مسئلہ ۱۰۲و ۱۰۳ : ازکھنڈل پوسٹ آفس کیوکٹو ضلع اکیاب مرسلہ محمد عبدالسلام مدرس چہارم گورنمنٹ اسلامیہ اردو اسکول ۱۴جمادی الاولٰی ۱۳۳۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بعض وہابی عالم کہتے ہیں کہ درود تاج پڑھنا حرام ہے اور رسول اﷲصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حق میں دافع البلاء والوباء والقحط والمرض والالم (مصیبت، وباء قحط سالی، بیماری اور دُکھ کو دُور کرنے والا۔ت) کا استعمال نازیبا بلکہ شرعاً ممنوع اور ایمان جانے کا خوف ہے۔ نعوذ باﷲ من ذٰلک، یہ قول حق ہے یا باطل؟ اگر حق ہو تو منکرین پر شرعاً کیا حکم؟
الجواب : رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بے شک دافع ہر بلا ہیں، ان کی شان عظیم توارفع واعلٰی ہے، اُن کے غلام دفع بلا فرماتے ہیں،
ابن عدی وابن عساکر عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اِنّمَّاسُمِیتُ اَحْیَدْ لِاَنِّی اُحِیْدُ عَنْ اُمَّتِیْ نَارَجَھَنَّمَ ۔۱ میرا نام اَحْیَدْ اس لیے ہوا کہ میں اپنی اُمت سے آتش دوزخ کو دفع فرماتا ہوں۔
( ۱ ؎ تاریخ دمشق الکبیر باب معرفۃ اسمائہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۲۱)
دوزخ سے بدتر اور کیا بلاہوگی جس کے دافع رسول ا ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں۔
بیہقی دلائل النبوۃ اور ابوسعد شرف المصطفی میں راوی، خفاف بن نضلہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ حاضرِ بارگاہِ ہو کر عرض کی۔ حتی وردت الی المدینۃ جاھدا کیما اراک فتفرج الکربات ۔۲ میں کوشش کرتا ہوا مدینہ میں حاضر ہوا کہ زیارت اقدس سے مشرف ہوں تو حضور میری سب مشکلیں کھول دیں۔
رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اُن کی عرض پسند کی اور تعریف فرمائی۔
( ۲ ؎ دلائل النبوۃ للبیہقی جماع ابواب المبعث سبب اسلام خفاف بن نضلہ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۲۶۱)
(شرف المصطفی ذکر اسلام خفاف بن نضلہ حدیث ۵۳ دارالبشائر الاسلامیہ ۱/ ۲۳۴)
منح المدح امام ابن سید الناس میں ہے حرب بن ریطہ صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی: لقد بعث اﷲ النبی محمدا بحق وبرھان الہدی یکشف الکربا ۔۳ (خدا کی قسم اﷲ عزوجل نے اپنے نبی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو حق اور قطعی دلیل ہدایت کے ساتھ ایسا بھیجا کہ حضور دافعِ بلا فرماتے ہیں)
( ۳ ؎ الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ بحوالہ ابن سیدالناس ترجمہ ۱۶۵۹ حرب بن ریطہ دارصا در بیروت ۱/ ۳۲۰)
عمر بن شبہ بطریق عامر شعبی راوی، اسود بن مسعودثقفی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی۔ انت الرسول الذی یرجی فواضلہ عندالقحوط اذاما أخطاالمطر ۔۱ یارسول اﷲ ! حضور وہ رسول ہیں جن کے فضل کی امید کی جاتی ہے قحط کے وقت جب مینہ خطاکرے۔
( ۱ ؎ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ترجمہ ۱۶۹ اسود بن مسعود ثقفی دارصادر بیروت ۱/ ۴۶)
ابن شاذان عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جنازے پر فرمایا۔ یا حمزہ یا کاشف الکربات یا حمزۃ یا ذاب عن وجہ رسول اﷲ ۔۲ اے حمزہ اے دافع البلا اے حمزہ اے چہرہ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے دشمنوں کے دفع کرنے والے۔
( ۲ ؎انسان العیون المعروف بالسیرۃ الحلبیۃ ذکرغزوہ احد المکتبۃ الاسلامیۃ بیروت ۲/ ۲۴۷)
