کتاب الشّتی (حصّہ چہارم)
عروض وقوافی
مسئلہ۱ : از سہارن پور ضلع ایٹہ مرسلہ جناب چودھری مولوی عبدالحمیدصاحب ۲۰ جمادی الاولٰی ۱۳۳۱ھ
اعلٰیحضرت عظیم البرکت مجددمائۃ حاضرہ مؤید ظاہرہ عالی جناب مولوی مفتی احمد رضا خان صاحب ۔ادام اﷲ تعالٰی ظلال اشادہ علٰی راس الطالبین، پس از آداب عجز و نیاز و سلام مسنون، مارہرہ سے ایک صاحب نے کنز الآخرہ پر مندرجہ پرچہ بااضافہ و ترمیم کرکے بھیجا ہے جس کے جوابات ذیل بغرض ملاحظہ اعلٰیحضرت ارسال ہیں، بعد ملاحظہ اس امر کی تنقیح فرمائی جائے کہ اعتراض کس حد تک صحیح ہیں اور جوابات کس حد تک کافی، تاکہ اس کے مطابق عملدرآمد کیا جائے۔ معترض صاحبِ فن شاعری میں دستگاہ قادر رکھتے ہیں اور عروض و قوافی میں مہارتِ کامل۔
(۱) صفحہ ٹائیٹل محمد الرسول اﷲ۔
اعتراض : مضاف پر الف لام نہیں آتا۔
جواب : میں نے عنوان کتاب پر سوا نام کتاب کے کچھ تحریر نہ کیا۔ باقی سب عبارت تالیفِ کا تب ہے۔ لاتزروازرۃ وزراخری ۔۱ ( اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔ت)
(القرآن الکریم ۶/ ۱۶۴)
(۲) ص ۴: وہ یگانہ ہے صفات وذات میں نیز یکتا اس کے سب افعال ہیں
(۲) ص ۴: وہ یگانہ ہے صفات وذات میں نیز یکتا اس کے سب افعال ہیں
اعتراض : قافیہ صحیح نہیں ، یوں ہو:ع
نیز یکتا ہو وہ ہر بات میں
جواب : اختلاف حرکت قافیہ میں اساتذہ کی سندیں حدِ تواتر پر ہیں حضرت سعدی : (۱) چو خواہد کہ ویراں کند عالمے کند ملک درپنجہ ظالمے
(۲) برائے جہاندیدگاں کارکن کہ صیدآموزد است گرگ کہن
(۳) چوخدمت گزاریت گردد کہن حق سالیانش فرامش مکن
(۴)کنونت کہ دستت خاری بکن دگر کے برآری تو دست از کفن
(۵) بخائیدش از کینہ دنداں بزہر کہ دوں پرورست ایں فرومایہ دہر (۱) جب وہ چاہتا ہے کہ کوئی ملک برباد ہوجائے تو وہ ملک کسی ظالم کے قبضہ میں دے دیتا ہے۔
(۲) جنہوں نے جہاں دیکھا ہوا ہے ان کی رائے کے مطابق عمل کر کیونکہ پرانے بھیڑیئے کو شکار کا تجربہ ہوتا ہے۔
(۳) جب تیرا خدمتگار بوڑھا ہوجائے تو اس کے سالانہ وظیفے کومت بھول۔
(۴) اب جب کہ تیر اہاتھ (طاقت ) ہے کوئی کانٹا نکال، پھر کفن سے کب ہاتھ باہر نکال سکے گا۔
(۵)کینہ کی وجہ سے اس کو زہریلے دانتوں سے چبائیں گے کیونکہ کینہ پرور ہے یہ کمینہ زمانہ۔(ت)
(۱ بوستان سعدی باب اول مکتبہ شرکتِ علمیہ ملتان ص ۴۱ٌ)
(۲ ؎ بوستان سعدی باب اول مکتبہ شرکتِ علمیہ ملتان ص ۶۳)
(۳ بوستان سعدی باب اول مکتبہ شرکتِ علمیہ ملتان ص ۱۹)
(۴ بوستان سعدی باب اول مکتبہ شرکتِ علمیہ ملتان ص ۵۰)
(۵ بوستان سعدی باب اول مکتبہ شرکتِ علمیہ ملتان ص ۹۳)
