اسلام اور سائنس, فتاوی رضویہ, فلسفہ ،طبعیات ، سائنس، نجوم، منطق

زلزلہ آنے کی وجہ

مسئلہ ۲۵: از ضلع کھیری ڈاک خانہ مونڈا کوٹھی مجیب نگر مرسلہ سردار مجیب الرحمان خان ۲۶ صفر ۱۳۲۷ھ
جناب مولوی صاحب معظم مکرم منہل الطاف و کریم الاخلاق عمیم الاشفاق زاد مجدکم وفیوضکم۔ پس از تسلیم مسنون، نیاز مشحون و تمنائے لقائے شریف عرض خدمت والا ہے۔ نسبت زلزلہ مشہور ہے کہ زمین ایک شاخِ گاؤ پر ہے کہ وہ ایک مچھلی پر کھڑی رہتی ہے۔ جب اس کا سینگ تھک جاتا ہے تو دوسرے سینگ پر بدل کر رکھ لیتی ہے۔ اس سے جو جنبش و حرکت زمین کو ہوتی ہے اس کو زلزلہ کہتے ہیں۔ اس میں استفسار یہ ہے کہ سطح زمین ایک ہی ہے، اس حالت میں جنبش سب زمین کو ہونا چاہیے، زلزلہ سب جگہ یکساں آنا چاہیے ۔ گزارش یہ ہے کہ کسی جگہ کم ، کسی مقام پر زیادہ، کہیں بالکل نہیں آتا۔بہرحال جو کیفیت واقعی اور حالت صحیح ہو، اس سے معزز فرمائیے۔ بعید از کرم نہ ہوگا۔ زیادہ نیاز وادب۔
راقم آثم سردار مجیب رحمان خان عطیہ دار علاقہ مجیب نگر۔

