تفضیلیت, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ, کفن دفن کا بیان

صدیق اکبر افضل ہیں یا حسنین کریمین؟

مسئلہ ۱۱۱: از شہر بریلی بی بی جی کی مسجد مسؤلہ حشمت علی صاحب طالبِ علم مدرسہ منظرالاسلام ۷ شعبان ۱۳۳۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے حقانیین اہل سنت و جماعت کثر ہم اﷲ نصر ہم و امداد ہم مسئلہ ذیل میں کہ زید بحمد اﷲ تعالٰی کسی ضروری دینی کا انکار بلکہ اس میں شک بھی نہیں کرتا بلکہ ایسے شخص کو بھی کافر و مرتد جانتا ہے۔ باوجود اس کے اُس کا یہ عقیدہ ہے کہ سیدّنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ اگرچہ افضل الناس بعد الانبیاء ہیں لیکن بحکم مامن عام الاوقد خص منہ البعض ۔۱؂ (کوئی عام نہیں مگر اس میں سے بعض افراد کو خاص کیا گیا ہے۔ت) اس ناس سے حسنین رضی اللہ تعالٰی عنہما مستثنٰی ہیں ، کیونکہ حسنین کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہما شاہزادگان دورمانِ نبوت ہیں اور حضرات خلفائے اربعہ وزرائے شہ سریر رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں اور وزراء سے شاہزادوں کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ حسنین رضی اللہ تعالٰی عنہما خلفائے اربعہ رضوان اﷲ تعالٰی علیہم سے افضل ہیں۔ اس پر عمر کہتا ہے کہ سیدنا مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ بلکہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مرتبہ کے بعد ہیں، تو کیا حسنین رضی اللہ تعالٰی عنہما اپنے والد ماجد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی افضل ہوجائیں گے، زید جواباً کہتا ہے کہ یہ محال نہیں بلکہ ممکن بلکہ واقع ہے، دریافت طلب یہ امر ہے کہ زید کا استدلال کیسا ہے اور اس عقیدہ سے اس کی سنیت میں تو کوئی نقص نہ آیا۔

(۱؂ التوضیح علی التلویح فصل فی حکم العام میر محمد کتب خانہ کراچی ص ۲۰۹ )

الجواب : اگر وہ یہ کہتا کہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما بوجہ جزئیت کریمہ ایک فضل جزئی حضرات عالیہ خلفائے اربعہ رضی اللہ تعالٰی عنہم پر رکھتے ہیں اور مرتبہ حضرات خلفاء کا اعظم و اعلٰی ہے تو حق تھا مگر اس نے اپنی جہالت سے فضل کلی سبطین کو دیا اور افضل البشر بعد الانبیاء ابوبکر الصدیق کو عام مخصوص منہ البعض ٹھہرایا اور انہیں امیر ا لمومنین مولٰی علی سے افضل کہا یہ سب باطل اور خلاف اہلسنت ہے اس عقیدہ باطلہ سے توبہ فرض ہے ورنہ وہ سنی نہیں اور اس کی دلیل محض مردود و ذلیل، اگرجزئیت موجب افضلیت مرتبہ عند اﷲ ہو تو لازم کہ آج کل کے بھی سارے میر صاحب اگرچہ کیسے ہی فسق و فجور میں مبتلا ہوں اﷲ عزوجل کے نزدیک امیر المومنین مولٰی علی سے افضل واعلٰی ہوں اور یہ نہ کہے گا مگر جاہل اجہل مجنون یا ضال مضل مفتون قال اﷲ عزوجل : قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون ۔۱؂ تم فرمادو کیا برابر ہوجائیں گے عالم اور بے علم۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳۹ /۹ )

اور فرماتا ہے: یرفع اﷲ الذین اٰمنوا منکم والذین اوتواالعلم درجٰت ۔۲؂ اﷲ بلند فرمائے گا تم میں سے مومنوں اور بالخصوص عالموں کے درجے ۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۵۸/ ۱۱)

تو عنداﷲ فضل علم فضلِ نسب سے اشرف و اعظم ہے، یہ میر صاحب کہ عالم نہ ہوں اگرچہ صالح ہوں آج کل کے عالم سُنی صحیح العقیدہ کے مرتبہ کو شرعاً نہیں پہنچتے نہ کہ ائمہ نہ کہ صحابہ نہ کہ مولٰی علی نہ کہ صدیق و فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین،

