مسئلہ ۱۱ : اول : یزول ملکہ عن المسجد والمصلی بالفعل(ص) وبقولہ جعلتہ مسجدا ۔۱ 0
(۱ الدرالمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۷۹)
دوم : واذا بنی مسجدا لم یزل ملکہ عنہ حتی یفززہ عن ملکہ بطریقہ (ص) یاذن للناس بالصلٰوۃ فیہ ۱؎ جس شخص نے مسجد بنائی تو اس سے بانی کی ملکیت زائل نہ ہوگی جب تک اس کا راستہ الگ کرکے اُسے اپنی ملکیت سے جُدا نہ کردے اور جب تک لوگوں کو اس میں نماز پڑھنے کی عام اجازت نہ دے دے۔(ت)یہ واؤ جس پر ص دوسری جگہ ہے اس کے معنی یا کے ہوں گے یا اور کے ؟ اور وجہ کیا ہے؟
(۱ الہدایۃ کتاب الوقف المکتبۃ العربیۃ کراچی ۲/ ۶۲۴)
الجواب : پہلی عبارت درمختار کی ہے اور اس میں واؤ بمعنی یا ہے یعنی مسجد میں فعلِ نماز سے ملک مالک زائل ہوجاتی ہے اور مالک کے اس قول سے بھی کہ میں نے اس کو مسجد کردیا، دونوں میں جو ہو کافی ہے دونوں کا وجود ضروری نہیں،
ردالمحتار میں اسی پر لکھا ہے: لم یردانہ لایزول بدونہ لما عرفت انہ یزول بالفعل ایضا بلا خلاف ۔۲ واﷲ تعالٰی اعلم۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ اس کے بغیر ملکیت زائل نہیں ہوگی اس لیے کہ تو جان چکا ہے کہ ملکیت تو محض فعل نماز سے بھی زائل ہوجا تی ہے اس میں نماز پڑھنے کی عام اجازت نہ دے دے۔(ت)
(۲ ردالمحتار کتاب الوقف مطلب فی احکام المسجد داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۶۹)
دوسری عبارت ہدایہ کی ہے اور اس میں واؤ بمعنی یا نہیں بلکہ امران ضرور ہے اور اس کے بعد طرفین کے نزدیک ایک بار نماز باذن ہونا لازم، اور امام ابویوسف کے نزدیک صرف زبان سے کہہ دینا کافی کہ میں نے اسے مسجد کیا، اسی کو اس عبارت کے متصل ہدایہ میں بتایا: وقال ابو یوسف یزول ملکہ لقولہ جعلتہ مسجدا ۔ ۳؎ امام ابویوسف نے فرمایا اس کے صرف یہ کہہ دینے سے کہ میں نے اس کو مسجد کردیا ہے اس کی ملکیت زائل ہوجاتی ہے۔(ت)
(۳ الہدایۃ کتاب الوقف المکتبۃ العربیۃ کراچی ۲/ ۶۲۴)
اور قول امام ابویوسف پر ہی فتوی ہے کہ دونوں میں سے جو ہو کافی ہے فعل و قول کا جمع ہونا ضروری نہیں۔
ردالمحتار میں ہے: فی الدر المنتقی وقدم فی التنویر و الدرر والوقایۃ وغیرھا قول ابی یوسف علمت ارجحیتہ فی الوقف والقضا ۔۴ دررمنتقٰی میں ہے کہ تنویر، در اور وقایہ میں امام ابویوسف کے قول کو مقدم کیا گیا ہے اور وقف وقضا میں اس کا ارجح ہونا معلوم ہوچکا ہے۔(ت)
( ۴؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۷۰)