عقائد متعلقہ ذات و صفات الٰہی, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ

خبر الہی مثل علم الہی ہے

مسئلہ ۱۰۴: از کانپور مرسلہ مولانا محمد آصف صاحب ۱۵ جمادی الاولٰی ۱۳۳۷ھ
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ۔
یا حبیب محبوب اﷲ روحی فداک، قبلہ کونین و کعبہ دارین دامت فیوضہم بعد تسلیمات فدویانہ و تمنائے حصول سعادت آستانہ بوسی ، التماس اینکہ بفضلہ تعالٰی کمترین بخیریت ہے صحتوری حضور کی مدام بارگاہِ احدیث سے مطلوب۔ گرامی نامہ صادر ہو کر موجب عزت و سرفرازی ہوا۔ فدوی نے اس آیت قرآنی فمنھم شقی وسعید ۔۴؂ ( تو ان میں کوئی بدبخت ہے اور کوئی خوش نصیب۔ت) کی تفسیر ، تفسیر کبیر میں دیکھی۔

واما الذین سعد وا ففی الجنۃ خٰلدین فیہا مادامت السمٰوٰت والارض الا ماشاء ربّک عطاء غیر مجذوذ ۔ ۱ ؎ اور جو خوش نصیب ہوئے وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین رہیں مگر جتنا تمہارے رب نے چاہا یہ بخشش ہی کبھی ختم نہ ہوگی۔(ت)کے متعلق لکھا ہے: الاستثناء فی باب السعداء یجب حملہ علٰی احدالوجوہ المذکورۃ فیما تقدم وھناوجہ اٰخروھوانہ ربما اتفق لبعضھم ان یرفع من الجنۃ الی العرش والی المنازل الرفیعۃ التی لایعلمھا الا اﷲ تعالٰی ۔۲؂ خوش نصیبوں کے بارے میں استثناء کو ماقبل میں مذکور وجوہ میں سے کسی ایک پر محمول کرنا لازم ہے اور یہاں پر ایک دوسری وجہ ہے وہ یہ کہ بسا اوقات بعض کے لیے یہ اتفاق ہوتا ہے کہ اسے جنت سے عرش اور ان بلند منزلوں کی طر ف رفعت بخشی جاتی ہے جن کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔(ت)

( ۴ ؎ القرآن الکریم ۱۱/ ۱۰۸)
(۱؂ القرآن الکریم ۱۱/ ۱۰۸)
(۲؂ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر ) تحت آیت ۱۱/ ۱۰۸ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر ۱۸/ ۶۷)

اگر کوئی کہے کہ الفاظ غیر مجذوذ سے معلوم ہوا کہ عطا غیر منقطع ہوگی مگر استثناء ماشاء ربک ہے قدرت منقطع کرنے پر معلوم ہوتی ہے اگرچہ ہر گز ہر گز مشیئت منقطع کرنے کے لیے متعلق نہ فرمائے گا تو اس کا کیا جواب ہے حضور کا رسالہ جلد اول سبحن السبوح فدوی کے پاس ہے۔

مولانا مولوی امجد علی صاحب سے چند کتابیں مثل ظفر الطیب وغیرہ ونیز جلد ثانی سبٰحن السبوح کی کمترین نے بذریعہ ویلوطلب کی ہیں کتاب صیانۃ الناس عن وساوس الخناس تصنیف مولانا نذیراحمد خاں صاحب مرحوم رامپوری میں لکھا ہے۔ اخبارِ وعدہ ثواب کا قطعی ہونا اور مشیت پر مبنی نہ ہونا واجب ہے کہ اس کے خلاف میں لوم ہے جس سے خدائے تعالٰی پاک ومنزہ ہے۔

قال عبدالحکیم فی الحاشیۃ علی الخیالی لعل مراد ذٰلک البعض بقولھم ان الخلف فی الوعید کرم ان الکریم اذا زجر بالوعید فاللائق بحالہ و مقتضی کرمہ ان یبتنی اخبارہ علی المشیۃ فجمیع ا لعمومات الواردفی الوعید متعلقۃ بالمشیۃ وان لم یصرح بھا زجر اللعاصین ومنعاً لھم فلا یلزم الکذب والتبدیل بخلاف وعدالکریم فانہ یجب ان یکون قطعیا لان الخلف فیہ لوم فلا یجوز تعلیقہ بالمشیۃ ۔۱؂

