ہیپناسس

قوت فکر ، تخیل ، تصور

قوت فکر ، تخیل ، تصور
POWER OF IMAGINATION
کیا ہےImagination
تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے ذہن کے تین حصے ہیں۔
شعور
تحت الشعور
لاشعور
یہاں ان کی تفصیلات میں جانے کی تو چنداں ضرورت نہ تھی لیکن ذہن کی کارگزاریوں کے سمجھ لینے سے ہپناٹزم کی حقیقت سے ہم زیادہ آسانی کے ساتھ روشناس ہو سکیں گے۔نیز ان غلط فہمیوں کو سمجھنے میں بھی آسانی ہوگی جو ہپناٹزم کے سلسلے میں پھیلائی . گئی ہیں۔اس لئے مختصرا ذہن کے ان تین حصوں کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری ہے۔
شعور:شعور ہمارے ذہن کا پہلا گوشہ ہے۔ اس گوشے کا کام لمحہ بہ لمحہ گزرتے ہوئے واقعات کا احساس دلاتا ہے۔شعور بیک وقت بہت ساری باتوں کو دیکھتا ہے ، سنتا ہے اور ہم کو احساس دلاتا ہے۔ مثلاً میں اس وقت کتاب لکھ رہا ہوں، میرے ذہن کی گرفت میں سامنے پڑی ہوئی کاپی،انگلیوں میں تھاما ہوا قلم اور اس سے نکلتے ہوئے الفاظ کے ساتھ ساتھ سڑک پر گزرتی ہوئی موٹر کی گڑگڑاہٹ اور ساتھ والے کمرے میں ٹیلیفون کی گھنٹی کی آواز بھی ہے۔ ابھی ابھی میرے بڑے بچے نے اپنے چھوٹے بھائی کو شور کرنے سے منع کیا
ہے۔ میں نے وہ بھی سن لیا ہے اور ان سب ہنگاموں کے ساتھ ساتھ میں کتاب بھی لکھ رہا ہوں۔ اس طرح شعور ہمیں تمام حالیہ واقعات سے باخبر کرتا رہتا ہے۔ اس کا صرف اتناہی کام ہے کہ ہمیں ہر چیز سے باشعور یا با خبر رکھے۔
تحت الشعور:تحت الشعور در اصل لاشعور کا چھوٹا بھائی ہے۔ اس لئے اس کو بہت زیادہ وقعت حاصل نہیں ہے۔ ایسے واقعات جن سے ہم معمولی طور پر متاثر ہوتے ہیں، تحت الشعور ہمارے شعور سے ان واقعات کو حاصل کر کے محفوظ کر لیتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد ان واقعات سے بہت زیادہ گہرے اور تاثراتی حصے کاٹ کر لاشعور کے حوالے کر دیتا ہے۔چند ماہ کے گزرے ہوئے واقعات ہم اپنے تحت الشعور سے حاصل کر کے با آسانی احاطہ شعور میں لاسکتے ہیں اور ان کی تصویر ہم اپنے شعور کے پردوں پر بہ آسانی دیکھ سکتے ہیں۔مثال کے طور پر ہم نے گزشتہ ہفتہ کار کا کوئی حادثہ دیکھا ۔شعوری طور پر ہم اسے فراموش کر چکے ہیں مگر تحت الشعور میں وہ حادثہ موجود ہے۔اب ہم کسی دوست سے اس کا ذکر سنتے ہیں تو وہ تمام حادثہ اور اس کے ساتھ وابستہ تمام واقعات ہمارے ذہن میں تصور بن کر ابھر آتے ہیں اور اگر ہم ذرا سی کوشش کریں تو ان تمام واقعات کا بڑی آسانی کے ساتھ تصور باندھ سکتے ہیں اور اس حادثے کی تمام بکھری ہوئی کڑیاں جوڑ کر ایک مکمل تصویر بناسکتے ہیں اور بعینہٖ یوں محسوس کر سکتے ہیں جیسے وہ واقعہ ہماری نگاہوں کے سامنے گزر رہا ہے۔یہ سب کچھ ہم اپنے تحت الشعور سے حاصل کرکے IMAGINATION تصویر (شعور) میں لے آتے ہیں۔ لا شعور: لاشعور ہماری زندگی کا بہت اہم ساتھی ہے۔ یہ ایک طرف انسان کے لئے بہت سی آسانیاں فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف انسان کے لئے وبال جان بن جاتا ہے۔ ہماری تمام حیوانی جبلتیں لاشعور کے قبضے میں ہوتی ہیں اور لاشعور کا سب سے بڑا کام تحت الشعور سے واقعات لے کر اپنے اندر ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لینا ہے۔بشرطیکہ ان واقعات نے ہمارے احساسات کو ذرا بھی متاثر کیا ہو۔اگر کوئی واقعہ معمولی نوعیت کا ہے جس سے ہم معمولی طور پر متاثر ہوتے ہیں تو لا شعور بھی اس واقعے کو محفوظ نہیں کرتا۔ تاوقتیکہ ہم اس کو ایساکرنے پر مجبور نہ کردیں۔چنانچہ لاشعور ہمارے ذہن کا وہ اہم حصہ ہے جو تمام اہم واقعات کو اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے۔خواہ وہ واقعات کسی انسان کے ساتھ اس کی ایک برس کی عمر میں کیوں نہ گزرے ہوں۔یہ واقعات ہمارے ذہن میں یادداشت کے ملبے تلے دبے رہتے ہیں اور عموماً آسانی سے ہم ان کو دوبارہ ذہن میں نہیں لاسکتے۔ ان واقعات کو با آسانی ذہن میں نہ لانے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے شعور اور لاشعور کے درمیان ایک محتسب رہتا ہے۔ یہ محتسب بہت چوکنا رہتا ہے۔ لاشعور سے کوئی ایسا واقعہ شعور میں نہیں آنے دیتا جس کا ہمارے ماحول اور تہذیب سے ٹکراؤ ہو۔اس کا فرض یہ ہے کہ ہمارے اخلاقی قوانین کے تحت ہماری چوکیداری کرتا رہے لیکن اس کی سخت چوکیداری کے باوجود ہمار ا لاشعور چور دروازے سے کسی نہ کسی اہم واقعے کی ٹوٹی پھوٹی کڑیاں شعور کی طرف پھینکتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک محترمہ کا واقعہ پیش کرتا ہوں۔ یہ محترمہ جب بھی کسی بچے کو چار پائی سے پاؤں لٹکائے دیکھتیں تو فورا چلا اٹھیں اور بچے کو یا تو چارپائی سے اتر جانے پر مجبور کر دیتیں یا اس کو اپنی گود میں اٹھانے پر اصرار کرتیں۔ جب ان سے اس کی وجہ پوچھی جاتی تو کوئی تسلی بخش جواب نہیں دےپاتیں۔ کریدنے پر معلوم ہوا کہ کافی عرصہ قبل ان محترمہ کا ایک بچہ چار پائی سے گر کر ہلاک ہو چکا ہے اور جس وقت وہ گرا تھا اس بچے کے پاؤں نیچے لٹکے ہوئے تھے۔اب لاشعور محترمہ کو یہ پورا واقعہ یاد نہیں کراتا کیونکہ محتسب اس پورے واقعے کو ابھرنے سے پہلے ہی روک دیتا ہے۔ اس طرح ان کے جسم اور دماغ پر برا اثر پڑنے کا امکان ہے مگر لاشعور جودروازے سے پاؤں لٹکانے کا احساس شعور میں منتقل کر دیتا ہے جس کی بنا پر وہ دھک سے رہ جاتی ہیں۔ اسی طرح ایک صاحب جب بھی آسمان پر پتنگ اڑتی دیکھتے تو فورا چیخ پڑتے اور بھاگ کر کمرے میں چلے جاتے۔ان کا بہت برا حال ہو جاتا تھا اور بسا اوقات گھنٹوں تک نہیں سنبھل پاتے تھے۔ ان کے ایک عزیز انہیں میرے پاس لائے میں نے جب ان کے محتسب کو دبوچا اور ان کے لاشعور کو کریدا تو معلوم ہوا کہ یہ صاحب بچپن میں پتنگ اڑایا کرتے تھے۔ ایک دن لڑائی جھگڑے میں ایک لڑکا کوٹھے سے گر کر ہلاک ہو گیا۔ لاشعوری طور پر انہوں نے خود کو اس کا ذمے دار تصور کیا۔اب محتسب کی وجہ سے پورا واقعہ لاشعور سے ابھر کر ان کے ذہن میں نہیں آتا ہے صرف پتنگ کی علامت SYMBOL ان کے ذہن سے وابستہ ہو گئی۔ چنانچہ چور دروازے سے لاشعور ہمیشہ ان کو پتنگ سے خوف زدہ کرتا رہتا ہے۔اگر محتسب اپنی گرفت ڈھیلی کر دیتا تو ممکن تھا کہ یہ صاحب خود کو قاتل سمجھ کر خود کشی کر لیتے۔ مگر جب ان کو بتایا گیا کہ یہ محض ایک حادثہ تھا جس کا آپ کی ذات سے کوئی تعلق نہیں تھا تو پھر ان کے ذہن سے پتنگ سے وابستہ خوف بھی ختم ہو گیا۔ اسی طرح انسان بسا اوقات جبلتوں سے مجبور ہو کر زنا بالجبر کا عزم کرتا ہے،مگر محتسب اس کو ہمیشہ اخلاقیات کا سہارا اور حوالہ دے کر ڈراتا رہتا ہے لیکن اگر لاشعور کی یہ خواہش حد سے زیادہ تجاوز کر جائے تو محتسب بھی ہتھیار ڈال دیتا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو انسان پر عارضی طور پر جنون کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور کبھی کبھی یہ جنون بڑھ کر نفسیاتی علالت بن جاتا ہے جس کو نیوراتی کہا جاتا ہے۔ جس کا علاج جیل خانہ نہیں تحلیل نفسی ہے