رسا لہ شما ئم العنبر فی ادب الند ا ء اما م المنبر
(منبر کے سا منے ند ا ء کے بیا ن میں عنبر کے شما مے)
بسم اللہ الر حمن الر حیم
نحمد ہ و نصلی علی رسو لہ الکر یم
اذان من اللہ الحق المبین ان الحمد للہ رب العلمین و افضل الصلو ا ت و اعلی التسلمیا ت علی من اذن با سمہ الکریم فی اطبا ق السمو ت والا ضین وسیؤ ذن بحمد ہ العظیم ووصفہ الفخیم علی رؤ س الا ولین و الا ٰخر ین یو م الد ین و علی الہ و صحبہ و ابنہ الکر یم الغو ث الا عظم و سا ئر حز بہ اجمین۔امین!
حمد اس وجہ کر یم کو جس کا یہ اعلا ن ہے کہ سب تعر یفیں میر ی ذا ت کے لیے ہیں اور افضل تر ین در ود و سلا م اس ذا ت گر امی پر جس کے نا م نا می کا اعلا ن اللہ تعا لی نے آسما نو ں کی بلند یو ں اور زمینو ں کی پستیو ں مین فرما یا اور روز قیا مت کی بھڑ میں اولین و آخر ین سے منتخب فر ما کر آپ کو ا پنی مخصو ص حمد و ثنا کی اجا ز ت اور اذن دے گا ۔اور آپ کی آل و اصحا ب اور آپ کے فر ز ند غو ث اعظم پر ،اور حضو ر اکر م صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کی سا ر ی امت پر آمین!
وبعد : فھذہ سطو ر ان عد ت یسیر ۃ و بیز ۃ ،و فیھا علو م ان شا ء اللہ عزیز ۃ عزیزۃ فی بیان ما ھو السنۃ فی اذان الخطبۃ یو م الجمعۃ سمیتھا ”شما ئم العنبر فی ادب الند ا ء المنبر ”و الغر ض بیا ن ما ظہر من حقا ئق زبر الحد یث الجلی و الفقہ الحنفی معر و ضۃ علی سا دا تنا علما ء اھل السنۃ فی بلا د الا سلا م للا ستعا نۃ بھم فی احیا ء سنۃ نبینا الکر یم علیہ و علی الہ افضل الصلو ۃ و التسلیم۔
حمدوصلوۃکے بعد یہ چند سطر یں ہیں بظاہر تھو ڑی اورمختصر ،مگر ان میں اذان خطبہ سے متعلق علو م و فنو ن کا سمندر سمٹا ہو ا ہے ہم نے جس کا نا م ”ند ا ئے منبر کے آدا ب میں عنبر کے شما مے ”رکھا جس سے ہما ر ا مقصد حدیث رسو ل صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اور فقہ حنفی سے رو شن ہو نے و الے تا بنا ک حقا ئق کو جملہ علمائےہل سنت عمو ما اور خصو صا علما ئے حر مین شر یفین کی خد ما ت عا لیہ میں پیش کر نا ہے (اللہ تعا لی انہیں تو فیق خیر عطا فرما ئے ،اور قیا مت تک ان سے مذہب حق کی حفا ظت و حمایت کا کا م لے)تا کہ ہم رسو ل انا م صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ایک مرد ہ سنت کی احیا ء میں ان سے مد د حا صل کر یں ۔
والعبد الذلیل عا ئذ بجلال وجہ ربہ الجلیل ، و جما ل محیا حبیبہ الجمیل ،علیہ وعلی الہ الصلو ت با لتبجیل من کل عین لا تنظر بالانصا ف و تقو م با لخلا ف علی قد م الا عتساف فضلا عمن یخلد فی ارض اتبا ع الر وا ج ؛،وتقد مہ علی سنۃ صا حب التا ج و المعر ا ج صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم ،وعلی الہ و صحبہ و شر ف و کر م۔
یہ بند ہ عاجز اپنے جلیل و بز رگ پر و ردگا ر کے وجہ کر یم کے جلا ل اور اس کے حبیب لبیب کے چہر ہ جمیل کی پنا ہ ڈھونڈ تا ہے ایسی آنکھو ں سے جو انصاف کو نہ دیکھ سکیں اور ظلم و اختلا ف کا ارادہ رکھیں نہ دیکھ سکیں اور ظلم و اختلا ف کا ارادہ رکھیں نہ کہ وہ جو رسم و روا ج کی پا بند ی میں ثا بت قد م ہو ں اور حضو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی سنت کر یم پر اس کو تر جیح دیں۔
بسم اللہ الر حمن الر حیم
ولا حو ل ولا قو ۃ الا با للہ العلی العظیم
یقو ل العبد المستعین بر بہ العظیم وھو نعم المعین ثم بحبیبہ الکر یم و ہو نعم الا مین صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم وعلی الہ و صحبہ اجمین حا مدا و مسلما و مشھدا و مصلیا ۔
بند ہ اپنے رب عظیم سے مدد ما نگتے ہو ئے (کہ وہی اچھا مددگار ہے) پھر اپنے حبیب رؤ ف و امین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و صحبہ اجمعین کی حما یت چا ہتے ہو ئے حمد و صلا ۃ سلا م وتشہد پڑھتے ہو ئے عر ض پر دا ز ہے۔
قد علمتم یا سادتی و اخوتی رحمنا اللہ تعالی و ایاکم وبا لسلامۃ حیانا وحیاکم ان خیر الحد یث کتاب اللہ و خیر الھَدی ھدی محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وشر الامو ر محدثا تھا وان المعر و ف معر و ف وان صارمنکرا والمنکر منکر و ان صار معر وفا فلر بما یحد ث حدث و یشیع و ینکر علیہ بد ء فیضیع اما لا مر الا ما رۃ او نفو س اما رۃ ۔
اے ہما ر ے سر دا ر و اور بھا ئیو ! اللہ تعا لی ہم پر اور آپ پر رحم فر ما ئے اور ہم سب کو سلا متی کے سا تھ زند ہ رکھے آپ خو ب جا نتے ہیں کہ تما م با تو ں سے بہتر خد ا کی کتا ب ہے اور تما م سیر تو ں سے بر تر سیر ت رسو ل ہے صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اور سب چیز و ں سے برے وہ توایجا د ہیں (جن کی دلیل قر آن و حد یث نہ ہو ) پسند ید ہ چیز پسند ید ہ ہی رہے گی چا ہے لو گ اسےنا پسند کریں اور نا پسندیدہ چیز نا پسندیدہ ہی رہے گی چا ہے سب لو گ اس میں مبتلا ہوں۔
والعالم یقول الہوی متبع و القول لا یسمع و قد قضیت ما علی فان سکت فلا علی فیدع ،فلا ید عو ،فالمنکر یر بو ویفشو ، وتنشؤ الصغا ر فتقتفی الکبار فیظن متوارثا وما کان الا حادثا، واٰیۃ ذلک کو نہ علی خلاف السنۃ المرویۃ ومناواۃ الخصلۃ المرضیۃ ومع ذلک اذا فتشتہ فی الصدرالاول ،والقرون الاول لم تر لہ اثرا ۔
بہت سا ری نا پسند ید ہ با تو ں کی سر گز شت یہ ہے کہ پیدا ہو کر پھیل جا تی ہیں اہل حق اس پر نکیر بھی کر تے ہیں لیکن یہ رد و قد ح ضا ئع ہو جا تی ہے جس کے چند اسبا ب ہو تے ہیں
(۱) ان نو ایجا د امو ر کی اشا عت کے لیے حکو مت اپنا اثر ورسو خ استعما ل کر تی ہے۔
(۲) سر کش نفو س اسے روا ج دینے پرآما دہ ہو جا تے ہیں۔
(۳) علما ء جو انہیں روک سکتے تھے ان کا خیا ل ہو تا ہے لو گ اتبا ع نفس میں ایسا گر فتا ر ہیں کہ ہما ر ی با ت سننے کو تیا ر نہیں اور ہم اس سلسلہ میں ہد ایت کا حق ادا کر چکے ہیں اب خا مو ش میں رہیں تو ہم پر کو ئی ذمہ داری نہیں ۔
ان سالت متی حدث ، ومن احدث لم تجد بہ خبر ا فیجعل النا س لعدم العلم بمبد ئہ علما بعدمہ و علما علی قدمہ ، وما الیہ سبیل ، مع خلاف الدلیل ،وانما تحکیم الحال عند الاحتما ل و الا فالحادث لاقرب اوقاتہ ولغفلۃ الناس عن ھذا البنا یۃ تفوہ الالسنۃ انہ السنۃ ، وتصیر النفو س الیہ مطمئنۃ و عند ذلک یکون المعروف منکرا والمنکر معروفا۱۔ کما فی حدیث(عہ۱) عن المصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم و یکذب الصا دق و یصدق الکاذب ۲کما قد صح(عہ۲) عن سید الاطائب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فمن القی علیھم السنۃ فکانما یحول جبلۃ او یحاول جبلا اویبتدع حکما من عندہ قبلا۔ عالم یہ سوچ کر رشد و ہد ایت چھو ڑ دیتے ہیں اور گمر اہی پھیلتی رہتی ہے اور بڑھتی رہتی ہے چھو ٹے لو گ اسے بڑھاوا دیتے ہیں بڑے لوگ ان کے پیچھے چلتے رہتے ہیں اورلو گ انہیں متو ا ر ث سمجھنے لگتے ہیں حالا نکہ وہ ایک نو پید با ت ہو تی اس کے نو زائید ہ ہو نے کی علا مت یہ ہو تی ہے کہ وہ سنت مر ویہ کے خلا ف اور خصا ئص حمید ہ کی ضد ہو تی ہے اور اسلا م کے ابتد ا ئی عہد میں اس کا کہیں پتا ہی نہیں ہو تا اسکی ایجا د کے وقت اور مو جد کا پتا پو چھا جا ئے تو کچھ پتا ہی نہیں چلتا لوگ اس لا علمی کو اس با ت کا ثبو ت ما ن لیتے ہیں کہ یہ شروع سے ہی ایسے ہی ہو رہی ہے حا لا نکہ نہ تو تا ر یخ اس کی تا ئید میں ہو تی نہ دلیل سو ا ئے اس امر کے پتانہیں کب سے ایسا ہی ہو رہا ہے لو گو ں کی طبیعتیں اس در جہ خو د فر ا مو ش وا قع ہو ئی ہیں کہ بہت سے قریب العہد نو پید امو ر کی تا ریخ بھی ان لو گو ں کو معلو م نہیں رہتی اور لو گ اسی کو سنت سمجھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں اس وقت بر ا ئی اچھا ئی بن جا تی ہے اور اچھا ئی بر ا ئی حد یث شر یف میں ہے سچے کو جھو ٹا اور جھو ٹے کو سچا سمجھا جا نے لگتا ہے حضو ر سید عا لم صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم سے یہ صحیح حد یث بھی مرو ی ہے ”تو جو انہیں کسی سنت پر ابھا رے گو یا ان کو فطر ت بد ل رہا ہے یا پہا ڑ منتقل کر نے کا قصد کر رہا ہے یا اپنے پاس سے کو ئی حکم گھڑرہا ہے۔ ”
عہ ۱: روا ہ ابن عسا کر عن محمد بن الحنفیۃ و المسعو دی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲منہ۔
ابن عسا کر نے محمد بن حنفیہ اور مسعو دی سے انہو ں نے حضو ر اکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو روا یت کیا (ت)
عہ۲: روا ہ ابن ابی الدنیا و الطبر ا نی فی الکبید و ابو نصر السجزی فی الا با نۃ وابن عسا کر فی تا ریخ دمشق عن ابی موسی الا شعری رضی اللہ تعالی عنہ بسند لا با س بہ ،والطبر نی فیہ والحاکم فی الکنی ابن عساکر عن عوف بن مالک الاشجعی والطبرانی فیہ والبیھقی فی البعث وابن النجا ر عن ابن مسعو د و الطبر انی فیہ عن ام المو منین ام سلمہ ونعیم ابن حما د فی الفتن عن ابی ہر یرہ رضی اللہ تعا لی عنہم و لفظۃ حد یث ام المو منین لیا تین علی النا س زما ن یکذب فیہ الصا دق و یصد ق فیہ الکا ذب ۱؎الحد یث وھو قطعۃ احا دیث عند ھم جمیعا ۱۲منہ۔
ابن ابی الدنیا او ر اما م طبر ا نی نے معجم کبیر میں ،اما م ابو نصر سجزی نے کتا ب الا با نۃ میں ،اما م ابن عسا کر نے تاریخ دمشق حضر ت ابو مو سی اشعر ی رضی اللہ تعا لی عنہ سے لا با س بہ سند کے سا تھ اس کو روا یت کیا طبر انی نے کبیر میں حا کم نے کنی میں اور ابن عسا کر نے عو ف بن ما لک اشجعی رضی اللہ تعا لی عنہ سے روایت کیا طبرانی نے کبیر میں اور اما م بیہقی نے بعث میں اور ابن نجا ر نے ابن مسعو د رضی اللہ تعا لی عنہ سے روا یت کیا طبرانی نے حضر ت ام سلمہ رضی اللہ تعا لی عنہا سے ،اور نعیم بن حما د نے ”فتن”میں ابو ہر یر ہ رضی اللہ تعا لی عنہ سے (اور سب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روا یت کی ) ام المؤمنین کی روایت کے الفا ظ یہ ہیں : لیا تین علی النا س زما ن یکذب فیہ الصادق و یصد ق فیہ الکا ذب الحد یث۔اور یہ سب کے نز دیک حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۱۲منہ
(۱؎فیض القدیر تحت الحد یث ۶۹۸۹ دا ر الکتب العلمیہ بیر وت ۵ /۲۶۲)
(۲؎المعجم الا وسط حد یث۸۶۳۸، ۲۹۳)
(۱؎المعجم الا وسط حد یث ۸۶۳۸ مکتبۃ المعا ر ف الر یا ض ۹/۲۹۳)
و ان القلب اذ امتلاء بشیئ لم یکد یقبل غیر ہ لدا ب مستمر ،فا ن قرا ء لم یجا وز التراقی او سمع لم یجاوز الاذن وما بھذا امر وانما قا ل لہ ربہ و قو ل الحق و وعدہ الصدق فبشر عباد الذین یستمعو ن القول فیتبعو ن احسنہ اولئک الذین ھدٰھم اللہ واولئک ھم اولو الا لبا ب ۱؎
اور دل مین جب کو ئی با ت سما جا تی ہے تو آدمی اپنی عا دت جا ریہ کے خلا ف کچھ قبو ل ہی نہیں کر تا ۔اگر کوئی با ت اس کے خلا ف پڑھتا ہے تو حلق کے نیچے نہیں اتر تی اور سنتا ہے تو کا ن سے آگے نہیں بڑھتی جبکہ لوگو ں کو اس ہٹ دھر می کا حکم نہیں دیا گیا ہے وہ تو یو ں فر ما تا ہے ”ہما رے ان بند و ں کو بشا ر ت دو جو اچھی با ت سن کر اس کی پیر و ی کر تے ہیں اللہ تعا لی نے انہیں ہد ایت دی اور وہی اہل عقل و بصیر ت ہیں۔”
(۱ القر ان الکر یم ۳۹/۱۷و۱۸)
فالسبیل الا ستما ع ثم الا نتفا ء ثم الا تبا ع ،لا ان یقنع ولا یسمع ،او یکو ن من الذین سمعو ا وھم لا یسمعو ن فھم بالقرآن لا ینتفعو ن۔
تو راستہ تو سن کر انتفاع اور اتباع کا تھا نہ کہ قناعت کر کے بیٹھ رہنے اور نہ سننے کا۔ یا سن کر ان سنی کر دینے کا ایسے لوگ قرآن سے کچھ مستفید نہیں ہوتے۔
وانما النفع لمن کان لہ قلب مرید أو القی السمع وھو شہید۔ نفع تو ان لوگوں کو پہنچتا ہے جو ارادہ قلبی اور سماع حضور کے ساتھ سنتے ہیں۔
فعلیک یا اخی القاء السمع وانقاء القلب عن الجزم او لا بایجاب او سلب رجاء ان تجد حقا فتذ عن فان الحکمۃ ضالۃ المؤمن فتدخل او ذاک فی بشارۃ مولاک واللہ یتولی ھدای و ھداک۔
پس اے برادران محترم!غایت توجہ اور عنایت قلب کے ساتھ قبل از مطالعہ یک طرفہ فیصلہ کئے بغیر اس ارادہ سے کہ حق ہوگا تو قبول کروں گا۔ ہمارے معروضات سنیں کہ حکمت مومن کا گمشدہ مال ہے، اور اللہ تعالٰی ہدایت دینے والا ہے، ہماری اور آپ دونوں کی ہدایت فرمائے ۔
ولنجمل اولا ما وجدہ الفقیر فی ہذہ المسألۃ من الحدیث الکریم والفقہ القویمِ بل ومن القرآن العظیم ،ثم نفصلہ تفصیلا با ذن الفتاح العلیم ۔لا ن التفصیل بعد الاجما ل اوقع فی النفس و اقمع للتکمین وا لحدث و لا ارید کل التفصیل لما بد فا ن المسئلۃ تحتمل مجلدا و لکن ما قل وکفی خیر مما کثر و الہی ۱؎قا لہ(عہ) النبی المصطفی صلی اللہ تعا لی علیہ وعلی الہ افضل الصلو ۃ والثنا ۔
پہلے تو ہم احا دیث کر یمہ ،فقہ مستقیمہ ،بلکہ قر آن عظیم میں ایک فقیہ مسئلہ دائر ہ میں جو کچھ پا سکتا ہے اسے اجما لا بیا ن کر تے ہیں پھر ان شا ء اللہ تعا لی مسئلہ کی ضروری تفصیل بیان کر ینگے کہ اجما ل کے بعد تفصیل نفس میں زیا دہ جا گزیں اور ظن و تخمین کو ز ائل کر نے والی ہو تی ہے پو ری تفصیل کے لیے تو صیحفے در کا ر ہیں مگر جب وا جبی بیان سے کام چل جا ئے تو مکمل تفصیل کی کو ئی خا ص ضر ورت بھی نہیں ۔حد یث شر یف میں ہے ”جو کلا م مختصر اور کفا یت کر نے وا لا ہو طویل اور الجھا دینے و الے بیا ن سے اچھا ہے۔
عہ : رو اہ ابو یعلی او الضیا ء المقد سی فی المختار ۃ عن ابی سعید الخد ری رضی اللہ تعا لی عنہ ۱۲منہ
ابو یعلی اور ضیاء مقد سی نے مختا ر ہ میں ابو سعید خد ری رضی اللہ تعا لی عنہ سے اس کو روا یت کیا ۱۲منہ(ت)
(۱؎کنز العما ل حد یث۱۶۱۲۴ مؤ سسۃ الر سا لہ بیر و ت ۶/۳۷۵)
فا قو ل: وبہ استعین : ارشد نا الحد یث الصحیح الذی روا ہ ابو دواد فی سننہ واما م الا ئمۃابن خزیمہ فی صحیحہ ،امام ابو قا سم الطبر ا نی فی معجمہ الکبیر ان السنۃ فی ھذا الا ذا ن ان یکو ن بین ید یہ الا ما م اذا اجلس علی المنبر فی حدود المسجد لا فی جو فہ ھکذا کا ن یفعل علی عہد رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم و عہد صا حبیہ ابی بکر وعمر رضی اللہ تعا لی عنہما ۱؎ ولم یا تنا عن احد من الخلفا ء الر ا شد ین و غیر ھم من الصحا بۃ وا لتا بعین و الا ئمۃ المجتہدین رضو ا ن اللہ تعالی علیہم اجمعین تصر یح قط بخلا ف ذلک وما کا ن لہم ان یقو لو ا والعیا ذ با للہ تر ک ما ھنالک۔
پس میں اس کی مد د کے سا تھ کہتا ہو ں سنن ابی دواد ،صحیح اما م ابن خزیمہ ،معجم کبیر اما م ابو لقا سم الطبرانی کی حد یث سے پتا چلتا ہے کہ اذا ن خطبہ میں سنت یہ ہے اما م مبنر پر بیٹھے تو اس کے سامنے حد و د مسجد کے اند ر (نہ کہ خا ص مسجد میں )اذان دی جا ئے حضو ر سید عا لم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور شیخین کر یمین رضی اللہ تعا لی عنہم کے عہد ہائے مبارک و مسعود میں اور دیگر خلفاء راشدین وغیر ہ صحا بہ کر ا م و زمانہ تا بعین و ائمہ مجتہد ین میں ایسا ہی ہو تا رہا ،کسی سے اس کا خلا ف مر و ی نہیں اور معا ذ اللہ رب العا لمین وہ اس کے خلا ف کہہ بھی کیسے سکتے تھے۔
(۱؎سنن ابی دواد کتا ب الصلو ۃ با ب وقت الجمعۃآفتا ب عا لم پر یس لا ہو ۱/۱۵۵)
(المعجم الکبیر حد یث ۶۶۴۴ المکتبۃ الفیصیلۃ بیر و ت۷/۱۴۶)
وقداعتمد ھذا الحد یث کبا ر المفسر ین فی تفسیر الکر یمۃ اذا نو دی للصلو ۃ من یو م الجمعۃ ۲؎کالز مخشر ی فی الکشاف ،والامام الرازی فی مفاتیح الغیب والخازن فی لباب التاویل ،والنیسا بو ری فی رغا ئب الفر قا ن ،والخطیب والجمل و غیرھم و اوردہ الاما م الشعرانی فی کشف الغمۃ عن جمیع الامۃ ،کما سیاتیک نصوصھم ان شاء اللہ تعالی۔
اس حد یث پر بے شما ر ائمہ مفسر ین نے آیت مبا رکہ اذا نو دی للصلو ۃ من یو م الجمعۃ کی تفسیر میں اعتما د کیا چنا نچہ کشا ف میں زمخشر ی مفا تیح الغیب میں اما م را زی ،لبا ب التا ویل میں امام خا زن ،رغا ئب الفر قا ن میں امام نیشا پو ر ی خطیب و جمل وغیر ہ نے اسے ذکر کیا اما م شعر ا نی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتا ب کشف الغمہ عن جمیع الا مۃ میں اس پر اعتما د کیا عبا رتیں سب کی آگے آرہی ہیں ان شا ء اللہ تعا لی ۔
( ۲؎القر آن الکریم ۶۲/۹)
ثم تظافر ت کلمات علمائنا فی الکتب المعتمد ۃ علی النہی عن الاذان فی المسجد و انہ مکر وہ ،نص علیہ الامام فقیہ النفس فی الخا نیۃ ، وا لا ما م البخا ری فی الخلا صۃ ، والامام الا سبیجا بی فی شر ح الطحا و ی ،والا مام الاتقا نی فی غایۃ البیا ن والاما م العینی فی البنا یۃ ،والاما م المحقق علی الا طلا ق فی فتح القد یر ،و الا مام الزندوستی فی النظم ،والامام السمعانی فی خزانۃ المفتین و مختا ر ا لزا ھد ی فی المجتبی ،والمحقق زین بن نجیم فی البحر الر ا ئق ،والمحقق ابر ا ہیم الحلبی فی الغنیۃ وا لبر جند ی فی شر ح النقا یۃ و القہستا نی فی جا مع الر مو ز ،وا لسید الطحطا وی فی الحو ا شی علی مر ا قی الفلا ح وا صحا ب الفتا و ی العا لمگیر یۃ ،وا لفتاوی التا تا ر خا نیۃ و مجمع البرکات ،ولم یسثنو ا منہ فصلا ۔ویلمو ا بتخصیص اصلا ،و الھجو م علی تخصیص النصو ص من دون خصوص فھم مخصوص بل و ھم مر صو ص ۔ثم و لنا القراٰن العظیم و ا لا حا دیث و ا لشا ھد المطبق علیہ فی القدیم و الحد یث ان التا ذین فی جو ف المسجد اسا ء ۃ ادب بالحضر ۃ الا لہیۃ ۔ثم ھو خلا ف ما شر ع لہ الا ذا ن ۔ثم لیس علیہ من حد یث ولا فقہ دلیل ولابرہان ولایعارض العلامۃ الحکم ولا الا شا رۃ العبا رۃ ولا المحتمل الصریح ولا المجا ز علی الحقیقۃ ۔ثم ھو علی حالہ ھذا و ان شاع فی زماننا فی بعض الاصقا ع لم ینعقد قط علیہ الاجما ع ولا علیہ تعامل فی جمیع البقاع ۔ ولا ھو متو ا ر ث من الصدر الاو ل ، فمثل ھذا لا یحتمل ولا یقبل و المنکر لا یصیر معر وفا و ان فشا۔ولا الحادث قدیما وان لم نعلم متی نشاء۔
ہما رے ائمہ فقہ نے کثر ت کے سا تھ فقہ کی کتب معتمد ہ میں مسجد کے اند ر اذان کی مما نعت فر ما ئی کہ مکر و ہ ہے فقیہ النفس اما م قا ضیخا ں نے خا نیہ میں اما م بخا ری نے خلا صہ میں اما م اسبیجا بی نے شر ح طحاوی میں اما م اتقا نی نے غا یۃ البیا ن میں اما م عینی نے بنا یہ میں اما م محقق علی الا طلا ق نے فتح القد یر میں اما م زند و ستی نے نظم میں اما م سمعا نی نے خز انۃ المفتین میں مختا ر زا ہد ی نے مجتبی میں ،محقق زین ابن نجیم نے بحر الرا ئق میں،محقق ابر ا ہیم حلبی نے غنیہ میں ،بر جند ی نے شر ح نقا یہ میں،قہستا نی نے جا مع الر مو ز میں ،سید طحطا وی نے حو اشی مر اقی الفلا ح میں ،نیز اصحا ب فتا و ی عا لمگیر یہ ،فتاو ی تا تا ر خا نیہ اور مجمع البرکا ت نے اس کی تصر یح فر ما ئی ۔ان حضر ا ت نے نہ تو کسی جز ء کا استثنا ء کیا نہ تخصیص کی طر ف اشا رہ فرما یا تو غیر مخصو ص کی تخصیص کا ارادہ ایک نا قص را ئے اور وہمی قیا س آرا ئی ہے ۔اس مسئلہ میں مزید چند امو ر قا بل غور ہیں (۱) جو ف مسجد میں اذا ن دینا دربا ر الہی کی بے ادبی ہے اس پر قرآن و حد یث اور عہد قد یم سے آج تک کا عر ف شا ہد ہے ۔(۲) جو ف مسجد میں اذا ن ،مشر و عیت اذان کے مقصد کے خلا ف ہے۔(۳) جوف مسجد میں اذان کے جو از پر قر آن و حد یث سے کو ئی دلیل نہیں اگر کہیں علا مت یا اشا رۃالنص یا احتما ل و مجا ز کے طو ر پر اس کا تذکر ہ ہو بھی تو یہ اسی با ب میں علی التر تیب حکم ،عبا رۃ النص اور صر یح و حقیقت کے معارض نہیں ہو سکتے (۴) اند رون مسجد اذان گو آجکل بعض مقا مات میں شا ئع و ذا ئع ہو مگر پو رے عا لم اسلام میں نہ تو اس پر اجما ع ہو ا ہے نہ عہد رسا لت سے اس کا تورا ث ثا بت ہے پس ایسے امر کا جو از نہ تو محتمل ہے نہ قا بل قبو ل اور جوفعل شرعا نا پسند یدہ ہو گو لا کھ معر و ف و مشہو ر ہو گو ہم اس کے ایجا د کا زمانہ متعین نہ کر سکیں مقبول و معر و ف شر عی نہیں ہو سکتا ۔
ویاسادتنا علماء السنۃ انتم المدخر و ن لاحیا ء السنۃ و قد ندبکم الی ذلک نبیکم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی غیر (عہ۱) ما حد یث ووعد تم(عہ۲) علیہ اجر ما ئۃ شہید ۔وان (عہ) تکو نو ا بہ مع نبیکم فی دا ر المزید ۔
اے سر دا ر ان امت علما ئے اہلسنت اللہ تعا لی نے آپ لو گو ں کو احیا ئے سنت کے لیے تیا ر کر رکھا ہے اور آپ کے رسو ل گر امی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نے متعدد حد یثو ں میں آپ کو اس کی دعو ت دی ہے اس پر سو شہید وں کے اجر اور دا ر آخر ت میں اپنی ہم نشینی کا وعد ہ فر ما یا ہے۔
عہ۱: التر مذی عن بلا ل و ابن ما جہ عن عمر و بن عو ف رضی اللہ تعا لی عنہما عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم : من احیا سنۃ من سنتی قد امیتت بعدی فا ن لہ من الا جر مثل اجر من عمل بھا من غیر ان ینقص من اجو رھم شیئا۱ ۔۱۲منہ
تر مذی نے حضر ت بلا ل و ابن ما جہ نے حضر ت عمر و بن عو ف ٖرضو ا ن اللہ تعا لی عنہم اجمین سے انہوں نے حضور صلی اللہ تعا لی وسلم سے روایت کی جس مے میر ی کسی مر دہ سنت کو زند ہ کیا اسے تما م عمل کر نے والوں کے اجر کے بر ا بر ملے گا ان کے اجرمیں کچھ کمی نہ ہو گی ۔
عہ۲: والبیہقی فی الزھد عن ابن عبا س رضی اللہ تعا لی عنہما قا ل قا ل رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم”من تمسک بسنتی عند فسا دا متی فلہ اجر ما ئۃ شہید۲ ”
اما م بیہقی نے کتا ب الز ہد میں ابن عبا س سے انہو ں نے رسول اللہ تعالی وسلم سے روا یت کی ”جس نے میر ی امت کے فسا د کے وقت میر ی سنتو ں پر مضبو طی سے عمل کیا اسے سو شیہد و ں کا ثو ا ب ملے گا ”
عہ: السجزی فی الا با نۃ عن انس رضی اللہ تعا لی عنہ : من احیا سنتی فقد احبنی ومن احبنی کا ن معی فی الجنۃ ۱؎
اما م سجزی نے کتا ب الا با نۃ میں حضر ت انس اور انہو ں نے حضو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روا یت کی ۔”جس نے میر ی سنت زند ہ کی اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جس نے مجھ سے محبت رکھی وہ میر ے ساتھ جنت میں ہو گا ”
روا ہ الترمذی بلفظ من احب اللھم ارزقنا ،ا مین ! ۱۲منہ
اور اما م تر مذی نے لفظ احب کے سا تھ رو ایت فر ما یا ہے یا اللہ ! ہم سب کو آپ کی محبت عطا فر ما !۱۲منہ
(۱؎جا مع التر مذی ابو اب العلم باب الا خذ بالسنۃالخ امین کمپنی دہلی۲/۹۲)
(سنن ابن ما جہ با ب من احیا ء سنۃ قد امیتت ایچ ایم سعید کمپنی کر اچی ص۱۹)
(۲؎کتا ب الزہد الکبیر للبیہقی حد یث ۲۰۹دا ر القلم الکو یت ص۱۵۱)
(۱؎کنز العما ل بحو الہ السجزی عن انس حد یث ۹۳۳مو سسۃ الر سا لہ بیر و ت۱ /۱۸۴)
و انما تحی اذا امیتت و انما تمو ت اذا تر ک النا س العمل بھا و سکت عنھا علما ؤ ھم لما قد مر او شبہ لھم فلمن احیا لاحقا اجر ہ و لمن سکت سابقا عذر ہ علی ذلک مضی امر احیا ء السنن و تجدید الدین من سا لف الزمن الی ھذا الحین فا لا ستنا د فی مثلہ بعمل النا س و عا دتھم او سکو ت من سلف قر یب من سا دتھم او زعم انہ یلحقھم بذلک شین مع جلا لتھم۔
سنت کا احیا جبھی ہو گا کہ لو گو ں نے اسے مر دہ کر ڈا لا اور موت اسی صورت میں ہوگی کہ لوگ اس پر عملد ر آمد تر ک دیں اور اس وقت کے علما ء مذکو رہ با لا وجو ہ کی بنیا د پر ان کی اس حر کت پر خمو ش رہے ہو ں پس جو ایسی سنت زند ہ کر ے اسے اس کا اجر ملے گا اور جس نے خا مو شی اختیا ر کی وہ معذو رسمجھا جا ئے گا اسی نہج پر احیا ئے سنت کا معا ملہ عہد قد یم سے آج تک چلتا رہا ہے اس لیے لو گو ں کے عمل یاعادت یا کسی عمل پر ماضی قریب کے علماء کی خمو شی سے استد لا ل اور یہ خیا ل کہ اگر مسئلہ دا ئر ہ خلا ف شر ع ہوتا تو اس پر ان علماء کی خمو شی ان کے لیے با عث عا ر ہو تی۔
کل ذلک جہل وا ضح و و ھم فا ضح وسد لبا ب احیا السنۃ مع انہ مفتو ح بید المصطفی سید الا نس و ا لجن صلی اللہ تعالی علیہ وسلم و مو عو د علیہ عظیم المنۃ۔
یہ سب خیا ل کھلی جہا لت اور وا ضح وہم پر ستی ہے اور احیا ئے سنت کا سد با ب ہے حا لانکہ حضو ر سید عا لم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے احیا ئے سنت کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور اس پر عظیم انعام و اکر ام کا وعد ہ فر ما یا ہے۔
واما تفصیل کل مع اجملت ھنا ففی شما ئم زا کیا ت ،فی کل شما ئمۃ نفحا ت طیبا ت و علی حبیبنا و الہ اطیب الصلو ۃ و انمی التحیا ت۔ اب ہم مہکتے شما مو ں اور لہکتے نفحا ت میں اس کی تفصیل بیا ن کر تے ہیں اللہ تعا لی ہما رے حبیب صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اور ان کے آل و اصحا ب پر مقد س درود اور مبا ر ک تسلیما ت نا ز ل فر ما ئے ۔آمین
الشما مۃ الا ولٰی من عنبر الحد یث
(عنبر حد یث کا شما مہ اولٰی)