ملا عبدالحکیم نے خیالی کے حاشیہ مین کہا، شاید اس بعض کی مراد اپنے اس قول سے کہ وعید میں خلف کرم ہے یہ ہو کہ کریم جب وعید کے ساتھ زجر فرمائے تو اس کے حال کے لائق اور اس کے کرم کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وعید کے بارے میں اس کی خبر مشیت پر مبنی ہو۔ چنانچہ وعید کے سلسلے میں وارد تمام عمومات مشیت کے ساتھ منسلک ہیں اگرچہ نافرمانوں کی زجرو توبیخ اور انہیں گناہ سے باز رکھنے کی خاطر کریم نے اس کی تصریح نہ کی ہو لہذا اس میں جھوٹ اور تبدیلی لازم نہیں آتی بخلاف کریم کے وعدے کے اس کا قطعی ہونا واجب ہے اس لیے کہ اس میں خلف لوم ہے چنانچہ اس کو مشیت پر معلق کرنا جائز نہیں(ت)

( ۱ ؎ حاشیہ عبدالحکیم علی الحکیم الخیالی مطبع یوسفی لکھنؤ ص ۱۲۶)

دوسرا خط عریضہ ملفوف تخمیناً بارہ روز ہوئے ہوں گے، فدوی روانہ خدمت فیضد رجت کرچکا ہے ہنوز جواب سے محروم ہے، اُس عریضہ میں متعلق آیت فمنھم شقی وسعید دریافت کیا تھا کہ اہل جنت کی بابت بعد مادامت السموٰت والارض ( جب تک آسمان و زمین رہیں گے۔ت) کے الاماشاء ربک ( مگر جتنا تمہارے رب نے چاہا۔ ت) سے اگر کوئی شبہہ کرے کہ قدرت خلود ابدی کے خلاف کرنے پر معلوم ہوتی ہے اگرچہ ہر گز خلاف وعدہ نہ فرمائے گا چنانچہ صراحۃً بھی عطاء غیر مجذوذ کے فرمادیا ہے تو کیا شبہہ ہے۔

تفسیر ابن جریرو عرائس البیان میں ہے: قال ابن مسعود لیا تین علی جہنم زمان تخفق ابوابھا لیس فیھا احد ۔ ۲؎ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ جہنم پر ضرور ایک ایسا زمانہ آئے گا جب اس کے تمام دروازے خالی ہوجائیں گے اور اس میں کوئی ایک شخص بھی نہیں رہے گا۔(ت)اس کا کیا مطلب ہے؟

( ۲ ؎ جامع البیان (تفسیر ابن جریر) تحت آیت ۱۱/۱۰۷ داراحیاء التراث العرابی بیروت ۱۲ /۱۴۲)

