سوال 1 : بندہ کب سفر شروع کرے تو اس پر روزہ رکھنا ضروری نہیں ہو گا ؟
سوال 2: اگر کوئی یہ سمجھ کر روزہ چھوڑ دے کہ سفر یا کسی اور وجہ سے روزہ اس پر فرض نہیں مگر روزہ اس پر فرض تھا تو کیا اس پر کفارہ واجب ہوتا ہے؟
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب بِعَونِ المَلِكِ الوَهَّابُ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي النُّورَ وَالصَّوَابُ۔
اگر کوئی شخص ساڑھے ستاون میل 2/571 ( تقریبا بانوے کلومیٹر ) سفر کا ارادہ کر کے اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی سے باہر نکل آیا ، وہ شرعاً مسافر ہے ایسا مسافر اگر روزہ نہ رکھے تو اس پر گناہ نہیں کیونکہ اسے خود اس کے رب ذوالجلال عزوجل نے رخصت عطا فرمائی ہے۔ جیسا کہ الله سبحانه و تعالی خود قرآن میں فرماتا ہے کہ
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(185)
ترجمه کنزالایمان
رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں۔ اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔
پارہ 2 سیقول رکوع نمبر 7۔ سورة نمبر 2 البقرہ آیت نمبر 186.
مگر جتنے روزے سفر کی وجہ سے چھوٹے بعد میں اسے وہ تمام رکھنے پڑیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ اُخَرْ۔ فرما کر خود اس کا حکم ارشاد فرما دیا۔
آج کا روزہ چھوڑنے کیلئے مسافر کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا سفر طلوع فجر سے پہلے [ یعنی سحری کے وقت شروع کرے۔ اگر وہ طلوع فجر کے بعد شروع کرتا ہے تو آج کا روزہ اس پر فرض ہے اگر نہیں رکھے گا تو گناہگار ہوگا۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب در مختار میں ہے کہ يَجِبُ عَلَی مُقِيدٍ إِثْمَامُ صَوْمِ رَمَضَانَ سَافَرَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ يعنى فَلَوْ سَافَرَ بَعْدَ الْفَجْرِ لَا يَحِلُّ الْفِطْرُ – مقیم پر آج کے رمضان کے روزے کو پورا کرنا واجب ہے اگر اس نے آج سفر شروع کیا یعنی اگر اس نے طلوع فجر کے بعد سفر شروع کیا تو اسے روزہ چھوڑنا جائز نہیں۔
در مختار مع رد المحتار باب ما يفسد الصوم فصل في العوارض ج ا ص ۱۵۴]اور سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیه رحمة الرحمن فتاوی رضویہ شریف میں ایک سوال کا جواب دیتے ہیں ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ مسافر کو جس دن کی صبح صادق مسافرت کے حال میں آئے اُس دن کے روزہ کا ناغہ کرنا اور پھر کبھی اس کی قضا رکھ لینا جائز ہے۔ فتاوی رضویه ج ۱۰ ص ۳۴۷] صبح صادق حالت سفر میں اسی صورت میں آئے گی جب سفر صبح صادق سے پہلے یعنی سحری یا اس سے پہلے شروع کیا ہوگا۔
[2] اگر کسی شخص کا سفر شرعی نہ تھا یا اس نے طلوع فجر کے بعد سفر شروع کیا اور رمضان کا روزہ چھوڑ دیا ایسا شخص گناہگار اور اس پر توبہ واجب اور بعد میں ایک روزہ قضا کا رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ اس نے اپنی جہالت کی وجہ سے فرض روزہ چھوڑا ہے۔ مگر اس پر کفارہ نہیں کیونکہ تارک صوم پر کفارہ واجب نہیں ہوتا ، کفارہ تو روزہ توڑنے والے پر واجب ہوتا ہے جب کفارے کی شرائط پائی جائیں۔
وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ وَرَسُولُهُ أَعْلَم عَزَّ وَجَلَّ وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم.
فتاوی یورپ برطانیہ ص 257