نفحہ ۱: أنبا نا شیخنا العلا مۃ الا ما م شیخ العلما ء با لبلد الکر ام السید احمد بن زین بن دحلا ن المکی قدس سر ہ الملکی بمکۃ مکر مۃ ۱۲۹۶ھ عن الشیخ عثما ن بن حسن الد میا طی الا زھر ی عن الشیخ محمد الا میر الما لکی و الشیخ عبد اللہ الشر قاوی الشا فعی الا زھر یین ح،و أنبا نا المو لی المفتی العلا مۃ عبد الر حمن السر ا ج مفتی البلد الحر ام فی ذی الحجۃ ۱۲۹۵ھ عن مفتیھا المو لی جما ل بن عبد اللہ بن عمر ح و أنبا نا عا لیا بد ر جۃ السید حسین بن صالح جمل اللیل المکی ببیتہ عند باب الصفا فی ذی الحجۃ ۱۲۹۵ کلا ھما عن الشیخ عابد السندی المدنی عن الشیخ صالح الغلانی والسید عبدالرحمٰن بن سلیمان الاھدل و یوسف بن محمد المزجاجی و السیدبن احمد و قاسم ابنی سلٰیمن وعمہ محمد حسین الانصاری ح، و انبانا شیخنا السید الامام العارف باللہ الشاہ آل الرسول الاحمدی فی جمادی الاولٰی ۱۲۹۴ھ عن الشاہ عبدالعزیزالدھلوی عن ابیہ الشاہ ولی اللہ الدھلوی عن الشیخ ابی طاہر بن ابراھیم الکردی المدنی ح، وغیرھم من مشایخنا رحمھم اللہ تعالٰی جمیعا باسانیدھم المعروفۃ الٰی ابی داؤد فی سننہ قال حدثنا النفیلی، نا محمد بن سلمۃ عن محمد بن اسحٰق عن الزھری عن السائب بن یزید رضی اللہ تعالٰی عنھما قال کان یؤذن بین یدی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علٰی باب المسجد و ابی بکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما ۱ ھذا حدیث حسن صحیح، محمد بن اسحٰق ثقۃ صدوق امام قال شعبۃ و ابو زر عۃ و الذھبی و ابن حجر صدوق و قال الامام ابن المبارک انا وجدناہ صدوقا، انا وجدناہ صدوقا، انا وجدناہ صدوقا۱۔تلمیذ لہ ائمۃ اجلاء کابن المبارک و شعبۃ و سفٰین الثوری و ابن عیینۃ والامام ابی یوسف و اکثر عنہ فی کتاب الخراج لہ۔
نفحہ۱: ہمارے شیخ، شیخ علمائے حرم سید احمد ابن زین ابن دحلان مکی قدس سرہ نے مکہ مکرمہ میں ۱۲۹۶ ھ میں ہم سے بیان کیا، ان سے شیخ عثمان بن حسن د میاطی ازہری نے، ان سے شیخ محمد امیر مالکی نے اور شیخ عبداللہ شرقاوی شافعی ازہری نے ح،ہم سے علامہ مولانا مفتی عبدالرحمٰن بن سراج مکی نے ذوالحجہ ۱۲۹۵ھ میں مولانا مفتی مکہ جمال ابن عبداللہ ابن عمر کے واسطہ سے بیان کیاحِ ہمیں حسین ابن صالح جمل اللیل مکی نے باب صفا کے پاس اپنے گھر ذوالحجہ ۱۲۹۵ھ میں بیان کیا اور احمد ابن زید جمل اللیل نے بھی۔ دونوں حضرات نے شیخ عابد سندھی اور انھوں نے شیخ صالح غلانی اور سید عبدالرحمٰن اہدل اور یوسف ابن محمد مزجاجی اور سید احمد و قاسم ابنائے سلیمان اور اپنے چچا محمد حسین انصاری سے ح، ہمارے شیخ سید امام عارف باللہ شاہ آل رسول احمدی نے جمادی الاولٰی ۱۲۹۴ھ میں ہم کو خبر دی، انھیں شاہ عبدالعزیز دہلوی نے اور انھیں ان کے والدشاہ ولی اللہ دہلوی نے اور انھیں شیخ ابو طاہر بن ابراہیم کردی مدنی نے ح ان سب لوگوں نے اپنے مشائخ کرام سے جن کی معروف و مشہور سندیں امام ابو داود تک متصل ہیں انھوں نے اپنی سنن میں نفیلی،محمد بن مسلمہ، محمد اسحق زہری عن سائب ابن یزید رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا:ــــ”حضور صلی اللہ تعالےٰ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر تشریف لے جاتے تو آپ کے سامنے مسجد کے دروازہ پر حضرت بلال رضی اللہ تعالےٰ عنہ اذان دیتے۔ ایسا ہی ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے زمانہ میں ہوتا رہا۔” یہ حدیث حسن و صحیح ہے اسکے راوی محمد بن اسحق قابل بھروسہ، نہایت سچے امام ہیں۔ ان کے بارے میں امام شعبی ، محدث ابو زرعہ اور ابن حجر نے فرمایا یہ بہت سچے ہیں ۔ امام عبداللہ ابن مبارک فرماتے ہیں:”ہم نے انھیں صدوق پایا، ہم نے انھیں صدوق پایا، ہم نے انھیں صدوق پایا۔” امام عبداللہ بن مبارک ، امام شعبہ اور سفیان ثوری اور ابن عیینہ اور امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں بہت زیادہ روایتیں کیں اور ان کی شاگردی اختیار کی۔
(۱سنن ابو داؤد کتاب الصلٰوۃ باب وقت الجمعۃ آفتاب پریس لاہور ۱/۱۵۵)
(۱؎تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسۃ الر سا لہ بیرو ت ۳/ ۵۰۷)
(کتاب الثقات لابن حبان تر جمہ محمد بن اسحق دارالکتب العلمیہ بیرو ت ۴/۲۳۶)
و قال ابو زرعۃ الدمشقی اجمع الکبراء من اھل العلم علی الاخذ عنہ قال و قد اختبرہ اھل الحدیث فرؤہ صدقا و خیرا۔۲؎ امام ابو زرعہ دمشقی نے فرمایا :”اجلہ علماء کا اجماع ان سے روایت کرنے پر قائم ہے ، اور آپ کو اہل علم نے آزمایا تو اہل صدق و خیر پایا۔”
(۲؎تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسۃ الر سا لہ بیرو ت ۳/ ۵۰۵)
و قال ابن عدی لم یتخلف فی الروایۃ عنہ الثقات و الا ئمۃ و لا بأس بہ ۳؎ ابن عدی نے کہا :”آپ کی روایت میں ائمہ ثقات کو کوئی اختلاف نہیں، اور آپ سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔”
(۳ میز ان الا عتدا ل ترجمہ نمبر۷۱۹۷ دار المعرفہ بیرو ت ۳/ ۴۷۴)
و قال علی بن المد ینی ما رأیت احدا یتھم ابن اسحق ۴؎ اما م علی ابن المد ینی نے کہا ”کسی اما م یا محد ث کو ابن اسحق پر جر ح کر تے نہیں دیکھا ”
(۴؎تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسۃ الر سا لہ بیرو ت ۳/ ۵۰۵)
وقال سفیان(عہ) بن عیینہ جا لست ابن اسحق منذ بضع سنین و سبعین سنۃ وما یتھمہ احد من اھل المد ینۃ ولا یقول فیہ شیئا ۱؎
اما م سفیان ابن عیینہ فر ما تے ہیں میں ستر سا ل سے اوپر ابن اسحا ق کی خد مت کر تا رہااہل مدینہ میں سے کسی نے ان پر اتہا م نہیں رکھا نہ ان پر کچھ تنقید کی۔
(۱؎تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسۃ الر سا لہ بیرو ت ۳/ ۵۰۵)
عہ: وبہ ظہر کذب من زعم الان ان قد جر حہ سفٰین بن عیینہ ،حا شاہ بل قد تلمذ و ذب عنہ وقا ل رایت الزھری قال لمحمدبن اسحق این کنت ؟ فقا ل ھل یصل الیک أحد ؟ فد عا حا جبہ وقال لا تحجبہ اذا جاء ۱؎وقا ل ایضا قا ل ابن شہا ب وسئل عن مغا زیہ فقا ل ھذا أعلم النا س بھا ۲؎ وقا ل ابن المد ینی قلت لسفیان کا ن ابن اسحق جا لس فاطمۃ بنت منذر فقا ل اخبر نی ابن اسحق انھا حد ثتہ وانہ دخل علیہا ۳؎ وقا ل ابن عیینۃ ایضاً سمعت شعبۃ یقو ل محمد بن اسحق امیر المو منین فی الحد یث۲؎فھذا ما جر حہ بہ سفیا ن نعم ذکر ان النا س اتھمو ہ بالقد ر۳؎ ولو کا ن ھذا جر حا فما اکثر المجر و حین فی الصحیحین ،الا تری انہ کا ن یسمع ھذا ثم لا یتر ک مجا لسۃ ابن اسحا ق ولا الا خذ منہ ھل لیس منہ ما ید ل علی تصد یقہ النا س فی ھذا فکم من تھمۃ لا اصل لھا ،وسیا تیک کلا م ابن منیر ۱۲منہ۔
سفیا ن ابن عیینہ کے اس قو ل سے اس شخص کا جھو ٹ ظا ہر ہو گیا جو یہ کہتا ہے کہ حضر ت سفیا ن ابن عیینہ نے ابن اسحق پر جر ح کی ہے خد ا کی پنا ہ انہو ں نے تو ابن اسحق کی شا گر دی اختیا ر کی ہے ان کی طر ف سے مدافعت کی ہے اور فر ما تے ہیں کہ اما م زہر ی کو دیکھا کہ ابن اسحق سے پو چھا آپ کہا ں تھے؟انہو ں نے جو اب دیا کو ئی آپ کے یہا ں بار یا بی بھی تو پا ئے (یعنی در با ن روکے ہو ئے تھا ) تو اما م زہر ی نے اپنے دربا ن کو بلا کر فر ما یا آئند ہ ابن اسحق کو اند ر آنے سے کبھی بھی مت رو کنا ۔حضر ت ابن عیینہ کی ہی روا یت ہے کہ کسی نے
اما م زہر ی سے رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے غزوا ت کے با ر ے میں پوچھا انہو ں نے ابن اسحق کی طرف اشار ہ کر کے فر ما یا یہ اس کو سب لو گوں سے زیا دہ جا نتے ہیں حضر ت علی بن مدینی روایت کرتے ہیں کہ میں نے سفیا ن سے پو چھا کہ ابن اسحا ق فا طمہ منذر کے پا س بیٹھے تھے ؟ تو حضر ت سفیا ن نے کہا کہ مجھ سے خو د محمد بن اسحا ق نے کہا کہ مجھ سے فا طمہ نے حد یث بیا ن کی اور انکے پا س گیا (تو پا س بیٹھنے کی حقیقت صر ف یہ تھی کہ ان سے حد یث سنی ) ابن عیینہ نے تو ابن اسحق کی تعد یل میں اما م شعبہ کا وہ شا ند ار قو ل نقل کیا کہ یہ امیر المو منین فی الحد یث ہیں (کیا جر ح ایسی ہی ہو تی ہے ؟) ہا ں آپ نے ابن اسحا ق کے با ر ے میں یہ بھی فرما یا ہے کہ لو گو ں نے ان پر قد ر ی ہو نے کا الزا م لگا یا ہے لیکن کیا یہ جر ح ہے ،اگر جر ح ہو تو بخار ی و مسلم ایسے مجر و ح روایو ں سے بھر ی پڑی ہیں ان کے بہت سے راو یوں پر قد ر کا الزا م ہے اگر یہ جر ح ہو تی تو ابن عیینہ کا ابن اسحا ق سے حد یث روا یت کرنا تو بڑی بات ہے ان کاساتھ بھی چھوڑ دیتے لیکن انہو ں نے نہ تو ان کا ساتھ چھو ڑا نہ ان کی شا گر د ی تر ک کی نہ ہی عو ام کے الزا م کی تصد یق کی یہ تہمتیں بے اصل ہیں مزید ابن منیر کا کلا م آرہا ہے ۱۲منہ۔
(۱؎ و۲و ۳ تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسۃ الر سا لہ بیرو ت ۳/ ۵۰۴و ۵۰۵)
(۲؎تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسۃ الر سا لہ بیرو ت ۳/۵۰۶)
(میز ان الا عتدا ل ترجمہ نمبر۷۱۹۷ دار المعرفہ بیرو ت ۳/۴۶۹)
(۳؎میز ان الا عتدا ل ترجمہ نمبر۷۱۹۷ دار المعرفہ بیرو ت ۳/۴۶۹)
وقا ل ابو امعا و یۃ کان اسحاق من احفظ النا س ۱؎وقا ل الا ما م ابن معین اللیث بن سعد اثبت فی یزید بن ابی حبیب من محمد بن اسحق ۲؎
اما م ابو معا ویہ نے فر ما یا :”ابن اسحا ق سب لو گو ں سے زیا دہ یا د رکھنے وا لے تھے”اور اما م ابن معین نے فر ما یا ”یزید بن ابی حبیب سے روایت کرنے والوں میں لیث بن سعد ابن اسحق سے زیا دہ ثبت ہے”
(۱؎تہذیب التہذیب ترجمہ محمد بن اسحا ق مؤ سسۃالر سا لہ بیر و ت۳/ ۵۰۴)
(۲؎ میز ان الا عتدا ل ترجمہ محمد بن اسحا ق ۷۱۹۷ دا ر المعر و فہ بیر و ت۳/ ۴۷۳)
قلت و یز ید ھذا کما قا ل ابن یو نس روی عنہ الا کا بر من اھل مصر قلت کعمر و بن الحا ر ث وحیو ۃ بن شر یح و سعید بن ابی ایو ب واللیث بن سعد نفسہ کلھم ثقات ،اثبا ت ،اجلا ،و یحیی بن ایو ب الغا فقی صد وق خمستھم من رجا ل الشیخین و عبداللہ بن لھیعۃ صد و ق حسن الحد یث علی ما استقر الا مر علیہ و عبد اللہ بن عیا ش کلا ھما من رجال مسلم و من غیر ھم سلیمن التیمی البصر ی و زید بن ابی انیسۃ ثقتا ن من رجا ل الصحیحین و عبد الحمید بن جعفر المد نی الصد و ق من ر جا ل مسلم و اٰ خر و ن کثیر و ن ففی ھذا تفضیل لا بن اسحق علیھما جمیعا ۔
ابن یو نس فر ما تے ہیں کہ ان یزید بن حبیب سے اکا بر علما ئے مصر نے روا یت کی جیسے عمر و بن حا ر ث ،حیو ۃ ابن شر یح سعید بن ابی ایو ب اور خو د لیث بن سعد ،یہ سب کے سب ثقہ او ر ثبت ہیں اور پا نچو یں یحیی ابن ایو ب غافقی صد و ق ہیں اور یہ پا نچو ں رجا ل شیخین میں سے ہیں عبد اللہ ابن لہیعہ صد و ق اورحسن الحد یث ہے ان کے با ر ے میں اسی امر پر ائمہ رجا ل کی را ئے مستقر ہو ئی اور عبد اللہ بن عیا ش یہ دو نو ں مسلم کے روا یو ں میں سے ہیں انکے علا وہ سلیمان تیمی بصر ی ،زید بن ابی انیسہ دو نو ں حضر ات ثقہ اور روا ۃ صحیحین میں سے ہیں او ر عبد الحمید بن جعفر مد نی صد و ق ر جا ل مسلم سے ہیں ان کے علا وہ اور بھی بہت سے افر اد ہیں تو اس سے ثا بت ہو ا کہ ابن اسحا ق ان سب سے افضل ہیں ۔
وقا ل الا ما م شعبۃ لو کا ن لی سلطا ن لا مر ت ابن اسحق علی المحد ثین ۳؎ وقال ایضا محمد بن اسحا ق امیر المومنین فی الحد یث ۱؎وفی روا یۃ عنہ قیل لہ لماقال لحفظہ وفی اخری عنہ لو سو د احد فی الحد ث لسو د محمد بن اسحق ۲؎
اما م شعبہ نے فر مایا ”میر ی حکو مت ہو تی تو میں ابن اسحق کو محد ثین پر حا کم بنا تا یہ تو امیر المو منین فی الحدیث ہیں ”ایک روا یت میں ہے کہ کسی نے ان سے پو چھا آپ ایسا کیو ں کہتے ہیں ؟تو حضر ت شعبہ نے فرمایا ان کے حفظ کی وجہ سے دوسر ی روا یت میں ہے حد یث وا لو ں میں اگر کو ئی سردا ر ہو سکتا ہے تو وہ محمد ابن اسحق ہیں۔
(۳؎میز ان الا عتدا ل ترجمہ محمد بن اسحا ق ۷۱۹۷ دا ر المعر و فہ بیر و ت ۳/ ۴۷۳)
(۱ و۲؎تہذیب التہذیب ترجمہ محمد اسحا ق مؤ سسۃ الر سا لہ بیر و ت ۳/ ۵۰۶)
وقا ل علی بن المد ینی مدار حد یث رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ستۃ فذکر ھم ثم قا ل فصا ر علم الستۃ عند ا ثنی عشر فذکر ابن سحق فیھم ۳؎
علی بن المد ینی سے رو ایت ہے رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حد یثیں چھ آدمیو ں میں منحصر ہیں پھر ان سب کے نام گنو ائے اور فر ما یا اس کے بعد با ر ہ آدمیو ں میں دا ئر ہ ہو ئیں اور ابن اسحا ق ان با رہ میں ہیں۔
(۳؎تہذیب التہذیب ترجمہ محمد اسحا ق مؤ سسۃ الر سا لہ بیر و ت ۳/ ۵۰۴)
وقا ل الا ما م الزھر ی لا یزا ل با لمد ینۃ علم جم ما کا ن فیھا ابن اسحا ق۴؎وقد کا ن یتلقف المغا زی من ابن اسحق ۵؎مع انہ شیخہ و شیخ الد نیا فی الحد یث وقا ل شیخ الا خر عا صم بن عمر بن قتا دہ لا یز ا ل فی النا س علم ما بقی محمد ابن اسحق ۶ وقا ل عبد اللہ بن فا ئدکنا نجلس الی ابن اسحق فا ذااخذ فی فن من العلم ذھب المجلس بذلک الفن۱۔
اما م زہر ی فر ما تے ہیں مد ینہ مجمع العلو م رہے گا جب تک یہا ں محمد بن اسحا ق قیا م پذیر رہیں گے آپ غزوا ت کی روا یتو ں میں ابن اسحق پرہی بھر و سا کر تے تھے ہر چند کہ آپ حد یث میں ان کے استا د تھے بلکہ دنیا بھر کے شیخ تھے ابن اسحق کے دو سر ے استا ذ عا صم ابن عمر بن قتا دہ نے فر ما یا جب تک ابن اسحا ق زند ہ ہیں دنیا میں تما م علو م با قی رہیں گے عبد اللہ ابن فا ئد نے کہا : ہم لو گ ابن اسحا ق کی مجلس میں ہو تے تو جس فن کا تذکر ہ شر و ع کر دیتے اس دن مجلس اسی پر ختم ہو جا تی۔
(۴؎تہذیب الکما ل تر جمہ محمد بن اسحق ۵۶۴۴ دار الفکر بیر وت ۱۶/۷۴)
(۵؎تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسۃ الر سا لہ بیر و ت۳/۵۰۵)
(۶؎تہذیب الکما ل تر جمہ محمد بن اسحق دار الفکر بیر و ت ۱۶/۷۴)
(۱؎میزا ن اعتدا ل تر جمہ محمد بن اسحق ۷۱۹۷دارالمعرفۃ بیر و ت ۳/۷۶)
وقا ل ابن حبا ن لم یکن احد با لمد ینۃ یقا ر ب ابن اسحق فی علمہ ولا یو ازیہ فی جمعہ وھو من احسن النا س سبا قا للا خبا ر ۲؎
ابن حبا ن نے کہا مد ینہ میں کو ئی علمی مجلس حد یث کی ہو یا دیگر علوم و فنو ن کی ابن اسحق کی مجلس کے ہمسر نہ ہو تی اور خبر و ں کی حسن تر تیب میں یہ اورلو گوں سے آگے تھے۔
(۲؎ تہذیب التہذیب ترجمہ محمد بن اسحق ۷۱۹۷ مؤ سسہ الر سا لہ بیر و ت ۳/ ۵۰۷)
(کتا ب الثقا ت لا بن حبا ن ترجمہ محمد بن اسحق دار الکتب العلمیۃ بیر و ت ۴/ ۲۳۶)
وقا ل ابو یعلی الخلیلی محمد بن اسحق عا لم کبیر واسع الر وا ۃ والعلم ثقۃ۳؎
ابو یعلی خلیلی نے فر ما یا محمد بن اسحق بہت بڑے عا لم حد یث تھے روا یت میں واسع العلم اور ثقہ تھے۔
(۳؎تہذیب التہذیب ترجمہ محمد بن اسحق مؤ سسۃ الر سا لہ بیر و ت ۳/ ۵۰۷)
وکذلک قا ل یحیی بن معین و یحیی بن یحیی وعلی بن عبد اللہ (ھو ابن المد ینی شیخ البخا ر ی) واحمد العجلی ومحمد بن سعد وغیر ھم ان محمد بن اسحا ق ثقہ۴؎
یحیی ابن معین یحیی ابن یحیی وعلی ابن عبد اللہ المد ینی استاد اما م بخا ری ،احمد عجلی ،محمد بن سعد وغیر ہ نے کہا محمد بن اسحق ثقہ ہیں۔
(۴؎میزا ن الا عتدال ترجمہ محمد بن اسحق ۷۱۹۷ دارالمعر فۃ بیر و ت ۳/ ۵۷۵)
(تہذیب الکما ل ترجمہ محمد بن اسحق ۵۶۴۴ دا رالمعر فۃ بیر و ت ۱۶/ ۸۰و۸۱)
وقال ابن البر تی لم ار اھل الحد یث یختلفو ن فی ثقہ و حسن حدیثہ۵؎وقال الحاکم عن البوشنجی شیخ البخاری ھو عندنا ثقۃ۶۔
حضر ت ابن البر تی نے فر ما یا علم حد یث وا لو ں میں محمد ابن اسحق کے ثقہ ہو نے میں کوئی اختلا ف نہیں اور ان کی حد یث حسن ہے اور حا کم نے بو شنجی شیخ بخا ر ی سے روا یت کی کہ ابن اسحق ہما رے نزدیک ثقہ ہیں۔
(۵؎تہذیب الکما ل ترجمہ محمد بن اسحق ۵۶۴۴ مؤ سسۃ الر سا لہ بیر وت ۳/ ۵۰۷)
(۶؎تہذیب الکما ل ترجمہ محمد بن اسحق ۵۶۴۴ مؤ سسۃ الر سا لہ بیر وت ۳/ ۵۰۷)
وقال المحقق فی فتح القدیر اما ابن اسحق فثقۃ لا شبھہ عند نا فی ذلک ولا عند محققی المحدثین ۱؎ وقا ل ایضا توثیق محمد بن اسحق و ھو الحق الابلج و ما نقل عن کلا م ما لک فیہ لا یثبت ولو صح لم یقبلہ اھل العلم ۲؎الخ وقد اطال الامام البخا ر ی فی تو ثیقہ فی جز ء القر اء ۃ ولم یو ردہ فی الضعفاء لہ و انکر صحۃ ما یذکر فیہ من کلا م ما لک وما نقل عن علی ما یشعر با نکا ر صحتہ ما عن ھشام۔
محقق علی الا طلا ق نے فتح القد یر میں فر ما یا ابن اسحق ثقہ ہیں ثقہ ہیں اس میں نہ ہمیں شبہہ ہے نہ محققین محد ثین کو شبہہ ہے محمد ابن اسحق کی تو ثیق حق صر یح ہے اور اما م ما لک سے ان کے با رے میں جو کلا م مروی ہے وہ صیح نہیں اور بر تقد یر صحت روا یت ان کے کلا م کو کسی محد ث نے تسلیم نہیں کیا اور اما م بخا ری نے تو جز ء القر اء ۃ میں ان کی تو ثیق میں طو یل کلا م فر ما یا اور ان کا تذکر ہ اپنی کتا ب ”ضعفا ء ”میں بھی نہیں کیا اور ان کی جر ح میں اما م ما لک کا جو کلا م نقل کیا گیا ہے اس کی صحت سے انکا ر کیا ہے اور حضر ت علی (کر م اللہ وجہہ الکر یم ) سے ان کے با رے میں ہشا م سے جو مر وی ہے اس کا بھی انکا ر کیا ہے۔
(۱؎فتح القد یر کتا ب الصلو ۃ با ب صلو ۃ الو ترمکتبہ نو ریہ رضویہ سکھر ۱/۳۷۰)
(۲؎فتح القد یر کتا ب الصلو ۃ ۱/۲۰۰ وتحفۃ الا حو ذی دا ر احیا ء التر ا ث العر بی بیر وت۲/۲۳۹)
وقد بینا وجھہ فی تحر یراتنا الحد یثیۃ واوردہ ولدی المو لو ی مصطفی رضا خا ں حفظہ اللہ تعالی فی
کتا بہ ”وقا یۃ اھل السنۃ عن مکر دیو بند والفتنۃ”صنفہ فی الرد علی وھا بیہ دیو بند اذخا لفو ا فی ھذہ المسا لۃ وھم الذین حکم سا دا تنا علما ء الحر مین الشر یفین جمیعا بکفر ھم و ارتد ادھم وا ن من شک فی کفر ھم وعذابھم فقد کفر۳ لسبھم اللہ رب العلمین و محمدا سید المر سلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وعلی جمیع النبیین۔
ان سب با تو ں پر ہم نے اپنی تحر یر وں میں جو علم حد یث سے متعلق ہیں روشنی ڈا لی ہے اور ان سب کو میرے عزیز فر زند مو لو ی مصطفی رضا خا ں (سلمہ اللہ تعا لی) نے اپنی کتا ب ”وقا یہ اہل السنہ عن مکر دیو بند والفتنہ”میں جو وھا بیہ دیو بند یہ کے رد میں ہے بیا ن کیا ہے کہ انہو ں نے بھی اس مسئلہ میں مخالفت کی تھی اور اہل دیو بند پر تو ہما رے علما ئے حر مین طیبین نے کفر کا فتو ی دیا ہے اور ان کے کفر میں شک کر نیو الوں کی بھی تکفیر فر ما ئی ہے کیو نکہ انہو ں نے پر وردگا ر عا لم اور سید المر سلین محمد مصطفی کو گا لی دی ہے اللہ تعالی آپ پر اور تما م نبیو ں پر درود و سلا م نا زل فرما ئے۔
(۳؎حسام الحرمین علی منحر الکفر و المین مکتبہ نبویہ لاہورص۱۳)
ثم اجا ب عنہ البخا ری فا جاد و اصا ب وقد قال فیما قا ل ولم ینج کثیر من النا س من کلام بعض النا س فیھم نحو ما یذکر عن ابراہیم من کلامہ فی الشعبی و کلام الشعبی فی عکر مۃ ولم یلتفت اہل العلم فی ھذا النحو الا ببیان وحجۃ ولم تسقط عد ا لتھم الا ببر ھا ن و حجۃ اھ ۱؎
اما م بخا ری رحمۃ اللہ تعا لی عنہ نے بے سند تنقید وں کا کیا خو ب رد فر ما یا ہے آپ فر ما تے ہیں ایسی تنقید وں سے کم لو گ ہی کا میا ب ہو ئے جیسے اما م شعبی کے با ر ے میں اما م ابر ہیم کاکلا م حضرت عکرمہ کے با رے میں امام شعبی کا کلا م اہل علم میں سے کسی نے اس قسم کی تنقید وں کی طر ف کو ئی توجہ نہ کی جب تک طر ح صر یح اورمدلل نہ ہو اور ایسی تنقید و ں سے کسی کی عد الت پر اثر نہیں پڑتا ۔
(۱؎تہذیب الکما ل بحو ا لہ البخا ری تر جمہ محمد بن اسحق ۵۶۴۴ دار الفکر بیر و ت ۱۲/۷۶و۷۷)
(تہذیب التہذیب بحو ا لہ البخا ری تر جمہ محمد بن اسحق مؤ سسہ الر سا لہ بیروت ۳/۵۰۵)
وحسن الا ما م احمد و یحیی بن معین و محمد بن عبد اللہ بن نمیر و محمد بن یحیی کلھم شیو خ البخا ری و ابو داؤد والمنذری و الذھبی حد یثہ و عدہ الا ما م الذ ھبی ثم السیو طی فی اعلی مر اتب الحسن ،قا ل فی التد ر یب الحسن ایضا اعلی مراتب کالصحیح ، قال الذھبی فاعلی مراتبہ بھزبن حکیم عن ابیہ عن جدہ و عمر وبن شعیب عن ابیہ عن جدہ و ابن اسحا ق عن التیمی وامثال ذلک مما قیل انہ صحیح و ھو ادنی مر ا تب الصحیح ۱؎ اھ
اما م احمد ،اما م یحیی بن معین اورمحمد بن عبد اللہ بن نمیر و محمد ابن یحیی یہ سب اما م بخا ری کے استا ذ ہیں اور ابو داود ،منذری اور ذہبی ان سب لو گو ں نے محمد بن اسحا ق کی حد یث کو حسن قر ا ر دیا ہے اور اما م ذہبی اور سیو طی نے ان کو حسن کے اعلی مدارج میں گر دا نا ہے تد ریب میں ہے ”صحیح کی طر ح حسن کے بھی چند در جے ہیں ”امام ذہبی فر ما تے ہیں کہ اعلی در جہ کی حسن بہز ابن حکیم عن ابیہ عن جد ہ اور عمر و بن شعیب عن ابیہ عن جدہ اور ابن اسحق عن تمیی اور ان کے امثا ل ہیں اور اسی کو ادنی در جہ کی صحیح بھی قر ا ر دیا ہے۔
(۱؎تد ریب الر ا و ی فی شر ح تقر یب النو وی النو ع الثا نی قد یمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/۱۲۸)
صححہ ابن المد ینی والترمذی و ابن خزیمۃ و الامام الطحا و ی وقد حسن الدا ر قطنی بعض ما تفر دبہ ابن اسحق وصححہ الحا کم (عہ) وقد تبعھما علیہ البیھقی ، ووصفہ المنذری و الذھبی با حد الا ئمۃ الا علام و انہ صا لح الحد یث ما لہ ذنب الا ما حشا فی ا لسیر ۃ من منا کیر ۱؎
چنا نچہ ابن مدینی ،تر مذی ابن خز یمہ اور اما م طحا وی نے اس کو صحیح کہا اور بعض وہ حد یثیں جن کے تنہا محمد بن اسحق راوی ہیں انہیں دار قطنی نے حسن کہا ،اور حا کم نے صحیح فر ما یا اور ان دو نو ں حضر ا ت کی اما م بیہقی نے اتبا ع کی اما م منذری اور ا ما م ذہبی نے محمد بن ا سحا ق کو ائمہ اعلا م میں شما ر کیا اور صا لح الحد یث قر ار دیا اور فرما یا کہ ان کا اس کے سو ا کو ئی گنا ہ نہیں کہ انہو ں نے سیر ت میں منکر حد یثیں در ج کیں۔
عہ: اورد فی السنن حدیث احمد بن خالد عن ابن اسحق عن مکحول عن محمود بن الربیع عن عبادۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ فی القراءۃ خلف الامام وقال ،قال علی بن عمر ھذا اسناد حسن ۲ واقرہ البیہقی ، وروی فی باب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حدیث ابی مسعود رضی اللہ تعالٰی : ان رجلا قال : یارسول اللہ ! اما السلام علیک فقد عرفناہ ،فکیف نصلی علیک اذا نحن صلینا فی صلوتنا ، وقال : قال الدارقطنی : حسن متصل ۳،واقرہ البیہقی وقال ابن الترکمانی لااعلم احدا روی ھذا الحدیث بھذا اللفظ الا محمد بن اسحاق ۴ واوردہ ایضا فی باب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی التشھد ثم حکی الحاکم تصحیحہ ، ثم عن الدارقطنی تحسینہ واقرھما۔۱۲منہ
سنن میں حدیث احمد بن خالد ، ابن اسحاق، مکحول ، محمود بن ربیع ،عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ باب قرأۃ خلف الامام میں نقل کرکے فرمایا علی بن عمر نے اس سند کوحسن قرار دیاہے ، اور امام بیہقی نے اس کو ثابت رکھا ہے اور باب وجوب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کی اس حدیث کو نقل کیا: ایک شخص نے سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیک وسلم ! سلام کو تو ہم نے خوب سمجھ لیا ہے کہ نماز میں کیسے پڑھنا چاہئے اب یہ فرمائیے کہ جب ہم آپ پر درود پڑھیں اپنی نمازوں میں توکیسے پڑھیں ۔ اورفرمایا کہ دار قطنی اس کوحسن متصل قرار دیتے ہیں اور بیہقی اس کو برقرار رکھتے ہیں ،ابن ترکمانی کہتے ہیں یہ حدیث ان الفاظ میں ہمارے علم میں ابن اسحاق کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی ،پھر بھی حدیث باب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی التشہد میں نقل کرکے کہا حاکم نے اس کی تصحیح کی اور دار قطنی نے تحسین ، اورخود اس کو برقرار رکھا،۱۲ منہ
( ۱؎ میزا ن الا عتدا ل تر جمہ محمد بن اسحا ق۷۱۹۷ دا را لمعر فۃ بیر و ت ۳/۴۶۹)
(۲ السنن الکبری کتاب الصلوۃ ۲/ ۱۶۴ و ۲ / ۳۷۸ دار صادر بیروت )
(۳الجوھر النقی بذیل السنن الکبری با ب وجود الصلوۃ علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۲/ ۳۷۸،۳۷۹ )
واوردہ الحا فظ العسقلا نی فی طبقا ت المد لسین فیمن لم یضعف بشیئ لا عیب علیہ الا التد لیس ۔ حا فظ ابن حجر نے انہیں مد لسین کے طبقا ت میں ذکر کیا جن میں تد لیس کے علاوہ کو ئی ضعف ہے نہ علت۔
حا فظ ابن حجر نے انہیں مد لسین کے طبقا ت میں ذکر کیا جن میں تد لیس کے علاوہ کو ئی ضعف ہے نہ علت۔
وقا ل اما م النو وی لیس فیہ الا التدلیس وقا ل محمد بن عبد اللہ بن نمیر رمی با لقدر و کا ن ابعد النا س منہ ۲؎
اما م نو و ی بھی فر ما تے ہیں کہ ان میں تد لیس کے علا وہ کو ئی کمی نہیں محمد بن عبد اللہ نمیر ی نے فر ما یا ان پہ قدر یہ ہو نے کا الزا م ہے لیکن و ہ اس سے کو سو ں دو ر ہیں۔
(۲؎ میزا ن الا عتدا ل تر جمہ محمد بن اسحا ق ۷۱۹۷ دا را لمعر فۃ بیر و ت ۳/۴۶۹)
(تہذیب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحا ق مؤ سسۃ الر سا لہ بیر وت ۳/۵۰۵)
وقا ل یعقو ب بن شیبہ سا لت ابن المد ینی عن ابن اسحق قا ل حد یثہ عند ی صحیح قلت فکلام ما لک فیہ قا ل ما لک لم یجا لسہ و لم یعر فہ۳؎
یعقوب ابن شیبہ فر ما تے ہیں میں نے ان کے با رے میں علی ابن المد ینی سے سو ا ل کیا تو فر مایا کہ میر ے نز دیک ان کی حد یثیں صحیح ہیں میں نے اما م ما لک کی تنقید و ں کا ذکر کیا تو فر ما یا وہ نہ ان کے سا تھ رہے نہ انہیں پہچانا ۔
(۳؎میزان الا عتد ال تر جمہ محمد بن اسحا ق دار المعرفۃ بیر و ت ۳/۴۷۵)
وذکر ہ ابن حبا ن فی ثقا تہ و ان ما لکا رجع عن الکلا م فی ابن اسحق و اصطلح معہ و بعث الیہ ھد یۃ۴؎
