بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک خاتون عمرہ پر گئی طواف و سعی کرنے کے بعد تقصیر کرنا بھول گئی اور مدینہ چلی گئی ،وہاں کچھ دن گزرنے کے بعد انہیں یاد آیا کہ تقصیر نہیں کی، کسی نے ان سے کہا کہ دم دے دیں، دم اس نے دے دیا مگر تقصیر پھر بھی نہیں کی اور اپنے وطن واپس آ گئی ۔اس بات کو 7،8 ماہ گزر چکے ہیں اب کیا حکم ہو گا ؟کیا صرف دم دینا ضروری تھا یا تقصیر بھی کرنی تھی؟ رہنمائی فرما دیں۔بینوا توجروا(بیان فرما کر اجر پائیے)
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں عورت پر دو دم واجب ہوئے ہیں اور تقصیر کرانا اب بھی ان پر واجب ہے کہ اس کا وقت عمر بھر ہوتا ہے۔
اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ عمرہ کے تمام ارکان کی ادائیگی کے بعد احرام کی پابندیوں سے نکلنے کے لیے حدود حرم میں ہی عورت پر تقصیر کرانا لازم تھا تو اس کے ترک کی وجہ سے پہلا دم واجب ہوا۔
دوسرا دم اس لیے واجب ہے کہ جب اس خاتون نے تقصیر نہیں کرائی اور اس بات کو تقریباً 7-8 ماہ ہوچکے ہیں تو ظاہر ہے کہ اتنے طویل دورانیہ میں ممنوعات احرام جیسے خوشبو لگانا، چہرہ چھپانا وغیرہ خلاف ورزی بھی ہوئی ہوگی، اور سوال میں بیان کردہ صورتحال سے واضح ہے کہ عمرہ کرنے والی خاتون کو مسائل کا علم نہیں تو لہذا اس نے پہلی خلاف ورزی رفض احرام کی نیت سے کی ہوگی یعنی یہ جان کر کی ہوگی کہ میں احرام سے باہر ہوں اور پھر معمول کے مطابق زندگی شروع کردی ہوگی۔ لہذا رفض احرام کی نیت پائے جائے جانے کی وجہ سے صرف پہلی خلاف ورزی پر دم ہوگا، ہاں اگر کوئی بغیر رفض احرام کی نیت کے احرام کی خلاف ورزیاں کرے گا تو اس پر ہر جرم کی الگ الگ جزاء لازم ہوگی۔
لباب المناسک میں ہے:
”لو حلق في الحل … فعليه دم“
ترجمہ: اگر محرم نے حل میں حلق کیا تو اس پر دم لاز م ہوگا۔(لباب المناسک، باب الجنايات وأنواعها، فصل فی الجنایۃ فى الذبح والحلق، صفحہ220،مطبوعہ: دار قرطبہ، بیروت)
ردالمحتار علی الدر المختار میں ہے:
”یجب دم لو حلق للحج أو العمرۃ في الحل لتوقته بالمکان“
ترجمہ: اگر کسی شخص نے حج یا عمرہ کا حلق حل میں کیا تو دم واجب ہوجائے گا کیونکہ حلق کے لیے شرعی اعتبارسے جگہ (حدود حرم) مقرر ہے۔ (ردالمحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، باب الجنایات، جلد3، صفحہ666، دار المعرفہ، بیروت)
لباب المناسک میں ہے:
”فصل في ارتکاب المُحرِم المَحظُورَ علی نية رفض الإحرام … ویجب عليه دم واحد لجمیع ما ارتکب ولو فعل کلّ المحظورات“
ترجمہ: محرم کے رفضِ احرام کی نیت سے ممنوع کام کا ارتکاب کرنے کے متعلق فصل… اور رفض احرام کی نیت سے ممنوع کام کا ارتکاب کرنے والے پر ایک ہی دم لازم ہوگا ان تمام جنایات کے عوض جن کا وہ مرتکب ہوا، اگرچہ وہ تمام ممنوعاتِ احرام کام کر لے۔(لباب المناسک، باب فى جزاء الجنايات وكفاراتها، فصل فی ارتکاب المحرم المحظور، صفحہ253، ملتقطا، مطبوعہ: دار قرطبہ، بیروت)
