مسئلہ ۱۸۵ : از گونڈل علاقہ کا ٹھیاروار مسئولہ عبدالستار بن اسمعیل بروز سہ شنبہ تاریخ ۱۳ رجب المرجب ۱۳۳۴ھ
بعض متصوفہ زندیقہ جو زید، عمر، بکر یہ وہ سب کا خدا ہی خدا کہتے ہیں وہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ اس وجہ سے منصور نے دعوٰی انا الحق کا کیا، بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے اسی لیے سبحانی ما اعظم شانی ( میں پاک ہوں اورکتنی عظیم میری شان ہے۔ت) فرمایا۔ اور شمس تبریزی نے اسی وجہ سے قم باذنی ( اٹھ میرے حکم سے ۔ت) کہہ کر مردہ زندہ کیا۔ اب عرض یہ ہے کہ کیا واقعی یہ کلمات اوپر کے بزرگوں سے صادر ہوئے ہیں؟ اور کیا اس صوفی زندیق کا یہ کہنا صحیح ہے؟ اور اگر ہے تو کیا یہ کلمات عندالشرع مردود ہیں یا نہیں؟ اور اگر مردود ہیں تو اُوپر کے تینوں بزرگوں کے ساتھ اہلِ سنت و جماعت کس طرح کا عقیدہ رکھیں؟
الجواب الملفوظ
اُن زنادقہ کا یہ قول کفر صریح ہے اور ان کے قول کی صحت کا شک واقع ہونا سائل کے ایمان کا مضر ہے تجدیدِ اسلام چاہیے، وہ تینوں حضرات کرام اکابر اولیائے عظام سے ہیں۔ قدسنا اﷲ باسرار ھم ، حضرت شمس تبریزی قدس سرہ، سے یہ کلمہ ثابت نہیں، اور ثابت ہو تو معاذ اﷲ اُسے ادعائے الوہیت سے کیا علاقہ ! ایسی اضافات مجازیہ شائع ہیں۔
حضرت حسین منصور انا الحق نہیں کہتے تھے بلکہ انا الاحق ( میں ہی احق ہوں۔ت) ابتلائے الہی کے لیے سامعین کی فہم کی غلطی تھی ان کی بہن اکابر اولیائے کرام سے تھیں۔ ہر روز اخیر شب میں جنگل کو تشریف لے جاتیں اور عبادتِ الہی میں مشغول ہوجاتیں ، ایک رو زحضرت حسین منصور کی آنکھ کھلی اور بہن کو نہ پایا، شیطان نے شبہہ ڈالا۔ دوسری رات قصداً جاگتے رہے، جب وہ اپنے وقتِ معمول پر اٹھ کر باہر چلیں یہ آہستہ اٹھ کر پیچھے ہولیے، وہ جنگل میں پہنچیں اور عبادت میں مشغول ہوئیں۔ یہ پیڑوں کی آڑ میں چھپے دیکھتے تھے، قریبِ صبح انہوں نے دیکھا کہ آسمان سے سونے کی زنجیر میں یاقوت کا جام اُترا اور وہ ان کی بہن کے دہن مبارک کے پاس آگیا۔
انہوں نے پینا شروع کیا، یہ بے چین ہوئے اورچلا کر کہا۔ بہن ! تمہیں خدا کی قسم تھوڑا میرے لیے بھی چھوڑ دو۔ انہوں نے صرف ایک جرعہ ان کے لیے چھوڑا جس کے پیتے ہی ان کو ہر شجر و حجر و درو دیوار سے آواز آنے لگی کہ کون اس کا زیادہ احق ہے کہ ہماری راہ میں قتل کیاجائے ؟ یہ اس کا جواب دیتے انا الاحق بے شک میں احق ہوں۔ لوگوں نے کچھ سنا اور جو منظور تھا واقع ہوا۔
حضرت سیّدی بایزید بسطامی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اُس سوال کا خود جواب ارشاد فرمادیا، فرمایا : میں نہیں کہتا وہ فرماتا ہے جسے فرما نازیبا ہے، سائلوں نے اس پر دلیل چاہی۔ فرمایا : تم سب ایک ایک خنجر ہاتھ میں لے کر بیٹھ جاؤ اور جس وقت مجھے ایسا کہتے سنو بے تامل خنجر مارو کہ ایسے قائل کی سزا قتل ہے انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب حضرت پر حالت وارد ہوئی اور وہی کلمہ نکلا اُن سب نے بے مہابا خنجر مارے۔ جس نے جس جگہ کے قصد پر خنجر مارا تھا خود اس کے اسی جگہ لگا۔ جب حضرت کو افاقہ ہوا ملاحظہ فرمایا کہ وہ سب گھائل پڑے ہیں ۔ فرمایا : میں نہ کہتا تھا کہ میں نہیں کہتا وہ کہتا ہے جس کا کہنا بجا ہے، سیدنا موسٰی کلیم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والتسلیم نے کوہِ طور پر اُس درخت میں سے ندا سنی کہ یا موسٰی انی انا اﷲ رب العلمین، ۱۔ ( اے موسٰی میں ہوں ، اﷲ رب سارے جہانوں کا، ت) کیا یہ درخت نے کہا تھا،
(۱ القرآن الکریم ۲۸/ ۳۰)
حاشا بلکہ رب العالمین نے درخت پر تجلی فرمائی اور حضرت کلیم کو اُس میں سے ندا مسموع ہوئی، کیا وہ ایک درخت پر تجلی فرماسکتا ہے۔ اور بایزید پر نہیں؟ کیا محال ہے کہ بایزید پر تجلی کرے اور سبحانی ما اعظم شانی ۲ ؎۔ (میں پاک ہوں اور کتنی عظیم میری شان ہے۔ت) اور لوگوں کو ان میں سے ندا آئے۔
(۲تذکرۃ الاولیاء (اردو) شیخ فریدالدین عطار ملک اینڈ کمپنی اردو بازار لاہور ص ۸۳ )
حضرت مولوی معنوی قدس اﷲ سرہ الشریف فرماتے ہیں۔ ایک جِن جس پر تسلط کرتا ہے اس کی زبان سے کلام کرتا ہے اس کے جوارح سے کام کرتا ہے۔۳ ؎۔ کیا تمہارے نزدیک رب عزوجل ایسا نہیں کرسکتا۔ کلام اس کا ہے اور زبان بایزید کی، بایزید شجرہ موسٰی ہیں اور متکلم وہ جس نے فرمایا اانی انا اﷲ رب العلمین ۔ فللّٰہ الحجۃ البالغۃ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم “
(۳ مثنوی معنوی دفتر چہارم قصہ سبحانی ما اعظم شانی مؤسسۃ انتشارات اسلامی لاہور ۴/ ۲۰۵)