مسئلہ دوم: از کٹھورضلع سورت اسٹیشن سائن پرب
مرسلہ مولوی عبدالحق صاحب ۱۶رمضان المبارک ۱۳۱۰ھ
مسئلہ ۱۳: کیافرماتے ہیں علمائے دین ان اقوال کے باب میں:
اول ، ایک رسالہ میں لکھا ہے کہ شب معراج میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو حضرت پیران پیر رحمۃ اللہ علیہ نےعرش معلّٰی پر اپنے اوپر سوار کر کے پہنچایا،یا کاندھا دےکر اوپر سوارکر کے پہنچایا،یاکاندھا دے کر اوپر جانے کی معاونت کی، یعنی یہ کام اوپر جانے کا براق اورحضرت جبریل علیہ السلام اوررسول کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے انجام کو نہ پہنچا حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے یہ مہم سرانجام کو پہنچائی۔
دوسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد نبی ہوتا تو پیران پیر ہوتے۔
تیسرے یہ کہ زنبیل ارواح کی عزرائیل علیہ السلام سے حضرت پیران پیر نے ناراض اورغصہ میں ہوکر چھین لی تھی۔
چوتھے یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضرت غوث الاعظم رحمہ اللہ تعالٰی کی روح کو دودھ پلایا پانچویں اکثر عوام کے عقیدے میں یہ بات جمی ہوءی ہے کہ غوث العظم رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابوبکر صدیق سے زیادہ مرتبہ رکھتے ہیں ۔
ان اقوال کا کیا حال ہے ؟مفصل بیان فرماکر اجر عظیم اورثواب کریم پائیں اوررفع نزاع بین الفریقین فرمائیں۔
المستفتی
عبدالحق عفاعنہ کٹھور، ضلع سورت، گجرات (بھارت)
مؤرخہ ۱۶رمضان المبارک ۱۳۱۰ھ
الجواب
اللھم لک الحمد فقیر غفراللہ تعالٰی لہٗ کلمات چند مجمل وسودمند(عہ۱) گزارش کرے اگرچہ فریقین میں سےکسی کو پسند نہ آئیں مگر بعونہ تعالٰی حق وانصاف ان سے متجاوزنہیں والحق احق ان یتبع واللہ الہادی الی صراط مستقیم (اورحق ہی اتباع کے زیادہ لائق ہے ، اوراللہ تعالٰی سیدھی راہ دکھانے والاہے۔)
عہ۱: مفید
جواب سوال۲: یہ قول کہ”اگر نبوت ختم نہ ہوتی تو حضور غوث پاک رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی ہوتے اگرچہ اپنے مفہوم شرطی پرصحیح وجائزالاطلاق ہے کہ بے شک مرتبہ علیہ رفیعہ حضورپُرنوررضی اللہ تعالٰی عنہ تلومرتبہ نبوت(عہ۲) “ہے ۔ خودحضور معلّٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : “جو قدم میرے جدِّاکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اٹھایا میں نے وہیں قدم رکھا سوا اقدام نبوت کے ، کہ ان میں غیر نبی کا حصہ نہیں ؎
از نبی برداشتن گام از توبنہادن قدم غیر اقدام النبوۃ سدّممشاھا الختام۱
(نبی کا کام قدم اٹھانا اورآپ کا کام قدم رکھنا ہے علاوہ اقدام نبوت کے ، کہ وہاں ختم نبوت نے راستہ بند کردیاہے)
عہ۲ : مرتبہ غوثیت،مرتبہ نبوت کے پیچھے اوراس سے نیچے ہے۔
اورجواز اطلاق یوں کہ خود حدیث میں امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے وارد : لوکان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب رواہ احمد۲ والترمذی والحاکم عن عقبۃ بن عامر والطبرانی فی الکبیر عن عصمۃ بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہما۔
میرے بعد نبی ہوتا تو عمر ہوتا(اس کو امام احمد، ترمذی اورحاکم نے عقبہ بن عامر سے جبکہ طبرانی نے معجم کبیر میں عصمہ بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت)
(۲جامع الترمذی ابواب المناقب مناقب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ امین کمپنی دہلی۲/۲۰۹)
(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ لوکان بعدی نبی لکان عمر دارالفکر بیروت ۳/۸۵)
(المعجم الکبیر حدیث۴۷۵ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۷ /۱۸۰)
(مسند امام احمد بن حنبل حدیث عقبہ بن عامر المکتب الاسلامی بیروت۴/ ۱۵۴)
دوسری حدیث میں حضرت ابراہیم صاحبزادہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے وارد: لو عاش ابراھیم لکان صدیقانبیا۔رواہ ابن عساکر۳ عن جابر بن عبداللہ وعن ابن عباس وعن ابن ابی اوفٰی والباوردی عن انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ اگر ابراہیم جیتے تو صدیق وپیغمبر ہوتے۔ (اس کو ابن عساکر نے جابر بن عبداللہ اورابن عباس اورابن ابی اوفٰی سے ، جبکہ الباوردی نےحضرت انس بن مالک سے روایت کیا، اللہ تعالٰی ان سے راضی ہو۔)
(۳ تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر بنیہ وبناتہ علیہ الصلوۃ والسلام وازواجہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۷۵تا۷۹)
