زیارات قبور, شرح کلام علماء و صوفیاء

عورتوں کا قبور پہ جانا ،سادات کرام

مسئلہ۱ تا ۴: از پٹنہ عظیم آباد لودھی کٹرہ مرسلہ قاضی عبدالوحید صاحب ۲۷ رمضان ۱۳۲۱ ھ
مخدومی و مولائی قبلہ مد ظلہ العالی!تسلیم!
امور مفصلہ ذیل کا ازراہ کرم مکمل جواب دیجئے کہ فقیر کو سخت تردد ہے ۔ دوسرے بعض علماء سے بھی گفتگو آئی مگر تنقیح امور نہ ہو پائی ۔ لہذا فقیر کو ابھی شک ہے ، للہ دفع فرمائیے، اور اجر عظیم پائیے:
(۱) زیارت قبورللنساء کو مولانا فضل رسول بدایونی رضی اللہ تعالٰی عنہ بضمن تردید الحق وہابی دہلوی جائز فرماتے ہیں نیز علامہ عینی بھی ۔ جواب مکمل عطاہوکہ رفع شبہہ ہو۔
(۲) تحفہ رجب میں مختلط خطبہ کو آپ غیر مناسب بوجہ عدم توارث بتاتے ہیں حالانکہ تاج الفحول بدایونی رحمہ اللہ اسے درست وجائز بتاتے ہیں ۔ یہ شبہ بھی رفع ہو۔
(۳) جزاء اللہ عدوہ کے آخر میں جناب حضرات ساداتِ کرام کے متعلق فرماتے ہیں کہ ان پر طریانِ کفر ناممکن ، نہ یہ نیچری وغیرہ ہوسکیں، حالانکہ مشاہدہ اس کے خلاف ہے ۔ دوسرے جملہ سادات کی سیادت پر تیقن اٹھ جائے گا ۔ استدلال جناب بہ عموم آیت وحدیث شریف تحقیقات دیگر علما جو اسے مخصوص بحضرات طیبین رضیا للہ تعالٰی عنہما بتاتے ہیں ۔ تیسرے پھر سادات کرام بھی قطعی جنتی ہوئے انہیں اندیشہ آخرت کیا باقی رہا!
(۴) اسمائے ذیل مثل ضیاء الدین ، منیر الدین وغیرہ کو جناب قطعاً ناجائز بتاتے ہیں ، جس شخص نے براہ تفاؤل خیر رکھا، کیا حرج ہے؟ ورنہ کسی کا نام سعید وغیرہ بھی نہیں رکھ سکتے ، جواب مرحمت فرمائیے۔

الجواب
حامی سنن ، ماحی فتن ، ندوہ شکن ، ندوی فگن ، مولانا وحید زمین ، صین عن الفتن وحوادث الزمن امین یا ذالمنن ! اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
جواب مسائل اجمالاً حاضر ،تفصیل کا وقت کہاں۔ قرآن مجید سن کر اس وقت آیاہوں، بارہ بجا چاہتے ہیں ، گیارہ بج کر ساڑھے باون منٹ آئے ہیں کہ یہ نیاز نامہ لکھ رہاہوں اوراگر کسی میں تفصیل طلب فرمائیں گے تو امتثال امر کے لیے ہوں اوربارگاہ عزت سے امید ایسی ہی ہے کہ آپ کا ذہن سلیم بحمداللہ تعالٰی اسی اجمال سے ہی بہت کچھ تفصیل پیدا فرمائے گا۔

مسئلہ زیارۃ القبورللنساء

حبیبی اکرمکم اللہ تعالی ! شے کے لیے حکم دو قسم ہے : ذاتی کہ اس کے نفس ذات کے لحاظ سے ہو ۔اور عرضی کہ بوجہ عروض عوارض خارجیہ ہو ۔تمام احکام کہ بنظر سد ذرائع دیے جاتے ہیں جو مذہب حنفی میں بالخصوص ایک اصل اصیل ہے ،اسی قسم دوم سے ہیں ۔یہ دونوں قسمیں باآنکہ نفی و اثبات میں مختلف ہوتی ہیں ہر گز متنافی نہیں کہ مناشی جدا جدا ہے ۔اس کی مثال حضور نساء فی المساجد ہے کہ نظر بذات ہر گز ممنوع نہیں کہ ان کا روکنا ممنوع ہے۔
صحیح حدیث میں ارشاد ہوا: لاتمنعو ا اماء اللہ مساجد اللہ۱؂۔ اللہ کی باندیوں کو اللہ تعالی کی مساجد سے نہ روکو ۔