مثنوی شریف : گفت پیغمبر بکُن اے رائے زن مشورت کالمستشارِ مؤتِمنُ ۱؎
مؤتمن بکسر میم ثانی بمعنی امین ہے۔
کالے خدا افغاں ازیں گر گ کہن گویدش نک وقت آمد صبر کن ۲
(۱ مثنوی معنوی دفتر اول مؤسسۃ انتشارات اسلامی لاہور ۱/ ۱۳۱)
(۲ ؎ مثنوی معنوی دفتر سوم مؤسسۃ انتشارات اسلامی لاہور ۳/ ۵۰)
کمال اسمعیل :
اے زرایت ملک ودیں درنازش ودرپرورش اے شہنشاہ فریدوں فرداسکندرمنش
سایہ حق است و یارب سایہ اش پایندہ دار زانکہ فرض ست ازمیان بادعائے دولتش
منش اور دولتش کا اختلاف اظہر من الشمس ہے ، مولوی حافظ عزیز الدین جلیسری مؤلف نادرالترتیب جو اب بھی حیات ہیں اور بڑے استاد اور پرانے تجربہ کار شاعر ہیں نادرالترتیب میں لکھتے ہیں۔
چھ سو بارہ تیرہ فصل دوباب اس میں ہیں تھوڑے تھوڑے حاشیہ پر ہیں لغت ہر باب میں
مہربان من اختلاف دکن قافیہ بے تکلف درست ہے۔
(۳) ص ۴:
ہے وہی خلّاق مخلوقات کا ہے وہی رزّاق حیوانات کا
اعتراض : مخلوقات و حیوانات میں ایکار ہے، یوں چاہیے، ہے وہی رزاق مرزوقات کا
جواب: جمع کے قوافی ،میں مفرد کا لحاظ نہ رکھا جائے گا ، مستحسن ضرور ہے لازم نہیں۔
مولانا روم : یاکریم العفو، ستّار العیوب ! انتقام ازمامکش اندر ذنوب ۳؎
پس پیغمبر گفت استفت القلوب گرچہ مفتی تاں بروں گوید خطوب ۴ عیوب وذنوب میں علامت جمع واؤ ہے اس کو علیحدہ کرکے دیکھا جائے تو عیب و ذنب کا قافیہ نہ بنے گا اسی طرح قلوب و خطوب۔
(۳ مثنوی معنوی دفتر اول مؤسسۃ انتشارات اسلامی لاہور ۱/ ۱۴۵)
(۴ مثنوی معنوی دفتر ششم حامد اینڈ کمپنی لاہور ۶/ ۵۰)
آتش گلزار نسیم
حلوا اس دیو کو دکھلاؤ گڑ سے جو مرے تو زہر کیوں دو
یہاں بھی علامت جمع واؤ کے علیحدہ کرنے سے قافیہ مفرد کا صحیح نہیں رہتا ، ایک استاد جن کا نام مجھ کو یاد نہیں فرماتے ہیں۔
تم درود اس نام پر پڑھتے رہو اے مومنین ! چھوڑ دو سب ذکر جب ہو ذکر ختم المرسلین
(۴) صفحہ ۵:
وہ کسی کا بھی نہیں محتا ج ہے اس کے سب محتاج ہیں چھوٹے بڑے
اعتراض : قافیہ غلط، یوں چاہیے اس کی ہی محتاج ہے ہر ایک شے
جواب: نمبر۲ میں گزر چکا۔
(۵) صفحہ ۵:
پاک ہے وہ جسم و جوہر عرض سے مادہ سے اور مکاں سے مرض سے
اعتراض : جوہر کے مقابل عرض بفتحتین ہے اور نیز مرض، یوں چاہیے۔:
ہے عرض اور جسم و جوہر سے وہ پاک مادہ سے اور مرض اور گھر سے پاک
جواب : یہ بضرورت جائز ہے اس کا نام تفریس ہے، اگرچہ یہ تفریس قبیح ہے، لیکن جائز ہونے میں شک نہیں، اکثر اہلِ فارس نے لغات عربی میں بموجب شہرت عام کی ہے، مثلاً حرکت بفتحاتِ ثلثہ مّلا فوقی :ع
زبس خوش حرکت وشیریں ادا بود
کفن بفتحتین، لیکن شفائی کہتا ہے۔
از لتہ حیض خواہرش کفن کند
پس ایک زبان کے لغت کو دوسری میں تفریس کرکے لانا صحیح، ہاں عربی کو عربی، فارسی کو فارسی میں تفریس کرے تو ضرور ناجائز، باایں ہمہ اس تفریس کو میں بھی پسند نہیں کرتا اور اب میں نے ان تمام متغیر الحرکات لغات کو اصلی حرکات سے ملبس کرکے درست کرلیا ہے۔شعر کو جناب نے ترمیم فرما کر جو تحریر فرمایا ہے اس میں پاک ہر دو جگہ متحدالمعنٰی ہے پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ قافیہ کیونکر درست ہوگا۔ ہاں اس طرح تر میم کیا جائے۔
وہ عرض اور جسم و جوہر سے ہے پاک مادہ سے اور مرض گھر سے ہے پاک
یا یوں ؎
ہے عرض اور جسم جوہر سے پاک مادہ سے اور مرض اور گھر سے پاک
تب درست ہے لیکن اس میں یہ قباحت ہے کہ ضمیر( وہ ) کسی جگہ نہیں آتا، میں نے ترمیم اس طرح کی ہے۔
وہ مکاں سے اور مرض سے پاک ہے جسم و جوہر سے عرض سے پاک ہے
اس میں اگرچہ کلمہ مادہ کا دور ہوا جاتا ہے لیکن بندش میں شگفتگی ہوتی ہے اور مادہ کی توضیح یوں بھی ہوسکتی ہے کہ جب مرض سے پاک ہے لامحالہ مادہ سے بھی پاک ہے کہ مادی شے کو مرض لازمی ہے۔
(۶) صفحہ ۵:
حاضر و ناظر وہی ہے ہر جگہ کچھ نہیں پوشیدہ اس سے بے شبہ
اعتراض : شبہ غلط ہے صحیح :
حاضر وناظر وہ ہے ہر ایک جا اس سے پوشیدہ نہیں کوئی ذرا
جواب : چونکہ اس تفریس کو میں خود مقبوح کہہ چکا ہوں لہذ ااس سے مجھ کو اتفاق ہے۔
(۷) صفحہ ۶:
وہ مجیب عرض اور دعوات ہے بیشبہ وہ قاضی الحاجات ہے
اعتراض : قافیہ ، ترمیم: شرک و کفر و فسق سے نفرت اسے
جواب : ترمیم تسلیم۔
(۸) صفحہ ۷:
ہے وہ راضی طاعت و ایماں سے شرک و کفرو فسق سے ناخوش وہ ہے
اعتراض : ترمیم : بالیقین وہ قاضی الحاجات ہے۔
جواب نمبر ۲: مفصل گزرا، اس کو غلط سمجھنا معترض کی غلطی ہے۔
(۹) صفحہ ۸:
حق ہے معراج محمد دیں پناہ آسمانوں پر الٰی ماشاء اللہ
اعتراض : بغیر اضافت محمد دیں پناہ کی ترکیب اجنب ہے۔
جواب : جناب بغیر اضافت کیوں رکھتے ہیں، اگر محمد کی دال کو خفیف اضافت دی جائے تو کیا حرج ہے، شعر وزن سے نہیں گرے گا۔
حق ہے معراج محمد دیں پناہ فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
(۱۰) الٰی ماشاء اللہ غلط ہے،ترمیم ؎
حق ہے معراجِ محمد بالیقین آسمانوں پر گئے سلطانِ دیں وقس ھذاالبواقی۔
جواب : ماشاء کے ہمزہ کو آپ ظاہر کرکے کیوں پڑھتے ہیں، ہمزہ کو ماشاء اﷲ کے الف اور اﷲ کے لام میں ادغام کرکے پڑھئے۔ جناب نے ترمیمی شعر کہا ہے اس شعر اور اس کی خوبی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
آسمانوں پر گئے سلطان دیں اس میں انتہائے سیر معراج آسمانوں تک ثابت ہوتی ہے، اور شعر کتاب میں الٰی ماشاء اﷲ کا کلمہ ایسا پر معنی ہے جس میں انتہائے سیر کی کچھ حد ہی نہیں رہتی اور جس کی تفسیر فکان قاب قوسین اوادنٰی سے مزین ہے کما لا یخفٰی علی اھل البصیرۃ ( جیسا کہ اہلِ بصیرت پر پوشیدہ نہیں۔ت) تمت۔
الجواب :
کامل النصاب چودھری صاحب زیدت محالیہ و بورکت ایام ولیالیہ۔ بعد اہدائے ہدیہ سنت ملتمس، نوازشنامہ اسی وقت تشریف لایا ، بکمال اختصار جواب حاضر۔ جو کچھ حضرت معترض کے خلاف گزارش کروں گا اس پر نمبر حرفی ہوں گے۔ ا ب ح ء اور خلاف جناب معروض ہوگا اس پر نمبر عددی ۱۔۲۔۳۔۴ اور مشترک پر مشترک۔
(اعتراض اول ) (ا) بے محل ہے اور جواب کافی
( ب) یہی زیر اعتراض لینے تھے تو اسم تاریخی الموسوم بہ کیوں ترک ہوا کون سی ترکیب سے موسوم باسم تاریخی چاہیے تھا۔(ح) الموسوم بہ (ء) المعروف بہ یہ کائِتھاُنَہ (عہ) الف لام ہیں عند الپرتال معلوم بھیو ان کی بھی تغییر چاہیے تھی۔(ھ) (۱) ہاں کنزالاخرۃ کے نام ہونے پر ایک باریک مواخذہ برمحل ہوتا تائے مدورہ شکلاً ہا ہے اور لفظاً وقف میں ہا اور وصل میں تا اوّلاً عام اعتبار کتابت کا ہے اور تلفظ بھی لیجئے تو محل محلِ وقف ہے اور الف لام سے ترکیب ترکیب عربی، تو بہرحال ۵ ہی عدد ہوئی نہ ۴۰۰ ہاں منطق عوام پر کنزالاخرت پڑھے تو باعتبار تلفظ تاریخ صحیح ہوسکتی ہے مگر ایک علمی تصنیف، اس سے محفوظ رہنا اولٰی۔
عہ: مطلب یہ ہے کہ الموسوم اور المعروف پر جوالف لام ہے، یہ کایستھ لوگ بولتے اور کاغذات پٹواری میں لکھتے ہیں لاعِندُ الپرتال معلوم بھیو یعنی جانچ پرتال سے معلوم ہوا، اس جملے میں ان لوگوں نے ایک خرابی تو یہ کی عند کو عندُ کہا اور دوسری یہ کہ الف لام داخل کیا۔۱۲ عبدالمنان اعظمی۔
(اعتراض دوم) (۲) میں اور ہاں کا قافیہ معیوب ضرور ہے۔(۳) عالمے ظالمے پر قیاس صحیح نہیں کہ رَوِی جب متحرک ہو تو قبل کی حرکت میں اختلاف باجماع جائز و بے عیب ہے جیسے دلش و گلشن بخلاف اختلافِ دل کہ روی ساکن ہے جیسے یہاں (۴) کہن بفتح ہا و بضمتین دونوں طرح ہے جس کی سندیہی اشعار اور ان کی امثال بے شمار ہیں۔ حضرت مولوی قدس سرہ ؎
نفس فرعونے ست ہاں سیرمش مکن تانیا رد یادزاں کفر کہن ۱ ( نفس فرعون ہے خبردار اس کو سیر مت کر، تاکہ وہ پرانے کفر کی یاد نہ لائے۔ت)
(۱ مثنوی معنوی دفتر چہارم مؤسسۃ انتشارات اسلامی لاہور ۲/ ۳۴۲)
اکابر نے اس کثرت سے کن کا قافیہ من یابزن یا حسن وغیرہا بھی کبھی باندھا (۵) جاری بکن غلطی کا تب ہے صحیح خارے بکن ہے (۶) زہر و دہر دونوں بالفتح ہیں۔(۷) حدیث شریف میں مؤتمن بروزن معتمد بفتح میم دوم ہی ہے مؤتمن بالکسر امین دارندہ وبالفتح امین داشتہ شدہ یعنی جس سے مشورہ طلب کیا گیا اسے امین بنایا گیا تو خلاف مشورہ دینا خیانت ہے۔ لہذا فقیر کو ان گزارشوں پر جرات ہے کہ یہی حکمِ شریعت و مقتضائے امانت ہے۔(۸) منش اور دولتش میں ضرور اختلافِ حرکت ہے اور عیب ہے۔ کوئی عیب لفظی خواہ معنوی ایسا نہیں جس کی مثال اساتذہ کے کلام سے نہ دی گئی ہو اس سے نہ وہ جائز ہوتا ہے نہ عیب ہونے سے باہر آتا ہے اور نہ اس میں ان کی تقلید روا ہو۔ ائمہ محققین مثل ابن الہمام رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ تصریح فرماتے ہیں کہ ان کا باندھ جانا بے پرواہی پر محمول ہوگا کہ قادر سخن تھے دوسرا باندھے تو جہل و عجز پر محمول ہوگا، میں نے اس مصرعہ کو یوں بدلا ہے۔
وہ یگانہ ہے صفات وذات میں حکم میں افعال میں ہر بات میں
(اعتراض سوم) کا (و) وہ جواب صحیح ہے جو جناب نے دیا کہ اس کا لحاظ مستحسن ہے ورنہ اکابر کے کلام میں بکثرت موجود
قلوب العارفین لہاعیون تری ما لا یراہ الناظرونا
واجنحۃ تطیر بغیر ریش الٰی ملکوت رب العالمینا
والسنۃ بسّر قدتنا جی بغیب عن کرام کاتبینا (عارفوں کے لیے دل کی آنکھیں ہیں وہ دیکھتی ہیں جو ہم میں سے دیکھنے والے نہیں دیکھتے۔ اور ان کے بازو ہیں کہ وہ پروں کے بغیر اڑتے ہیں پروردگار عالم کی بادشاہی میں۔ اور ان کی زبانیں ہیں جو ایسے خفیہ راز کہہ دیتی ہیں جو کراماً کاتبین سے پوشیدہ ہیں ت)
(۹) مگر عیوب وذنوب اور قلوب و خطوب کے قوافی سے استشہاد صحیح نہیں کہ کلام جمع سالم میں ہے۔ فقیر نے بھی یہ قافیہ نہ بدلاتھا ۔ کہ ضروری نہ تھا بعد اعتراض مرزوقات ہی بنا دینا انسب معلوم ہوا۔
(اعتراض چہارم) وہی دوم ہے والکلام الکلام میں نے یہاں پہلا مصرعہ یوں بدلا ہے،
پاک ہے ہر حاجت و ہر عیب سے اس کے سب محتاج ہیں چھوٹے بڑے
اس میں ایک مسئلہ کلیہ زائد ہوگیا۔
(اعتراض پنجم ) (۱۰) یہ بھی ضرور قابلِ اخذ وواجب الترک ہے اور ایسے تصرفات کا ہم کو اختیار نہ دیا گیا نہ وہ کوئی قاعدہ ہے کہ سماع بے سماع ہر جگہ جاری کرسکیں اور ضرورت کا جواب وہی ہے کہ شعر گفتن چہ ضرور۔ حرکت و برکت اور ان کے امثال میں بوجہ توالی حرکات سکون ثانی بے شک عام طور پر مستعمل مگر مرض و عرض و عرض و غرض و حرج و فرس و امثالہا کو اس پر قیاس نہیں کرسکتے۔ میں نے یہاں دو شعروں کو تین سے یوں تبدیل کیا ہے۔
ہے منزّہ جسم سے وہ پاک ذات بے مکان و بے زمان و بے جہات
خالق ان کا ان سے پہلے جیسے تھا ان کے ہونے پر بھی ویسا ہی رہا
