مسئلہ ۲۰۷ تا ۲۱۱: از کلکۃ نمبر ۲۴۷ پوسٹ شملہ مانک تلہ مرسلہ منصور علی میاں بگاں قدمِ رسول ۱۷ شعبان ۱۳۳۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ،
(۱) مومن اور ولی میں کون سی نسبت ہے؟
(۲) درود شریف کے اندر بجائے علٰی ابراہیم وعلٰی آل ابراہیم کے علٰی ال داؤد یا علی اٰ ل زکریا وغیرھما نہ آنے کی کیا وجہ ؟
(۳) جو مضمون قران شریف کے ہے اس کو مدلولِ قرآنی کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ اور اگر کہہ سکتے ہیں تو طھرابیتی وطھر اقلبی میں کیا فرق ہے ؟ اور اگر مدلول نص نہیں تو کیوں؟
(۴) صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں اصحاب پر آل کو مقدم کیوں کیا ؟
(۵) درجہ ولایت باقی رہنے اور نبوت کے ختم ہوجانے کی کیا وجہ ہے؟
الجواب
(۱) اگر ولایتِ عامہ مراد ہے تو تساوی، اﷲ ولی الذین اٰمنوا ۱ ؎۔ ( اﷲ تعالٰی ایمان والوں کا ولی ہے۔ت) اور خاصہ تو عموم خصوص مطلق ان اولیاء ہٗ الا المتقون ۲ ؎۔ ( اس کے ولی تو پرہیزگار ہیں۔ت)
( ۱ ؎القرآن الکریم ۲ /۲۵۷)
( ۲ ؎القرآن الکریم ۸ /۳۴)
(۲) آل ابراہیم علیہ السلام میں آل داؤد و آل زکریا علیہما السلام سب داخل ولا عکس۔
(۳) جس مضمون پر قرآن عظیم دلالت فرمائے مدلولِ قرآنی ہے بیتی اور قلبی میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور متشابہات میں قیاس جاری کرنا ضلالت اٰمنّا بد کل من عندربنا ۳ ؎۔ ( ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس ہے۔ ت) نہ کہ من عند نفسک ( تیرے نفس کے پاس سے ۔ت) ( ۳ ؎القرآن الکریم ۳ /۷)
(۴) آل اصحاب کو بھی شامل ہے ولا عکس یہ تخصیص بعد تمیم ہے۔
(۵) اﷲ عزوجل نے فرمایا : وٰلکن الرسول اﷲ و خاتم النّبین ۱ ؎۔ ہاں وہ اﷲ تعالٰی کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے ۔(ت)
( ۱ ؎القرآن الکریم۳۳ /۴۰)
اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : لاتزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق لایضرھم من خذلھم ولا خالفہم حتی یاتی امر اﷲ وھم علٰی ذٰلک۲ ؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔ میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا، ان کی رُسوائی کا ارادہ کرنے والا اور ان کا مخالف ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالٰی کا امر ( قیامت) آجائے در آنحالیکہ وہ حق پر قائم ہوں گے۔ اور اﷲ تعالٰی خوب جانتا ہے۔ (ت)
( ۲ ؎الدرالمنثور بحوالہ مسلم والترمذی و ابن ماجہ تحت آیۃ ولولا دفع اﷲ الناس الخ مکتبہ آیۃ اﷲ العظمی قم ایران ۱ /۳۲۱)
(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لاتزال طائفۃ من امتی قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۴۳)