ابن حبا ن نے انہیں ثقا ت میں شما ر کیا اور فر ما یا اما م ما لک نے ابن اسحق کی جر ح سے رجو ع فر ما یا اور ان سے صلح کر لی اور انہیں تحفہ بھیجا ۔
(۴؎فتح القد یر کتا ب الصلو ۃ مکتبہ نو ر یہ سکھر ۱/۲۰۰ و تحفۃ الاحو ذی کتا ب الصلو ۃ داراحیا ء التراث العر بی بیر وت ۲/۲۳۹)
وقا ل مصعب الز بیری و دھیم وابن حبا ن لم یکن یقد ح فیہ من اجل الحد یث ۱؎وقد تکفل با لجو ا ب عنہ الا ئمۃ احمد و ابن المد ینی و البخا ر ی و ابن حبا ن و المزی و الذھبی و العسقلا نی والمحقق حیث اطلق کما ھو مفصل مع زیا دات کثیرۃ فی کتا ب ولدی المحفو ظ بکر م اللہ تعا لی ”وقا یۃ اھل السنۃ ”وللہ الحمد والمنۃ۔
مصعب زبیر ی ،دہیم اور ابن حبا ن نے کہا ان پر حد یث کی وجہ سے جر ح نہیں کی گئی اور ائمہ میں احمد ،ابن مد ینی ،بخا ر ی ،ابن حبا ن مزی ،ذہبی اور محقق علی الا طلا ق نے ان کی طر ف سے دفا ع کیا ۔یہ اور مزید اضا فے میر ے فر زند سلمہ کی کتا ب ”وقا یہ اہل سنۃ”میں ہیں و الحمد للہ و المنۃ۔
(۱؎تہذیب التہذیب بحو الہ ابن حبا ن تر جمہ محمد بن اسحا ق مؤ سسہ الر سا لہ بیر و ت ۳/۵۰۷)
(کتا ب الثقا ت لا بن حبا ن تر جمہ محمد بن اسحا ق ۴۰۶۶ دار الکتب العلمیہ بیر وت ۴/۲۳۶)
نفحہ ۲: من الجھل الوخیم رمیہ با لر فض اغتر اراً بقول التقر یب رمی بالتشیع ۲؎ وما بین التشیع و الرفض کما بین السماء و الار ض فر بما اطلقو ا التشیع علی تفضیل علی علی عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہما وھو مذھب جما عۃ من ائمۃ اھل السنۃ لا سیما ائمۃ الکو فۃ قا ل صا حب التقر یب نفسہ فی ھد ی السا ر ی التشیع محبۃ علی و تقد یمہ علی الصحا بۃ فمن قد مہ علی ابی بکر و عمر فھو غال فی تشیعہ و یطلق علیہ را فضی والا فشیعی فا ن ا نضا ف الی ذلک السب او التصر یح با لبغض فغا ل فی الر فض۱؎اھ وتمام تحقیقہ فی تحر یر اتنا الحد یثیۃ۔
نفحہ ۲: تقر یب کے قو ل ”ان پر تشیع کی تہمت لگا ئی گئی ہے”سے دھو کا کھا کر ان پر رفض کا عیب لگا نا بد بو دار جہا لت ہے رفض و تشیع میں زمین و آسما ن کا فر ق ہے بسا اوقا ت لفظ تشیع کا اطلا ق حضر ت مو لا علی کو عثمان غنی رضی اللہ تعا لی عنہم پر فضیلت دینے پر ہو تا ہے جبکہ یہ ائمہ با لخصو ص اعلا م کو فہ کا مذہب ہے صا حب تقر یب نے خو د بھی ”ہد ی السا ری ”میں فر ما یا تشیع حضر ت علی کی صحا بہ سے زا ئدمحبت کا نا م ہے تو اگر کو ئی آپ کو ابو بکر و عمر پر فضیلت دیتا ہے تو وہ غا لی شیعہ ہے اوراس کے ساتھ گا لی اور بغض کا اظہا ر کر ے تو غا لی را فضی ہے۔اور اس کی پو ر ی تحقیق ہما ر ی تحر یر ا ت حد یثیہ میں ہے۔
(۲؎تقر یب التہذیب تر جمہ محمد بن اسحا ق ۵۷۴۳ دار الکتب العلمیہ بیر وت ۲/۵۴)
(۱؎ھد ی السا ری مقد مہ فتح البا ری فصل فی تمییز اسبا ب الطعن فی المذکو رین مصطفی البا بی مصر ۲/۲۳۱)
وفی المقا صد للعلا مۃ التفتا زا نی الا فضلیۃ عند نا بتر تیب الخلا فۃ مع تر دد فیما بین عثمان وعلی رضی اللہ تعا لی عنہما ۲؎
مقا صد علامہ تفتازانی میں ہے ہما رے نز دیک خلفا ئے اربعہ میں فضلیت خلا فت تر تیب پر ہے حضر ت عثمان و علی رضی اللہ تعالی عنہما میں تردد کے سا تھ۔
(۲؎المقا صد علی ہا مش شر ح المقا صد البحث السا دس الافضلیۃ بتریب الخلا فۃ دار المعا ر ف النعما نیہ لا ہور ۲/۲۹۸)
وفی شر حہا لہ قا ل اھل السنۃ الا فضل ابو بکر ثم عمر ثم عثما ن ثم علی و قد ما ل بعض منھم الی تفضیل علیّ علی عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہما والبعض الی التو قف فیما بینھما ۳؎ اھ
شر ح مقا صد للتفتا زانی میں ہے اہل سنت نے کہا کہ سب سے افضل ابو بکر پھر عمر پھر عثما ن پھر علی اور بعض حضر ت علی کو عثما ن سے افضل ما نتے ہیں رضو ا ن اللہ تعا لی علیہم اجمعین اور بعض ان دو نو ں کے در میا ن توقف کے قا ئل ہیں۔
(۳؎ شر ح المقا صد البحث السا دس الافضلیۃ بتر یب الخلا فۃ دار المعا ر ف النعما نیہ لا ہور ۲/ ۲۹۸)
وفی الصوا عق لا ما م ابن حجر جز م الکو فیو ن و منھم سفیان الثو ر ی بتفضیل علیٍّ علی عثمان و قیل با لوقف عن التفاضل بینھما وھو روایۃ عن ما لک ۴؎، اھ
اما م ابن حجر مکی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ کی صوا عق محر قہ میں ہے ائمہ کو فہ (انہیں میں سفیا ن ثو ر ی ہیں) نے حضر ت علی کو حضر ت عثما ن پر بالیقین افضل گر دا نا اور اما م ما لک وغیر ہ سے تو قف مر و ی ہے۔
(۴؎الصو ا عق المحر قہ البا ب الثا لث الفصل الا ول مکتبہ مجید یہ ملتا ن ص۵۷)
وفی تہذیب التہذیب فی تر جمۃ الا ما م الا عمش کا ن فیہ تشیع ۵؎ ، اھ
تہذیب التہذیب میں حضر ت اما م اعمش کے حا لا ت میں تحر یر ہے کہ ان میں تشیع تھا ۔
(۵؎تہذیب التہذیب تر جمہ سلیما ن بن مہران المعر و ف با لاعمش مو سسۃ الر سا لہ بیر و ت ۲/۱۱۰)
وفی شر ح الفقہ الا کبر لعلی قا ر ی رو ی عن ابی حنیفۃ تفضیل علی علٰی عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہما و الصحیح ما علیہ جمہو ر اھل السنۃ وھو ظا ہر من قو ل ابی حنیفۃ رضی اللہ تعا لی عنہ علی ما رتبہ ھنا وفق مرا تب الخلا فۃ ۱؎۔ اھ
فقہ اکبر ملا علی قا ر ی میں اما م صا حب کے با رے میں لکھا ہے حضر ت ابو حنیفہ رضی اللہ تعا لی عنہ سے حضرت عثما ن غنی پر حضر ت علی کی فضیلت مر و ی ہے (رضی اللہ تعا لی عنہ )لیکن صحیح وہی ہے جس پر جمہو ر اہلسنت ہیں اور فقہ اکبر میں اس کو تر تیب خلا فت کے مو افق رکھنے سے معلو م ہو تا ہے کہ یہی آپ کا قو ل بھی ہے۔
(۱؎ منح الر وض الا زہر شر ح الفقہ الا کبر افضل النا س بعدہ الخ دا رالبشا ئر الا سلا میہ بیر و ت ص۱۸۷)
ثم لا یذ ھب عنک الفر ق بین شیعی و رمی با لتشیع و کم فی الصحیحین ممن رمی بہ وقد عد فی ھد ی السا ر ی عشر ین منھم فی مسا نید صحیح البخا ر ی فضلا عن تعلیقا تہ ،بل فیہ مثل عبا د بن یعقو ب را فضی جلد ثم الشبھۃ لا قیمہ لہا را سا فکم فی الصحیحین ممن رمی با نو ا ع البد ع وقد تقر ر عند ھم ان المبتدع تقبل روا یۃ اذا لم یکن دا عیۃ۔
پھر لفظ شیعی اور رمی با لتشیع کا فر ق بھی ملحو ظ رہنا چا ہیے ۔بخا ری کے کتنے ہی ایسے راوی ہیں جن پر تشیع کا الزا م ہے ۔”ہد ی السا ری ”میں ایسی بیس سند و ں کی تفصیل ہے جو خا ص مسا نید بخا ری میں ہیں تعلیقات کا تو ذکر ہی الگ رہا بلکہ روا ۃ بخا ر ی میں عبا د بن یعقوب جیسا را فضی ہے جس پر کو ڑے کی حد جا ری گئی تھی اور جرح میں شبہہ کی تو کو ئی اہمیت نہیں خو د بخا ری ومسلم میں بہت سے روا ی ہیں جن پر انو ا ع واقسا م کی بدعت کا شبہہ کیا گیا اور اصو ل محد ثین کی رو سے خو د بد عتی بھی اپنے مذہب نا مہذب کا دا عی و مبلغ نہ ہو تو اس کی روایت مقبو ل ہے۔
نفحہ ۳: اصل الحد یث روینا ہ فی المسند حدثنا یعقو ب حد ثنا ابی عن ابی اسحق قا ل حد ثنی محمد بن مسلم بن عبید اللہ الزھر ی عن السا ئب بن یزید ابن اخت نمر۱؎فقد صر ح بالسما ع فلا علیک من عنعنۃ ھنا ھذا وجہ ۔
نفحہ ۳: اصل حد یث جسے ہم نے روا یت کیا مسند احمد ابن حنبل میں اس سند کے سا تھ ہے یعقوب ،ابی ،ابن اسحق حد ثنی محمد بن مسلم عبید اللہ الز ہر ی سا ئب بن یز ید یہا ں یہ حد یث لفظ حد ثنی سے مر و ی ہے تو اب اس روا یت پر نہ تد لیس کا اعتر ا ض ہو سکتا ہے نہ ارسا ل کا ایک جو اب تو یہ ہو ا۔
(۱؎مسند احمد بن حنبل حد یث السا ئب بن یزید المکتب الا سلا می بیر و ت ۳/۴۴۹)
وثا نیا ابن اسحق کثیر الروا یۃ عن الزھر ی والعنعنہ عن مثل الشیخ تحمل علی السما ع قا ل الذھبی فی مثلہ متی قا ل ”نا”فلا کلا م و متی قا ل ”عن”تطر ق الیہ احتما ل التدلیس الا فی شیو خ لہ اکثر عنہم فا ن روا یتہ عن ھذا الصنف محمو لۃ علی الا تصا ل ۲؎۔ اھ
دوسرا یہ ہے کہ اما م محمد بن اسحق اما م زہر ی سے کثیر الروا یت ہیں اور ایسے راوی کا عنعنہ بھی سما ع پر محمو ل ہو تا ہے اما م ذہبی فر ما تے ہیں را وی جب روا یت میں لفظ عن سے کسی با ت کا اضا فہ کر ے تو تد لیس کا احتما ل ہو تا ہے مگر جب روا ی ایسے شیخ سے روا یت کر ے جس سے وہ کثیر الر وا یت ہو تو یہ روا یت متصل ہو گی ۔
(۲؎میزا ن الا عتد ال تر جمہ ۳۵۱۷ سلیما ن بن مہر ان دارالمعر فۃ بیروت ۲/۲۲۴)
لا سیما ابن اسحق فقد عر ف منہ النزو ل فی اشیا خ اکثر عنھم قال ابن المد ینی حد یث ابن اسحق لیتبین فیہ الصد ق وھو من اروی النا س عن سا لم بن ابی النضر و روی عن رجل عنہ وھو من اروی النا س عن عمرو بن شعیب و روی عن رجل عن ایو ب عنہ ۱؎، اھ
اور ابن اسحق کے با رے میں معر و ف مشہو ر ہے کہ وہ ایسے اسا تذہ کی حد یثو ں کو بطو ر نز و ل بھی روا یت کر تے جن سے وہ اکثر روا یت کر تے ہیں علی بن المد ینی فر ما تے ہیں محمد بن اسحاق کی حدیثوں میں صدق ظاہر ہے وہ سا لم بن ابی نضر سے بنسبت ان کے دو سرے شا گر دوں کے کثیر الروایت ہیں پھر بھی ان کی روایت عن رجل عن سا لم (یعنی اپنے سے کم د رجہ کے آدمی کے و اسطہ سے بھی سا لم سے ان کی روا یت ہے) اسی طر ح وہ عمر و بن شعیب کے شا گردوں میں بھی اروی النا س عنہ ہیں اور انکی روا یت عن رجل عن ایو ب عن عمر و بن شعیب بھی ہے۔
(۱؎تہذیب التہذیب تر جمہ بن اسحا ق مو سسۃ الر سا لہ بیر و ت ۳/۵۰۶)
قلت و کذا ھو من اروی النا س عن ابن شہا ب وقد رو ینا فی کتا ب الخر ا ج للا ما م ابی یو سف حد ثنی محمد بن اسحق عن عبد السلا م عن الز ھر ی ۲؎
میں کہتا ہو ں ا بن اسحا ق اما م زہر ی کے بھی ارو ی النا س شا گر د ہیں مگر قا ضی ابو یو سف رحمۃ اللہ تعا لی علیہ ”کتا ب الخر ا ج”میں فر ما تے ہیں مجھ سے محمد بن اسحق نے بیا ن کیا کہ ان سے عبد السلا م نے رو ا یت کی اور ان سے اما م زہر ی نے (تو ابن اسحا ق کی یہ رو ا یتیں لفظ عن سے ہو نے کے با و جو د تد لیس نہیں ہے روا یت متصل ہے)
(۲؎کتا ب الخر ا ج احا دیث تر غیب و تحضیض دا رالمعر فۃ بیر و ت ص۹ )
و ثالثا ھذا کلہ علی طر یقۃ ھٰو لا ء المحد ثین اما علی اصو لنا معشر الحنفیۃ و الما لکیۃ والحنبلیۃ الجمہو ر فسؤ ا ل العنعنۃ سا قط عن را سہ فا ن مبنا ہ علی شبھۃ الا رسا ل و حقیقتہ مقبو لۃ عند نا و عند الجمہو ر فکیف بشبہتہ ۔
تیسر ا جو اب : محمد ابن اسحا ق کی تد لیس او ر عنعنہ کے با ر ے میں اب تک جو بحث تھی وہ ان محد ثین کے مسلک کی بنیا د تھی جو حد یث کی جر ح میں عنعنہ اور تد لیس کا لحا ظ کر تے ہیں لیکن ہم حنفیو ں ،ما لکیو ں ،حنبلیو ں جمہو ر علما ء کے اصو ل پر عنعنہ کا لحا ظ ہی اصلاً ساقط ہے کیونکہ عنعنہ کے لحاظ کی وجہ تو یہ شبہہ ہے کہ تد لیس حد یث کے مر سل ہو نے کا ڈ ر ہے اور ہما ر ے اورجمہو ر کے نزد یک تو خود ارسا ل بھی سند کا عیب نہیں اور حدیث مرسل بھی مقبول ہے تو پھر شبہ ارسال سے حد یث پر کیا اثر پڑے گا ۔
قا ل الا ما م الجلیل السیو طی فی التد ریب فی عنعنعۃ المد لس ،قا ل جمہو ر من یقبل المر ا سیل تقبل مطلقا ۱؎، اھ
و فیہ عن الا ما م ابن جر یر الطبر ی اجمع التا بعو ن با سر ھم علی قبول المر سل و لم یات عنھم انکا رہ ولا عن احد من الائمہ بعد ھم الی را س الما ئتین ۲؎
اما م جلا ل الد ین سیو طی نے تد ریب میں فر ما یا جمہو ر علما ئے کر ا م جو مرا سیل قبو ل کر تے ہیں وہ عنعنہ کو بھی قبو ل کر تے ہیں اسی میں اما م جر یر طبر ی سے منقو ل ہے کہ جملہ تا بعین نے با لکلیہ مر اسیل قبو ل کر نے پر اجما ع کیا ہے نہ تو تا بعین نے مر ا سیل کا انکا ر کیا نہ ان کے بعد ۲۰۰ ہجر ی تک کسی اور نے۔
(۱؎تد ریب الرا وای فی شر ح تقر یب النووی النو ع الثا نی عشر قدیمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/۱۹۰)
(۲؎تد ریب الرا وای فی شر ح تقر یب النووی النو ع التاسع قدیمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/۱۶۳)
و فی صحیح مسلم و جا مع التر مذ ی عن محمد بن سیر ین التا بعی قا ل لم یکو نو ا یسئلو ن عن الا ستا ذ فلما وقعت الفتنۃ قا لو ا سمو ا لنا رجالکم۳؎۔ اھ
صحیح مسلم اور جا مع میں محمد بن سیر ین تا بعی سے ہے کہ لو گ احا دیث کی سند کے با رے میں کسی سے سو ال ہی نہیں کر تے تھے جب فتنہ وا قع ہو ا تو سو ال کیا جا نے لگا کہ اپنے را ویو ں کو ہم سے بیا ن کر و ۔
(۳؎صحیح مسلم با ب بیان ان الا اسنا د من الد ین الخ قدیمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/۱۱)
قلت و ھذا زید بن اسلم الا ما م مو لی امیر المو منین الفا ر و ق الذی کان الا ما م الا جل زین العابدین یجلس الیہ و یتخطی مجا لس قو مہ فقا ل لہ نا فع ابن جبیر بن مطعم تخطی مجا لس قو مک الی عبد عمر بن الخطا ب ؟فقا ل رضی اللہ تعا لی عنہ انما یجلس الر جل الی من ینفعہ فی دینہ روا ہ البخا ر ی فی تا ریخ۴؎ ،زید ھذا حد ث بحد یث فقا ل لہ رجل یا ابا اسامۃ عمن ھذا فقال یاابن اخی ما کنا نجالس السفہاء ۱ ،قا ل لہ العطا ف بن خا لد۔
میں کہتا ہو ں کہ اما م زیدبن اسلم جو امیر المو منیبن عمر فا رو ق رضی اللہ تعا لی عنہما کے آزاد کر دہ غلا م تھے ان کے پا س اما م جلیل زین العا بد ین بیٹھا کر تے تھے اور اپنی قو م کی مجلس چھو ڑ دیتے تھے نا فع بن جبیر بن مطعم نے آپ سے کہا آپ اپنے لوگو ں کی مجلس چھو ڑ کر عمر بن خطا ب (رضی اللہ تعا لی عنہ ) کے غلا م کی محفل میں بیٹھتے ہیں ؟ آپ نے فر ما یا آدمی و ہیں بیٹھتا ہے کہ جہا ں اس کے دین کا فا ئد ہ ہو تا ہے (تا ر یخ بخا ر ی) انہیں زید نے ایک حد یث بیا ن کی ایک آدمی نے ان سے کہا ابا اسامہ یہ کس سے آ پ بیا ن کر رہے ہیں آپ نے فر ما یا اے بھتیجے۔ ہم سفہا ء کے سا تھ نہیں بیٹھتے یہ اسے عطا ف بن خا لد نے کہا ۔
(۴؎تا ر یخ البخا ری با ب الا لف تر جمہ زین بن اسلم ۱۲۸۷ دار البا ز للنشر و التو زیع مکۃ المکر مۃ ۳/۳۸۷)
(۱؎تہذیب التہذ یب تر جمہ زیدبن اسلم مؤ سسۃ الر سا لہ بیر و ت ۱/۶۵۸)
قلت و قد اکثر الا رسال ائمۃ التا بعین سعید بن المسیب و القا سم و سالم و الحسن وا بو العا لیۃ و ابر ا ہیم النخعی و عطا ء بن ابی ربا ح و مجا ہد و سعید بن جبیر و طا ؤ س و ا لشعبی وا لا عمش و الزھر ی و قتا د ۃ و مکحو ل و ابو سحق السبیعی و ابرا ہیم التیمی و یحیی بن الکثیر و اسماعیل بن ابی خا لد وعمر و بن دینا ر و معٰو یۃ بن قرۃ و زیدبن اسلم و سلیما ن التیمی ثم الا ئمۃ ما لک ومحمد و السفیا نا ن افترا ھم فعلوہ لترد احا دیثھم وفی مسلم الثبو ت و شر حہ فو ا تح الر حمو ت مر سل الصحا بی یقبل مطلقا اتفا قا وا ن من غیر ہ فالاکثر و منھم الا ئمۃ الثلثۃ ابو حنیفۃ و ما لک و ا حمد رضی اللہ تعا لی عنہم یقبل مطلقا و الظا ہر یۃ و جمہو ر المحد ثین الحا دثین بعد الما ئتین لا۲؎، اھ
میں کہتا ہو ں علما ئے تا بعین مثلا سعید بن مسیب، قا سم ، سا لم، حسن ،ابو العا لیہ ،ابر اہیم نخعی ،عطا ء بن ابی رباح ،مجا ہد ،سعید بن جبیر ،طا ؤ س ،اما م شعبی ،اعمش ،زہر ی ،قتا دہ ،مکحو ل ،ابو ا سحق سبیعی ،ابر ا ہیم تیمی ،یحیی بن کثیر ،اسمعیل بن ابی خالد ،عمر و بن دینا ر ،معا و یہ بن قر ہ ،زید بن اسلم،سلیمن تیمی ،اما م ما لک و محمد اور سفیانین ،کیا یہ سب حضر ا ت اس لیے ارسا ل کر تے تھے کہ ان کی حد یثیں رد کر دی جا ئیں مسلم الثبو ت اور اس کی شر ح فو اتح الر حمو ت میں صحا بہ کر ا م کے مر ا سیل با تفا ق ائمہ مطلقا مقبو ل ہیں اور دو سر و ں کے مرا سیل با تفا ق ائمہ جن میں اما م ابو حنیفہ ،اما م ما لک ،اما م احمد بن حنبل شا مل ہیں یہ سب لو گ اسے مطلقا مقبو ل رکھتے ہیں ہا ں ظا ہریہ اور جمہو ر محد ثین جو ۲۰۰ ہجر ی کے بعد ہو ئے قبو ل نہیں کر تے ۔
(۲؎فو ا تح الر حمو ت شر ح مسلم الثبو ت بذیل المستصفی الا صل الثا نی منشو را ت الشر یف الر ضی قم ایر ا ن ۲/۱۷۴ )
وفی فصو ل البد ا ئع للعلا مۃ مو لی خسر و طعن المحد ثین بما لا یصلح جرحا لا یقبل کا لطعن با لتد لیس فی العنعنۃ فانھا و ھم شبھۃ الا رسا ل و حقیقۃ لیست بجر ح ۱؎، اھ
فصو ل البد ا ئع مو لی خسر و میں ہے اور محد ثین کا ایسا طعن جو جر ح بننے کی صلا حیت نہیں رکھتا جیسے عنعنہ میں تد لیس کا طعن کہ اس میں شبہہ ارسا ل ہے حا لا نکہ خو د ارسا ل اسبا ب طعن سے نہیں ہے۔
(۱؎فصو ل البد ا ئع )
قلت : وروی ابو داود عن عبد اللہ بن حنظلۃ بن ابی عا مر ان رسو ل اللہ امر بالو ضو ء عند کل صلو ۃ فلما شق ذلک علیہ امر بالسو ا ک لکل صلو ۃ ۲؎ فیہ ایضا ابن اسحق و قد عنعن و مع ذلک قا ل الشا می فی سیر ت اسنا دہ جید و فیہ اختلا ف لا یضر۳؎، اھ
چوتھا جواب: ابو داو د رضی اللہ تعا لی عنہ نے حضر ت حنظلہ ابن ابی عا مر سے روا یت کی کہ رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم کو ہر وقت و ضو کا حکم دیا گیا تھا لیکن یہ جب آپ پر مشقت ڈا لنے لگا تو ہر نما ز کے وقت آپ کو مسو ا ک کر نے کا حکم ہو ا اس حد یث میں بھی ابن اسحق نے لٖفظ عن سے روا یت کی اس کے با و جو د اما م شا فعی اپنی سیر ت میں کہتے ہیں اس کی سند صحیح ہے اس میں اختلا ف ہے جس سے کو ئی ضر ر نہیں۔
(۲؎سنن ابی داو د کتا ب الطہا رۃ با ب السو ا ک آفتا ب عا لم پر یس لا ہو ر ۱/۷)
(۳؎)
وروی احمد عن و ا ثلۃ بن الا سقع رضی اللہ تعا لی عنہ قا ل قا ل رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم امر ت بالسو ا ک حتی خشیت ان یکتب علی۴ نقل الزرقا نی علی المو اھب عن المنذری وغیر ہ فیہ لیث بن ابی سلیم ثقۃ مد لس وقد روا ہ بالعنعنۃ۱؎، اھ ومع ذلک قا ل عن المنذر ی اسنا ہ حسن۲؎، اھ
پانچواں جواب : اما م احمد نے و اثلہ بن اسقع رضی اللہ تعا لی عنہ سے یہ حد یث روا یت کی مجھے مسو ا ک کے لیے اتنی با ر حکم دیا گیا کہ مجھے ڈر ہو ا کہ کہیں یہ فر ض نہ کر د ی جا ئے ۔اما م زر قا نی نے یہ حد یث مو اہب کی شر ح میں منذر ی وغیرہ سے روایت کی ، اس روایت میں لیث بن ابی سلیم جو ثقہ مدلس ہیں،اور حد یث کو لفظ عن سے روایت کر تے ہیں منذری کہتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے۔
(۴؎مسند احمد بن حنبل حد یث و ا ثلۃ بن الاسقع المکتب الا سلا می بیر و ت ۳/۴۹۰)
(۱؎ شر ح الزر قا نی علی المو ا ہب اللد نیہ المقصد التا سع دا ر المعر فۃ بیر و ت ۷/۲۴۸)
(۲؎شر ح الزر قا نی علی المو ا ہب اللد نیہ المقصد التا سع دا ر المعر فۃ بیر و ت ۷/ ۲۴۸ )
وقا ل الحا فظ العسقلا نی فی نظم اللالی معنعن ابی الزبیر غیر محمو ل علی الا تصا ل الا اذا کا ن من روا یۃ اللیث عنہ الخ ۳؎ وھذا امر مقرر عند ھؤلا محد ثین و نجد فی صحیح مسلم احا د یث عن ابی الزبیر عن جا بر رضی اللہ تعا لی عنہ لیست من روا یۃ اللیث عنہ قا ل الذھبی فی المیزا ن فی صحیح مسلم عد ۃ احا دیث مما لم یو ضح فیھا ابو الزبیر السماع عن جا بر وہی من غیر طر یق اللیث عنہ ففی القلب منہا ۴؎، اھ
چھٹا جواب: حا فظ ابن حجر عسقلا نی نے نظم اللا لی میں کہا ”ابو زبیر کی معنعن مقبو ل نہیں اوراتصال پر محمول نہیں ہاں لیث سے ہو تو مقبول ہے ”محد ثین کے نزدیک یہ با ت مسلم ہے لیکن اما م مسلم کی صحیح میں چند حدیثیں ابو زبیر بو اسطہ حضر ت جا بر رضی اللہ تعا لی عنہ مر و ی ہیں جن میں ابو زبیر حضر ت لیث سے روا یت نہیں کرتے چنا نچہ اما م ذہبی میزا ن الا عتد ال میں فر ما تے ہیں کہ ”صحیح مسلم میں چند حد یثیں ایسی ہیں جن میں ابو زبیر جا بر رضی اللہ تعا لی سے بو اسطہ لیث کی تصر یح نہیں کی ہے جس سے دل میں کچھ شبہہ ہو تا ہے ۔”
قلت : ولکن لم یکن منھا فی قلب مسلم شیئ فا د ر جھا فی صحیحہ الذی جعلہ حجۃ بینہ وبین ربہ عز وجل ۔
میں کہتا ہوں کہ ا ما م مسلم رحمۃ اللہ تعا لی علیہ کے دل میں تو ان حد یثو ں کے با ر ے میں کو ئی شبہہ نہیں تھا جبھی تو انہو ں نے یہ روا یتیں اپنی صحیح میں در ج کیں جس کو اپنے اور اپنے رب کے در میا ن حجت قر ا ر دیا ۔
(۳؎نظم اللآلی )
(۴؎میزا ن الا عتدا ل تر جمہ محمد بن مسلم ابو الزبیر المکی ۸۱۶۹ دا ر المعر فۃ بیر و ت ۴/۳۹)
و روی ابن جر یر عن زید بن ثا بت رضی اللہ تعا لی عنہ سمعت رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقو ل الشیخ و الشیخۃ اذا زنیا فا رجمو ھما البتۃ فقا ل عمر رضی اللہ تعا لی عنہ لما نز لت اتیت النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم۱؎الحد یث۔
ساتواں جواب: ابن جر یر نے زید بن ثا بت رضی اللہ تعا لی عنہ سے روا یت کی میں نے آ پ کو فر ما تے ہو ئے سنا کہ بڑھیا بو ڑھے زنا کر یں تو انہیں ضر و ر سنگسا ر کر و ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی تومیں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا ۔(الحدیث)
(۱؎کنزالعما ل بحو الہ ابن جر یر حد یث ۱۳۴۸۲ مو سسۃ الر سا لہ بیروت ۵/۴۱۸)
قال ابن جر یر ھذا حد یث لا یعر ف لہ مخر ج عن عمر عن رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم بھذا اللفظ الا من ھذا الو جہ و ھو عند نا صحیح سندہ لا علۃ فیہ تو ھنہ ولا سبب یضعفہ لعد الۃ نقلتہ و قد یعل با ن قتا دۃ مد لس و لم یصر ح بالسما ع و التحد یث ۲؎، اھ
ابن جر یر نے کہا کہ اس حد یث کی کو ئی تخر یج عمر عن رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم یعنی با یں الفا ظ سو ائے اس روا یت کے نہیں پھر بھی یہ حد یث ہما رے نز دیک صحیح اور مستند ہے اس میں کو ئی ایسا عیب نہیں جو اس حد یث کو کمزور کر ے تو ا س کے ضعیف ہو نے کا کو ئی را ستہ نہیں کہ یہ عا دل راویو ں سے مر وی البتہ اس میں ایک علت یہ بیا ن کی جا تی ہے کہ اس کے ایک راو ی حضر ت قتا دہ مد لس ہیں اور انہو ں نے نہ تو سما ع کی با ت کی نہ لفظاً حدثنا کہا ۔
(۲؎کنزالعما ل بحو الہ ابن جر یر حد یث ۱۳۴۸۲ مو سسۃ الر سا لہ بیر وت ۵/۴۱۸و۴۱۹)
وھذا اما م الحنفیۃ اما م الفقہا ء المحد ثین الحا فظ النا قد البصیر بعلل الحد یث الا ما م ابو جعفر احمد الطحا و ی رحمۃ اللہ تعالی علیہ روی فی کتا ب الحجۃ فی فتح رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم مکۃ حدیثین احدھما عن عکر مۃ قا ل لما وادع رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم اھل مکۃ ،والا خر حد یث الز ھر ی وغیر ہ قا ل کا ن رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم قد صا لح قر یشا ،الحد یثین بطو لہما ،قا ل بعد ہ فان قلتم ان حد یثی الز ھر ی و عکر مۃ الذین ذکر نا منقطعان قیل لکم وقد رو ی عن ابن عبا س رضی اللہ تعا لی عنہما حد یث ید ل علی ما روینا ہ حد ثنا فھد بن سلیمن بن یحیی ثنا یو سف بن بہلو ل ثنا عبد اللہ بن ادریس حد ثنی محمد بن اسحق قا ل قا ل الزھر ی حد ثنی عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبۃ عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما الحد یث فی نحو ورقۃ کبیر ۃ قا ل فی اٰ خر ہ فھذا حد یث متصل الا سنا د صحیح ۱؎و معلو م ان ”قا ل فلا ن ”کعن فلا ن لعد م بیا ن السما ع فیھما ۔
آٹھو اں جواب : اما م الحنیفہ ،اما م الفقہاء و ا لمحد ثین ،حا فظ ،نا قد و بصیر ،اما م ابو جعفر احمد طحا و ی نے شر ح معانی الا ۤثا ر ”کتا ب الحجۃ فی فتح رسو ل اللہ مکۃ عنو ۃ ”میں دو حد یثیں روا یت کیں ایک حضر ت عکر مہ سے کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم جب اہل مکہ سے رخصت ہو ئے اور دو سر ی حد یث اما م زہر ی وغیر ہ سے جس میں ہے کہ ”حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نے اہل مکہ سے مصا لحت فر ما ئی ”یہ دو نو ں حد یثیں مکمل نقل فرما کر ارشا د فر ما یا کہ ”اگر کو ئی اعترا ض کر ے کہ زہر ی و عکر مہ کی مذکو رمنقطع ہیں ، ”فہد بن سلیمن ،
یو سف بن بہلو ل ،عبد اللہ بن ادریس ،محمد بن اسحق قا ل قا ل الزہر ی عبید ا للہ بن عبد اللہ بن عتبہ نے ابن عبا س رضی اللہ تعا لی عنہ سے یہ حد یث بیا ن کی یہ حد یث حضر ت اما م طحا و ی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ نے بڑی طو یل ایک بڑے ورق کی مقد ا ر میں روا یت کر کے فر ما یا یہ حد یث متصل الا سنا د صحیح ہے حا لا نکہ سب کو معلو م ہے کہ اصطلا ح میں قا ل کا حکم لفظ عن کا ہے کیو نکہ دو نو ں میں سما ع کی تصر یح نہیں۔
(۱؎شر ح معا نی الا ثا ر کتاب الحجہ فی فتح رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکۃ عنو ۃ ایچ ایم کمپنی کرا چی ۲/۲۰۳تا۲۰۸)
قا ل الا ما م النو وی فی التقریب تد لیس الا سنا د با ن یر عی عمن عا صر ہ ما لم یسمعہ منہ مو ھما سما عہ قا ئلا :قا ل فلا ن او عن فلا ن و نحو ہ ۲؎،الا فی ما عنعنۃ ابن اسحق ان حکم ھذاقیل الا ما م الحجہ انہ متصل الا سنا د و انہ صحیح فقد رفع مکحو ل و ابو ا سحق السبیعی کلتا الشبھتین الکلا م فی ابن اسحق وعد التہ وا لا تیا ن من قبل عنعنۃ بلفظ الکریم الصر یح ،و للہ الحمد ۔
اور اما م نو وی نے تقر یب میں فر ما یا کہ ”تد لیس اسنا د یہ نہیں کہ را وی اس سے روا یت کر ے جس کا معا صر ہو جب تک اس سے خو د نہ سنے اور لفظ ایسے بو لے جس سے وہم ہو کہ راوی نے خو د اس سے سنا ہے جیسے قا ل فلا ں یا عن فلا ن مگر ان روا یتو ں میں جن کو محمد بن اسحا ق نے لفظ عن سے روا یت کیا ہو بیشک ان کی ایسی روا یت کا بھی حکم یہی ہے کہ وہ متصل الا سنا د اور صحیح ہیں ،وہ اما م حجۃ ہیں مکحو ل اور ابو اسحق سبیعی نے ان سے دو نو ں شبہو ں کو دفع کیا ہے ۔”
