ہیپناسس

لاشعور اور علامتیں

ان حقائق کے پیش نظر جو آج ہم پر نفسیاتی تحقیقات کی بنا پر واضح ہوتے ہیں, ہم ان قدیم روایات کو ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں جن کے بل بوتے پر عہد قدیم کے لوگ علاج کرتے تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ لوگ ذہن کی کرشمہ سازیوں کو دیوتاؤں کے سر منڈھ دیتے تھے اور نفسیاتی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی بیماریوں میں تقریبا نوے فیصدی علامتیں خود اس کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ علامتیں جن کا تعلق قطعی طور پر عضویاتی PHYSICAL بیماریوں سے ہوتا ہے یا جوواضح طور پر خوردبینی جراثیم کی صورت میں موجود ہوتی ہیں، وہ ہماری اپنی ہی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔ یہ بات تو بڑی عجیب سی ہے کہ کسی شخص کو دق ہے اور ایکسرے سے صاف نظر آتا ہے کہ اس کے پھیپڑوں میں شگاف پڑے ہوئے ہیں۔ تھوک اور بلغم میں دق کے جراثیم موجود ہیں مگر اس کو ذہن کی پیداوار کہا جائے۔اس سے قبل کہ میں تحقیقاتی نتائج کے پس منظر میں اس بات کو ثابت کروں، ذہن کے معمول کے ردعمل کی رو سے اس بات کو واضح کروں گا کہ ہمارا ذہن کسی طرح ہمارے نظام جسمانی پر اثر انداز ہوتا ہے۔مثال کے طور پر خوف کو لیجئے۔خوف انسان کے اندر جبلی طور پر موجود ہوتا ہے۔ خوف سے ہمارے اندر دو قسم کے رد عمل ہوتے ہیں۔ اگر کسی شخص پر کوئی شخص حملہ کر دے تو وہ اس کے لئے دو طریقے اختیار کرے گا فرار یا جوابی حملہ، ہر دو صورتوں میں ہمارا ذہن ہمارے جسمانی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ اگر ہمارے اندر قوت مقابلہ موجود ہے تو لاشعور کا خوف کم ہوتا ہے اور جسم کا رد عمل زیادہ۔اس طرح یہ رد عمل جسمانی طور پر ظاہرہوتا ہے۔ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ مارے خوف کے کسی شخص کو اسہال لگ گیا۔ کیونکہ خوف کی صورت میں ہمارے چندغدود …. خاص قسم کے سیال چھوڑتے ہیں جو براہ راست ہمارے نظام ہاضمہ کو متاثر کرتے ہیں۔خوف کا اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ خون کا دوران بڑھ جاتا ہے اور دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔اگر خوف بہت ہی شدید ہو تو آدمی پر اکثر ہیجانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے عارضی یا مستقل طور پر فالج کا حملہ ہو جاتا ہے۔لکنت نمودار ہو جاتی ہے یا دل اپنا فعل چھوڑ دیتا ہے یعنی ہارٹ فیل ہو جاتا ہے۔اس طرح اگر کسی تندرست و توانا آدمی سے کوئی ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ تمہیں سرطان یا دق ہو گئی ہے تو اس کا اثر فوری خوف کی صورت میں ظاہر ہو گا۔اگر اسے ڈاکٹر کے کہنے پر یقین ہو جائے تو پھر یہ عین ممکن ہے کہ اس کے اندر دق کے حقیقی آثار پیدا ہو جائیں۔ حالانکہ اس کے خاندان میں کبھی کسی کو تپ دق نہ ہوئی ہو اور یہ بھی قطعی یقینی ہے کہ آہستہ آہستہ یہی تپ دق بڑھ کر اس میں عضویاتی خرابیاں پیدا کر دے اور جراثیم بھی ظاہر ہو جائیں۔یہ محض تخیل ہی نہیں حقیقت ہے۔حال ہی میں امریکا کے شہر شکاگو میں یہ خبر پھیل گئی کہ پینے کے پانی میں زہر ملا ہوا ہے۔اس خبر کے پھیلتے ہی اسپتالوں میں ٹیلیفونوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔شہر کے مختلف علاقوں سے اطلاعات آنے لگیں کہ فلاں شخص زہر کی وجہ سے ہلاک ہو گیا ہے۔فلاں پر زہر اثر کر گیا ہے۔ چنانچہ صرف ایک ہی رات میں سینکڑوں اشخاص مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوگئے۔ حالانکہ یہ خبر سرے سے ہی غلط تھی۔چند سال ہوئے جرمنی میں ذہنی ردعمل دیکھنے کے لئے ایک آدمی سے کہا گیا کہ اس کا سارا خون نکالا جائے گا۔چنانچہ اسے ایک ٹب میں بٹھا کر اس کی نس میں سوئی داخل کر دی گئی۔ خون نکل کر ٹب میں گرتا رہا۔ ٹب میں پانی ملا ہوا تھا اور خون اس پانی کے ساتھ مل کر ایک خوفناک منظر پیش کر رہا تھا یہاں تک کہ مریض پر غشی طاری ہو گئی۔ بڑی مشکل سے اسے ہوش میں لایا گیا۔ حالانکہ مریض کا ایک قطرہ خون بھی نہ نکلا تھا۔ جو خون وہ دیکھ رہا تھا نیچے سے ایک نلکی کے ذریعے ٹب میں کسی جانور کا خون پہنچایا جا رہا تھا جو پانی میں مل کر اس پانی کو سرخ کرتا جا رہا تھا اور مریض یہ سمجھتا رہا کہ یہ تمام خون اسی کا ہے چنانچہ اس پر خوف طاری ہو گیا یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو گیا یہ ذہنی سجیشن اور امیجینیشن کی کرشمہ سازی ہیں یہ ان چند علامتوں کا ذکر ہے جو انسان نے فوری طور پر پیدا ہوتی ہیں اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ہم اپنے ذہن کے غلام ہیں اور ہمارا ذہن کس طرح ہمارے نظام جسمانی پر قبضہ کیے ہوئے ہیں اگر ہمارا ذہن اتنا قوی ہے کہ ہمارے جسم میں اتنے بڑے اور خوفناک تغیرات رونما کر سکتا ہے تو پھر ہمارے ذہن میں اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ ایسے تغیرات کو صحت مند بھی کر سکے یہ قوت یقینی طور پر موجود ہے اب ان مستقل کمزوریوں کے اسباب کی طرف ائیے جو انسان کی زندگی کو جہنم بنائے ہوئے ہیں فرائیڈ نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ انسان کے اندر دو قوتیں یعنی جبلتیں ہیں ایک تو فرار کی جبلت insinct of escape اور دوسری جبلت تعمیر insinct of construction ان کو ہم سہولت کی خاطر مندرجہ ذیل ناموں سے پکاریں گے جبلت تخریب destruction instinct جس کا تعلق محبت سے ہے ہر انسان کی تمنا ہوتی ہے کہ نہ صرف وہ محبت کرے بلکہ اس سے بھی کوئی محبت کرتا رہے یہ محبت انسان کے اندر زندگی سے پیار کا باعث بنتی ہے ہمارے اندر جینے کی آرزو کو تقویت ملتی ہے ہر شخص کی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اس کو اس مقصد سے محبت ہوتی ہے جب انسان کا یہ مقصد ختم ہو جاتا ہے یا دوسرے معنوں میں زندگی سے محبت ختم ہو جاتی ہے تو اس میں جذبہ تنفرپیدا ہوتا ہے یہ نفرت جو اس کو دوسروں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے خود اپنی ذات سے بھی نفرت کا باعث بنتی ہے چنانچہ اس نفرت کے پیدا ہوتے ہی انسان کے اندر فرار کا جذبہ نمودار ہوتا ہے اور یہ فرار ہی تخریبی قوت کو برسر پیکار کر دیتا ہے جب لاشعور کے اندر فرار کا جذبہ نمودار ہوتا ہے تو اس کا اثر یقینی طور پر ہمارے جسمانی نظام پر ظاہر ہوتا ہے اخر انسان فرار کیوں اختیار کرتا ہے یہی نہ کہ اس دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لے مگر جب تک سانس ہے کنارہ دشوار ہے اس کے بعد صرف ایک راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ خود کشی کر لے مگر خودکشی فرار کی ایک انتہا تک پہنچی ہوئی شعوری حرکت ہے یعنی انسان خودکشی اسلئے کرتا ہے جب فرار کی خواہش اس حد تک تقویت کو پہنچ جائے کہ زندگی سے محبت کا مادہ قطعی طور پر ختم ہو جائے اس وقت لاشعور شعور کو بھی مجبور کرتا ہے کہ وہ ایسی حرکت کرے جس سے انسان ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے یعنی انسان اس وقت نفرت و تخریبی قوت کے سامنے بے بس ہو کر اپنا سب کچھ اس کے سپرد surrender کر دیتا ہے لیکن جب تک انسان کے اندر محبت کرنے یا محبت حاصل کرنے کی ذرا سی بھی صلاحیت موجود ہوگی اس وقت تک یہ تخریبی قوت ( نفرت کا جذبہ) اس حد تک ظاہر نہیں ہوتا کہ خودکشی کر لے اس کے لیے صرف ایک ہی راہ جاتی ہے کہ وہ مرے بھی نہیں اور زندہ بھی رہے چنانچہ جب تریبی قوت اپنا عمل کرتی ہے تو انسان اندر ہی اندر ایک slow death کی طرف بڑھتا ہے اہستہ اہستہ موت کی طرف قدم بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ جسم اپنے اندر کوئی ایسا زہر پیدا کرے کہ انسان اہستہ آہستہ موت کا لقمہ بن جائے چنانچہ لاشعور اس فرار کے تحت انسان کے اندر یہ زہر پیدا کرتا ہے یہ مختلف بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے چنانچہ بیماریاں لاشعور کا وہ رد عمل ہے جن سے ہم یہ جان جاتے ہیں کہ لاشعور کے جذبہ محبت کو ٹھیس لگی ہے اور وہ اس کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے یعنی وہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ مجھے محبت بخشو ورنہ میں مر جاؤں گا بالکل ایک ایسے بچے کی طرح جو اپنی ماں سے کھلونا مانگ رہا ہو اور ماں وہ کھلونا لے کر نہ دے تو وہ رونا پیٹنا شروع کر دے اور اس وقت تک روتا رہے جب تک اس کی خواہش پوری نہ کر دی جائے ایک دفعہ ایک عورت اپنے بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے گئی اس نے کہا یہ بچہ دن بدن دبلا ہو رہا ہے بہت علاج کروائے مگر یہ تندرست نہیں ہوتا ڈاکٹر نے مختلف دوائیں دی مگر کسی صورت سے بچے کی صحت ٹھیک نہ ہوئی اخر ڈاکٹر نے ایک دن پوچھا کہ اپ کیا کرتی ہیں ماں نے کہا کہ میں ایکٹرس ہوں اور میرا زیادہ وقت اسٹوڈیو اور پارٹیوں میں گزرتا ہے۔ ڈاکٹر نے اپنا پیڈ اٹھایا اور نسخہ لکھ دیا۔ ماں نے نسخہ پڑھا لکھا تھا ” “محبت “ہر چار گھنٹے بعد ایک خوراک۔جی ہاں یہ محبت کی کمی تھی جس کی وجہ سے بچہ بیمار ہو رہا تھا۔ ہم سب لوگ ذہنی طور پر بچے ہی ہیں کیونکہ ہمیں پیدائشی طور پر محبت کی جبلت ملی ہوتی ہے۔ محبت زندگی کا مقصد ہے زندگی کا نصب العین ہے۔جب تک ہمارے اندر محبت کا جذبہ CREATIVE POWER باقی رہے گا ہم اپنی تخریبی قوت کو دباتے رہیں گے۔لیکن جیسے ہی تخلیقی قوت کمزور پڑے گی، تخریبی عناصر فورا ہی سراٹھائیں گے۔جب محبت ختم ہو جاتی ہے تو لا شعوری طور پر انسان یہ سوچتا ہے کہ وہ جی کر کیا کرے گا اب جینے کے لئے رکھا ہی کیا ہے۔یعنی اس کا مقصد زندگی ہی باقی نہ رہا۔ یہاں اس تخریبی قوت کی وضاحت کے لئے ڈاکٹر آرنلڈ کی کتاب زندہ رہنے کی قوت the will to live سے چند اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں۔ 

