جس کا بیان آتا ہے۔درمختار میں ہے: یفرض غسل کل مایمکن من البدن بلاحرج ۳؎۔
بدن کا ہر وہ حصہ دھونا فرض ہے جسے بغیر حرج کے دھونا ممکن ہے۔(ت)
(۳؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۸)
لوگ فـــ یہاں دو قسم کی بے احتیاطیاں کرتے ہیں جن سے غسل نہیں ہوتا اور نمازیں اکارت جاتی ہیں۔
ف: لوگ وضو و غسل میں دوقسم کی بے احتیاطیاں کرتے ہیں جن سے نمازیں اکارت جاتی ہیں۔
اوّلاً:غَسل بالفتح کے معنی میں نافہمی کہ بعض جگہ تیل کی طرح چپڑ لیتے ہیں یابھیگا ہاتھ پہنچ جانے پر قناعت کرتے ہیں حالانکہ یہ مسح ہوا،غسل میں تقاطراور پانی کابہنا ضرور ہے جب تک ایک ایک ذرّے پر پانی بہتا ہوا نہ گزرے گا غسل ہرگز نہ ہوگا۔
درمختار میں ہے: غسل ای اسالۃ الماء مع التقاطر ۱؎ غسل یعنی قطرے ٹپکنے کے ساتھ پانی بہانا ۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۹)
ردالمحتار میں ہے: البلّ بلاتقاطر مسح ۲؎ قطرے ٹپکے بغیر صرف ترکرلیناتو مسح ہے۔(ت)
(۲؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۶۵)
اُسی میں ہے: لولم یسل الماء بان استعملہ استعمال الدھن لم یجز۳؎۔ اگر پانی نہ بہا اس طرح کہ تیل کی طرح پانی صرف مل لیا تو فرض ادا نہ ہوا۔(ت)
(۳؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی ۱/ ۶۵)
ثانیا: پانی ایسی بے احتیاطی سے بہاتے ہیں کہ بعض مواضع بالکل خشک رہ جاتے ہیں یا اُن تک کچھ اثر پہنچتا ہے تو وہی بھیگے ہاتھ کی تری۔ اُن کے خیال میں شاید پانی میں ایسی کرامت ہے کہ ہر کنج وگوشہ میں آپ دوڑ جائے کچھ احتیاط خاص کی حاجت نہیں حالانکہ جسم ظاہر میں بہت موقع ایسے ہیں کہ وہاں ایک جسم کی سطح دوسرے جسم سے چھپ گئی ہے یا پانی کی گزرگاہ سے جدا واقع ہے کہ بے لحاظ خاص پانی اس پر بہنا ہرگز مظنون نہیں اور حکم یہ ہے کہ اگر ذرّہ بھر جگہ یا کسی بال کی نوک بھی پانی بہنے سے رہ گئی تو غسل نہ ہوگا اور نہ صرف غسل بلکہ وضو میں بھی ایسی ہی بے احتیاطیاں کرتے ہیں کہیں ایڑیوں پر پانی نہیں بہتا، کہیں کہنیوں پر کہیں ماتھے کے بالائی حصے پر،کہیں کانوں کے پاس کنپٹیوں پر۔ ہم نے اس بارہ میں ایک مستقل تحریر لکھی ہے اُس میں ان تمام مواضع کی تفصیل ہے جن کا لحاظ و خیال وضو وغسل میں ضرور ہے مردوں اور عورتوں کی تفریق اور طریقہ احتیاط کی تحقیق کے ساتھ ایسی سلیس وروشن بیان سے مذکور ہے جسے بعونہٖ تعالٰی ہر جاہل بچہ، عورت سمجھ سکے،یہاں اجمالاً ان کا شمار کئے دیتے ہیں۔
ضروریات فـــ۱ وضو مطلقاً یعنی مرد و عورت سب کیلئے:
ف:مسئلہ وضو میں پچیس۲۵ جگہ ہیں جن کی خاص احتیاط مرد و عورت سب پر لازم ہے۔
(۱) پانی مانگ یعنی ماتھے کے سرے سے پڑنا،بہت لوگ لَپ یا چُلّو میں پانی لے کر ناک یا ابرو یا نصف ماتھے پر ڈالتے ہیں پانی تو بہہ کر نیچے آیا وہ اپنا ہاتھ چڑھا کر اوپر لے گئے اس میں سارا ماتھا نہ دُھلا بھیگا ہاتھ پھرا اور وضو نہ ہوا۔
(۲) پٹیاں جھکی ہوں تو انہیں ہٹا کر پانی ڈالے کہ جو حصہ پیشانی کا اُن کے نیچے ہے دُھلنے سے نہ رہ جائے۔
(۳) بھووں کے بال چھدرے ہوں کہ نیچے کی کھال چمکتی ہو تو کھال پر پانی بہنا فرض ہے صرف بالوں پر کافی نہیں۔
(۴) آنکھوں کے چاروں کوئے،آنکھیں زور سے بند کرے،یہاں کوئی سخت چیز جمی ہوئی ہو تو چھڑالے۔