(۲؎التقر یب للنو وی مع تد ریب الرا وی النو ع الثانی عشر قدیمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/۱۸۶)
وھذااما منا ثا نی ائمہ مذھبنا الا ما م ابو یو سف رضی اللہ تعا لی عنہم قد اکثر فی کتا ب الخرا ج الاحتجا ج با حا دیث محمد بن اسحق معنعنۃ و غیر معنعنۃ و قد قا لو ا کما فی رد المحتا ر و غیر ہ ان المجتھد اذا استد ل بحد یث کا ن تصحیحا لہ فقد صحح الا ما م ابو یو سف احا دیث ابن اسحق و عنعنۃ کیف ؟ وقد ا در جھا فیما اوجب العمل بہ اذقا ل فی مبدء کتا بہ ان امیر المو منین ایدہ اللہ تعا لی سالنی ان اضع لہ کتا با جا معا یعمل بہ فی جبا یۃ الخرا ج و العشو ر والصدقات و الجو ا لی وغیر ہ ذالک مما یجب العمل بہ وقد فسر ت ذلک و شر حتہ ۱؎، اھ
ہما ر ے اما م مذہب ثا نی الا ئمہ قا ضی ابو یو سف رحمۃ اللہ تعا لی علیہ نے کثر ت کے سا تھ کتا ب الخرا ج میں ان حدیثوں سے استدلال فرمایا جوحضرت محمد بن اسحاق سے بصیغہ عن وبغیر عن مروی تھیں اور علما ئے حد یث نے تصر یح کی ہے (جیسا کہ رد المحتا ر وغیر ہ صحیفو ں میں ہے)کہ مجتہد کا کسی حد یث سے استد لا ل کر نا اس حدیث کی تصیح شما ر ہو تا ہے تو قا ضی ابو یو سف رحمۃ اللہ تعا لی علیہ نے ابن اسحق کی معنعن اور غیر معنعن حدیثو ں کو اپنی کتا ب میں دا خل فر ما کر ان کی تصیح کی اور استدلال بھی ایسی کتاب میں کیا جس کے واجب العمل ہونے کی تصریح خود اس کتا ب کے مقدمہ میں فر ما ئی آپ لکھتے ہیں بے شک امیر المو منین نے (خد ا ان کی مد د فرما ئے) مجھ سے ایک ایسی جا مع کتا ب کی فر ما ئش کی جس پر وہ اپنی زند گی بھر جبا یا خر ا ج عشر صدقا ت اور جو الی وغیر ہ میں عملد رآمد کر یں اور وہ احکا م و اجب العمل ہو ں تومیں نے ان کی تعبیر اور تو ضیح کر دی
(۱؎کتا ب الخر اج خطا ب من المؤ الف الی امیر المو منین ہا رون الر شید دا ر المعر فۃ بیر و ت ص۳)
نفحہ ۴: کفا نا المو لی سبحا نہ و تعالی النظر فی تو ثیق ابن اسحق و حجیۃ حد یثہ با ن الذی الین لہ الحد یث کما الین لداؤ د علیہ الصلو ۃ السلا م الحد ید۲؎ روا ہ فی کتا بہ الذی قا لو ا فیہ من کا ن فی بیتہ فکا نما فی بیتہ نبی یتکلم و سکت علیہ ۔
نفحہ ۴: رو ا یت ابن اسحق کی تا ئید و تو ثیق اور ان کی طر ف سے دفا ع کی مشقت سے اللہ تعا لی نے ہما ری یو ں کفایت کی کہ ان کی محو لہ با لا حد یث کو اس اما م نے اپنی مسند میں روا یت کیا جن کے ہا تھ میں علم حدیث اس طرح نر م و ملا ئم ہو گیا تھا جیسے حضر ت داود علیہ السلا م کے دست کر یم میں لو ہا نر م کر دیا گیا تھا جن کے مجموعہ حدیث کے با رے میں علما ئے حد یث کی یہ شہا د ت ہے کہ جس گھر میں یہ کتا ب ہو اس گھر میں گویا نبی ہے جو کلا م کر رہا ہے ،ایسے اما م میں یہ حد یث اپنی کتا ب میں در ج فر ما کر سکو ت کیا اور اس پر کو ئی جر ح نہیں کی ۔
(۲؎فتح المغیث القسم الثا نی الحسن دا ر الا مام الطبر ی ۱/ ۸۷ ومعالم السنن للخطابی ۱/ ۵)
وقد قا ل کما فی مقد مۃ الا مام ابن الصلا ح ذکر ت فیہ الصحیح وما یشبہ و یقا ر بہ ۳؎ مقدمہ ابن صلا ح میں حضر ت ا بو دا ود رحمۃ اللہ تعا لی علیہ کا یہ قو ل اس کتاب کے با رے میں منقو ل ہو ا :”میں نے اپنی کتا ب میں صحا ح کو جمع کیا یا جو اس کے مشا بہ اور قر یب ہو ۔”
(۳؎مقد مہ ابن صلا ح الثا نی معرفۃ الحسن من الحد یث فا رو قی کتب خا نہ ملتا ن ص۱۸)
وفی فتح المغیث عن الا ما م ابن کثیر رو ی عنہ ما سکت عنہ فھو حسن ۴؎، اھ فتح المغیث میں اما م ابن کثیر سے انہیں کا یہ قو ل منقو ل ہوا ”اس کتا ب میں میں جس حد یث پر سکوت کر و ں تو وہ حسن ہے۔”
(۴؎فتح المغیث القسم الثا نی الحسن دا ر الا مام الطبر ی ۱/ ۹۰)
(تد ریب الر اوی بحو الہ ابن کثیر النو ع الثا نی الحسن قد یمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/ ۱۳۵)
وفی رسا لۃ الی اھل مکۃ ما کا ن فیہ حد یث منکر نبینہ بما انہ منکر ۱؎ ابو داود نے اہل مکہ کو ایک خط لکھا ”اس کتا ب میں اگر کو ئی منکر حد یث ذکر کر و ں گا تو اس کا سبب بھی بیا ن کر و ں گا کہ کیو نکر منکر ہے ”
(۱؎ مقد مہ سنن ابی داود مع سنن ابی داود آفتا ب عا لم پر یس لا ہو ر ۱/ ۴)
(فتح المغیث القسم الثا نی الحسن دا ر الاما م الطبر ی بیر و ت ۱/ ۸۸و۹۸)
وقا ل ابو عمر بن عبد البر کل ما سکت علیہ فھو صحیح عندہ ۲؎ ابو عمر بن عبد البر نے کہا ”جس حد یث کو ذکر کرکے ابوداؤد نے سکوت کیا ، تو وہ ان کے نزدیک صحیح ہے ۔
(۲؎ فتح المغیث القسم الثا نی الحسن دا ر الاما م الطبر ی بیر و ت ۱/ ۹۱)
وقال المنذری : کل حد یث عز و تہ الی ابی داود و سکت عنہ فھو کما ذکر ابو داود ولاینز ل عن در جہ الحسن وقدیکون علی شرط الصحیحین۳؎
اما م منذری نے فرمایا ”جس حد یث کی نسبت ابو د اود کی طر ف کر وں اور ابو داود نے اس پر سکو ت کیا ہو تو وہ ابو داود کے قو ل کے مطا بق ہے یعنی درجہ حسن سے تو کم نہ ہو گی بسا اوقا ت صحیحین کے اصو ل پر ہو تی ہے ”
(۳؎ التر غیب التر ہیب مقد مۃ الکتا ب دا راحیا ء التر ا ث العر بی بیر و ت ۱/ ۱۱)
وقا ل ابن الصلا ح ثم الا ما م النو و ی فی التقر یب ما وجد نا فی کتا بہ مطلقا فھو حسن عند ابی داود ۴؎ ابن صلا ح اور نو و ی دو نو ں امامو ں نے فر ما یا ”اما م دا و د کی کتا ب میں جو حد یث مطلق مر و ی ہو وہ ان کے نزدیک حسن ہے ۔”
(۴؎تقر یب النو وی مع تد ر یب الر اوی النو ع الثا نی قد یمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/ ۱۳۴)
وقا ل العلا مۃ ابن التر کما نی فی الجو ہر النقی اخر جہ ابو دا ود و سکت عنہ فا قل احو الہ ان یکو ن حسنا عند ہ علی ما عر ف ۵؎
اما م تر کما نی جو ہر النقی میں فر ما تے ہیں ”ابو داود نے جس حد یث کی تخر یج فر ما کر سکو ت کیا اور اس پر کو ئی جرح نہیں کی تو اس حد یث کا کم سے کم در جہ حسن کا ہو گا جیسا کہ یہ بات مشہو ر و معر و ف ہے ۔”
(۵؎الجو ہر النقی علی ھا مش السنن الکبر ی کتا ب الد عو ی و البینا ت حید ر آبا د دکن ۱۰/ ۲۷۱)
وقا ل الزیلعی فی نصب الر ا یۃ ان ابا داود روی حد یث القلتین و سکت عنہ فھو صحیح عند ہ علی عا د تہ فی ذلک ۱؎
نصب الر ا یہ میں اما م زیلعی فر ما تے ہیں” ابو دا ود نے حد یث قلتین رو ا یت کیا اور اس پر سکو ت فرما یا یہ اس با ت کی دلیل ہے کہ یہ حد یث ان کے نز دیک صحیح ہے ”
(۱؎نصب الر ایہ کتاب الطہا رۃ با ب الما ء الذی یجو ز بہ الو ضو ء الخ نو ریہ رضویہ پبلیکیشنز لا ہو ر ۱/ ۱۶۳)
وقا ل الحا فظ العر اقی ثم الشمس السخا وی فی المقا صد الحسنۃ یکفینا سکو ت ابی داود علیہ فھو حسن۲؎ حضر ت عر ا قی اور شمس الد ین سخا وی نے ”مقا صد حسنہ” میں فر ما یا ”اس حد یث پر ابو دا ود کا سکو ت ہی ہمارے لیے کا فی ہے اور یہ حدیث حسن ہے ۔”
(۲؎المقا صد الحسنہ تحت حد یث ۳۸۱ دا ر الکتا ب العر بی بیر وت ص۲۱۶)
وقا ل المحقق علی الا طلا ق فی فتح القد یر سکت ابو دا ؤ د فھو حجۃ ۳؎ محقق علی الاطلا ق فتح القد یر میں لکھتے ہیں ”ابو داؤ د نے اس حد یث پر سکو ت کیا تو یہ حد یث حجت ہے ”
(۳؎فتح القد یر کتا ب الطہا ر ۃ مکتبہ نو ریہ رضو یہ سکھر ۱/ ۱۵)
وقا ل العلا مۃ محمد بن امیر الحا ج روا ہ ابو داود وسکت علیہ فیکو ن حجۃ علی ما ھو مقتضی شر طہ ۴؎ علا مہ محمد ابن امیر الحا ج فر ما تے ہیں ”ابو داود نے اس پر سکو ت کیا تو یہ ان کی شر ط کے موا فق حجت ہے ”
(۴؎حلیۃ المحلی شر ح منیۃ المصلی )
وقا ل العلا مۃ ابر ہیم الحلبی فی الغنیۃ سکت علیہ ابو داو د المنذری بعد ہ فی مختصرہ وھو تصحیح منھما ۵؎، اھ علا مہ ابر ا ہیم حلبی نے غنیہ میں فر ما یا ابو داو د اور ان کے بعد اما م منذ ری نے اپنی مختصر میں اس پر سکو ت فرما یا تو یہ ان دو نو ں کی طر ف سے اس حد یث کی تصحیح ہے ۔
(۵؎غنیہ المستملی شر ح منیۃ المصلی فصل فی النو ا فل سہیل اکیڈمی لا ہو ر ص۳۸۶ )
وقا ل الخطا بی فی معا لم السنن کتا ب ابی داؤد جا مع لھذ ین النو عین من الحد یث و الحسن اماالسقیم فعلی طبقا ت شر ھا المو ضوع ثم المقلو ب ثم المجھو ل ،و کتا ب ابی داود خلی منھا بر ی من جملۃ وجو ھھا ۱ ؎
علا مہ خطا بی نے معالم السنن میں تحر یر کیا ”ابو دا ود کی کتا ب صحیح اور حسن دو نو ں قسم کی احا دیث پر مشتمل ہے اور حد یث سقیم کی تو کئی قسمیں ہیں سب سے بے حیثیت مو ضو ع پھر مقلو ب پھر مجہو ل اور ابو داود کی کتا ب سقیم کی تما م قسمو ں سے خا لی اور بر ی ہے ۔”
(۱؎معا لم السنن مع مختصر سنن ابی داود للمنذری مقدمہ الکتا ب المکتبہ الا ثر یۃ سا نگلہ ۱/ ۱۱)
وقا ل الا ما م بخا ری فی جز ء القر ۃ قا ل علی بن عبد اللہ نظر ت فی کتا ب ابن اسحق فما وجد ت علیہ الا فی حد یثین و یمکن ان یکو ن صحیحین ۲؎، اھ
اما م بخا ری نے اپنی اکتا ب”جز ء القرۃ ”میں لکھا علی ابن عبد اللہ نے کہا کہ میں نے ابن سحق کی کتا بیں دیکھیں تو سوا ئے دو حدیثوں کے اور کسی میں کو ئی عیب نہیں پا یا اور ممکن ہے کہ وہ دو نو ں بھی صحیح ہو ں،”
(۲؎جزء القر اءۃ خلف الا ما م للبخا ر ی با ب لادلیل علی ان القر ا ن رکن فی الصلو ۃ ۱/ ۶۰)
و بیّنھما القسوی عن علی لیس حد یثنا ھذا بحمد اللہ تعا لی منھما احد ھما عن ابن عمر عن النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اذا نعس احد کم یو م الجمعۃ ۳؎ وا لا خر عن زید بن خا لد اذا مس احد کم فر جہ فلیتو ضأ ۴؎
ان دو نو ں حد یثو ں کو قسو ی نے حضر ت علی بن عبد اللہ سے روا یت کیا ۔بحمد اللہ ہما ری ذکر کر دہ حد یث ان میں نہیں ہے دو نو ں میں سے ایک حد یث ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہ نے حضو ر سے روا یت کی کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے روز او نگھے اور دوسر ی حد یث زید بن خا لد سے کہ تم میں سے کو ئی جب اپنی شر مگا ہ کو چھو ئے تو وضو کر ے ۔
(۳؎جا مع التر مذی ابو ا ب الجمعۃ با ب فی من ینعس یو م الجمعۃ امین کمپنی دہلی ۱/ ۶۹)
(۴؎مو ار د الظما ن کتا ب الطہا رۃ با ب ما جا فی مس الفر ج حدیث ۲۱۴ المطبعۃ السلفیہ ص۷۸)
و علی ھذا ھو ابن المد ینی شیخ البخا ر ی الذی کا ن یقو ل فیہ البخا ری ما استصغر ت نفسی الا عند ہ۱؎ فثبت بحمد اللہ تعا لی ان ابن اسحق ثقۃ و ان الحد یث حسن صحیح ۔
یہ علی ابن المد ینی اس پا ئے کے محد ث ہیں کہ ان کے شا گر د اما م بخا ری کہتے ہیں کہ سوا ئے علی بن المد ینی کے اور کسی کے سا منے میں نے اپنے کو چھو ٹا نہیں محسو س کیا تو مذکو رہ با لا تفصیلا ت سے بحمد اللہ ثا بت ہو گیا کہ محمد بن اسحق ثقہ ہیں اور اذا ن خطبہ کے با رے میں ان کی بیا ن کر دہ حد یث صحیح ہے۔
(۱؎ میز ان الاعتدال ترجمہ علی بن عبد اللہ ۵۸۷۴ دا را لمعر فۃ بیر و ت ۳/ ۱۴۰)
نفحہ ۵: اکثر اصحا ب لزھر ی لم یذکر و ا فی الحد یث ”علی با ب المسجد”ولا ”بین ید یہ ”وھما زیا دۃ ثقۃ فو جب قبولھما ،ومن الظلم قبو لہ فی ھذا لا فی ذا لک فلیس مستند کو نہ ”بین ید یہ ”من الحد یث الا زیا دۃ ابن اسحق ومن اشد الجہل زعم ان ذکرہ ما لم یذ کر و ا مخا لفۃ لھم وا لا لاضطر بت الاحا دیث عن اخر ھا الا افر ادا عد ید ۃ فما من حدیث اتی بطر یقین او اکثر الا و فی بعضھا ما لیس فی الا خر ،الانا درا ،ولا عبر ۃ با لنا در،ھذا وجہ ۔
نفحہ ۵: اما م زہر ی کے اکثر شا گر دو ں نے حد یث میں ”علی با ب المسجد ”اور ”بین ید یہ ”کا ذکر نہیں کیا ہے ان دونو ں ٹکڑو ں کا ذکر صر ف ابن اسحق نے کیا ہے جو ایک ثقہ روا ی کا اضا فہ ہے اور اس کا قبو ل کر نا وا جب ہے تو یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ”بین ید یہ ”کو تسلیم کیا جا ئے اور ”علی با ب المسجد ”کو تر ک کر دیا جا ئے اور اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ابن اسحق کے اس اضا فہ کو اس وجہ سے تر ک کیا جا ئے کہ صر ف ابن اسحا ق اس کے را و ی ہیں اورو ں نے اس کا ذکر نہیں کیا ہے اور اسی بنا پر اس اضا فہ کو ان کی ثقہ راویو ں کی مخا لفت قرا ر دیا جا ئے اور حد یث کو مضطرب قرار دیا جا ئے اگر یہ ظلم روا رکھا جا ئے تو چند معد و د اور مختصر روا یتیں ہی اضطر ا ب سے محفو ظ رہیں گی کیو نکہ کو ن حد یث ہے جو دو یا دو سے ز ائد طر یقو ں سے مر و ی نہیں اور ہر طر یقہ روا یت کے متن میں کچھ ایسا حصہ بھی ضر و رہے جو دو سر ے میں نہیں شا ید ہی ایسا ہو گا کہ دونوں روایتوں کے الفاظ بالکلیہ یکساں اور برا بر ہو ں اور نا در کاکیا اعتبا ر۔
وثانیا کثیر ا ما تر ی الا ئمہ المحد ثین یجمعو ن الطر ق فیقو ل احد ھم حد ثنا فلا ن ،و فلا ن عن فلا ن یزید بعضھم علی بعض ثم یسو ق الحد یث سیا قا واحد ا افترا ھم یجمعو ن بین الضب و النو ن۔
ثانیا اکثر دیکھا گیا ہے کہ ائمہ محد یثین چند سند و ں کو ایک سا تھ جمع کر تے ہیں مثلا وہ کہتے ہیں فلا ں فلا ں اور فلا ں نےفلا ں سے روا یت کی جس میں بعض نے بعض سے زا ئد بیا ن کیا اور پھر پو ری حد یث ایک ہی سیا ق میں بیا ن کر تے ہیں تو کیا وہ لو گ مچھلی اور گو ہ دو نو ں کو ایک سا تھ ہی ملا دیتے ہیں ۔
و ثا لثا مفسر و ا لقرا ن العظیم من الصحا بۃ وا لتا بعین وھلم جرا کلما فسر وا و اقعۃ ذکر ت فی القر ا ن المجید زا دوا ا شیا ء لیست فی القر ا ن العظیم فا ذن کلھم یخا لفو ن القرا ن الکر یم حا شم ھم۔
ثالثا قرآن عظیم کے مفسر و ں میں ،صحابہ ہو ں یا تا بعین (بعد کے لو گو ں کا بھی یہی حا ل ہے)کہ کسی ایسے وا قعہ کی تفسیر کر تے ہیں جو قرآن عظیم میں مذکو ر ہے تو اس وا قعہ میں کچھ ایسا اضا فہ بھی کر تے ہیں جو قرآن عظیم میں نہیں ہے ،تو کیا سب کے سب نے قر آن عظیم کی مخا لفت کی پنا ہ بخد ا !-
را بعاً فی الصحیحین عن ابی ھر یر ۃ رضی اللہ تعا لی عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الا احد ثکم حدیثا عن الد جا ل ما حد ث بہ نبی قو مہ انہ اعو ر الحد یث فا ذن یکون صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم و العیا ذبا للہ تعا لی قد خا لف جمیع الانبیا ء علیہھم الصلا ۃ والسلا م فی بیا ن واقعۃ وھذا لا یتفو ہ بہ مسلم ۔
را بعا صحیحین میں حضر ت ابو ہر یر ہ رضی اللہ تعا لی عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روا یت کرتے ہیں ”میں تم سے دجا ل کے با رے میں وہ با ت نہ بیا ن کر و ں جو کسی نبی نے اپنی قو م سے بیا ن نہ کیا ”تو پیغمبر خدا صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نے اور انبیا ء سے زا ئد بتا کر ان سب انبیا کی مخا لفت کی کو ن مسلم یہ کہے گا ؟
(۱؎صحیح البخا ری کتا ب الا نبیا ء با ب قو ل اللہ و لقد ا رسلنا نو حا الی قو مہ قد یمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/ ۴۷۰)
(صحیح مسلم کتا ب الفتن با ب ذکر الد جا ل قد یمی کتب خا نہ کر ا چی ۲/ ۴۰۰)
و خامسا السو ر القرا نیۃ تذکر قصۃ مو سی و غیر ھا یز ید بعضھا علی بعض و حا شا القرا ن ان یتخا لف
خامسا قرا ن شر یف میں حضر ت مو سی وغیر ہ انبیا ء کر ا م علیہم السلا م کے قصے مختلف جگہ بیا ن کئے گئے ہیں کہیں کم کہیں کچھ زیا د ہ تو کیا قر آن شر یف نے اپنے بیا ن کی خو د مخا لفت کی ؟
نفحہ ۶: ما اجھل من زعم ان الحد یث متنا قض بنفسہ فا ن قو لہ بین ید ی رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم یعا ر ض قو لہ علی با ب المسجد فلو کا ن علی البا ب کیف یکو ن بین ید یہ و ھذا فھم لا یتصو ر الا من وھم اذا جلست علی المنبر فتجا ہ وجھک با ب فالقائم علیہ ھل یکو ن بین ید یک ام خلفک و الصفو ف الجلو س بینکما لا تحجبہ عن نظر ک الا تری ان اللہ تعا لی سمی السما ء بین اید ینا اذقا ل و قو لہ الحق
افلم یر و ا الی ما بین اید یھم وما خلفھم من السما ء والا رض ۱؎ وکم من جبا ل بینھما و بیننا و سیا تیک زیا د ۃ وا فیۃ فی تحقیق معنی ”بین ید یہ ”ان شاء اللہ تعا لی ۔
نفحہ ۶: وہ شخص بھی کیا خو ب جا ہل ہے جو یہ کہتا ہے کہ سا ئب بن یزید رضی اللہ تعا لی عنہ کی حد یث خو د ہی متنا قض ہے اس لیے کہ حدیث کے الفاظ خطیب کے سامنے اور مسجد کے دروازہ پر میں تناقض ہے ۔ تواگر با ب مسجد پر ہو گی تو خطیب کے سامنے کیسے ہو گی ؟ یہ شبہہ سر ا سر وہم کی پید ا وا ر ہے کیو نکہ جب تم منبر پر بیٹھو اور تمھا رے منہ کے سا منے مسجد کا دروازہ ہو تو دروا زے پر کھڑا ہو نیو الاکیو ں تمہا رے سا منے نہ ہو گا؟ کیا اس کو تمہا رے پیچھے کھڑا ہو نیو ا لا کہا جا ئیگا ؟شا ید یہ سو چتے ہو ں گے کہ اس صور ت میں اما م اور مؤ ذن کے بیچ میں صفیں حا ئل ہیں پھر سا منے کیسے ہوا ! صفیں بیچ میں ضرو ر ہیں لیکن وہ مؤ ذن اور اما م میں حا ئل نہیں ہیں اللہ تعا لی نے قر آن عظیم میں ارشا د فر ما یا ”کیا تم دیکھتے نہیں کہ آسما ن و زمین تمھا رے آگے پیچھے ہیں ”حا لا نکہ کتنے پہا ڑ اس کے اور ہما رے درمیا ن میں حا ئل ہیں ۔”بین ید یہ ”کی زیا دہ تفصیل آگے آرہی ہے ان شا ء اللہ تعا لی ۔
(۱؎القرا ن الکر یم ۳۴/ ۹)
نفحہ ۷: اذا بطل زعمۃ التنا قض انتقض ما بنی علیہ من وجو ب تا ویل الحد یث فا ن الشجر ۃ تنبئی عن الثمر ۃ و لکن ان تعجب فعجب قو لہ و ان المر ا د با لباب البا ب الذی کا ن فی جدا ر القبلۃ قبل تحو یلھا الی الکعبۃ المشر فۃ فیا للانصاف با ب کا ن و با ن و صا ر جدا را وا لبا ب الحقیقی مو جو د الا ن فا ذا ذکر با ب المسجد ھل یذھب ذھن ا حد الی ان ا لقا ئل لم یرد البا ب بل الجد ا ر فمثل ھذا یکو ن تحو یلا و تعطیلا و تبد یلا لا تا ویلا و لا سیما والحا کی لھذا اعنی سید السا ئب بن یزید رضی اللہ تعا لی عنہ لم یشا ھد ذلک البا ب الکا ئن البا ئن قط ۔
فا نہ کا ن ابن سبع عند و فا ۃ المصطفی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم فو لادتہ سنۃ ثلا ث او اربع من الھجر ۃ الشر یفۃ و تحویل القبلۃ فی السنۃ الثانیۃ فھو یحکی ما شا ھد ہ فکیف یر ید با با لم یشا ھدہ ثم انک تحتا ج فیہ الی مجا ز فی مجا ز فان ذلک البا ب کا ن فی الجد ار القبلی و المنبر دو نہ بینھما ممر شا ۃ و المؤ ذن دون المنبر فکیف یکو ن حقیقۃ علی البا ب افتر ی انہ کا ن یؤ ذن متقد ما الی جدا ر القبلۃ مستد برا للنبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم او متو جھا الی ظہر ہ الشر یف متد بر اللقبلۃ بل لو فر ض ھذا لم یکن ایضا حقیقۃ علی البا ب المفقو د ای محلہ المو جو د لا نہ الا ن مسدو د ۔
نفحہ ۷: اور جب” بین ید یہ ”او ر ”علی البا ب”کا تنا قض ختم ہو گیا تو اس پر حدیث کی جو تاویل مبنی تھی وہ بھی ختم ہوگئی کہ در خت بیج کے بغیر نہیں اگ سکتا لیکن اس تا ویل میں حیر تنا ک با ت یہ ہے کہ مؤ و ل کے نزدیک سا ئب بن یزید رضی اللہ تعا لی عنہ کی حد یث میں دروا زہ سے مرا د وہ دروا زہ ہے جو دیو ا ر قبلہ میں منبر کی پشت پر تھا تو خطیب کے سا منے منبر کے با لکل متصل کھڑے ہو نے و ا لے مؤ ذن کو مسجد کے دروا زہ پر کہہ دیا اگر چہ مؤذن اور دروا زہ کے بیچ میں خو د خطیب اور منبر حا ئل تھا مگر کھڑے ہو نے وا لے مؤ ذن کے سا منے ہی در وا زہ تھا ۔
یاللعجب ! مؤ و ل جس دروا زہ کی با ت کر رہا ہے وہ اب نہیں ہے اسے بند کر کے اب دیو ارکر دیا گیاہے وہ تو مراد ہوسکتا ہے اور حقیقی دروازہ جو فی الو قت مو جو د ہے اور خطیب کے سا منے ہے وہ مر ا د نہیں ہو سکتا کیا ایسی صو رت میں کو ئی با ب ا لمسجد کہے تو کسی کا ذہن اس باب کی طر ف منتقل ہو سکتا ہے کہ اس سے مرا د مو جو د اور مشا ہد دروا زہ مو جو د نہیں بلکہ یہ دیو ا ر مر ا د ہے اس کو تا ویل نہیں کہتے یہ تو تحو یل ہے تعطیل ہے اور تبد یل ہے خصو صا اس صو ر ت میں کہ سا ئب ابن یز ید رضی اللہ تعا لی عنہ نے اس بند شد ہ دروا زہ کو دیکھا بھی نہیں اس لیے کہ وہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے وصا ل کے وقت سا ت سا ل کے تھے اس حسا ب سے ان کی ولا دت ۳ھجر ی میں ہوئی جب کہ تحویل قبلہ کاواقعہ ۲ ھ کا ہے تو جب وہ اپنے مشا ہد ہ کی با ت کر ر ہے ہیں تو یہ کیسے سو چا جا سکتا ہے کہ وہ اس ان دیکھے دروا زہ کی گو ا ہی دیں گے پھر اس تا ویل میں مجا ز در مجا ز ماننا پڑے گا کیونکہ یہ دروازہ قبلہ کی دیو ا ر میں تھا اور اسی کے پا س منبر تھا اس دروا زہ اورمنبر کے درمیان بکری کے گزرنے بھر جگہ تھی اور منبر کے پاس مؤ ذن کھڑا ہو تا تھا ایسی صو ر ت میں مؤ ذن حقیقی معنی میں دروا زہ پرکس طرح کھڑا ہوسکتاہے کیونکہ حقیقی معنی میں دروازہ پر ماننے کی صو ر ت تو یہ ہو گی مؤ ذن منبر سے آگے بڑھ کر قبلہ کی دیوار کے اند ر وا لے دروا زہ پر کھڑا ہو کر حضو ر کی پشت اقد س کے پیچھے قبلہ کی طر ف پشت اور آپ کے پشت کی طر ف رخ کر ے بلکہ سچ پو چھو تو یہ اذان بھی دروا زہ پر نہ ہو گی کہ دروا زہ تو بند ہو کر اس جگہ دیو ا ر بنا دی گئی تھی۔
نفحہ ۸: اراد ۃ البا ب الشما لی المو جو د اذ ذا ک و تا و یل علی با لمحا ذ ات ای کا ن یقو م المؤذن متصلا با لمنبر بین یدی النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم لکو نہ ا ذذا ک علی محا ذا ت البا ب الشما لی قیل لہ علی با ب المسجد کلا م مفسو ل مزد و ل ۔
نفحہ ۸: اور دروا زہ سے مسجد کا با ب شما لی مراد لینا جو منبر کے سا منے واقع تھا اور ”علی با ب المسجد ”کے علی کو محا ذا ت پر محمو ل کر نا اور مطلب یہ بتا نا کہ مؤ ذن تو منبر سے متصل ہی کھڑا ہو تا تھا لیکن لفظ ”علی با ب المسجد ”سے اس کی تعبیر اس لیے کی گئی کہ دروا زہ منبر کے سا منے تھا مؤ ذن اور دروا زہ میں آمنا سا منا تھا یہ بے وزن اور حقیر کلا م ہے ۔
فاولاً تجو ز بعید من دو ن قر ینۃ و ا لتکلم بمثلہ تغلیط للسا مع و تلبیس للسنۃ فلا یظن با لصحا بی۔
اولاً بلا قر ینہ معنی بعید مر ا د لینا اور ایسا کلا م بو لنا سامع کو غلط فہمی میں ڈالنا اور تلبیس سنت ہے صحا بی رسول صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم ایسی حر کت نہیں کر سکتے ۔
ثانیا فیہ تضییع قو لہ علی با ب المسجد لا ن البا ب لما کا ن محا ذیا للاما م فا لقا ئم بین ید ی الا ما م قا ئم علی محا ذا ۃ البا ب قطعا اینما کا ن فذکر ہ بعد ذکر ہ لیس فیہ تخصیص ولا تو ضیح ولا افا د ۃ شیئ مقصو د اذلم یکن القصد شر عا الا الی مو اجھۃ الا ما م لا الی محا ذا ۃ البا ب فبقی لغو ا عبثا لا طا ئل تحتہ ۔
ثانیا اس تا ویل کی رو سے ”علی با ب المسجد ”کا لفظ بے سو د ہے کیو نکہ دروا زہ جب اما م کے سا منے ہے تو جو امام کے سا منے کھڑا ہے وہ دروازہ کے سامنے بھی کھڑا ہے تولفظ ”بین ید یہ ”کے ذکر کے بعد لفظ ”علی با ب المسجد ”نہ تو اس پہلے معنی کی تو ضیح ہو ئی نہ تخصیص اور نہ ہی اس لفظ سے کسی معنی کا افا دہ مقصو د کیونکہ بقو ل مؤ ول مقصد تو اما م کے سا منے کھڑا ہو نا ہے دروا زہ پر کھڑا ہو نا نہیں ایسی صو ر ت میں لفظ علی با ب المسجد لغو اور بیکا ر ہو ا جس سے کو ئی فا ئد ہ حا صل نہیں ۔
وثالثا ان من اخنع الاباطیل ما یقضی وجو دہ علیہ با لر حیل و ذلک ان التا و یل انما یحتا ج الیہ اذا لم یستقم المعنی الظاہر و انما احلت الظا ہر ۃ لمنا فا تہ بز عمک قو لہ بین ید یہ الا لمحا ذا ۃ بلا حا ئل کما اعتر فہ بہ ابن اخت خا لتک فالذی قا م لصیق الا ما م اذا کا ن علی محا ذا ۃالبا ب کما اعتر ف الا ن ،کیف لا یکو ن الذی علی البا ب محا ذیا للا ما م ولا حا ئل ثمہ یحجبہ من النظر فصد ق بین ید یہ فتاویلک با طل با ستقا مۃ المعنی الظا ہر ،وا ستقامتہ نقتضی لبطلا ن التا و یل فکا ن و جو د حا کم بعد مہ و ھذا ھو ا شنع الا با طیل ۔
ثالثا اولاً یہ تا ویل خو د اپنے وجو د کے ابطا ل کی دلیل ہے کیو نکہ تا ویل کی ضر و ر ت تب ہو تی ہے کہ کلا م کے معنی ظا ہر در ست نہ ہو ں اور مخا لف نے علی با ب المسجد کو محا ذا ت پر اس لیے محمو ل کیا کہ اس کے نزدیک بین ید یہ اور علی با ب المسجد میں تضا د تھا اور بین ید یہ کے معنی محا ذا ت بلا حا ئل ہیں جیسا کہ تمہا ری خا لہ کے ابن اخت نے اس کا اعترا ف کیا اور اب تمھاری تاویل سے جب اما م کے پا س کھڑا ہو نے وا لا دروا زہ کے سا منے اور محا ذی ہے تو دروا زہ پر کھڑا ہو نیوالا اما م کے محا زی و مقا بل کیو ں نہ ہو گا جب کہ دو نو ں کے درمیا ن
حا ئل نہیں تو جب آپ کی یہ تا ویل علی البا ب کے معنی تو جب آپ کی یہ تا ویل علی البا ب کے معنی ظا ہر کی تائید کر تی ہے تو اس تا ویل کی کیا ضر و رت ہے اسی لیے ہم نے کہا تھا کہ آپ کی تا ویل اپنی تخر یب کا سا ما ن اپنے سا تھ ہی لا ئی ہے اور یہ بد تر ین با ت ہے ۔
نفحہ ۹: اشنع منہ زعم ان(عہ) العا طف محذوف قبل قو لہ ”علی با ب المسجد ”والمعنی کا ن الاذا ن تا ر ۃ بین ید یہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم و تا رۃ علی با ب المسجد او کا ن یکو ن فی المحلین غیر ان الذی علی البا ب کا ن اعلا ما بغیر لفظ الاذان و ھذا بحکا یتہ یعنی عن نکا یتہ فما مثلہ الا کمن یقو ل فی قو لہ تعا لی صیا م شہر ین متتا بعین من قبل ان یتما سا ۱؎ ان الوا و بمعنی او محذو ف قبل من”من قبل”والمعنی اما متتا بعین او قبل ان یتما سا ۔
