مسئلہ ۱۰۵ : ۱۷ جمادی الاولٰی ۱۳۳۷ھ
علمائے اہلسنت و جماعت کی خدمت میں گزارش ہے کہ آج کل اکثر سنت و الجماعت فرقہ باطلہ کی صحبت میں رہ کر چند مسائل سے بدعقیدہ ہوگئے ہیں اگرچہ حضور کی تصانیف کثیرہ میں ہر قسم کے مسائل موجود ہیں لیکن احقر کی نگاہ سے یہ مسئلہ نہیں گزرا ، اسی واسطے اس مسئلے کی ضرورت ہوئی، اور نیز عوام کا ایمان تازہ ہوگا اور بدعقیدہ لوگ گمراہی سے باز آئیں گے، منجملہ اُن کے ایک مسئلہ ذیل میں تحریر ہے۔
امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت زید کہتا ہے کہ وہ لالچی شخص تھے، حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ اور آلِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یعنی امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ سے لڑ کر انکی خلافت لے لی اور ہزار ہا صحابہ کو شہید کیا۔ بکر کہتا ہے کہ میں ان کو خطا پر جانتا ہوں ان کو امیر نہ کہنا چاہیے ۔ عمرو کا یہ قول ہے کہ وہ اجلہ صحابہ میں سے ہیں ان کی توہین کرنا گمراہی ہے ایک اور شخص کو اپنے آپ کو سنی المذہب کہتا ہے اور کچھ علم بھی رکھتا ہے، ( حق یہ ہے کہ وہ نرا جاہل ہے) وہ کہتا ہے کہ سب صحابہ اور خصوصاً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عمر فاروق اعظم اور حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالی عنہما لالچی تھے (نعوذ باللہ منھا) کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی نعش مبارک رکھی تھی اور وہ اپنے اپنے خلیفہ ہونے کی فکر میں لگے ہوئے تھے۔ ان چاروں شخصوں کی نسبت کیا حکم ہے؟ ان شخصوں کو سنت وا لجماعت کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ اور حضور کا اس مسئلہ میں کیامذہب ہے؟
جواب مدلل عام ارقام فرمائیے۔
الجواب : اﷲ عزوجل نے سورہ حدید میں صحابہ سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم وسلم کی دوقسمیں فرمائیں، ایک وہ کہ قبل فتح مکہ شریف مشرف بایمان ہوئے اور راہِ خدا میں مال خرچ کیا جہاد کیا۔ دوسرے وہ کہ بعد پھر فرمایا۔ وکُلّا وعداﷲ الحسنی ۔۱ دونوں فریق سے اﷲ تعالٰی نے بھلائی کا وعدہ فرمایا، اور جن سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے ان کو فرماتا ہے، اولئک عنہا مبعدون وہ جہنم سے دور رکھے گئے، لایسمعون حسیسہا اس کی بھنک تک نہ سنیں گے۔ وھم فی مااشتھت انفسھم خلدون oلایحزنھم الفزع الاکبر اور وہ اپنی من مانتی خواہشوں میں ہمیشہ رہیں گے قیامت کی سب سے بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی۔ وتتلقّٰھُم الملئکۃ فرشتّے اُن کا استقبال کریں گے۔ ھذا یومکم الذی کنتم توعدون ۲ یہ کہتے ہوئے کہ یہ تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰ ) ( ۲ ؎ القرآن الکریم ۲۱ /۱۰۱ تا ۱۰۳)
رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ہر صحابی کی یہ شان اﷲ عزوجل بتاتا ہے، تو جو کسی صحابی پر طعن کرے اﷲ واحد قہار کو جھٹلاتا ہے، اور ان کے بعض معاملات جن میں اکثر حکایات کا ذبہ ہیں ارشاد الہی کے مقابل پیش کرنا اہل اسلام کا کام نہیں، رب عزوجل نے اُسی آیت میں اس کا منہ بھی بند فرمادیا کہ دونوں فریق صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے بھلائی کا وعدہ کرکے ساتھ ہی ا رشاد فرمایا واللہ بما تعملون خبیر ۔۳ اور اللہ تعالٰی کو خوب خبر ہے جو کچھ تم کرو گے۔ بااینہیہ میں تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا ۔
اس کے بعد کوئی بکے اپنا سر کھائے خود جہنم جائے۔ علامہ شہاب الدین خفا جی نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں: ومن یکون یطعن فی معاویۃ فذالک کلب من کلاب الھاویۃ ۔۴ جو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتوں میں سے ایک کتّا ہے۔
(۳ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰)
( ۴ ؎ نسیم الریاض الباب الثالث مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات الہند ۳/ ۴۳۰)
اُن چار شخصوں میں عمر کا قول سچا ہے، زید و بکر جھوٹے ہیں، اور چوتھا شخص سب سے بدتر خبیث رافضی تبرائی ہے۔ امام کا مقرر کرنا ہر مہم سے زیادہ ہے تمام انتظامِ دین و دنیا اسی سے متعلق ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جنازہ انور اگر قیامت تک رکھا رہتا اصلاً کوئی خلل متحمل نہ تھا، انبیاء علیہم السلام کے اجسام طاہرہ بگڑتے نہیں، سیدنا سلیمن علیہ الصلوۃ والسلام بعد انتقال ایک سال کھڑے رہے سال بھر بعد دفن ہوئے ، جنازہ مبارکہ حجرہ ام المومنین صدیقہ میں تھا جہاں اب مزار انور ہے اس سے باہر لے جانا نہ تھا، چھوٹا سا حجرہ اور تمام صحابہ کو اُس نماز اقدس سے مشرف ہونا ایک ایک جماعت آتی اور پڑھتی اور باہر جاتی دوسری آتی، یوں یہ سلسلہ تیسرے دن ختم ہوا۔ اور اگر تین برس میں ختم ہوتا تو جنازہ اقدس تین برس یوں ہی رکھا رہنا تھا کہ اس وجہ سے تاخیر دفن اقدس ضروری تھی۔
ابلیس کے نزدیک یہ اگر لالچ کے سبب تھا سب سے سخت تر الزام امیر المومنین علی کرم اللہ تعالی وجھہ پر ہے یہ تو لالچی نہ تھے اور کفن دفن کا کام گھر والوں سے ہی متعلق ہوتا ہے یہ کیوں تین دن ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ انہیں نے رسول کا یہ کام کیا ہوتا یہ پچھلی خدمت بجالائے ہوتے۔ تو معلوم ہوا کہ اعتراض ملعون ہے اور جنازہ انور کا جلد دفن نہ کرنا ہی مصلحت دینی تھی جس پر علی مرتضی اور سب صحابہ نے اجماع کیا مگر۔
چشم بد اندیش کہ برکندہ باد عیب نماید بہ نگاہش ہنر (بدخواہ کی آنکھ برباد ہوجائے اس کی نگاہ میں ہنر بھی عیب نظر آتا ہے۔ت)
یہ خبثاء خذلہم اﷲ تعالٰی صحابہ کرام کو ایذا نہیں دیتے ۔ حدیث شریف میں ہے۔ من اٰذاھم فقد اٰذانی ومن اٰذانی فقد اٰذی اﷲ ومن اٰذی اﷲ یوشک ان یاخذہ ۔۱ جس نے میرے صحابہ کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے گرفتار کرے ، والعیاذ باﷲ واﷲ تعالٰی اعلم۔
( ۱ ؎ جامع الترمذی ابواب المناقب باب من سب اصحابہ صلی اللہ علیہ وسلم ، امین کمپنی دہلی ۲/ ۲۲۶)