وہ لکھتا ہے کہ ایک مریضہ اس کے پاس آئی اور اس نے اپنی علالت کی شکایت کی شاید مجھے یہاں نہیں آنا چاہئے تھا ” مریضہ نے مایوسانہ انداز میں کہا ”میں بے شمارڈاکٹروں کے پاس جا چکی ہوں شاید میرے لئے اس دنیا میں اب کوئی علاج باقی نہیں رہا؟مریضہ کہے جارہی تھی۔سب سے پہلے میرا علاج میرے خاندانی ڈاکٹر نے شروع کیا۔دو سال تک وہ کوشش کرتا رہا ہے۔آخر تھک کر اس نے کہا کہ اس نے سب کچھ کر لیا اور مجھے کسی ماہر سےمشورہ کرنے کی ہدایت کی۔اس کے بعد مریضہ نے ماہرین کے نام گنوانے شروع کر دیے جن کے پاس وہ یکے بعد دیگرے جاتی رہی، ماہر نسواں ،ماہر دل ماہر شکم ماہر جراحی یہاں تک کہ دو سال تک وہ ایک ماہر نفسیات سے تحلیل نفسی بھی کرواتی رہی۔ہر ماہر نے الگ الگ بیماری تشخیص کی۔کسی نے کہا کہ اس کے خون میں شکر کی کمی ہے۔ کسی نے کہا کہ اس کا دل خراب ہے۔کسی نے کہا اس میں خون کی شدید کمی ہے۔ ایک نے کہہ دیا کہ ممکن ہے کینسر ہی ہو اور اس خیال سے اس کا آپریشن بھی کیا گیا مگر کینسر وغیرہ نہ ملا۔ ہر بار ڈاکٹر اس کی بیماری کی ایک آدھ علامت دور کرنے میں کامیاب ہوتے رہے۔مگر اس کے بعد فورا کوئی دوسری علامت نمودار ہو جاتی۔اسے چکر آتے تھے، دل کی دھڑکن تیز تھی سر کا درد تھا، پیٹ میں مروڑ ہوتے تھے۔ آخر میں نے پوچھا۔ فی الحال اس کو کیا شکایت ہے۔ وہ بولی کہ اب وہ بری طرح تھک چکی ہے۔اس کی ٹانگیں بوجھل ہیں ،قدم اٹھانا مشکل ہوتا ہے۔مجھ سے آوازیں برداشت نہیں ہوتیں۔مجھے ہجوم سے نفرت ہے۔ مجھےبدہضمی رہتی ہے خواہ کچھ ہی کیوں نہ کھاؤں،کمزوری بدستور رہتی ہے۔ وہ کہتی رہی اور میں سنتا رہا کہ اس قسم کے لاکھوں مریض ہیں جو ڈاکٹروں کے پاس آتے ہیں۔ کسی کی ٹانگیں بھاری ہوتی ہیں، کسی کے کندھوں میں درد رہتا ہے، کسی کو بد ہضمی ، کوئی سو نہیں سکتا کوئی افسردہ رہتا ہے، کسی کے لئے زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں

رہی۔ ان سب کا مرض ایک ہی ہوتا ہے۔ تھکن ! زندگی سے تھکن۔امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے رسالے میں ڈاکٹر ڈی واٹ ولبر نے ایک انکشاف کیا میں نے جتنے مریض دیکھتے ہیں ان میں سے 75 فی صد صرف تکان کے مریض ہیں۔ نہ ختم ہونے والی تکان جو ان پر سوار رہتی ہے کوئی بھی کام کرنے نہیں دیتی اور آہستہ آہستہ ان لوگوں کو مختلف بیماریاں ہو جاتی ہیں۔یہ لوگ ڈاکٹروں کے ہاں چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ایکسرے کرواتے ہیں،خون کا معائنہ کرواتے ہیں ای سی جی کرواتے ہیں اس طرح دنیا بھر کے معائنوں کے بعد مختلف ڈاکٹروں کے مختلف نسخے استعمال کرتے ہیں۔ ایک بیاری درست ہوتی ہے تو دوسری علالت گھیر لیتی ہے۔ ایک ہی مریض کئی کئی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے۔ کسی ایک مرض کا علاج ہوتا ہے تو چند دن بعد مریض دوسری علالت لے کر آجاتا ہے۔ان کا پیٹ اچھا خاصا چلتا پھرتا دوا خانہ بن جاتا ہے۔ان کے بازوؤں پر انجکشنوں کے زخم پڑ جاتے ہیں مگر بیماری اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔کبھی وہ معدے کی تیزابیت بن جاتی ہے،کبھی اعصابی درد میں تبدیل ہو جاتی ہے،کبھی کینسر کا شبہ پیدا کر دیتی ہے اور کبھی تپ دق کا شک ہوتا ہے اور ڈاکٹر اندھیرے میں سر پٹکتے رہ جاتے ہیں۔آخر کیوں؟آخر ان مریضوں کو کیا علالت ہوتی ہے۔اس عہد جدید میں جبکہ اتنی بڑی بڑی مشینیں،اتنی بڑی بڑی اور اہم لیبارٹریاں موجود ہیں تو پھر کیوں یہ تمام مشینیں ادویات اور تجربات ان امراض کی تشخیص میں ناکام رہتے ہیں۔کیا ان کے جسموں میں کوئی ایسادشمن پوشیدہ ہوتا ہے کہ ان کا جسم بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی تمام اصلاحی قوتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ایک انسان جو الجھا ہوا ہو، پریشان ہو۔ اس کی یہ الجھن یہ پریشانی بذات خود ایک علالت بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر کارل میتگر CARL MANINGER نے ایک بہت ہی اہم انکشاف کیا ہے۔ وہ اپنے تجربات کی بنا پر کہتا ہے کہ دماغی طور پر علیل لوگ عموما جسمانی طور پر بہت ہی تندرست ہوتے ہیں۔ مگر جیسے ہی ان کے دماغ کا علاج ہو جاتا ہے وہ چند دنوں میں جسمانی علالت کا شکار ہو کر دوبارہ اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو جسمانی طور پر علیل ہو جاتے ،ہیں ان کے اندر ایک جسمانی جنگ مسلسل ہوتی رہتی ہے۔اس طرح وہ ایک عضو کے بعد دوسرا عضو اپنی اس جنگ کی قربان گاہ پر چڑھاتے رہتے ہیں۔وہ لڑتے ہیں مگر وہاں سے بھی مایوسی ہوتی ہے۔اور اس طرح آہستہ آہستہ وہ اپنے جسم کو قربان کر دیتے ہیں۔ایک دن جب ان کی تمام طاقتیں جواب دے جاتی ہیں تو تخریبی قوت کی آخری فتح ہوتی ہے اور ان کو راہ فرار مل جاتی ہے یعنی موت ان کو ہمیشہ کے لئے اس جنگ سے چھٹکارا دلا دیتی ہے۔

