ہم روزانہ اپنی زندگی میں غیرارادی طور پر ہپناٹزم کی سجیشن کا استعمال کرتے ہیں مگر ہمیں اس سجیشن کی نوعیت کا علم نہیں ہوتا۔اسی طرح ہم خود لوگوں کے ہپناٹزم کا شکار ہوتے ہیں اور ایسی چیزیں خریدنے کے لئے مجبور کیے جاتے ہیں جن کی ہمیں ضرورت نہیں ہوتی۔اسی طرح اپنے گھر میں اپنے بچوں پر ہپناٹزم استعمال کرکے ان کو غلط راہوں پر گامزن کرنے کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہم کس طرح دوسروں پر ہپناٹزم کا استعمال کرتے ہیں۔سب سے پہلے ہم اپنے بچپن کی طرف لوٹتے ہیں۔ کیا آپ کسی مخصوص چیز سے خوف کھاتے ہیں؟یقینی طور پر کوئی نہ کوئی چیز ایسی ہو گی جس سے آپ ڈرتے ہیں مگر اور کوئی نہیں ڈرتا یا پھر دوسرا کوئی ڈرتا ہے مگر آپ نہیں ڈرتے۔ اس کی ابتدا ہمارے والدین بچپن میں ہم پر ہپناٹزم کے ذریعے کرتے ہیں مثلاً اکثر لوگوں کو آپ نے پانچ سات منزلہ اونچائی پر کھڑے ہو کر عمارت پر سے نیچے جھانکنے سے خوف زدہ ہوتے دیکھا ہوگا۔آخر جب وہ نیچے دیکھتے ہیں تو ان کے رونگٹے کیوں کھڑے ہو جاتے ہیں۔وہ دیوار یا کسی ستون کو زور سے کیوں پکڑ لیتے ہیں۔اس لئے کہ ان کے والدین ان کو بچپن سے یہ سجیشن دیتے رہے ہیں:
“بیٹا۔کھڑکی سے مت جھانکو اگر جاؤ گے۔”بیٹا بالکونی میں مت کھڑے ہو گرجاؤ گے۔”بیٹا چارپائی پر مت پڑھو گر جاؤ گے۔”کرسی پر نہ بیٹھوگر جاؤ گے۔”یہ مسلسل تکرار بچوں کے ذہن میں آہستہ آہستہ پختہ ہوتی چلی جاتی ہے جو جوانی میں انہیں بلندی سے خوف زدہ رکھتی ہے۔ یہاں تک وہ تیز رفتاری گاڑی یا ہچکولے کھانے والی کسی سواری سے بھی خوف زدہ رہتا ہے حالانکہ نہ اس نے کسی کو بلندی سے گرتے دیکھا ہے اور نہ ہی تیز رفتار گاڑی کا حادثہ کبھی اس کی آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ بچپن کی یہ سجیشن عموماً اتنا پست ہمت بنا دیتی ہے کہ آدمی بزدل ہو کر رہ جاتا ہے۔ آخر آپ میں اور قبائلیوں میں کیا فرق ہے؟ قبائلی گولیوں کی باڑھ میں ڈٹے رہتے ہیں۔اگر گولی لگ جائے تو کبھی حواس باختہ نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ ان کے والدین بچپن سے ان کو ایسی سجیشن دیتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے گولیوں کا خوف ان کے ذہن سے یکسر نکل جاتا ہے۔ بزدلی اور جواں مردی کسی جانور کا نام نہیں بلکہ یہ بچپن کے ہپناٹزم کا نام ہے جو والدین اپنے بچوں پر مسلسل استعمال کرتے ہیں۔ ممکن ہے آپ پوچھیں کہ اگر بچپن کی تعلیم اور سجیشن اتنی مفید ثابت ہوتی ہے تو پھر اکثر والدین کو یہ شکایت کیوں ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا ویسا نہیں نکلا جیسا وہ بنانا چاہتے تھے۔یعنی ایک ڈاکٹر باپ کا ایک بیٹا تو ڈاکٹر بن جاتا ہے لیکن دوسرا بیٹا ڈاکٹری کے بالکل خلاف ہوتا ہے حالانکہ باپ اس کو بھی ڈاکٹر بناناچاہتا ہے۔اس کی دو وجوہ ہو سکتی ہیں(1) باپ کی سجیشن میں کمزوری(2) کوئی ایسا واقعہ جو اس بچے کو طبی تعلیم سے متنفر کرنے میں مؤثر ثابت ہوا ہو۔ سجیشن کمزور کیسے ہو سکتی ہے اس کی عام سی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ آپ سگریٹ پیتے ہیں مگر اپنے بچوں کو سگریٹ نہ پینے کی ہدایت کرتے ہیں۔اس قسم کی سجیشن بالکل بے کار ہوتی ہے جو خود آپ کے عمل کو جھٹلا رہی ہو۔مجھے بچپن میں پڑھی ہوئی ایک کہانی یاد آگئی۔نہ جانے آج کل بھی یہ کہانی پڑھائی جاتی ہے یا نہیں۔یہ کہانی سجیشن کی کمزوری کو بڑی خوبی سے بیان کرتی ہے۔ وہ کہانی یوں ہے (جہاں تک مجھے یاد ہے) کہ ایک تاجر کا بیٹا گڑ بہت کھایا کرتا تھا اور اس کی یہ عادت والدین اس سےچھڑوانا چاہتے تھے چنانچہ وہ اسے ایک سادھو کے پاس لے گئے۔ سادھو نے دوسرے دن بلوایا اور کہا بیٹا گڑ نہ کھایا کرو یہ بری چیز ہے۔ بچے نے گڑ کھانا چھوڑ دیا۔ والدین بڑے حیران تھے کہ اتنی سی بات کے لئے سادھو نے انہیں دوسرے دن کیوں طلب کیا۔ پوچھنے پر سادھو نے بتایا کہ کل میں نے خود گڑ کھایا تھا۔ بھلا میں بچے کو وہی بات نہ کرنے کی ہدایت کس طرح کر سکتا تھا جس پر میں خود عمل کر رہا تھا۔ لہٰذا سجیشن کی کمزوری کی ابتدا ہی اس طرح ہوتی ہے۔ ممکن ہے اس بچے کو ڈاکٹر باپ نے بعض اوقات ڈاکٹری تعلیم حاصل کرنے کی ہدایت اس وقت دی ہو، جب وہ خود بھی اس سے بیزار ہوں اور یقین مانئے کہ ڈاکٹر کی زندگی میں دن بھر میں کئی لمحے ایسے ضرور آتے ہیں کہ وہ اپنے پیشے سے بے انتہا اکتا جاتا ہے۔اب رہا کوئی دوسرا واقعہ تو ایسے سینکڑوں واقعات ہو سکتے ہیں جن سے بچہ کسی خاص پیشے یا تعلیم سے منتفر ہو جاتا ہے ممکن ہے اس کو چیر پھاڑ سے نفرت ہو جائے۔ ممکن ہے
اس نے کسی مریض کو باپ کے خلاف منفی بحث کرتے سنا ہو اور ممکن ہے گھر سے باہر اس نے اپنی زندگی کے لئے مستقبل کا کوئی آئیڈیل بنا لیا ہو۔یادرکھیے ، جب کوئی ہوش مند بچہ زندگی کا کوئی آئیڈیل بنا لیتا ہے تو پھر عموما والدین کی مسلسل تکرار تھی اس کے خلاف ہی کام کرتی ہے کیونکہ پھر وہ اپنے اندر اس سجیشن کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر لیتا ہے میں نے پچھلے صفحات میں لکھا ہے کہ جب کسی کے اندر قوت مدافعت موجود ہو تو اسے ہپناٹائز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کسی بچے کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے بہت ضروری ہے کہ اس کو سجیشن کے لئے تیار کیا جائے۔ اس کے آئیڈیل کو بڑے سلیقے سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے کئی نوجوانوں کو سنا ہو گا کہ وہ انجینئر بناناچاہتے تھے مگر باپ نے ان کو وکیل بنا ڈالا۔ایسے بچے کبھی اچھے وکیل ثابت نہیں ہوں گے جن کو ان کے خلاف مرضی پڑھایا گیا ہو۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہماری زندگی کا تمام مستقبل بچپن کی سجیشن پر تعمیر ہوتا ہے۔اگر ہم بچے کو صحت مند سجیشن دیں گے تو اس کی آئندہ زندگی بھی صحت مند ہو گی۔