ی۔دینیات, باب الصلوۃ

سال یا چھہ ماہ بعد گھر واپس آنے والا قصر نماز پڑھے گا مکمّل

مسئله: ایک مدرس اپنے وطن سے تین دن کی راہ سے شہر میں گیا وہاں پر اس کے والدین رہتے ہیں خود بھی وہیں پر بڑھا اور پڑھا اور وہیں پر امامت اور مدرسی بھی کرنے لگا کبھی دوسرے دیہات یا شہروں میں چلا گیا اور وہاں امامت یا مدرسی کرنے لگا چھ ماہ یا ایک سال کے بعد جب واپس آیا جہاں پر والدین ہیں تو وہاں پر اس کو نماز قصر پڑھنا چاہیے یا نہیں ؟ جب کہ ایک ہفتہ رہنے کا خیال ہو۔
الجواب: بعون الملك العزيز الوهاب 

جہاں مدرس کے والدین رہتے ہیں اور وہ شہر اس کا وطن اصلی ہی ہے کہ اس کے گھر کے لوگ وہاں مستقل سکونت اختیار کرتے ہیں یعنی اس شہر میں قیام عارضی نہیں ہے تو وہاں پہونچ کر کسی صورت میں قصر نہیں کرے گا۔ اور وہ شہر اگر وطن اقامت ہے یعنی وہاں پر قیام عارضی ہے تو پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت کی صورت میں قصر کریگا بشرطیکہ مسافر ہو کر وہاں پہونچا ہو۔ 

سبحانہ تعالی اعلم
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:395  

 

مسئله:زید اپنے آبائی وطن سے ساٹھ میل کے فاصلہ پر برسر روزگار قیام پذیر ہے دوران سال ہفتہ یا پندرہ یوم کے لئے اپنے اعزاء و اقارب سے ملنے کی غرض سے وطن جاتا ہے ۔آیا زید پر قصر واجب ہے یا نہیں؟ بحوالہ کتب معتبرہ جواب مرحمت فرمائیں ۔ بینوا توجروا
الجواب :اگر زید اپنے آبائی وطن سے ساٹھ میل کے فاصلہ پر صرف تجارت کے لئے مقیم ہے کہ اس جگہ نہ اس کی ولادت ہوئی نہ وہاں اس نے شادی کی اور نہ اسے وطن بنایا یعنی یہ عزم نہیں کیا کہ اب یہیں رہوں گا اور یہاں کی سکونت نہ چھوڑوں گا بلکہ وہاں کا قیام صرف عارضی بر بنائے تعلق تجارت یا نوکری ہے تو وہ جگہ وطن اصلی نہ ہوئی بلکہ وطن اقامت ہے اگرچہ وہاں بعض یا کل اہل و عیال کو بھی لے جائے کہ بہر حال یہ قیام مستقل نہیں بلکہ ایک وجہ خاص سے ہے تو جب وہاں سفر سے ائے گا {یعنی جب بھی اس جگہ جہاں رھائش نوکری ہے وھاں آئے تو ہر بار آنے کہ بعد}جب تک 15 روز ٹھہرنے کی نیت نہ کریگا قصر ہی پڑھے گا اور جب وہاں سے اپنے ابائی وطن کے لیے سفر کرے گا تو وہ راستہ میں قصر کرے گا کہ 60 میل کا سفر کرے گا اور جب اپنے ابائی وطن میں پہنچ جائے گا تو قصر نہ کرے گا کے وطن اصلی ہے اور مسافر جب وطن اصلی میں پہنچ جاتا ہے تو سفر ختم ہو جاتا ہے اگر چہ اقامت کی نیت نہ ہو۔
در مختار میں ہے الوطن الاصلی موطن ولادتہ او تاهله او تؤطنه ۔
رد المحتار جلد اول ص 532میں ہے قوله او تاهله ای تزوجه و قوله او توطنه ای عزم على القرار فيه وعدم الارتحال وان لم یتاھل۔
اور فتاوی عالمگیری جلد اول مطبوعہ مصرص 133میں ہے وطن الاقامة يبطل بوطن الاقامة و بانشاء السفر و بالوطن الاصلي هكذا في التبیین اور اسی کتاب کے اسی صفحہ میں ہے اذا دخل المسافر مصرہ اتم الصلوة وان لم ينوى الاقامة فيه انتھی وهو تعالى اعلم
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:394

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *