مسئلہ۱۳ : از شہر بریلی مدرسہ منظر الاسلام مسئولہ مولوی محمد افضل صاحب کابلی ۲۸ شوال ۱۳۳۷ھ
” قول حماد رضی اللہ تعالٰی عنہ ترکت الحدیث( عہ) الخ مرابفہمایند” حضرت حماد رحمۃ اللہ علیہ کے قول ” میں نے حدیث کو چھوڑ دیا” کا مطلب مجھے سمجھادیں۔(ت)
عہ: تمام عبارت مذکورہ سوال ایں است سمعت عبدالحکم بن میسرۃ یقول اتیت حماد بن ابی حنیفہ وقد کان امسک عن الحدیث فسألتہ ان یحدثنی وذکرت لہ مجتبی ایاہ فقال ترکت الحدیث فانی رایت ابی فی المنام کانّی اقول لہ ما فعل بک ربک فیقول ھیہات ھیہات علیک بالرای ثلاث مرات ودع الحدیث ودع الحدیث ثلاث مرات۱ اھ
سوال میں مذکور مکمل عبارت یہ ہے ، میں نے عبدالحکم بن میسرہ کو کہتے ہوئے سنا ۔کہ میں حضرت حماد بن امام ابوحنیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ آپ نے حدیث بیان کرنا بند کردیا تھا میں نے ان سے کہا کہ مجھے حدیث بیان فرمائیں تو انہوں نے کہا کہ میں نے حدیث کو ترک کردیا ہے کیونکہ میں نے خواب میں اپنے والد گرامی کو دیکھا گویا کہ میں ان سے کہہ رہا ہوں ۔ کہ آپ کے پروردگار نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے تووہ مجھے فرماتے ہیں کہ تجھ پر افسوس ہے۔ قیاس پر عمل کرو۔ یہ تین با ر فرمایا اور حدیث کو چھوڑ دو، یہ تین مرتبہ فرمایا۔ اھ( ت)
الجواب : ” درمناقب خوارزمی و درمناقب کردری ہر دو از حاکم صاحب مستدرک آوردہ اندکہ مرادش احادیث موضوعہ و مخالف کتاب ست اقول این بقول اوعلیک بالرای وقول حماد وترکت الحدیث نمی چسپد وانچہ نجاطرم ریختند کہ لام درحدیث برائے عہد ست حدیثے بودہ باشد کہ حماد روایتش میکرد وبواقع صحیح نبود امام حماد باعتمادش در مسئلہ قیاس صحیح میکرد تقدیما للحدیث علی الرای حضرت امام او را تنبیہ نمود کہ ایں حدیث صحیح نیست واعتماد رانشاید دریں مسئلہ ہم بررائے عمل کن عبدالحکم را ازحماد ایں حدیث بواسطہ رسیدہ بود خواست حاضر و از حماد شنودپس او را سوال کرد حماد فرمود من آں حدیث راترک کردہ ام وآں خواب بیان کرد ۔، و ترک حدیث نہ بربنائے مجرد خواب باشد بلکہ بہ تنبیہہ امام متوجہ شدہ وعلت قادحہ درآں برو ظاہر گشتہ باشد واللہ تعالٰی اعلم ” مناقبِ خوارزمی اور مناقب کردری دونوں میں بحوالہ امام حاکم صاحبِ مستدرک وارد ہے کہ اس سے مراد موضوع حدیثیں ہیں جو کتاب اللہ کے مخالف ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ معنی امام صاحب کے قول کہ ” تجھ پر لازم ہے کہ قیاس پر عمل کر” اور حضرت حماد کے قول کے ” میں نے حدیث کو چھوڑ دیا ہے ” پر منطبق نہیں ہوتا۔ اور میرے دل میں القا ہوا ہے کہ حدیث پر الف لام عہدی ہے۔ اس سے مراد کوئی خاص حدیث ہے جس کو حضرت حماد علیہ الرحمۃ روایت کرتے تھے اور واقع میں وہ حدیث صحیح نہ تھی جب کہ آپ اس پر اعتماد کرتے ہوئے اور حدیث کو قیاس پر مقدم جانتے ہوئے کسی خاص مسئلہ میں قیاس صحیح کے خلاف عمل کرتے تھے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس پر تنبیہ فرمائی کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اور اعتماد کے لائق نہیں ہے لہذا اس مسئلہ میں بھی قیاس پر عمل کرو۔ عبدالحکم کو حضرت حماد کی، یہ حدیث کسی اور کے واسطے سے پہنچی تھی۔ آپ نے خود حاضر ہو کر حضرت حماد سے یہ حدیث سننے کی خواہش کی۔ چنانچہ ان سے حدیث سنانے کا مطالبہ کیا جس پر حضرت حماد نے فرمایا کہ میں نے اس کو چھوڑ دیا ہے اور خواب مذکور کو بیان کیا۔ اس حدیث کو چھوڑنا’ محض خواب کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ حضرت حماد علیہ الرحمۃ خواب میں امام صاحب کی تنبیہ فرمانے پر متوجہ ہوئے تو اس حدیث میں علت قادحہ آپ پر ظاہر ہوگئی ہوگی۔ اور اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے۔(ت)