ی۔دینیات, زکاۃ کا بیان

زکوۃ کا پیسہ مدرسہ اور دینی کاموں میں خرچ کرنے کا طریقہ

مسئلہ :اس قصبہ میں ایک مدرسہ اسکول کی شکل میں آج عرصہ دراز سے چلتا ہے جس میں حفظ و مولویانہ اور پرائمری اردو میڈیم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ پرائمری شعبہ میں قرآن کریم اور دینیات کی تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے۔شعبہ پرائمری کو گورنمنٹ سے معمولی ایڈ بھی ملتی ہے اور معمولی فیس بھی بچوں سے لی جاتی ہے اور کچھ معمولی طور پر امدادی چندا بھی آ جاتا ہے۔مگر یہ مذکورہ رقم سے مدرسین کی تنخواہ پوری نہیں ہو پاتی ہے ، جس کی بناء پر صدقہ فطر اور چرم قربانی وزكاة صدقہ کی رقم وصولی جاتی ہے۔ لہذا یہ رقم مدرسین و حافظ و مولوی صاحبان کی تنخواہ میں دی جا سکتی ہے یا نہیں۔؟
اور اس کےصرف کرنے کا کیا طریقہ ہے برائے کرم فقہ وحدیث کی روشنی میں جواب ارشاد فرما کر مطمئن فرمائیں؟
الجواب: چرم قربان مدرسہ میں وصول کرنے کے بعد مدرسین کی تنخواہ اور دارالاقامہ کی تعمیر پر صرف کیا جا سکتا ہے کہ اس کے لئے تملیک شرط نہیں لیکن زکاۃ و صدقہ فطر کو ان چیزوں میں صرف کرنا جائز نہیں فتاوی عالمگیری جلد اول مطبوعہ مصر ص176 میں ہے لا يجوز ان يبنى بالزكوة المسجد وكذا الحج وکل مالا تمليك فيه ولا يجوز ان يكفن بها ميت ولا يقضي بها دين الميت كذا في التبيين ملخصا۔ اگر مال زکاة ، صدقہ فطر اور دیگر صدقات واجبہ مدرسین کی تنخواہ اور دار الاقامہ وغیرہ کی تعمیر پر صرف کرنا چاہیں تو اس کی صورت یہ ہے کہ کسی غریب آدمی کو دیدیں پھر وہ صرف کرے تو ثواب دونوں کو ملے گا ھکذا فی رد المحتار
وهو تعالى اعلم
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:487 جلد 1 ۔