ی۔دینیات, زکاۃ کا بیان

زکوۃ فطرہ کی رقم کو مسجد و مدرسہ کی تعمیرات یا اخراجات میں لگانا ۔

مسئله : زکاۃ و فطرہ کی رقم کو براہ راست مدرسه کی تعمیر یا مدرسین کی تنخواہ میں صرف کیا جاسکتا ہے کہ نہیں.؟
اگر صرف کیا جاسکتا ہے تو کیوں.؟
اگر نہیں صرف کیا جا سکتا ہو تو کیوں؟.
اس کا جواب مدل و مفصل قرآن وحدیث کی روشنی میں چاہیے۔
الجواب: زکوٰۃ اور فطرہ کی رقم کو براہ راست مدرسه کی تعمیر یا مدرسین کی تنخواہ میں خرچ کرنا جائز نہیں اس لیے کہ زکوۃ اور فطره کی ادائیگی میں تملیک شرط ہے اور ان صورتوں میں تملیک نہیں پائی جاتی. فتاویٰ عالگیری جلد اول مصری ص176 میں ہے.
لا یجوز ان يبنى بالزكوٰة المسجد وكذا الحج وكل ما لا تمليك فيه كذا في التبین ملخصا. اور بہار شریعت حصہ پنجم ص۔ 58 میں در مختار وغیرہ سے ہے کہ بغیر تملیک زکوٰۃ ادا نہیں ہو سکتی پھر تحریر فرمایا کہ بہت سے لوگ مال زکوٰۃ اسلامی مدارس میں بھیج دیتے ہیں ان کو چاہیے کہ متولی مدرسہ کو اطلاع دیں کہ یہ مال زکوٰۃ ہے تاکہ متولی اس مال کو جدا رکھے اور مال میں نہ ملائے اور غریب طلبہ پر صرف کرے کسی کام کی اجرت میں نہ دے ورنہ زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ اور اسی بہار شریعت حصہ پنجم ص 64 میں رد المختار سے ہے۔ زکوٰة کا روپیہ مردہ کی تجہیز و تکفین مسجد کی تعمیر میں صرف نہیں کر سکتے کہ تملیک فقیر نہیں پائی گئی اور ان امور میں صرف کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ فقیر کو مالک کریں اور وہ صرف کرے ثواب دونوں کو ہوگا۔
وھو تعالیٰ اعلم
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:493 جلد 1