نفحہ ۹: اس سے بر ی تا ویل یہ ہے کہ یہ کہا جا ئے کہ الفا ظ حد یث میں لفظ ”علی البا ب ”سے پہلے واو یا او محذوف ہے اور مطلب یہ ہے کہ اذا ن کبھی حضو ر کے سا منے منبر کے پا س ہو تی اور کبھی دروا زہ پر یا مطلب یہ ہے کہ مو ذن با نگ دو نو ں جگہ دیتا منبر کے پا س وا لی تو اذا ن ہو ئی اور درو ا زے کے پا س وا لا اعلا ن تھا جو اذان کےالفاظ میں نہیں ہوتا تھا یہ با ت خو د ہی اپنا بطلان کر رہی ہے کیو نکہ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کو ئی کفارہ ظہار کی آیت صیا م شہر ین متتا بعین من قبل ان یتما سا (صحبت سے قبل مسلسل دو مہینے روزہ رکھنا ہے ) میں یہ کہے کہ آیت میں لفظ من قبل کے پہلے حر ف وا و جو بمعنی او ہے مقد ر ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ مسلسل دو مہینے روزہ رکھے یا عو ر ت سے صحبت سے پہلے روزہ رکھے ۔
(۱؎القرآن الکر یم ۵۸/ ۴)
عہ: و مثلہ بل ابعد منہ قو ل اعجا ز الحق ان فی روایۃ محمد بن اسحق تقد یرا یعنی اذجلس النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم علی المبنر أذن بین یدیہ (بعد ما کا ن ) علی با ب المسجد فا لند ا ء لا با لفا ظ مخصو صۃ علی با ب المسجد کان فی زمن النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم و الشیخین ،ثم جعل عثمٰن ھذا الندا ء اذا نا ای با لفاظ مخصوصۃ علی مقام عال ھو الزوراء علی ما صرح بہ فی المر قا ۃ ۱؎فھذا ھو التحقیق الحقیق با لقبو ل وبہ ارتفع التعا رض فی الروا یا ت ،وزین القو ل با لفا ظہ الفصیحۃ فھذا اشد ۃ [شفا ھتہ لارزانتہ ]لم یقنع بحذف حر ف وا حد و لتو ھمہ ان ”یؤذن”فی الحدیث علی ۔۔۔۔۔۔ ولعمر اللہ لو جو ز امثا ل ھذہ الحذفا ت فی الکلا م لھان تحو یل کل نص الی ما تہو ی الانفس للئام فیقو ل من یبح الزنا للاعزب الحق ان فی قو لہ تعا لی ”ولا تقر بو ا الزنا ۲؎”تقد یر ا یعنی بعد ما تزو جتم لا ن المتا ھل عند ہ ما یغنیہ من الز نا المحر م علیہ بخلا ف الا عزب فا نہ محتا ج الیہ و یقو ل من یبیح قتل الشبا ن الحق ان فی قو لہ تعا لی ”ولا تقتلو ا النفس التی حر م اللہ ۳؎”تقد یرا یعنی بعد ما تحر م لا ن القتل لدفع الا یذا ء والھرم ، اضعف من ان یوذی احدا بخلا ف الشبا ب فا نہ ان لم یوذ حا لا فیستطیع ان یو ذی وقتل المو ذی قبل الا یذا ء ثم ھو بنفسہ لم لا یستدل علی مزعومہ با یۃ الجمعۃ قائلا : الحق ان فی کلامہ تعالٰی اذا نو دی للصلو ۃ من یوم الجمعۃ تقد یرا یعنی”اذا نودی للصلو ۃ ”داخل المسجدلصیق المنبر یو م الجمعۃ ولا حو ل ولا قو ۃ الا با اللہ العلی العظیم وما نسب التصر یح بہ الی القا ری فلم یصرح بہ ولم یکن وانما ابدی من عندنفسہ عد ۃ احتمالات شتی لما سبق الی وھمہ فا حتما ل ھو بعد ہ للتوفیق کما یاتی بعو نہ تعا لی بیا نہ الشافی فی نفحۃ عشر ین من الشما مۃ الرا بعہ ۱۲منہ ۔
اور اس سے بھی زیا دہ بعید اعجا زالحق کا قو ل ہے کہ محمد بن اسحق کی روا یت میں پو را ایک جملہ مقد ر ہے یعنی عبا ر ت یو ں ہے ”حضو ر اکر م صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم جب منبر پر تشر یف فر ما ہو تے تو دروا زہ پر ہو نے کے بعد اذان آپ کے سامنے ہو تی ”یعنی وہ ند ا جو دروا زہ پر ہو تی اذان کے الفا ظ میں نہیں ہو تی تھی ایسا حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اور شیحین کے زما نہ میں ہو تا رہا پھر عثما ن غنی رضی اللہ تعا لی عنہ نے اپنے زما نہ میں اس کو اذا ن ہی کے الفا ظ میں مقا م زوراء پر کہلا نا شر و ع کیا جو مسجد سے دور ایک بلند جگہ تھی ایسا ہی ملا علی قا ری علیہ الر حمہ نے مر قا ۃ شر ح مشکو ۃ میں تحر یر فر ما یا یہ تحقیق لا ئق قبو ل ہے ،اور اس سے تما م رو ا یتو ں کا تعا ر ض بھی اٹھ جا تا ہے مسمی اعجا ز الحق نے اپنی اسی با ت کو فصیح الفا ظ سے آرا ستہ کیا ہے لیکن اس کی یہ تا ویل بھی سخت گند ی ہے کہ اس نے ایک لفظ کے مقد رماننے پر قناعت نہ کی پورامرکب غیرمفید کر ڈا لا اور یہ سو چ کر کہ حد یث شر یف میں یؤ ذن کا مطلب چو نکہ اذا ن معر و ف ہے اس لیے با ب مسجد وا لا اعلا ن ہو گا اور اس کو ملا علی قا ر ی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ کی طر ف منسو ب کر دیا واللہ العظیم اگر اس طر ح کی خر ا فا ت کلا م میں جا ئز ہو ں تو ہر شحص کو اپنی ہو ا ئے نفس کے مطا بق قرآ ن عظیم کی آیتیں پھیر نا آسا ن ہو گا مثلا جو لو گ کہتے ہیں کہ غیر شا دی شد ہ کو زنا جا ئز ہے وہ یہ کہنے لگیں گے کہ آیت شر یفہ لا تقر بو ا الزنا (زنا کے قر یب مت جا ؤ ) میں یہ ٹکڑا مقدر ہے بعد تزوجتم یعنی جس کی شا دی ہو چکی ہو وہ زنا کے قر یب بھی نہ جا ئے کیو نکہ شا د ی کر لینے و الے کو زنا کی حا جت نہیں بخلا ف غیر شا دی شد ہ کے اس کے پا س بیو ی نہیں تو کس طر ح اپنی شہو ت پو ر ی کر ے گا اسی طر ح جو لو گ جو انو ں کا قتل جا ئز رکھتے ہیں وہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعا لی کے فر ما ن ولا تقتلوا النفس التی حر م اللہ میں یہ ٹکڑا مقد ر ہے بعد ما تحر م اور مطلب بجا ئے اس کے کہ اللہ تعا لی نے قتل نفس حر ا م کیا ہے یہ ہے کہ بوڑھے ہو نے کے بعد انسا نو ں کا قتل حر ا م ہے کیو نکہ کسی کو قتل اس لیے کیا جا تا ہے کہ لو گو ں کو اس کی ایذا سے نجا ت ملے اور بو ڑھا ایذا پہنچا نے کے لا ئق نہیں تو اس کا قتل حر ام ہو نا چا ہیے بخلا ف جوانو ں کے کہ یہ فی الوقت ایذا نہ دیں ایذادے تو سکتے ہیں اور مو ذی کو ایذا سے پہلے قتل کر دینا چا ہئے اس طر ح آیت میں صر ف بڈھوں کے قتل کی مما نعت ہے جو انو ں کے قتل کی نہیں بلکہ خو د یہ مو و ل اسی مسئلہ میں قرآ ن کی آیت کو بھی اپنے مقصد کے مو افق بنا سکتا ہے مثلا قر آن شر یف کی آیت مقد سہ اذا نو دی للصلو ۃ من یو م الجمعۃ
(جمعہ کے دن جب اذا ن پکاری جا ئے ) میں یہ مقدر ما ن لے اذا نو دی للصلو ۃ دا خل المسجد لصیق المنبر من یو م الجمعۃ
(جب مسجد کے اند ر منبر سے متصل جمعہ کے دن اذان دی جا ئے ) لاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم ۔۔۔۔ رہ گئی اس قدر نا معقول کی نسبت ملا علی قاری کی طرف تو یہ قطعا غلط ہے انھوں نے اس امر کی طر ف نہ کنا یہ کیا نہ تصر یح بلکہ انہو ں نے ایک وہم کی بنا پر حد یث کے الفا ظ میں اختلاف تصورکرتےہوئے اپنی طرف سے چند احتمالات کاذکر کیا کہ ان مخالف الفاظ میں تو فیق ہو جا ئے لیکن اختلا ف ان کا وا ہمہ تھا تو یہ سا ری تو فیقیں اسی کی پید وا ر ما نی جا ئیں گی اس کی پو ر ی تفصیل ان شا ء اللہ تعا لی شما مہ چہا ر م نفحہ بستم میں آرہی ہے ۱۲منہ۔
(۱؎مر قا ۃ المفا تیح با ب الخطبۃ والصلو ۃ تحت الحد یث ۱۴۰۴ المکتبہ الحبیبیہ کو ئٹہ ۳/ ۴۹۷)
(۱؎القر ان الکر یم ۱۷/ ۳۲ )(۱؎القر آن الکر یم ۱۷/ ۳۳)(۲؎القرآن الکر یم ۶۲/ ۹)
ثم اولا لیس مبنا ہ الا علی زعم المقا بلۃ بین ”بین ید یہ”و”علی البا ب ”وما ھو الا وھم فی تبا ب فلو وجد العا طف لم یدل علی التو زیع بل علی جمع جمیع و ھو مرا دنا ۔
پھر اولا اس کی تا ویل کی بنا اس وا ہمہ پر ہے کہ لفظ بین ید یہ اور علی البا ب میں تقا بل ہے دو نو ں ایک مصدا ق پر صا د ق نہیں آسکتے اور چو نکہ یہ وہم با طل ہے اس لیے او بھی یہا ں تقسیم کے لیے نہیں ہو گا بلکہ اس با ت کے اظہا ر کے لیے ہو گا کہ لفظ بین ید یہ اور علی البا ب دو نو ں ایک ہی ہیں یعنی جمع کے لیے ہو گا ۔
ثم ثانیا یلزم علی الثا نی وجو د التثو یب فی الجمعۃ علی عہد رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم وھو خلا ف ما صرحو ا بہ بل السا ئب نفسہ رضی اللہ تعا لی عنہ یقو ل لم یکن للنبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم مؤ ذن غیر وا حد و کا ن التا ذین یو م الجمعۃ حین یجلس الا ما م یعنی علی المنبر روا ہ البخا ری ۱؎
ثانیا ”علی البا ب ”اور ”بین ید یہ ”دو الگ الگ ند ا ؤ ں سے متعلق ما ننے پر یہ لا زم آئیگا کہ عہد رسا لت میں نما ز جمعہ کے لیے تثو یب ہو تی تھی اور یہ تصر یحا ت علما ء کے با لکل خلا ف ہے بلکہ خو د سا ئب بن یز ید رضی اللہ تعالی عنہ یہی فر ما تے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مسعود میں ایک ہی مؤ ذن ہو تا تھا جو اما م کے منبر پر بیٹھتے ہی اذان دیتا یہ روا یت بخا ری شر یف کی ہے ۔
(۱؎صحیح البخا ری کتا ب الجمعۃ با ب المؤ ذن الو ا حد یوم الجمعۃ قد یمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/ ۱۲۴)
ثم ثالثاًھذا الا ذا ن ھو المحکو م علیہ فی الحد یث بکو نہ بین ید یہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم وبکو نہ علی البا ب فکیف تفصیل بینھما با ن ما علی البا ب اعلا م غیر الا ذا ن الا ان تقدر مع العا طف معطوفا وھو الا علام او تحمل الاذان علی عمو م المجا ز فتر تکب مجا ز ا علی مجاز و تر ک الحقیقۃ من دو ن ضرو رۃ ملجئۃ وثیقۃ اشنع مسلک و اخنع طر یقۃ و با لجملۃ امثا ل الھو سا ت لا یر تکبھا الا من یکید النصو ص با لتعطیل و یرید التغیر با سم التا ویل۔
ثالثا حد یث شر یف میں تو ایک ہی اذا ن کے بین ید یہ اور علی البا ب ہو نے کی تنصیص ہے اس تفصیل کی گنجائش کیسے نکل سکتی ہے کہ دروا زہ پر اذان سے مختلف کلما ت میں اعلا ن ہو تا تھا ہا ں حر ف عطف کے ساتھ معطو ف کو بھی مقد ر ما نا جا ئے یعنی و بعد ما کا ن الا علا م علی با ب المسجد (مسجد کے دروا زہ پر اعلا ن ہو نے کے بعد سا منے اذا ن ہو تی یا لفظ یؤ ذن کو ہی عمو م مجا ز پر محمول کیاجاتا جس سے ڈبل مجاز بلکہ بلا کسی قرینہ ملجئہ کےتر ک حقیقت ما ننالا زم آئے تو یہ سب مخا لفین کی ہو س ہے جس سے وہ حد یث کی تفسیر کے نا م پر تغییر و تبد یل حد یث کر نا چاہتے ہیں )
نفحہ ۱۰: وبعض من تعیرنا بہ الجہل اراد ان یبد ی فی الحدیث علۃ تہد مہ عن اصلہ فزعم ان لم یکن فی زمنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم للمسجد الکر یم با ب تجاہ المنبر انما کا ن لہ ثلثۃ ابو ا ب ،با ب جبر یل (عہ) فی الشر ق و با ب السلا م و با ب الر حمۃ فی الغر ب وھذا ھجو م علی رد الحد یث با لجہل الخبیث کا ن للمسجد الکر یم ثلثۃ ابو اب با ب جبر یل فی الشر ق ثم زا د ا میر المو منین عمر رضی اللہ تعا لی عنہ با ب النسا ء وباب الر حمۃ فی الغر ب ثم زا د امیر المو منین عمر رضی اللہ تعا لی عنہ با ب السلا م و با ب ابی بکر فی الشما ل ثم زا د امیر المو منین با با اٰخر کما فصلہ عا لم المد ینۃ السید السمھو دی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ فی خلا صۃ الو فا ء ۱؎ و حسبک حد یث البخا ری فی ابو ا ب الا ستسقا ء عن انس بن ما لک رضی اللہ تعا لی عنہ ان رجلا دخل یو م الجمعۃ من با ب کا ن وجا ہ منبررسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم قا ئم یخطب ۲؎الحد یث۔
اور مخا لفین میں سے بعض جن کو ہم نے جہا لت پر عا ر دلا یا تھااس نے حد یث پا ک میں ایک ایسی علت پید ا کر نی چا ہی جو سر ے سے اس حد یث سے استد لا ل کو ہی ختم کر دے وہ کہتا ہے کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے عہد پا ک میں کو ئی دروا زہ منبر کے سا منے تھا ہی نہیں پو ر ی مسجد نبو ی شر یف میں صرف تین دروا زے تھے پو ربی رخ پر با ب جبر یل اور پچھم طر ف با ب السلا م اور با ب الرحمہ (شما ل و جنو ب میں کوئی دروا زہ تھا ہی نہیں) یہ خبیث جہا لت سے حد یث کو رد کر نا ہے مسجد شر یف میں یہ تین دروا زے ضر و ر تھے مگر اور دروا زے بھی تھے جن کی تفصیل یو ں ہے پو ربی جا نب با ب جبر یل پھر امیر المو منین عمر فا روق رضی اللہ تعا لی عنہ نے اسی سمت
با ب النسا ء قا ئم فر ما یا پچھم طر ف با ب الر حمۃ پھر اسی طر ف امیر المو منین نے باب السلا م قا ئم فر ما یا شما لی جانب با ب ابی بکر پھر اسی طر ف امیر المو منین نے ایک دروا زے کا اور اضا فہ فر ما یا عا لم مد ینہ حضر ت سید سمہو دی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ نے خلا صۃ الو فا ء میں اس کی تصر یح فر ما ئی پھر با ب شما ل کے لیے کسی دوسرے حو ا لہ کی ضر و ر ت نہیں بخا ری شر یف با ب الا ستسقا ء کی یہ حد یث کا فی ہے انس بن ما لک رضی اللہ تعالی عنہ سے روا یت ہے کہ ایک آدمی اس دروا زہ سے جو منبر کے سا منے تھا ایک جمعہ کو آیا آپ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اس وقت خطبہ ارشا د فر ما رہے تھے (الحد یث)
عہ : ھذا الاسامی حا دثۃ و لا یقیت الابو ا ب فی محل الابو ا ب بل احد ثت علی محا ذا تھا بعد الزیا دا ت ۱۲منہ۔
ابو ا ب کے نا م بعد میں رکھے گئے ہیں اور مو جو دہ دروا زے بھی ٹھیک انہیں مقا ما ت پر نہیں جہا ں تھے بلکہ مسجد کی تو سیع کے بعد انہیں دروا زوں کی محا ذا ت میں رکھے گئے منہ ۱۲غفر لہ
(۱؎ وفا ء الو فا ء الفصل الثا لث عشر دا ر احیا ء التر ا ث العر بی بیر و ت ۲/ ۴۹۴تا۴۹۶)
(۲؎صحیح البخاری ابو ا ب الاستسقا ء با ب الاستسقا ء فی المسجد الجا مع قدیمی کتب خا نہ کر اچی ۱/ ۱۳۷)
نفحہ ۱۱: لا یذھبن عنک ان ھھنا سنتین،سنۃ خا صۃ با ذا ن الخطبۃ و ھو کو نہ بین ید یہ الخطیب حین جلو سہ علی المنبر ، و سنۃ عا مۃ لکل اذان و ھو کو نہ فی حد ود المسجد او فنا ئہ ،لا فی حد ود المسجد او فنا ئہ لا فی جو فہ کما ستسمع نصو ص الفقھا ء علیہ و قد سردنا لک اسماء ھم و قد ا رشد حد یث السا ئب رضی اللہ تعا لی عنہ الیھما معا ۔۔۔۔ فا لا ولی قو لہ بین یدی رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر ،وا لا خر ی قو لہ علی با ب المسجد فا ن با ب المسجد فی حدودہ لا فی جو فہ و خصو صیۃ البا ب ملغاۃ قطعا وانما لا یکو ن علیہ لکو نہ وجا ہ المنبر لولا ذالک لم یکن علی البا ب بل علی حا فۃ المسجد او فی فنا ئہ بین یدی الا ما م فا نکشف بہ سو الان کثیرا ما توردھما جھلۃ الھنود الا و ل ان العلما ء لم یذکر و ا من سنن ھذا ا لا ذان کو نہ علی البا ب قل لھم لم یذکر و نہ مع انہ غیر مقصود فی ھذا البا ب و ما مثلہ الاکمثل من یر ی حد یث ان بلا ل رضی اللہ تعا لی عنہ کا ن یؤ ذن علی سطح بیت ستنا نوار ام زید بن ثا بت رضی اللہ تعا لی عنھما فیحسب ان السنۃ فیہ کو نہ من سطح بین الجیرا ن حتی لو کا ن علی منارۃ او علی جدا ر المسجد کا ن مخا لفا للسنۃ وھذا اجہل منہ بان القصد کان علی محل عال لا الی خصوص سقف جا ر ،کذا ھھنا ، والثانی ان الفقہا ء لا یذکر و نہ فی باب الجمعۃ سنیۃ اذان الخطبۃ خارج المسجد فی حدودہ انما یذکرون استنان کونہ بین ید ی الا ما م قل لھم ولم یذکر و نہ ثمہ فا نہ لا یختص بہ بل ھو حکم مطلق ا لاذان الشر عی فمحل ذکرہ ھوباب الاذان لاباب الجمعۃ وقد ذکروہ فیہ نعم کو نہ بین ید یہ کا ن من خصو صیا ت اذا ن الخطبۃ فذکر وہ فی با ب الجمعۃ اشتمل الحد یث علی حکمین خاص وعام وکان من حقھما ان یذکر الخاص فی با ب الخا ص والعا م فی با ب العا م و کذالک فعلوا ولکن العوام لا یفقھو ن ھذا علی تسلیم زعمھم والا فعلما ؤ نا لم یخلو ا با ب الجمعۃ ایضا عن افا دۃ ھذا الحکم کما ستری بعو ن العلی الا علی ۔
نفحہ ۱۱: یہ امر قا بل لحا ظ ہے کہ یہا ں دو سنتیں ہیں جن میں ایک کا تعلق خا ص اذا ن خطبہ سے ہے یہ خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے وقت اذا ن کا اس کے سا منے ہو نا ہے اور ایک عا م سنت ہے جو ہر اذا ن کو عا م ہے اور اذا ن کا حدود مسجد کے اند ر اس کے صحن میں ہونا ہے نہ کہ خا ص مسجد کے اند ر اسکی تصر یح ان فقہا ء کے نصو ص میں ہے جن کا نا م ہم بیا ن کر چکے ہیں اور سا ئب ابن یز ید رضی اللہ تعا لی عنہ نے اپنی اس حد یث میں ان دو نو ں ہی سنتو ں کا بیا ن کیا ہے کہ اذا ن خطبہ خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے بعد اس کے سا منے ہو ئی اور یہ کہ اذا ن مسجد کے دروا زہ پر ہو ئی اور دروا زہ مسجد مسجد کی حد پر ہو تا ہے مسجد کے اند ر نہیں لیکن اذا ن کی سنت میں دروا زہ کی کو ئی خصو صیت نہیں اہمیت صر ف منبر کے سامنے ہو نے کو ہے اگر کسی مسجد میں منبر کے سا منے دروازہ نہ ہو تو ایسا نہیں ہے کہ دروا زہ ڈھو نڈ کر وہیں اذا ن دی جا ئے بلکہ خطیب کے سا منے حد و د مسجد اور صحن مسجد میں ہو گی اس سے دوسو الو ں کا جو ا ب ہو گیا جو اکثر کیا جا تا ہے اول یہ کہ علماء نے اس اذا ن کی سنتو ں میں اس کا دروا ز ہ پر ہو نا ذکر نہ کیا جو ا ب یہ ہے کہ اس لیے اس کا ذکرنہ کیا کہ دروا ز ہ اس با ب میں غیر مقصو د ہے اس حد یث میں اس کا ذکر ایسے ہی ہے جیسے دوسر ی حد یث میں سطح بیت نوار ام زید کا کہ حضر ت بلا ل رضی اللہ تعا لی عنہ نوا ر ام زید پر اذا ن دیتے تھے تو اگر کو ئی یہ گما ن کر ے کہ اذا ن میں یہ سنت ہے کہ پڑو سیو ں کے گھر کی چھت پر ہو اور کو ئی شخص منا رہ یا مسجد کے دروا زہ کے اوپر کھڑا ہو کر دے تو سنت کے مخا لف ہے تو غلط ہے کیو نکہ اس گھر کی چھت کے ذکر سے مقصد تو یہ ہے کہ بلند جگہ پر اذا ن ہو نہ یہ کہ
پڑو سی کے گھر کی چھت پر دو سرا سوال یہ کہ فقہا ء اس اذا ن کے لیے خا ر ج مسجد ہو نے کی شر ط با ب جمعہ میں ذکر نہیں کر تے بلکہ صر ف اتنابتا تے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ اما م کے سا منے ہو جو ا ب یہ ہے کہ خاص باب جمعہ ذکر نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سنت صر ف اذان جمعہ کے سا تھ مختص نہیں بلکہ تما م اذا نوں کی سنت ہے اس لیے علما ء نے اس کو مطلق اذا ن کے با ب میں ذکر کیا ہا ں خطیب کے سا منے ہو نا اذا ن جمعہ کے سا تھ خاص تھا تو اس کو با ب جمعہ میں خصو صیت کے سا تھ ذکر کیا خلا صہ کلا م یہ ہے کہ حد یث حضر ت سا ئب ابن یز ید رضی اللہ تعا لی عنہ اذا ن کے دو خا ص و عا م حکم کو شا مل تھی اصو لا اس کو دو علیحد ہ علیحد ہ ابو ا ب میں ذکر کر نا چا ہیے تھا فقہا ئے امت نے ایسا ہی کیا یہ جو ا ب اس تقد یر پر ہے کہ سا ئل کے قو ل کو تسلیم کیا جا ئے ورنہ ہما رے علما ء کر ا م نے ابو ا ب جمعہ کو بھی اس بیا ن سے خا لی نہیں رکھا ان شا ء اللہ آئند ہ ہم اس کی شہادتیں پیش کر یں گے ۔
نفحہ ۱۲: اذاعجز وا من کل جہۃ قا لو ا ھذا حد یث لم یعر ج علیہ النا س فکا ن مہجو را عند ھم و ھذا کما تر ی قو ل من لم یترعر ع عن العامیۃشیئا الحدیث وکل شیئ انما یطلب فی معدنہ ولا یضر ہ عد م و جدانہ فی غیر ہ مع ھذا ما ھی الا شہادۃ نفی ولا سیما من قو م عمی ولو ابصر وا لنظر و ا ان العلما ء لم یز الو ا یو ردو نہ و یعتمد ونہ ففی تفسیر الخا ز ن (اذا نودی للصلوۃ من یو م الجمعۃ ) اراد بھذا الا ذا ن عند قعو د الا ما م علی المنبر لا نہ لم یکن فی عہد رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم نداء سو ا ہ ولا بی دا ؤ د قا ل کا ن یؤذن بین ید ی النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر یو م الجمعۃعلی با ب المسجد ۱؎، اھ مختصر ا ۔
نفحہ ۱۲: اور جب ہر طر ف سے عا جزآگئے تو کہا کہ لو گو ں نے اس حد یث کا چر چا ہی نہیں کیا تو یہ متر و ک العمل رہی مگر یہ با ت ایسے شخص کی ہو سکتی ہے جو عو ا م کے درجہ سے با لشت بھر بھی بلند نہ ہو سکا کیو نکہ ہر چیز کو وہیں تلا ش کر نا چا ہیے جہا ں اس کا ٹھکا نہ ہو اور دو سر ی جگہ نہ ملنے کی کو ئی شکا یت نہیں اور یہ با ت اسی قبیل سے ہے کہ کسی چیز کے نہ ہو نے پر اند ھو ں کی گو ا ہی پیش کی جا ئے ورنہ علما ء تو اس حد یث کا مسلسل ذکر کر تے ر ہے اور اس پر اعتما د کر تے رہے تفسیر خا ز ن میں ہے :(جمعہ کے دن جب نما ز کے لیے اذا ن دی جا ئے )اس سے وہ اذا ن مراد ہے جو اما م کے منبر پر بیٹھنے کے وقت ہو تی ہے اس لیے کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے زما نہ میں اسکے علا وہ اور اذا ن نہیں تھی ۔ابو دا ؤ د کی حد یث میں ہے کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم جمعہ کے دن جب منبر پر بیٹھتے توان کے سا منے مسجد کے دروا زہ پر اذا ن دی جا تی تھی اھ مختصر اً
(۱؎لبا ب التا ویل فی معا لم التنزیل (تفسیر الخا زن) تحت آیۃ ۶۲ / ۹ دار الکتب العلمیہ بیر و ت ۴/ ۲۹۰)
وفی تفسیر الکبیر : قو لہ تعا لی”اذا نو دی ”یعنی الند اء اذا جلس الا ما م علی المنبر یو م الجمعۃ وھو قو ل مقا تل و انہ کما قا ل لانہ لم یکن فی عہد رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم ند ا ء سوا ہ کا ن اذا جلس علیہ الصلو ۃ والسلا م علی المنبر اذن بلا ل علی با ب المسجد و کذا علی عہد ابی بکروعمر رضی اللہ تعا لی عنھما ۱؎، اھ
تفسیر کبیر میں ہے : اللہ تعا لی کا قو ل ”جمعہ کے دن جب نما ز کے لیے اذا ن دی جا ئے ”یعنی ند ا جو جمعہ کے دن اما م کے منبر پر بیٹھتے وقت دی جا تی ہے یہی مقا تل کا قو ل ہے اور ایسا ہی بیا ن کیا گیا ہے کہ حضو رصلی اللہ تعا لی کے زما نہ میں اس اذان کے علا وہ کو ئی اذان نہیں دی جا تی تھی جمعہ کے دن جب حضور صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم منبر پر بیٹھتے تو بلا ل رضی اللہ تعا لی عنہ مسجد کے دروا زہ پر اذا ن دیتے ایسا ہی ابو بکر و عمر رضو ان اللہ علیھما کے زما نے میں بھی تھا ۔
(۱؎مفا تیح الغیب (التفسیر الکبیر ) تحت الآیۃ ۶۲/۹ مید ان الجا مع الا زہر مصر ۳۰/۸)
وفی الکشا ف : الند ا ء الا ذان وقا لو ا لمرا د بہ الا ذان عند قعود الا ما م علی المنبر ،و قد کا ن لر سو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم مؤ ذن واحد فکا ن اذا جلس علی المنبر اذن علی با ب المسجد فا ذا انزل اقا م للصلو ۃ ثم کا ن ابو بکر وعمر رضی اللہ تعا لی عنھما علی ذلک حتی اذا کا ن عثما ن و کثر النا س و تباعد ت المنا زل زا د مؤ ذنا اٰخر فا مر با لتا ذین الاو ل علی دا رہ التی تسمی ”زوراء”فا ذا جلس علی المنبر اذن المو ذن الثا نی فا ذا نز ل اقا م للصلو ۃ ۱؎، اھ
تفسیر کشا ف میں ہے (سورہ جمعہ کی آیت میں ) ند ا ء سے مراد اذا ن ہے کہتے ہیں کہ اس اذا ن کی طر ف اشا ر ہ ہے جو اما م کے منبر پر بیٹھنے کے وقت دی جا تی تھی حضو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عہد مبا ر ک میں ایک ہی مؤ ذن آپ کے منبر پر بیٹھتے ہی مسجد کے دروا زہ پر اذا ن دیتا خطبہ کے بعد آپ مبنر سے اتر کر نما ز قا ئم فرماتے ابو بکر وعمر رضی اللہ تعا لی عنھما کے زما نہ میں بھی ایسا ہی ہو تا رہا حضر ت عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہ خلیفہ ہو ئے اور لو گو ں کی تعدا د میں بڑا اضا فہ ہو ا اور دور دور تک مکا نا ت ہو گئے تو آپ نے ایک مو ذن کا اور اضا فہ فر مایا اور اسے پہلی اذا ن کا حکم دیا جو آ پ کے گھر سے مو سو م بہ زوا ء پر د ی جا تی (یہ مکا ن مسجد سے دور با زا ر میں تھا ) اور آپ جب منبر پر بیٹھتے تو دوسر ے مو ذن اذا ن دیتے پھر آپ منبر سے اتر کر نما ز قا ئم فر ما تے ۔
(۱؎الکشا ف عن حقا ئق غو امض التنزیل تحت الا ۤیہ ۶۲/ ۹ دار الکتا ب العر بی بیر وت ۴/ ۵۳۲)
وفی الد ر الشفا ف لعبد اللہ بن الہا دی : کان لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مؤذن واحدفکان اذا جلس علی المنبر أذّن علٰی باب المسجد فاذا نزل اقام الصّلوۃ۱؎اھ
در شفاف لعبد اللہ بن الہادی میں ہے: آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ایک ہی مؤذن تھے جو آپ کے منبر پر بیٹھنے کے وقت دروازہ مسجد پر اذان دیتے پھر آپ منبر سے اتر کر نماز قائم فرماتے۔
(۱؎الد ر الشفا ف )
وکذا فی النھر الماد من البحر لا بی حیا ن : کذالک کا ن فی زما ن رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کا ن اذ ا صعد علی المنبر اذن علی با ب المسجد فاذا نزل بعد الخطبۃ اقیمت الصلو ۃ و کذا کا ن فی زمن ابی بکر و عمر الی زمن عثمان کثر النا س و تبا عد ت المنا زل فزا د مو ذنا آخر علی دارہ التی تسمی الزورا ء فا ذا جلس علی المنبر اذن الثا نی فا ذا نزل من المنبر اقیمت الصلو ۃ ولم یعب احد ذلک۲؎
نہر الما د من البحر لا بی حیا ن میں بھی اسی طر ح ہے حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے زما نہ پا ک میں ایسا ہی ہو تا تھا کہ جب آپ منبر پر بیٹھتے تو مسجد کے دروا زہ پر اذا ن ہو تی ،اور جب خطبہ کے بعد آپ اتر تے تو نما ز قا ئم ہوتی ایسے ہی صا حبین کے عہد تا ابتدا ء عہد عثما ن غنی رضو ان اللہ علیہم اجمعین ہو تا رہا پھر عثما ن کے زمانہ میں مد ینہ شر یف کی آبا دی بڑھ گئی لوگ زیا دہ ہو گئے اور مکا نا ت دور تک پھیل گئے تو آپ نے ایک مؤ ذن کا اضافہ فر ما یا اور انہیں حکم فرما یا کہ پہلی اذا ن آپ کے مکا ن زوراء پر دیں پھر جب آپ منبر پر بیٹھتے تو مؤ ذن دوسر ی اذان دیتا پھر آپ منبر سے اترکر نما ز قا ئم فر ما تے اس اضا فہ پر کسی نے آپ پر اعترا ض نہیں کیا ۔
(۲؎النہر الما د من البحر علی ہا مش البحر المحیط تحت الا ۤیۃ ۶۲/ ۹ دا را لفکر بیر و ت ۸/ ۲۶۵)
وفی تقر یب الکشا ف (لا بی الفتح محمد بن مسعود ) کا ن لر سو ل اللہ صلی اللہ تعا لی وسلم کذا لشیخین بعد ہ مؤ ذن واحد یو ذن عند الجلو س علی المنبر علی با ب المسجد ۳؎، اھ