(۱؂ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب ھل علی من لایشہد الجمعۃالخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۲۳)

اور نظر بحال زناں ممنوع کما صرح بہ الفقھا ء الکرام (جیسا کہ فقہا ء کرام اس کی تصریح فرمائی ہے ۔ت) وقد قالت ام المومنین الصدیقۃ رضی اللہ تعالی عنہا لو رای رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم ما احدث النساء لمنعھن المساجد کما منعت نساء بنی اسرائیل۔۱؂ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ عورتوں نے جو نئی باتیں پیداکر لی ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انھیں دیکھتے تو ان کو ایساہی مسجدوں سے روک دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں روکی گئیں۔

(۱؂ صحیح البخاری کتاب الاذان باب خروج النساء الی المساجد الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۲۰)

یونہی دخول نساء فی الحمام کہ پردہ و ستر و عدم فتنہ کے ساتھ ہو تو فی نفسہ اصلا وجہ ممانعت نہیں رکھتا بلکہ طیب و نظافت میں داخل ہے : بنی الاسلام علی النظافۃ ۲؂ (اسلام کی بنیاد صفائی پر رکھی گئی ہے ۔ت) مگر نظر بر حال کہ باہم کشف عورات کے عادی ہیں ۔

(۲؂اتحاف السادۃ المتقین کتاب اسرارالطہارۃ دارالفکر بیروت۲ /۱۲۰)
(کشف الخفاء حدیث۹۲۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۲۵۸)

امام ابن ہمام وغیرہ اعلام نے فرمایا کہ سبیل اطلاق منع ہے ،یہ حکم اسی قسم دوم کا ہے ۔بعینہ یہی لفظ آپ نے اس حکم میں پائے ہوں گے جو فقیر نے مسئلہ زیارت میں اختیار کیا ۔مجھے یاد نہیں کہ میں نے حرام لکھا ہو بلکہ غالبا تعلیم ادب کے ساتھ حلت کی طرف اشارہ کیا اور نظر بحال سبیل اطلاق منع بتایا ہے ،آپ میرے فتوی کو ملاحظہ فرمائیں ،مجھے اس وقت بارہ ۱۲ بج کر دس ۱۰منٹ آگئے اپنے مجموعہ سے نکالنے اور دیکھنے کی فرصت نہیں ۔ فظھر ان لا تعارض و ان الحکمین کلاھما صواب علیحدۃ و اللہ تعالی اعلم ۔ ظاہر ہو گیا کہ کوئی تعارض نہیں اور دونوں حکم علیحدہ علیحدہ درست ہیں ۔واللہ تعالی اعلم (ت)

مسئلہ خطبہ مختلطہ

بوجہ عدمِ توارث نامناسب ہونے کی نہایت کراہیت تنزیہی ہے کما نص علیہ فی حاشیۃ الطحطاویۃ و رد المحتار (جیسا کہ اس پر حاشیہ طحطاویہ اور ردالمحتار میں نص کی گئی ہے ۔ت) اور کراہت تنزیہی قسم مباح سے ہے وہ منافی جواز درستی و اباحت نہیں بلکہ اباحت کے ساتھ جمع ہوتی ہے کما حققہ العلامۃ الشامی و لنا فی تحقیقہ مقالۃ سمینا ھا “جمل محلیہ ان المکروھۃ تنزیھا لیس بمعصیۃ” اقمنا فیھا الطامۃ الکبری علی ما زعم اللکھنوی فی رسالتہ فی شرب الدخان ان المکروہ تنزیھا من الصغائر فاذا اعتید صار من الکبائر ،و ھذا جھل عظیم لا یساعد نقل و لا عقل نسأل اللہ العفو و العافیۃ ۔ جیساکہ علامہ شامی نے اس کی تحقیق فرمائی ہے ،اس مسئلہ کی تحقیق میں ہمارا ایک مقالہ ہے جس کا نام ہم نے “جمل محلیہ ان المکروہہ تنزیہا لیس بمعصیۃ” رکھا ہے اس میں ہم نے لکھنوی کے اس قول پر بڑی مصیبت قائم کی ہے جو اس نے شرب دخان (تمباکو نوشی ) سے متعلق اپنے رسالہ میں ذکر کیا کہ مکروہ تنزیہی بھی گناہ صغیرہ ہے جو تکرار و اعادہ سے کبیرہ ہو جاتا ہے یہ بہت بڑی جہالت ہے جس کی موافقت نہ تو عقل کرتی ہے نہ ہی نقل ۔ہم اللہ تعالی سے معافی اور سلامتی کا سوال کرتے ہیں ۔(ت)
تو ان دونوں حکموں میں بھی اصلا تنافی نہیں ۔ہاں فتوی لکھنویہ نے کہ خلط کو مکروہ تحریمی ٹھہرایا وہ ضرور حکم تاج الفحول قدس سرہ الشریف کے خلاف اور غلط و باطل عند الانصاف ہے ۔واللہ تعالی اعلم

