مسئلہ ۱۹۰ : مرسلہ محمد عبدالواحد خاں مسلم کمیٹی اسلام پورہ معرفت عبداللطیف ہیڈ ماسٹر میونسپل اردو اسکول ۱۳ ربیع الاول شریف ۱۳۳۵ھ
واجب الاحترام و التعظیم اعلٰیحضرت مدظلہم ، قادیانی نے جس قدر تحریرات رسائل کتب اپنے دعوے کی تائید میں لکھے ہیں اگر آپ کے پاس ہوں اور ممکن ہو تو روانہ فرمادیجئے تاکہ اس کی تمام باتوں پر میں غور کرکے ایک رائے قائم کرلوں اور مباحثہ کے وقت سہولیت پیدا ہوجائے کیونکہ مخالف کتابیں دینے سے انکار کرتا ہے اگر یہ نہیں ہوسکتا ہے تو کم از کم ان کی کتابوں کے نام اور جگہ جہاں سے وہ دستیاب ہوسکتی ہیں تحریر فرمادیں، یہ تکلیف آپ کو دینا جائز نہیں مگر کوئی اور شخص ایسا نظر نہیں آتا جو اس کام کو انجام دے سکے۔ اب دوسری بات تردید یعنی جس قدر رسائل اشتہارات وغیرہ اس کے رد میں لکھے گئے ہوں روانہ فرمائے جائیں، ورنہ آخر درجہ ان کی فہرست ہی سہی۔ اور مندرجہ ذیل شکوک رفع کردیجئے۔ (قرآن ، صحاح ستہّ ہی کے دلائل ہوں تو خوب ہے۔)
(۱) میں صحاح ستہ کو دیکھنا چاہتا ہوں مگر عربی نہیں جانتا، کیا کوئی اردو ترجمہ تحت اللفظ اس کا فراہم ہوسکتا ہے اور کون سی کتاب زیادہ معتبر اور فائدہ رساں ہے؟
(۲) مشکوۃ شریف میں کیا بیان ہے اس سے کیا مدد مل سکتی ہے؟
(۳) ہمارے یہاں سب سے زیادہ کون کون سی کتابیں معتبر ہیں۔
(۴) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے مذہب پر آپ کی کیا رائے ہے؟
(۵) حضرت مسیح (علیہ السلام) کے زندہ ہونے کی کن کن حدیثوں سے دلیل مل سکتی ہے؟
(۶) سُبحان الذی الخ میں سبحان کے لفظ میں کیا خوصیت ہے؟
(۷) اور آپ کو رات کو کیوں معراج ہوا، دن کو کیوں نہ ہوا؟
(۸) ادریس ، خضر ، عزیز ، الیاس (علیہم السلام) ان کے قصص قدرے صراحت کے ساتھ بیان کیجئے۔
(۹) حضرت مہدی اور عیسٰی (علیہما السلام) دونوں جدا جدا اشخاص ہونےکی کن کن حدیثوں میں خبر ہے ؟
الجواب : (۱) صحاح ستّہ کے اردومیں ترجمے ہوئے ہیں مگر عموماً وہابیہ نے کیے ہیں، اور ترجمہ دیکھ کر کوئی شخص قرآن و حدیث نہیں سمجھ سکتا۔
(۲) مشکوۃ شریف ایک جامع کتاب ہے، بہت باتوں میں مدد دیتی ہے، مگر تنہا کوئی کتاب سوا قرآن عظیم کے کافی نہیں۔
(۳) ہمارے یہاں قرآن عظیم کے بعد حدیث میں صحیحیں اور سننِ اربعہ، مسانید امام اعظم ، موطا و کتاب الآثار امام محرر، کتاب الخراج امام ابویوسف ، کتاب الحج امام عیسٰی بن ابان، شرع معانی الاثار امام طحطاوی ، مشکلات الاثار امام طحطاوی_____ عقائد میں فقہ اکبر ، وصایائے امام اعظم، عقائد امام مفتی الانس والجن نجم الدین عمر نسفی_____فقہ میں ہدایہ ، بدائع مبسوط۔جامع صغیر، جامع کبیر، خانیہ ، خلاصہ ، بزازیہ، غرر، درر، تنویرالابصار، درمختار، غنیہ ، حلیہ اور ہزار ہا کتب بے شمار۔
(۴) ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا شبِ معراج تک خدمت اقدس میں حاضر بھی نہ ہوئی تھیں بہت صغیر السن بچی تھیں۔ وہ جو فرماتی ہیں، ان روحانی معراجوں کی نسبت فرماتی ہیں جو اُن کے زمانے میں ہوئیں۔ معراجِ جسمانی انکی حاضری سے کئی سال پیشتر ہوچکا تھا۔
