مسئلہ ۱۰۸: بمعرفت سید ضمیر الحسن صاحب ۱۲ جمادی الاولٰی ۱۳۳۷ھ
جناب بھائی صاحب دام اقبالہ، مؤدبانہ گزارش ہے کہ جس رسالہ کے بارے میں تذکرہ کیا تھا وہ اس وقت موصول ہوا، اس کا ایک اعتراض تحریر کرتا ہوں کیونکہ دوسرے لمبے چوڑے ہیں وہ بعد کو لکھوں گا آپ اس کو اعلٰیحضرت قبلہ و کعبہ کی خدمت عالی میں پیش کریں اور جواب خاکسار کے پاس روانہ فرمائیں، وہ اعتراض یہ ہے کہ ہم جو کہ ایمانی حالت نہایت کمزور رکھتے ہیں ہمارے واسطے حکم ہوتا ہے ۔ یؤمنون بالغیب ۔۱ بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ من یخافہ بالغیب ۔۲ کون ہے جو بے دیکھے ڈرتا ہے۔ الذین یخشون ربھم بالغیب وھم من الساعۃ مشفقون ۔۳ یہ نصیحت نامہ ان لوگوں کے واسطے ہے جو بے دیکھے خدا سے ڈرتے ہیں اور قیامت سے ڈرتے ہیں، انما تنذر من اتبع الذکر وخشی الرحمن بالغیب ۔۴ تم اُنہیں کو ڈراؤ جو سمجھانے پر چلے اور بغیر دیکھے رحمن سے ڈرے، من خشی الرحمن بالغیب وجاء بقلب منیب ادخلوھا بسلام ۔۵ جو شخص بے دیکھے خدا سے ڈرتا رہا اور دل گرویدہ لے کر حاضر ہوا ہم ایسے لوگوں سے فرمائیں گے سلامتی کے ساتھ اس بہشت میں داخل ہوجاؤ ۔ من ینصرہ ورسولہ بالغیب ۔۶ جو لوگ بغیر دیکھے خدا اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں۔ ان الذین یخشون ربھم بالغیب لھم مغفرۃ واجرکبیر ۔۷ جو لوگ خدا سے بغیر دیکھے ڈرتے ہیں اُن کے واسطے بڑا اجر ہے۔
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۲ )( ۲ ؎ القرآن الکریم ۵/ ۹۴)(۳ ؎ القرآن الکریم ۲۱/ ۴۹ )( ۴؎ القرآن الکریم ۳۶/ ۱۱)
( ۵؎ القرآن الکریم ۵۰/ ۳۳ ) ( ۶؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۲۵) ( ۶؎ القرآن الکریم ۶۷/ ۱۲)
غرضکہ متعدد آیات جن میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ بغیر دیکھے ایمان لاؤ، آج کل فلسفہ ، سائنس اور کیمسٹری نے وہ کچھ زور باندھا ہے کہ معمولی سے معمولی سمجھ والا بھی بغیر دیکھے ایمان لانے کو تیار نہیں۔ جن ، بھوت ، پری، چڑیل کے قصے چند روز ہوئے کہ ہمارے دلوں پر بڑا بھاری اثر کیے ہوئے تھے مگر اب جوں جوں سائنس کی ہوا لگتی جاتی ہے ان باتوں سے انکار ہوتا چلا جاتا ہے اور مشاہدے کے بغیر کسی بات کے ماننے کے واسطے ہم تیار ہی نہیں ہوتے، اس لیے آجکل یہ بڑی مشکل بات ہے کہ بلا مشاہدہ کے کوئی شخص کسی بات کو تسلیم کرلے جب کہ آج سے چند ہزار سال پہلے ایک اولو العزم بلکہ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ قرآن شریف میں موجود ہے۔
واذ قال ابراہیم رب ارنی کیف تحی الموتٰی قال اولم تؤمن قال بلی ولکن لیطمئن قلبی ۔۱ اور جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب سے کہا تھا کہ میرے رب مجھے دکھا کہ تو کس طرح مردوں کو زندہ کرے گا، خدا نے پوچھا کیا تو ہماری اس بات پر ایمان نہیں لاتا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہاں ایمان تو لایا ہوں مگر اطمینان قلب کی خاطر دیکھنا چاہتا ہوں۔
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۶۰)