مسئلہ حضرات سادات کرام

فاش میگویم و از گفتہ خود دلشادم
بندہ عشقم و از ھر دو جہاں آزادم (میں کھل کر بات کرتاہوں اور اپنے کہے ہوئے پر میرا دل خوش ہے،میں عشق کا غلام ہوں اور دونوں جہانوں سے آزاد ہوں ۔ت)

سادات کرام (جعلنا اللہ تعالی فی الدنیا و الاخرۃ من موالیھم فان مولی القوم منہم ، اللہ تعالی ہمیں دنیا و آخرت میں ان کے غلاموں میں رکھے کیونکہ کسی قوم کا آزاد کردہ غلام اسی قوم سے شمار ہوتا ہے ۔ت) پر عدم طریان کفر (کہ اسی قدر کا فقیر مدعی ) نہ عدم امکان جس سے حبیبی آپ نے تعبیر کیا ،اور رفض و نیچریت کی میں نے نفی کی تصریح کر دی کہ اس سے وہی بد مذہبی مراد جس میں انکار بعض ضروریات دین ہو اس کا حاصل بھی وہی سلب کفر ہے نہ سلب بدعت غیر کفریہ جو آپ کی تعبیر میں عطف سے موہوم ہیں خصوصا وغیرہ کی زیادت کہ اور توسیع کی راہ دے کما عبرتم کہ ان پر طریان کفر ناممکن نہ یہ رافضی نیچری وغیرہ ہو سکیں فقیر بحمدہ تعالی اس مسئلہ میں مبتدع نہیں متبع ہے ،اس کا بیان جزا ء اللہ عدوہ میں ضمنا آیا لہذا اختصار سے کام لیا ص۱۰۱سے۱۱۶ تک جو کچھ کلمات مختصرہ معروض ہوئے ہیں ان پر دوبارہ نظر فرمائیں تو بعونہ تعالی ان تمام شبہات کا جواب ان میں پائیں۔
آیت و احادیث کہ فقیر نے ذکر کیں اس میں شک نہیں کہ ضرور عام و مطلق ضرور اپنے عموم و اطلاق پر رہیں گے جب تک دلیل صحیح سے تخصیص و تقیید نہ ثابت ہو ۔اور شک نہیں کہ بلا دلیل محض اپنے خیال کی بناپر ادعائے تخصیص و تقیید ہر گز تحقیق نہ قرار پاسکے گا بلکہ تفسیق ۔اور شک نہیں کہ مسئلہ باب مناقب سے ہے نہ باب فقہ سے جو افعال مکلفین من حیث الحل و الحرمۃ و الصحۃ والسقام (عہ) سے باحث ہو۔

عہ: وفی الاصل “الصہام۔

اور جس میں بے معرفت دلیل اتباع لازم ہو ۔اور یہ بھی سہی تو اتباع ائمہ مذہب کا ہو گا نہ بعض متاخرین کا ،بعض متاخرین کے کلام کو ان اکابر کے کلام پر کیا وجہ ترجیح ہے جن سے فقیر نے اسناد کیا سوا اس کے کہ یہ اطلاق آیت و احادیث سے متمسک ہیں جو یقینا دلیل شرعی ہے اور وہ بلا دلیل مدعی تخصیص و تقیید یہ اور اس کے امثال بہت نکات اس تحاور میں زیر نظر آئے مگر فقیر دیکھ رہا ہے کہ جہاں تک میں نے دعوی کیا ہے ان تجاذبات(عہ)کے لیے مساغ ہی نہیں۔