(۵) پلک کا ہربال پورا بعض وقت کیچڑ وغیرہ سخت ہوکر جم جاتا ہے کہ اُس کے نیچے پانی نہیں بہتا اُس کا چھڑانا ضرور ہے۔
(۶)کان کے پاس تک کنپٹی ایسا نہ ہو کہ ماتھے کا پانی گال پر اتر آئے اور یہاں صرف بھیگا ہاتھ پھرے۔
(۷) ناک کا سوراخ عـہ اگر کوئی گہنا یاتنکا ہوتو اسے پھرا پھرا کر ورنہ یونہی دھار ڈالے، ہاں اگر بالکل بند ہوگیا تو حاجت نہیں۔
عــہ ناک کا سوراخ،ہاتھ پاؤں کے چھلّے،کلائی کے گہنے چُوڑیاں۔
(۸) آدمی جب خاموش بیٹھے تو دونوں لب مل کر کچھ حصہ چھپ جاتاکچھ ظاہر رہتا ہے یہ ظاہر رہنے والا حصہ بھی دُھلنا فرض ہے،اگر کُلّی نہ کی اور منہ دھونے میں لب سمیٹ کر بزور بند کرلئے تو اس پر پانی نہ بہے گا۔
(۹) ٹھوڑی کی ہڈی اُس جگہ تک جہاں نیچے کے دانت جمے ہیں۔
(۱۰) ہاتھوں کی آٹھوں گھائیاں۔
(۱۱) انگلیوں کی کروٹیں کہ ملنے پر بند ہوجاتی ہیں۔
(۱۲) دسوں ناخنوں کے اندر جو جگہ خالی ہے، ہاں مَیل کا ڈر نہیں۔
(۱۳) ناخنوں کے سرے سے کُہنیوں کے اوپر تک ہاتھ کا ہر پہلو،چُلّومیں پانی لے کر کلائی پر اُلٹ لینا ہرگز کافی نہیں۔
(۱۴)کلائی کا ہربال جڑ سے نوک تک۔ایسا نہ ہو کہ کھڑے بالوں کی جڑ میں پانی گزر جائے نوکیں رہ جائیں۔
(۱۵) آرسی، چھلّے اور کلائی کے ہر گہنے کے نیچے۔
(۱۶) عورتوں کو پھنسی چُوڑیوں کا شوق ہوتا ہے اُنہیں ہٹا ہٹا کر پانی بہائیں۔
(۱۷) چوتھائی سرکا مسح فرض ہے پوروں کے سرے گزار دینا اکثر اس مقدار کو کافی نہیں ہوتا۔
(۱۸) پاؤوں کی آٹھوں گھائیاں۔
(۱۹) یہاں انگلیوں کی کروٹیں زیادہ قابلِ لحاظ ہیں کہ قدرتی ملی ہوئی ہیں۔
(۲۰) ناخنوں کے اندر کوئی سخت چیز نہ ہو۔
(۲۱) پاؤوں کے چھلّے اور جو گہنا گٹوں پر یا گٹوں سے نیچے ہو اس کے نیچے سیلان شرط ہے۔
(۲۲) گٹّے۔
(۲۳) تلوے۔
(۲۴) ایڑیاں۔
(۲۵) کونچیں خاص فــ بہ مردان۔
ف: وضو میں پانچ مواقع اورہیں جن کی احتیاط خاص مردوں پر لازم۔
(۲۶) مونچھیں۔
(۲۷) صحیح مذہب میں ساری داڑھی دھونا فرض ہے یعنی جتنی چہرے کی حد میں ہے نہ لٹکی ہوئی کہ ہاتھ سے گلے کی طرف کو دباؤ تو ٹھوڑی کے اُس حصّے سے نکل جائے جس پر دانت جمے ہیں کہ اس کا صرف مسح سنّت اور دھونا مستحب ہے۔
(۲۸ و ۲۹) داڑھی مونچھیں چھدری ہوں کہ نیچے کی کھال نظر آتی ہو تو کھال پر پانی بہنا۔
(۳۰) مونچھیں بڑھ کر لبوں کو چھپالیں تو انہیں ہٹا ہٹا کر لبوں کی کھال دھونا اگرچہ مونچھیں کیسی ہی گھنی ہوں۔
درمختار میں ہے: ارکان الوضوء غسل الوجہ من مبدء سطح جبھتہ الی منبت اسنانہ السفلی طولا ومابین شحمتی الاذنین عرضافیجب غسل المیاقی ومایظھر من الشفۃ عند انضمامھا(الطبیعی لاعند انضمامھا بشدۃ وتکلف اھ ح وکذالوغمض عینیہ شدیدا لا یجوزبحر) وغسل جمیع اللحیۃ فرض علی المذھب الصحیح المفتی بہ المرجوع الیہ وماعداھذہ الروایۃ مرجوع عنہ ثم لاخلاف ان المسترسل(وفسرہ ابن حجر فی شرح المنھاج بمالومد من جہۃ نزولہ لخرج عن دائرۃ الوجہ ثم رأیت المصنف فی شرحہ علی زادالفقیرقال وفی المجتبی قال البقالی ومانزل من شعراللحیۃ من الذقن لیس من الوجہ عندناخلافاللشافعی اھ)لایجب غسلہ ولا مسحہ بل یسن (المسح) وان الخفیفۃ التی تری بشرتھا یجب غسل ماتحتھا نھر وفی البرھان یجب غسل بشرۃ لم یسترھا الشعرکحاجب وشارب وعنفقۃ فی المختار(ویستثنی منہ مااذاکان الشارب طویلا یسترحمرۃ الشفتین لمافی السراجیۃ من ان تخلیل الشارب الساترحمرۃ الشفتین واجب۱؎)اھ ملخصامزیدامابین الاھلۃ من ردالمحتار۔