جسم و جوہر سے عرض سے پاک ہے مادہ سے اور مرض سے پاک ہے
مکان سے تنزیہہ شعر اول میں آگئی(۱۱) پاک صفت ہے اور اس میں ضمیر مستتر ہے، ضمیر مظہر کی ضرورت نہیں جیسے اس شعر میں
جانتا ہے راز ہائے سینہ کو دیکھتا ہے دل میں حُب و کینہ کو
(ز) حضرت معترض نے جو تبدیلی فرمائی اس پر جناب کا اعتراض بہت صحیح ہے۔
(اعتراض ششم) بے شبہہ صحیح ہے جسے جناب نے بھی تسلیم فرمایا مگر (ح) شُبہ صحیح بتانا خود غلط ہے صحیح شبہہ ہے۔(ط) (۱۲) حاضر و ناظر کا اطلاق بھی باری عزوجل پر نہ کیا جائے گا۔ علماء کرام کو اس کے اطلاق میں یہاں تک حاجت ہوئی کہ اس پر سے نفی تکفیر فرمائی ،
شرح الوہبانیہ ودرمختار میں ہے۔ ویاحاضر یا ناظر لیس یکفر ۔۱ یعنی اﷲ عزوجل کو یا حاضر یا ناظر کہنے سے کافر نہ ہوگا۔
(۱ الدرالمختار کتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۶۱)
میں نے اس شعر کو یوں بدلاہے۔
ہے وہی ہر چیز کا شاہد بصیر کچھ نہیں پوشیدہ تجھ سے اے خبیر
مصرعہ ثانیہ میں التفات ہے کہ نفائس صنعت سے ہے
(اعتراض ہفتم ) وہی ششم ہے مگر (ی)(۱۳) قاضی الحاجات باثبات یا برقرار رکھنا عجب ہے میں نے اسے یوں بدلا ہے۔ع
بالیقین وہ قاضی حاجات ہے (یا)
(۱۴) اس کے پہلے مصرعہ وہ مجیب عرض اور دعوات ہے میں مجیب عرض ترکیب فارسی ہے لفظ اور سے اس پر عطف ناجائز ہے، اس پر اعتراض کیوں نہ ہوا، میں نے اسے یوں تبدیل کیا ۔
وہ مجیب العرض والدعوات ہے۔(س)
(۱۵) اسی صفحہ کا ۱۱ شعر بے دلیل و حجت و برہان لیک میں بھی عطف بہ ترکیب فارسی ہیں تو اظہار نون ناجائز اس پر بھی اعتراض نہ ہوا۔ میں نے اسے یوں بدلا ۔
حاجت حجت نہیں ایمان میں لیک (لح)
(۱۶) صفحہ ۷ کے پہلے مصرعہ خالق خیر اور شراﷲ ہے میں وہی بات ہے کہ ترکیب اور عطف ہندی اور اب وہ سخت معنی فاسد کو موہم کہ شرکا عطف معاذ اﷲ خالق خیر پڑھو اور شر اللہ ہے یہ بھی اعتراض سے رہ گیا میں نے اسے یوں بدلا۔
خالق ہر خیر و شر ا ﷲ ہے
(اعتراض ہشتم) وہی دوم ہے والکلام الکلام ( بہ) اس میں یوں تبدیل شرک و کفر و فسق سے نفرت اسے بہت سخت قبیح واقع ہوئی اگر کروڑوں قافیے تبدیل بلکہ روی رکھتے بلکہ ہر مصرعہ خارج ازوزن ہوتا تو بھی ان کروڑوں کی شناعت اس تبدیلی کی کروڑویں حصہ کو نہ پہنچتی۔ نفرت بھاگنے اور بدکنے کو کہتے ہیں، اللہ عزوجل کی طرف اس کی نسبت حلال نہیں (یہ) (۱۷) نیز اس مصرعہ “ہے وہ راضی طاعت و ایمان سے” میں ترکیب فارسی کے بعد اظہار نون ممنوع تھا۔ اس پر اعتراض نہ ہوا میں نے یہ شعر یوں بدلا ہے۔
طاعت و ایمان سے راضی ہے وہ حیی شرک و کفر و فسق سے ناراض ہے