کتب سابقہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ذکر شریف میں ہے ان کے دو نائب ہوں گے ایک سِن رسیدہ یعنی صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور دوسرے جوان یعنی فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اما الفتی فخواض غمرات و دفاع معضلات ۔۳ وہ جو جوان ہیں وہ سختیوں میں گھس پڑنے والے اور بڑے دافع البلا بڑے مشکل کشا ہوں گے۔
(۳)
رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: من کنت ولیہ فعلی ولیہ ۴؎ قال المناوی فی شرحہ یدفع عنہ مایکرہ ۔۵ یعنی میں جس کا مددگار ہوں علی المرتضٰی اس کے مددگار ہیں کہ ہر مکروہ کو اس سے دفع کرتے ہیں،
( ۴ ؎ الجامع الصغیر حدیث ۹۰۰۱ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲ /۵۴۲)
( ۵ ؎ التیسیرشرح الجامع الصغیر تحت حدیث من کنت ولیہ الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲/ ۴۴۲)
شاہ ولی اﷲ دہلوی ہمعات میں لکھتے ہیں: ازثمراتِ ایں نسبت است درمہالک و مضایق صورت آں جماعت پدید آمدن وحل مشکلات وے بآں صورت منسوب شدن ۔۶ ہلاکتوں اور تنگیوں میں اس جماعت ( اولیاء اللہ) کی صورت کا ظاہر ہونا اور حل مشکلات کا اس کی طرف منسوب ہونا اس نسبت کے ثمرات میں ہے ۔ت)
( ۶ ؎ ہمعات ہمہ ۱۱ شاہ ولی اﷲ اکیڈمی حیدر آباد ص ۵۹)
قاضی ثناء اﷲ تذکرۃ الموتٰی میں لکھتے ہیں: ارواحِ ایشاں یعنی اولیادر زمین وآسمان و بہشت ہر جا کہ خواہندمی روند و دوستان و معتقدان رادردنیا و آخرت مددگاری مے فرمایندو دشمناں را ہلاک می نمایند ۔۱ اولیاء اﷲ کی روحیں زمین ، آسمان اور جنت میں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں اور دنیا وآخرت میں اپنے دوستوں اور عقیدتمندوں کی مدد کرتی ہیں اور دشمنوں کو ہلاک کرتی ہیں (ت)
(۱ تذکرۃ الموتی باب در مقر ارواح مطبع محمدی لاہور ص ۳۰ )
اس مسئلہ کی کافی تفصیل ہماری کتاب الامن والعلٰی لناعتی المصطفٰی بدافع البلا میں ہے۔ درود تاج پڑھنے کو حرام کی طرف نسبت وہی کرے گا جو خود منسوب بحرام ہو۔ وہابیہ مرتدین ہیں ان کی بات سُننی جائز نہیں۔ وا ﷲ تعالٰی اعلم ۔
سوال ثانی : ازیں مقام وازیں سائل (سوال دوم اُسی جگہ سے اسی سائل کی طرف سے۔ت)
باادب داخل ہو اے دل محفل میلاد میں خود بدولت خود میں شامل محفلِ میلاد ہیں
ہمارے رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا محفل ِ مولود میں جلوہ افروز ہونا اس شعر سے صادق آتا ہے لیکن وہابی کہتا ہی کہ نہیں ہوسکتا۔ جلوہ افروز نہ ہونے کی کیا دلیل ؟
الجواب : وہابی کذاب جھوٹا ہے، امام خاتم الحفاظ جلال الملّۃ والدّین سیوطی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ تنویر میں فرماتے ہیں۔ قد اخبرنی الثقات من اھل الصلاح انھم شاھدوہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مرارا عند قراء ۃ المولود الشریف وعندختم القرآن وبعض الاحادیث ۔۲ مجھے ثقہ صالحین نے خبر دی کہ انہوں نے بارہا حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو مجلس میلاد شریف و جلسہ ختمِ قرآن عظیم و بعض احادیث میں مشاہدہ کیا۔
(۲ تنویر الحوالک )
نیز امام ممدوح تنویر پھر امام محمدث جلیل زرقانی شرح المواہب شریفہ میں فرماتے ہیں: انہ وسائر الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیھم وسلم اذن لھم فی الخروج من قبورھم للتصرف فی الملکوت العلوی والسفلٰی۔ ۱؎ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو اجازت ہے کہ آسمان و زمین کی سلطنت الہٰی میں تصرف فرمانے کے لیے اپنے مزارات طیبہ سے باہر تشریف لے جائیں۔