ارکان وضو یہ ہیں: چہرے کو لمبائی میں پیشانی کی سطح کے شروع سے نیچے کے دانتوں کے اُگنے کی جگہ تک،اور چوڑائی میں ایک کان کی لُو سے دوسرے کان کی لُو تک جتناحصہ ہے سب دھونا-توآنکھوں کے گوشوں کو دھونا ضروری ہے اور لب کا وہ حصہ بھی جو لب بند ہونے کے وقت کھلا رہتا ہے (یعنی طبعی طور پر بندہونے کے وقت ،شدت اور تکلیف سے بند کرنے کے وقت نہیں،اھ ،حلبی – اسی طرح اگر وقتِ وضو آنکھیں سختی سے بند کرلیں تو وضو نہ ہوگا – بحر-) اور پوری داڑھی کا دھونا فرض ہے – مذہبِ صحیح مُفتی بہ پر- جس کی طرف امام نے رجوع کرلیا ہے۔ اور اس کے علاوہ جو روایت ہے اس سے رجوع ہوچکا ہے ۔ پھر اس میں اختلاف نہیں کہ داڑھی کے لٹکتے ہوئے بالوں کا دھونا یا مسح کرنا فرض نہیں بلکہ ( اس کا مسح ) مسنون ہے۔( مستر سل ، لٹکتے بالوں ،کی تفسیر علامہ ابن حجر شافعی نے شرح منہاج میں یہ لکھی ہے :بالوں کا وہ حصہ جو نیچے کو پھیلایا جائے تو چہرے کے دائرے سے باہر ہوجائے۔پھر میں نے دیکھا کہ مصنف نے زاد الفقیرکی شرح میں یہ لکھا ہے : مجتبی میں ہے کہ بقالی نے کہا :داڑھی کے وہ بال جو ٹھوڑی سے نیچے ہیں وہ امام شافعی کے برخلاف ہمارے نزدیک چہرے میں شمار نہیں اھ)ہلکی داڑھی جس کی جلد نظر آتی ہے اس کے نیچے کی جلد دھونا فرض ہے ، نہر۔ اور برہان میں ہے:مذہب مختار میں اس جلد کو دھونا فرض ہے جو بالوں سے چُھپی ہوئی نہیں ہے جیسے بھووں، مونچھوں اور بچیّ کے بالوںسے [نہ چھپنے والی جلد ۱۲م] اس سے وہ صو رت مستثنی ہے جب مونچھیں اتنی لمبی ہوں کہ لبوں کی سُرخی کو چھپالیں، کیونکہ سراجیہ میں ہے کہ لبوں کی سُرخی کو چھپالینے والی مونچھوں کا خلال کرنا یعنی ہٹا کر لب کی جلد دھونا فرض ہے )اھ۔ درمختار کی عبارت تلخیص اور ہلالین کے درمیان رد المحتار سے اضافوں کے ساتھ ختم ہوئی۔
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارت مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۸ و۱۹
ردالمحتار کتاب الطہارت دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/۶۶ تا۶۹)
قلت واستحبابی غسل المسترسل نظرا الی خلاف الامام الشافعی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ لما نصوافــ علیہ من ان الخروج عن الخلاف مستحب بالاجماع مالم یرتکب مکروہ مذھبہ کمافی ردالمحتار وغیرہ۔۲؎
قلت داڑھی کے لٹکتے ہوئے بالوں کو دھونا، میں نے امام شافعی رضی اﷲ تعالی عنہ کے اختلاف کا لحاظ کرتے ہوئے مستحب کہا اس لئے کہ علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ صورتِ اختلاف سے بچنا بالا جماع مستحب ہے بشرطیکہ اس میں اپنے مذہب کے کسی مکروہ کاارتکاب نہ ہو،جیسا کہ ردالمحتار وغیرہ میں ہے۔
فــ: حتی الامکان اختلاف علما سے بچنا مستحب ہے جب تک اس کی رعایت میں اپنے مذہب کا مکروہ نہ لازم آئے۔
(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارت مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۷
ردالمحتار کتاب الطہارت دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/۹۹)