الجواب : جناب گرامی دام مجدکم السامی ، وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ، زلزلہ کا سبب مذکورہ زبان زد عوام محض بے اصل ہے اور اس پر وہ اعتراض نظر بظاہر صحیح و صواب۔ اگرچہ اس سے جواب ممکن تھا کہ ہمارے نزدیک ترکیب اجسام جواہر فردہ سے ہے اور ان کا اتصال محال صدرا وغیرہ میں کاسہ لیسانِ فلاسفہ نے جس قدر دلائل ابطال جزء لایتجزی پر لکھے ہیں ان میں کسی سے ابطال نفس جز نہیں ہوتا۔ ہاں دو جز کا اتصال محال نکلتا ہے، یہ نہ ہمارے قول کے منافی نہ جسم کے اتصال حسی کا نافی، دیوار جسم و حدانی سمجھی جاتی ہے، حالانکہ وہ اجسام متفرقہ ہے، جسم انسان میں لاکھوں مسام مثبت افتراق ہیں اور ظاہر اتصال ، خوردبین سے دیکھنا بتاتا ہے کہ نظر جسے متصل گمان کرتی ہے کسی قدر منفصل ہے، پھر ان شیشوں کی اختلاف قوت بتارہی ہے کہ مسام کی باریکی کسی حد پر محدود نہیں ٹھہراسکتے جوشیشہ ہمارے پاس اقوٰی سے اقوٰی ہو اور اس سے بعض اجسام مثل آہن وغیرہ میں مسام اصل نظر نہ آئیں ممکن کہ اس سے زیادہ قوت والا شیشہ انہیں دکھادے۔ معہذا نظر آنے کے لیے دو خط شعاعی میں کہ بصر سے نکلے زاویہ ہونا ضرور۔ جب شے غایت صغر پر پہنچتی ہے دونوں خط باہم منطبق مظنون ہو کر زاویہ رویت معدوم ہوجاتا اور شے نظر نہیں آتی ہے یہی سبب ہے کہ کواکب ثابتہ کے لیے اختلاف منظر نہیں کہ بوجہ کثرتِ بعد وہاں نصف قطر زمین یعنی تقریباً چار ہزار میل کے طول و امتداد کی اصلاً قدر نہ رہی دونوں خطہ کہ مرکزِ ارض اور مقام ِ ناظر سے نکلے باہم ایک دوسرے پر منطبق معلوم ہوتے ہیں زاویہ نظر باقی نہیں رہتا تو مسام کا اس باریکی تک پہنچنا کچھ دشوارنہیں بلکہ ضرور ہے کہ کوئی قوی سے قوی خورد بین انہیں امتیاز نہ کرسکے اور سطح بظاہر متصل محسو س ہو، اور جب زمین اجزائے متفرقہ کا نام ہے تو اس حرکت کا اثر بعض اجرا ء کو پہنچنا بعض کو نہ پہنچنا مستبعد نہیں کہ اہل سنت کے نزدیک ہر چیز کا سبب اصلی محض ارادۃ اﷲ عزوجل ہے۔ جتنے اجزاء کے لیے ارادہ تحریک ہوا انہیں پر اثر واقع ہوتا ہے وبس۔ سواران دریا نے مشاہدہ کیا ہے کہ ایامِ طوفان میں جو بلاد شمالیہ میں حوالی تحویل سرطان یعنی جون جولائی اور بلاد جنوبیہ میں حوالی تحویل جدی یعنی دسمبر جنوری ہے۔ ایک جہاز ادھر سے جاتا ہے اور دوسرا ادھر سے آرہا ہے۔ دونوں مقابل ہو کر گزرے اس جہاز پر سخت طوفان ہے اور اسے بالکل اعتدال و اطمینان، حالانکہ باہم کچھ ایسا فصل نہیں۔ ایک وقت ایک پانی ایک ہوا اور اثر اس قدر مختلف، تو بات وہی ہے کہ ماشاء اللہ کان ومالم یشاء لم یکن جو خدا چاہتا ہے وہ ہوتا ہے اور جونہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ مگر اس جواب کی حاجت ہم کو اس وقت ہے کہ وہ بیان عوام شرع سے ثابت ہو، اس کے قریب قریب ثبوت صرف ابتدائے آفرنیش زمین کے وقت ہی جب تک پہاڑ پیدا نہ ہوئے تھے۔ عبدالرزاق و فریابی وسعید بن منصور اپنی اپنی سنن اور عبدبن حمید وابن جریر و ابن المنذر و ابن مردودیہ و ابن ابی حاتم اپنی تفاسیر اور ابو الشیخ کتاب العظمہ اور حاکم بافادہ تصحیح صحیح مستدرک اور بیھقی کتاب الاسماء اور خطیب تاریخ بغداد اور ضیائے مقدسی صحیح مختارہ میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی : ان اول شیئ خلق اﷲ القلم فقال لہ اکتب، فقال یارب ومااکتب؟ قال اکتب القدر فجری من ذلک الیوم ماھو کائن الی ان تقوم الساعۃ ثم طوی الکتاب وارتفع القلم وکان عرشہ علی الماء فارتفع بخار الماء ففتقت منہ السمٰوٰت ثم خلق النون فبسطت الارض علیہ والارض علی ظھر النون فاضطرب النون فمادت الارض فاثبتت بالجبال۔ ۱ ؎ فرمایا، اللہ عزوجل نے ان مخلوقات میں سب سے پہلے قلم پیدا کیا اور اس سے قیامت تک کے تمام مقادیر لکھوائے اور عرش ِ الہی پانی پر تھاپانی کے بخارات اٹھے ان سے آسمان جدا جدا بنائے گئے پھر مولٰی عزوجل نے مچھلی پیدا کی اس پر زمین بچھائی ، زمین پشت ِ ماہی پر ہے، مچھلی تڑپی ، زمین جھونکے لینے لگی۔ اس پر پہاڑ جما کر بوجھل کردی گئی۔

(الدر المنثور تحت آیت ۶۸/ ۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۸/ ۲۵۴)

کما قال تعالٰی والجبال اوتادا o ۔۲؂ جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا۔ اور پہاڑوں کو میخیں بنایا۔

( ۲ ؎ ۔ القرآن الکریم ۷۸/ ۷ )

، وقال تعالٰی والقی فی الارض رواسی ان تمید بکم ۱؂ اور اللہ تعالٰی نے فرمایا اور اس نے زمین میں لنگر ڈالے کہ کہیں تمہیں لے کر نہ کانپے۔(ت)

( ۱ ۔؎القرآن الکریم ۱۶ /۱۵ )

مگر یہ زلزلہ ساری زمین کو تھا۔ خاص خاص خاص مواضع میں زلزلہ آنا، دوسری جگہ نہ ہونا،اور جہاں ہونا وہاں بھی شدت و خفت میں مختلف ہونا، اس کا سبب وہ نہیں جو عوام بتاتے ہیں۔ سبب حقیقی تو وہی ارادۃ اﷲ ہے ، اور عالمِ اسباب میں باعث اصلی بندوں کے معاصی۔ مااصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفوعن کثیر، ۔۲؂ تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے تمہارے ہاتھوں کی کمائیوں کابدلہ ہے۔ اور بہت کچھ معاف فرمادیتا ہے۔(ت)