(یو) (۱۸) اسی صفحہ میں “بعض افضل پر ہیں بالضرور ” تھا لفظ ضرور ہے یا بالضرور ۃ، بالضرور کوئی چیز نہیں، میں نے اسے یوں بدلا ہے۔ع
بعض افضل بعض سے ہیں پُر ضرور
(اعتراض نہم) (یر) ” حق ہے معراج محمد دیں پناہ” صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ فلک اضافت پر اعتراض بیجا ہے فلک لک دو لک جگہ ملے گا۔ یہیں ص ۷ پر اول ان کے حضرت آدم ابوالبشر میں بھی فک تھا وہ کیوں جائز رکھا گیا۔
(یح ) اگر فک نامعقول ہو تو دیں پناہ کو صفت کیوں مانئے بلکہ بحذف مبتدا جملہ مستقلہ مدحیہ ہے یعنی وہ دیں پناہ ہیں صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس کے نظائر خود قرآن عظیم میں ہیں۔(یط) یہ بھی نہ سہی کیوں نہ ٹھہرائیں کہ مخاطب سعید کو ندا ہے یعنی اے دیں پناہ
(۱۹) یہ جواب کو خفیف اضافت دی جائے صحیح نہیں اب وزن فاعلاتن فاعلن نہیں ہوسکتا فاعلن کی گنجائش تو پہلے ہی نہ تھی دین پناہ فاعلات ہے اب کسرہ دال یہ تقطیع کردے گافاعلاتن فاعلات مفاعلن ۔
(اعتراض دہم) صحیح ہے(۲۰) ماشاء اللہ یعنی جو اس طرح پڑھا جائے ۔ ماشال لا ہ کسی قاعدہ کا مقتضی نہیں حذف ہمزہ بے شک جائز و شائع ہے مگر اب الف و لام میں التقائے ساکنین ہو کر الف گر جائے گا اور یوں پڑھا جائے گا۔
ماشّلا میں نے اسے دو طرح بدلا ہے۔ آسمانوں پر”الی ماشا الالہ” یعنی ہمزہ محذوف اور الف شابوجہ التقاساقط ہو کر شین لام سے مل گیا۔ دوم آسمانوں “لماشاء الا لہٰ” لام بمعنی الٰی بکثرت شائع اور خود قرآن عظیم میں واقع اور اصلاً کسی تکلف کی حاجت نہیں۔(ی) اس تبدیلی پر جو اعتراض جناب نے کیا وہ صحیح ہے واقعی مفاد اصل و بدل میں زمین و آسمان کا تفاوت ہے، یہ ایک اربعین ہے مع انصاف تام یعنی بیس متعلق بحضرت معترض اور بیس متعلق بجناب و السلام فقیر کی رائے میں دوسری جگہ بھیجنے کی نہ حاجت نہ حصول منفعت کہ بہت تبدیلیں جو درکا رہیں رہ جائیں۔ بعض کہ درکار نہیں عمل میں آئیں بعض کہ خود اشد اعظم تبدیل کے محتاج ہوں ظہور پائیں امید کہ یہاں کی ترمیم کے بعد کوئی غلطی نہ شرعی باقی رہی نہ شعری، ان شاء اللہ تعالٰی جناب کو فقیر نے لکھا تھا کہ اغلاطِ شعریہ سے قطع نظر کروں گا اس کے جواب میں فرمائش جناب پر وہ بھی زیر نظر رکھے گئے میری عظیم بے فرصتی بے حد کثرت کار اور اس پر محض تنہائی اور پھر علالت و نقاہت کا دس مہینے سے دورہ ضرورباعث دیر تاخیر ہوں گے۔ اگر عجلت نہ فرمائیں اور منظور حضرت عزجلالہ ہو تو کام پورا اور تمام نقائص سے مبرا ہوجائے گا۔ آئندہ جو رائے سامی ہو والتسلیم مع التکریم۔