اُسی میں ہے: سننہ تخلیل اصابع الیدین والرجلین وھذابعد دخول الماء خلالھافلو منضمۃ فرض ۱؎۔
ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال سنت ہے یہ اس وقت ہے جب پانی ان انگلیوں کے بیچ پہنچ گیاہو اگر ملی ہوئی ہوں ( کہ پانی نہ پہنچے ) تو پانی پہنچانا فرض ہے ۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۲)
اُسی میں ہے: مستحبہ تحریک خاتمہ الواسع وکذاالضیق ان علم وصول الماء والافرض ۲؎۔
کشادہ انگوٹھی کو حرکت دینا مستحب ہے اسی طرح تنگ کو بھی،اگر معلوم ہو کہ پانی پہنچ گیا ورنہ فرض ہے۔(ت)
(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ ۲۲ و ۲۳)
اُسی میں ہے: ومن الاٰداب تعاھد موقیہ وکعبیہ وعرقوبیہ واخمصیہ ۳؎۔
آداب وضـو میں سے یہ ہے کہ آنکھ کے گوشوں ، ٹخنوں ،ایڑیوں ، تلووں پر خاص دھیان دے اھ(ت)
(۳؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۴)
قلت: وھذا ان کان الماء یسیل علیھا وان لم یتعاھد والافرض کنظائرہ المارۃ۔
قلت:یہ اس صورت میں ہے جب پانی ان جگہوں پر خاص دھیان دئیے بغیر بہہ جاتا ہو ورنہ فرض ہوگا جیسے اس کی سابقہ نظیروں میں حکم ہے ۔(ت)
ضروریات فـــ غسل مطلقاًظاہر ہے کہ وضو میں جس جس عضو کا دھونا فرض ہے غسل میں بھی فرض ہے تو یہ سب اشیاء یہاں بھی معتبر اور ان کے علاوہ یہ اور زائد۔
ف: غسل میں ان ۲۵ یا ۳۰ گزشتہ کے علاوہ ۲۲ جگہ اور ہیں جن کی احتیاط مرد و عورت سب پر لازم۔
(۳۱) سر کے بال کہ گندھے ہوئے ہوں ہر بال پر جڑ سے نوک تک پانی بہنا۔
(۳۲)کانوں میں بالی پتّے وغیرہ زیوروں کے سوراخ کا غسل میں وہی حکم ہے جو ناک میں بلاق وغیرہ کے چھید کا غسل و وضو دونوں میں تھا۔
(۳۳) بھنووں کے نیچے کی کھال اگرچہ بال کیسے ہی گھنے ہوں۔
(۳۴)کان کا ہر پرزہ اس کے سوراخ کا منہ۔
(۳۵)کانوں کے پیچھے بال ہٹا کر پانی بہائے۔
(۳۶) استنشاق بمعنی مذکور۔
(۳۷) مضمضہ بطرز مسطور۔
(۳۸) داڑھوں کے پیچھے ،
(۳۹) دانتوں کی کھڑکھیوں میں جو سخت چیز ہو پہلے جدا کرلیں۔
(۴۰) چونا ریخیں وغیرہ جو بے ایذا چھوٹ سکے چھڑانا۔
(۴۱) ٹھوڑی اور گلے کاجوڑ کہ بے منہ اٹھائے نہ دُھلے گا۔
(۴۲) بغلیں بے ہاتھ اٹھائے نہ دُھلیں گی۔
(۴۳) بازو کا ہر پہلو،
(۴۴) پیٹھ کا ہردرہ۔
(۴۵) پیٹ وغیرہ کی بلٹیں اٹھا کر دھوئیں۔
(۴۶) ناف انگلی ڈال کر جبکہ بغیر اس کے پانی بہنے میں شک ہو۔
(۴۷) جسم کا کوئی رونگٹاکھڑا نہ رہ جائے۔
(۴۸) ران اور پیڑو کا جوڑ کھول کر دھوئیں۔
(۴۹) دونوں سرین ملنے کی جگہ، خصوصاً جب کھڑے ہوکر نہائیں۔
(۵۰) ران اور پنڈلی کا جوڑ جبکہ بیٹھ کر نہائیں۔
(۵۱) رانوں کی گولائی۔
(۵۲) پنڈلیوں کی کروٹیں۔
خاص فــ بمرداں۔
ف: ان ۵۲کے سوا آٹھ مواقع اور ہیں جن کی احتیاط غسل میں خاص مردوں کو ضرور۔
(۵۳)گندھے ہوئے بال کھول کر جڑ سے نوک تک دھونا۔
(۵۴) مونچھوں کے نیچے کی کھال اگرچہ گھنی ہوں۔
(۵۵) داڑھی کا ہر بال جڑ سے نوک تک۔
(۵۶) ذکر وانثیین کے ملنے کی سطحیں کہ بے جدا کیے نہ دُھلیں گی۔
(۵۷) انثیین کی سطح زیریں جوڑ تک۔
(۵۸) انثیین کے نیچے کی جگہ تک۔
(۵۹) جس کا ختنہ نہ ہوا ہو بہت علماء کے نزدیک اُس پر فرض ہے کہ کھال چڑھ سکتی ہو تو حشفہ کھول کر دھوئے۔
(۶۰) اس قول پر اس کھال کے اندر بھی پانی پہنچنا فرض ہوگا بے چڑھائے اُس میں پانی ڈالے کہ چڑھنے کے بعد بند ہوجائے گی۔
