علم الحدیث, علم و تعلیم, فتاوی رضویہ

روایت حدیث کے مختلف انداز

مسئلہ ۸ و ۹ : مرسلہ حکیم عبدالشکور صاحب از ڈاکخانہ رتسٹر ضلع بلیا ۲ ربیع الاخر ۱۳۳۵ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین سوالات مندرجہ ذیل میں :
(۱) زید کہتا ہے کہ اس پر ائمہ مجتہدین و علمائے کاملین و حضراتِ محدثین کا اتفاق ہوچکا ہے کہ ان صحاح ستّہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک کے ارشاد فرمائے ہوئے کلمات بعینہ اُس حدیث میں موجود نہیں بلکہ صحابہ نے معنٰی مرادی ہی کو اختیار فرما کر اس پر حدیث کا حکم دے دیا ہے۔ زید کا یہ قول صحیح ہے یا غلط ؟ اور ایسے شخص پر آپ کا کیا فتوٰی ہے۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ لفظی کو رد کرتا ہے؟ (۲) ” حدیث اوّل ما خلق اللہ نوری ۱؎ واول ماخلق اللہ العقل ۲؎ واوّل ما خلق اللہ القلم ۳ ؎ واوّل ما خلق اللہ العرش۔ ۴؎ سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے جس چیز کو پیدا فرمایا وہ میرا نور ہے ، اور سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے جس چیز کو پیدا فرمایا وہ عقل ہے۔اور سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے جس چیز کو پیدا فرمایا وہ قلم ہے۔ اور سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے جس چیز کو پیدا فرمایا وہ عرش ہے۔(ت)

( ۱ ؎ المواہب اللدنیہ اول المخلوقات المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۷۴ )
( ۲ ؎ اتحاف السادۃ المتقین کتاب العلم باب شرف العقل دارالفکر بیروت ۱/ ۴۵۳ )
( ۳ ؎ المستدرک للحاکم کتاب التفسیر سورہ الجاثیہ دارالفکر بیروت ۲/ ۴۵۴ )
( ۴ ؎ مرقاۃ المفاتیح کتاب الایمان باب الایمان بالقدر الفصل الثانی المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۱/ ۲۹۱ )

یہ چار حدیثیں ہیں ان میں سے کون صحیح ہے اور کون موضوع ؟ زید کہتا ہے کہ حدیث اول ما خلق اللہ نوری بالمعنی صحیح ہے۔ اگرچہ اس کے الفاظ کتابوں میں مذکور نہیں۔ اب علماء سے سوال یہ ہے کہ جس حدیث کے الفاظ کتب احادیث میں مذکور نہیں اس کو موضوع کہیں گے یا نہیں؟ اور اس کے مرادف کون حدیث ہے جس کے اعتبار سے کہا جائے کہ یہ حدیث بالمعنٰی صحیح ہے اور حدیث کے موضوع ہونے کے لیے کیا شرط ہے، الفاظ اور معنی دونوں یا صرف الفاظ معنی نہیں؟ جواب مفصل فرمائیے مع حوالہ کتب بینوا توجروا۔

الجواب : (۱) روایت حدیث کے دونوں طریقے ہیں۔ روایت باللفظ و روایت بالمعنٰی ، خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحدیث بالمعنی کی اجازت فرمائی ہے ‘ قرآن عظیم کے نظم کریم و حکم عظیم دونوں کے ساتھ تعبّد ہے اس میں نقل بالمعنی جائز نہیں حدیث کے حکم کے ساتھ تعبّد ہے جو الفاظِ کریمہ جو امع الکلم سے ارشاد ہوئے ہیں وہ بعینہا منقول ہیں اور باقی میں لفظ پر اقتصار موجب ضیق و عسر تھا۔ اور اللہ عزوجل فرماتا ہے۔ ” ماجعل علیکم فی الدین من حرج ۱ ؎ ۔ تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔

(القرآن الکریم ۲۲/ ۷۸ )

اور وہ یقینا حدیث ہے اُسے یہ کہنا کہ صحابہ نے اس پر حدیث کا حکم دے دیا ہی ایک بہت براپہلو رکھتا ہے، بادشاہ فرمائے زید سے کہو کہ ابھی آئے اس پر حکم پہنچانے والا زید سے جا کر کہے کہ ظل سبحانی نے فرمایا ہے۔ فوراً حاضر ہو، تو بے شک اس نے بادشاہ ہی کا حکم پہنچایا اور بادشاہ ہی کی بات نقل کی ۔

(۲) عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔ یاجابران اللہ تعالٰی قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ۲ ؎ اے جابر ! بے شک اللہ تعالٰی نے تمام عالم سے پہلے تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا کیا۔

( ۲ ؎ المواہب اللدنیہ اول المخلوقات المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۷۱ )

یہ اس معنٰی میں نص صریح ہے اور قلم و عقل کے بارے میں بھی احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن میں سے احادیث عقل غایت درجہ ضعف میں ہیں۔ حدیث کے جب معنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسلم سے ثابت اور صحیح ہیں تو اسے موضوع نہیں کہہ سکتے ورنہ صحیحین کی صدہا حدیثیں معاذ اللہ موضوع ہوجائیں گی۔ ہاں اگر کوئی یہ دعوٰی کرے کہ یہی الفاظ بعینہا زبان اقدس سے صادر ہوئے ہیں، اور اس کا ثبوت نہ ہو تو وہ سخت خاطی ہے اور اگر دانستہ کہے تو۔ ” من کذب علیّ متعمد افلیتبوأ مقعدہ من النار ” ۱ ؎ جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔(ت) میں داخل ۔ واللہ تعالٰی اعلم

( ۱ ؎ صحیح البخاری کتاب العلم باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قدیمی کتاب خانہ کراچی ۱/ ۲۱ )
(صحیح مسلم مقدمۃ الکتاب باب تغلیظ الکذب علٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۷)