عقائد و کلام, فتاوی رضویہ, من گھڑت روایات

صبح صبح کسی منحوس کی شکل دیکھ لیں تو؟

مسئلہ ۲۰۲ : مرسلہ از محمد ابراہیم موضع گردھر پور ڈاکخانہ رچھا ضلع بریلی
ایک شخص نجابت خاں جاہل اور بدعقیدہ ہے اور سود خوار بھی ہے ، نماز روز خیرات وغیرہ کرنا بے کار محض سمجھتا ہے، اس شخص کی نسبت عام طور پر جملہ مسلمانان ِ واہل ہنود میں یہ بات مشہور ہے کہ اگر صبح کو اس کی منحوس صورت دیکھ لی جائے یا کہیں کام کو جاتے ہوئے یہ سامنے آجائے تو ضرور کچھ نہ کچھ وقت اور پریشانی اٹھانی پڑے گی اور چاہے کیسا ہی یقینی طور پر کام ہوجانے کا وثوق ہو لیکن ان کا خیال ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور رکاوٹ اور پریشانی ہوگی چنانچہ اُن لوگوں کو ان کے خیال کے مناسب بربار تجربہ ہوتا رہتا ہے اور وہ لوگ برابر اس امر کا خیال رکھتے ہیں کہ اگر کہیں جاتے ہوئے سامنی پڑگیا تو اپنے مکان کو واپس جاتے ہیں اور چندے توقف کرکے یہ معلوم کرکے وہ منحوس سامنے تو نہیں ہے جاتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ اور طرز عمل کیسا ہے؟ کوئی قباحتِ شرعیہ تو نہیں؟

 

 

الجواب : شرع مطہر میں اس کی کچھ اصل نہیں، لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے۔

شریعت میں حکم ہے: اذا تطیرتم فامضوا ۱؂۔ جب کوئی شگون بدگمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو،

( ۱ ؎فتح الباری کتاب الطب باب الطیرۃ مصطفٰی البابی مصر۱۲ /۳۲۳)

وہ طریقہ محض ہندوانہ ہے مسلمانوں کو ایسی جگہ چاہیے کہ : اللّھم لا طیر الا طیرک ولا خیرالا خیرک ولا الٰہ غیرک۲ ؎۔ اے اﷲ ! نہیں ہے کوئی برائی مگر تیری طرف سے اور نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے بغیر کوئی معبود نہیں۔(ت) پڑھ لے ، اور اپنے رب پر بھروسا کرکے اپنے کام کو چلا جائے ، ہر گز نہ رُکے نہ واپس آئے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

( ۲ ؎فتح الباری کتاب الطب باب الطیرۃ مصطفٰی البابی مصر ۱۲ /۳۲۳)
(کنزالعمال حدیث ۲۸۵۸۸ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۰ /۱۱۵)