خاص فــ بزنان
ف: اُن۶۰ کے سوا دس مواضع اور ہیں جن کی احتیاط غسل میں خاص عورتوں پر لازم۔
(۶۱) گندھی چوٹی میں ہر بال کی جڑ تر کرنی، چوٹی کھولنی ضرور نہیں مگر جب ایسی سخت گندھی ہو کہ بے کھولے جڑیں تر نہ ہوں گی۔
(۶۲) ڈھلکی ہوئی پستان اٹھا کر دھونی۔
(۶۳) پستان وشکم کے جوڑ کی تحریر۔
(۶۴تا۶۷) فرج خارج کے چاروں لبوں کی جیبیں جڑتک۔
(۶۸) گوشت پارہ بالاکاہر پرت کہ کھولے سے کھل سکے گا۔
(۶۹) گوشت پارہ زیریں کی سطح زیریں۔
(۷۰) اس پارہ کے نیچے کی خالی جگہ غرض فرج خارج کے ہر گوشے پرزے کنج کا خیال لازم ہے ہاں فرج داخل کے اندر انگلی ڈال کر دھونا واجب نہیں، بہتر ہے۔
درمختار میں ہے: یفرض غسل کل مایمکن من البدن بلا حرج مرۃ کاذن وسرۃ وشارب وحاجب (ای بشرۃ وشعراوان کثف بالاجماع کما فی المنیۃ) ولحیۃ وشعر رأس ولو متلبدا وفرج خارج لانہ کالفم لاداخل ولا تدخل اصبعھا فی قبلھابہ یفتی(ای لایجب ذلک کما فی الشرنبلالیۃ ح وفی التتارخانیۃ عن محمد انہ ان لم تدخل الاصبع فلیس بتنظیف ) لاداخل قلفۃ بل یندب ھوالاصح قالہ الکمال وعللہ بالحرج وفی المسعودی ان امکن فتح القلفۃ بلامشقۃ یجب والا فلاوکفی بل اصل ضفیرتھا للحرج اما المنقوض فیفرض غسل کلہ ولولم یبتل اصلہا یجب نقضھاھوالاصح لایکفی بل ضفیرتہ فینقضھا وجوبا ولوعلویا اوترکیا لامکان حلقہ (ھو الصحیح )اھ ملخصا مزیدا من الشامی۔۱؎
بدن کا ہر وہ حصہ جسے بلاحرج دھونا ممکن ہے اسے ایک بار دھونا فرض ہے جیسے کان،ناف مونچھیں، بھوں ( یعنی جلد اور بال دونوں ،اگرچہ بال گھنے ہوں۔ اس پر اجماع ہے جیسا کہ منیہ میں ہے )داڑھی ، سر کے بال اگرچہ گندھے ہوئے ہوں، فرج خارج اس لئے کہ اس کا حکم منہ کی طرح ہے۔ فرج داخل نہیں ، فرج داخل میں اسے انگلی ڈال کر دھونا نہیں ہے اسی پر فتوی ہے( یعنی واجب نہیں ہے، جیسا کہ شر نبلالیہ میں ہے ،حلبی ۔ اور تاتا ر خانیہ میں ہے امام محمد سے روایت ہے کہ اگر عورت انگلی نہ ڈالے تو تنظیف نہ ہوگی ) جس کا ختنہ نہ ہوا ہو اس پر ختنہ کی کھال کے اندر دھونا فرض نہیں بلکہ مستحب ہے ، یہی اصح ہے ۔ یہ کمال ابن الہمام نے فرمایا اور اس کا سبب حرج کو بتایا ۔اور مسعود ی میں ہے کہ اگر بغیر مشقت کے اس کھال کو کھول سکتا ہے تو واجب ہے ورنہ نہیں۔ عورت کو اپنے جوڑوں کی جڑ تر کر لینا کافی ہے حرج کی بناء پر۔ لیکن بال کھلے ہوئے ہیں تو سب دھونا فرض ہے۔اور اگر جُوڑے کی جڑ تر نہیں ہوتی تو کھولنا واجب ہے ، یہی اصح ہے ۔ مرد کو جُوڑے تر کر لیناکافی نہیں بلکہ اس پر کھولنا واجب ہے اگرچہ علوی یا ترکی ہو اس لئے کہ وہ بال کٹاسکتا ہے ( یہی صحیح ہے ) اھ درمختار کی عبارت تلخیص اور شامی سے اضافوں کے ساتھ ختم ہوئی۔
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۸و۲۹
الدرالمختار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/۱۰۳و۱۰۴)
اُسی میں ہے: من آدابہ تحریک القرط ان علم وصول الماء والافرض۔۲؎
غسل کے آداب میں سے ہے کہ بالی کو حرکت دے اگر معلوم ہوکہ پانی پہنچ گیا ورنہ پانی پہنچانا فرض ہے ۔(ت)
(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۳)