تقر یب کشا ف لابی الفتح محمد بن مسعود میں حضو ر صلی اللہ تعا لی وسلم اور آپ کے بعد شیخین رضی اللہ تعا لی عنہما کے عہد میں ایک ہی مؤ ذن تھا جو اما م کے منبر پر بیٹھنے کے وقت مسجد کے دروا زے پر اذا ن دیتا تھا ۔اور جب آپ منبر پرسے اترتے نماز قائم فرماتے ۔
(۳؎تقر یب الکشا ف محمد بن مسعود )
وفی تجر ید الکشا ف لا بی الحسن علی بن القا سم : کا ن لہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم مؤ ذن وا حد فکا ن اذا جلس علی المنبر اذن علی با ب المسجد فا ذا نز ل اقا م الصلو ۃ ۱؎، اھ
اور تجر ید کشا ف لا بی الحسن علی بن القا سم میں ہے : حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کا ایک مؤ ذن تھا جب آپ منبر پر بیٹھتے تو وہ مسجد کے دروا زے پر اذا ن دیتا تھا اور آپ جب منبر سے اتر تے تو نما ز قا ئم فر ما تے ۔
(۱؎تجر ید الکشاف )
وفی تفسیر النیسا بو ری : الند ا ء الا ذان فی اول وقت الظہر و قد کا ن لر سو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مؤ ذن وا حد فکا ن اذا جلس علی المنبر اذن علی باب المسجد۲؎الخ مثل ما فی الکشا ف ۔
تفسیر نیشا پو ر ی میں ہے نداء اول وقت ظہر میں اذا ن ہے حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کا ایک مؤ ذن تھا جب آپ منبر پر بیٹھتے تو وہ مسجد کے دروا زے پر اذا ن دیتا تھا الخ(موافق تفسیر کشا ف )
(۲؎غر ا ئب القر ا ن (تفسیر نیشا پوری) تحت الا ۤیۃ ۶۲/ ۹ مصطفی البا بی مصر ۲۸/ ۵۲)
وفی تفسیر الخطیب ثم الفتو حا ت الا لھیۃ : قو لہ تعا لی ”اذا نو دی للصلو ۃ ”المرا د بھذا ا لند اء الا ذان عند قعو د الخطیب علی المنبر لا نہ لم یکن فی عہد رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ند اء سو اہ فکا ن لہ مؤ ذن واحد اذا جلس علی المنبر اذن علی با ب المسجد فا ذا نزل اقا م الصلو ۃ ثم کا ن ابو بکر و عمر و علی بالکو فۃ رضی اللہ تعا لی عنھم علی ذلک حتی کا ن عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہ و کثر النا س و تبا عد ت المنا زل زا د اذانا آخر ۱؎،الخ
تفسیر خطیب وفتو حا ت الہیہ میں ہے اللہ تعا لی کا فر ما ن ”جمعہ کے دن جب نما ز کے لیے اذان دی جا ئے ”اس ندا سے وہ اذا ن مرا د ہے جو اما م کے منبر پر بیٹھنے پر دی جا تی ہے کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی وسلم کے عہد میں اس اذا ن کے علا وہ تھی ہی نہیں ایک ہی مؤ ذن تھا جب آپ منبر پر بیٹھتے تو وہ دروازہ پر اذان دیتا جب آپ منبر سے اترتے تو نما ز قا ئم ہو تی پھر ابو بکر و عمر و علی (رضی اللہ تعا لی عنھم)کو فہ میں اسی پر عا مل رہے مد ینہ میں عہد عثما ن غنی رضی اللہ تعا لی عنہ میں آبا دی بڑھی اور مکا نا ت دور دور تک پھیل گئے تو انہو ں نے ایک اذا ن اور زائد کی ۔
(۱؎الفتو حا ت الا لہیہ (الشہیر با لجمل) تحت الا ۤیۃ ۶۲/ ۹ مصطفی البا بی مصر ۴/ ۳۴۳)
وفی کشف الغمۃ للا ما م الشعر ا نی کا ن الاذا ن الا و ل علی عہد رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم و ابی بکر و عمر رضی اللہ تعا لی عنھما اذا جلس الخطیب علی المنبر الی قو لہ و کا ن الا ذا ن علی با ب المسجد ۱؎، اھ
کشف الغمہ للا ما م شعرا نی میں ہے اذا ن او ل حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اور ابو بکر وعمر رضی اللہ تعا لی عنھما کے زما نہ میں جب خطیب منبر پر بیٹھتا اور اذان مسجد کے دروا زہ پر ہو تی ۔
(۲؎کشف الغمہ با ب صلو ۃ الجمعہ فی الا ذا ن و الخطبۃ وغیرہا دار الفکر بیرو ت ۱/ ۱۸۵ )
الشما مۃ الثا نیہ من صندل الفقہ
(شمامہ ثانیہ از صندل فقہ)
نفحہ ۱: الحمدللہ تظافرت النصوص علی کراھۃ الاذان فی المسجد والنھی عنہ بصیغۃ النفی الا کد من صیغۃ النھی ففی الخا نیۃ والخلا صۃ و خزا نۃ المفتین و شر ح النقا یۃ للعلا مۃ عبد العلی و الفتا وی الھند یۃ والتا تا ر خا نیۃ ومجمع البر کا ت ینبغی ان یو ذن علی المئذنۃ او خا ر ج المسجد ولا یو ذن فی المسجد ۱؎، اھ
نفحہ ۱: اللہ تعالی کے لیے بے شما ر حمد ہے کہ مسجد کے اند ر اذا ن مکر و ہ ہو نے پر کثیر التعدا د فقہی نصو ص ہیں وہ بھی صیغہ نفی کے ساتھ جو مما نعت میں نہی سے زیا دہ مؤ کد ہو تا ہے ۔خا نیہ خلا صہ خزا نہ المفتین ،شر ح نقایہ للعلامہ عبد العلی فتا وی ہند یہ ،تا تا رخا نیہ ،مجمع البر کا ت میں ہے مئذنہ پر اذا ن دینا چا ہیے یا مسجد کے باہر ؟ مسجد میں اذا ن نہ دی جا ئے ۔
(۱؎الفتا وی الہند یہ کتا ب الصلوۃ البا ب الثا نی الفصل الثا نی نو را نی کتب خا نہ پشا ور ۱/ ۵۵)
(فتا وی قا ضی خا ن مسا ئل الا ذا ن ۱/ ۳۷ و خلا صۃ الفتا وی الفصل الا و ل فی الا ذا ن ۱/ ۴۹)
(خزا نۃ المفتین فصل فی الا ذا ن ۱/ ۱۹ وشر ح النقا یۃ للبر جند ی با ب الا ذا ن ۱/ ۸۴)
وفی البحر الرا ئق شر ح کنز الد قا ئق وفی الخلا صۃ ولا یؤ ذن فی المسجد ۱؎، اھ
بحر الرا ئق شر ح کنز الدقا ئق اور خلاصۃ الفتا وی مسجد میں اذان نہ دی جا ئے ۔
(۱؎البحر الر ا ئق کتا ب الصلو ۃ با ب الا ذا ن ایچ ایم سعید کمپنی کر ا چی ۱/ ۵۵)
(خلا صۃ الفتا وی الفصل الا ول فی الا ذا ن مکتبہ حبیبیہ کو ئٹہ ۱/ ۴۹)
وفی شر ح مختصر الاما م الطحا و ی للا ما م الا سبیجا بی ثم المجتبی شر ح مختصر الا ما م القدو ری لا یؤ ذن الا فی فنا ء المسجد او علی المئذ نۃ ۲؎
شر ح مختصر الا ما م طحا وی للا ما م اسبیجا بی اور مجتبی شر ح مختصر للا ما م قد ور ی میں ہے اذا ن نہ دی جا ئے مگر صحن متعلقہ مسجد میں منا رہ پر ۔(۲؎)
وفی البنا یۃ شر ح الھد ا یۃ للا ما م العینی: لا یؤ ذن الا فی فنا ء المسجد او نا حیتہ(عہ)۳۔
بنا یہ شر ح ہد ایہ لا ما م عینی میں ہے :اذا ن نہ دی جا ئے مگر صحن مسجد میں یا مسجد کے کنا رے ۔(۳؎)
عہ : النا حیۃ الر کن ،وا لجا نب کلھا بمعنی فی القا مو س النا حیۃ الجا نب ۴ اھ وفی المصبا ح الجا نب۵ النا حیۃ وفی تا ج العر و س رکن الجبل والقصر جا نبہ و ارکا ن کل شیئ جو ا نبہ التی یستند الیھا و یقو م بھا ۶ اھ واللفظ مبنی من التنحی والا عتزال کا لمجا نب من المجا نبۃ والا نفصا ل و تر ی رکنی الکعبہ الکر یمۃ الا سو د الیما نی خا ر جۃ منھا ۔
وذکر فی خلا صۃ الو فا ء ان عمر بن عبد العز یز رضی اللہ تعا لی عنہ جعل للمسجد اربع منا را ت فی زوا یا ت الا ربع ثم قال کل ذلک من الھلال الی الا رض خا رج عن المسجد ۳؎منہ غفر لہ۔
ناحیہ رکن اور جا نب سب کے معنی ایک ہیں قا مو س میں ہے نا حیہ جا نب اور کنا رے کو کہتے ہیں مصبا ح میں ہے الجانب الناحیۃ جانب اور کنارہ ہی ناحیہ ہے ۔تا ج العر و س میں ہے پہا ڑ اور محل کا رکن اس کا کو نہ ہو تا ہے اور ہر شیئ کا رکن اس کا کنارہ ہی ہوتا ہے۔ جس کی طر ف اس کی نسبت ہو تی ہے یا اس کے سا تھ قا ئم ہو تا ہے یہ لفظ علیحد گی اور جد ائی کے معنی دیتا ہے جیسے جا نب دوری اورانفصال کے معنی دیتا ہے اورکعبہ شریف کے دونو ں رکن اسو د اور یما نی کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ دو نو ں کعبہ سے خا رج ہیں
اور خلا صۃ الوفا ء میں ذکر کیا ہے کہ عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعا لی عنہ نے مسجد نبو ی شر یف کے چا رو ں کونوں پر چار میناربنائے اور فرمایا کہ یہ چاروں مینار زمین سے لے کر چا ند تک خا رج مسجد ہیں (منہ غفر لہ)۔
(۴؎القا مو س المحیط با ب الوا و وا لیا ء فصل النو ن مصطفی البا بی مصر ۴/ ۳۹۷)
(۵؎المصبا ح المنیر تحت اللفظ ”جنب” منشو را ت دار الہجر ۃ قم ایر ان ۱/ ۱۱۰)
(۶؎تا ج العر و س با ب النو ن فصل الر ا ء دار احیا ء التر اث العر بی بیر و ت ۹/ ۲۱۹ )
(۳؎وفا ء الو فا ء الفصل السا بع عشر دار احیا ء الترا ث العر بی بیر وت ۲/ ۵۲۶و۵۲۷)
فی الغنیۃ شر ح المنیۃ الاذا ن انما یکو ن فی المئذنۃ اوخا رج المسجد والاقا مۃ فی دا خلہ ۱؎ غنیہ شر ح منیہ میں اذا ن مئذنہ پر یا خا رج مسجد ہو اور اقا مت مسجد کے اند ر۔
(۱؎غنیۃ المستملی شر ح منیۃ المصلی فصل فی سنن الصلو ۃ سہیل اکیڈمی لا ہو ر ص۳۷۷)
وفی نظم الامام الزند ویستی ثم شر ح النقا یۃ للشمس القھستا نی ثم حا شیۃ مرا قی الفلا ح للعلا مۃ السید احمد الطحطاوی و یکرہ ان یؤ ذن فی المسجد ۲؎
نظم امام زند ویستی شر ح نقا یہ لشمس قہستا تی حا شیہ مرا قی الفلا ح میں للعلا مۃ سید احمد طحطا و ی میں ہے مسجد کے اندر اذان مکر وہ ہے۔
(۲؎حا شیہ الطحطا وی علی مرا قی الفلا ح با ب الا ذا ن نو ر محمد کا ر خا نہ تجا ر ت کتب کر ا چی ص۱۰۷)
وفی غا یۃ البیان شر ح الھد ا یۃ للعلا مۃ الاتقا نی وفی فتح القد یر شر ح الھد ا یۃ للمحقق علی الاطلا ق :قو لہ (ای الامام برھا ن الدین صا حب الھد ا یہ ) والمکا ن فی مسا لتنا مختلف یفید کو ن المعھو د اختلا ف مکا نھما وھو کذلک شر عا فا لا قا مۃ فی المسجد ولا بد و اما الا ذا ن فعلی المئذنۃ فان لم یکن ففی فنا ء المسجد وقا لوا لا یؤذن فی المسجد ۱؎، اھ
غا یۃ البیان شر ح ہد ا یہ للعلا مہ اتقا تی فتح القد یر شر ح ہدا یہ لمحقق علی الا طلا ق میں ہے مصنف اما م بر ھا ن الدین صا حب ہد ا یہ کا قو ل کہ (مکا ن ہما رے مسئلہ میں مختلف ہے ) اس امر کا فا ئد ہ دیتا ہے کہ اذان و اقامت کے مقا ما ت کا اختلا ف ہی معہود و معر و ف نیز حکم شر عی ہے کہ اقامت مسجد میں ہو نا ضر و ری ہے اور اذا ن مئذنہ پر اور مئذنہ نہ ہو تو مسجد کے صحن میں ائمہ نے فر ما یا کہ مسجد میں اذان نہیں دی جا ئے گی۔
(۱؎فتح القد یر کتا ب الصلو ۃ با ب الا ذا ن مکتبہ نو ریہ رضو یہ سکھر ۱/ ۲۱۵)
وقالا فی الکتا بین فی مسئلۃ سنیۃ الطہا ر ۃ لخطبۃ الجمعۃ قیا سا علی الا ذا ن ما نصہ : الاولی ما عینہ فی الکا فی جامعا وھو ذکر اللہ تعا لی فی المسجد ای فی حدودہ لکر اھۃ الا ذان فی داخلہ۲؎، اھ
اور دونوں شا رحین نے اپنی دونو ں کتا بو ں میں جمعہ کے لیے طہا رت مسنو ن ہو نے کے مسئلہ میں اذان پر قیا س کرتے ہو ئے فر ما یا ”کا فی میں دونو ں مسئلہ میں علت جا معہ یہ بتا ئی کہ خطبہ اور اذا ن دو نو ں ہی مسجد کے اند ر خدا کا ذکر ہے جن کے لیے طہارت سنت ہے ، مسجد کے اند ر کا مطلب حدود مسجد ہے کیو نکہ اذا ن دا خل مسجد مکر و ہ ہے ۔ ”
(۲؎فتح القدیر کتا ب الصلو ۃ با ب صلو ۃ الجمعۃ مکتبہ نو ریہ رضو یہ سکھر ۲/۲۹)
فھذہ تسعۃ عشر نصا وختم العشر ین بکلا م الامام ابن الحا ج المکی مالکی فا نہ رحمہ اللہ تعا لی عقد فی المد خل فصلا للنھی عنہ وفی نفی فعلہ من السلف الصا لح مطلقا فد خل فیھم ائمۃ المذا ھب الا ربعۃ جمیعا ومن قبلھم من الصحا بۃ و التا بعین رضی اللہ تعا لی عنھم اجمعین و ھذا ما نصہ۔
یہ انیس نصو ص ہیں اور بیسو یں نص اما م ابن الحا ج مکی مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتا ب مد خل میں ایک فصل تحر یر فر ما ئی جس میں مسجد کے اند ر اذا ن کی کر اہت بیان فر ما ئی اور بتا یا کہ مطلقا سلف صا لحین نے اس فعل کی نفی کی ہے تو اس عمو م میں ائمہ اربعہ داخل ہو گئے اور ان سے پہلے کے صحا بہ و تا بعین بھی۔
فصل فی النھی عن الا ذان فی المسجد و قد تقدم ان للا ذا ن ثلثۃ موا ضع ،المنا رہ، وعلی سطح المسجد ،وعلی با بہ ، واذا کا ن ذلک کذلک فیمنع من الاذا ن فی جو ف المسجد لو جوہ احدھا انہ لم یکن من فعل من مضی ۱؎ الی اخر ہ ۔
مد خل کی عبا ر ت یہ ہے ”مسجد میں اذا ن کی مما نعت کے بیا ن میں یہ گزر چکا کہ اذا ن کے لیے تین جگہیں ہیں مسجد کی چھت ،مسجد کا دروا زہ اور منا رہ،اور جب ایسا ہے تو مسجد کے اندر اذا ن کی مما نعت کئی وجہ سے ثا بت ہے اول یہ کہ گز شتہ بزر گا ن دین مسجد کےا ند ر اذان نہیں دیتے تھے ”الخ
(۱؎المد خل فصل فی النہی عن الا ذا ن فی المسجد دار الکتا ب العر بی بیر و ت ۲/ ۲۵۱)
یہ کل بیس نصوص ہوئے ۔
نفحہ ۲: بمرأی منک ھذہ النصوص بعمو مھا و اطلا قھا فا ن الفعل کما عر ف فی الا صو ل فی قو ۃ النکر ۃ وقدوقع فی حیز النفی فقولھم لا یؤ ذن فی المسجد عا م و البا قی مطلق و لا اثر فیھا للتخصیص و التقیید فو جب امرارھا کما ھی والتی فیھا ذکر المئذنۃ فاقو ل: اولا لا تو ذن بخر و ج اذا ن الخطبۃ فان النا س بعد الصدر الا و ل احد ثو ا اعلاء المنا بر دککا بحذا ئھا لاذا ن الخطبۃ کما ھو مشہور ھھنا فی الجو ا مع السلطا نیۃ ستعلم جوا ز ذلک بشر طہ
فیصد ق وعلی ھذا لاذا ن ایضا انہ علی المئذ نۃ و ان لم تکن فی الفنا ء ۔
نفحہ ۲: یہ نصو ص اپنے عمو م و اطلا ق کے ساتھ سب کے سامنے ہیں اور اصول فقہ سے یہ ظا ہر ہے کہ فعل نکر ہ کے حکم میں ہے اور نفی کے تحت ہو تو عا م ہے پس فقہا ء کا قو ل لا یو ذن فی المسجد عا م ہے اور با قی اقوا ل مطلق ہیں جن میں تخصیص و تقیید کا کو ئی اثر نہیں تو ان کو اپنے عمو م پر ہی جا ر ی رکھنا ہو گا ۔ اور جن کی عبا رتو ں میں مئذنہ کا ذکر ہے تو وہ خطبہ کی اذا ن کو اس حکم سے نکا لنے کے لئے نہیں اولا اس لیے کہ صد ر اول کے بعد ہی لوگوں نے بلند منبر اور ان کے سا منے اذا ن جمعہ کے لیے چبو ترے بنا ئے جیسا کہ شا ہی مسجد و ں میں اب بھی دیکھا جا سکتا ہے (اور ان کی بنا مخصو ص شرا ئط کے سا تھ جا ئز بھی ہے) تو اذا ن جمعہ کے لیے یہی مئذنہ ہو ئے اور ان پر اذا ن ،اذا ن علی المئذ نہ ہو ئی تو اس حکم میں کہ مئذنہ پر اذا ن نہ ہو تو صحن مسجد میں ہو اذا ن جمعہ بھی دا خل رہی۔
وثانیاً الحکم علی مطلق او عا م بمفہو م مردد انما یقتضی ان لا یخلو شیئ من افرادہ عن کلا الو جہین اما کو ن کل فرد یجر ی فیہ الوجہا ن فلا ، و ھذا ظا ہر جدا ۔عبا ر ۃ نسختی الفتح و العنا یۃ ۔ واما الا ذا ن فعلی المئذنۃ فا ن لم یکن بیا ء تحتیۃ ای الاذا ن علیھا ففی فنا ء المسجد وعدم کو نہ علیہا یشمل التر ک و الکف فید خل فیہ کل اذان، و کذا علی نسخۃ تکن بتاء فو قا نیۃ و الضمیر للمنا ر ۃ فا ن المراد الکو ن الشر عی والو جو د حسیا غیر الو جو د لشیئ شر عا و علی التنزل فزیادتھما لفظۃ قا لو ا قطعت ھذا الحکم عن سنن السا بق و ذلک لان لا یو ذ ن بمعنی لا یفعل الاذا ن و ھو بعمو مہ کا ن یشمل کل اذا ن لکن ھذا التنزل الاخیر لما کان الکلام فی ما بین العبا ر تین فی اذا ن المنا ئر خا صۃ فلولم یاتیا بقالوا لاشمل الظرف الحکم الی العھد ومقصودھما رحمھما اللہ تعالی مع الاستبدال بہ علی المسألۃ الخاصۃ افادۃ الحکم العام فزادا قالوا فصا ر حکما منقو لا و لا عہد فی المنقو ل عنہ فلم یسر الیہ عہد سیا قہ وبقی علی محو ضۃ اطلا قہ و لعمر ی لا یو قف علی اشا را تھم الا بتو فیق من برکا تھم و اللہ المو فق لا ر ب سوا ہ ۔
نفحہ ۳: بتو فیقہ تعا لی ظھر ت فا ئد ۃ لفظۃ ”قا لو ا” فی ھا تین العبا ر تین و لیست فی غیرھما و لیس کلما قالوا ”قالو ا” ارادوا تبرأ۔ او افا دۃ خلا ف کما یشھد بہ التتبع ولا ھو(عہ) مصطلح کل احد بل قا ل السید العلا مۃ فی حا شیہ الدر المختا ر۔۔۔۔۔ (عہ۱)۔
نفحہ ۳: اللہ تعا لی کی تو فیق سے ان دو نو ں اما مو ں کی عبا ر ت میں لفظ قا لو ا نہیں ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ جب لفظ قا لو ا کہیں تو ما سبق سے تبر ی اور افا دہ خلا ف کا ہی فا ئد ہ مراد لیں نہ یہ سب کی تسلیم شد ہ اصطلا ح ہے جیسا کہ کلا م علما ء کے تتبع و تلا ش سے ظا ہر ہوا ۔
عہ: ومن نسب فی مسئلتنا ھذہ زیا دہ لفظۃ ”قا لو ا”الی الا ما م فقیہ النفس قا ضی خا ں فقد کذب و افتر ی کما تر ی منہ حفظہ ربہ ۔
اور جس نے اس مسئلہ میں لفظ قا لو ا کی ز یا دتی کی نسبت اما م قا ضیخا ں کی طر ف کی غلط کیا جیسا کہ ان کی عبا رت سے پتہ چلا ۔منہ حفظہ ربہ ۔
عہ۱: یہا ں اعلٰیحضر ت نے غا لبا طحطاوی کی بھی کو ئی عبارت نقل کی تھی جو پڑھی نہ گئی عبدالمنا ن۔
وفی رد المحتا ر فی مسئلۃ مس المحدث کتب الا حا دیث و الفقہ قا ل فی الخلا صۃ یکر ہ عند ھما والا صح انہ لا یکر ہ عند ہ و مشی فی الفتح علی الکر اھۃ فقال قا لو ا یکر ہ مس کتب التفسیر والفقہ والسنن لا نہا لا تخلو عن اٰیا ت القرا ن و ھذا التعلیل یمنع من شر و ح النحو ۱؎ اھ فجعلہ مشیا علیہ۔
ردالمحتا ر میں بے وضو آدمی کے حد یث و فقہ کی کتا بو ں کے چھو نے کے با رے میں فر ما یا ”خلا صہ میں ہے کہ صا حبین کے نزدیک چھو نا مکر وہ ہے اور صحیح یہ ہے کہ اما م صا حب کے نزدیک چھو نا مکر و ہ نہیں ہے اور فتح القد یر میں اس کی کر ا ہت کا حکم فر ما یا اور کہا کہ لو گو ں نے کہا کہ مکر وہ ہے بے وضو کا تفسیر فقہ اور سنت کی کتا بو ں کوچھو نا تو اس عبا رت میں لفظ قا لو ا کہہ کر سا بقہ حکم کی تا ئید ہی کی ”
(۲؎ردالمحتا ر کتا ب الطہا رۃ داراحیا ء الترا ث العر بی بیر و ت ۱/ ۱۱۸)
وفی نھر الفا ئق فی مسئلۃ ما اذا زوج البا لغۃ غیر کفؤ فبلغھا فسکتت لا یکو ن رضا عند ھما و قیل فی قول الاما م یکو ن رضا ان المزو ج ابا اوجداجزم فی الدرا یۃ با لا ول بلفظ قا لو ا ۲؎، اھ ۔
نہر الفا ئق میں ایک مسئلہ بیان کیا ”با لغہ کی شا دی غیر کفو میں کر دی گئی اسے خبر ہو ئی تو چپ رہی ۔یہ خموشی صا حبین کے نزدیک رضا مند ی نہیں ۔اور اما م صا حب کے قو ل پر رضا مند ی ہے بشر طیکہ شا دی با پ دادا نے کی ہو در ا یہ میں اول کو لفظ قا لو ا سے بیا ن کیا ہے ۔”
(۲؎النہر الفا ئق کتا ب النکا ح با ب الا ولیا ء وا لا کفا ء قدیمی کتب خا نہ کتب خا نہ کر اچی ۲/ ۲۰۳)
فجعلہ جز ما بہ کذا ھھنا جز م الا ما مین بو جھین : الا و ل مقصو د ھما ھھنا تعلیل القول المعتمد وھو قو ل الا ما م ان لا فصل بین اذان المغر ب واقامتہ بجلسۃ، را جع الہد ا یۃ وانظر الی قولھما یفید کذا وھو کذلک شر عا فھما بصدد اثبا تہ و تحقیقہ لا التبر ی عنہ و تزئیقہ ۔
اسی طر ح ان دونو ں اما مو ں نے یہا ں دو نو ں ہی طرح اثبا ت مد عا کیا ہے کہ پہلے قو ل میں وہ اما م کے قول معتمد کی علت بیان کر نا چا ہتے ہیں (مغر ب میں اذا ن اور اقا مت کے بیچ میں جلسہ سے فصل جا ئز نہیں ) اور قا لوا لا یو ذن فی المسجد سے اسکی تا ئید کر نا چا ہتے تھے تا کہ اس کی مخا لفت اور تبر ی کے در پے رہیں (تصد یق کے لیے ہد ا یہ کا یہ مقا م اور اس کی وضا حت میں ان دونو ں اما مو ں کا قول یفید کذا و ھم کذلک شر عا دیکھا جا ئے )
والا خر ما نقلنا منھما من قو لھما الآخر حیث اولا فیہ کلا م الکا فی ۔وجز ما بکرا ھتہ دا خل المسجد فو ضح الحق وللہ الحمد ۔
اور دوسر ے قول میں کا فی کے قول ھو ذکر اللہ تعا لی فی المسجد کی تا ویل میں فر ما یا ای فی حد ود ہ اور بغیر قا لو ا کے یہ جزم فر ما یا کہ اذا ن مسجد میں مکر و ہ ہے تو یہا ں بے قا لو ا کے تبر ی اور اظہا ر خلا ف کے لیے یہ جملہ ہوا تو حق واضح ہو ا ۔اور حمد اللہ تعا لی کے لیے ہی ثا بت ہے۔
نفحہ ۴: لیس بخا ف علی کل من لہ حظ من علم او عقل علی ان الا ستد لا ل علی الخا ص با لعا م صحیح نجیح تا م وقد فعلہ رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اذ تلا اٰ یۃ ”فمن یعمل مثقا ل ذرۃ خیر ا یر ہ ”۱الا یۃ ۔والصحا بۃ بعدہ و الائمۃ ولو کلفنا اثبا ت کل خا ص بما یخصہ لبطلت الشر ا ئع و تر ک الا نسا ن سد ی ،فا ن الشر یعۃ لا تا تی الا باحکا م عامۃ تشتمل النا س کا فۃ فلو لم یکن الا حتجا ج با لعام یطلب کل و احد حکما اتی لہ با لخصو ص فما اجہل الو ھا بیۃ العنود و من تا بعھم من جہلۃ الہنو د اذ یقولو ن ایتو نا للنھی فیہ ذکر اذان الخطبۃ خاصۃ و یدانیہ قو ل من یقو ل منھم ان الفقہا ء انما ذکر و ا ھذا الحکم فی با ب الا ذا ن و من لم یذکر وہ فی با ب الجمعۃ و قد مر کشف ھذہ الجہا لۃ فی النفحۃ ۱۱ من النفحا ت الحد یثیۃ أتزعم الجہلۃ ان اذان الخطبۃ لیس لہ من الحکم اما ما ذکر فی با ب الجمعۃ من کو نہ بین ید ی الخطیب مثلا کلا بل یعتبر بہ سا ئر الا حکا م المذکو رۃ لمطلق الا ذان فی باب الا ذا ن فلو لم یکفہ البیان ثمہ من این تاتی تلک الا حکا م لھذا الا ذا ن و ھذا شیئ لا یخفی حتی علی الصبیان و لکن الو ھا بیۃ و اتباعھم قو م لا یفقہو ن ۔
نفحہ ۴: یہ با ت کسی علم و عقل وا لے سے پو شید ہ نہیں ہے کہ عام سے خا ص پر استدلا ل صحیح اور در ست ہے خو د حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نے آیت مبا رکہ ”فمن یعمل مثقا ل ذرۃ خیرا یر ہ”(جس نے ذرہ بھر بھلا ئی کی اس کا بدلہ پا ئے گا ) میں بر تا اور آپ کے بعد صحا بہ و ائمہ اعلا م رضو ا ن اللہ علیہم اجمعین نے اسے اپنا دستو ر العمل بنا یا اگر ہر خا ص کے ثبو ت کے لیے خا ص اسی کے با ر ے میں آیت اور حدیث کو ضرور ی قرار دیا جائے تو شریعت معطل ہو جا ئے گی اور انسا ن بے مقصد بھٹکتا پھر ےگا حا لا نکہ شر یعت میں احکا م تو عا م ہی ہو تے ہیں کہ سب لو گ اس پر عمل کر یں اگر نصو ص عا مہ سے استد لا ل صحیح نہ ہو تو ہر شخص مطا لبہ کر ے گا خا ص میرے نا م حکم لا و تو یہ جا ہل وہا بیہ اور مسئلہ اذا ن میں انکی اتبا ع کر نے وا لے سنی جہلا کس در جہ نا سمجھ ہیں جو ہم سے یہ مطا لبہ کر تے ہیں کہ ہم کومما نعت اذان کی کو ئی حدیث دکھا ؤ جس سے خا ص طور سے اذا ن خطبہ کا ذکر ہو ۔ اسی کے قر یب ان لو گو ں کی یہ با ت بھی ہے کہ مسجد کے اند ر اذا ن نہ دینے کا حکم اذا ن کے با ب میں ہے جمعہ کے با ب میں نہیں اس لیے یہ حکم اذا ن جمعہ کے لیے نہیں ہو گا ۔ اس کا تفصیلی جوا ب تو نفحا ت حدیثیہ کے گیا رہو یں نفحہ میں گزرا اس نفحہ فقہیہ میں بھی مزید گزارش ہے کہ شاید یہ نا دا ن یہ سمجھ رہے ہیں کہ اذا ن جمعہ کے سا تھ وہی احکا م خا ص ہیں جو با ب جمعہ میں مذکو ر ہیں مثلا اس اذا ن کا خطیب کے سا منے ہونا ایسا ہر گز نہیں ہے وہ سا رے ہی عمو می احکا م جو اذان سے متعلق ہیں گو صرف باب اذان میں ہی ان کا ذکر کیوں نہ ہو سب کے سب اذا ن جمعہ پر بھی عا ئد ضرور ہو ں گے تو اگر صر ف باب اذان کا بیان ہی اذا ن جمعہ کے لیے کا فی نہ ہو تو جمعہ کی اذا ن میں ان پر عملدر آمد کی کیا سبیل ہو گی ؟یہ با ت تو بچو ں پر بھی واضح ہے مگر نا دا ن وہابیہ نا دانی سے با ز نہیں آتے ۔
(۱ القرآن الکریم ۹۹ / ۷)
ھذا ما کا ن طر یق العلم رحم اللہ الاما مین الا تقا ن والمحقق علی الا طلا ق واجذل قربھما یوم الطلاق حیث داو یا جہل ھولا ء بو جہ لم یبق لھم عذراًولا حیلۃ و ذلک ان الا ما م صا حب الہد ا یۃ فی مسئلۃ ند ب الطہا رۃ لخطبۃ الجمعۃ قاسرھا علی الا ذا ن و ذکر ما یو ھم ان الجا مع کو نھا شر ط الصلوۃ و ھو ظا ہر ا لبطلا ن فالاماما ن الشا رحا ن عدلا منہ الی ماعین الا ما م النسفی جا معا فی الکا فی و ھو کونھا ذکر اللہ فی المسجد ای ذکر ا موقتا کالا ذان و کا ن یر د علیہ ان الاذا ن لیس ذکر ا فی المسجد لکر اھتہ فیہ فا ولاہ با ن المراد فی حد و د المسجد فلو ان اذا ن الخطبۃ کا ن یکو ن فی المسجد لما احتج الی التا ویل اصلا فقیا س خطبۃ الجمعۃ علی اذا ن الخطبۃ بجا مع کون کل منھما ذکرا موقتا فی المسجد کا ن اذن صحیحا قطعا و ای شیئ کا ن احق بقیا س الخطبۃ من اذا نھا لکنھما اولا فا رشدا با رشاد بین من الشمس ان اذا ن الخطبۃ ایضا مکر و ہ فی المسجد و ای نص انص تر ید من ھذا وللہ الحمد ۔
اس اجما ل کی تفصیل یہ ہے کہ صا حب ہد ایہ نے خطبہ جمعہ با وضو مسنو ن فر ما یا اور خطبہ کے مسئلہ کو اذا ن کے مسئلہ پر قیا س کیا کہ جیسے اذان کے لیے طہا رت مسنو ن ایسے خطبہ کے لیے بھی اس سے یہ وہم ہوا کہ ان دونو ں کے درمیا ن علت جا معہ ان دو نو ں کا نما ز کے لیے شر ط ہو نا ہے یہ با ت غلط تھی اس لیے ان دونو ں شارحوں نے مذکو رہ با لا علت کو چھو ڑ کر اس کی علت جا معہ کی طر ف رجو ع کیا جس کو اما م نسفی نے اپنی کتاب کا فی میں متعین طو ر سے ذکر کیا تھا کہ خطبہ جمعہ اور اس کی ا ذان کے درمیا ن علت مشتر کہ ان کا ایسا ذکر ہو نا ہے جو مسجد کے اندر ہو تا ہے اس توجیہ پر یہ اعترا ض وا رد ہو رہا تھا کہ اذا ن تو مسجد کے اندر ہو نے وا لا ذکر نہیں یہ تو مسجد کے اندر مکر وہ ہے تو ان حضرا ت نے جو اب دیا کہ تعلیل میں اذا ن کو ذکر مسجد کہنے کا مطلب قلب مسجد نہیں حد ود مسجد ہے اور اذان خطبہ اند رون مسجد نہ ہو تی ہو حد ود مسجد میں تو ہو تی ہے اس اعتبار سے اس کو ذکر مسجد کہنا صحیح ہے تو اذا ن خطبہ کے مسجد کے اندر مکر وہ ہو نے کی اس سے بڑی اور کو ن سی نص چاہیے۔
نفحہ ۵: لیست المسئلۃ من النو ازل ولا عزوھا الی احد من المشا ئخ بل ارسلو ھا ارسا لا والذاکر و ن لھا اولئک الا ئمۃ الاجلا ء و امثا لھم کا لا ما م قا ضی خا ن ونظر ا ئہ اذا ارسلو ا دل علی انہ المذھب لما عر ف من عا دتھم عزو تخر یجا ت المشا ئخ الی المشا ئخ قا ل فی الغنیۃ ذوی الا حکا م فی مسئلۃ النعا س صر ح بہ قا ضی خا ن من غیر اسنا دہ لاحد فافتضی کو نہ المذھب ۱؎، اھ فا لتشکیک فیہ با نہ غیر معز و الی سید نا الا ما م الا عظم و لیس حا صلہ الا شیئا ن رفع الامان عن عا مۃ مسا ئل الشر ح و الفتا وی الغیر المعز یۃ الی احد و ابطا ل سا ئر ما فیہ من المعزیات الی مشا ئخ المذاھب لان الا ول اذا لم یقبل لعد م العلم لکو نہ عن الاما م فا لا خر احد ی بالردللعلم بعدم کو نہ عن الاما م و انت تعلم ان فیہ ابطا ل ثلثی مسا ئل المذھب او ثلثۃ اربا عھا و انما کا ن علینا اتبا ع ما رجحو ہ و صححو ہ کما قا لو ا افتو نا فی حیاتھم فکیف بما اتوا بہ جا ز مین بہ من دون اشعا ر بخلا ف فیہ واللہ الموفق۔
