ہیپناسس

لمسی

لمس۔ یعنی وہ حس جو چھونے سے محسوس کی جائے۔” ایک زمانے میں مریض کی پیشانی یا ہاتھ کو سہلا کر ہپناٹائز کرنے کا طریقہ عام تھا۔ لیکن ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ اس طریقے سے احتراز کرنا چاہئے کیونکہ نومیت(TRANCE) کی حالت میں معمول کو چھونے سے اسے غلط فہمی ہو سکتی ہے۔
”بے شک کسی نے بے ساختہ کہا۔ سب کی نظریں ڈاکٹر احمد کی طرف اٹھ گئیں۔ جو شہر کے مشہور ماہر دنداں تھے۔ لیکن ڈاکٹر ندیم نے مسکرا کر کہا ” ہر چیز میں کچھ نہ کچھ استثنا بھی ہوتا ہے مثلاً اگر معمول اندھا بہرا ہے تو مجبوراً آپ کو یہی طریقہ اختیار کرنا ہو گا۔”
کمرے میں مکمل سکوت طاری ہو گیا۔
بلا شبہ لمسی طریقے سے بھی نیند طاری کی جاسکتی ہے ” ڈاکٹر نے کہا۔ آپ سب نے خود محسوس کیا ہو گا کہ باربر جب حجامت بناتا ہے تو خود بخود غنودگی طاری ہونے لگتی ہے۔ بالکل یہی حال اس وقت ہوتا ہے جب آپ سر کی مالش کراتے ہیں
اور جہاں تک میرا خیال ہے۔ حس شمامہ (SMELL SENSATION) (سونگھنے کی حس) یا حس ذائقہ (SENSE OF TASTE) کے ذریعے نومیت طاری نہیں کی اگر ایسا ہوتا ” وہ طلبا کی طرف دیکھ کر مسکرائے تو آج کے ماہر باورچیوں نے اس کوضرور دریافت کر لیا ہوتا۔ کمرہ قہقہوں سے گونج اٹھا۔
“یوں تو ہپناٹائز کرنے کے بہت سے طریقے ہیں”ڈاکٹر نے بتایا۔ لیکن ان میں سے تقریباً ہر ایک میں حسی تکان (SENSORY FATIGUE) ضرور پیدا کی جاتی ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ممکن ہے آپ کو تجربہ ہو کہ اکثر لوگ بعض اوقات غیر اختیاری طور پر ہپناٹائز ہو جاتے ہیں۔ مثلاً لیکچر کے دوران آپ پر ایک غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ لیکچرار کی متوازن اور مسلسل آواز کے اتار چڑھاؤ کے اثر سے ہی آپ پر حسی تکان طاری ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے آپ آرام کرسی پر بیٹھے ہوئے ریڈیو پرکوئی تقریر یا موسیقی سن رہے ہوں اور اس کے اثر سے خوابیدہ ہو جائیں۔” یہی نہیں، آپ نے ٹرین کے سفر میں بھی تجربہ کیا ہو گا۔گزرتے ہوئے مناظر کو مسلسل دیکھتے رہنے سے نیند کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے یا گزرنے والے تار کے کھمبوں کو مسلسل دیکھتے رہنے سے پلکیں بوجھل ہو جاتی ہیں۔ اس غنودگی کا باعث ٹرین کی کھٹا کھٹ کی مسلسل آواز بھی ہو سکتی ہے جو پڑیوں سے پیدا ہوتی ہے۔ ان تمام حالات میں عموما پہلے آپ پر حالت نومیت (IHYPNOTIC STATE)طاری ہوتی ہے اور پھر آپ نارمل نیند کی آغوش میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ایک بالکل عام بات ہے۔“
ماں جب بچے کو گود میں تھپک تھپک کر لوریاں دیتی ہے تو وہ ایک ہپناٹسٹ کا کام کرتی ہے۔ جھولے پر لیٹے لیٹے جو نیند آجاتی ہے وہ بھی اسی طرح حسی تکان کا کرشمہ ہے۔ اس لئے ان معمولوں کے ساتھ جو ہپناٹائز ہونے میں خوف یا جھجک محسوس کرتے ہوں۔آپ ان میں سے کسی ایک طریقے کا مظاہرہ کرکے ان کے خوف کو بہ آسانی دور کر سکتے ہیں تاکہ ان کو یقین آجائے کہ ہپناٹزم ” کوئی غیر فطری یا غیر معمولی چیز نہیں ہے۔”لوگوں نے ایک گہری سانس لی۔ ڈاکٹر مسکرایا۔
آپ سب بھی تکان محسوس کر رہے ہیں۔ آئیے پھر ہم کچھ دیر آرام کر لیں۔ چائےکا وقت بھی ہو گیا ہے۔
بحوالہ: لمس کے ذریعے ہپناٹزم
ص:20