اُسی میں ہے: لوخاتمہ ضیقانزعہ اوحرکہ وجوباکقرط ولولم یکن بثقب اذنہ قرط فدخل الماء فی الثقب عندمرورہ علی اذنہ اجزأہ کسرۃ واذن دخلہماالماء والایدخل ادخلہ ولوباصبعہ ولا یتکلف بخشب ونحوہ والمعتبرف۱ غلبۃ ظنہ بالوصول ۱؎۔
اگر انگوٹھی تنگ ہوتو اتاردے ورنہ واجب ہے کہ حرکت دے کر پانی پہنچائے جیسے بالی کا حکم ہے اور اگر کان کے سوراخ میں بالی نہیں ہے اور پانی کان پر گذرنے کے وقت سوراخ میں بھی چلاگیا تو کافی ہے جیسے ناف اور کان میں پانی چلا جائے تو کافی ہے اور اگر پانی نہ جائے تو پہنچائے اگر چہ انگلی کے ذریعہ ۔لکڑی وغیرہ کے استعمال کا تکلف نہ کرے۔اعتبار اس کا ہے کہ پانی پہنچ جانے کا غالب گمان ہوجائے۔
ف۱:مسئلہ: مواضع احتیاط میں پانی پہنچنے کاظن غالب کافی ہے یعنی دل کو اطمینان ہوکہ ضرور پہنچ گیا مگر یہ اطمینان نہ بے پرواہوں کاکافی ہے جو دیدہ ودانستہ بے احتیاطی کررہے ہیں نہ وہمی وسوسہ زدہ کا اطمینان ضرور جسے آنکھوں دیکھ کر بھی یقین آنا مشکل بلکہ متدین محتاط کااطمینان چاہئے ۔
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۹)
اقول : ای فی غیرالموسوس وغیرماجن لایبالی فالاول ینزل الیقین الی محض الشک والثانی یرفع الشک الی عین الیقین کما ھو معلوم مشاھد واللّٰہ المستعان۔
اقول : یہ ضابطہ اعتبار وسوسہ کے مریض ، اور تماشہ باز بے پروا کے حق میں ہے اول تو یقین کو شک کی منزل میں لاتا ہے اور ثانی شک کو یقین بنالیتا ہے جیساکہ مشاہدہ اور معلوم ہے ۔اور خدا ہی سے استعانت ہے۔(ت)
بالجملہ تمام ظاہر بدن ہر ذرّہ ہر رونگٹے پر سر سے پاؤں تک پانی بہنا فرض ہے ورنہ غسل نہ ہوگا مگر مواضع حرج ف۲ معاف ہیں
مثلاً:
(۱) آنکھوں کے ڈھیلے۔
(۲) عورت کے گندھے ہوئے بال۔
(۳) ناک کان کے زیوروں کے وہ سوراخ جو بند ہوگئے۔
(۴) نامختون کاحشفہ جبکہ کھال چڑھانے میں تکلیف ہو۔
(۵) اس حالت میں اس کھال کی اندرونی سطح جہاں تک پانی بے کھولے نہ پہنچے اور کھولنے میں مشقت ہو۔
(۶) مکھی یامچھر کی بیٹ جو بدن پر ہو اُس کے نیچے۔
(۷) عورت کے ہاتھ پاؤں میں اگر کہیں مہندی کا جرم لگارہ گیا۔
(۸) دانتوں کا جما ہوا چونا۔
(۹) مسی کی ریخیں۔
(۱۰) بدن کا میل۔
(۱۱) ناخنوں میں بھری ہوئی یا بدن پر لگی ہوئی مٹّی۔
(۱۲) جو بال خود گرہ کھا کر رہ گیا ہو اگرچہ مرد کا۔
(۱۳) پلک یا کوئے میں سرمہ کا جرم۔
(۱۴) کاتب کے انگوٹھے پر روشنائی۔ ان دونوں کاذکر رسالہ الجود الحلو میں گزرا۔
(۱۵) رنگریز کا ناخن پر رنگ کا جرم۔
(۱۶) نان بائی یا پکانے والی عورت کے ناخن میں آٹا، علی خلاف فیہ۔
(۱۷) کھانے کے ریزے کہ دانت کی جڑ یا جوف میں رہ گئے کما مراٰنفا عن الخلاصۃ۔(جیسا کہ ابھی خلاصہ سے گزرا۔ت)
اقول یوں ہی پان کے ریزے نہ چھالیا کے دانے کہ سخت ہیں کمامرایضا۔(جیساکہ ابھی خلاصہ سے گزرا۔ت)
ف۲: اکیس مواضع جو پانی بہانے میں بوجہ حرج معاف ہیں ۔
اقول : وبتعلیل المسألۃ بالحرج لعموم البلوی یندفع مامر من الایراد۔
اقول : جب مسئلہ کی علت یہ بتادی گئی کہ ابتلاء عام کی وجہ سے حرج ہے تو وہ اعتراض دفع ہوگیا جو عبارت خلاصہ کے تحت گزرا ۔(ت)
(۱۸) اقول ہلتا ہوا فــ دانت اگر تارسے جکڑاہے معافی ہونی چاہئے اگرچہ پانی تار کے نیچے نہ بہے کہ بار بار کھولنا ضرر دے گا نہ اس سے ہر وقت بندش ہوسکے گی۔
ف:مسئلہ ہلتاہوا دانت چاندی کے تار سے باندھنایامسالے سے جمانا جائز ہے اوراس وقت غسل میں اس تار یامسالے کے نیچے پانی نہ بہنا معاف ہوناچاہئے ۔