عہ: فی الاصل ھکذا

جزاء اللہ پر نظر تازہ فرمائیے ص۱۰۲پر اشعار کر دیا ہے کہ آیت کریمہ و احادیث مذکورہ کے دو محمل ہیں ہیں :نفی خلود ونفی دخول ۔ثانی کو ظاہر لفظ سے متبادر اور اسی طرف کلمات اہل تحقیق کو ناظر بتایا ہے مگر اپنا دعوی یعنی نفی کفر دونوں تقدیر پر ثابت ٹھہرایا ہے کلمات بعض دیگر علماء میں تخصیص سبطین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما اسی ظاہر متبادر اعنی نفی دخول کی نظر سے ہے وہ یہاں میرا دعوی نہ تھا بلکہ دونوں احتمال گزارش کردئیے تھے اگرچہ ایک طرف تبادر و ظہور ہے اور اسی طرف میرا اور نہ صرف میرا بلکہ ان اکابر کا میلان قلوب اور اس میں ہمارا انشراح صدور ہے ۔ رہی نفی خلود ،کیا کہیں کلمات دیگر علماء میں اس کی تصریح کہیں ملاحظہ فرمائی ہے کہ مخلد فی النار نہ ہونے کی نفی حضرات ریحانتین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما سے خاص ہے باقی سادات کرام کے لیے نہیں تو میرے دعوی کا رد اس تخصیص و تحقیق دیگراں میں بھی نہیں ۔غایت یہ کہ یہاں عدم ذکر ہے نہ کہ ذکر عدم ۔ رہا وہ دوسرا پہلو جس کی طرف ہمارے قلوب ارکن و امیل ہیں اور ہمیں اپنے رب جل و علا سے اس کی امید ہے اس میں حق ناصح یہ ہے کہ نظر علماء ایسے مواقع میں دو وجہ پر منشعب ہو جاتی ہے اور دونوں کے لئے شرع میں اصل اصیل ہے : لکل وجھۃ ھو مولیھا۱؂ ہر ایک کے لیے توجہ کی ایک سمت ہے کہ وہ اسی کی طرف منہ کرتا ہے (ت)۔

(۱؂القرآن الکریم ۲/ ۱۴۸)

ایک حفظ عامہ وسدا کہ تکال نہ کر بیٹھیں جس طرح سیدنا امام رضارضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہوا اورعلامہ زرقانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس کی یہی توجیہ فرمائی یہ تخصیص کرتے ہیں اوراس کا حاصل خصوص جزم ہے نہ جزم خصوص کہ معاذاللہ بلادلیل تخصیص عموم شرع لازم آئے ۔یہ نفیس تفرقہ محفوظ رکھنے کا ہے ۔ جزمِ خصوص یہ کہ دعوٰی کردیا جائے کہ یہ حکم انہیں کے ساتھ خاص ہے ان کے ماوراء کےلئے ہرگز ثابت نہیں۔اورخصوص جزم یہ کہ بالجزم والیقین اس کا حکم ماننا یہ انہیں کے ساتھ خاص ہے ان کے ماوراء میں اس کے ثبوت پر قطع ویقین نہیں اگرچہ ظن ورجاء ہے ۔
دوسرے بیان مفاد شرع واظہار ما یعطی الدلیل وکل ذی حق حقہ خصوصاً جہاں محلِ وسعت ورجاء ہے کہ حدث عن البحر ولاجرم ۔خصوصاً محل مناقب جہاں ضعاف بالاجماع مقبول خصوصاً اپنے سرکار میں محبت وبندگی ونیاز وغلامی کا تقاضا کہ یہ سب پر بالاہے یہ ظاہر ومتبادر کا افادہ فرماتے ہیں اورجزم وقطع کو اس کے محل اورظن ورجاء کو اس کے محل پر رکھتے ہیں ۔ یہ مسلک تحقیق ہے اوروہ مسلک تثقیف اوردونوں صواب ہیں۔حضرت امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ!لوگوں کو چھوڑ دیجئے کہ عمل کریں ، فرمایا تو چھوڑدو۔امید کرتاہوں کہ اس بیان سے ظاہر ہوگیا ہوگا کہ اس طریق میں جو امام ابن حجر عسقلانی اورامام ابن حجر مکی وعلامہ محمد زرقانی وحضرت امان الطریقۃ شیخ اکبر وغیرہم محققین رضی اللہ عنہم کا مختار ہے اوراسے طریق تخصیص سے اصلاً تنافی نہیں۔ ہر ایک منشاء صحیح سے ناشی اور اپنے محل پر حق ہے وباللہ التوفیق۔
مخالفت مشاہد کا جواب جزاء اللہ میں ص ۱۰۵ پر بالقصد مذکور تھا۔ وہ ساراصفحہ اسی بیان میں ہے، کیا مشاہدہ یہ ہوا کہ جو سید کہا جاتاتھا اس سے صدور ہوا تو ہمارے دعوٰی کے کب منافی ۔ یا یہ مشاہدہ ہوا تھا کہ فلاں کہ فی الواقع سید ہے نہ انتساب میں کبھی ادعاء نہ ___________ اورپھر اس نے کفر کیا تو ایسا مشاہدہ روئے زمین پر نہ ملے گا۔ پھر اس کے باعث جملہ سادات کی سیادت سے ارتفاع یقین میری فہم قاصر میں نہ آیا، یقین سے مراد یقین کلامی ہوتو وہ تویوں ہی حاصل ہوسکتاہے کہ اللہ ورسول بالتعیین کسی کا نام لے کر فرمائیں کہ یہ فلاں نسب کا ہے ایسا یقین آج کل کیونکر ممکن۔ اوریقین فقہی مقصد ہوکہ نسب میں شہرت مانی جائے گی والناس امنا ء علی انسابھم(لوگ اپنی نسبوں پر امین ہوتے ہیں۔ ت) تو جس خاص سے معاذ اللہ صدور منافی ہو اس سے ارتفاع یقینی ہوگا کہ دلیل اس کے خلاف پر پائی گئی باقیوں سے کیوں ارتفاع ہوجائے گا حالانکہ دلیل اعنی شہرت موجود اورمنافی اعنی صدورکفر مفقود۔