الجواب : بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلیّ علٰی رسولہ الکریم مولانا المکرم اکرمکم میں آج کل متعدد رسائل رَدوہابیہ خذلہم اﷲ تعالٰی میں مشغول تھا۔ خبر الہی مثل علم الہی ہے ان میں سے کسی کا خلاف ممکن نہیں، مگر یہ استحالہ بالغیر ہے، نفی قدرت نہیں کرتا علم الہی ازلی میں تھا کہ یہ زید کو فلاں وقت پیدا کرے گا اب واجب ہوا کہ زید اس وقت پیدا ہو، اگر نہ پیدا ہو تو معاذ اللہ جہل لازم آئے لیکن اس سے یہ لازم نہ آیا کہ مولا تعالٰی اس کو پیدا کرنے پر مجبور ہوگیا، نہ پیدا کرنے پر قادر نہ رہا ورنہ پھر جہل لازم آئے کہ علم میں تو یہ تھا کہ اپنی قدرت سے اسے پیدا کرے گا اور یہ نہ ہوا بلکہ معاذ اﷲ مجبور ہوگیا۔ حاشا بلکہ زید کا وجود وفنا ازلاً ابداً تحتِ قدرت ہے اور تعلق علم کے سبب جس وقت اس کا وجودِ علم الہی میں تھا وجود واجب ہے اور جس وقت فنا فنا واجب ہے کہ خلاف ہو تو جہل ہو اور جہل محال بالذات ہے اس محال بالذات نے ان ممکنات کو اپنے اپنے وقت میں واجب بالغیر کردیا اس سے معاذ اللہ نہ قدرت مسلوب ہوئی نہ جہل ممکن، بعینہ یہی بات خبر الہی میں ہے اس نے خبر دی کہ اہل جنت کو جنت میں ہمیشہ رکھے گا ان کا خلود واجب ہوگیا۔ اگر نہ ہو تو معاذ اللہ کذب لازم آئے۔ مگر اس سے انقطاع پر قدرت مسلوب نہ ہوئی خلودو انقطاع دونوں ازلاً ابداً زیر قدرت ہیں مگر تعلق خبر نے خلود کو واجب بالغیر کردیا اس سے نہ قدرت مسلوب ہوئی نہ معاذ اﷲ کذب ممکن۔ کذب کے محال بالذات ہونے ہی نے تو اس ممکن کو واجب بالغیر کردیا اگر اس سے کذب ممکن ہوجائے تو اسے واجب کون کرے، مولا عزوجل کے وعدو وعید کسی میں تخلف ممکن نہیں خود وعید ہی کے لیے ارشاد ہوا ہے۔ مایبدل القول لدی ۔۱؂ میرے یہاں بات بدلتی نہیں۔ت) جیسے وعدہ کوفرمایا : لن یخلف اﷲ وعدہ ۔۲؎ (اور اﷲ تعالٰی ہر گز اپنا وعدہ جھوٹا نہ کرے گا۔ت) بعض کے کلام میں کہ خلف وعید کا لفظ واقع ہوا تصریحات ہیں کہ اس سے مراد عفو ہے، یہ اگر معاذ اللہ امکانِ کذب ہو تو امکان کیسا وقوع ہوا کہ عفو یقیناً واقع ہوگا، اس کی مفصل بحث سبحٰن السبوح میں ہے آیہ کریمہ الا ماشاء ربک ۔۳؂ ( مگر جتنا تمہارے رب نے چاہا۔ت) کے وہ معنی بعونہ تعالٰی ذہنِ فقیر میں ہیں جن کے بعد ہر گز ہر گز کسی تاویل کی حاجت نہیں ، معنی ظاہر پر بلا تکلف مستقیم ہیں خلودِ اہل دارین کو عمر آسمان و زمین سے مقدر فرمایا ہے مادامت السموت والارض ۔۴؂ ( جب تک آسمان و زمین رہیں گے۔ت) ظاہر ہے کہ اس سے یہ بقائے آسمان وز مین مراد نہیں جو نفخِ صور پر منقطع ہے بلکہ سماء و ارض کہ روزِ قیامت اعادہ کیے جائیں گے اُن کی عمر مراد ہے جو ابدی ہے اور کچھ شک نہیں کہ اس کی مقدار جنتیوں کے جنت دوزخیوں کے دوزخ میں رہنے کی مقدار سے صدہا سال زائد ہے کہ انتہا نہ ان کو نہ اس کو، مگر اس کی ابتداء ان کی ابتداء سے سینکڑوں برس پہلے ہے شروع روزِ قیامت میں آسمان و زمین پیدا ہوجائیں گے لیکن جنتی جنت اور دوزخی دوزخ میں بعد حساب جائیں گے اور باہم بھی مقدار میں مختلف ہوں گے فقراء اغنیاء سے پانچسوبرس پہلے جنت میں جائیں گے تو جانب ابتدا میں ان کا خلود اُن سموات وارض کے دوام سے کم ہوا کسی کا مثلاً ہزار برس کم جیسی جس کے لیے مشیت ہوگی کسی کا دو ہزار برس کم، الٰی غیر ذلک اس کو فرماتا ہے ۔ الا ماشاء ربک۱؂ ( مگر جتنا تمہارے رب نے چاہا۔ ت) روایت لیا تیّن علٰی جہنم ۲؂ الخ دوزخ کے طبقہ اولٰی کے لیے ہے جس کا نام جہنم ہے اگرچہ مجموعہ کو بھی جہنم کہتے ہیں یہ طبقہ عصاۃ موحدین کے لیے ہے یہ بیشک ایک روز بالکل خالی ہوجائے گا جب لا الہ اﷲ کہنے والا کوئی اس میں نہ رکھا جائے گا۔، واﷲ تعالٰی اعلم۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۰ ۵ /۲۹)(۲ ؎ القرآن الکریم ۲۲ /۴۷)(۳؎ القرآن الکریم ۱۱/ ۱۰۷ و ۱۰۸)
( ۴؎ القرآن الکریم ۱۱/ ۱۰۷ و ۱۰۸)( ۱ ؎ القرآن الکریم ۱۱/ ۱۰۷ و ۱۰۸)
(۲ ؎ جامع القرآن (تفسیر ابن جریر) تحت آیت ۱۱/ ۱۰۷ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۲/ ۱۴۲)