روزہ کا بیان

رمضان کے مہینہ میں جب اذان شروع ہو تو روزہ افطار کریں یا اذان کے بعد ؟

مسئلہ:رمضان کے مہینہ میں جب اذان شروع ہو تو روزہ افطار کریں یا اذان کے بعد ؟
الجواب :سورج ڈوبنے کے بعد بلا تاخیر فورا افطار کریں اذان کا انتظار نہ کریں اور جو لوگ اذان سے غروب آفتاب پر مطلع ہوتے ہیں انھیں چاہئیے کہ اذان ہوتے ہی فورا افطار کریں ختم اذان تک افطار کو مؤخر نہ کریں حدیث شریف میں ہے کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے ان احبی عبادي الى اعجلهم فطرا. یعنی مجھے اپنے بندوں میں وہ شخص زیادہ پیارا ہے جو ان میں سب سے زیادہ جلد افطار کرتا ہے (احمد- ترمذی) اس لئے حضور سید عالم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ سورج ڈوبنے سے پہلے کسی صحابی کو حکم فرماتے کہ وہ بلندی پر جا کر سورج کو دیکھتا رہے ۔صحابی سورج کو دیکھتے رہتے اور حضور ان کی خبر کے منتظر رہتے جیسے ہی صحابی عرض کرتے کہ سورج ڈوب گیا حضور فورا خرما تناول فرماتے(حاکم- طبرانی)رہا سوال اذان کے جواب دینے کا تو اس کے بارے میں فقہائے کرام کے اقوال مختلف ہیں بعض نے وجوب کو مطلق بیان کیا جیسا کہ فتاوی عالمگیری جلد اول مصری ص 53 میں ہے يجب على السامعين عند الاذان الاجابة اور بعض نے فرمایا کہ اجابت باللسان مستحب ہے اور اجابت بالقدم واجب ہے در مختار میں ہے يجب وجوبا وقال الحلوانى ندبا والواجب الاجابة بالقدم – اور بحر الرائق جلد اول259 میں فتاوی قاضی خاں سے ہے اجابة المؤذن فضيلة وان تركها لا ياثم واما قوله عليه الصلوة والسلام من لم يجب الاذان فلا صلاة له فمعناه الاجابة بالقدم لا باللسان فقط اور پھر بحر الرائق کے اسی صفحہ پر چند سطر کے بعد ہے الظاهر ان الاجابة باللسان واجبة اورطحطاوی علی مراقی ص109 میں ہے اختلف التصحيح في وجوب الاجابة باللسان والاظهر عدمه غالباً .
اسی اختلاف کے سبب حضرت صدر الشریعه رحمة الله تعالی علیہ نے جواب دینے کو نہ واجب فرمایا نہ مستحب بلکہ مطلق رکھا جیسا کہ بہار شریعت حصہ سوم میں ہے جب اذان سنے تو جواب دینے کا حکم ہے۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ اذان ہونے سے پہلے افطار کرے پھر جب اذان شروع ہو جائے تو کھانا پینا بند کردے اور اگر اذان شروع ہونے پر افطار کرے تو تھوڑا کھا پی کر ٹھہر جائے اذان کا جواب دے پھر اس کے بعد جو چاہے کھائے پیئے اس لئے کہ اذان کے وقت جواب کے علاوہ کسی دوسرے کام میں مشغول ہونا منع ہے جیسا کہ بحر الرائق جلد اول 259 میں ہے ولا یقرالسامع ولا يسلم ولا يرد السلام ولا يشتغل بشئ سوى الاجابة ولو كان السامع يقرأ يقطع القرأة ويجيب اور فتاوی عالمگیری جلد اول مصری ص54 میں ہے لا ینبغی ان يتكلم السامع في خلال الاذان والاقامة ولا يشتغل بقرأة القرآن ولا بشئ من الاعمال سوى الاجابة .
وهو تعالى اعلم بالصواب
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:513 جلد 1 ۔