(کنزالعمال بحوالہ الباوردی عن انس وابن عساکر عن جابر بن عبداللہ ،ابن عباس وابن ابی اوفٰی حدیث ۳۲۲۰۴ ۱۱/۴۶۹)
علماء نے امام ابو محمد جوینی قدس سرہٗ کی نسبت کہا ہے کہ :” اگر اب کوئی نبی ہوسکتا تو وہ ہوتے۔”
امام ابن حجر مکی اپنے فتاوٰی حدیثیہ میں فرماتے ہیں: قال فی “شرح المہذب “نقلا عن الشیخ الامام المجمع علی جلالتہ وصلاحہ وامامتہ ابی محمد الجوینی الذی قیل فی ترجمتہ لو جاز ان یبعث اللہ فی ھذہ الامۃ نبیا لکان ابا محمد الجوینی۱۔ شرح مہذب میں کہا نقل کرتے ہوئے اس شیخ وامام سے جن کی جلالت وصلاحیت وامامت پر اجماع ہے یعنی ابو محمد جوینی علیہ الرحمہ جن کے تعارف میں کہا گیا ہے کہ اگر اب اللہ تعالٰی کی طرف سے اس امت میں کسی نبی کو بھیجنا جائزہوتا تو وہ ابو محمد جوینی ہوتے(ت)
(۱ الفتاوی الحدیثیہ مطلب قیل لو جاز ان یبعث اللہ فی ھٰذہ الامۃ نبیا الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ص۳۲۴،۳۲۵)
مگر ہر حدیث حق ہے، ہر حق حدیث نہیں ۔ حدیث ماننے اورحضور اکرم سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنے کے لئے ثبوت چاہیے ، بے ثبوت نسبت جائز نہیں ، اورقول مذکور ثابت نہیں ۔واللہ تعالٰی اعلم۔
جواب سوال ۴: حضرت ام المومنین محبوبہ سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہا وسلم کا روح اقدس سیدنا الغوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دودھ پلانا ، بعض مداحین حضور اسے واقعہ خواب بیان کرتے ہیں
کما رأیت فی بعض کتبھم التصریح بذٰلک (جیسا کہ میں نے ان کی بعض کتابوں میں اس پر تصریح دیکھی۔ت)
اس تقدیر پر تو اصلاًاستبعاد(عہ۱) نہیں اوراب اس پرجو کچھ ایرادکیا گیا سب بے جاو بے محل ہے اوراگر بیداری ہی میں مانا جاتاہو، تاہم بلاشبہہ عقلاًاورشرعًاجائز اوراس میں درایۃً کوئی استحالہ(عہ۲) درکنا راستبعادبھی نہیں۔ ان اللہ علٰی کل شیئ قدیر۲۔ (بیشک اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ت)
(۲القرآن الکریم۲/۲۰)
عہ۱: دورازقیاس
عہ۲: محال ہونا
نہ ظاہر میں ام المومنین کے پاس شیر نہ ہونا کچھ اس کے منافی کہ امور خارقہ للعادہ(عہ۱) اسباب ظاہر پر موقوف نہیں ، نہ روح عام متکلمین کے نزدیک مجردات سے ہے اورفی نفسہامادیہ نہ سہی تاہم مادہ سے اس کا تعلق بدیہی ۔ نہ جسم ، جسم شہادت میں منحصر۔ جسم مثالی بھی کوئی چیز ہے کہ ہزاروں احادیث برزخ وغیرہ اس پر گواہ(عہ۲)،کیفما کان(عہ۳) شک نہیں کہ روح مفارق(عہ۴)کی طرف نصوص متواترہ میں نزول وصعود ووضع وتمکن وغیرہ اعراض جسم وجسمانیت قطعا منسوب اور وہ نسبتیں اہل حق کے نزدیک ظاہر پرمحمول (عہ۵) یالیت شعری جب ارواح شہداء کا میوہ ہائے جنت کھانا ثابت۔
عہ۱: عادت کے خلاف ، کرامت وغیرہ
عہ۲: وہ احادیث جو احوال برزخ پر مشتمل ہیں ان میں جسم مثالی بکثرت ذکرآیا ہے لہذا وہ احادیث جسم مثالی کے وجود پر گواہ ہیں۔ عہ۳: کوئی بھی صورت ہو
عہ۴: جسم سے جدا روح عہ۵: اہل سنت کے نزدیک اپنے ظاہری معنی پر ہے ان میں کوئی تاویل نہیں کی گئی۔
الترمذی عن کعب بن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان ارواح الشہداء فی طیرخضر تعلق من ثمر الجنۃ۱۔
(امام ترمذی کعب ابن مالک سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نےفرمایا بے شک شہداء کی ارواح سبز رنگ کے پرندوں میں میوہ ہائے جنت سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔
(۱ جامع الترمذی ابواب فضائل الجہاد باب ماجاء فی ثواب شہید امین کمپنی دہلی ۱/۱۹۷)
جبکہ دوسری روایت میں ارواح عام مومنین کے لئے یہی ارشاد : الامام احمد عن الامام الشافعی عن الامام مالک عن الزھری عن عبدالرحمن بن کعب بن مالک عن ابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نسمۃ المؤمن طائر یعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللہ تعالٰی فی جسدہ یوم یبعثہ۲۔ امام احمد امام شافعی سے وہ امام مالک سے وہ زہری سے وہ عبدالرحمن بن کعب بن مالک سے وہ اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ) مومن کی روح پرندہ کی صورت میں جنت کے درختوں میں رہتی ہے یہاں تک کہ قیامت کے روز اللہ تعالٰی اسے اپنے جسم کی طرف لوٹا دے گا۔
(۲مسند احمدبن حنبل حدیث کرب بن مالک انصاری المکتب الاسلامی بیروت ۳/۴۵۵)
تو دودھ پلانے میں کیا استحالہ ہے ۔ حال روح بعد فراق وپیش از تعلق میں فارق(عہ۱) کیا ہے ؟ آخر حضرت ابراھیم علی ابیہ الکریم وعلیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے لئے صحیح حدیث میں ہے : “جنت میں دو دایہ ان کی مدتِ رضاعت پوری کرتی ہیں۔”