نفحہ ۵: یہ مسئلہ کتب نوا زل کا نہیں ہے نہ اسے مشا ئخ میں سے کسی کی طر ف منسوب کیا گیا ہے راو ی وہی ائمہ اعلا م ہیں جیسے اما م قا ضی خا ں اور ان کے ہم مر تبہ حضرا ت ائمہ اور قا عد ہ یہ ہے کہ یہ لو گ جب کسی مسئلہ کو مرسل روا یت کر تے ہیں تو یہ مسا ئل مذھب میں شما ر ہو تے ہیں کیو نکہ ان مشا ئخ کی عا دت کر یمہ یہ ہے کہ جب مشا ئخ میں سے کسی کی تخر یج روا یت کر تے ہیں تو مسئلہ کے سا تھ ان کا نا م ضرور لیتے ہیں چنا نچہ غنیۃ ذوالا حکا م میں ہے اونگھنے کے مسئلہ کی تصر یح اما م قا ضی خا ں نے فر ما ئی اور یہ مسئلہ جب کسی کی طر ف منسوب نہیں ہے تو اس با ت کی علا مت ہے کہ یہ مذہب ہے تو مسئلہ دائر ہ میں یہ شک پید ا کر نا کہ یہ خاص طو ر سے اما م اعظم رحمہ اللہ کی طر ف منسو ب نہیں اس لیے قا بل قبول نہیں اس کا مقصد دو با تیں ہیں عا م مسا ئل شر عیہ و فتاوی جن کی نسبت کسی کی طرف نہ ہو ان سے اما م کی نسبت مر تفع ہو جا ئے اور بقیہ مسا ئل جو کسی شیخ یا اما م کی نسبت مسا ئل اما م کی طر ف منسوب ہو ں ان کا رد و ابطا ل ہو کہ جب غیر منسوب مسا ئل امام کی طر ف منسوب نہ ہو نے کی وجہ سے غیر مقبو ل ہو ئے تو یہ مسا ئل جو با لتصر یح غیر کی طر ف منسوب ہیں ان کے ردو ابطا ل میں کون سا تردد کہ ان کے با رے میں تو یہ بالیقین معلو م ہے کہ یہ مسا ئل اما م سے مروی نہیں اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مذہب کے دوثلث یا تین ربع مسا ئل اکا رت ہو جا ئیں گے جبکہ حقیقت حا ل یہ ہے کہ مشا ئخ نے جن مسا ئل کی تصحیح یا تر جیح فر ما ئی ان پر عمل کر نا بھی ضروری ہے کہ ان کی زند گی میں ان کے فتاوے مقبو ل اور معمو ل بہا تھے تو ان مسا ئل سے کیو ں رو گر دا نی جا ئز ہو گی ،جن کو ان بزرگو ں نے یقین کے سا تھ کسی اختلا ف کا اشا رہ کئے بغیر روا یت کیا اللہ تعا لی تو فیق عطا فر ما ئے ۔
(۱؎غنیۃ ذوی الا حکا م علی ھا مش الدرر الحکا م کتا ب الطہا رۃ بیان نو ا قض الو ضو میر محمد کتب خا نہ کراچی ۱/ ۱۵)
نفحہ ۶: اذلم یا ت لھم تخصیص حا ولو ا ان یخر جو ا اذا ن الخطبۃ من جنس کی یخر ج بنفسہ مما یشمل شیئ من احکا م الاذان من دون حا جۃ الی تخصیص و ذلک ان الاذا ن اعلا م الغا ئبین وا لا قا مۃ اعلا م الحا ضرین کما نص علیہ الا ئمۃ منھم الاما م العینی فی عمد ۃ القا ری شرح صحیح البخا ری و فی الہد ا یۃ الا ذان استحضا ر الغا ئبین ۱؎۔فجعلو ا اذا ن الخطبۃ اعلا ما لحا ضر ین لا ند ا ء للغا ئبین کی لا یکو ن اذا نا وا ن کا ن بکلما ت الاذان کا لا ذا ن فی اذن المو لو د و المھمو م و خلف المسا فر ولد فع الغیلا ن و عند الا قبا ر لتذکیرا لجو اب و طر د الشیطا ن وامثا ل ذلک حیث لا یقصد بہ ندا ء الخا ص الی مشی او اعلا ما لھم بدخو ل الوقت اصلا بل التبر ک و استد فا ء البلا بتلک الکلما ت الکر یمۃ۔
نفحہ ۶: جب نصو ص کی تخصیص ان کے بس سے با ہر ہو ئی تو سو چا کہ اذا ن خطبہ کو ہی اذا ن کی جنس سے خارج کر دیں تا کہ یہ خو د اذان کی جنس سے خا رج ہو جائے اور ہم تخصیص کی زحمت سے نجا ت پا جا ئیں تو وہ کہنے لگے کہ اذان تو غیر مو جو د مصلیو ں کا بلا وا ہے اور اقا مت مسجد میں مو جو د مصلیو ں کو اطلا ع ہے جیسا کہ ائمہ نے اس کی تصر یح کی ہے ۔علا مہ عینی نے عمد ۃ القا ری میں لکھا ہے اور صا حب ہد ایہ نے فر ما یا ”اذا ن غیر مو جو د مصلیو ں کا بلا وا ہے” پس یہ لوگ اذا ن خطبہ کو حا ضر مصلیو ں کی اطلا ع ما نتے ہیں غا ئبین کا بلا و ا تسلیم نہیں کر تے اور اذا ن خطبہ اذان کے الفا ظ کے ہو تے ہو ئے بھی اذان نہیں جیسے وہ اذا ن جو نو مو لو د کے کا ن میں کہی جاتی ہے غمزدہ انسا ن کے لیے یا مسا فر کے پیچھے اور غو ل بیا با نی کا اثر دور کر نے کے لے دی جا تی ہے اور دفن میت کے وقت منکر و نکیر کا جو اب یا د دلا نے کے لیے پکا ری جا تی ہے جن کا مقصد حا ضر ی مسجد یا دخو ل وقت کا اعلا ن نہیں ہو تا بلکہ مبا رک کلما ت سے تبر ک یا بلا کا اند فا ع ہو تا ہے ۔
(۱؎الہد ا یۃ کتا ب الصلو ۃ با ب الاذا ن المکتبہ العر بیہ کر ا چی ۱/ ۷۴)
ثم اضطر بوا فا جہلہم یقول لم یکن (عہ) اذانا من لد ن رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی وسلم واذا قیل لہ افکا ن رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم یصلی الجمعۃ من دون اذا ن قا ل لیس فیہ ،انما کا ن یصلی الصلو ۃ کلھا بمکۃ بدو ن اذان و لا یدری ھذا المسکین ان ھذا ا انکا ر للا جما ع و تصر یح القرا ن فقد اجمعو ا انہ لم یکن من عہد رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم للجمعۃ الا ھذا الا ذا ن واللہ تعا لی یقول یا یھا الذین امنو ا اذا نو دی للصلو ۃمن یوم الجمعۃ فا سعو ا الی ذکراللہ۱؎انما الا مر بالسعی للغا ئبین دون الحا ضر ین لا ستحا لۃ تحصیل الحا صل واللہ تعا لی یقول و ذروا البیع ۲؎وانما البیع و الشرا ء کا ن فی الا سو اق لا فی المسجد فد ل النص ان اذا ن الخطبۃ علی عہد رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی کا ن نداء للغا ئبین الی الصلو ۃ ھذا ھو الا ذا ن المصطلح شر عی و صلو ۃ مکۃ کا نت قبل نزول الاذان فقیا س الجمعۃ علیہا جہل لا یقا س و لا یما ن و غیر ہ یقول نعم کا ن الا ذا ن علی عہد رسو ل اللہ و صا حبیہ صلی اللہ علیہ وعلیہما وسلم فلما احد ث ذوالنو رین رضی اللہ تعا لی عنہ الاذا ن الا ول کا ن ھو الا ذا ن و بقی ھذ ا اعلا ما للحا ضر ین و علیہ فر ع مفرع منھم انہ لما کا ن فی الزمن الا ول للا علا م نا سب با ب المسجد وفی زمن عثمن رضی اللہ تعا لی عنہ صار للانصات فناسب داخل المسجد لدی المنبر۔
اس کے بعد ان کی با تو ں میں اختلا ف پیدا ہو گیا ایک جا ہل کہتا ہے کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے زمانہ میں اذا ن ہو تی ہی نہیں تھی اور جب اس سے کہا جا تا ہے کہ کیا رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نما ز جمعہ بے اذا ن کے ہی پڑھتے تھے تو کہتا ہے کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم تو مکہ میں سار ی نما زیں بغیر اذا ن کے ہی پڑھتے تھے اس مسکین کو یہ معلو م نہیں کہ یہ اجما ع امت و تصر یح قرآن کا انکا ر ہے ،کیو نکہ سب کا اس پراجما ع”کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے عہد میں خطبہ کے علا وہ کو ئی اذا ن نہ تھی”اور اللہ تعا لی کا ارشاد ہے ”اے ایما ن والو !جمعہ کے دن اذا ن دی جا ئے تو اللہ تعا لی کے ذکر کے لیے دوڑپڑو ”یہ مسجد کی طر ف سعی کا حکم غا ئبین کے لیے ہی تو ہے یہ بھی فر ما یا کہ بیع و شرا ء چھوڑدو بیع و شر ا ء تو با زا ر میں ہو تی ہے مسجد میں نہیں ۔تو معلو م ہوا کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے زما نہ میں اذا ن خطبہ مسجد میں مو جو د نہ رہنے وا لو ں کو نما ز کے لیے بلا نے کے لیے ہی ہو تی تھی اور یہی اذا ن شر عی و اصطلا حی ہے اور مکہ کی نما ز نزول اذا ن سے قبل ہو ئی تو کو ئی مو من اس پر نما ز جمعہ کو قیا س نہیں کر سکتا اور دوسر ے مخا لف کا کہنا یہ ہے کہ بیشک حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور صا حبین رضی اللہ تعا لی عنہما کے زما نہ میں یہی اذا ن خطبہ تھی لیکن حضرت عثما ن غنی رضی اللہ تعا لی عنہ کے زما نہ میں جب انھوں نے اذان اول ایجاد کی تو یہ اذان حاضرین کا اعلان ہوگئی ، تو جب پہلے زمانہ میں یہ اعلا ن تھی تو با ب مسجد پر ہو نا ہی منا سب تھا اور عہد عثما ن غنی میں جب یہ حا ضرین کو خطبہ کے لیے خا مو ش کر نے کے وا سطے ہے تو اس کا مسجد کے اند ر منبر کے قریب ہو نا منا سب ہو ا
عہ: یہا ں ایک بہت طو یل حا شیہ ہے جو حل نہ ہو سکا ۔عبد المنا ن
(۱؎القرا ن الکر یم ۶۲/ ۹ )(۲؎القرا ن الکر یم ۶۲/ ۹ )
اقول: و ھذا ایضا من ابین الا با طیل و خلا ف اجما ع ائمتنا الکر ام فاولا قد اجمعوا للجمعۃ اذانین و ثانیا یعاد اذا ن الجنب لا اقامتہ علی المذھب و عللو ہ بان تکر ار الا ذان مشر و ع دون الا قا مۃ کما فی الہدا یہ۱؎ وا ستشہد وا علیہ باذان الجمعۃ قال فی الکا فی و التبیین و العنا یۃ والدر المختا ر و غیر ھا فا ن تکر ا ر الا ذا ن مشر و ع فی الجملۃ کما فی الجمعۃ ۲؎ الی ھنا متفقو ن ثم قا ل فی الکا فی فا ما تکر ا ر الا قا مۃ فغیر مشروع اصلا ۳؎ و فی التبیین دون الا قا مۃ ۴؎ وفی العنا یۃ بخلا ف الا قا مۃ ۵؎ ونظم الدر لمشر و عیۃ تکر ارہ فی الجمعۃ دون تکرا ر ھا۱؎، اھ ۔فلو لم یکن الثا نی اذا نا مثل الا ول فا ین التکرا ر ۔
میں کہتا ہوں کہ یہ بات بھی بالکل غلط اور ظاہر البطلان ہے کہ یہ بھی ہمارے علما کرام کے اجماع کے خلاف ہے۔(۱) سارے ائمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ جمعہ کے لئے دو اذانیں ہیں۔ (۲) جنبی کی اذان دہرائی جائیگی اقامت نہیں دہرائی جائے گی۔ دلیل یہ دی گئی کہ اذان کی تکرار مشروع ہے اقامت کی نہیں ۔ہدایہ میں اس کی تصریح ہے، اور تکرار اذان کے جواز کے ثبوت میں اذان جمعہ کو ہی پیش کیا گیا ہے۔چناچہ کافی، تبیین، عنایہ اور درمختار میں ہے”:اذان کی تکرار فی الجملہ مشروع ہے۔”یہاں تک کہ پانچوں کتابوں کی عبارت میں اتفاق ہے ، آگے کافی میں فرماتے ہیں؛”اقامت کی تکرار تو بالکل جائز نہیں”۔ تبیین میں صرف یہ ہے ؛”اقامت کا یہ حکم نہیں ۔”عنایہ میں ہے:”بخلاف اقامت کے۔”اور درمختار کی عبارت یوں ہے:”اذان کی تکرار جمعہ میں مشروع ہے نہ کہ اقامت کی تکرار۔” پس اذان ثانی اگر اذان اول کی طرح ہی اذان نہ ہو تو اس کی تکرار کس طرح ہوگی۔
(۱؎الہد یۃ کتا ب الصلوۃ با ب الاذا ن المکبۃ العر بیۃ کرا چی ۱/ ۷۴)
(۲؎العنا یۃ علی ھا مش فتح القد یر کتا ب الصلو ۃ با ب الا ذا ن مکتبہ نو ریہ رضو یہ سکھر ۱/ ۲۰۰)
(تبیین الحقا ئق کتا ب الصلوۃ با ب الاذا ن دار الکتب العلمیہ بیر و ت ۱/ ۲۴۹)
(۳؎البحر ائق کتا ب الصلو ۃ با ب الا ذا ن تحت قول المصنف و کر ہ اذا ن الجنب الخ ایچ ایم سعید کمپنی کر ا چی ۱/ ۶۳)
(۴؎تبین الحقا ئق کتا ب الصلو ۃ با ب الاذ ان دار الکتب العلمیہ بیر و ت ۱/ ۲۴۹)
(۵؎العنا یۃ علی ھا مش فتح القد یر کتا ب الصلوۃ با ب الاذ ان مکتبہ نو ریہ رضو یہ سکھر ۱/ ۲۰۰)
(۱؎الدر المختار کتا ب الصلو ۃ با ب الاذا ن مطبع مجتبا ئی دہلی ۱/ ۶۴)
وثا لثا صر یح نص البحر فی البحر لان تکرارہ مشر وع کما فی اذان الجمعۃ لانہ لاعلا م الغا ئبین فتکر یر ہ مفید لا حتما ل عد م سما ع البعض بخلا ف تکر ا ر الا قا مۃ اذھو غیر مشر و ع ۲؎، اھ ورابعا لم تغیر الا ذان عما کا ن علیہ بحد و ث الا ول لا ن الا علا م حصل با لا و ل فلا یحصل با لثا نی فانسلخ ضرورۃ عن الا ذا نیۃ و کو نہ اعلا ما للغا ئبین ام لا ن امیر المومنین عثمن ھو الذی قطعہ عما کا ن الا ول با طل اجماعا فما التثو یب الا علا م بعد الا علا م و کرہ المتقد مو ن واستحسنہ المتا خر ون فکا ن ھذا اجما عا منھم علی ان الا علا م مما یقبل التکر ار اذلو استحا ل لاستحا ل ان یکو ن مکرو ھا او حسنا و ایضا کفی للر د علیہ کلا م البحر ،والثا نی ،اشد واشنع واشر واخنع ان یکو ن امیر المومنین بدل و حرف سنۃ محمد صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم حا شا ہ من ذلک نعم للخلفا ء الراشد ین ان یضیفو ا سنۃ کما اضا ف الا ذا ن الاول یو م الجمعۃ و تبعہ علیہ المسلمو ن فی عا مۃ البلا د واما ان یغیر وا سنتہ فکلا ،واجا ر ھم اللہ تعا لی عن ذلک الا تری الی ما قا ل رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم ستۃ لعنتھم و لعنھم اللہ و کل نبی مجا ب و ذکر منھم التا رک بسنتی رواہ التر مذی ۱؎عن ام المو منین عا ئشہ رضی اللہ تعا لی عنہا و الحاکم عنھا و عن امیر المو منین علی روا ہ الطبرا نی فی الکبیر عن عمر و بن سعواء رضی اللہ تعا لی عنھم بلفظ سبعۃ لعنتھم و کل نبی مجا ب ۱؎
(۳) علامہ بحر نے اپنی کتاب بحرالرائق میں صریح عبارت ارشاد فرمائی:” اس لئے کہ اذان کی تکرار شرعا جائز ہے، جیسے جمعہ کی اذان کہ بار بار ہوتی ہے اس لئے کہ وہ غائبین کے اعلان کے لئے ہوتی ہے ۔ تو اس کے بار بار کرنے میں فائدہ ہے کہ کسی نے پہلے نہ سنا ہو تو اب سن لے گا،البتہ اقامت کی تکرار جائز نہیں ۔”(۴) اذان خطبہ کے اذان ہو کر اذان نہ ہونے کی وجہ یا تو یہ ہوگی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایجاد کردہ اذان سے اعلام غائبین کی ضرورت پوری ہوگئی تو اب اذان خطبہ کی ضرورت نہیں رہی ، تو یہ اذان نہ رہی۔ یا یہ وجہ ہوگی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالےٰ عنہ نے پہلی اذان ایجاد فرما کر یہ کہا کہ اب اذان خطبہ اذان نہ رہی بلکہ اس سے اطلاع حاضرین کا کام لیا جائے گا۔ پہلی بات تو باطل ہے کہ تثویب بھی تو اعلام بعد الاعلام یہ ہے جسے متقدمین نے مکروہ کہا اور متاخرین نے مستحسن گردانا۔ تو متاخرین اور متقدمین دونوں نے مل کر یہ طے کردیا اعلام تکرار کا امکان رکھتا ہے۔ اگر محال ہوتا تو نہ مستحسن ہو سکتا نہ مکروہ۔ پھر اس کے رد کے لئے صاحب بحر الرائق کا کلام ہی کافی ہے۔دوسری بات باطل ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی بری اور گندی بھی ہے کہ امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور سید کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سنت بدل ڈالی۔ پناہ بخدا خلفائے راشدین اس سے بری ہیں وہ آپ کی سنتوں میں اضافہ کرسکتے ہیں اس میں تغیر و تبدل نہیں کرسکتے۔جیسا کہ آپ نے جمعہ کے دن اذان کی سنت میں ایک اذان کااضافہ کیا۔جمیع اہل اسلام نے تمام شہروں میں اس کی اتباع کی۔ آپ کی سنت بدلنے سے اللہ تعالٰی انہیں محفوظ رکھا ۔ تم نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان نہیں سنا ، آپ فرماتے ہیں:”چھ آدمیوں پر میں نے لعنت کی ، اور اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی اور ہر نبی مجاب الدعوات نے ۔ان چھ آدمیوں میں سے ایک سنت بدلنے والا ہے۔”اس حدیث کو ترمذی نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ، حاکم نے ام المومنین اور امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ، اور طبرانی نے کبیر میں عمرو بن سعواء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بلفظ سبعۃ لعنتھم و کل نبی مجاب روایت فرمایا،
(۲؎بحر ا الر ئق کتا ب الصلو ۃ با ب الاذا ن ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی ۱/ ۲۶۳)
(۱؎سنن التر مذی کتاب القد ر حدیث۲۱۶۱ دا ر الفکر بیر و ت ۴/ ۶۱)
(المستد رک للحا کم کتا ب الا یما ن ستۃ لعنتہم الخ دا رالفکر بیر وت ۱/ ۳۶)
(المستد ر ک للحا کم کتا ب التفسیر تفسیر سو ر ۃ واللیل اذا یغشی دارالفکر بیر وت ۲/ ۵۲۵)
(۱؎ المعجم الکبیر حدیث ۸۹ المکتبۃ الفیصلیۃ بیر و ت ۱۷/ ۴۳)
والعجب ممن یقو ل ان عدم اعتبار تغییر عثمن ضلا لۃ بتعلیمہ و لا ید ری المسکین ان نسبۃ تغییر السنۃ الی عثمن ھو الضلا ل البعید ،ھذا وجہ و کفی بہ وجھا وجیھا الثا نی حیث یسو غ الاعلا م مکر را فمن ذا ا لذی اخبر کم ان عثمن قطعہ عنہ أاقرا نی قطعتہ ام امر الموذن ان لا یتو بہ او امر ہ ان یخففہ او یخفیہ ام تقولو ن علی عثما ن ما لا تعلمو ن ولا تعلمو ن انکم مسؤلو ن قا ل تعا لی :
ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر و الفوا د کل اولئک کا ن عنہ مسئو لا ۲؎
الثالث حصو ل الا علا م کا ن لا زم الا ذا ن ان کا ن علی وجہ المعہو د علی عہد الرسا لۃ فلا ینقطع عنہ الا با حد ا ث فیہ یقعدہ عن الا علا م السا لف و کیف یظن ھذا بعثمن فا ن فیہ تقلیل الفا ئد ۃ الشر عیۃ و ذلک انہ رضی اللہ تعا لی عنہ احدث الاذان الا ول لما کثر ا لنا س فما ذا کا ن یغیرہ ھذا الثانی ان بقی علی ماکان علیہ فی عہد الرسالۃ و الخلافتین کی یسمعہ من لم یسمع الا و ل کما تقد م عن البحر فا لذی یزعم ان عثمن احد ث فیہ ما قطعہ من کو نہ اعلا ما یقول بملاء فیہ ان عثمن غیر السنۃ و نقص الفا ئد ہ و نقض المصلحۃ فکا ن معا ذ اللہ محض محا دۃ للسنۃ و مضا دۃ و ان عد ینا عنہ ،فا دنی احوا لہ ان لا فا ئد ہ فیہ فیکو ن عبثا فی الد ین و العبث کما فی الھد ا یہ ۱؎حرا م و یکو ن لغوا
و الذین ھم عن اللغو معر ضو ن ۲؎
پس ان لوگوں کی کیسی بوالعجبی ہے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف تغییر سنت کی نسبت کا انکار کرنیوالوں کے فعل کو ضلالت شنیعہ بتاتے ہیں ۔ اور خود ان مسکینوں کو یہ معلوم نہیں کہ آپ کی طرف تغییر سنت کی نسبت کرنا بہت بڑی گمراہی ہے اور اس کے مردود ہونے کی سب سے بڑی وجہ خود وہی ہے۔ دوسری بات کا یہ جواب بھی ہے کہ آپ لوگوں کو کیسے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اذان خطبہ کی اذانیت کو ختم کردیا ۔ کیا انھوں نے خود اس کا اقرار کیا یا انھوں نے مؤذن کو حکم دیا تھاکہ وہ اذان کی طرف رجوع نہ کرے یا انھوں نے مؤذن کو حکم دیا تھا کہ اس اذان میں تخفیف کرے یا اس کو پست آواز سے کہے ، یا آپ لوگ امیرالمومنین پر بے جانے بوجھے افتراء کر رہے ہیں ۔ اور سمجھتے ہیں کہ ہم سے باز پرس نہ ہوگی۔ اللہ تعالٰی تو فرماتا ہے : اس پر کان بھی نہ دھرو جس کا علم نہیں، بے شک کان، آنکھ،دل سب سے پوچھا جائے گا۔” اس پر یوں بھی غور کرنا چاہئے کہ عہد رسالت کی اذان خطبہ اگر حسب سابق اعلان کا فائدہ دے رہی تھی توا س کو اذانیت سے نکالنے کے لئے اس میں کچھ ایسا تصرف ناروا ضروری تھا کہ اس سے اعلام کا فائدہ ختم ہوجائے۔ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں کسی ایسی حرکت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ یہ تو دانستہ فائدہ شرعیہ کو ختم کرنا ہے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تو دور دراز تک پھیلے ہوئے لوگوں کی اطلاع کے لئے اذان اول کا اضافہ فرمایا تھا ، تو اذان ثانی کو عہد رسالت اور عہد صاحبین کی طرح اعلام غائبین کے لئے باقی رکھنے میں کہ جن لوگوں نے پہلا اعلان نہ سنا ہو یہ دوسرا اعلان سن کرتو مسجد میں ضرور آجائیں گے کیا حرج تھا کہ امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ دوسری اذان کی اذانیت کو ختم کردیتے، تو اس کی اذانیت کے ختم کرنے کی نسبت حضرت ذوالنورین کی طرف کرنا ان پر الزام لگانا ہے کہ انھوں نے سنت بدلی،فائدہ شرعیہ گھٹایا۔اور دینی مصلحت توڑی۔ ورنہ اتنا تو ہے کہ ایک بے فائدہ کام کیا ۔ اور ہدایہ میں ہے کہ العبث حرام ہے، ایک لغو فعل ہوا، اور قرآن عظیم ان کے اوصاف بیان کرتا ہے، وہ لغو سے پرہیز کرتے ہیں۔
(۲؎القرا ن الکر یم ۱۷/ ۳۶ )
(۱؎الہد ا یۃ کتا ب الصلوۃ فصل و یکر ہ للمصلی المکتبۃ العر بیۃ کر اچی ۱/ ۱۱۸)
(۲؎القرا ن الکر یم ۲۳/ ۳)
نفحہ ۷: تحر ر ما تقرر ان بحث بقا ئہ بعد لخصو ص الا نصا ت غیر محر ر بل و قع مصا دما للنص و لحر مۃ الصحا بۃ و الاجما ع ائمتنا و نصو ص فقہا ئنا فکیف یعر ج علیہ ،بل کیف یحل ان یلتفت الیہ ولکن الر ز یۃ من تر ک نصو ص مذھبہ و تشبث بذلک البحث وتحمل کل ما مر ثم زا د فی الشطر نج بغلۃ و ھو ذلک تفر یع البا طل انہ اذن نا سب دا خل المسجد لدی المنبر ولم ذاک مع ان اھل المسجد الصیفی ا حوج الی ھذا الا علام من اھل الشتو ی فا نھم یر و ن الاما م باعینھم فینصتو ن والقیاس علی الا قا مۃ جہل فان با لا قا مۃ تتر تب الصفوف من الا ول فا لا ول قا ل صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اتمو ا الصف المقد م ثم الذی یلیہ فما کا ن من نقص فلیکن فی الصف المؤ خر روا ہ احمد ۱؎فی المسند و النسا ئی وابن حبا ن و خزیمۃ و الضیا ء کلھم فی صحا حھم بسند صحیح عن انس رضی اللہ تعا لی عنہ و لعمر ی ان ھذہ ایضا کادت ان تکو ن سنۃ مھجو رۃ واللہ المستعا ن فنا سب کو ن الا قا مۃ فی الصف الا ول بخلا ف الاعلا م بجلو س الامام فا ن اھل الخا رج احو ج الیہ کما تر ی۔
نفحہ۷: ہما ری گزشتہ بحثو ں سے یہ بات ثا بت ہو گئی کہ اذا ن ثا نی کو اب صر ف مقتد یو ں کو خطبہ کے لیے خموش کر ا نے کی غر ض سے با قی رکھنا صحیح نہیں بلکہ یہ نص ،حر مت صحا بہ اور ہما رے ائمہ کے اجما ع اور نصو ص فقہا ء کے خلا ف و مصا دم ہے تو اب یہ با ت نہ ما ننے کے قابل ہے نہ لا ئق التفا ت ،لیکن تبا ہی تو یہ ہے کہ کچھ لو گو ں نے اپنے مذہب کی نصوص چھو ڑ کر مذکو رہ با لا غیر مفید بحثو ں کا سہا را لیا اور بے مقصد زحمتیں بر دا شت کیں پھر بے تکی حرکت یہ کی کہ اس پر ایک تفر یع با طل لگا دی کہ لہذا منا سب یہ ہے کہ اذان خطبہ مسجد کے اندر منبر کے با لکل متصل ہو حا لا نکہ اس ا ذان کی غرض اسکا ن سا معین ما ن بھی لی جا ئے تو اس اذا ن کے زیا دہ ضرور تمند حصہ صیفی و بیر و نی صحن کے لو گ ہیں اند رو نی دالا ن کے لو گ تو اما م کو منبر پر بیٹھا دیکھ کر خو د ہی خمو ش ہو جا ئیں گے ضر ورت تو با ہر ی صحن میں اذا ن دینے کی ہے تا کہ جو لوگ اما م کو نہیں دیکھتے مطلع ہو جا ئیں اس اذا ن کو اقا مت پر قیا س کر نا جہا لت ہے کیو نکہ اس کا مطلب تو جما عت کے لیے صف لگا نے کا ہے اور صف کے لیے پہلی صف سے درجہ بد رجہ صفیں مکمل کر نے کا حکم ہے چنا نچہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نے فر ما یا پہلے پہلی مکمل کر و پھر اس کے بعد پھر اس کے بعد پھر اس کے بعد اور جو کمی ہو تو آخر ی صف میں ہو ” اس حد یث کو اما م احمد نے اپنی مسند ،اما م نسا ئی ،ضیا مقد سی ابن خزیمہ اور ابن حبا ن نے اپنی اپنی صحا ح میں حضر ت انس رضی اللہ تعا لی عنہ سے نقل فر ما یا اب لو گو ں نے سر کا ر کی اس سنت کو بھی تر ک کردیا ہے تو خلاصہ یہ ہو ا کہ اقا مت تو پہلی ہی صف میں ہو نی چا ہیے اور اذا ن خطبہ کے با ہر وا لے زیا دہ محتا ج ہیں ۔
(۱؎مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ تعالی عنہ المکتب لا سلامی بیر وت ۳/ ۱۳۲)
(سنن النسا ئی کتا ب الا ما مۃ الصف المو خر نو ر محمد کا ر خا نہ تجا ر ت کتب کر اچی ۱/ ۱۳۱)
(موارد الظما ن با ب ما جا ء فی الصف للصلو ۃ حد یث ۳۹۰ المکتبۃ السلفیہ ص۱۱۴)
نفحہ ۸: عد ۃ طلبۃ حا و لو ا نقص کلیۃ الا ئمۃ ”لا یؤ ذن فی المسجد” با لا قا مۃ فا نھا ایضا یقا ل علیہا ”الا ذا ن”کما فی حد یث بین کل اذا نین صلو ۃ لمن شا ء ۱؎مع انھا فی المسجد وفاقا ،وجہلو ا ان اطلا ق الا ذان علیہا تغلیب او عمو م مجا ز ،قا ل الا ما م العینی فی عمد ۃ القا ری المراد من الا ذا نین الا ذا ن و الا قا مۃ بطر یق التغلیب کا لعمر ین والقمر ین ۲؎
کچھ طلبہ ائمہ دین کے اس کلیہ کو کہ کو ئی اذا ن مسجد میں نہ دی جا ئے یہ کہہ کر تو ڑ نا چا ہتے ہیں کہ اقا مت کو بھی تو اذا ن کہا جا تا ہے جیسا کہ احا دیث میں ہے”ہر دو اذا نو ں کے بیچ میں اس کے لیے نما ز ہے جو پڑھنا چا ہے ”حا لا نکہ اقا مت کا مسجد کے اندر ہو نا ہی ضروری ہے تو فقہا ء کا یہ حکم کلی نہیں رہا،اور اقا مت کی طرح اذان بھی مسجد میں دی جاسکتی ہے ، ان بے چاروں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اقامت پر اذا ن کا اطلا ق تغلیبا ہے یا بطور عمو م مجا ز اما م عینی عمد ہ میں فر ما تے ہیں ”اذانین سے مراد اذا ن و اقا مت ہے جیسا کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ تعا لی عنھما کو عمر ین کہا جا تا ہے”اصطلا ح بدیع میں اس کو تغلیب کہا جا تا ہے
(۱؎صحیح البخا ری کتاب الا ذا ن با ب ما بین کل اذا نین صلو ۃ لمن شا ء قد یمی کتب خا نہ کرا چی ۱/ ۸۷)
(۲؎عمد ۃ القا ر ی شر ح صحیح البخا ری کتا ب الا ذان با ب ما بین کل اذا نین صلوۃ لمن شا ء دا رالکتب العلمیہ بیر و ت ۵/ ۲۰۷)
وفی المو اھب اللد نیۃ عن اما م الا ئمۃ ابن خزیمۃ قو لہ ”اذا نین”یر ید الا ذا ن و الا قا مۃ تغلیبا ۳؎ قا ل الزرقا نی لا نہ شر عا غیر الا قا مۃ ۴؎ وفی العینی ثم الموا ھب او لا شترا کھما فی الا علام ۵؎قا ل الزرقا نی فلا تغلیب لا ن الا ذ ن لغۃ الا علا م و فی الا قا مۃ اعلام بدخول وقت الصلو ۃ کا لا ذا ن فھو حقیقۃ اللغو یۃ فی کل منھما۱؎
مو اہب لد نیہ میں اما م الا ئمہ ابن خزیمہ سے اذا نین سے مر اداذا ن و اقا مت دونو ں ہیں اور یہ تغلیب ہے۔زرقا نی میں ہے ”شر یعت کے اذا ن اقا مت سے الگ ہے ”عینی او رمو اہب میں تغلیب کی تو جیہ کر تے ہو ئے فر ما یا ”اقا مت کواذا ن اس لیے کہہ دیا کہ اعلا ن ہونے میں دو نو ں شریک ہیں “۔ زرقانی نے فرمایا “ان دونوں میں تغلیب نہیں اس لیے لغت کے اعتبار سے اعلا ن کے معنی میں ہے ۔اور اقا مت میں دخو ل وقت کا اعلا ن ہو تا ہے تو ان دونو ں میں عام وخاص کا فرق ہے اور دونوں کے لیے اذا ن کا اطلا ق لغو ی ہی ہے۔”
(۳؎المو ا ہب اللد نیۃ البا ب الثا نی صلوۃ الجمعہ الا ذا ن لصلو ۃ الجمعۃ المکتب الا سلا می بیر وت ۴/ ۱۶۱)
