ی۔دینیات, زکاۃ کا بیان

فقیر شرعی کو مال زکوۃ کا مالک بنائے بغیر اس کے قرض میں وصول کرنا

مسئلہ :جماعت کی طرف سے جماعت کے غریب اشخاص کو زکوۃ اور خیرات دی جاتی ہے ۔ اور جماعت نے ایک شخص کو قرض بھی دیا ہے۔ اور وہ شخص زکوٰۃ کا بھی مستحق ہے تو کیا زکاۃ کا پیسہ اسکو دیے بغیر اور اسے اس کا مالک بنائے بغیر قرض میں وصول کر سکتے ہیں،؟
اور کیا اس طرح کرنے سے زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے ؟
الجواب: جماعت کی طرف سے جماعت کے غریب اشخاص کو زکوٰۃ اور خیرات دی جاتی ہے ۔ اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ زکوۃ اور دیگر صدقات واجبہ کو جماعت میں دیکر قوم کی ملکیت ٹھہراتے ہیں تو یہ جائز نہیں اس لئے کہ اس کی ادائیگی میں تملیک یعنی مستحق زکاۃ کو مالک بنانا شرط ہے۔ بہار شریعت جلد پنجم ص58 پر ہے کہ بغیر تملیک زکوٰۃ ادا نہیں ہو سکتی ۔اور جیسا کہ درمختار کتاب الزکوۃ میں ہے یشترط ان یکون الصرف تملیکا اور اگر یہ مطلب ہے کہ جماعت کے صدر وغیرہ غیر مستحقین میں زکوٰۃ تقسیم کرنے کے لیے وکیل بنائے جاتے ہیں تو یہ جائز ہے ۔ لیکن اس صورت میں جماعت کے صدر وغیرہ کا کسی کو قرض دینا جائز نہیں ۔ اول اس لئے کہ وہ زکوٰۃ کی تقسیم کا وکیل ہے نہ کہ قرض دینے کا ۔دوسرے اس لئے کہ مستحق زکوٰۃ کو دینے کے بجائے قرض میں رقم پھنسانے سے زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر ہوگی جو ناجائز و گناہ ہے۔ بہار شریعت جلد پنجم ص10 میں ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرنے والا گنہگار مردود الشہادہ ہے۔ اور فتاوی عالمگیری جلد اول مصری ص160 میں ہے۔ تجب على الفور عند تمام الحول حتى ياثم بتاخيره من غير عذر ۔اور اسی طرح در مختار مع شامی جلد روم ص 13 پر ہے لہذا زکوة کا مال بذریعہ جماعت اگر قرض دینا چاہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ مال زکوۃ کا فقیر کو مالک بنا دیں اس طرح کے وہ قبضہ بھی کر لے پھر فقیر اپنی خوشی سے جماعت میں اس نیت سے دے دے کہ ہماری یہ رقم غریبوں پر صرف کی جائے اور حسب استطاعت غریب مسلمانوں کو بطور قرض دی جائے۔ اب وہ رقم فقرا و مساکین پر بھی تقسیم کی جا سکتی ہے اور غریب لوگوں کو تجارت کے لیے بطور قرض بھی دی جا سکتی ہے ۔
صورت مسئولہ میں مستحق زکوٰۃ کو قرض دینا پھر زکاة کی رقم اسے دیے بغیر قرض میں مجرا کرنا یہ جائز نہیں ہے۔ جواز کی صورت یہ ہے کہ اسے زکوۃ کا مال دے جب وہ مال پر قبضہ کرلے تو اس سے اپنا قرض وصول کرے اگر وہ دینے سے انکار کرے تو ہاتھ پکڑ کر چھین بھی سکتا ہے جیسا کہ درمختار مع شامی جلد دوم ص13 پر ہے ۔ حیلة الجواز ان یعطی مديونہ الفقیر زکوته ثم یلخذھا عن دینه ولو امتنع المدیون مديده واخذها .
هذا ما عندی والعلم عند الله تعالی ورسوله الاعلی جل جلاله وصلى الله تعالى عليه وسلم .
بحوالہ:فتاوی فیض الرسول
ص:489 جلد 1