رواہ احمد ومسلم عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان ابراھیم ابنی وانہ مات فی الثدی وانہ لو ظئرین یکملان رضاعہ فی الجنۃ۱۔ اس کو امام احمد ومسلم نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : ابراہیم میرا بیٹا جو شیر خوارگی کی عمر میں وصال فرماگیا ہے بیشک جنت میں اس کیلئے دو دایہ ہیں جو اس کی مدت رضاعت پوری کریں گی۔(ت)
عہ۱: روح کے جسم سے جُدا ہونے کے بعد کی حالت اورجسم سے متعلق ہونے سے پہلے کی حالت میں کوئی فرق نہیں۔
(۱صحیح مسلم کتاب الفضائل باب رحمتہ صلی اللہ علیہ وسلم الصبیان والعیال الخ قدیمی کتب خانہ ۲/۲۵۴)
( مسند احمد بن حنبل عن انس بن مالک المکتب الاسلامی بیروت۳/۱۱۲)
بایں ہمہ یہ باتیں نافی استحالہ یں نہ مثبت وقوع(عہ۲) قول بالوقوع تاوقتیکہ نقل ثابت نہ ہو جزاف (عہ۳) وبے اصل ہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
عہ۲: ان دلائل سے استحالہ کی نفی ہوتی ہے لیکن اس کا واقع ہونا ثابت نہیں ہوتا
عہ۳: من گھڑت ، جھوٹ ، بے ہودہ
جواب سوال ۳: زنبیل ارواح(عہ۴) چھین لینا خرافات مخترعہ جہّال سے ہے ۔سیدنا عزرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام رسل ملائکہ سے ہیں اوررسل ملائکہ ، اولیاء بشر سے بالاجماع افضل۔ تو مسلمانوں کو ایسے اباطیل واہیہ سے احترام لازم (عہ)۔ واللہ الہادی الٰی سبیل الرشاد۔
عہ۴: روحوں کاتھیلا۔
عہ: تنبیہ : مبنائے انکار یہ طرز ادا ہے ورنہ ممکن کہ سیدنا عزرائیل علیہ الصلوۃ والسلام نے کچھ روحیں بامر الہٰی قبض فرمائی ہوں اورحضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی دعا سے باذن الہٰی پھر اپنے اجسام کی طرف پلٹ آئی ہوں کہ احیاء مردہ حضور پرنور ودیگر محبوبان خدا سے ایسا ثابت ہے کہ جس کے انکار کی گنجائش نہیں۔
یوں ہی ممکن کہ حضرت ملک الموت نے بنظرِ صحائف محوواثبات قبض بعض ارواح شروع کیا اور علم الہٰی میں قضائے ابرام نہ پایاتھا ببرکت دُعائے محبوب قبض سے بازرکھے گئے ہوں۔
امام عارف باللہ سیدی عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی کتاب لواقح الانوارمیں حالات حضرت سیدی شیخ محمد شربینی قدس سرہٗ میں لکھتے ہیں: لما ضعف ولدہ احمد واشرف علی الموت وحضرعزرائیل لقبض روحہ قال لہ الشیخ ، ارجع الٰی ربک فراجعہ فان الامر نسخ فرجع عزرائیل وشفی احمد من تلک الضعفۃ وعاش بعدھا ثلاثین عاما۱۔
یعنی جب ان کے صاحبزارے احمد ناتواں ہوکر قریب مرگ ہوئے اورحضرت عزرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کی روح قبض کرنے آئے حضرت شیخ نے ان سے گزارش کی کہ اپنے رب کی طرف واپس جائیے اس سے پوچھ لیجئے کہ حکم موت منسوخ ہوچکا ہے ۔ عزرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام پلٹ گئے ، صاحبزادے نے شفاپائی اوراس کے بعد تیس برس زندہ رہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(۱ الطبقات الکبرٰی (لواقح الانوار)خاتمۃ الکتاب ترجمہ ۲۰ شیخ محمد الشربینی دارالفکر بیروت ۲/۱۸۵)
جواب سوال ۵: یونہی جس کا عقیدہ ہو کہ حضور پرنورسید نا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت جناب افضل الاولیاء المحمدیین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے افضل ہیں یا ان کے ہمسر ہیں، گمراہ بد مذہب ہے ۔ سبحان اللہ ، اہل سنت کا اجماع ہے کہ حضور صدیق اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت امام اولیاء مرجع العرفاء امیر المومنین مولی المسلمین سیدنا مولٰی علی کرم اللہ وجہہ سے بھی اکرم وافضل واتم واکمل ہیں جو اس کا خلاف کرے اسے بدعتی، شیعی، رافضی مانتے ہیں ، نہ کہ حضورغوثیت مآب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تفضیل(عہ) دینی کہ معاذاللہ انکار آیات قرآنیہ واحادیث صحیحہ وخرق اجماع امت مرحومہ ہے لاحول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم۔
عہ: فضیلت دینا
یہ مسکین اپنے زعم میں سمجھا جائے کہ میں نے حق محبت حضورپر نور سلطان غوثیت رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ادا کیا کہ حضور کو ملک مقرب پر غالب یا افضل بتایا ، حالانکہ ان بیہودہ کلمات سے پہلے بیزار ہونے والے سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں، وباللہ التوفیق۔