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۴۲ /۳۰ )

اور وجہ وقوع کوہ قاف کے ریشہ کی حرکت ہے۔ حق سبٰحنہ و تعالٰی نے تمام زمین کو محیط ایک پہاڑ پیدا کیا ہے جس کا نام قاف ہے۔ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں اس کے ریشے زمین میں نہ پھیلے ہوں ۔جس طرح پیڑ کی جڑ بالائے زمین تھوڑی سی جگہ میں ہوتی ہے اس کے ریشے زمین کے اندر اندر بہت دور تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں کہ اس کے لیے وجہ قرار ہوں اور آندھیوں میں گرنے سے روکیں۔ پھر پیڑ جس قدر بڑا ہوگا اتنی ہی زیادہ دور تک اس کے ریشے گھیریں گے۔ جبل قاف جس کا دور تمام کرہ زمین کو اپنے پیٹ میں لیے ہے اس کے ریشے ساری زمین میں اپنا جال بچھائے ہیں۔ کہیں اوپر ظاہر ہو کر پہاڑیاں ہوگئے کہیں سطح تک آکر تھم رہے جسے زمین سنگلاخ کہتے ہیں۔ کہیں زمین کے اندر ہے قریب یا بعید ایسے کہ پانی کی چوان سے بھی بہت نیچے ان مقامات میں زمین کا بالائی حصہ دور تک نرم مٹی رہتا ہے۔ جسے عربی میں سھل کہتے ہیں۔ ہمارے قرب کے عام بلاد ایسے ہی ہیں مگر اندر اندر قاف کے رگہ و ریشہ سے کوئی جگہ خالی نہیں جس جگہ زلزلہ کے لیے ارادہ الہی عزوجل ہوتا ہے۔ والعیاذ برحمتہ ثمہ برحمۃ رسولہ جل وعلا وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ( اللہ تعالی جل جلالہ کی پناہ اس کی رحمت کے ساتھ اور اس کے رسول اللہ َؐ کی رحمت کے ساتھ ۔ت) قاف کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے وہاں کے ریشے کو جنبش دیتا ہے۔ صرف وہین زلزلہ آئے گا جہاں کے ریشے کو حرکت دی گئی۔ پھر جہاں خفیف کا حکم ہے اس کے محاذی ریشہ کو آہستہ ہلاتا ہے اور جہاں شدید کا امر ہے وہاں بقوت، یہاں تک کہ بعض جگہ صرف ایک د ھکا سا لگ کر ختم ہوجاتا ہے۔ اور اسی وقت دوسرے قریب مقام کے درو دیوار جھونکے لیتے اور تیسری جگہ زمین پھٹ کر پانی نکل آتا ہے۔
یا عنف حرکت سے مادہ کبریتی مشتعل ہو کر شعلے نکلتے ہیں چیخوں کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ والعیاذ باللہ تعالٰی (اللہ تعالٰی کی پناہ، ت) زمین کے نیچے رطوبتوں میں حرارت شمس کے عمل سے بخارات سب جگہ پھیلے ہوئے ہیں اور بہت جگہ دُخانی مادہ ہے، جنبش کے سبب منافذِ زمین متسع ہو کر وہ بخار و دُخان نکلتے ہیں، طبیعات میں پاؤں تلے کی دیکھنے والے انہیں کے ارادہ خروج کو سبب زلزلہ سمجھنے لگے حالانکہ اُن کا خروج بھی سبب زلزلہ کا مسبب ہے۔

امام ابوبکر ابن ابی الدنیا کتاب العقوبات اور ابوالشیخ کتاب العظمہ میں حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: قال خلق اﷲ جبلا یقال لہ قاف محیط بالعالم وعرقہ الی الصخرۃ التی علیہا الارض، فاذاا راداﷲ ان یزلزل قریۃ امر ذلک الجبل ، فحرک العرق الذی یلی تلک القریۃ فیزلز لھا ویحرکھا فمن ثم تتحرک القریۃ دون القریۃ ۱؂ اﷲ عزوجل نے ایک پہاڑ پیدا کیا جس کا نام ق ہے، وہ تمام زمین کو محیط ہے اور اس کے ریشے اس چٹان تک پھیلے ہیں جس پر زمین ہے جب اللہ عزوجل کسی جگہ زلزلہ لانا چاہتا ہے اس پہاڑ کو حکم دیتا ہے وہ اپنے اس جگہ کے متصل ریشے کو لرزش و جنبش دیتا ہے۔ یہی باعث ہے کہ زلزلہ ایک بستی میں آتا ہے۔ دوسری میں نہیں۔