ہر شخص جانتا ہے کہ ایمان لانا دل کے ساتھ ہوتا ہے زبانی جمع خرچ کا نام ایمان نہیں، اگر فی الحقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اس بات پر ایمان لائے ہوتے تو اطمینان قلب ضرور ہوتا اب اعتراض یہ ہے کہ اُس زمانہ میں جب کہ سائنس اور فلسفہ نے انسان کو اس قدر ہوشیار نہیں کیا تھا اُس وقت کے لوگ تو یہ حق رکھتے تھے کہ وہ دیکھ بھال کر کھوٹا کھرا جانچ کر ایمان لائیں تو بھلایہ کس قدر انصاف پر مبنی ہے کہ اس روشنی کے زمانے میں یہ نادر شاہی حکم ہو کہ تم پوچھو گچھو دیکھو بھالو نہیں بغیر دیکھے ہی ایمان لے آؤ۔اول تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی تھے اور نبی بھی ایسے نبی جن کی اولاد سے کئی ہزار نبی پیدا ہوئے اور خاتم النبین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر فخر کیا کہ : قل بل ملۃ ابراہیم حنیفا ۔۲ ( تم فرماؤ بلکہ ہم تو ابراہیم علیہ السلام کا دین لیتے ہیں۔ ت)
( ۲ ؎ القرآن الکریم ۲/۱۳۵)
دوسرے نبی نبا سے نکلا ہے نبا خبر کو کہتے ہیں، نبی کے معنی غیب کی خبریں پانے والا۔ اور غیب کی خبر ایک ایسی نعمت غیر مترقبہ ہے کہ جو ہر مرتبہ ایمانی ترقی کا ذریعہ ہوئی ہے کائنات عالم کی خبریں اﷲ تعالٰی انہیں دیتا رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ نہایت مسرور رہتے ہیں ان باتوں کو مدنظر رکھ کر اب غور کیجئے کہ جو رات دن خارق عادت خبریں پارہے ہیں وہ تو یہ حق رکھیں کہ مجھے یہ دکھادے کہ تو کس طرح مردوں کو زندہ کرے گا، اور ہم جو کہ اس موجودہ سائنس اور فلسفہ کے روز افزوں سیلاب میں ڈوبے جارہے ہیں ہمیں یہ نادر شاہی حکم ہو کہ بغیر دیکھے ایمان لے آؤ۔ کیا یہ انصاف ہے؟ لوگو! خدا کے لیے جواب دو۔ اس نئی روشنی نے جو غضب ڈھایا ہے وہ حسب ذیل نوٹ سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ جب تک یہ سائنسدان پیدا نہیں ہوئے تھے دنیا اس قدر نرم دل واقع ہوئی تھی کہ خدا کی ہستی سے انکار کسی کو بھی نہ تھا بلکہ معمولی سے معمولی چیزوں کو بھی وہ خدا تسلیم کرلیا کرتے تھے۔ چنانچہ تاریخ عالم آپ کو یہ بتادے گی کہ کوئی مذہب ایسا نہیں تھا کہ جن کو ہستی باری تعالٰی سے انکار ہو۔ اس کے برعکس ایسے لوگ موجود تھے کہ آگ، پتھر، درخت ، آفتاب، ستارہ، چاند ، دریا، جانور تک کو خدا مانتے تھے، ایک چھوڑ کئی کئی خدا کے ماننے والے موجود تھے انکار کسی کو بھی نہ تھا مگر ڈارون جیسوں کی تھیوریز نے پیدا ہو کر سرے سے خدا ہی کو اڑا دیا اور کہنے لگے یہ سب کچھ خود بخود سے ہے کوئی خدا نہیں یہ جاہلوں کی باتیں ہیں۔ اب ذرا غور کریں کہ یہاں تو سرے سے خدا کا ہی انکار ہے اس حالت میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی بلا دلیل خدا کے احکامات پر بلا دیکھے ایمان لاسکے تعجب ہے کب جب حضرت انسان اپنی حقیقت سے بھی ناواقف تھا اور ایک وحشی کی طرح زندگی بسر کررہا تھا اس وقت تو اس کو یہ حق حاصل تھا کہ یہ دیکھ بھال کر ٹھونک بجا کر ایمان لائے اور جب کہ انسان آگ، پانی، ہوا، بجلی پر حکمرانی کرتے کرتے ترقی کے آسمان پر پرواز کرکے تاروں سے گفت و شنید کی فکر میں منہمک ہو اس وقت کے واسطے یہ قانون پاس ہوجائے کہ جی بغیر دیکھے ایمان لے آؤ کس قدر انصاف ہے، اور پھر جب کہ نبی تو دیکھ بھال کر ایمان لائیں اور ہم کمزور انسانوں کے واسطے یہ حکم ہو کہ بغیر دیکھے ایمان لے آؤ تمہیں بتاؤ کہ ہم ان سے زیادہ حقدار ہیں یا نہیں؟ ہر شخص اس کا یہی جواب دے گا کہ ہاں بے شک ہم انبیاء سے زیادہ دیکھ بھال کر ایمان لانے کے مستحق ہیں کیونکہ ہم نے تجلیات اللہ کا ایک پر تو بھی نہیں دیکھا ، اور نہ ہم دیکھ سکتے ہیں وحیِ الہٰی نبوت حضرت رسول کریم خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ختم ہوگئی، اور بقول احمدیوں کے یہ بھی مان لیا جائے کہ نبوت کا راستہ بند نہیں ہوا تو یہ بھی غیر ممکن ہے کہ تمام دنیا نبی بن جائے۔
الجواب : اﷲ عزوجل اپنی لعنت سے بچائے، جب لعنت الہی اترتی ہے دل کی آنکھیں پھوٹ جاتی ہیں اچھا خاصا ہوش و حواس والا پکا پاگل ہوجاتا ہے اسے اپنی ہی ہستی سجھائی نہیں دیتی اپنے افعال اقوال رات دن کے مسلمات ایسا بھول جاتا ہے گویا نہ یہ انسان ہے نہ انسان کے نطفے سے بنا ، نہ کبھی انسان کی اسے ہو الگی۔ واقعات دیکھنے والی آنکھ بند ہوجاتی ہے اور مہملات بکنے والا منہ کھل جاتا ہے۔
(۱) علم کے اسباب تین ہیں: عقل ، حواس، خبر صادق،۔ حواس پانچ ہیں جن میں دیکھنا صرف ایک سے متعلق ہے تو علم کے ساتھ ذریعہ ہوئے، جو اندھا کہے کہ بے دیکھے نہ مانیں گے وہ سات میں سے چھ ذریعہ علم کو باطل کرچکا اور اگر ظاہر کا بھی اندھا ہے تو وہ ساتواں بھی گیا۔
(۲) یہ تو گدھے سے بھی بدتر ہوا، وہ بھی جانتا ہے کہ دیکھنے کے سوا اور بھی ذرائع علم ہیں دور سے شیر کی آواز سنے گا یا بو سونگھے گا تو جان توڑ کر سرپٹ بھاگے گا مگر یہ گدھے سے بھی احمق تر وہیں کھڑا رہے گا کہ شیر کو دیکھا تو ہے ہی نہیں بے دیکھے ماننا کیا معنی۔
(۳) سائنس والے ہوا کے معتقد ہیں یا نہیں ہیں، تو بے دیکھے کیونکر۔
(۴) سائنس والے صدہا باتوں میں خود مختلف ہیں ، دیکھی ہوئی بات میں اختلاف کیا، کیا سب اندھے ہیں یا ان میں سے ایک انکھیارا ضرور بے دیکھی باتوں میں اٹکلیں دوڑاتے اور ہر ایک اپنی مانتا ہے۔
(۵) اقلیدس کا مسئلہ ہے کہ کرہ کی نسبت کرہ کی طرف ، قطر کی نسبت قطر کی طرف ہے، مثلثہ بالتکریر مثلاً ایک کرہ کا قطر دوسرے کا ۲/۱ ہے تو یہ کرہ اس کا ۸/۱ ہوگا، یا ۳/۱ ہے تو ۲۷/۱ یہ کن آنکھوں سے دیکھ کر مانا۔
(۶) ارثماطیقی کا مسئلہ ہے کہ نسبت مجذورین مجذور نسبت جذرین ہے، یہ کن آنکھوں سے دیکھی۔
(۷) جبرو مقابلہ کا مسئلہ ہے کہ نصف سرلا کا مجذور طرفین میں شامل کرنے سے یعنی جو مساوات اس صورت کی ہو : لا۲ + ص لا = ط اس میں (۲/ص )۲ یا ۴/ص۲ ملانے سے مجذور کامل ہوجاتا ہے ۔ اگرچہ پہلے بھی کامل ہو، یہ کن آنکھوں سے دیکھ کر مانا۔ اسی طرح ان فنون اور ان کے سوا دیگر علوم کے لاکھوں مسائل ہیں کہ بے دیکھے مان لیتے ہیں۔
(۸) یہ معترض اور ہر (شخص) اپنی ماں کویقیناً اپنی ماں جانتا ہے ان میں سے کس نے اپنے آپ کو اس کے پیٹ سے پیدا ہوتے دیکھا ہے۔