جواب سوال ۱: رہا شب معراج میں روح پر فتوح حضور غوث الثقلین رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حاضر ہوکر پائے اقدس حضور پرنورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نیچے گردن رکھنا، اوروقتِ رکوب براق یا صعودعرش زینہ بننا، شرعاً وعقلاً اس میں کوئی بھی استحالہ نہیں۔
سدرۃ المنتہٰی اگر منتہائے عروج ہے تو باعتبار اجسام نہ بنظرارواح۔ عروج روحانی ہزاروں اکابر اولیاء کو عرش بلکہ مافوق العرش تک ثابت وواقع ، جس کا انکار نہ کرے گا مگر علوم اولیاء کا منکر۔ بلکہ باوضو سونے والے کے لئے حدیث میں وارد کہ :
“اس کی روح عرش تک بلند کی جاتی ہے۔”
نہ اس قصہ میں معاذاللہ بوئے تفضیل یا ہمسری حضورسیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے نکلتی ہے ، نہ اس کی عبارت یا اشارت سے کوئی ذہن سلیم اس طرف جاسکتاہے ۔ کیا عجب سواری براق سے بھی یہی معنی تراشے جائیں کہ اوپر جانے کا کام حضرت جبرائیل علیہ السلام اوررسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے انجام کو نہ پہنچا براق نے یہ مہم سرانجام کو پہنچائی۔ درپردہ اس میں براق کو فضیلت دینا لازم آتاہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بہ نفس نفیس تو نہ پہنچ سکے اوربراق پہنچ گیا اس کے ذریعے سے حضور کی رسائی ہوئی۔
یا ھذاخدمت کے افعال جو بنظر تعظیم واجلال سلاطین بجالاتے ہیں کیا ان کے یہ معنٰی ہوتے ہیں کہ بادشاہ ان امور میں عاجز اورہمارامحتاج ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔علاوہ بریں کسی بلندی پر جانے کے لئے زینہ بننے سےیہ کیونکر مفہوم کہ زینہ بننے والا خود بے زینہ وصول پر قادر۔۔۔۔۔۔نردبان(عہ۱) ہی کو دیکھیں کہ زینہ صعود ہے اورخود اصلاً صعود پر قادر نہیں ۔
عہ۱: سیڑھی
فرض کیجئے کہ ہنگام بت شکنی حضرت امیر المومنین مولٰی علی کرم اللہ وجہہٗ کی عرض قبول فرمائی جاتی اور حضور پرنور افضل صلوات اللہ واکمل تسلیماتہ علیہ وعلٰی آلہٖ ان کے دوش مبارک پر قدم رکھ کربت گراتے تو کیا اس کایہ مفاد ہوتا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تو معاذاللہ اس کام میں عاجز اورحضرت مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ قادر تھے ۔ غرض ایسے معنے محال، نہ ہرگز عبارت قصہ سے مستفاد، نہ ان کے قائلین بے چاروں کو مراد،
واللہ الہادی الٰی سبیل الرشاد (اوراللہ تعالٰی ہی درست راستے کی طرف ہدایت عطافرمانے والاہے۔ت)
یہ بیان ابطال استحالہ واثبات صحت بمعنی امکان کے متعلق تھا۔رہا اس روایت کے متعلق بقیہ کلام ، وہ فقیر غفراللہ تعالٰی کے مجلد دوم(عہ۲) العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ کی کتاب مسائل شتی میں مذکور کہ یہ سوال پہلے بھی اوجین سے آیا اوراس کا جواب قدرے مفصل دیاگیا تھا۔
یہ بیان ابطال استحالہ واثبات صحت بمعنی امکان کے متعلق تھا۔رہا اس روایت کے متعلق بقیہ کلام ، وہ فقیر غفراللہ تعالٰی کے مجلد دوم(عہ۲) العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ کی کتاب مسائل شتی میں مذکور کہ یہ سوال پہلے بھی اوجین سے آیا اوراس کا جواب قدرے مفصل دیاگیا تھا۔
عہ۲: یاد رہے کہ فتاوٰی رضویہ قدیم میں یہ مسائل شاملِ اشاعت نہیں ہوسکے تھے اب ان کواشاعت جدید میں کتاب الشتّی کے پیش نظر جلد میں شامل کردیاگیاہے۔
خلاصہ مقصد اس کا مع زیادات جدیدہ یہ کہ اس کی اصل کلمات بعض مشائخ میں مسطور ، اس میں عقلی وشرعی کوئی استحالہ نہیں، بلکہ احادیث واقوال اولیاء وعلماء میں متعددبندگان خدا کے لئے ایسا حضور روحانی وارد۔
(۲،۱) مسلم اپنی صحیح اورابوداود طیالسی مسند میں جابر بن عبداللہ انصٓاری اورعبد بن حمید بسند حسن انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہم سے راوی ، حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
ودخلت الجنۃ فسمعت خشفۃ فقلت ماھذہ قالواھذا بلال ثم دخلت الجنۃ فسمعت خشفۃ فقلت ماھذہ قالوا ھذہ الغمیصاء بنت ملحان۱۔ میں جب جنت میں داخل ہوا تو ایک پہچل سنی،میں نے پوچھا : یہ کیاہے؟ ملائکہ نے عرض کی: یہ بلال ہیں۔ پھر تشریف لے گیا، پہچل سنی، میں نےپوچھایہ کیاہے؟عرض کیا: غمیصاء بنت ملحان ، یعنی ام سلیم مادرِ انس رضی اللہ تعالٰی عنہما۔
(۱ کنزالعمال بحوالہ عبد بن حمید عن انس والطیالسی عن جابر حدیث۳۳۱۶۱موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱/۶۵۳)
( مسندابی داودالطیالسی عن جابر حدیث ۱۷۱۹ دارالمعرفۃ بیروت الجز ء السابع ص۲۳۸)
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل ام سلیم الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/۲۹۲)
ان کا انتقال خلافت امیر المومنین عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ہوا کما ذکرہ الحافظ فی التقریب ۲
(جیسا کہ حافظ نے تقریب میں اس کو ذکر کیا ۔ت)
(۲ تقریب التہذیب ترجمہ ۸۷۸۰ ام سلیم بنت ملحان دارالکتب العلمیہ بیروت۲/۶۸۸)
(۳) امام احمدوابویعلٰی بسند صحیح حضرت عبداللہ بن عباس اور
(۴)طبرانی کبیر اورابن عدی کا مل بسندحسن ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روای، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
دخلت الجنۃ فسمعت فی جانبھا وجسافقلت یا جبرئیل ماھذا قال ھذا بلال المؤذن۳۔ میں شب معراج جنت میں تشریف لے گیا اس کے گوشہ میں ایک آواز نرم سنی ، پوچھا: اے جبریل ! یہ کیا ہے ؟ عرض کی : یہ بلال مؤذن ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
(۳کنزالعمال حدیث۳۳۱۶۲و۳۳۱۶۳مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱/۶۵۳)
(الکامل لابن عدی ترجمہ یحیٰی بن ابی حبۃ ابن جناب الکلبی دارالفکر بیروت۷/۲۶۷۰)
(۵) امام احمد ومسلم ونسائی انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، حضور والا صلوات اللہ تعالٰی وسلامہٗ علیہ فرماتے ہں : دخلت الجنۃ فسمعت خشفۃ بین یدی، فقلت ماھذہ الخشفۃ، فقیل الغمیصاء بنت ملحان۴۔ (میں بہشت میں رونق افروز ہوا ، اپنے آگے ایک کھٹکا سنا، پوچھا: اے جبریل۔ یہ کیا ہے ؟عرض کی گئی: غمیصاء بنت ملحان۔
(۴صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من ام سلیم الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/۲۹۲)
(مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳/۹۹)
(۶)امام احمد ونسائی وحاکم باسناد صحیحہ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی، حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : دخلت الجنۃ فسمعت فیہا قراء ۃ ، فقلت من ھذا ؟ قالواحارثۃ بن نعمان کذٰلکم البر کذٰلکم البر ۱۔ میں بہشت میں جلوہ فرما ہوا ، وہاں قرآن کریم پڑھنے کی آواز آئی،پوچھا: یہ کون ہے ؟عرض کی گئی: حارثہ بن نعمان۔ نیکی ایسی ہوتی ہے نیکی ایسی ہوتی ہے ۔
(۱مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ عنہاالمکتب الاسلامی بیروت ۶/۳۶)
(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ مناقب حارثہ بن نعمان دارالفکر بیروت ۳/۲۰۸)
(الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ بحوالہ النسائی ترجمہ ۱۵۳۲ حارثہ بن نعمان دارصادربیروت ۱/۲۹۸)
یہ حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ خلافتِ امیرمعاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میں راہی جنان ہوئے
قالہ ابن سعد فی الطبقات وذکرہ الحافظ فی الاصابۃ۲ (ابن سعد نے طبقات میں اورحافظ نے اصابہ میں اس کو ذکر کیا۔ت)
(۲ الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ بحوالہ النسائی ترجمہ ۱۵۳۲حارثہ بن نعمان دارصادربیروت ۱/۲۹۹)
(الطبقات الکبرٰی لابن سعدترجمہ حارثہ بن نعمان دارالفکر بیروت ۳/۴۸۸)
(۷) ابن سعد طبقات میں ابوبکرعدوی سے مرسلاًراوی حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
دخلت الجنۃ فمسعت نحمۃ من نعیم۳۔ میں جنت میں تشریف فرما ہوا تو نعیم کی کھکارسنی۔
(۳ الطبقات الکبرٰی لابن سعدالطبقۃ الثانیۃ من المہاجرین والانصارترجمہ نعیم بن عبداللہ المعروف النحام دارصادر بیروت۴/۱۳۸)
یہ نعیم بن عبداللہ عدوی معروف بہ نحام(کہ اسی حدیث کی وجہ سے ان کا یہ عرف قرارپایا)
خلافت امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ میں جنگ اجنادین میں شہیدہوئے۔
کما ذکرہ موسٰی بن عقبۃ فی المغازی عن الزھری وکذا قالہ ابن اسحٰق ومصعب الزبیری واٰخرون کما فی الاصابۃ۴۔ جیسا کہ موسٰی بن عقبہ نے مغازی میں زہری کے حوالے سے اس کو ذکر کیا یوں ہی کہا ابن اسحٰق اورمصعب زبیری اوردیگرعلماء نے جیسا کہ اصابہ میں ہے ۔(ت)
(۴الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ ترجمہ نعیم بن عبداللہ ۸۷۷۶دارصادر بیروت ۳/۵۶۸)
سبحان اللہ! جب احادیث صحیحہ سے احیائے عالم شہادت کا حضور ثابت تو عالم ارواح سے بعض ارواح قدسیہ کا حضور کیا دور۔