(۱۹) یوں ہی اگر اُکھڑا ہُوادانت کسی مسالے مثلاً برادہ آہن ومقناطیس وغیرہ سے جمایاگیاہے جمے ہوئے چُونے کی مثل اس کی بھی معافی چاہئے۔
اقول لانہ ارتفاق مباح وفی الازالۃ حرج۔
اقول کیونکہ یہ انتفاع و علاج مباح ہے اور زائل کرنے میں حرج ہے۔(ت)
درمختار میں ہے: لایشد سنہ المتحرک بذھب بل بفضۃ ۱؎۔
ہلتے ہوئے دانت کو سونے سے نہیں بلکہ چاندی سے باندھے۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الحظر والاباحۃ فصل فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۴۰)
ردالمحتار میں ہے: قال الکرخی اذا سقطت ثنیۃ رجل فان اباحنیفۃ یکرہ ان یعیدھاویقول ھی کسن میتۃ ولکن یاخذ سن شاۃ ذکیۃ یشد مکانہا وخالفہ ابویوسف فقال لاباس بہ اھ اتقانی،زادفی التاترخانیۃ قال بشر قال ابو یوسف سألت اباحنیفۃ عن ذلک فی مجلس اخر فلم یرباعادتہا باسا ۲؎۔
امام کرخی نے کہا : کسی کا اگلا دانت گرگیا تو امام ابو حنیفہ اس کو اس کی جگہ پھر لگانا مکروہ کہتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ مردے کے دانت کی طرح ہے لیکن شرعی طور پر ذبح کی ہوئی کسی بکری کا دانت لے کر اس کی جگہ لگالے۔امام ابو یوسف اس بارے میں امام کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں اھ اتقانی۔تاتار خانیہ میں یہ اضافہ ہے:بشر نے کہا امام ابو یوسف فرماتے ہیں میں نے ایک دوسری مجلس میں اس سے متعلق امام ابو حنیفہ سے پوچھاتواس دانت کو دوبارہ اس کی جگہ لگالینے میں انھوں نے کوئی حرج نہ قرار دیا اھ۔
(۲؎ ردالمحتار کتاب الحظر والاباحۃ فصل فی اللبس داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/۲۳۱)
اقول مبنی القول الاول ان السن عصب فیحلہ الموت والصحیح انہ عظم فلا ینجس ولو من میتۃ وقد نص فی البدائع والکافی والبحر والدروغیرھاان سن الانسان طاھرۃ علی ظاھرالمذھب وھوالصحیح وان مافی الذخیرۃ وغیرھامن انھانجسۃ ضعیف ۱؎ اھ فارتفع الاشکال کیف لاوقد رجع عنہ الامام۔
اقول قولِ اول کی بنیاد یہ ہے کہ دانت اعصاب میں سے ہے توموت اس میں سرایت کرے گی اور صحیح یہ ہے کہ دانت ایک ہڈی ہے، تو وہ اگرچہ ایک مُردے ہی کا ہو نجس نہ ہوگا۔ اور بدائع ، کافی بحر ، درمختار وغیرہا میں تصریح ہے کہ انسان کا دانت پاک ہے ، یہی ظاہر مذہب ہے اور یہی صحیح ہے اور ذخیرہ وغیرہا میں جو لکھاکہ نجس ہے یہ قول ضعیف ہے اھ، تو اشکال دُور ہوگیا ۔پھر یہ کیسے نہ ہو جب کہ امام اس سے رجوع کرچکے ہیں۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار بحوالہ البحر والبدائع والکافی کتاب الطہارۃ باب المیاہ دار احیاء التراث العربی بیروت۱/ ۱۳۸)
ہاں اگر کمانی چڑھی ہو جس کے اتارنے چڑھانے میں حرج نہیں اور پانی بہنے کو روکے گی تو اتارنا لازم ہے۔
(۲۰) پٹّی کہ زخم پر ہو اور کھولنے میں ضرر یا حرج ہے۔
(۲۱) ہر وہ جگہ کہ کسی درد یا مرض کے سبب اُس پر پانی بہنے سے ضرر ہوگا۔
والمسائل مشھورۃ وفی فتاوٰنا مذکورۃ۔(یہ مسائل مشہور ہیں اور ہمارے فتاوی میں مذکور بھی ہیں۔ت)
غرض مدار حرج پر ہے اور حرج بنص قرآن مدفوع اور یہ امت دنیاوآخرت میں مرحومہ، والحمد للہ رب العالمین۔