( ۱ ؎ الاسرار المرفوعۃ بحوالہ ابن ابی الدنیا وابی الشیخ حدیث ۱۲۲۹ دارالکتب العلمیہ بیروت ص ۳۲۱ )

حضرت مولوی معنوی قدس سرہ الشریف مثنوی شریف میں فرماتے ہیں ؎ (۱) رفت ذوالقرنین سوئے کوہ قاف دید کُہہ راکز زمرد بود صاف
(۲) گرد عالم گشتہ آں محیط ماند حیراں اندراں خلق بسیط
(۳) گفت تو کوہی دگرہا چیستند کہ بہ بیش عظیم تو بازایستند
(۴) گفت رگہائے من اندآں کو ہہا مثل من نبوند درحسن وبہا
(۵) من بہر شہرے رگے دارم نہاں برعروقم بستہ اطرافِ جہاں
(۶) حق چوخواہد زلزلہ شہرے مرا ام فرماید کہ جنباں عرق را
(۷) پس بجنبانم من آں رگ رابقہر کہ بداں رگ متصل گشت است شہر
(۸) چوں بگویدبس، شود ساکن رگم ساکنم وزروئے فعل اندر تگم
(۹) ہمچومرہم ساکن وبس کارکن چوں خرد ساکن وزوجنباں سجن
(۱۰) نزد آنکس کہ نداند عقلش ایں زلزلہ ہست ازبخارات زمیں
(۱۱) ایں بخارات زمیں نہ بود بداں زامرحق است وازاں کوہ گراں۔ ۱ ؎
(۱۲) مور کے بر کاغذے دیداوقلم گفت بامور دگر ایں راز ھم
(۱۳) کہ عجائب نقشہاآں کلک کرد ہمچو ریحان وچوسوسن زارو ورد
(۱۴) گفت آں موراصبع ست آں پیشہ ور دیں قلم در فعل فرع ست واثر
(۱۵) گفت آں مورسوم کزبازوست کا صبع لاغرنہ زورش نقش بست
(۱۶) ہمچنیں میرفت بالاتا بکے مہتر موراں فطن بوداند کے
(۱۷) گفت گز صورت مبینید ایں ہنر کہ بخواب ومرگ گرد د بے خبر
(۱۸) صورت آمد چوں لباس و چوں عصا جز بعقل وجاں نجنبد نقشہا۔ ۲؎ (۱) حضرت ذوالقرنین کوہ قاف کی طرف تشریف لے گئے، انہوں نے ایک پہاڑ دیکھا جو زمرد سے زیادہ صاف تھا۔
(۲)اس احاطہ کرنے والے نے تمام جہاں کے گرد حلقہ کیا ہوا تھا۔ اس وسیع مخلوق کو دیکھ کر آپ حیران رہ گئے۔
(۳)آپ نے فرمایا تو پہاڑ ہے دوسرے کیا ہیں کہ تیری بڑائی کے سامنے کھڑے ہوں۔
(۴) اس نے کہا کہ وہ دوسرے پہاڑ میری رگیں ہیں جو حسن اور قیمت میں میری مثل نہیں ہیں۔
(۵) ہر شہر میں میری رگ چھپی ہوئی ہے۔ دنیا کے کنارے میری رگوں پر بندھے ہوئے ہیں۔
(۶) جب اللہ تعالٰی کسی شہر میں زلزلہ لانا چاہتا ہے تو مجھے حکم دیتا ہے کہ رگ کو ہلادے۔
(۷) میں زور سے اس رگ کو ہلا دیتا ہوں جس رگ سے وہ شہر ملا ہوا ہوتا ہے۔
(۸) جب وہ فرماتا ہے کہ بس، تو میری رگ ساکن ہوجاتی ہے، مییں بظاہر ساکن ہوں مگر حقیقت میں متحرک ہوں۔
(۹) جیسے کہ مرہم ساکن اور بہت کام کرنے والی ہے۔ جـیسے عقل ساکن ہے اور اس کی وجہ سے بات متحرک ہے۔
(۱۰) جس کی عقل اس کو نہیں سمجھتی اس کے نزدیک زلزلہ زمین کے بخارات کی وجہ سے۔
(۱۱) سمجھ لے کہ یہ زمین کے بخارات نہیں ہیں اللہ تعالٰی کے حکم اور اس بھاری پہاڑ کی وجہ سے ہے۔
(۱۲) ایک چھوٹی سی چیونٹی نے کاغذ پر قلم کو دیکھا۔ تو اس نے دوسری چیونٹی سے بھی یہ راز کہہ دیا۔
(۱۳) کہ اس قلم نے عجیب نقشے کھینچے ہیں، جیسے نازبو، سوسن کا کھیت اور گلاب کا پھول ۔
(۱۴) اس چیونٹی نے کہا اصل میں یہ سارا کام کرنے والی انگلی ہے۔ یہ قلم تو عمل میں اس انگلی کے تابع ہے اور اس کا اثر ہے۔
(۱۵) تیسری چیونٹی نے کہا کہ وہ بازو کی وجہ سے ہے کیونکہ کمزور انگلی نے اپنی طاقت سے یہ نقش و نگار نہیں کیا ہے۔
(۱۶) بات اسی طرح اوپر چلتی گئی۔ یہاں تک کہ چیونٹیوں کی ایک سردار جو کچھ سمجھدار تھی۔
(۱۷) اس نے کہا اس کو جسم کا ہنر مت سمجھو کیونکہ وہ تو نیند اور موت میں بے خبر ہوجاتا ہے۔
(۱۸) جسم تو لباس اور لاٹھی کی طرح ہے۔ عقل اور جان کے بغیر یہ نقش نہیں بن سکتے ہیں۔(ت)