(۸) امام ابو بکر بن ابی الدنیا ، ابوالمخارق سے مرسلاً راوی، حضور پرنورصلوات اللہ سلامہ علیہ فرماتے ہیں : مررت لیلۃ اسرٰی بی برجل مغیب نورالعرش ، قلت : من ھذا، املک؟ قیل: لا ۔ قلت: نبی؟ قیل: لا۔ قلت : من ھذا؟قال: ھذا رجل کان فی الدنیا لسانہ رطب من ذکر اللہ تعالٰی وقلبہ معلق بالمساجد ولم یستسب لوالدیہ قط۱۔ یعنی شب اسرٰی میرا گزر ایک مرد پر ہوا کہ عرش کے نور میں غائب تھا ، میں نے فرمایا : یہ کون ہے ، کوئی فرشتہ ہے ؟عرض کی گئی:نہ ۔ میں نے فرمایا : نبی ہے عرض کی گئی:نہ ۔ میں نے فرمایا کون ہے ؟عرض کرنے والے نے عرض کی : یہ ایک مرد ہے دنیا میں اس کی زبان یادِالہٰی سے تر تھی اوردل مسجدوں سے لگا ہوا ، اور(اس نے کسی کے ماں باپ کو براکہہ کر) کبھی اپنے ماں باپ کو برا نہ کہلوایا۔
(۱ الدرالمنثوربحوالہ ابن ابی الدنیا تحت الآیۃ ۱۵۲/۲ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی قم ایران ۱/۱۴۹)
(الترغیب والترھیب بحوالہ ابن ابی الدنیاکتاب الذکروالدعاء، الترغیب فی الاکثارمن ذکراللہ الخ مصطفٰی البابی مصر۲/ ۳۹۵)
ثم اقول وباللہ التوفیق (پھر میں کہتاہوں اورتوفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ت)کیوں راہ دور سے مقصد قرب نشان دیجئے، فیض قادریت جوش پر ہے، بحر حدیث سے خاص گوہر مراد حاصل کیجئے۔ حدیث مرفوع مروی کتب مشہورہ ائمہ محدثین سے ثابت کہ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ مع اپنے تمام مریدین واصحاب وغلامان بارگاہ آسمان قباب کے شب اسرٰی اپنے مہربان باپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورحضور اقدس کے ہمراہ بیت المعمور میں گئے حضور پرنورکےپیچھے نماز پڑھی، حضور کے ساتھ باہر تشریف لائے۔
والحمدللہ رب العٰلمین (سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو پروردگارہے تمام جہانوں کا۔ت)
اب ناظر غیروسیع النظرمتعجبانہ پوچھے گاکہ یہ کیونکر؟۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں ہم سے سنے۔ واللہ الموفق۔ ابن جریروابن ابی حاتم وابویعلٰی وابن مردویہ وبیہقی وابن عساکر حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث طویل معراج میں راوی، حضور اقدس سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ثم صعدت الی السماء السابعۃ فاذاانا بابراھیم الخلیل مسندا لظھرہ الی البیت المعمور(فذکرالحدیث الی ان قال) واذابامتی شطرین شطرعلیھم ثیاب بیض کانھاالقراطیس وشطرعلیھم ثیاب رمد فدخلت البیت المعمور ودخل معی الذین علیھم الثیاب البیض وحجب الاخرون الذین علیھم ثیاب رمد وھم علی خیر فصلیت انا ومن معی من المومنین فی البیت المعمورثم خرجت انا ومن معی ۱(الحدیث) پھر میں ساتویں آسمان پر تشریف لے گیا،ناگاہ وہاں ابراہیم خلیل اللہ ملے کہ بیت المعمور سے پیٹھ لگائے تشریف فرماہیں اورناگاہ اپنی امت دوقسم پائی،ایک قسم کے سپید کپڑے ہیں کاغذکی طرح، اوردوسری قسم کا خاکستری لباس۔میں بیت المعمورکے اندر تشریف لے گیااورمیرے ساتھ سپیدپوش بھی گئے، میلے کپڑوں والے روکے گئے مگرہیں وہ بھی خیر وخوبی پر۔پھر میں نے اورمیرے ساتھ کے مسلمانوں نے بیت المعمورمیں نماز پڑھی ۔ پھر میں اورمیرے ساتھ والے باہر آئے۔
(۱تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر عروجہ الی السماء الخ داراحیاء التراث العربی بیروت۳/۲۹۴)
(دلائل النبوۃ للبیہقی باب الدلیل علی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم عرج بہ الی السماء دارالکتب العلمیۃ بیروت۲/ ۹۴۔۳۹۳)
(الدرالمنثوربحوالہ ابن جریروابن حاتم وغیرہ الخ تحت الآیۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/۱۷۲)
ظاہر ہے کہ جب ساری امت مرحومہ بفضلہ عزوجل شریف باریاب سے مشرف ہوئی یہاں تک کہ میلےلباس والے بھی۔ تو حضور غوث الورٰی اورحضور کے منتسبان باصفا تو بلاشبہہ ان اجلی پوشاک والوں میں ہیں ، جنہوں نے حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ بیت المعمورمیں جاکر نماز پڑھی، والحمدللہ رب العالمین(سب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں جو پروردگارہے تمام جہانوں کا۔ت)
اب کہاں گئے وہ جاہلانہ استبعاد کہ آج کل کے کم علم مفتیوں کے سدراہ ہوئے، اور جب یہاں تک بحمداللہ ثابت تو معاملۂ قدم میں کیاوجہ انکارہے کہ قولِ مشائخ کو خواہی نخواہی رد کیاجائے۔ہاں سند محدثانہ نہیں ۔۔۔۔۔پھر نہ ہو۔۔۔۔۔اس جگہ اسی قدربس ہے۔سند معنعن(عہ) کی حاجت نہیں،کما بیناہ فی رسالتنا “ھدی الحیران فی نفی الفئی عن سیدالاکوان”(جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ”ہدی الحیران فی نفی الفیئی عن سیدالاکوان”میں اسے بیان کیاہے۔)
عہ: ایسی روایت جس میں ایک راوی دوسرے راوی سے”عن فلان”کے لفظ سے روایت کرے۔