ہم بچے کو کمزور بزدل اور جواں مرد چور اور شرابی بھی خود بناتے ہیں۔ سجیشن کا یہ مطلب نہیں کہ دن رات آپ بچے کو لیکچر پلاتے رہیں کہ تم وکیل بنو گے اچھی طرح پڑھو تمہیں وکیل بننا ہے۔ وکالت بڑا اچھا پیشہ ہے۔ وغیرہ وغیرہ نہیں بلکہ سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم بچے کو اپنی خود اعتمادی اور صدق دل سے اس قابل بنائیں کہ اس کو ہم پر اعتماد ہو جائے۔وہ آپ کو اپنا دوست سمجھ کر آپ سے مشورہ کا طالب ہو نہ کہ آپ کو ایک جابر اور ہٹ دھرم باپ تصور کر کے آپ سے خوف زدہ رہتا ہو اور یہ سوچتا ہو کہ آپ صرف اپنے مطلب کی بات کہتے ہیں،اس کے دل کی کوئی بات نہیں کرتے۔اس کے بعد بچے کے رجحان کا بغور مطالعہ کریں۔ اگر اس کے اندر آرٹسٹ بننے کی صلاحیت ہے تو آپ اس کی-اس صلاحیت کو اجاگر کریں۔آپ اس کی صلاحیت کو دبا کر اسے ایک کامیاب ڈاکٹریا وکیل نہیں بنا سکتے۔ممکن ہے وہ آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر آپ کی مسلسل سجیشن کے زیر اثر ڈاکٹریا وکیل بن جائے مگر زندگی بھر کامیاب وکیل یا ڈاکٹر نہ بن سکے گا۔ زندگی کا مقصد صرف یہ نہیں کہ کسی پیشے کے ذریعے صرف روٹی کا انتظام کیا جائے روٹی تو بہت سے ذریعوں سے کمائی جاسکتی ہے لیکن جب تک انسان کا ضمیر اور دماغ کسی پیشے میں جاذبیت محسوس کرکے مطمئن نہ ہو گا اس وقت تک اس کا پیشہ اس کے لئےمصیبت بن کر اس کی زندگی تلخ بناتا رہے گا۔ غلط قسم کا پیشہ اختیار کرنے والے لوگ عموما اعصابی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور فرار کے لئے نئی نئی راہوں کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اختلاج قلب اور نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک صاحب مجھ سے ملے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بہت غیر مستقل مزاج ہیں۔ کسی کام کو دو ماہ سے زیادہ عرصے تک نہیں کر سکتے۔ بار بار نوکریاں بدلتے ہیں۔ مختلف پیشے اختیار کرتے ہیں مگر چند ہی دنوں بعد خاصا منافع کمانے کے باوجود چھوڑ دیتے ہیں۔شادی کے سلسلے میں بھی یہی کیفیت ہے۔ شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن لڑکی کا انتخاب نہیں کر سکتے۔ کسی ایک لڑکی کے ساتھ چند دن گزار کر پھر اس سے علیحدہ ہو جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اس طرح ان کی زندگی ایک مسلسل سفر بنی ہوئی ہے جس کی کوئی منزل کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔آپ کی زندگی میں بھی کئی ایسے لوگ آئے ہوں گے۔دراصل یہ لوگ وہ تباہ حال بگڑے ہوئے بچے ہوتے ہیں جو بچپن میں ایک آئیڈیل تو بنا لیتے ہیں مگر والدین کی مجبوریوں کی بنا پر اس کو پانہیں سکتے اور آہستہ آہستہ وہ خود بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کا آئیڈیل کیا تھا اور ادھر ادھر بھٹکتے رہتےہیں۔کیا ان کی زندگی قابل رحم نہیں؟