(۵) اس کے لیے دُرمنثور و ابن جریر و تفاسیر دیکھنی چاہیئں، ابھی میں اوپر کہہ چکا ہوں کہ ان مسائل میں بحث یہ قادیانیوں کا دھوکا ہے بحث اس کے ان کفریات میں چاہیے جس کا نمونہ اوپر مذکور ہوا۔
(۶) حضرت عزّت جل وعلا اپنے محبوبوں کی مدح سے اپنی حمد فرمایا کرتا ہے۔ اس کی ابتداء كہيں ھو الذي سےہوئي ہے جيسے ھو الذی بعث فی الامیین رسولا ۱ ؎۔ جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا ۔(ت)
( ۱؎القرآن الکریم ۶۲/۲ )
ھوالذی ارسل رسولہ بالھدٰی ودین الحق ۲؎۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ۔(ت)
(۲ ؎القرآن الکریم ۴۸ /۲۸ و ۶۱ /۹)
کہیں تبارک الذین سے : تبارک الذی نزل الفرقان علٰی عبدہ لیکون للعٰلمین نذیرا ۳ ؎۔ بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے اتارا قرآن اپنے بندے پر جو سارے جہان کو ڈر سنانے والا ہو۔(ت)
( ۳ ؎القرآن الکریم ۲۵ /۱ )
کہیں حمد سے، جیسے : الحمد ﷲ الذی نزل علٰی عبدہ الکتب ولم یجعل لہ عوجا ۴ ؎۔ سب خوبیاں اﷲ کو جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں اصلاً کجی نہ رکھی۔(ت)
( ۴ ؎القرآن الکریم ۱۸ /۱)
یہاں تسبیح سے ابتداء فرمائی ہے کہ : سبٰحن الذی اسرٰی بعبدہ لیلا من المسجدالحرام ۵ ؎۔ پاکی ہے اُسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے۔(ت)
( ۵ ؎القرآن الکریم ۱۷ /۱)
اس میں ایک صریح نکتہ یہ ہے کہ جو بات نہایت عجیب ہوتی ہے اس پر تسبیح کی جاتی ہے، سبحن اﷲ الذی کیسی عمدہ چیز ہے۔ سبحن کیسی عجیب بات ہے جسم کے ساتھ آسمانوں پر تشریف لے جانا کوئی زمہر یر طے فرمانا، کُرہ نار طے فرمانا، کروڑوں برس کی راہ کو چند ساعت میں طے فرمانا۔ تمام ملک و ملکوت کی سیر فرمانا۔ یہ تو انتہائی عجیب آیات بینّات ہی ہیں۔ اتنی بات کہ کفارِ مکہ پر حجت قائم فرمانے کے لیے ارشاد ہوئی کہ شب کو مکہ معظمہ میں آرام فرمائیں صبح بھی مکہ معظمہ میں تشریف فرما ہوں، اور رات ہی رات بیت المقدس تشریف لے جائیں اور واپس تشریف لائیں۔
کیا کم عجیب ہے ، اس لیے سبحن الذی ارشاد ہوا، کفار نے آسمان کہاں دیکھے، ان پر تشریف لے جانے کا اُن کے سامنے ذکر ایک ایسا دعوٰی ہوتا جس کی وہ جانچ نہ کرسکتے، بخلاف بیت المقدس جس میں ہر سال اُن کے دو پھیرے ہوتے ۔ رحلۃ الشتاء والصیف۱ ؎۔ (سردی اور گرمی میں کوچ کرنا۔ت)
( ۱ ؎القرآن الکریم ۱۰۶ /۲)
