کیا غسل فرض میں کلی کرنا ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنا حلق تک اور ناک میں اوپر تک پانی پہنچانا فرض ہے ؟
۔ اگر ایسا ہے تو روزے میں کیا کرنا ہوگا۔؟
اگر پانی پیٹ یا دماغ میں چلا گیا تو کیا روزہ ٹوٹ جائے گا۔؟
اگر ٹوٹے گا تو روزے کے دوران
غسل فرض کیسے ادا کیا جائے ؟
۔ مہربانی فرما کر اس کا حل ارشاد فرمادیں۔
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب بعون المَلِكِ الوَهَّابُ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي النُّوْرَ وَالصَّوَابُ۔
روزے کے دوران شریعت کلی میں غرغرہ کر کے مبالغہ کرنے سے روکتی ہے کہ کہیں پانی اندر نہ چلا جائے۔ جبکہ غسل فرض کرتے ہوئے کلی میں حلق کے کنارے تک پانی بہانا فرض ہے اور یہ روزہ دار کے لیے بھی ضروری ہے اور یہاں تک پانی پہنچانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور اگر حلق تک نہ پہنچایا تو غسل ادا نہ ہوگا۔ اور جس کا روزہ نہ ہو اسے کلی میں غرغرہ کر کے مبالغہ کرنا سنت ہے۔ اور جہاں تک ناک میں پانی ڈالنے کا تعلق ہے۔ روزے کی حالت میں یا روزہ نہ ہونے کی حالت میں یعنی دونوں حالتوں میں دونوں نتھنوں میں جہاں تک نرم جگہ ہے یعنی سخت ہڈی کے شروع ہونے تک پانی سے دھونا فرض ہے۔ ہاں روزہ دار اس سے اوپر تک نہ لے کر جائے کہ کہیں پانی دماغ کو نہ چڑھ جائے اور روزہ نہ ہو تو سخت ہڈی سے اوپر تک لے جانا بھی سنت ہے۔کلی کرنے کے حوالے سے سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیه رحمة الرحمن فرماتے ہیں کہ آج کل بہت لا علم اس مضمضہ کے معنی صرف کلی کے سمجھتے ہیں، کچھ پانی منہ میں لے کر اگل دیتے ہیں کہ زبان کی جڑ اور حلق کے کنارہ تک نہیں پہنچتا، یوں غسل نہیں اُترتا ، نہ اس غسل سے نماز ہو سکے نہ مسجد میں جانا جائز ہو بلکہ فرض ہے کہ داڑھوں کے پیچھے گالوں کی تہ میں دانتوں کی جڑ میں دانتوں کی کھڑکیوں میں حلق کے کنارے تک ہر پرزے پر پانی بہے یہاں تک کہ اگر کوئی سخت چیز کہ پانی کے بہنے کو روکے گی دانتوں کی جڑ یا کھڑکیوں وغیرہ میں حائل ہو تو لازم ہے کہ اُسے جدا کر کے کلی کرے ورنہ غسل نہ ہوگا، بالجملہ غسل میں ان احتیاطوں سے روزہ دار کو بھی چارہ نہیں ہاں غرغرہ اسے نہیں چاہئے کہ کہیں پانی حلق سے نیچے نہ اتر جائے۔ غیر روزہ دار کے لیے غرغرہ سنت ہے۔
اور در مختار میں ہے: سنة المبالغة بالغرغرة لغير الصائم لاحتمال الفساد ۔غسل میں غرغرہ کر کے مبالغہ سنت ہے اس کے لئے ھے جو روزہ دار نہ ہو، روزہ دار کے لئے نہیں کیونکہ اس میں روزہ جانے کا احتمال ہے۔ (الدر المختار کتاب الطهارت ۲۱/۱)
فتاوی رضویه ج ۲ – ۱ ص ۵۹۷]
غسل فرض ادا کرنے کے لیے ناک میں پانی دونوں نتھنوں کی نرم جگہ تک بہانا فرض ہے جیسا کہ سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیه رحمة الرحمن فرماتے ہیں کہ غسل تو ہرگز اُترے ہی گا نہیں [ کلی میں ] جب تک سارا منہ حلق کی حد تک اور سارا نرم بانسہ سخت ہڈی کے کنارہ تک پورا نہ دھل جائے ۔ اس احتیاط سے بھی روزہ دار کو مفر نہیں ، ہاں اس سے اوپر تک اُسے نہ چاہئے کہ کہیں پانی دماغ کو نہ چڑھ جائے غیر روزہ دار کے لئے یہ بھی سنت ہے۔ در مختار میں ہے:
سنته المبالغة بمجاوزة المارن لغير الصائم. غیر روزہ دار کے لئے نرمہ سے اوپر پانی پہنچا کر مبالغہ سنت ہے۔ الدر المختار كتاب الطہارة مطبع مجتبائی دہلی ۲۱/۱ / فتاوی رضویه ج ۱ – ۲ ص ۱۵۹۷
اور رد المحتار میں بحر الرائق سے نقل کیا گیا ہے :
الاستنشاق اصطلاحا ايصال الماء إلى المارن ولغة من النشق وهو جذب الماء ونحوه بريح الانف الى داخله –
اصطلاح میں استنشاق کا معنی ناک کے نرم حصہ تک پانی پہنچانا۔ اور لغت میں یہ لفظ نشق سے لیا گیا ہے جس کا معنی پانی اور اس جیسی چیز کو سانس کے ذریعہ ناک کے اندر کھینچنا۔ اگر غسل کے دوران کلی کرتے یا ناک میں پانی ڈالتے وقت پانی پیٹ یادماغ میں چلا گیا تو روزہ ضرور ٹوٹ جائے گا۔ جیسا کہ بہار شریعت میں ہے کہ کلی کر رہا تھا بلا قصد پانی حلق سے اُتر گیا یا ناک میں پانی چڑھایا اور دماغ کو چڑھ گیا روزہ جاتا رہا مگر جبکہ روزہ ہونا بھول گیا ہو تو نہ ٹوٹے گا اگر چہ قصدا ہو۔
بھار شریعت ج ا حصہ ۵ مسئله ۱ ۱ ص ۹۸۷] (رد المحتار كتاب الطهارة دار احياء التراث العربي بيروت (۸/۱ و ۷۹)
وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ وَرَسُولُهُ أَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم.
فتاوی یورپ و برطانیہ ص261