( ۱ ؎ الحاوی للفتاوی تنویر الحوالک فی امکان رؤیۃ النبی والملک دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۲۶۳)
علامہ زرقانی فرماتے ہیں: ونحوہ یاتی للمصنف فی غیر موضع من ھٰذاالکتاب ۔۲ یعنی اس کے مثل امام احمد قسطلانی نے مواہب شریفہ میں جا بجا تصریح فرمائی ہے۔
امام ابن حجر مکی فتاوی کبرٰی باب الجنائز میں فرماتے ہیں: روح نبیّنا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربما تظہرفی سبعین الف صورۃ ۔۳ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روح اقدس ستّر ہزار صورتوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
(۲؎ )
( ۳ ؎ الفتاوٰی الکبرٰی کتاب الصلوۃ باب الجنائز دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۹)
حضور عین نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شانِ اقدس تو بلند و بالا ہے، امام اجل عبداﷲ بن مبارک و ابوبکر بن ابی شیبہ استاد بخاری ومسلم حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے وقفاً اور امام احمد مسند اور حاکم صحیح مستدرک اور ابونعیم حلیہ میں بسندِ صحیح حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے رفعاً راوی، وھذاحدیث ابی بکر: اذا مات المؤمن یخلی سربہ یسرح حیث شاء ۔۴ جب مسلمان کا انتقال ہوتا ہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے جہاں چاہے جاتا ہے۔
( ۴ ؎ اتحاف السادۃ المتقین بحوالہ المصنف لابن ابی شیبہ کتاب ذکر الموت دارالفکربیروت ۱۰/ ۲۲۷)
ہم نے اپنے رسالہ اتیان الارواح لدیار ھم بعد الرواح میں اس پر بہت روایات ذکر کیں بلکہ حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مجالس طیبہ میں تشریف لانا بایں معنی نہیں کہ نہ تھے اور تشریف لائے کہ وہ تو ہر وقت مسلمانوں کے گھروں میں تشریف فرماہیں صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔
ملا علی قاری شرح شفا شریف میں فرماتے ہیں: لان روح النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حاضرۃ فی بیوت اھل الاسلام ۔۱ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روحِ اقدس ہر مسلمان کے گھر میں تشریف فرما ہے۔
( ۱ ؎ شرح الشفاء لملاّ علی القاری علی ہامش نسیم الریاض فصل فی المواطن الخ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۳ /۴۶۴)
بلکہ یہ معنی کہ مجلس مبارک میں تجلی خاص فرماتے ہیں، یہ اُن کے کرم پر ہے ہر جگہ ضرور نہیں اورجس ذلیل سے ذلیل بندے کو نوازیں کچھ دور نہیں۔
اگر بادشہ بردر پیر زن بیاید تو اے خواجہ سلبت مکن (اگر بادشاہ بوڑھی عورت کے دروازے پر تشریف لائے تو اے سردار ! مونچھ مت اکھاڑ، ت)
وہابی کہ اسے محال مانتا ہے کیا دلیل رکھتا ہے اﷲ عزوجل فرماتا ہے: قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صٰدقین ۔۲ اپنی برہان لاؤ اگر سچے ہو۔
( ۲ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۱۱ و ۲۷/ ۶۴)
دلیل کچھ نہیں سوا اس کے کہ ع انبیارا ہمچوخود پنداشتند (نبیوں کو وہ اپنے جیسا سمجھتے ہیں ۔ت)
وسیعلم الذین طلموا ای منقلب ینقلبون ۔۳ واﷲ تعالٰی اعلم عنقریب ظالم جان جائیں گے کہ کس کروٹ پر پلٹتے ہیں۔(ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
(۳ ؎ القرآن الکریم ۲۶/ ۲۲۷)