( ۱ ؎ مثنوی معنوی دفتر چہارم رفتن ذوالقرنین بکوہ قاف، مؤسسۃ انتشارات اسلامی لاہور ۴/ ۵۱۔ ۳۵۰)
( ۲ ؎ مثنوی معنوی دفتر چہارم بیان آنکہ مور کے برکاغذ می رفت الخ ، مؤسسۃ انتشارات اسلامی لاہور، ۴/ ۳۵۲ )

بحرالعلوم قدس سرہ فرماتے ہیں: ایں ردست برفلا سفہ کہ میگویند بخارات در زمین محسوس مے شوند بالطبع میل خروج کنند واز مصادمت ایں ابخرہ تفرق اتصال اجزائے زمین مے شودو زمین درحرکت می آید و اینست زلزلہ، پس مولوی قدس سرہ ردایں قول می فرمایند کہ قیام زمین از کو ہہا ست ورنہ در حرکت میماند ہمیشہ پس آں کو ہ جنبش مے دہد زمین را بامرا ﷲ تعالٰی۔ یہ فلاسفہ پررد ہے جو کہتے ہیں کہ بخارات زمین میں محسوس ہوتے ہیں اور طبعی طور پر خروج کی طرف میلان کرتے ہیں ۔ چنانچہ ان بخارات کے ٹکڑاؤ کی وجہ سے زمین کے اجزائے متصلہ میں تفرق پیدا ہوتا ہے اور زمین حرکت کرنے لگتی ہے اور یہی زلزلہ ہے۔ چنانچہ مولوی قدس سرہ اس قول کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ زمین کا قیام تو پہاڑوں کے سبب ہے ورنہ یہ مسلسل حرکت کرتی رہتی۔ لہذا وہ پہاڑ اللہ تعالٰی کے حکم سے زمین کو حرکت دیتا ہے۔(ت)

چیونٹیوں کی حکایت سے بھی ان سفہاءکی تنگ نظری کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ جس طرح قلم کی حرکت انگلیوں سے انگلیوں کی قوت بازو سے بازو کی طاقت جان سے ہے تو نقش کہ قلم سے بنتے ہیں جان بناتی ہے مگر احمق چیونٹیاں اپنی اپنی رسائی کے موافق ان کا فاعل قلم انگلیوں بازو کو سمجھیں، یوں ہی ارادۃ اللہ سے کوہ قاف کی تحریک ہے اس کی تحریک سے بخارات کا نکلنا زمین کا ہلنا ہے۔ یہ احمق چیونٹیاں جنہیں فلسفی یا طبیعی والے کہئے صدمہ بخارات کو سبصبِ زلزلہ سمجھ لیجئے) بلکہ نظر کیجئے تو یہ ان چیونٹیوں سے زیادہ کودن و بدعقل ہیں۔ انہوں نے سبب ظاہر ی کو سبب سمجھا۔ انہوں نے سبب کے دو مسببوں سے ایک کو دوسرے کا سبب ٹھہرایا۔ وباﷲ العصمۃ واﷲ سبحنہ وتعالی اعلم ( حفاظت اﷲ تعالٰی ہی کی طرف سے ہے اور اﷲ سبحانہ و تعالٰی خوب جانتا ہے۔ت)