لہذا ہم تنویمی AUTO SUGGESTION ہدایت کا استعمال بچوں پر مختصر اور بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم نے اس کا اسلوب سیکھ لیا ہو۔اس طرح آپ اپنے آپ پر AUTO SUGGESTION کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔ خود اپنی سجیشن کےذریعےاپنے کردار کو بھی بدل سکتے ہیں۔ضروری نہیں کہ اپنے آپ کو ہپنا ٹائز ہی کریں صرف سجیشن کے ذریعے ہی کافی تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں۔یہ بات تو آپ کو معلوم ہو چکی ہے کہ سجیشن کس طرح ہمارے ذہن پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس سجیشن کو آپ اپنے حسب حال موثر بنائیں۔ اس کا بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ آپ ہر روز سونے سے پہلے اپنے آپ کومسلسل سجیشن دیں مگر یہ سجیشن محض الفاظ میں نہ ہو بلکہ آپ اپنا دماغ اور اپنے تمام قوی کو استعمال کریں۔ کوشش کریں کہ دوران سجییشن کسی قسم کی مداخلت نہ ہونے پائےاگر سجیشن لیتے لیتے سو جائیں تو زیادہ مناسب ہے۔مثلاً اگر آپ کسی چیز سے خوف کھاتے ہیں تو آپ روزانہ رات کو سوتے وقت مندرجہ ذیل سجیشن دیں میں اس چیز سے خوف نہیں کھاؤں گا۔اس میں کوئی بات ڈرنے کی نہیں۔میں خوف نہیں کھاؤں گا۔میں ہرگز ہرگز خوف زدہ نہیں ہوں گا۔ “اس طرح مسلسل سجیشن لیتے رہیں پوری یکسوئی اور اعتماد کے ساتھ ۔ دو چار روز میں ہی دیکھیں گے کہ آپ کے اندرتبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔بعض لوگ صبح سویرے اٹھتے ہی اپنے آپ کو مضمحل اور پثر مردہ محسوس کرتے ہیں اوریہ احساس تمام دن ان کے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بات میں خوشی محسوس نہیں کرتے۔ مذاق کا بھی برا مان لیتے ہیں۔ کاروبار میں چڑچڑاپن اور غصہ موجود رہتا ہے۔دنیا سے اکتا دینے والا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے(یہ ابتدا ہے ذہنی فرار کی جس کے بعد ہی علالتوں کا دور شروع ہوتا ہے)اس قسم کے اضمحلال کا علاج خود سجیشن سےکرنا چاہئے۔ رات کو سوتے وقت خود کو سجیشن دیں کہ میں صبح کو تازہ دم اٹھوں گا۔میں بہت مسرور ہوں گا۔خواہ کچھ بھی ہو، مطمئن اور خوش رہوں گا یہ سجیشن مسلسل دیتے رہیں تاوقتیکہ نیند نہ آجائے۔اسی طرح صبح اٹھتے ہی خود سے کہیں کتنا اچھا دن ہے میں کتنا خوش ہوں” پثر مردگی اور افسردگی کا کوئی فقرہ ہرگز استعمال نہ کریں۔ دو تین دن میں دیکھیں گے کہ آپ کے اندر کتنا بڑا تغیر نمودار ہوا ہے۔ آپ کا تمام دن مسرت سےگزرے گا۔ جو کام بھی آپ کریں گے اس میں خوشی اور مسرت محسوس کریں گے۔ نا کامی کاخندہ پیشانی سے مقابلہ کر سکیں گے۔
بہتر اور مسرت آمیز سجیشن دینا اپنا معمول بنالیں۔ عادت پڑ جانے پر آپ خود بخود ہرروز اس کا استعمال کرنا شروع کردیں گے اور پھر آپ کی زندگی ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گی ایک فرحت بخش اور کامیاب دور۔
ختم شد۔