اور وہ خوب جانتے تھے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کبھی وہاں تشریف نہ لے گئے تو اس معجزے کی خوب جانچ کرسکتے تھے اور ان پر حجت الہی پوری قائم ہوسکتی تھی۔ چنانچہ بحمداﷲ تعالٰی یہ ہی ہوا کہ جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا بیت المقدس تشریف لے جانا اور شب ہی شب میں واپس آنا بیان فرمایا، ابوجہل لعین اپنے دل میں بہت خوش ہوا کہ اب ایک صریح حجت معاذ اﷲ ان کے غلط فرمانے کی مل گئی، ولہذا ملعون نے تکذیب ظاہر نہ کی بلکہ یہ عرض کی کہ آج ہی رات تشریف لے گئے؟ فرمایا : ہاں ۔ کہاں اور آج شب میں واپس آئے؟ فرمایا : ہاں کہاں : ارووں کے سامنے بھی ایسا ہی فرمادیجئے گا؟ فرمایا : ہاں اب اس نے قریش کو آؤاز دی اور وہ جمع ہوئے اور حضور سے پھر اس ارشاد کا اعادہ چاہا، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اعادہ فرمادیا۔ کافر بغلیں بجاتی صدیق اکبر کے پاس حاضر ہوئے ۔ یہ گمان تھا کہ ایسی ناممکن بات سن کر وہ بھی معاذ اﷲ تصدیق سے پھر جائیں گے۔ صدیق سے عرض کی۔ آپ نے کچھ اور بھی سنا آپ کے یار فرماتے ہیں کہ میں آج کی رات بیت المقدس گیا اور شب ہی میں واپس ہوا۔ صدیق اکبر نے فرمایا : کیا وہ ایسا فرماتے ہیں ؟ کہاں : ہاں وہ یہ حرم میں تشریف فرما ہیں۔ صدیق نے فرمایا۔ توواﷲ حق فرمایا یہ تو مکہ سے بیت المقدس تک کا فاصلہ ہے میں تو اس پر ان کی تصدیق کرتا ہوں کہ صبح شام آسمان کی خبر ان کے پاس آتی ہے ، پھر کافروں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المقدس کے نشان پوچھے، جانتے تھے کہ یہ تو کبھی تشریف لے گئے نہیں کیونکر بتائیں گے وہ جو کچھ پوچھتے گئے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ارشاد فرماتے گئے۔
کافروں نے کہا : واﷲ ! نشان تو پورے صحیح ہیں۔ پھر اپنے ایک قافلہ کا حال پوچھا جو بیت المقدس کو گیا ہوا تھا کہ وہ بھی راستہ میں حضور کو ملا تھا اور کہاں ملا تھا اور کیا حالت تھی کب تک آئے گا؟ حضور نے ارشاد فرمایا : فلاں منزل میں ہم کو ملا تھا اور یہ کہ اُتر کر ہم نے اس میں ایک پیالہ سے پانی پیا تھا اور اس میں ایک اونٹ بھاگا اور ایک شخص کا پاؤں ٹوٹ گیا اور قافلہ فلاں دن طلوع شمس کے وقت آئے گا۔ یہ مدت جو ارشاد ہوئی منزلوں کے حساب سے قافلہ کے لیے بھی کسی طرح کافی نہ تھی۔ جب وہ دن آیا کفار پہاڑ پر چڑھ گئے کہ کسی طرح آفتاب چمک آئے اور قافلہ نہ آئے اور قافلہ نہ آئے تو ہم کہہ دیں کہ دیکھو معاذ اﷲ وہ خبر غلط ہوئی۔ کچھ جانبِ شرق طلوع آفتاب کو دیکھ رہے تھے کچھ جانبِ شام راہ قافلہ پر نظررکھتے تھے اُن میں سے ایک نے کہا : وہ آفتاب چمکا، کہ اُن میں سے دوسر ابولا کہ وہ قافلہ آیا۔ یہ ہوتی ہے سچی نبوت جس کی خبر میں سرمُوفرق آنا محال ہے۔
قادیانی سے زیادہ تو اُن کفار ِ مکہ ہی کی عقل تھی وہ جانتے تھے کہ ایک بات میں بھی کہیں فرق پڑ جائے تو دعوٰی نبوت معاذ اﷲ غلط ہوجائے گا۔ مگر یہ جھوٹا نبی ہے کہ جھوٹ کے پھینکے اڑاتا ہے اور نہ وہ شرماتا ہے۔ اور نہ اس کے ماننے والوں کو اس کا حس ہوتا ہے بلکہ دریکمال شوخ چشمی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے کہ ہاں ہاں اگلے چار سو انبیاء کی بھی پیشگوئیاں غلط ہوئیں اور وہ جھوٹے یعنی پنجاب کا جھوٹا کذاب نبی اگر دروغ گو نکلا کیا پروا ہ ہے اس سے پہلے بھی چار سو نبی جھوٹے گزر چکے ہیں۔ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ جب نبوت اور جھوٹ جمع ہوسکتے ہیں تو انبیاء کی تصدیق شرطِ ایمان کیوں ہوئی انکی تکذیب کفر کیوں ہوئی۔