فرائیڈ نے کہا کہ انسان اپنی تعمیری اور تخریبی قوتوں کو نہ صرف اس دنیا میں بلکہ خود اپنے اوپر بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تخریبی جبلت کا کام صرف تباہی نہیں بلکہ یہ تعمیری جبلت کے ساتھ ساتھ کام کرتی ہے۔اس دنیا میں تخریب کے بعد ہی تعمیر ہوتی ہے پرانے مکانوں کو توڑ کر نئے مکان بنتے ہیں۔جانور کو مار کر انسان اپنا پیٹ بھرتا ہے۔ایک قربانی دوسروں کے لئے تعمیری پہلو پیدا کرتی ہے۔ لیکن یہ تخریبی قوت اس وقت ہمارے لئے خطرناک حد تک نقصان دہ ہوتی ہے جبکہ صرف تخریب ہی باقی رہے اور تعمیر کا کوئی پہلو نہ نکلے۔جب محبت قطعی طور پر ختم ہو جائے اور صرف نفرت باقی رہ جائے۔جب انسان کامقصد زندگی فوت ہو جائے جب اس کو جینے سے بیزاری ہو جائے،جب وہ محبت چاہتا ہو کوئی مقصد چاہتا ہو اور وہ نہ ملے۔صرف تخریبی قوت انسان پر مکمل طور پر قبضہ کر کے اسےمرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ انسان کئی بار مرتا ہے اور کئی بار جیتا ہے۔مر مر کر جینا اور جی جی کر مرنا تعمیری اور تخریبی قوت کی مسلسل جنگ ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ لاشعوری تخریبی سرگرمی کے متعلق مریض خود بھی کچھ نہیں جانتا اگر اس سے بغیر کسی خاص ثبوت کے یہ کہہ دیا جائے کہ تم بیمار ہو اس لئے کہ تمہار ا لاشعور تمہیں فرار کے لئے مجبور کر رہا ہے، تم خود بیمار رہنا چاہتے ہو تو مریض نہ صرف آپ کو بے ہودہ اور پاگل کہہ دے گا بلکہ وہ اس بات پر شدید احتجاج بھی کرے گا کہ آپ نے اسے پاگل ظاہر کرنے کی سعی کی ہے۔ یہ تمام قوتیں قطعی لاشعوری اور غیر ارادی ہوتی ہیں۔شعور کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ لاشعور کے تحت عمل کرتا رہے۔اب ہم ڈاکٹر آرنلڈ کے اس کیس کی طرف لوٹتے ہیں۔ ڈاکٹر آرنلڈ خود اس کا تجزیہ کرتے ہوا لکھتا ہے۔وہ عورت جو ڈاکٹروں سے مایوس ہو کر میرے پاس آئی تھی، ہمیں اس کےلاشعور میں جھانکنا ہوگا۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ وہ کیوں علیل تھی۔کیوں اس کی علالت کی کسی ڈاکٹر نے صحیح طور پر تشخیص نہیں کی۔کیوں وہ ایک علالت کے بعد دوسری بیماری میں مبتلا ہوتی رہی۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس نے اپنی قوت تخریب کو کن وجوہ کی بنا پر اپنے خلاف عمل کرنے پر مجبور کیا تھا۔ شادی سے پہلے وہ کسی خاص علالت میں مبتلا نہیں ہوئی تھی سوائے اپنڈی سائٹس کے جس کا آپریشن کیا گیا تھا۔ اس کی شادی بائیس سال کی عمر میں ہوئی تھی اور شادی کے بعد ہی سے اس پر مسلسل بیماریوں کا حملہ شروع ہوا۔ہر شام جب وہ اپنے دفتر کا کام ختم کرتی تو بے انتہا روتی اور رونے کے بعد ہی گھر تک جانے کے قابل ہو سکتی تھی۔اس کی شادی کے محض پانچ چھ ماہ بعد ہی اس کے خصیہ الرحم میں خرابی پیدا ہو گئی اور ٹیومر کا آپریشن کرنا پڑا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس کی ازدواجی زندگی سے اس کا کوئی تعلق تھا کہ ہر شام وہ گھر جانے سے پہلے رونے پر مجبور ہوتی۔جراحوں نے کہا کہ طبی دنیا اس بارے میں ناکام ہے کہ وہ اس خرابی کی حقیقی وجہ جان سکے گی مگر جرمنی کے مشہور ماہر نسوانیت GYNOCOLOLOGIST ڈاکٹر کہرر KEHRER لکھتے ہیں کہ ہر وہ عورت جس کے خصیہ الرحم یا رحم میں کسی قسم کا سرطان ہوتا ہے، وہ نفسیاتی الجھن کا شکار ہوتی ہے۔ وہ عورتیں جو جنسی زندگی تسلی بخش طور پر گزارتی ہیں۔ عموما اس قسم کی بیماریوں سے محفوظ رہتی ہیں۔ ہماری یہ مریضہ جس کے خصیہ الرحم کی علالت سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنسی طور پر کسی الجھن کا شکار ہے بلکہ ایسی تمام علامتیں ہمیں یہ سمجھنے پر مجبور کرتی ہیں کہ اس کی تمام علامتوں کا آغاز اس کی شادی کے بعد سے ہوتا ہے۔ ہمیں اس کے خانگی معاملات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مریضہ نے بتایا کہ اس کا شوہر بہت اچھا اور شریف آدمی ہے۔ وہ کامیاب وکیل ہے۔ وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ باہر سیرو تفریح سنیما اور ڈانس کے لیے جاتے ہیں ، بس وہ قدرے شرمیلا ہے۔ مریضہ نے کہا کہ وہ دو مرتبہ حالمہ ہو چکی تھی۔ ایک دفعہ ڈاکٹر کے کہنے پر اور دوسری دفعہ خود اپنی مرضی سے تا کہ اپنی گرتی ہوئی صحت کو سنبھال سکے۔ چودہ برس کی ازدواجی زندگی میں، میں نے صرف حمل ہی کے دوران میں اپنے آپ کو درست اور صحت مند محسوس کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حمل کی وجہ سے کچھ طبیعی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور انہی تبدیلیوں کی بنا پر وہ صحت مند ہو جاتی تھی۔ مگر یہ صحت مندی صرف اس وقت تک رہتی تھی جب تک اس کے ہاں بچہ نہ ہو جاتا اس کے

بعد وہ پھر علیل ہو جاتی تھی۔” ہم نے اس سے اس کے ازدواجی تعلقات کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اسے جنسی آسودگی کا قطعی علم نہیں ہے۔ ممکن ہے آغاز میں اسے کبھی آسودگی حاصل ہوئی

ہو مگر اس کو یاد نہیں تھا۔ اسے یہ معلوم ہی نہ تھا کہ جنسی آسودگی بھی کوئی شے ہے۔ عورتوں میں جنسی سرد مہری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غلط قسم کے شوہر سے

وابستگی کی بنا پر ایسا ہوتا ہے۔ یہ سرد مہری دراصل نفرت کا اظہار ہے اور ایک قوت تخریب ہے جو ہمارے خلاف عمل پیرا ہو جاتی ہے۔ فرائیڈ ہم کو بتاتا ہے کہ یہ دونوں جبلتیں جنسی زندگی میں کس طرح یک جہتی سے کام کرتی ہیں۔ جب جنسی ہیجان کی زیادتی کو اندر ہی اندر دبایا جاتا ہے تو فورا یہ ایک تخریبی قوت (نفرت) میں بدل کر جسمانی طور پر ہمارے خلاف عمل کرتا ہے۔ اس طرح مردوں میں نا مردی اور عورتوں میں سرد مہری FRIGIDITY پیدا ہو جاتی ہے۔ کیونکہ انسان کے اندر یہ جنسی قوتیں اتنی قوی ہوتی ہیں کہ اگر ان کا باقاعدہ انخلا نہ کیا جائے اور دبا دیا جائے تو اس صورت میں انسان کو جرائم کی طرف مائل کرتی ہیں یا پھر خود اپنے ہی جسم پر حملہ کرنے کاارتکاب کرتی ہیں

اسی طرح اگر ہم اپنی اس مریضہ کو بغور دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ جنسی مرد مری در اصل فالتو جنسی رجحان کو دبانے سے پیدا ہوئی۔ وہ اس جنسی رجحان کا اعلان اپنے شوہر پر نہ کر سکتی لہٰذا اس کے دہانے سے اس کے اندر سرد مہری کا مرض نمودار ہوا۔ اس سرد مری نے اس کے اندر نفرت پیدا کر دی اور اس نفرت نے قوت تخریب کو اور قوت دی اور اس نے فرار حاصل کرنے کی ٹھان لی۔ اس فرار نے اس کے اندر مختلف علالتوں کا ایک مسلسل طوفان کھڑا کر دیا ۔ چونکہ وہ مذہبی طور پر کیتھولک تھی اس لئے اس نے کبھی طلاق کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔

لیکن کیا طلاق سے ایسے مسائل کے حل نکل آتے ہیں؟ جی نہیں یہ طریقہ ہر جگہ کامیاب نہیں ہوتا ہے۔ جن مریضوں کے اندر احساس جرم پیدا ہو گیا ہو۔ جنسی تخریبی قوت ان کے قابو سے باہر ہو کر عملی طور پر سرگرم ہو چکی ہو، وہاں بعض اوقات دوسری شادی بھی ناکام ہو جاتی ہے کیونکہ مریضہ پہلے ہی سے متنفر ہوتی ہے۔ اس لئے عموما دو سرا شوہر بھی اس میں زندگی کی امنگ کو ابھارنے میں ناکام رہتا ہے۔ اس لئے وہ پہلے ہی کیطرح نا کامی کے گڑھے میں گر جاتی ہے۔۔۔