27 واجبات حج اور تفصیلی احکام میں ہے:
”جس نے احرام سے باہر ہونے کے لیے حلق یا تقصیر کو اختیار نہیں کیا وہ بدستور حالتِ احرام میں ہی رہے گا۔ حج اور عمرہ دونوں کے احرام کے بعد عمومی حالات میں یہی حکم ہے۔ کسی نے بغیر حلق یا تقصیر کئے لباس وغیرہ پہن لیا اور احرام کی خلاف ورزیاں شروع کر دیں تو اگر پہلی خلاف ورزی یہ سمجھ کر کی گئی کہ اب میں احرام سے باہر ہوں اور اس کے بعد خلاف ورزیوں کا تسلسل جاری رہا مثلاً خوشبو استعمال کی، چہرہ چھپایا وغیرہ ذٰلک اور معمول کی زندگی شروع کر دی اور خوب خلاف ورزیاں کیں تو اس صورت میں بقایا ہر ہر خلاف ورزی پر الگ الگ جنایت نہیں ہوگی۔ بلکہ مجموعی طور پر ایک ہی دَم ہوگا۔ اور اگر رِفْض یعنی احرام ختم کرنے کی نیت نہیں پائی گئی تھی تو ہر خلاف ورزی پر الگ الگ جنایت ہوگی۔“(27 واجبات حج اور تفصیلی احکام، صفحہ121، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ، کراچی)
شرح لباب المناسک میں ہے:
”أمّا الزمان في حلق المعتمر فلا یتوقّت بالإجماع“
ترجمہ: جہاں تک عمرہ کرنے والے کے حلق کی (انتہائی) مدت کا سوال ہے تو بالاجماع اس کے لیے کوئی (آخری وقت) متعین نہیں (یعنی جب بھی کرے گا ادا ہو جائے گا۔)(شرح لباب المناسک، باب مناسک منى، فصل فی زمان الحلق ومكانہ، صفحہ325، مطبوعہ: المکتبۃ الامدادیۃ، المکۃ المکرمۃ)
شرح لباب المناسک میں ایک اور مقام پر لکھا ہے:
”إعلم أن الکفارات كلھا واجبة علی التراخي فلا یأثم بالتاخیر عن أول وقت الإمکان ویکون مؤدیا لا قاضیا في أي وقت أدی وإنما یتضیق علیه الوجوب في آخر عمرہ في وقت یغلب علی ظنه إن لو لم یؤدہ لفات فإن لم یؤد فيه فمات أثم ویجب عليه الوصية بالأداء…. والأفضل تعجیل أداء الکفارات“
ترجمہ: جان لو کہ تمام کفارے علی التراخی واجب ہیں، لہذا اولاً ادائیگی ممکن ہونے کے باوجود تاخیر کرنے پر گنہگار نہیں ہو گا ، جب بھی ادا کرے گا ، ادا ہی ہو گا ،قضا نہیں ہو گا البتہ عمر کے آخری حصے میں جب اسے موت کا ظن غالب ہو جائے کہ اب ادا نہ کیا تو کفارہ ذمہ پر باقی رہ جائے گا تو اسی وقت کفارہ ادا کرنے کا وجوب متوجہ ہو جائے گا اور بغیر ادا کیے فوت ہو گیا تو گناہ گار ہوگا اور کفارہ ادا کرنے کی وصیت کرنا اس پر واجب ہے ۔ البتہ افضل یہ ہے کہ کفارے جلدی ادا کر دے۔(شرح لباب المناسک، باب فی جزاء الجنایات، صفحہ542، ملتقطا، مطبوعہ: المکتبۃ الامدادیۃ، المکۃ المکرمۃ)
واللہ اعلم
کتبه
ابو معاویہ محمد ندیم عطاری مدنی حنفی
نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری
مؤرخہ 21 ذو القعدۃ الحرام 1445ھ بمطابق 29مئی 2024ء، بروز بدھ
─── ◈☆◈ ───