ولٰکن لعنۃ اﷲ علی الظّٰلمین الذین یکذبون المرسلین۔ لیکن اﷲ تعالٰی کی لعنت ہو ان ظالموں پر جو رسولوں کو جھٹلاتے ہیں۔(ت)
ان عظیم وقائع نے معراجِ مبارک کا جسمانی ہونا بھی آفتاب سے زیادہ واضح کردیا اگر وہ کوئی روحانی سیر یا خواب تھا تواس پر تعجب کیا۔ زید و عمر و خواب میں حرمین شریفین تک ہو آتے ہیں اور پھر صبح اپنے بستر پر ہیں۔ رؤیا کے لفظ سے استدلال کرنا اور الاّفتنۃ للناس نہ دیکھنا صریح خطا ہے۔ رؤیا بمعنی رویت آتا ہے۔ اور فتنہ و آزمائش بیداری ہی میں ہے نہ کہ خواب میں ولہذا ارشاد ہوا۔
سبٰحن الذی اسرٰی بعبدہ ۱ ؎۔ پاکی ہے اُسے جو اپنے بندے کو لے گیا ۔(ت)واﷲ تعالٰی اعلم۔
( ۵ ؎القرآن الکریم ۱۷ /۱)
(۷) رات تجلی لطفی ہے اور دن تجلی قہری ، اور معراج کمالِ لطف ہے جس سے مافوق متصور نہیں، لہذا تجلی لطفی ہی کا وقت مناسب تھا۔ معراج وصلِ محب و محبوب ہے اور وصال کے لیے عادۃً شب ہی انسب مانی جاتی ہے معراج ایک معجزہ عظیم قاہرہ ظاہرہ تھا۔ اور سنتِ الہٰیہ ہے کہ ایسے واضح معجزہ کو دیکھ کر جو قوم نہ مانے ہلاک کردی جاتی ہے اُن پر عذاب عام بھیجا جاتا ہے ، جیسے اگلی امتوں میں بکثرت واقع ہوا۔ معراج کو شریف لے جانا اگر دن میں ہوتا تو یا سب ایمان لے آتے یا سب ہلاک کیے جاتے ، ایمان تو کفار کے مقدر میں تھا نہیں تو یہ ہی شِق رہی کہ اُن پر عذاب عام اُترتا اور حضور بھیجے گئے سارے جہان کے لیے رحمت ، جنہیں اُن کا رب فرماتا ہے :
وما کان اﷲ لیعذبھم وانت فیھم۱ ؎۔ اے رحمت عالم ! جب تک تم ان میں تشریف فرما ہو اﷲ انہیں عذاب کرنے والا نہیں۔
( ۱ ؎ القرآن لکریم ۸ /۳۳)
لہذا شب ہی مناسب ہوئی۔
(۸) تصانیف علماء میں قصص الانبیاء دیکھئے اگر کوئی خاص بات دریافت کرنی ہو تو پوچھیے۔
حضرت عزیز علیہ السلام کا قصہ قرآن عظیم ہی میں مذکور ہے کہ اُن کی روح قبض فرمائی پھر سو برس بعد زندہ فرمایا ، کھانا پانی جو ساتھ تھا وہ اس سو برس میں نہ بگڑا۔ اور سواری کے لیے جانور کی ہڈیاں بھی گل چکی تھیں، ان کی نظر کے سامنے اس کی ہڈیاں اُبھاریں اُن پر گوشت چڑھایا اسے زندہ فرمایا ۔۲ ؎۔
( ۲ ؎ القرآن لکریم ۲ /۲۵۹)
حضرت خضر علیہ السلام کا قصہ سیدنا موسٰی علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی قرآن عظیم میں ہے ۳ ؎۔
حضرت ادریس علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا سے مع جسم بہشت بریں میں اٹھالیا، واذکر فی الکتٰب ادریس انہ کان صدیقا نبیا ورفعٰنہ مکاناً علیّا۴ ؎۔ اورکتاب میں ادریس کو یاد کرو بے شک وہ صدیق تھا، غیب کی خبریں دیتا اور ہم نے اسے بلند مقام کی طرف اٹھالیا۔(ت)
( ۳ ؎ القرآن لکریم ۱۸/ ۶۵ تا ۸۲)
( ۴ ؎ القرآن لکریم ۱۹/ ۵۶ و ۵۷)