اس مریضہ کا حال اگرچہ براہ راست خصیہ الرحم یا رحم میں کسی قسم کا سرطان ہوتا ہے، وہ نفسیاتی الجھن کا شکار ہوتی ہے۔ وہ عورتیں جو جنسی زندگی تسلی بخش طور پر گزارتی ہیں۔ عموما اس قسم کی بیماریوں سے محفوظ رہتی ہیں۔ ہماری یہ مریضہ جس کے خصیہ الرحم کی علالت سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنسی طور پر کسی الجھن کا شکار ہے بلکہ ایسی تمام علامتیں ہمیں یہ سمجھنے پر مجبور کرتی ہیں کہ اس کی تمام علامتوں کا آغاز اس کی شادی کے بعد سے ہوتا ہے۔ ہمیں اس کے خانگی معاملات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مریضہ نے بتایا کہ اس کا شوہر بہت اچھا اور شریف آدمی ہے۔ وہ کامیاب وکیل ہے۔ وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ باہر سیرو تفریح سنیما اور ڈانس کے لیے جاتے ہیں ، بس وہ قدرے شرمیلا ہے۔ مریضہ نے کہا کہ وہ دو مرتبہ حالمہ ہو چکی تھی۔ ایک دفعہ ڈاکٹر کے کہنے پر اور دوسری دفعہ خود اپنی مرضی سے تا کہ اپنی گرتی ہوئی صحت کو سنبھال سکے۔ چودہ برس کی ازدواجی زندگی میں، میں نے صرف حمل ہی کے دوران میں اپنے آپ کو درست اور صحت مند محسوس کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حمل کی وجہ سے کچھ طبیعی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور انہی تبدیلیوں کی بنا پر وہ صحت مند ہو جاتی تھی۔ مگر یہ صحت مندی صرف اس وقت تک رہتی تھی جب تک اس کے ہاں بچہ نہ ہو جاتا اس کےبعد وہ پھر علیل ہو جاتی تھی۔” ہم نے اس سے اس کے ازدواجی تعلقات کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اسے جنسی آسودگی کا قطعی علم نہیں ہے۔ ممکن ہے آغاز میں اسے کبھی آسودگی حاصل ہوئی ہو مگر اس کو یاد نہیں تھا۔ اسے یہ معلوم ہی نہ تھا کہ جنسی آسودگی بھی کوئی شے ہے۔ عورتوں میں جنسی سرد مہری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غلط قسم کے شوہر سےوابستگی کی بنا پر ایسا ہوتا ہے۔ یہ سرد مہری دراصل نفرت کا اظہار ہے اور ایک قوت تخریب ہے جو ہمارے خلاف عمل پیرا ہو جاتی ہے۔ فرائیڈ ہم کو بتاتا ہے کہ یہ دونوں جبلتیں جنسی زندگی میں کس طرح یک جہتی سے کام کرتی ہیں۔جب جنسی ہیجان کی زیادتی کو اندر ہی اندر دبایا جاتا ہے تو فورا یہ ایک تخریبی قوت (نفرت) میں بدل کر جسمانی طور پر ہمارے خلاف عمل کرتا ہے۔ اس طرح مردوں میں نا مردی اور عورتوں میں سرد مہری FRIGIDITY پیدا ہو جاتی ہے۔ کیونکہ انسان کے اندر یہ جنسی قوتیں اتنی قوی ہوتی ہیں کہ اگر ان کا باقاعدہ انخلا نہ کیا جائے اور دبا دیا جائے تو اس صورت میں انسان کو جرائم کی طرف مائل کرتی ہیں یا پھر خود اپنے ہی جسم پر حملہ کرنے کاارتکاب کرتی ہیں اسی طرح اگر ہم اپنی اس مریضہ کو بغور دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ جنسی مرد مری در اصل فالتو جنسی رجحان کو دبانے سے پیدا ہوئی۔ وہ اس جنسی رجحان کا اعلان اپنے شوہر پر نہ کر سکتی لہٰذا اس کے دہانے سے اس کے اندر سرد مہری کا مرض نمودار ہوا۔ اس سرد مری نے اس کے اندر نفرت پیدا کر دی اور اس نفرت نے قوت تخریب کو اور قوت دی اور اس نے فرار حاصل کرنے کی ٹھان لی۔ اس فرار نے اس کے اندر مختلف علالتوں کا ایک مسلسل طوفان کھڑا کر دیا ۔ چونکہ وہ مذہبی طور پر کیتھولک تھی اس لئے اس نے کبھی طلاق کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔لیکن کیا طلاق سے ایسے مسائل کے حل نکل آتے ہیں؟ جی نہیں یہ طریقہ ہر جگہ کامیاب نہیں ہوتا ہے۔جن مریضوں کے اندر احساس جرم پیدا ہو گیا ہو۔جنسی تخریبی قوت ان کے قابو سے باہر ہو کر عملی طور پر سرگرم ہو چکی ہو، وہاں بعض اوقات دوسری شادی بھی ناکام ہو جاتی ہے کیونکہ مریضہ پہلے ہی سے متنفر ہوتی ہے۔ اس لئے عموما دوسرا شوہر بھی اس میں زندگی کی امنگ کو ابھارنے میں ناکام رہتا ہے۔ اس لئے وہ پہلے ہی کی طرح ناکامی کے گڑھے میں گر جاتی ہے۔۔۔اس مریضہ کا حال اگرچہ براہ راست جنس سے تعلق رکھتا ہے مگر در حقیقت اسےمحبت کی ضرورت تھی۔ محبت جو اس کا خاوند اسے نہ دے سکا۔ اس محبت کے نہ ملنے ہی کی وجہ سے اس کے اندر جنسی ہیجان نے زلزلے کی صورت اختیار کرلی۔ اگر آتش فشاں پہاڑ پھٹ کر اپنا لاوا باہر نہ پھینکے تو پھر اندر ہی اندر سلگنے اور پھٹنے سے زمین میں میلوں تک زلزلہ آجاتا ہےاپنی زندگی کے ارد گرد نظر ڈالیے، آپ کو لاکھوں مریض محبت کی خاطر تلملاتے ہوئےنظر آئیں گے۔ آئیے میں ایک دلچسپ کیس کا حال سناؤں۔ ایک مریضہ جس کی عمر چوبیس سال تھی جب سینی ٹوریم میں داخل ہوئی تھی تو اس وقت مریضہ کا داییہ ہے ہمارا ذہن ہمارا دوست ہمارا دشمن:

ٹوٹے ہوئے دل نفرت اور محبت کے چکر میں ایک اہم بات بھی ہوتی ہے جس کا مختصر سا ذکر میں کر چکا ہوں یعنی جب دل ٹوٹ جاتا ہے تو انسان اپنے اس ٹوٹے ہوئے دل کے ٹکڑوں کو لوگوں کے آگےرکھنا چاہتا ہے اپنی مایوسی کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ وہ لوگوں سے کہنا چاہتا ہے کہ دیکھو میں کتنا دکھ بھرا انسان ہوں ،کتنا مجبور۔مگر کیا اس طرح اس کو انسانوں کی ہمدردیاں مل جاتی ہیں۔کیا دوسرے اس سے محبت کرنےلگتے ہیں۔ عام طور پر یہ ہمدردی محض زبانی اور وقتی ہوتی ہے۔ ٹوٹے ہوئے دل والا انسان اس وقتی ہمدردی کی آرزو نہیں رکھتا۔وہ چاہتا ہے کہ اس کے لواحقین اس کی شکستہ دلی کا احساس کریں اور اس کے ساتھ نہ صرف ہمدردی کریں بلکہ اس سے ایک مجبور اور معصوم بچے کی طرح محبت بھی کریں چنانچہ اس کا لاشعور یہ ہمدردی اور محبت حاصل کرنے کے لئے ذریعہ تلاش کرتا ہے اور وہ ہے بیماری۔لاشعوری بیماریاں تو خیر عام ہیں۔بعض اوقات انسان دانستہ اور شعوری طور پرعلیل بن جاتا ہے اگر اس طرح اس کا مقصد حاصل ہو جائے تو۔میں آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔مجھے ایک دوست نے بتایا کہ اس کی اہلیہ عرصے سے فالج میں مبتلا ہے۔ ہزاروں علاج ہو چکے ہیں مگر اٹھ کر چل نہیں سکتی۔ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اسے کوئی بیماری نہیں۔اس کی ٹانگیں پوری طرح حساس ہیں۔ اس کی ٹانگوں کا REFLEX بالکل درست ہے مگر جب اسے چلایا جاتا ہے تو ایک قدم بھی نہیں چل سکتی۔

آپ دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے “میں نے پوچھا۔ میرا مقصد اس کی ازدواجی زندگی سے متعلق معلومات حاصل کرنا تھا ۔ایسی حالت میں دوسری شادی کرنا ظلم ہوگا۔” یعنی اگر وہ تندرست ہوتی تو آپ دوسری شادی کر لیتے”؟ میں نے پوچھا۔

“شاید”

عجیب بات ہے جب آپ کو ایک ساتھی کی ضرورت ہے تو آپ کو اپنی اہلیہ سے ہمدردی پیدا ہو گئی ہے اور جب وہ تندرست ہوگی تو آپ دوسری شادی کرنے کا خیال کرتےہیں۔”میں نے مزید کریدا۔بات یہ ہے کہ ڈاکٹر میری شادی کو دس برس ہو چکے ہیں۔ دو سال ہوئے جب میں نے محض اولاد کی خاطر دوسری شادی کی خواہش کی تھی اور ایک دن اپنی اہلیہ سے اس سلسلے میں مشورہ بھی کیا تھا۔ اس نے بڑی خوشی سے اجازت دے دی تھی بلکہ مجھے دوسری شادی کر لینے پر مجبور بھی کیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے ہاں اولاد نہ ہو سکے گی مگر چند ہفتوں بعد اسے بخار آنے لگا اور پھر بخار کے بعد یہ فالج ۔ اب اس کی حالت اتنی قابل رحم ہے کہ میں اس کے ساتھ یہ ظلم گوارا ہی نہیں کر سکتا،حالانکہ وہ کئی بار مجھے دوسری شادی پرمجبور کر چکی ہے۔”جب اس نے اپنی کہانی سنائی تو جو بات میں جاننا چاہتا تھا ظاہر ہو گئی۔ اب سوال یہ تھا کہ عارضہ کس حد تک گہرا ہے۔مجھے یہی دیکھنا تھا چنانچہ میں نے مریضہ کو دیکھا۔اس کامعائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اس پر فالج کا حملہ ضرور ہوا تھا مگر بعد میں درست ہو گیا۔ یعنی ORGANIC طور پر اب فالج کے آثار باقی نہ تھے۔ اس کی ٹانگیں بالکل درست تھیں صرف کم چلنے کی وجہ سے اس کے پٹھے ڈھیلے پڑ چکے تھے۔مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ مریضہ کو

چلانے کی سعی کی گئی تھی۔

میرے سامنے ایک ایسا کیس تھا جو نہ صرف لاشعوری فرار یعنی بیماری کا نمونہ تھا بلکہ خالص شعوری اور دانستہ طور پر ایک فریب اور جھوٹ تھا۔ یہ بات میں نہ تو مریضہ سے کہہ سکتا تھا اور نہ ہی اس کے خاوند سے۔

میں نے ارادہ ظاہر کیا کہ مریضہ پر ہپناٹزم کیا جائے گا۔میں نے مریضہ سے کیا تو وہ فورا تیار ہوگئی۔مریضہ کو ہپناٹائز کیا گیا مگر مریضہ دوران غنودگی بھی نہ چل سکی۔معا مجھے خیال ہوا کہ مریضہ مجھے یہاں بھی دھوکہ دے رہی ہے یعنی وہ مجھ سے ہپنا ٹائز ہوئی نہیں بلکہ ظاہر کر رہی ہے۔غالبا اس نے ہپناٹزم پر کتابیں پڑھی تھیں اور اسے یہ ڈر تھا کہ اگر دو سچ مچ ہپناٹائز ہوگئی تو پھر اس کا بھانڈا پھوٹ جائے گا اور اگر اس نے ہپناٹائز ہونے سے انکار کیا تو بھی راز کے منکشف ہو جانے کا احتمال ہے چنانچہ اس نے مجھے دھوکا دینے کی سعی کی۔جیسے ہی مجھے اس بات کا احساس ہوا۔ میں نے ماچس لی اور جلتی ہوئی تیلی اس کے جسم کے قریب لے گیا۔ کچھ دیر تو وہ ضبط کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر جب جلن زیادہ ہوئی تو تلملا اٹھی۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔میں مسکرا رہا تھا۔ڈراما ختم ہو چکا تھا۔مگر میں خاموشی سے چلا آیا اور اس کے شوہر سے کہا کہ میں اس کی اہلیہ سے تنہائی میں گفتگو کروں گا۔دوسرے دن جب میں گیا تو وہ مجھے دیکھ کر بلک بلک کر رونے لگی اور میں خاموشی سے اس کے سامنےبیٹھا رہا جب وہ رونا ختم کر چکی تو میں نے کہا۔ محترمہ کیا اس زندگی سے یہ بہتر نہیں کہ آپ خود اپنے شوہر سے آزادی حاصل کر کے دوسرا شوہر تلاش کریں”میں نے اپنا وار کیا۔اس عمر میں؟ ڈاکٹر مجھ جیسی عورت کو شوہر ملنا آسان نہیں۔ میں بہت مطمئن تھی کہ میرا شوہر مجھ سے محبت کرتا ہے آپ نے تمام قصہ ہی ختم کر دیا ۔ “یقین مانئے میں نے اسے کچھ نہیں بتایا اور نہ ہی اسے بتاؤں گا کہ آپ اسے فریب دے رہی ہیں۔” آپ کو کہنے کی ضرورت نہیں ، مجھے سب کچھ معلوم ہے۔ بہر حال مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ آپ نے صرف شعوری طور پر یہ طریقہ اختیار کیا تھا اور اگر آپ ایسا نہ کرتیں تو یقین مانیے آپ کا لاشعور آپ کو بیمار کر دیتا۔ اس صورت میں آپ حقیقی معنوں میں علیل ہو جاتیں اور علاج میں دشواری بھی ہوتی۔آپ نے کہا کہ آپ مطمئن تھیں، میں حیران ہوں کہ آپ کیسے مطمئن ہو سکتی ہیں۔کیا آپ کو یہ دھڑ کا نہیں لگا رہتا کہ آپ کسی دن پکڑی نہ جائیں” میں نے پوچھا۔

