مسئلہ ۱۰۷: از شہر بریلی مدرسہ منظر الاسلام مسؤلہ امام بخش طالب علم مدرسہ مذکور ۱۵ جمادی الاخرہ ۱۳۳۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا یہ قول ہے کہ قیام ناجائز ہے اور اس کی دلیل امام اعظم صاحب کا قول پیش کرتا ہے بطورِ ا فتراء کہ ہمارے امام صاحب خود کبھی کبھی قیامت نہیں فرماتے تھے جب ہم ان کی تقلید کرتے ہیں تو ہر ایک بات میں تقلید کرنا چاہیے تو اس صورت میں کہ ہم قیام نہیں کرتے الزام نہیں ہوسکتا اور زید کا یہ قول کہ امام اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی کبھی کبھی قیام نہیں فرماتے تھے یہ صحیح ہے یا نہیں، اگر زید امام اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ پر افتراء کرتا ہے تو ایسے شخص کے واسطے کیا حکم ہے؟ زید کہتا ہے کہ صاحبِ مرقات کا قول یہ ہے کہ جو امر مندوب ہے اس پر تاکید کرنے سے مکروہ ہوجاتا ہے، قیام مستحب ہے پھر اس پر اس قدر تاکید کیوں ہے یہاں تک کہ رسالہ بازیوں تک نوبت پہنچ گئی، قبل نماز عصر چار رکعت سنت مستحب ہے، اس پر تاکید کیوں نہیں کرتے، قیام پر کیا خصوصیت ہے اور قیام کرنے والوں کو کیا ثواب ملے گا؟ اور منکرِ قیام کو کیاعذاب ہوگا ؟ میلاد شریف میں کچھ لوگوں نے قیام کیا اور کچھ لوگوں نے نہیں کیا اُن کے واسطے کیا حکم ہے؟ جو لوگ صرف قیام کے منکر ہیں یا پورے دیوبندی خیال کے ہیں ان کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں۔
الجواب : اس نے امام پر افترا کیا اور قیام مندوب ہے اگر بعض اوقات اس لحاظ سے کہ واجب نہیں ساری مجلس قیام نہ کرتی اور اس کے ساتھ یہ خیال وہابیت نہ ہوتا تو حرج نہ تھا اوراب یہ قیام شعارِ اہلسنت ہوگیا ہے اور اس سے ان کا اشعارِ وہابیت اور شعارِ سنیت کا لحاظ ضرور موکدہ ہے۔
عصر سے پہلے کے نوافل نہ شعارِ سنیت ہیں نہ ان کے ترک میں کوئی تہمت و گمراہی ، خصوصاً اس حالت میں کہ مجلس قیام کرے اور بعض بالقصد مخالفتِ مسلمین کرکے بیٹھے رہیں ، منکر قیام اگر بالفرض ایسا پایا جائے کہ صرف اسی مسئلہ میں اس کو شبہہ ہے نہ بہ علت وہابیت نہ بربنائے اصولِ وہابیت او رتمام مسائل میں موافق اہلسنت ہے، وہابیہ کو گمراہ بے دین جانتا ہے تو اس کے پیچھے نماز میں حرج نہ ہوگا، مگر ہندوستان میں شاید ایسا شخص معدوم ہو۔ رہے دیوبندی اور ان کے ہم خیال وہ مرتدین ہیں مرتد کے پیچھے نماز کیسی!