تیسرا شبہہ کہ سادات کرام جنتی ٹھہریں گے ، حبیبیی اس قضیے کے موضوع ومحمول دونوں میں دواحتمال ہیں۔ سادات کرام یعنی وہ جو عنداللہ سادات کرام یا وہ جو بنام سیادت مشہور ہیں عام ازیں کہ نفس الامراورعلم الہٰی میں کچھ ہو اور قطعی جنتی یعنی بلاسبقت عذاب جس سے دخولِ نارکی نفی ہویا قطعی جنتی بعاقبت وانجام جس سے خلودنار کی نفی ہو۔ اب یہ چار محمل ہیں اورفقیر کے دعوٰی سے ایک کو بھی مَس نہیں ۔ پہلے عرض کرچکا کہ غیر حسنین میں نفی دخول بطور رجانظر بظہور وتبادرہے پھر قطعیت کہاں ،بلکہ نفی خلود بھی مسئلہ ظنیہ ہے اگرچہ بحمداللہ تعالٰی یہ ظن غالب ۔ اکثر رائے ملتحق بسرحد یقین ہے جسے فقہاء یقین ہی کے پلّے میں رکھتے ہیں ، مگر نہ یقین کلامی کہ مسئلہ عقائد قطعیہ سے قرار پائے اوراس میں ادنٰی شک کو راہ دینے والا گمراہ وخارج از اہلسنت ٹھہر جائے ۔ جزاء اللہ صفحہ ۱۰۴ میں امام ابن حجر کے الفاظ ملاحظہ فرمائے ہوں گے۔ لاننی اکادان اجزم ان حقیقۃ الکفرلا تقع۱؂ الخ۔ اس لئے کہ بے شک میں اس بات پر جزم کرتاہوں کہ صحیح النسب سید سے حقیقی کفر کا وقوع نہیں ہوتا۔الخ(ت)

(۱؂جزاء اللہ عدوہ بابائہٖ ختم النبوۃ نوری کتب خانہ لاہور ص۱۲۲)

اوربالفرض نفی خلود بلکہ بفرض غلط نفی دخول ہی قطعی مان لی جائے تو کس کےلئے ، ان کے لیے جو عند اللہ سادات کرام ہیں، نہ ہر اس شخص کے لئے جو سید کہلاتاہو اگرچہ واقع میں نہ ہو اوراب کسی معین میں حصول وصف عنوانی پر قطع ویقین کی طرف راہ نہیں تو ثبوت وصف محمول کیونکر مقطوع بہ ہوجائے گا اورکسی معین کو اندیشہ آخرت کیوں اٹھ جائے گا کہ ہر ایک میں عدم علم نفس الامر کے سبب احتمال لگاہوا ہے ۔ جزا ء اللہ ص۱۰۵میں عبارت اسعاف ملاحظہ ہوکہ : من این تحقق ذٰلک لقیام احتمال۲؂ الخ۔ جب احتمال قائم ہے تو یہ کیسے متحقق ہوگا الخ۔(ت)

