مسئلہ۔ میں انگلینڈ میں ایسے شہر میں رہتا ہوں جہاں کوئی سنی مسلمان ڈاکٹر موجود نہیں ہے تو بیماری کا ایسا عذر کیسے ثابت ہوگا جس میں روزہ معاف ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم ڈاکٹر میری بیماری کی وجہ سے مجھے کہتا ہے کہ میں روزہ نہ رکھوں؟
تو کیا اس کا کہنا شریعت میں قبول ھے۔؟
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب بِعَونِ المَلِكِ الوَهَّابُ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي النُّورَ وَالصَّوَابُ
کافر یا بدمذہب یا فاسق ڈاکٹروں کا قول شریعت میں قبول نہیں ہے اور نہ ہی ان کے کہنے سے رمضان کا فرض روزہ چھوڑا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ شامی ہے : أَمَّا الْكَافِرُ فَلَا يُعْتَمَدُ عَلَى قَوْلِهِ لِاحْتِمَالِ أَنَّ غَرَضَهُ إِفْسَادُالْعِبَادَةِ. رد المختار کتاب الصوم فصل فی العوارض جلد تین صفحہ 464۔ اور آپ کے ملک میں سنی مسلمان حاذق ڈاکٹر ڈھونڈنا بھی مشکل ہے۔ لہذا ایسی صورت حال میں روزہ چھوڑنے کی رخصت کے عذر کے ثبوت کے لیے خود کا تجربہ بھی کافی ہے کیونکہ جس طرح ایک مسلمان غیر فاسق حاذق ڈاکٹر کے کہنے سے روزہ چھوڑنے کے عذر کا ثبوت ہوتا ہے اسی طرح اپنے ماضی کے تجربہ سے بھی عذر کا ثبوت ہو جاتا ہے یعنی ماضی میں اس بیماری میں روزہ رکھا تھا تو مرض بڑھ گیا تھا یا شدید تکلیف ہوگئی تھی اس بیماری کے دوبارہ ہونے سے روزہ چھوڑ سکتا ہے اور اگر ماضی کا کوئی تجربہ نہ ہو تو اب تجربہ کر لیجئے کہ اگر روزہ رکھنے میں مرض بڑھتا ہے یا شدی ناقابل برداشت تکلیف ہوتی ہے تو نہ رکھیں۔اور اگر مرض ایک ہی ہو تو کسی کے تجربہ سے بھی روزہ چھوڑنے کی اجازت ہو جائے گی مثلاً زید کو ایک مرض ہوا اور اس نے اس مرض میں روزہ رکھا جس سے مرض بڑھ گیا اور اب بکر کو بھی وہی مرض ہوا لہذا زید کے تجربے سے بھی بکر کے لیے روزہ نہ رکھنے کی رخصت ثابت ہو جائے گی۔ جیسا کہ شامی میں ہے ۔ تَجْرِبَةٍ وَلَوْ كَانَتْ مِنْ غَيْرِ الْمَرِيضِ عِنْدَ اتحَادِ الْمَرَضِ اس کا اپنا تجربہ ہو یا مرض کے ایک ہونے سے صورت میں کسی غیر کا تجربہ ہو (رد المحتار”، كتاب الصوم، فصل في العوارض، ج ۳، ص ۴۶۴)
اور مرض کے ٹھیک ہونے پر ان روزوں کے قضا کرنا بھی ضروری ہے لہذا مرض ٹھیک ہونے پر ان کی قضا کر لیجیے یا سردیوں کے موسم میں جب انگلینڈ میں دن نہایت چھوٹا ہو جاتا ہے اور سردی کی وجہ سے زیادہ بھوک یا پیاس بھی زیادہ محسوس نہیں ہوتی تو ان ایام میں روزوں کی قضا کر لی جائے ۔ کیونکہ اللہ عز وجل معذور لوگوں کو رمضان کےعلاوہ دوسرے ایام میں روزوں کی قضا کرنے کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے۔
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(185)
ترجمه کنزالایمان
رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں۔ اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو.
: پارہ نمبر 2 سیقول سورۃ البقرہ سورۃ نمبر 2 ایت نمبر 185۔
اور اگر روزہ رکھنے سے مرض میں اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسی شدید پیاس لگتی ہے جو برداشت سے باہر ہو تو آپ پر رمضان کا روزہ رکھنا فرض ہے اور ویسے بھی روزہ صحت کا ضامن ہے۔ جیسا کہ نبی کریم علیہ سلم نے ارشاد فرمایا کہ صُومُوا تَصِحُّوا یعنی روزہ رکھو صحتیاب ہو جاؤ گے۔
(در منثور ج ا ص ۴۴۰)
والله تَعَالَى أَعْلَمُ وَرَسُولُهُ أَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم
فتاوی یورپ و برطانیہ ص 244