نہیں بلکہ مجھے بہت آرام ہے۔ اس پہیوں والی کرسی پر بیٹھ کر میں اپنی کوٹھی کی سیر کر لیتی ہوں۔شام کو میرا شوہر میرے پاس ہوتا ہے۔ وہ کبھی بھی باہر نہیں جاتا ہے، وہ ہر طرح میرا دل بہلانے کی کوشش کیا کرتا ہے اس کے دل سے دوسری شادی کا خیال نکل چکا ہے۔وہ اب مجھ سے محبت کرنے لگا ہے۔”محبت نہیں ۔ ہمدردی ” میں نے درست کیا۔خیر ہمدردی ہی سہی مگر اس کا تمام وقت میرے ساتھ گزرتا ہے اور اب اب۔”وہ پھر رونے لگی۔میں نے اسے یقین دلایا کہ میں اس سے کچھ نہیں کہوں گا۔ میں آپ کو زیر علاج رکھوں گا اور آپ آہستہ آہستہ صحت مند ہوں گی۔ آہستہ آہستہ چلنے لگیں گی۔میں آپ کے شوہر سے کہہ دوں گا کہ اگر اس نے دوسری شادی کا نام لیا تو آپ پر حملہ ہونے کا خوف ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ اب دوسری شادی نہیں کرے گا۔”

“سچ ڈاکٹر! میں آپ کی تمام عمر احسان مند رہوں گی”وہ مارے خوشی کے اپنے پہیوں والی کرسی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور پھر فورا ہی بیٹھ گئی۔ مگر آپ کو یہ سوجھا کیسے؟ میں نے پوچھا۔”میں نے ایک انگریزی ناول میں پڑھا تھا ” اس نے مسکرا کر شرمندگی سے کہا۔

اس کے بعد میں نے اس کا علاج کیا (یعنی اس ڈرامے کا ساتھ دیا) اور ایک ماہ بعدمریضه تندرست ہو گئی۔تین سال بعد اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اس نے اپنے شوہر کو سب کچھ بتا دیا.یہ تھی ایک ٹوٹے ہوئے دل کی شعوری کوشش۔ مگر جب ٹوٹے ہوئے دل محبت اور ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے لاشعوری کوشش کرتے ہیں تو پھر بیماریاں پیچیدہ بھی ہو جاتی ہیں اور لا علاج بھی۔پیٹ کی خرابی کے مریض شاید آپ نے ہزاروں دیکھے ہوں گے کسی کے پیٹ میں درد، پیٹ میں پھوڑا،پیٹ میں سرطان اور بد ہضمی۔ان میں اکثریت ایسے مریضوں کی ہوتی ہے جن کے دل ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں۔وہ محض اپنے ٹوٹے ہوئے دل کا سہارا چاہتے ہیں، ہمدردی چاہتے ہیں اور ان کا لاشعور ان ہی چیزوں کے حصول کے لئے انہیں ان علامتوں کا شکار بنائے رکھتا ہے۔

ڈاکٹر آرنلڈ لکھتے ہیں کہ ایک عمر رسیدہ آدمی میرے پاس پیٹ کے پھوڑے کی شکایت لے کر آیا ۔اسے یہ شکایت تیس برس سے تھی۔ یعنی کہ اس کی پوری جوانی اسی علالت میں بسر ہوئی تھی۔ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں کہ میں نے مریض سے پوچھا فرض کرو کل صبح بیدار ہوتے ہی تم اپنے آپ کو تندرست پاؤ گے تو پھر کیا کرو گے؟؟؟

کیا کروں گا میں اپنی زندگی میں مسرت محسوس کروں گا ” مریض نے جواب دیا۔ کس قسم کی مسرت میرا مطلب ہے تم کیا کرو گے؟؟؟ظاہر ہے اس قسم کی مسرت محسوس کروں گا جو عام طور پر دوسرے لوگ صحت مند ہو کر محسوس کرتے ہیں۔”

مگر وہ اپنی زندگی کا کوئی مقصد کوئی نصب العین نہ بتاسکا۔اس کے پاس کوئی مقصد نہیں تھا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ وہ اپنی زندگی میں کیا کرے گا؟ زندہ رہنے کا کیا مقصد ہے۔وہ تیس سال تک اپنی علالت کے جال میں جکڑا رہا۔ دفتر میں اس کے ساتھی اس کے محنتی ہونے کی داد دیتے تھے کہ وہ علالت کے باوجود انتہائی تندہی اور محنت سے کام کرتا ہے۔ گھر پر اس کے لواحقین اس کی خدمت کرتے تھے کہ وہ علیل ہے۔ دفتر سے لوٹتے ہی اس کے لئے چوزہ کا شوربہ حاضر کر دیا جاتا تھا۔ یہ تمام ہمدرویاں اور یہ تمام داد جو اس کو بغیر محنت کے ملتی تھی کیا پیٹ کے اس پھوڑے کے بغیر مل سکتی تھی؟ اس کا پھوڑا اس سے چھین لیجئے تو اس کا شوربہ بھی چھن جائے گا لواحقین کی ہمدردیاں اور محبت بھی چھن جائے گی،دفتر کے ساتھیوں کی داد بھی ختم ہو جائے گی۔ وہ ایک ایسا انسان رہ جائے گا جسے نہ محبت حاصل ہو سکے گی اور نہ ہمدردی۔لاشعور کی یہ چالیں ، ہمدردی اور محبت حاصل کرنے کے لئے یہ طریقے کتنے انوکھےاور کتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں مگر دلچسپ بھی اس کا اندازہ شاید آپ نہ لگا سکیں۔بچپن میں جب کسی شخص کو محبت نہیں ملتی جب وہ نالائق اور بد اخلاق بچہ کہا جاتا ہے تو اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ لوگوں کی ہمدردیاں ماں باپ کی محبت حاصل کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی مرض پیدا کر لیتا ہے اور جب وہ جوان ہو کر بھی محبت حاصل نہیں کر سکتا تو پھر یہ مرض بڑھ جاتے ہیں۔اگر وہ کاروباری ہے تو اپنے گاہکوں اور اپنے نوکروں سے اپنی علالت کا تذکرہ کر کے ان کی ہمدردیاں حاصل کر لیتا ہے۔اگر نوکر ہے تو اپنے دفتر کے ساتھیوں کا مرکز توجہ بنے رہنے کی آرزو کرتا ہے۔ وہ تندرست ہونا ہی نہیں چاہتا کیونکہ اگر وہ تندرست ہو جائے توپھر نہ اسے ہمدردیاں ملیں گی اور نہ ہی پیار۔اگر شعور ذہنی فرار کے لئے امراض کا سہارا نہ لے تو پھر انسان خود کشی کرلے