امام جلال الدین سیوطی نے”مناھل الصفا فی تخریج احادیث الشفاء”میں مرثیہ امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ “بابی انت وامی یارسول اللہ”۱ (یارسول اللہ!میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ت)کی نسبت فرماتے ہیں :
لم اجدہ فی شیئ من کتب الحدیث الاثر (الٰی قولہ)بالاحکام۲۔ میں نے یہ روایت کسی کتاب حدیث میں نہ پائی مگرصاحب اقتباس الانواراورامام ابن الحاج نے اپنی مدخل میں اسے حدیث طویل کے ضمن میں ذکر کیا اورایسی روایت کو اسی قدرسند کفایت کرتی ہے کہ انہیں کچھ باب احکام سے تعلق نہیں ۔
(۱نسیم الریاض بحوالہ مناھل الصفافی تخریج احادیث الشفاء الفصل السابع مرکز اہلسنت برکات رضاگجرات ہند ۱/۲۴۸)
(۲نسیم الریاض بحوالہ مناھل الصفافی تخریج احادیث الشفاء الفصل السابع مرکز اہلسنت برکات رضاگجرات ہند۱/۲۴۸)
اوریہ تو کسی سے کہا جائے کہ حضرات مشائخ کرام قدست اسرارھم کے علوم اسی طریقہ سند ظاہری حدثنا فلان عن فلان میں منحصرنہیں، وہاں ہزارہا ابواب وسیعہ واسباب رفیعہ ہیں کہ اس طریقہ ظاہرہ کی وسعت ان میں سے کسی کے ہزارویں حصہ تک نہیں، تو اپنے طریقہ سے نہ پانے کو ان کی تکذیب کی حجت جاننا کیسی ناانصافی ہے۔
انسان کی سعادت کبرٰی ان مدارج عالیہ ومعارک غالیہ تک وصول رہے۔۔۔۔۔۔۔اوراس کی بھی توفیق نہ ملے تو کیا درجہ تسلیم، نہ کہ معاذاللہ انکار وتکذیب کو سخت مہلکہ ہائلہ ہے ، والعیاذباللہ رب العٰلمین(اوراللہ تعالٰی کی پناہ جو پروردگارہے تما م جہانوں کا۔ت)۔۔۔۔۔۔۔جیسے آج کل ایک بحرینی بے بہرہ نے رسالہ”لباب المعانی”سیاہ کر کے مصر میں چھپوایااورصرف اس پر کہ حضرت امام عارف باللہ، ثقہ، حجت ، فقیہ ، محدث، امام القراء، سیدی ابوالحسن علی نورالملۃ والدین شطنوفی قدس سرہ الصافی الصوفی نے کتاب بہجۃ الاسرارشریف میں باسنادصحیحہ حضرت امام اجل سیدی احمد رفاعی قدس سرہ الرفیع پرحضورپرنورسید الاولیاء حضرت غوث الورٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تفضیل روایت فرمائی ، نہ صرف اس امام جلیل وکتاب جمیل بلکہ خاک بدہن گستاخ جناب اقدس میں کوئی دقیقہ بے ادبی اٹھانہ رکھا۔
نعوذباللہ من الخذلان ولاحول ولاقوۃ الاباللہ القادرالمستعان (ہم ذلت ورسوائی سے اللہ تعالٰی کی پناہ چاہتے ہیں جوقدرت والا ہے جس سے مددطلب کی جاتی ہے ۔ت)
یہ لباب عجاب اول تاآخرجہالات فاضحہ وخرافات واضحہ کا لب لباب ہے ۔ کثر ت مسائل کے نام فرصت عنقانہ ہوتاتو فقیر اس کا رد لکھ دیتا۔مگر الحمدللہ نارباطل خود منطفی (عہ۱) ہے اورہمارے بلاد میں اس کاشریکسرمنتفی (عہ۲) فلاحاجۃ الٰی اشاعۃ خرافاتہ ولو علٰی وجہ الرد (اس کی خرافات کو شائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اگرچہ بطور ردہو۔ت)
عہ۱: بُجھی ہوئی۔ عہ۲: ختم، نیست ونابود۔
بالجملہ روایت نہ عقلاًدور نہ شرعًامہجور،اورکلمات مشائخ میں مسطوروماثوراورکتب احادیث میں ذکر معدوم نہ کہ عدم مذکور۔۔۔۔۔۔نہ روایاتِ مشائخ اس طریقہ سند ظاہری میں محصور،اورقدرت قادر وسیع وموفور، اورقدرقادری کی بلندی مشہور، پھر ردوانکارکیا مقتضائے ادب وشعور۔ والحمدللہ العزیزالغفور،واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ اتم واحکم (اورسب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں جو عزت والا بہت بخشنے والا ہے اوراللہ سبحانہ تعالٰی خوب جانتاہے اوراس کا علم خوب تام اورخوب مضبوط ہے۔ت)
مسئلہ ثالثہ
مسئلہ۸: مسؤلہ مولوی نور محمد صاحب کانپوری ، ملازم کارخانہ میل کاٹ واقع دیوان،۹محرم الحرام ۱۳۳۸ھ۔
ماقولکم یا علماء الملۃ السمحۃ البیضاء ومفتی الشریعۃ الغراءفی ھٰذہٖ: آپ کا کیا ارشاد ہے اے فراخ وروشن ملت کے عالمو اوراے چمکدارشریعت کے مفتیو!اس مسئلہ میں )ت)
مولودغلام امام شہید، صفحہ ۵۹سطر ۱۱میں لکھاہے کہ : “شب معراج میں حضرت غوث الاعظم شیخ محی الدین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی روح پاک نےحاضر ہوکر گردنِ نیاز صاحب لولاک کے قدم سراپا اعجاز کے نیچے رکھ دی اورخواجہ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم گردن غوث اعظم پر قدم مبارک رکھ کر براق پر سوارہوئے اوراس روح پاک سے استفسارفرمایا کہ توکون ہے ؟عرض کیا: میں آپ کے فرزندوں اورذریات طیبات سے ہوں، اگر آج اس نعمت سے کچھ منزلت بخشئے گاتو آپ کے دین کو زندہ کروں گا۔ فرمایاکہ : “تو محی الدین ہے اورجس طرح میرا قدم تیری گردن پر ہے اسی طرح کل تیرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہوگا۔”
