عقائد و کلام, علم غیب, فتاوی رضویہ

غیب کا علم حضور کے پاس تھا

سوال

مسئلہ ۱۴۷: از ڈاکخانہ مولوی گنج ضلع گیا، مسئولہ عبدالمجید ۲۹ رمضان ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جناب رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو غیب کی باتیں معلوم تھیں یا نہیں، مائۃ مسائل کے چوبیسویں سوال کے جواب میں روایت فقہی ملا علی قاری کی شرح فقہ اکبر ہے جاننا چاہیے کہ کوئی بات غیب کی انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام نہیں جانتے تھے مگر جس قدر کہ اﷲ تعالٰی اُن کو کسی وقت کوئی چیز معلوم کرادیتا تھا تو جانتے تھے جو کوئی اس بات کا اعتقاد کرے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم غیب کی باتیں معلوم کرلیتے تھے حنفیہ نے اس شخص پر صریح تکفیر کا حکم دیا ہے۔

لمعارضۃ قولہ تعالٰی قل لایعلم من فی السمٰوٰت والارض الغیب الا اﷲ وما یشعرون ایان یبعثون ۔۱؂ (اﷲ تعالٰی کے اس فرمان کے معارضہ کی وجہ سے ، تم فرماؤ غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں مگر اﷲ اور انہیں خبر نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے ۔ ت) بینوا توجروا ( بیان فرمائیے اجر دیئے جاؤ گے۔ت)

(۱؂ القرآن الکریم ۲۷/ ۶۵ )

الجواب: زید عمرو کچھ کہیں مگر قرآن مجید وا حادیث صحیحہ کا ارشاد یہ ہے کہ حضور اقدس علیہ افضل الصلوۃ والسلام کو روزِ ازل سے روزِ آخر تک کے تمام غیوب کا علم عطا فرمایا گیا یہ بے شک حق ہے کہ انبیاء غیب اُسی قدر جانتے ہیں جتنا اُن کو ان کے رب نے بتایا بلاشبہہ بے اس کے بتائے کوئی نہیں جان سکتا اور یہ بھی حق ہے کہ احیاناً بتایا گیا کہ وحی حیناً بعد حین ہی اُترتی نہ کہ وقتِ بعثت سے وقتِ وفات تک ہر آن علی الاتصال، مگر اس سے یہ سمجھ لینا کہ گنتی کی چیزیں معلوم ہوئیں اور ان کے علم کو قلیل و ذلیل قرار دینا مسلمان کا کام نہیں، اسی احیاناً تعلیم میں شرق و غرب وعرش و فرش کے ذرّہ ذرّہ کا حال روزِ ازل سے روزِ آخر تک تمام منکشف کردیا ، آیہ کریمہ میں علم ذاتی کی نفی ہے کہ کوئی شخص بے خدا کے بتائے غیب نہیں جانتا، یہ بے شک حق ہے اور اسی کے معارضہ کو حنفیہ نے کفر کہا ہے ورنہ یہ کہ خدا کے بتائے سے بھی کوئی نہیں جانتا اس کا انکار صریح کفر اور بکثرت آیات کی تکذیب ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل انباء المصطفٰی و خالص الاعتقاد میں دیکھا چاہیے کہ ایمان درست ہو، وھوتعالٰی اعلم۔