(۹) ماں تو ماں اُن میں سے جو کوئی باپ رکھتا ہے اُسے کبھی شبہہ نہیں ہوتا کہ اس نے اپنے آپ کو اس کی پیٹھ سے اُترتے اور ماں کے پیٹ میں داخل ہوتے نہ دیکھا پھر کیونکر اس کے باپ ہونے پر اعتقاد رکھتا ہے۔
(۱۰) ان میں لاکھوں ہوں گے جنہوں نے لندن آنکھوں سے نہ دیکھا پھر کیسا اندھا پن ہے کہ بے دیکھے اس کا یقین رکھتے ہیں۔
(۱۱) ایسے پاگل پن کا اعتراض کرنے والوں کو نہ صرف قانونِ الہٰی بلکہ قانون گورنمنٹ پر بھی کھُلا انکار ہوگا کہ ہم نے واضعانِ قانون کو یہ قانون بناتے نہ دیکھا ہم کیونکر مان لیں۔
(۱۲) قانون بالائے طاق و ہ قیصر ہند کی سلطنت سے بھی انکار کریں گے کہ ہم نے نہ قیصرِ ہند کو دیکھا نہ ہمارے سامنی تاجپوشی ہوئی ہم کیوں تسلیم کریں۔
بالجملہ اس کی لاکھوں مثالیں ہیں جو اشقیاء خود روزمرہ برت رہے ہیں، مگر اللہ واحد قہار پر اعتراض کرنے کے لیے اُن کو بھلاتے اور ناپاکی کا منہ پھیلاتے ہیں، رب عزوجل نے غیب پر بے دلیل ایمان لانے پر مجبور نہیں فرمایا بلکہ براہین قاطعہ و دلائل ساطعہ قائم فرمائے انبیاء بھیجے انہیں معجزات دیئے آفاق و انفس میں اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں ان کے ماننے کیطرف بلایا ہے، کافر سے اس کی کیا شکایت کہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھنے سے پہلے ایمان سے خالی بتایا مگر یہ کہے کہ اس واقعہ سے اس کا استدلال تحقیقاً ہے یا الزاماً ، اگرتحقیقاً ہے تو خود اپنے سارے جھوٹ کو جہنم میں ڈال دیا، جہنم سے مراد دوزخ نہیں، اس پر تو ایمان ہی نہیں رکھتا، اس دن ایمان لائے گا ۔ یوم یدعون الٰی نارجھنم دعا ، ھٰذہ النار التی کنتم بہا تکذبون ، افسحرھٰذاام انتم لا تبصرون ۔۱ جس دن دھکے دے کر جہنم کی آگ میں ڈالے جائیں گے، یہ ہے وہ آگ جسے تم جھٹلاتے تھے ، کیا یہ جادو ہے یا تمہیں سوجھتا نہیں، بلکہ میری مراد یہ ہے کہ اس نے اپنی تمام جھوٹی خباثتوں کو بھڑکتی آگ میں ڈال کر بھسم کردیا، بے دیکھے کیونکر اعتقاد لایا کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ واقعہ ہوا۔ اور اگر الزاماً ہے تو خود اس گفتگو میں تصریح ہے کہ بیشک مجھے ایمان ہے اس کی کیفیت کی قلب کو تلاش ہے کہ اس کے وقوع کا کیا طریقہ ہوگا دیکھنے سے اس کا اطمینان چاہتا ہوں اندھا سوال ہی کو دیکھے یہ عرض نہ کی کہ ر ب اتحی الموت اے میرے رب ! کیا تو مُردے جِلائے گا کہ معاذ اﷲ جلانے میں شک سمجھاجائے بلکہ یہ عرض کی کہ رب ارنی کیف تحی الموتٰی ۔۲ اے میرے رب ! جس طرح تو مردے جِلائے گا وہ صورت مجھے آنکھوں سے دکھادے ۔ ولکن الظّٰلمین بایت اﷲ یجحدون ، ۔۳ ولاحول ولاقوۃ الّا باﷲ العلی العظیم، واﷲ تعالٰی اعلم (مگر ظالم اﷲ تعالٰی کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں، نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر بلندی و عظمت والے خدا کی طرف سے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۵۲/ ۱۳ و ۱۴ و ۱۵)( ۲ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۶۰)( ۳ ؎ القرآن الکریم ۶/ ۳۳)