الیاس علیہ الصلوۃ والسلام مرسلین کرام میں ہیں، انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سب بحیات حقیقی روحانی جسمانی زندہ ہیں، ان کی موت صرف ایک آن کو تصدیقِ وعدہ الہٰیہ کے لیے ہوتی ہے، جمہور علماء کے نزدیک چار نبی بے عروضِ موت اب تک زندہ ہیں، دو آسمان پر، سیدنا ادریس و سیدنا عیسی اور دو ز مین میں، سیدنا الیاس و سیدنا خضر علیہم الصلوۃ والسلام ۱ اور یہ دونوں حضرات ہر سال حج کرتے ہیں اور ختم حج پر زمزم شریف کے پاس باہم ملتے ہیں، اور آبِ زمزم شریف پیتے ہیں کہ آئندہ سال تک ان کے لیے کافی ہوتا ہے پھر کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوتی۔
ان کلمات پر باہم ملاقات ختم فرماتے ہیں : سبحان اﷲ ماشاء اﷲ لایسوق الخیر الاّ اﷲ ماشاء اﷲ لایصلح السوء الا اﷲ ماشاء اﷲ ماکان من نعمۃ فمن اﷲ ماشاء اﷲ لاحول ولاقوۃ الا باﷲ۲ ؎۔ اللہ تعالٰی پاک ہے جو اﷲ چاہے، بھلائی نہیں لاتا، مگر اﷲ جس قدر چاہے جو بھی نعمت ہے وہ اﷲ ہی کی طرف ہے جس قدر اﷲ چاہے، نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت ہے مگر اﷲ تعالٰی کی توفیق سے۔(ت)
( ۱ ؎۔تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۱۰۰۴الیاس بن عیسٰی علیہ السلام داراحیاء التراث العربی بیروت ۹ /۱۵۵)
(۲ ؎تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۱۰۰۴ الیاس بن عیسٰی علیہ السلام داراحیاء التراث العربی بیروت۹/ ۱۵۸)
الیاس علیہ الصلوۃ والسلام لشکرِ اقدس حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک غار میں یہ دعا کرتے ملتے۔ اللھم اجعلنی من امۃ احمد المرحومۃ المبارکۃ المستجاب لھا ۳ ؎۔ اے اﷲ ! مجھے احمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی امت سے بنا دے جس پر تیری رحمت و برکت نازل ہوتی ہے اور جس کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔(ت)
( ۳ ؎تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۱۰۰۴ الیاس بن عیسٰی علیہ السلام داراحیاء التراث العربی بیروت ۹/ ۱۵۹)
خضر علیہ الصلوۃ والسلام بعد وصال اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعزیت کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس تشریف لائے، مسجد نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے راستہ میں امیرا لمومنین عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ سے باتیں کرتے اور ان پر تکیہ لگاتے ہوئے راہ چلتے نظر آئے، اکابر اولیاء کے پاس اکثر تشریف لاتے ، حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجالس وعظ میں بکثرت کرم فرمایا، اور اب تک اولیاء سے ملتے ہیں، جنگل میں بے بسی کے وقت مسلمانوں کی مدد فرماتے ہیں۔
(۹) ان احادیث کی تفصیل خصائص کبرٰی امام جلال الدین سیوطی و کتاب الاشاعۃ فی اشراط الساعۃ سیدنا علامہ محمد ابن عبدالرسول برزنجی وغیرہما میں ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