اوراس روایت کی دلیل یہ لکھی ہے کہ صاحب منزل اثنا عشریہ بھی تحفۃ القادریہ سے لکھتے ہیں اسی کتاب کے صفحہ۵۸سطر۵ میں مرقوم ہے کہ :
“خواجہ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خوش ہوکر سوارہونے لگے براق نے شوخی شروع کی ،جبریل علیہ السلام نے کہا : کیا بیحرمتی ہے ، تو نہیں جانتا کہ تیر اراکب کون ہے ؟خلاصہ ہژدہ ہزار عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (اٹھارہ ہزارجہانوں کے خلاصہ محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو اللہ کے سچے رسول ہیں۔ ت)براق نے کہا کہ اے امین وحی الہٰی! تم اس وقت خفگی مت کرو مجھے رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جناب میں ایک التماس ہے ۔ فرمایا: بیان کرو۔ عرض کیا: آج دولت زیارت سے مشرف ہوں کل قیامت کے دن مجھ سے بہتر براق آپکی سواری کے واسطے آئیں گے، امیدوار ہوں کہ حضور سوائے میرے اورکسی براق کو پسند نہ فرمائیں۔”
صاحب تحفۃ القادریہ لکھتے ہیں کہ : “وہ براق خوشی سے پھولا نہ سمایااوراتنا بڑھا اوراونچا ہوا کہ صاحب معراج کا ہاتھ زین تک اورپاؤں رکاب تک نہ پہنچا۔”
پس استفسار اس امر کا ہے کہ آیا یہ روایت صحاح ستہ وغیرہ احادیث وشفائے قاضی عیاض وغیرہ کتب معتبرہ فن میں موجود ہے یا نہ ۔بیان کاف وشاف بالاسانید من المعتبرات المعتقدات بالبسط والتفصیل جزاکم اللہ خیرا۔بینواتوجروا(معتبرومعتمد سندوں کے ساتھ کافی و شافی بیان پوری شرح وتفصیل کے ساتھ ارشادفرمائیں۔ اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیرعطافرمائے۔بیان کرو اجرپاؤگے۔ت)
الجواب
کتب احادیث وسِیَرمیں اس روایت کا نشان نہیں ۔ رسالہ غلام امام شہید محض نامعتبر،بلکہ صریح اباطیل وموضوعات پر مشتمل ہے ۔ منازل اثنا عشریہ کوئی کتاب فقیر کی نظر سے نہ گزری نہ کہیں اس کا تذکرہ دیکھا۔
تحفہ قادریہ شریف اعلٰی درجہ کی مستند کتاب ہے اس کے مطالعہ بالاستیعاب سے بارہامشرف ہوا، جو نسخہ میرے پاس ہے یا اورجومیری نظر سے گزرا ان میں یہ روایات اصلا نہیں۔(عہ۱)
عہ۱: تحفہ قادریہ ،حضرت شاہ ابوالمعالی قادری(۱۱۱۶ھ)کی فارسی تالیف ہے جس میں حضورغوث الورٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حالات اورکرامات کا تذکرہ ہے ۔ آپ اپنے وقت کے سربرآوردہ مشائخ میں شمار ہوتےہیں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے آپ کے ارشاد پر اشعۃ اللمعات اورشرح فتوح الغیب مکمل فرمائی۔آپکا مزارلاہور میں واقع ہے۔
تحفہ قادریہ کے قلمی نسخے اکثرکتب خانوں میں موجودہیں، اصل فارسی نسخہ تاحال طبع نہ ہوا، البتہ اس کااردوترجہ (۱) سیرت الغوث مولفہ محمد باقر نقشبندی(۱۳۲۳ھ) مطبع منشی نولکشور پریس لاہور اور(۲) تحفہ قادریہ(اردوترجمہ) مولفہ مولانا عبدالکریم(۱۳۲۴ھ) ملک فضل الدین تاجرکتب لاہورکے ناموں سے شائع ہوچکے ہیں۔
بایں ہمہ اس زمانہ کے مفتیان جہول،مخطیان غفول(عہ۲) نے جو اس کا بطلان یوں ثابت کرنا چاہاکہ سدرۃ المنتہٰی سے بالاعروج کیا اوراس میں معاذاللہ حضور اقدس وانورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر حضور پرُنورغوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تفضیل نکلتی ہے(عہ۳) یہ محض تعصب وجہالت ہےجس کا رد فقیر نے ایک مفصل فتوٰی میں سترہ سال ہوئے کیا،جبکہ ۱۶ رمضان المبارک ۱۳۱۰ھ کٹھورضلع سورت سے ایک سوال آیاتھا۔(عہ۴)
عہ۲: جاہل، غافل اورخطاکارمفتی۔
عہ۳: دیوبندیوں کےحکیم الامت مولوی اشرف علی تھانوی، مدرسہ دیوبند کے اساطین مولوی خلیل احمد اورمولوی رشیدا حمد انبیٹھوی کے فتاوٰی کی تردید ہورہی ہے ، یہ فتاوٰی موجودہ رسالہ مبارکہ میں شامل کردیے گئے ہیں۔
عہ۴: ملاحظہ ہو مسئلہ ثانیہ رسالہ ہذا
فاضل عبدالقادرقادری ابن شیخ محی الدین اربلی نے کتاب “تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر” رضی اللہ تعالٰی عنہ میں یہ روایت لکھی ہے(عہ۵) اوراسے جامع شریعت وحقیقت شیخ رشید بن محمد جنیدی رحمہ اللہ کی کتاب حرزالعاشقین سے نقل کیا ہے۔ اور ایسے امور میں اتنی ہی سندبس ہے ۔ اس کا بیان فقیر کے دوسرے فتوے میں ہے جس کا سوال۱۷ربیع الآخرشریف۱۳۱۰ھ کو اوجین سے آیاتھا،(عہ۱) وباللہ التوفیق، واللہ تعالٰی اعلم (اورتوفیق اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے،اوراللہ تعالٰی خوف جانتاہے۔ت)
عہ۵: تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ، المنقبۃ الاولٰی ، سنی دارالاشاعت علویہ رضویہ،فیصل آباد،ص۲۴،۲۵
عہ۱: ملاحظہ ہومسئلہ ثانیہ ، رسالہ ہذا
رسالہ
فتاوٰی کرامات غوثیہ
ختم ہوا۔