تنویر الابصار و درمختار میں ہے: للشاب العالم ان یتقدم علی الشیخ الجاھل ولو قریشا، قال تعالٰی والذین اوتواالعلم درجٰت فالرافع ھو اﷲ فمن یضعہ یضعہ اﷲ فی جہنم ۔۱؂ نوجوان عالم کو بوڑھے جاہل پر تقدم کا حق حاصل ہے اگرچہ وہ (جاہل) قرشی ہو، اﷲ تعالٰی نے فرمایا : اﷲ تعالٰی عالموں کے درجے بلند فرمائے گا۔ چونکہ بلندی عطا فرمانے والا اﷲ تعالٰی ہے لہذا جو اس کو گھٹائے گا اﷲ تعالٰی اس کو جہنم میں ڈالے گا۔(ت)

( ۱ ؎ الدرالمختار مسائل شتّٰی مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۳۵۱)

فتاوٰی خیر یہ امام خیر الدین رملی میں ہے: کونہ قرشیا لایبیح لہ التقدم علی ذی العلم مع جھلہ اذکتب العلم طافحۃ بتقدم العالم علی القرشی ولم یفرق سبحٰنہ وتعالٰی بین القرشی وغیرہ فی قولہ تعالی ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ۔۲؂ جاہل کا قرشی ہونا عالم پر اس کے تقدم کو مباح نہیں کرتا، کیونکہ علم کی کتابیں عالم کے قرشی پر تقدم کے حق سے بھری پڑی ہیں اور اﷲ سبحنہ و تعالٰی نے قرشی و غیر قرشی کے درمیان اپنے اس ارشاد میں کوئی فرق نہیں، فرمایا کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں۔(ت)

(۲؎ الفتاوی الخیر یۃ مسائل شتّٰی دارالمعرفۃ بیروت ۲/ ۲۳۴)

اسی میں ہے: والعالم یقدم علی القرشی الغیر العالم والدلیل علٰی ذلک تقدم الصھرین علی الختنین و ان کان الختن اقرب نسبا منھم ۔۱؂ قرشی غیر عالم پر عالم کو تقدم حاصل ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سسُر آپ کے دامادوں پر مقدم ہیں حالانکہ نسب کے اعتبار سے داماد بنسبت سسر کے اقرب ہوتا ہے۔(ت)

( ۱ ؎ الفتاوی الخیریۃ مسائل شتّٰی دارالمعرفۃ بیروت ۲/ ۲۳۵)

ولہذا رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سرداری حضرات سبطین کریمین کو حفظ تعمیم کے لیے جوانان اہلِ جنت سے خاص فرمایا۔ الحسن والحسین سید ا شباب اھل الجنۃ ۔ حسین و حسین رضی اللہ تعالے عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔(ت)

کہ خلفائے اربعہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کو شامل نہ ہو، اور متعدد صحیح حدیثوں میں اسی کے تتمہ میں فرمادیا۔
وابوھما خیر منھما حسن و حسین جوانانِ اہلِ جنت کے سردار ہیں اور ان کا باپ ان سے افضل ہے۔ رواہ ابن ماجۃ والحاکم ۲؂ عن ابن عمر والطبرانی فی الکبیر عن قرۃ بن ایاس بسندحسن وعن مالک بن الحویرث والحاکم وصحہ عن ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔ اس کو ابن ماجہ اور حاکم نے ابن عمر سے اور طبرانی نے معجم کبیر میں قرہ بن ایاس سے سندِ حسن کے ساتھ مالک بن حویرث و حاکم سے روایت کیا ہے اور ابن مسعود نے اس کی تصحیح کی ہے رضی اللہ عنہم (ت)

( ۲ ؎ سنن ابن ماجہ فضل علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۲ )
(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت ۳/ ۱۶۷)
(المعجم الکبیر حدیث ۶۵۰ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۹ /۲۹۲)

اور ارشاد ہوا: ابوبکر و عمر خیر الاولین والاخرین و خیر اھل السموٰت وخیر اھل الارضین الاالنبیین والمرسلین ۔۳؂ ابوبکر و عمر سب اگلوں پچھلوں سے افضل ہیں اور سب آسمان والوں اور سب زمین والوں سے افضل ہیں سوا انبیاء مرسلین کے علیہم الصلوۃ والتسلیم (ت)

( ۳ ؎ کنزالعمال حدیث ۳۲۶۴۵ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱/ ۵۶۰)