ایمان و کفر کا بیان, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ

غیر خدا کی عبادت؟

مسئلہ ۲۱۳: از مدرسہ نعمانیہ اسلامیہ محلہ فراشخانہ دہلی ، مسئولہ محمد ابراہیم احمد آبادی ۸ شعبان ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین اس مسئلہ میں کہ عبادت جس کے غیر خدا عزوجل کو کرنے سے آدمی مشرک ہوجاتا ہے اس کی کیا تعریف ہے جو جامع اور مانع ہو اور اپنی جنس وفصل یا عرض عام اور خاصہ پر مشتمل ہو۔

 

 

الجواب :
امام لامشی پھر ابوالسعود ازہری پھر سید احمد طحطاوی پھر سید محمد شامی فرماتے ہیں : العبادۃ عبارۃ عن الخضوع و التذلل وحدھا فعل لایراد بہ الا تعظیم اﷲ تعالٰی بامرہ ۱ ؎۔ عبادت انتہائی عاجزی اور انکساری کا نام ہے، اس کی تعریف یہ ہے وہ ایک ایسا فعل ہے جس سے اﷲ تعالٰی کے حکم سے اس کی تعظیم کے بغیر کچھ بھی مراد نہیں ہوتا۔(ت)

( ۱ ؎حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار مقدمۃ الکتاب المکتبۃ العربیۃ کوئٹہ ۱ /۴۴)

امام شیخ الاسلام زکریا انصاری پھر علامہ سید احمد حموی عمزالعیون نیز علامہ شامی ردالمحتار میں فرماتے ہیں: العبادۃ مایثاب علٰی فعلہ ویتوقف علٰی نیتہ ۲ ؎۔ عبادت وہ ہے کہ جس کے کرنے پر ثواب دیا جاتا ہے اور وہ ثواب کی نیت پر موقوف ہوتی ہے۔(ت)

( ۲ ؎۔ غمزعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر الفن الاول القاعدۃ الاولٰی ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۳۴)

نیز شرح الاشباہ والنظائر میں ہے : العبادۃ ما یُعبَّد بہ بشرط النیۃ و معرفۃ المعبود ۳ ؎۔ عبادت وہ فعل ہے جس کے ذریعے بندگی کا اظہار کیا جاتا ہے بشرطیکہ ثواب کی نیت ہو اور معبود کی معرفت حاصل ہو۔(ت)

( ۳ ؎۔ غمزعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر الفن الاول القاعدۃ الاولٰی ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۳۴)

تعریفات علامہ سیّد شریف میں ہے : العبادۃ ھو فعل الملکف علٰی خلاف ھوی نفسہ تعظیما لربہ ۴ ؎۔ عبادت مکلف کا وہ فعل ہے جو وہ اپنے رب کی تعظیم کے لیے اپنے نفس کی خواہش کے خلاف کرے۔(ت)

( ۴ ؎۔ کتاب التعریفات باب العین مطبعۃ الخیریۃ المنشأۃ بجمالیۃ مصرص ۶۳)

مفردات امام راغب میں ہے : العبودیۃ اظھار التذلل والعبادۃ ابلغ منہا لانہا غایۃ التذلل ولا یستحقہا الا من لہ غایۃ الافضال وھواﷲ تعالٰی ولہذا قال لا تعبدوا الا یاہ ۵ ؎۔ عبودیت، عجز و رسوائی کو ظاہر کرنا ہے، اور عبادت اس سے زیادہ بلیغ ہے، کیونکہ وہ انتہائی عاجز ی اور رسوائی کا نام ہے، چنانچہ عبادت کا مستحق اس کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا جو انتہائی فضل والا ہو اور وہ ﷲ تعالٰی ہے۔ اسی لیے اس نے فرمایا ہے کہ مت عبادت کرو مگر صرف اسی کی۔(ت)

( ۵ ؎۔ المفردات فی غرائب القرآن العینکارخانہ تجارت کتب کراچی ص ۳۲۱)

تاج العروس میں نقل کیا : العبادۃ فعل مایرضی بہ الرب ۱ ؎۔ عبادت وہ فعل ہے جس کے کرنے پر رب راضی ہوتا ہے۔ (ت)

( ۱ ؎تاج العروس شرح القاموس فصل العین داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۴۱۰)

یہ تعریفیں بجائے خود قابلِ تعریف ہیں وانا اقول : وباﷲ التوفیق (اور میں کہتا ہوں ﷲ تعالٰی کی توفیق سے۔ت) عبادت کسی کو اقصی غایات تعظیم کا مستحق جان کر اس کی تعظیم بجالانا ہے اور اسی سے باعتقادمذکور اس کے لیے تذلّل نیز اس کے امر کا امتثال اس حیثیت سے کہ اس کا امر ہے، اس تعریف کی تسجیل اور اور اُن تحریفات کے مالہا وما علیہا کی تفصیل موجبِ تطویل یہاں بعض نکت کے طرف ایما کریں۔

فاقول وبہ استعین (تو میں کہتا ہوں اور اسی سے مدد چاہتا ہوں۔ت)

(۱) عبادت حقّہ کو مستحقِ عبادت عزّجلالہ، کے لیے ہواس میں اُس فعل کا واقعی تعظیم ہونا ضرور، مجرد، زعم فاعل کافی نہیں، اور عبادتِ باطلہ میں اس کا زعم بس، مکاء وتصدیہ مشرکین عبادتِ الہٰی نہ تھا اور بُتوں کے سامنے اُن کا سنکھ اور گھنٹی بجانا عبادت، اگرچہ یہ بیہودہ افعال حقیقۃً تعظیم نہ ہوں، یونہی امتثال امر میں عبادت حقہ جب ہی ہے کہ واقعی وہ اس کا امر ہو، کفار کا وﷲ امرنابھا ۲ ؎۔ (ﷲ نے ہمیں اس کا حکم دینا۔ت) کہنا اگر واقعی اُن کے زعم میں بھی ہو مراد وہی اور عبادتِ باطلہ میں صرف زعم کافی۔

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۷ /۲۸)

(۲) عبادت کے لیے نیت شرط ہے اور معرفتِ معبود لازم ، جیسا کہ اس کی تعریف سے ظاہر ہے، اور کوئی کافر اصلاً رب عزوجل کو نہیں جانتا جس کی تحقیق ہمارے رسالہ باب العقائد والکلام میں ہے۔
اور امام رستغفنی نے تصریح فرمائی کہ : الکفرھو الجہل باﷲ تعالٰی۳ ؎۔ کفریہ ہے کہ ﷲ تعالٰی کو نہ جانے (ت)

( ۳؎ )

ولہذا کافر نہ اہلِ نیت ہے نہ اہل عبادتِ حقہ ” ، کما نصوا علیہ قاطبۃ جیسا کہ اس پر سب نے نص فرمائی۔(ت) اور مشرک عبادت باطلہ کرتا ہے کہ اپنے معبود باطل کا تصور کرکے اس کی تعظیم کا قصد رکھتا ہے۔

(۳) عبادتِ باطلہ میں التزامِ عبادت و قول بہ الوہیت غیر ہی اُسے اقضٰی غایات تعظیم کا مستحق جاننے پر دلیل واضح ہے اگرچہ مرتکب عناداً منکر ہو کر مانعبدھم الا لیقربونا الی ﷲ۔ زلفٰی ۱ ؎۔ (ہم تو انہیں صرف اتنی بات کے لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اﷲ کے پاس نزدیک کردیں۔ت) کہے،

( ۱ ؎القرآن الکریم ۳۹ /۳ )

رب عزوجل اُن کی تکذیب فرماتا ہے کہ ثم الذین کفروابربھم یعدلون ۲ ؎۔ (پھر کافر لوگ اپنے رب کے برابر ٹھہراتے تھے۔ت)

( ۲ ؎القرآن الکریم ۶ /۱)

خود مشرکین روزِ قیامت اعتراف کریں گے۔ اذنسویکم برب العٰلمین ۳ ؎۔ جب کہ ہم تمہیں رب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے۔ت)

( ۳ ؎القرآن الکریم ۲۶ /۸)

(۴) بعض افعال کی وضع ہی عبادت کے لیے ہے تو ان سے تعظیمِ غیر کا قصد اور اس قصد باطل سے انہیں کرنا ہی مطلقاً حکم شرک لائے گا جیسے صلوۃ وصوم ورنہ قصد عبادت پر موقوف رہے گا، جیسے سجدہ کہ فی نفسہ عبادت نہیں ولہذا سجدات اربعہ صلوۃ وسہو وتلاوت وشکر کے سوا سجدہ بے سبب حنفیہ کے نزدیک صرف مباح ہے کما فی الدرالمختار ( جیسا کہ در مختار میں ہے۔ت) اور شافعیہ کے نزدیک حرام کما فی الجوھر المنظم للامام ابن حجر المکی جیسا کہ جوہر المنظم للام ابن حجر مکی میں ہے۔ت) ولہذا غیر خدا کے لیے سجدہ عبادت کفر ہوا اور سجدئہ تحیت حرام و کبیرہ ہے کفر نہیں کمافی الہندیۃ والدروغیرھما من الاسفار الغر وقد حققناہ فی رسالتنا مستقلۃ فی الرد علی بعض المضلۃ ۔ جیسا کہ ہندیہ اور دروغیرہ روشن کتابوںمیں ہے اس کی تحقیق ہم نے بعض گمراہوں کے رَد میں اپنے ایک مستقل رسالہ میں کردی ہے۔ت)

(۵) عبادت کہ لغۃً خضوع ہے عبادت شرعیہ کو لازم ہے وہ تذلل سے خالی نہیں اگرچہ بظاہر صورۃً تذلل نہ ہو جیسے زکوۃ وجہاد کہ اسے حاکم و آمرو قاہر اور اپنے آپ کو محکوم و مامور و مقہور جان کے امتثال امرعین تذلل ہے مگر اقصٰی غایات تذلل ہونا ضرور نہیں کہ نماز زکوۃ سے زائد تذلل ہے بلکہ نماز کا سجدہ اس کے رکوع، رکوع قیام، قیام قعود سے اگرچہ اجزائے نماز سب عبادت ہیں۔ ہاں اسے اقصٰی غایات تعظیم کا مستحق جاننا ضرورہے۔

(۶) فقہاءکبھی نفسِ فعل پر نظر کرتے ہیں اگر وہ وضعاً عبادت نہیں اسے عبادت نہیں کہتے جیسے عتق ووقف اور کبھی نیت مخصوصہ کے ساتھ دیکھتے اور عبادت کہتے ہیں، جیسے قضا، عنایہ میں اسے منجملہ اشرف عبادات بتایا ہی حتی کہ درمختار وغیرہ میں نکاح کو بھی عبادت فرمایا۔ علامہ حموی نے اس سے مراد جماع حلیلہ ٹھہرایا

اشباہ میں ہے : اماالعتق فعندنالیس بعبادۃ وضعا بدلیل صحتہ من الکافر و لاعبادۃ لہ فان نوی وجہ اﷲ تعالٰی کان عبادۃ مثابا علیہ وان اعتق بلانیۃ صح ولاثواب لہ ان کان صریحا، واما الکنایات فلابد لھا من النیۃ فان اعتق للصنم اوللشیطان صح و اثم وان اعتق لاجل مخلوق صح و کان مباحا لاثواب ولا اثم وینبغی ان یخصص الاعتاق للصنم بما اذا کان المعتق کافرا، اما المسلم اذا اعتق لہ قاصد ا تعظیمہ کفر کما ینبغی ان یکون الاعتاق لمخلوق مکروھا والتدبیر والکتابۃ کا لعتق ، واما الجہاد فمن اعظم العبادات فلابہ لہ من خلوص النیۃ ، واما الوصیۃ فکان لعتق ان قصد التقرب فلہ الثواب والافھی صحیحۃ فقط واما الوقف فلیس بعبادۃ وضعا بدلیل صحتہ من الکافر فان نوی القربۃ فلہ الثواب والا فلا، واما النکاح فقالوا انہ اقرب الی العبادات حتی الاشتغال بہ افصل من التخلی لمحض العبادۃ وھو عندالاعتدال سنۃ مؤکدۃ علی الصحیح فیحتاج الی النیۃ لتحصیل الثواب وھو ان یقصداعفاف نفسہ وتحصینہا وحصول ولد قدفسرنا الاعتدال فی الشرع الکبیر شرح الکنز ولما لم تکن النیۃ فیہ شرط صحتہ قالوا یصح النکاح مع الھزل وعلٰی ھذا سائر القرب لا بدفیھا من النیۃ بمعنی توقف حصول الثواب علٰی قصد التقرب بہا الٰی اﷲ تعالٰی من نشرالعلم تعلیما وافتاء وتصنیفا واما القضاء فقالواانہ من العبادات فالثواب علیہ متوقف علیھا وکذلک اقامۃ الحدود والتعازیر وکل مایتعاطاہ الحکام والولاۃ وکذا تحمل الشہادۃ واداؤھا ۱ ؎۔

لیکن عتق تو وہ ہمارے نزدیک وضع کے اعتبار سے عبادت نہیں اس دلیل کے ساتھ کہ عتق کافر سے بھی صحیح ہوجاتا ہے جب کہ کافر کا کوئی فعل عبادت نہیں ہوتا۔ اگر آزاد کرنے والا اﷲ کی رضا کی نیت کرے تو یہ عتق عبادت بن جائے گا جس پر ثواب دیا جائے گا اور اگر اس نے نیت کے بغیر آزاد کیا تو صحیح ہے اور اس کے لیے کوئی ثواب نہیں ہوگا اگر یہ صریح ہے، ر ہے کنایات تو ان میں نیت ضروری ہے اگر کسی نے بت یا شیطان کے لیے غلام کوآزاد کیا تو صحیح ہے اور وہ گنہگار ہوگا۔ اور اگر مخلوق کے لیے آزاد کیا تو صحیح اور مباح ہے اس پر نہ تو اُسے ثواب ہوگا۔ نہ ہی گناہ، اور بُت کے لیے آزاد کرنے میں یہ تخصیص ہونی چاہیے کہ جب آزاد کرنے والا کافر ہو۔ رہا مسلمان اگر وہ بُت کے لیے آزاد کرے درانحالیکہ وہ بُت کی تعظیم کا ارادہ کرنے والا ہو تو وہ کافر ہوجائے گا۔ جیسا کہ مخلوق کے لیے آزاد کرنا مکروہ ہونا چاہیے۔ مدبر بنانا اور مکاتب بنانا عتق کی طرح ہے لیکن جہاد تو وہ سب سے بڑی عبادتوں میں سے ہے۔ چنانچہ اس کے لیے خلوص نیت ضروری ہے، لیکن وصیت تو وہ عتق کی مثل ہے۔ اگر تقرب کا ارادہ کرے گا تو اسے ثواب ملے گا ورنہ فقط وہ صحیح ہوجائے گی۔ رہا وقف، تو وضع کے اعتبار سے عادت نہیں ہے، اس پر دلیل یہ ہے کہ وہ کافر کی طرف سے بھی صحیح ہوجاتا ہے، چنانچہ اگر تقرب کی نیت کرے گا تو اسے ثواب ملے گا ورنہ نہیں۔ لیکن نکاح اس کے بارے میں تو مشائخ نے کہا کہ وہ عبادات کے قریب ترین ہے یہاں تک کہ اس میں مشغول ہونا محض عبادت کے لیے خلوت سے افضل ہے۔ اور صحیح قول کے مطابق اعتدال کے وقت نکاح سنتِ مؤکدہ ہے۔ چنانچہ ثواب حاصل کرنے کے لیے اس میں نیت کی حاجت ہے اور وہ یہ کہ نفس کی پاکدامنی اور اولاد حاصل کرنے کا قصد کرے ۔ اور اعتدال کی تفسیر ہم نے کنز کی شرح ” شرح الکبیرمیں کردی ہے۔ اور جب نکاح کے صحیح ہو نے کےلیے نیت شرط نہیں ہے تو فقہاء نے کہا ہے کہ نکاح ہزل کے ساتھ بھی صحیح ہوجائے گا۔ اسی پر باقی عبادات کو قیاس کیا جائے گا کہ ان میں نیت ضروری ہے بایں معنی کہ ثواب کا حصول اس بات پر موقوف ہے کہ ان میں اﷲ تعالٰی کے تقرب کا ارادہ کرے جیسے علم کو پھیلانا چاہیے کسی کو علم سکھا کر یافتوٰی دے کر یا کوئی کتاب لکھ کر۔ رہا قاضی بننا تو مشائخ نے فرمایا کہ وہ عبادات میں سے ہے چنانچہ اس میں ثواب عبادت کی نیت پر موقوف ہوگا۔ اسی طرح حدود و تعزیرات کا قائم کرنا اور ہر وہ کام جس کو حاکم اور ولی سر انجام دیتے ہیں اور یونہی گواہی کو اپنے ذمے لینا اور اُسے ادا کرنا۔(ت)

(۱؂الاشباہ والنظائر الفن الاول القاعدۃ الاولٰی ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۳۳۔۳۴)

شرح التنویر للعلائی بلکہ خود اشباہ والنظائر فن ثانی میں : لیس لنا عبادۃ شرعت من عہد اٰدم الی الاٰن ثم تستمر فی الجنۃ الا الایمان والنکاح ۲ ؎۔ ہمارے لیے کوئی عبادت ایسی نہیں جو آدم علیہ السلام کے زمانے سے اب تک مشروع رہی ہو پھر وہ جنت میں بھی جاری رہے گی سوائے ایمان اور نکاح کے۔(ت)

(۲؂الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب النکاح ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۲۴۶)

حموی میں ہے : الظاھر ان المراد بالنکاح ھنا الوطئ لا العقدوان کان حقیقۃ فی العقدعندنا ۳ ؎۔ ظاہر یہ ہے کہ نکاح سے مراد یہاں پر وطی ہے نہ کہ عقد، اگرچہ ہمارے نزدیک نکاح عقد میں حقیقت ہے۔ت)

(۳؂غمزعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب النکاح ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۲۴۶)

بلکہ اس کے فنِ اوّل میں ہے : المراد بالنکاح ھنا الوطی المترتب علی العقدالصحیح بقرینۃ قولہ حتی ا ن الاشتغال بہ افضل من التخلی لمحض للعبادۃ اھ اقول لادلالۃ فربما یکون الاشتغال بتدبیرالعقد اطول مکثامن الوطی بل القرینۃ قولہ یستمر فی الجنۃ فلم یثبت وقوع العقد فیہا کما نقلہ الحموی فی النکاح عن العلامۃ محمد بن ابی شریف اقول وای حاجۃ الیہ بعد قولہ تعالٰی و زوجنٰھم بحورعینo۱؎کما لم تحتج الیہ ام المؤمنین زینب رضی اﷲ تعالٰی عنہا بعد قولہ عزوجل زوجنکہا ۲ ؎۔ یہاں نکاح سے مراد وہ وطی ہے جو عقدِ صحیح پر مرتب ہوتی ہے اس پر قرینہ مصنف کا یہ قول ہےجہاں تک کہ نکاح میں مشغول ہونا محض عبادت کے خلوت سے افضل ہے ، الخ میں کہتا ہوں یہ کوئی دلالت وقرینہ نہیں بسا اوقات عقد کی تدبیر میں مشغول ہونا وطنی میں مشغول ہونے سے زیادہ طویل ہوتا ہے، بلکہ قرینہ اس پر مصنف کا یہ قول ہے کہ پھر وہ جنت میں جاری رہے گی چنانچہ جنت میں وقوع ِ عقد ثابت نہیں جیسا کہ اس کو علامہ حموی نے باب النکاح میں بحوالہ علامہ محمد بن ابوشریف نقل فرمایا ہے۔ میں کہتا ہوں ا ور اس کی کیا ضرورت ہے اﷲ تعالٰی کے اس ارشاد کے بعد اور ہم نے انہیں بیاہ دیا بڑی آنکھوں والی حوروں کے ساتھ جیسا کہ نہیں محتاج ہوئیں اس کی طرف ام المومنین سیدّہ زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا اﷲ تعالٰی کے اس ارشاد کے بعد ہم نے وہ تمہیں نکاح میں دے دی۔ت)

(۴؂غمزعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر الفن الاول القاعدۃ الاولٰی ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۳۳۔۳۴)
( ۱ ؎القرآن الکریم ۵۲ / ۲۰) ( ۲ ؎القرآن الکریم ۳۳ /۳۷)

اقول : تحقیق یہ ہے کہ یہ اختلافِ حیثیت ہے ورنہ وضعاً ان میں سے کچھ عبادات نہیں ولہذا قضا بھی کافر سے صحیح ہے جب کہ امام نے اُسے ذمیوں کا قاضی بنایا ہو اور عتق بھی عبادت ہے جب کہ نیت مذکورہ کے ساتھ ہو اور ثواب نیت پر مطلقاً موقوف اگرچہ فعل عبادت نہ ہو اور یہیں سے ظاہر کہ اخیر میں جو افعال ذکر کیے یعنی اقامت حدود وتعزیرات وافعال حکام و ولاۃ وادا و تحمل و شہادت سب کی تشبیہ قضا کے ساتھ بشرط عبادت ہوجانے میں بھی ممکن نہ صرف توقف ثواب علی النیتہ میں کہ مطلقاً ہر فعل کو حاصل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔( جواب نامکمل دستیاب ہوا)