(۲؂ جزاء اللہ عدوہ بابائہٖ ختم النبوۃ نوری کتب خانہ لاہور ص۱۲۴)

اوراندیشہ آخرت تو انہیں بھی نہ اٹھ گیا جنہیں بتعیین نام لے کر ارشاد ہوگیا کہ تم جنتی ہو۔ اعنی عشرہ مبشرہ ونظرائہم رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔نہ انہیں اٹھ گیا جن سے بالتحقیق فرمایاگیا۔ اعملواماشئتم فقد غفرت لکم۳؂ ۔ جو چاہو عمل کرو بے شک میں نے تمہیں بخش دیا ہے ۔(ت)

(۳؂کنزالعمال حدیث۳۷۹۵۷ موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۴/ ۶۹)

اعنی اصحاب بدر رضی ا للہ تعالٰی عنہم ۔ واللہ تعالٰی اعلم

مسئلہ تسمیہ منیر الدین

حبیبی اکرم اللہ تعالٰی ! ہاں یہ مسئلہ فقہیہ ہے ، اس میں خواہی نخواہی وہی حکم ہے کہ :

یجب اتباع المنقول وان لم یظھر للعقول کما فی ردالمحتار وغیرہ من کتب الفحول۱؂۔ اس میں منقول کا اتباع واجب ہے اگرچہ عقل پر اس کی وجہ ظاہر نہ ہو ، ایسے ہی ردالمحتار وغیرہ فحول علماء کی کتابوں میں لکھا ہے ۔

(۱؂ ردالمحتار باب التصرف فی الرہن والجنایۃ علیہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۳۳۱)

فقیر نے اپنی رائے سے یہ حکم استنباط کیا ہوتا توضرور محل مواخذہ تھا۔ اب کہ علمائے کرام فقہائے اعلام تصریح فرماچکے اوران کی عبارات فقیر نے فتوٰی میں نقل کردیں کہ اسی قدر عہدہ مفتی تھا تو اب سوائے اتباع چارہ کیا ہے ۔
تفاول ضرور حسن ہے جب تک مخالفت شرعیہ نہ وہ اورنہی عذر تفاول اصلاً مسموع نہیں حق سبحانہ تعالی نے ارشادفرمایا :

لاتزکواانفسکم۲؂ (آپ اپنی جانوں کو صاف ستھرا نہ بتاؤ۔ت)

(۲؂ القرآن الکریم ۵۳ /۳۲)

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جن کی شان کریم تھی کان یحب الفال الحسن۳؂۔ (اچھی فال کو پسند فرماتے تھے ۔ ت)

(۳؂مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۳۳۲)

برّہ نام سے منع فرمایا اوراسے بدل کر جمیلہ کردیا۔ اوراس میں معذور شرعی وہی تزکیہ نفس ارشاد کیا کیا برّہ کو تفاول پرحمل نہیں کرسکتے تھے ، ضرور محمول ہوسکتا تھا مگر اس کا ظاہر تزکیہ نفس تھا اوروہ حرام ہے لہذا منع فرمایا اوربدل دیا۔ پھر منیرالدین وامثالہ میں برّہ سے کہیں زیادہ تزکیہ ہے نکو کاری ایک عام بات ہے کہ فساق کے سواسب کو حاصل ۔ مگر اس مرتبہ عظیمہ پرپہنچنا کہ دین ان صاحب کے نور سے منورہوجائے سخت مشکل ۔ تو ایسا شدید تزکیہ نفس کیونکر جائز ہوگا بخلاف سعید وامثالہ کہ ان کا حاصل صرف مسلم ہے ہر مسلمان سعید ہے اورہر سعید مسلمان ہے ، آیہ کریمہ فمنھم شقی وسعید۴؂۔ (ان میں کوئی بدبخت اورکوئی نیک بخت ہے ۔ت ) میں دو ہی قسمیں ارشاد ہوئیں اوران سے کافر مومن مراد ہوئے تو سعید نام رکھنا ایسا ہی ہے جیسے مسلم اوراس میں تزکیہ نہیں ۔ نظر بحال بیان واقع ہے اورنظر بمآل تفاول ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

(۴؂القرآن الکریم ۱۱ /۱۰۵)