قوت ہدایت
SUGGESTION
(قوت تکرار اشاره ایما و غیره)
جس طرح اردو میں امیجی نیشن کا وہ مخصوص ترجمہ دشوار ہے جو اس موضوع سے متعلق ہے۔ اس طرح سجیشن SUGGESTION کا ترجمہ بھی مشکل ہے۔جب نفسیات اور ہپناٹزم کے موضوع پر بات ہو تو انگریزی زبان کے یہ الفاظ مخصوص معنی رکھتے ہیں اور یا آسانی سمجھے اور سمجھائے جاسکتے ہیں کہ ان کا صحیح مفہوم کیا ہے لیکن اردو میں چونکہ اس قسم کی تکنیکی کتابوں کی کمی ہے اس لئے تا حال ان الفاظ کا وہ اردو ترجمہ نہیں کیا گیا جوان کے مفہوم کی صحیح وضاحت کر سکے اس لئے میں اس انگریزی لفظ ہی کو استعمال کروں گامگر اس کا وہ مفہوم بیان کیے دیتا ہوں جو اس لفظ کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ سجیشن کے معنی ہیں کسی کو ایسا اشارہ یا ہدایت کرنا جس سے اس کے لاشعور میں کسی چیز کے متعلق یقین پیدا کر دیا جائے خواہ وہ چیز موجود ہو یا نہ ہو۔ خواہ اس چیز کا وجود بے معنی ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً کسی شخص کو یہ ہدایت دینا کہ تمہارے ہاتھ میں سگریٹ کے بجائے پنسل ہے حالانکہ اس کے ہاتھ میں واقعی سگریٹ ہے۔ اس کو مسلسل سجیشن دیتا کہ نہیں یہ پنسل ہے اور اس حد تک اس ہدایت کی تکرار کرنا کہ وہ شخص اس سگریٹ کو پنسل سمجھنےلگے۔ یعنی دوسرے معنوں میں اس کے ذہن کو حقیقت کے خلاف ورغلانا۔ دوم کسی شخص کو ایسی ہدایت دینا جو اس کے اپنی امیجی نیشن کے برخلاف اور متضاد ہو۔ یعنی کسی شخص کے سر میں درد ہو رہا ہے اور وہ آپ سے اس درد کی شکایت کرتا ہے مگر آپ اس کو ہدایت کے ذریعے یقین دلاتے ہیں کہ نہیں درد نہیں ہو رہا ہے درد غائب ہو چکاہے ، تم اچھے ہو چکے ہو۔ گویا آپ اس شخص کے اس حقیقی درد کے خلاف اس کے لاشعور اور پھر شعور میں اس بات کو ثبت کرتے ہیں کہ وہ درد کو محسوس نہ کرے۔ مجموعی طور پر سجیشن کے معنی ہیں کہ کسی شخص کے ذہن میں ایسی بات پیدا کرنا جو
آپ چاہتے ہیں۔ہیپناٹزم کا تمام تر انحصار قوت تکرار اور ہدایت پر ہے۔جو شخص اس قوت کے استعمال کا صحیح اصول سمجھ لے وہی ماہر عمل تنویم (ہیپناٹسٹ) بن سکتا ہے۔ آٹو سجیشن AUTO SUGGESTION کے معنی ہیں خود اپنے آپ کو ایسی ہدایت اور ایسا اشارہ کرنا جو آپ چاہتے ہیں مگر جس کو آپ کا ذہن نہیں مانتا۔ یعنی آپ کے سر میں درد ہے مگر آپ خود کو آٹو سجیشن دیتے ہیں کہ نہیں درد نہیں ہے، درد غائب ہو رہا ہے، درد غائب ہو چکا ہے اور قطعی غائب ہو گیا ہے۔ گویا خود اپنے ذہن کو مسلسل سجیشن کے ذریعے اس
درد کو غائب کرنے یا کم از کم محسوس نہ کرنے پر تیار کرتے ہیں۔ سجیشن اور امیجی نیشن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اتنا گہرا کہ بعض اوقات یہ بتانامشکل ہو جاتا ہے کہ ذہن میں پہلے سجیشن ابھرتا ہے یا پہلے امیجی نیشن۔ فرض کیجئے کہ آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں یکایک آپ کا خیال دوڑتی ہوئی موٹر کار کی طرف گیا اور آپ کے ذہن میں اس موٹر کی تصویر نمودار ہو گئی گویا آپ نے اس موٹر کوامیجن کرنا شروع کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے ذہن نے ہدایت کی کہ آپ موٹر کوامیجن کریں یا پہلے وہ تصور پیدا ہوا اور بعد میں آپ نے ذہن کو مکمل عکس دیکھنے کی ہدایت کی؟میرے خیال میں سب سے پہلے لاشعور کے اندر سجیشن پیدا ہوتی ہے اور اس کےبعد ہی امیجی نیشن کا وجود ہوتا ہے۔ یہ سجیشن خواہ محض معمولی اشارے کے طور پر ہی کیوں نہ ملی ہو بغیر کسی اشارے کے ذہن کے اندر امیجی نیشن پیدا نہیں ہو سکتی۔ ایک ماہر ہپناٹسٹ لوئیس برٹن LOUIS BRITON اپنی کتاب “عملی ہپناٹزم “میں لکھتا ہے کہ : ” سجیشن کا ہپناٹزم سے بہت گہرا تعلق ہے لیکن سجیشن کے بغیر بھی ہپناٹزم کیا جا سکتاہے اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ سجیشن اور ہپناٹزم ایک چیز ہے یا سجیشن کے بغیر ہپناٹزم نہیں
ہو سکتا۔(جیسا کہ ڈاکٹر مسمائر محض ہاتھوں سے مسمریزم کا عمل کرتے تھے) لوئیس برٹن اگرچہ ایک ماہر ہپناٹسٹ ہے مگر مجھے اس کی رائے سے قطعی اختلاف ہے۔ میں حیران ہوں کہ لوئیس جیسے ماہر نے ایسی فاش غلطی کی ہے۔ یا تو لو میں ذہنی طریق عمل FUNCTION OF MIND کو سمجھا ہی نہیں یا سمجھ کر بھی اپنے نظریے کو ہی اپنائے رکھا۔یہ مسئلہ بالکل صاف اور سلجھا ہوا ہے۔اس میں کسی قسم کے اختلاف کی ضرورت ہی نہیں۔ڈاکٹر مسمار الفاظ سے کبھی سجیشن نہیں دیتے تھے ان کا طریق کار بالکل اشاریاتی تھا۔چونکہ وہ خود ہپناٹزم کی صحیح سائنسی اہمیت کو نہ سمجھ پائے تھے اس لئے وہ اس کو حیوانی قوت مقناطیس”کہتے رہے گو ان کے اصول کارگر ضرور تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے جاہل لوگوں کے ٹونے اور جادو کارگر ہو جاتے ہیں مگر یہ کہنا کہ ان کے طریق کار میں سجیشن کا دخل نہ تھا، قطعی غلط ہے۔”آخر سجیشن ہے کیا؟ یہ ضروری نہیں کہ سجیشن میں آواز یا الفاظ کا استعمال ہی کیا جائےسجیشن اشاروں سے بھی مل سکتی ہے۔ سجیشن کا چونکہ ذہن سے تعلق ہے اور عموما سجیشن اور امیجی نیشن میں انتہائی قلیل وقفہ ہوتا ہے اس لئے ممکن ہے لوئیس نے وقفے کی اس کمی کے پیش نظر یہ نظریہ قائم کر لیا ہو۔ حالانکہ انسان جو کچھ سوچتا ہے اس سوچ کا کوئی نہ کوئی محرک ضرور ہوتا ہے۔یہ محرک ہی سجییشن ہوتا ہے۔ لاشعور سے کسی چیز کے متعلق تحریک ہوتی ہے۔ اس تحریک کے بعد ہی ذہن میں امیجی نیشن پیدا ہوتی ہے۔اگرچہ سوچنے والا اس تحریک کو نہیں جانتا، مثلاً بیٹھے بیٹھے کسی چیز کی طرف یکایک متوجہ ہو جاتا بظاہر بے معنی معلوم ہوتا ہے مگر اس توجہ کا محرک لاشعور میں ہوتا ہے جو ہدایت کرتا ہے کہ فلاں چیز سوچی جائے۔ اس لئے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ بغیر تحریک( آٹو سجیشن)کے ذہن میں کوئی امیجی نیشن پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ حقیقت ہے کہ سجیشن کے سائنسی نظریے کو اٹھارویں صدی ہی میں اپنایا گیا لیکن اس کا عام استعمال بیسویں صدی میں شروع ہوا۔ چونکہ سجیشن کا ہپناٹزم سے تعلق ہے اس لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ سجیشن انسان کو کس قدر متاثر کر سکتی ہے۔ ہم زندگی میں بہت سے ایسے کام کر گزرتے ہیں جن کے لئے ہم پہلے سے تیار نہیں ہوتے اور اکثر بعد میں سوچتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہم نے کیوں کیا؟ فرض کیجئے کہ آپ گھی خریدنا چاہتے ہیں۔ آپ کا خیال ہے کہ آپ خالص گھی خریدیں گے لیکن جب آپ گھر آتے ہیں تو آپ کے ہاتھ میں ڈالڈا گھی کا دبا ہوتا ہے۔ آپ کی اہلیہ آپ پر برہم ہوتی ہیں اور آپ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اس سے بحث بھی کرتے ہیں مگر پھر خود ہی سوچتے ہیں کہ آپ نے غلطی کی آپ کو تو خالص گھی ہی خریدنا تھا۔ در حقیقت آپ سجیشن کا شکار ہو گئے۔ آپ روزانہ اخبارات میں ڈالڈا گھی کے اشتہارات دیکھتے ہیں۔ہر روز اشتہارات آپ سے کہتے ہیں کہ ڈالڈ بہت اچھا گھی ہے اس میں وٹامن ڈی ہے جو خالص گھی میں ہوتا ہے۔ اس کا ذائقہ خالص گھی جیسا ہے اس کے فوائد بھی خالص گھی جیسے ہیں لیکن قیمت خالص گھی سے بہت کم ہے۔ آپ فلم دیکھنے جاتے ہیں۔ وہاں ایسی فلم دکھائی جاتی ہے جس میں ڈالڈا گھی سے متعلق ایک مکمل کہانی ہے۔ اس طرح آپ کا ذہن مہینوں یہ ہدایت قبول کرتا رہتا ہے۔ شعوری طور پر آپ ان ہدایات اور سجیشن کو بھول جاتے ہیں لیکن جب آپ بازار جاتے ہیں تو سامنے ڈالڈا گھی کا ڈیا پڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ آپ دوکاندار سے اس کی قیمت پوچھتے ہیں۔دکاندار نہ صرف آپ کو قیمت بتاتا ہے بلکہ آپ کو مزید سجیشن دیتا ہے کہ صاحب یہ گھی بہت اچھا ہے۔ آج کل تو ہر بڑے گھر میں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ کے لاشعور سے بھی وہ ہدایت ابھرتی ہے جو آپ نے اشتہارات سے قبول کی تھی یا فلم دیکھ کر حاصل کی تھی اور آپ یکا یک کہہ اٹھتے ہیں ، لاؤ بھئی آج ڈالڈا ہی خرید لیں اور دوسرے ہی لمحے آپ کے ہاتھ میں ڈالڈا کا دبا ہوتا ہے۔آپ نے دیکھا کہ مسلسل تکرار و ہدایت دینے کے بعد انوکھے طریقوں سے آپ کا ذہن اس حد تک متاثر ہوا کہ آپ نے دیسی گھی کے بجائے ڈالڈا خرید لیا۔ آپ نے وہ فعل کیا جس کے لئے نہ تو آپ آمادہ تھے نہ ہی خواہش رکھتے تھے اس کے باوجود آپ سجیشن کاشکار ہو گئے۔ اس طرح روزانہ آپ ہزاروں اشتہارات پڑھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں لیکن آپ کا لاشعور ان ہدایات اور اشتہارات کو مسلسل اپنے اندر محفوظ کرتا رہتا ہے اور موقع ملتے ہی آپ پر حملہ کر کے ان ہدایات پر آپ کو عمل کرنے کے لئے مجبور کر دیتا ہے۔اسی طرح آپ خود بھی سجیشن پر عمل کرتے رہتے ہیں مثلاً آپ کا ایک دوست ہے آپ اس کے ساتھ روزانہ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ ایک خاص چیز آپ کو پسند نہیں ،آپ روزانہ اس کو مختلف طریقوں اور حیلے بہانوں سے اس چیز کے خلاف سجیشن دیتے رہتے ہیں جو آپ کو تو پسند نہیں مگر آپ کے دوست کو پسند ہے۔ اگر آپ کی سجییشن قوی اور آپ کے دوست کی قوت ارادی کمزور ہے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کا دوست کچھ عرصے بعد ہی اس چیز کو ناپسند کرنے لگے گا۔ اگرچہ وہ پہلے اس کو پسند کرتا تھا۔ لہذا سجیشن وہ قوت ہے جس کے ذریعے آپ دوسروں کو وہ کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں اگر آپ کی قوت ارادی قوی ہے اگر آپ کو اپنے اوپر اعتماد اور یقین ہے کہ آپ جو کچھ کہیں گے اس پر عمل بھی ہو گا تو یقین مانئے آپ کی سجیشن کا بہت کم لوگ مقابلہ کر سکیں گے۔ یہی ہیپناٹزم کا پہلا اصول ہے کہ معمول کی قوت مدافعت RESISTENCE POWER کو کمزور کیاجائے جب تک آپ کے معمول میں آپ کے خلاف یعنی اس کے ذہن میں آپ کی سجییشن کے خلاف قوت مدافعت موجود ہے آپ ہرگز ہرگز اسے ہپنا ٹائر نہیں کر سکتے۔
ص:45
قوت ہدایت
01
Apr