درمختار میں ہے: لایجب غسل مافیہ حرج کعین وان فـــ اکتحل بکحل نجس وثقب انضم وداخل قلفۃ وشعرالمرأۃ المضفور ولایمنع الطہارۃ خرء ذباب وبرغوث لم یصل الماء تحتہ ۱؎ (لان الاحتراز عنہ غیر ممکن حلیہ ۲؎) وحناء ولوجرمہ بہ یفتی و وسخ وتراب وطین ولو فی ظفر مطلقاقرویااومدنیا فی الاصح وما علی ظفر صباغ ۳؎ اھ ملخصاً ۔
اسے دھونا واجب نہیں جس کے دھونے میں حرج ہے جیسے اندرونِ چشم۔ اگرچہ ناپاک سرمہ لگالیا ہو۔ اور ایساسوراخ جو بند ہوگیاہو،اور ختنہ کی کھال کے اندر کا حصہ اور عورت کے گُندھے ہوئے بال اور طہارت سے مانع نہیں مکھی اور مچھر کی وہ بیٹ جس کے نیچے پانی نہ پہنچا( اس لئے کہ اس سے بچنا ممکن نہیں ۔حلیہ )اور مہندی اگرچہ اس میں دبازت ہواسی پر فتوی ہے اور میل اور مٹی اور گارا اگرچہ ناخن میں ہومطلقًا دیہی ہو یا شہری اصح یہی ہے اور وہ رنگ جو رنگریز کے ناخن پر بیٹھ گیا ہے اھ ملخصًا۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۸و۲۹
۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/۱۰۴
۳؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۲۹)
ردالمحتار میں ہے: یؤخذ من مسألۃ الضفیرۃ انہ لایجب غسل عقد الشعر المنعقد بنفسہ لان الاحتراز عنہ غیر ممکن ولو من شعر الرجل ولم ارمن نبہ علیہ من علمائنا تامل ۴؎۔
عورت کے جُوڑے کے مسئلے سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ جو بال خود گرہ کھا کر بیٹھ گیا اسے دھونا واجب نہیں اس لئے کہ اس سے بچنا ممکن نہیں اگر چہ مرد کا بال ہو ۔ میں نے اپنے علماء میں سے کسی کی اس پر تنبیہ نہ دیکھی ۔تو غور کرو ۔
(۴؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۰۴)
اُسی میں ہے: فی النھر لوفی اظفارہ عجین فالفتوی انہ مغتفر ۵؎۔
نہر میں ہے اگر اس کے ناخنوں کے اندر خمیر رہ گیا ہو تو فتوی اس پر ہے کہ وہ معاف ہے (ت)
(۵؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۰۴)
اقول وباللہ التوفیق ف حرج کی تین صورتیں ہیں:
ف:مصنف کی تحقیق کہ حرج تین قسم ہے ۔
ایک یہ کہ وہاں پانی پہنچانے میں مضرت ہو جیسے آنکھ کے اندر۔
دوم مشقت ہو جیسے عورت کی گندھی ہوئی چوٹی۔
سوم بعد علم واطلاع کوئی ضرر ومشقت تو نہیں مگر اس کی نگہداشت، اس کی دیکھ بھال میں دقت ہے جیسے مکھی مچھر کی بیٹ یا الجھا ہوا گرہ کھایا ہوا بال۔
قسم اول ودوم کی معافی توظاہر اور قسم سوم میں بعد اطلاع ازالہ مانع ضرور ہے مثلاً جہاں مذکورہ صورتوں میں مہندی، سرمہ، آٹا،روشنائی ،رنگ، بیٹ وغیرہ سے کوئی چیز جمی ہوئی دیکھ پائی تو اب یہ نہ ہو کہ اُسے یوں ہی رہنے دے اور پانی اوپر سے بہادے بلکہ چھُڑالے کہ آخر ازالہ میں توکوئی حرج تھا ہی نہیں تعاہد میں تھابعداطلاع اس کی حاجت نہ رہی
ومن المعلوم ان ماکان لضرورۃ تقدربقدرھا ھذا ماظھرلی والعلم بالحق عند ربی، واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سیدنا محمد والہ وصحبہ اجمعین۔
معلوم ہے کہ جو حکم کسی ضرورت کے باعث ہو وہ قدر ضرورت ہی کی حد پر رہے گا۔ یہ وہ ہے جو مجھ پر منکشف ہوا ، اور حق کا علم میرے رب کے یہاں ہے، اور خدائے پاک و برتر ہی کو خوب علم ہے اور اس مجد بزرگ والے کا علم زیادہ تام اور محکم ہے ۔ا ور ہمارے آقا محمد، ان کی آل اور تمام اصحاب پر خدائے برتر کا درود ہو۔(ت)