(۴؎شر ح الزرقا نی علی المو ا ہب اللد نیۃ صلو ۃ الجمعہ الا ذا ن لصلو ۃ الجمعۃ دار المعر فۃ بیر و ت ۷/ ۳۸۰)
(۵؎المو ا ہب اللد نیۃ البا ب الثا نی صلو ۃ الجمعہ الا ذا ن لصلو ۃ الجمعہ المکتب الا سلا می بیروت ۴/ ۱۶۱)
(عمد ۃ القا ری شر ح صحیح البخا ری کتا ب الجمعۃ با ب الا ذا ن دار الکتب العلمیہ بیر وت ۶/ ۳۰۳)
(۱؎شر ح الزر قا نی علی المو ا ھب اللد نیۃ البا ب الثا نی کتا ب الجمعۃ یو م الجمعۃ دار المعر فۃ بیر و ت ۷/ ۳۸۰)
وما یقا ل فی تعلیل روا یۃ مر جو حۃ مخالف للمذھب ان الا قا مۃ احد الا ذا نین فھو کقھو لھم ”القلم احد اللسا نین ۲؎”ولذا فسر ہ الامام النسفی با ن کل وا حد منھما ذکر معظم کما یفسر ھذا بان کلا منھما یعر ب عما فی الضمیر ،الم تر ما قد منا من نصو ص الھد ا یۃ والکا فی والزیلعی ،والا کمل،والدر،والبحر،ان تکرا ر الا ذا ن مشر و ع ولا یشر ع تکر ار الاقامۃ الم تعلم ما نصوا علیہ فی الکتب المذکو ر ۃ جمیعا و غیر ھا ان اذ ا ن الجنب یعا د،ولا تعاد اقا متہ۳؎
ایک مر جو ح اور مخا لف روا یت ”الا قا مۃ احد الا ذا نین ”اقا مت دوا ذانو ں میں سے ایک ہے اس کو جو اس تعلیل کے سلسلہ میں بیان کیا جا تا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے اہل زبا ن کا مقولہ ہے القلم احد ی اللسا نین قلم دوزبا نو ں میں سے ایک ہے اسی لیے اما م نسفی نے اس کی تفسیر میں کہا کہ اذان و اقا مت دونو ں ہی ذکر معظم ہیں جیسا کہ القلم احد ی اللسا نین کی تفسیر کی جا تی ہے کہ دونوں ہی ما فی الضمیر کو بیا ن کر تے ہیں ان دونو ں میں مغا یر ت پر دلا لت کر نے والی ہدا یہ ،کا فی ،زیلعی ،اکمل،در اور بحر کی عبا ر تیں ہیں کہ ”اذا ن کی تکر ا ر مشر وع ہے اقا مت کی نہیں”انہیں سب کتا بوں میں اس کی بھی تصریح ہے کہ ”جنبی کی اذان دہر ائی جا ئے اور اقامت نہیں دہر ائی جا ئے گی ”
(۲؎فیض القد یر تحت الحد یث۵۲۱۶ ضع القلم علی اذنک دارالکتب العلمیہ بیر وت ۴/ ۳۳۶)
(۳؎تبیین الحقا ئق با ب الا ذا ن ۱/ ۲۴۹ وبحرالرا ئق با ب الاذا ن ایچ ایم سعید کمپنی کر ا چی ۱/ ۲۶۳)
(الہد ایۃ با ب الا ذا ن ۱/ ۷۴ والعنا یۃ علی ہا مش فتح القد یر با ب الا ذا ن ۱/ ۲۲۰ )
الم تسمع الی ما فی البحر عن الظہیریۃ لو جعل الا ذا ن اقا مۃ یعید الا ذا ن ولو جعل الا قا مۃ اذا نا لا یعید لا ن تکر ا ر الا ذا ن مشر و ع دون الاقامۃ۱؎وفیہ عن المحیط لو جعل الا ذ ن اقا مۃ لا یستقبل ولو جعل الا قا مۃ اذا نا یستقبل۲؎الخ ۔الی غیر ذلک من مسا ئل باینوا فیھا بین الا ذان والا قا مۃ ۔ و با لجملۃ الا لزا م با جرا ء احکا م الا ذا ن طرا فی الا قامۃ شیئ لا یتفوہ بہ من شم را ئحۃ العلم ،ولکن الجہل اذا ترکب فھو الدا ء العضا ل۔
بحر الرا ئق میں ظہیر یہ سے ہے کہ”اگر اذا ن کو اقا مت کی طرح ادا کیا تو اذا ن دہر ائی جا ئے اور اگر اقامت کو اذا ن کی طرح کہا تو نہ دہرا ئی جا ئے کیو نکہ تکر ار اذا ن مشروع ہے تکر ار اقا مت کیا تو استقبال قبلہ ضروری نہیں اور اگر اقامت کو اذان قرار دیا تو استقبال قبلہ کرے”اس کے علا وہ بھی کتنے مسا ئل ہیں جن میں اذا ن و اقامت کا فر ق ہے ان سب اشا دات کا حا صل یہ ہو ا کہ اذا ن کے جملہ احکا م کے اقا مت پر طریا ن کا دعو ی کو ئی سمجھدار آدمی نہیں کر سکتا ہاں جہل مر کب بڑی مشکل بیما ری ہے ۔
(۱؎بحر الرا ئق کتاب الصلو ۃ با ب الا ذا ن ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی ۱/ ۲۵۷)
(۲؎بحر الرا ئق کتاب الصلو ۃ با ب الا ذا ن ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی ۱/ ۲۵۷)
نفحہ ۹ : اقو ل: وبا للہ التوفیق اعلم و فقنا اللہ تعا لی و ایا ک ان للمسجد اطلا قین احد ھما مو ضع الصلوۃ من الا ر ض المو قو فۃ لھا و ھو الا صل و بھذا المعنی لا یدخل فیہ البنا ء فا ن البنا ء من الا وصا ف کا لا طر ا ف فا لبا ب و الجد ار خارج عن المسجد ۔وکذا ا لدکۃ والمنا ر والحیا ض والا با رو ان کا نت فی حد ودہ بل فی جو فہ اذا بنیت قبل تما م المسجدیۃ اما بعدہ فلا یجو ز تغییر شیئ من الا و قاف عن ھیئتہ الا بشر ط الو ا قف لحا جۃ الوقف و مصلحتہ فکیف بالمسجد فی بر أتہ و حر یتہ و تمنعہ من حق عبد و خیر تہ، فی وقف الدر من احکا م المسجد لو بنی فو قہ بیتا لا ما م لا یضر لانہ من المصا لح اما لو تمت المسجد یۃ ثم اراد البنا ء منع ولو قا ل عنیت ذلک لم یصد ق تا تا ر خا نیۃ فا ذا کا ن ھذا فی الواقف فکیف بغیر ہ فیجب ھدمہ ولو علی جدا ر المسجد ۱؎، اھ
نفحہ ۹: اللہ تعالی ہم کو اور آپ کو سب کو علم کی توفیق بخشے مسجد کی دو اطلا قا ت ہیں (ا) زمین کا وہ حصہ جو نما ز کے لیے وقف کیا گیا ہو مسجد کے حقیقی معنی یہی ہیں اس اطلاق میں مسجد کی بنیا دیں مسجد میں داخل نہیں کہ بنیا دیں اوصا ف کے حکم میں ہیں جیسے کہ اطرا ف و حد ود پس مسجد کا دروازہ او ر دیو اریں مسجد سے خارج ہیں اسی طر ح اذا ن کے چبو تر ے ،مینا ر یں ،حو ض اور کنو یں حد ود مسجد یا جو ف مسجد ہی میں کیو ں نہ ہوں اگر تما م مسجد یت سے قبل بنا ئے گئے تو مسجد سے خا ر ج ہیں ہا ں مسجد مکمل ہو جا نے کے بعد اگر ان چیزوں کو مسجد میں بنایا تو یہ وقف کو بد لنا ہواجو جا ئز نہیں ۔واقف نے وقف کی ضرورت کے لیے اس کی شرط لگا ئی ہو تو اور بات ہے اور مسجد میں یہ نا ممکن ہے کہ مسجد حقوق عبد سے با لکلیہ آزاد ہو تی ہے ۔درمختا ر کے کتا ب الو قف با ب احکا م المسجد میں ہے :”ُاگر مسجد کے اوپر اما م مسجد کے لیے کمر ہ بنا یا تو حر ج نہیں کہ یہ مصالح مسجد میں ہے لیکن مسجد مکمل ہو گئی تو مسجد کی چھت پر منع کیا جا ئیگا اگر چہ یہ کہے کہ میر ی نیت پہلے ہی کمر ہ بنا نے کی تھی ،اس کی تصدیق نہ کی جا ئے گی ۔”تا تا ر خا نیہ میں ہے ”جب خو د واقف کا یہ حا ل ہے تو دوسرے کا کیا ۔ایسی تعمیر گو مسجد کی دیو ار پر ہو اس کو بھی ڈھا دینا چا ہیے”
(۱؎الدر المختا ر کتاب الوقف مطبع مجتبا ئی دہلی ۱/ ۳۷۹)
والاخر الا رض مع البنا ء وھو الا صل مع الو صف فا لبنیا ن کا لجدا ران والبنیا ن دا خل بھذا المعنی فیہ وعلی الا ول قولہ تعالی انما یعمر مساجد اللہ من امن با للہ والیو م الاخر ۲؎ اخر جہ الا ئمۃ احمد و الد ارمی و التر مذی و حسنہ وابن ما جہ وابن خزیمۃ و ابن حبا ن والحا کم ،وصححہ عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ قا ل قا ل رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اذا رأیتم الر جل یعتاد المسجد فا شھدوا لہ با لا یما ن ۱؎قا ل اللہ تعالی انما یعمر مسا جد اللہ من امن با للہ و الیو م الا خر ۲؎فعما ر تھا با لصلو ۃ فیھا لو لم یکن ثم بنا ء کا لمسجد الحرا م فی زمن رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فما کا ن الا ارضا حو ل الکعبۃ مخلا ۃ للطو ا ف ۔ و علی الا خر قو لہ عزوجل لھد مت صو امع و بیع و صلوات و مسا جد ۳؎،فما الھد م الا للبنا ء۔
(ب ) اس اطلاق میں زمین مع بنیادوں کے مسجد ہے، تو دروازے اور دیواریں سب مسجد میں داخل ہیں اللہ تعالٰی کے فرمان انما یعمر مساجداللہ من اٰمن باللہ (مسجدیں اللہ تعالٰی پر ایمان لانے والے تعمیر کرتے ہیں) میں یہی مراد ہے۔ امام احمد ، دارمی اور ترمذی نے اس کو تخریج کیا، اور ترمذی نے حسن کہا۔ ابن ماجہ، ابن خزیمہ ، ابن حبان اور حاکم نے اس کی تصحیح کی روایت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:” جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ مسجد کی حاضری اس کی عادت بن چکی ہے تو اس کے ایمان کی گواہی دو ۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے مسجد تو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ تعالٰی اور یوم آخرت پر ایمان لائے۔”مسجد کی آبادی تو نماز پڑھنے سے ہے اگرچہ وہاں کوئی مسجد کی عمارت نہ ہو ۔ جیسا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد حرام کا حال تھا کہ وہ کعبہ کے گرد کی زمین تھی جو طواف کے لئے خالی چھوڑی ہوئی تھی۔ اور اس دوسرے معنٰی پر ہی اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ہے :
لھدمت صوامع وبیع (تو البتہ یہود و نصا ری )کے صوا مع اور عبا دت خا نے ڈھا دیئے جا تے اور بنی ہو ئی عما ر ت ہی ڈھا ئی جا تی ہے ۔
(۲؎القران ۹/ ۱۸)
(۱؎جا مع التر مذی ابو اب الا یما ن با ب ما جا ء فی حر مۃ الصلو ۃ امین کمپنی دہلی ۲/۸۶)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی سعید الخدری المکتب الا سلا می بیر و ت ۳/ ۶۸)
( المستدرک للحاکم کتاب الصلوۃ دارالفکر بیروت ۱/ ۲۱۲،۲۱۳)
(مو ارد الظما ن با ب الجلو س فی المسجد للخیر حد یث ۳۱۰ المکتبۃ السلفیۃ ص۹۹)
(صحیح ابن خزیمہ با ب الشہا دۃ بالا یما ن لعما ر المسجد حد یث ۱۵۰۲ المکتب الا سلا می بیر وت ۲/ ۳۷۹)
(۲؎القران الکریم ۹/ ۱۸)
(۳؎القران الکریم ۲۲ /۴۰)
بل لاطلاق الثا لث یشمل الفناء و لھذا جا ز للمعتکف دخو لہ ولا یعد بہ الا معتکفا فی المسجد فی البدا ئع ثم رد المحتا ر لو صعد ای المعتکف المنا رۃ لم یفسد بلا خلا ف و انکا ن با بھا خا رج المسجد لا نھا منہ لا نہ یمنع فیھا من کل ما یمنع فیہ من البول و نحو ہ فا شبہ زاویۃ من زوا یا المسجد ۱؎۔ وعن ھذا تسمع النا س یقو لو ن قد اذ ن فی المسجد اذا سمعوا الاذا ن من منا رتہ مثلا و ان کا نت وا قعۃ خا ر ج المسجد و ھذا محا ورۃ سا ئغۃ شا ئعۃ عر با و عجما ۔ولا یقول احد قو مو ا فقد اذن خا رج المسجد ،وعلی ھذا نظا ئر قول ابن مسعو د رضی اللہ تعا لی عنہ ان من سنن الھد ی الصلو ۃ فی المسجد الذی یؤ ذن فیہ روا ہ مسلم۲؎۔ وقول الفقھاء کر ہ خر وج من لم یصل من مسجد اذن فیہ ۳؎
(ج) اور مسجد کا ایک تیسرا اطلا ق بھی ہے اس اطلا ق پر صحن کا حصہ بھی شا مل ہو تا اسی لیے تو معتکف کو اس میں جا نا جا ئز ہے اور اس کے بعد بھی وہ معتکف ہی رہتا ہے بد ائع اور شا می میں ہے :معتکف ایسے منا رہ پر چڑھ سکتا ہے جس کا دروا زہ مسجد سے خا رج ہو کیو نکہ وہ مسجد میں شما ر ہو تا ہے اور وہا ں پیشا ب و پا خا نہ منع ہے ،تو وہ بھی مسجد کے ایک کو نہ کی طر ح ہو ا ”اسی لیے لو گ کسی مسجد کے منا رہ سے ہو نے وا لی اذا ن کو سن کر کہتے ہیں کہ فلا ں مسجد میں اذان ہو گئی حا لا نکہ منا رہ تو مسجد سے خا رج بنا ہے اور چو نکہ یہ محا روہ عرب و عجم میں شا ئع و ذائع ہے کہ اذا ن منا رہ کو سن کر کو ئی نہیں کہتا کہ چلو مسجد کے با ہر اذان ہو گئی ۔اور یہی معنی حضر ت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعا لی عنہ کے اس ارشاد کے بھی ہیں جو آپ نے فر ما یا تھا ”جس مسجد میں اذان ہو تی ہو وہا ں نما ز پڑھنا سنت ہد ی ہے ”(مسلم)۔اور فقہا ء کر ام کے اس قول کا بھی یہی مطلب ہے کہ ”مسجد میں اذا ن ہو چکی ہو تو جما عت میں شریک ہو ئے بغیر مسجد سے با ہر جا نا مکر وہ ہے”
(۱؎ رد المحتا ر کتا ب الصو م با ب الاعتکا ف دار احیا ء الترا ث العر ا بی بیر وت ۲/ ۱۳۲)
(۲؎صحیح مسلم کتاب المسا جد با ب صلو ۃ الجماعۃ و بیا ن التشد ید فی التخلف قد یمی کتب خا نہ کر اچی ۱/ ۲۳۲)
(۳؎الد ر المختار کتا ب الصلو ۃ با ب ادراک الفر یضۃ مطبع مجتبا ئی دہلی ۱/ ۹۹)
اذا علمت ھذا فا علم ان الاذان انما یکر ہ فی اصل المسجد لا فی وصفہ و لا تبعہ وان شئت قلت یکر ہ فی المسجد بالمعنی الا و ل دون الثا نیین ألا تر ی الی ما قد تلو نا علیک من نصو ص الا ئمۃ کیف نھو ا عن الا ذا ن فی المسجد دون المئذنۃ و فنا ء ہ والحد ود بمرای منک حد یث الاذا ن علی با ب المسجد ،واخر ج ابو الشیخ فی کتا ب الا ذا ن عن عبد اللہ ابن زید الا نصاری رضی اللہ تعالی عنہ قا ل رأیت فیما یر ی النا ئم کا ن رجلا علیہ ثو با ن اخضر ان علی سور المسجد یقول اللہ اکبر اللہ اکبر اربعا ۱؎الحدیث وفی اخر ی عنہ رأیت رجلا علیہ ثو با ن اخٖضر ان وانا بین النو م والیقظا ن فقا م علی سطح المسجد فجعل اصبعیہ فی اذنیہ و نا دی ۲؎الحد یث ۔ وتقد م قول المد خل ان محل الا ذا ن المنا ر او سطح المسجد اوبا بہ ۳؎
اس تفصیل کے بعد یہ جاننا چا ہیے کہ اذا ن اصل مسجد میں مکر وہ ہے وصف مسجد میں نہیں ۔اور تبع مسجد میں بھی نہیں اس کی تعبیر یو ں بھی کی جا سکتی ہے اذان مسجد با لمعنی الا ول میں مکر وہ ہے معنی ثا نی اور ثا لث میں نہیں ۔ائمہ کی نصوص سے بھی یہی ظا ہر ہے کہ خا ص مسجد کے اندر مکر وہ ہے منا رہ صحن اور حد ود میں نہیں ۔ حد یث سا ئب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی مفا د ہے ”کا ن الا ذا ن علی با ب المسجد ” (اذا ن مسجد کے دروازہ پر ہو تی تھی )۔ابو الشیخ نے کتا ب الا ذان میں حضر ت عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ ”میں نے خو اب میں دیکھا کہ ایک شخص ہر ا جو ڑا پہنے ہو نے مسجد کی چھت پر کھڑا ہوا اللہ اکبر اللہ اکبر کہہ رہا تھا ”دوسر ی حدیث میں انہیں سے ہے کہ”میں نے خو اب میںؓ ایک شخص کو ہرا جو ڑا پہنے ہو ئے مسجد کی چھت پر کا نو ں میں انگلیا ں دیئے ہوئے کھڑا دیکھا جو کہہ رہا تھا ”(الحد یث) مدخل کی عبا رت ہم پہلے نقل کر آئے ہیں کہ ”اذا ن منا رہ پر یا سطح مسجد پر یا اس کے درواز ہ پر ہونا چا ہیے۔”
(۱؎کنز العما ل بحو الہ ابی الشیخ حد یث۲۳۱۴۲ مو سسۃ الرسا لہ بیر وت ۸/۳۳۱)
(۲؎کنز العما ل بحو الہ ابی الشیخ حد یث ۲۳۱۴۳ مو سسۃ الرسا لہ بیر وت ۸/۳۳۱)
(۳؎المد خل فصل فی النہی عن الا ذا ن فی المسجد دارالکتا ب العر بی بیر وت ۲/ ۲۵۱)
وبما قر رنا وللہ الحمد تبنیت فوا ئد ،الا ولی یجو ز الا ذا ن الد کۃ و المنا رۃ و شفیر البئر و حر یم الحو ض و ان کا نت ھذ ہ الاشیا ء داخل المسجد اذا کا ن البا نی بنا ھا قبل تما م المسجد یۃ لا ن ذلک یبقی مستثنی ولا تشملہ المسجد یۃ فیجوز لہ ان یبنی و للنا س ان یستعملو ھا کما اذا اعد فیہ موضعا للو ضوء وکذا اذا کنت بئر اوحو ض مثلا فی فنا ء المسجد فزید المسجد و احا ط بھا کبئر زمزم فی المسجد الحرام فان کونھا اذذاک قبل المسجدیۃ ابین و اظہر اما بعد تمام المسجد یۃ فلا یجو ز فی ارض اصل المسجد احد اث دکۃ ولا منا رۃ ولا بئر ولا حو ض کما قد منا عن الدر ۱؎من منع بنا ء فو ق جدا ر المسجد او سطحہ فکیف ارضہ ھذا ما نص علیہ علما ؤنا انہ لا یحفر فی المسجد بئر ما ء ولو کا نت البئر قد یمۃ تتر ک کبئر زمزم ۲اھ خا نیۃ و ھند یۃ وغیر ھما و تما م تحقیق المسا لۃ فی جد الممتا ر تعلیقا تنا علی رد المحتا ر و قا ل فی الا شبا ہ والنظا ئر من احکا م المسجد تکر ہ المضمضۃ و الو ضوء فیہ الا ان یکو ن ثمہ موضع اعد لذ لک لایصلی فیہ او فی انا ء ۳؎ اھ و نحو ہ فی الدر۔
ان عبا ر تو ں سے چند فوا ئد حا صل ہو ئے (۱)اذا ن چبو تر ے پر ،منا رہ پر ،کنو یں کی منڈیر پر ،حو ض کی کگر ی پر ،اگر چہ یہ چیزیں مسجد کے اند ر ہی ہو ں جا ئز ہے جب کہ با نی نے اس کی بنا مسجد سے پہلے کی ہو وجہ اس کی یہ ہے وہ ابتداء سے ہی مسجد سے مستثنی ہیں تو با نی ان مطلو بہ چیزو ں کو بنا سکتا ہےاور لوگ اس کو اسی غرض سے استعمال کر سکتے ہیں ، ایسے ہی کو ئی جگہ جو خا ص مسجد میں تمام مسجد یت سے قبل ہی وضو کے لیے خا ص کر دی گئی ہو ۔یہ یو ں بھی ممکن ہے کہ مسجد کے صحن میں کو ئی حو ض تھا کنو ا ں تھا مسجد میں تو سیع ہو ئی یا مسجد کا احا طہ کیا گیا جیسے زمزم شر یف کا کنو ا ں کہ اب تو خا ص مسجد حرام شریف میں ہے جب کہ اس کا اس جگہ مسجد حرام سے قبل ہونابالکل ظاہر ہے ، ہاں مسجد تما م ہو نے کے بعد اصل مسجد میں نہ چبو تر ہ بنا نا جا ئز ہے نہ منا رہ نہ کنو ا ں نہ حوض جیسا کہ ہم در مختا ر سے نقل کر آئے کہ ”تمام مسجد یت کے بعد دیو ار یا چھت پر کو ئی اور عما ر ت منع ہے ”ہما رے علما ء نے اس بات پر تنصیص کی ہے کہ ”مسجد میں کنواں نہیں کھودا جا سکتا ، پرانا ہو تو باقی رہ سکتا ہے جیسا زمزم کا کنواں خانیہ ،ہندیہ وغیرہ اسکی پو ری تحقیق ہما ری کتا ب جدالممتار حا شیہ درمختار و شامی میں ہے اشباہ و نظائر کے با ب احکا م المسجد میں ہے ”مسجد میں کلی وغیر ہ منع ہے ہا ں کو ئی جگہ پہلے ہی سے ان امو ر کے لیے مقر ر ہو تو اور با ت ہے ”ایسا ہی درمختا ر میں ہے۔
(۱؎الد ر المختار کتا ب الوقف مطبع مجتبا ئی دہلی ۱/ ۳۷۹)
(۲؎فتا وی قا ضیخا ں فصل فی المسجد نو لکشور لکھنو ۱/ ۳۱)
(خلا صۃ الفتا و ی کتا ب الصلو ۃ الفصل السا دس و العشر و ن فی المسجد مکتبہ حبیبیہ کو ئٹہ ۱/ ۲۲۷)
(۳؎الاشبا ہ و النظا ئر الفن الثا لث القو ل فی احکا م المسجد ادارۃ القر آ ن کر اچی ۲/ ۲۳۰)
قا ل الشا می رحمۃ اللہ تعا لی علیہ قو لہ ”الا فیما اعد لذلک ”انظرھل یشترط اعداد ذلک من الوا قف ام لا ۱؎ وکتبت فی جد الممتا ر اقو ل: نعم و شیئ اخر فوق ذلک وھو ان یکو ن الا عدا د قبل تما م المسجد یۃ فا ن بعد ہ لیس لہ ولا لغیر ہ تعر یضہ للمستقذرا ت ولا فعل شیئ یخل بحر متہ اخذتہ مما یا تی فی الو قف من الو ا قف لو بنی فوق سطح المسجد بیتا لسکنی الا ما م ۲؎اھ ثم فی احداثھا فی المسجد بعد ما صار مسجدا موانع اخر ی فا نھا تشغل مو ضع الصلوۃ و تقطع الصفو ف وقد قا ل صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم من وصل صفا و صلہ اللہ و من قطع صفا قطعہ اللہ۔روا ہ احمد و ابو داؤد۳ و النسا ئی و ابن خزیمہ والحا کم بسند صحیح عن ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنھما قا ل العلا مۃ القار ی فی المرقا ۃ (من قطعہ) ای با لغیبۃ او بعد م السداوبو ضع شیئ ما نع ۱؎وقد نھی العلما ء عن غر س الشجر فی المسجد و عللو ہ با نہ یشغل مکا ن الصلو ۃ کما فی الخا نیۃ و خزا نۃ المفتین والھند یۃ و غیر ھا و اما اباحتہ لتقلیل النز اذا کا نت الا رض نزۃ لا یستقر اسا طینھا فللضر ور ۃ والضرورا ت تبیح المحظورا ت قا ل فی البحر فیغر س لیجذب عروق الا شجا ر ذلک النزفحینئذ یجو ز ، والا فلا۲؎ومثلہ فی الظہیر یۃ والبزا زیۃ و غیر ھما
اما م شا می رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے مصنف کے قول الا ما اعد لذ لک پر فر ما یا :”یہ امر غو ر طلب ہے کہ واقف کی طر ف سے ان امو ر کے لیے جگہ مقر ر کر نا شر ط ہے یا نہیں ”میں نے جد الممتار میں اس پر لکھا یہ شر ط تو ضر ور ی ہے ہی یہ بھی ضر وری ہے کہ وا قف مسجد مکمل ہو نے سے پہلے ان امو ر کے لیے یہ جگہیں متعین کر ے مسجد مکمل ہو نے کے بعد نہ واقف کو اس تعین کا اختیا ر ہے نہ کسی اور کو کہ اس صو رت میں مسجد کو گندگی کے لیے پیش کر تا ہے ۔میں نے اس کا استنبا ط کتا ب الوقف کی اس عبا ر ت سے کیا کہ ”واقف بھی مسجد کے اوپر اما م کے رہنے کے لیے کوئی گھر نہیں بنا سکتا ”مسجد مکمل ہو نے کے بعد اس میں ان امو ر کے لیے جگہ نکالنے میں دوسر ی قباحتیں بھی ہیں مثلا اس کی وجہ سے نما ز کی جگہ جا ئے گی اور اس کی وجہ سے صف منقطع ہو سکتی ہے جبکہ حدیث شریف میں ہے ”جس نے صفیں ملا ئیں اللہ تعالی اسے اپنی رحمت سے ملا ئے گا اور جس نے صفیں قطع کیں اللہ تعالی اسے رحمت سے دور کر یگا ا”(احمد ،ابو داؤد ،ابن خزیمہ،اور حاکم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے بہ سند صحیح روا یت کی ) ملا علی قار ی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے مرقا ۃ میں”قطعہ ”کا مطلب یہ تحریر فر ما یا کہ صف سے غا ئب ہو کر یا صف میں لا یعنی کا م کر کے یا کو ئی چیز بیچ صف میں رکھ کر جو صف کے ملنے سے ما نع ہو علما ئے کر ام نے ،مسجدمیں درخت لگا نے سے منع کیا کہ وہ نما ز کی جگہ گھیر ے گا ایسا ہی خانیہ خزا نۃ المفتین وغیر ہما میں لکھا ہے اور مسجد میں نمی ہو تو اسے کم کر نے کے لیے درخت لگا نا جا ئز ہے کہ یہ بہ ضرورت ہے اور ضرو رتیں تو ممنو عا ت کو جا ئز کر دیتی ہیں بحر الرائق میں ہے :”مسجد کے نم فر ش پر درخت لگا سکتے ہیں کہ اس کی جڑیں تر ی چو س لیں ورنہ در خت لگا نا جا ئز نہیں”ایسا ہی ظہیر یہ وبزا زیہ وغیر ہ میں ہے۔
(۱؎رد المحتا ر کتا ب الصلو ۃ با ب ما یفسد الصلو ۃ دار احیا ء التر ا ث العر بی بیر وت ۱/ ۴۴۴)
(۲؎جد الممتار کتا ب الصلو ۃ با ب ما یفسد الصلو ۃ المجمع الا سلا می اعظم گڑھ ہند ۱/ ۳۱۶)
(۳؎ سنن ابی دواد کتا ب الصلو ۃ با ب تسو یۃ الصفوف آفتا ب عا لم پر یس لا ہور ۱/۹۷)
(مسند احمد بن حنبل عن ابن عمر المکتب الاسلا می بیر وت ۲/ ۹۸)
(المستد ر ک للحا کم کتا ب الصلو ۃ دار الفکر بیر وت ۱/ ۲۱۳)
(۱؎مرقاۃ المفاتیح کتا ب الصلو ۃ با ب تسویۃ الصفوف حدیث ۱۱۰۲ المکتبہ الحبیبیہ کوئٹہ ۳/۱۷۹)
(۲؎بحرالرائق کتا ب الصلو ۃ فصل لما فرغ من بیان الکراہۃ فی الصلوۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۳/۳۵)
قا ل فی منحۃ الخالق : وفی قو لہ ”الا فلا ”دلیل علی انہ لا یجو ز احد اث الغر س فی المسجد ولا ابقا ؤہ فیہ لغیر ذلک العذر و لو کا ن المسجد وا سعا کمسجد المقد س الشر یف ولو قصد بہ الا ستغلا ل او تجو یز ابقا ء ذلک بعد احدا ثہ ولم یقل بذلک احد بلا ضرورۃ دا عیۃ ولا ن فیہ ابطال ما بنی المسجد لا جلہ من صلو ۃ وا عتکا ف ونحو ھما وقد رایت فی ھذہ المسا لۃ رسالۃ بخط العلا مۃ ابن امیر الحا ج الحلبی الفھا فی الر د علی من اجا ز ذلک فی المسجد الا قصی ، ورأ یت فی اخر ھا بخط بعض العلما ء انہ وافقہ علی ذلک العلا مۃ الکما ل ابن الشر یف الشا فعی ۱؎اھ
منحۃ الخا لق میں بحر کے قول ”وا لا فلا ”پر فر ما یا یہ اس با ت کی دلیل ہے کہ مسجد میں مذکو رہ با لا ضرورت سے درخت لگا نا جا ئز ہے اور ضرورت نہ ہو تو نہ درخت لگا نا جا ئز ہے نہ اس کا با قی رکھنا ۔اور اگر مسجد وسیع ہو جیسے بیت المقد س اور اس کے کسی حصہ میں سا ما ن رکھنا ہو تو یہ بھی منع ہے کہ اس سے مسجد کو گو دا م اور دکا ن بنا نے کی را ہ کھلے گی اور اس کےبا قی رکھنے میں جبکہ بلا ضرور ت ہو مسجد میں دکا ن و مکا ن باقی رکھنے کی راہ استوا ر ہو گی حا لا نکہ اس کا کو ئی قا ئل نہیں ہے اور مسجد میں ایسی چیزیں تیا ر کر نے سے مسجد کی تعمیر کی اصلی غر ض فو ت ہو گی اس مسئلہ میں ایک رسا لہ ابن امیر الحا ج کے ہاتھ کا لکھا ہوا میں نے دیکھا جسے آپ نے اس شخص کے رد میں تحر یر فر ما یا تھا جس نے بیت المقد س میں اس کو روا رکھا تھا اور اسی کے آخر میں بعض علماء کی تحر یر تھی جس میں اس مسئلہ میں علا مہ کما ل ابن ابی شر یف شا فعی نے ابن امیر الحا ج کی تا ئید کی تھی ۔
(۱؎منحۃ الخا لق حا شیۃ بحر ا لر ائق مع البحرفصل لما فر غ من بیان الکر ا ہۃ فی الصلو ۃ ایچ ایم سعید کمپنی کر اچی ۳/ ۳۵)
وقلت فی جد الممتا ر بعد نقل ما ھنا وغیر ہ من نظر ھذ ہ الکلما ت الشر یفۃ بعین الانصا ف لم یلبث فی الحکم بتحر یم کل احدا ث فی المسجد یکو ن فیہ شغل محل منہ لغیر ما بنی لہ سو ا ء کا ن بیتا او حا نو تا او دکۃ او منا ر ۃ او غا سلا او خزا نۃ او بئرا او حو ضا او شجر ا ،أو ،أو، أو الخ و عنیت بہ المسجد با لمعنی الا ول ۔
میں نے جد الممتار میں ان سب با تو ں کو لکھ کر تحر یر کیا جو ان کو انصا ف کی نظر سے دیکھے گا بلا تو قف اس قسم کی تما م ایجا دا ت کو (جن سے تعمیر مسجد کی اصلی غرض میں خلل وا قع ہو) حر ام قرا ر دے گا چا ہے گھر ہو یا دکا ن ،چبو تر ہ ہو یا منا رہ خزا نہ ہو یا گو دا م کنوا ں ہو یا حو ض ،درخت ہو یا کچھ اور الخ ایسے تما م مقاما ت پر ہماری مراد مسجد سے قسم اول (اصل مسجد) ہے ۔
وقا ل الا ما م ابن الحاج المکی فی المد خل و من ھذاالبا ب ایضا ما احد ثو ہ فی المسجد من الصنا دیق المو بد ۃ وذلک غصب لمو ضع مصلی المسلمین۲؎ قا ل و من ھذا البا ب الد کۃ التی یصعد علیھا المو ذنو ن للا ذا ن یو م الجمعۃ بل ھی اشد من الصنادیق اذیمکن نقل الصنا دیق ولا یمکن نقلھا ۱؎ قا ل ومن ھذا البا ب ا یضا اعنی فی امسا ک مو ا ضع فی المسجد و تقطیع الصفو ف بھا اتخا ذ ھذا المنبر العالی فانہ اخذ من المسجد جزا ء جیدا و ھو وقف علی صلا ۃ المسلمین ۲؎ اھ ملتقطا فر حم اللہ من نص و رحم اللہ من قبل۔
اما م ابن الحا ج مکی نے مد خل میں فر ما یا کہ اسی قسم سے وہ صند وق ہیں جن کو مسجد میں رکھنے کا روا ج لو گو ں نے قائم کر لیا ہے یہ نما ز کی جگہ کو گھیر تا ہے اور اسی قسم کے وہ چبو تر ے ہیں جو مسجد و ں میں اذا ن خطبہ کے لیے بعد میں بنا ئے گئے ہیں بلکہ ان کا حکم صند و ق سے زیا دہ سخت ہے کہ وہ بضر ورت کھسک بھی سکتے ہیں جبکہ چبو تر و ں میں یہ نا ممکن ہے اور اسی قسم یعنی مسجد کی جگہ روکنے وا لے اور صفیں قطع کر نے وا لے وہ رفیع منبر ہیں جن سے نما ز کی قا بل ذکر جگہ گھر جا تی ہے جو مسلما نو ں کی نما ز کے لیے وقف تھی ملخصا (اللہ تعالی نصیحت کرنے والے اور قبو ل کر نیو ا لے دو نو ں کو قبو ل فر ما ئے ۔
(۲؎المد خل فصل ذکر البد ع التی احد ثت فی المسا جد دار الکتاب العر بی بیر وت ۲/ ۲۱۱)
(۱؎المد خل فصل ذکر البد ع التی احد ثت فی المسا جد دار الکتاب العر بی بیر وت ۲/ ۲۱۱)
(۲؎المد خل فصل فی ذکر البد ع التی احد ثت فی المسا جد دا ر الکتا ب العر بی بیر وت ۲/ ۲۱۶)
(۲) اما م کا فی کے قول میں اذا ن کو جو ذکر ا فی المسجد (مسجد کے اند ر کا ذکر )کہا ہے تو اس سے مراد مسجد کی قسم ثا نی ہے جس میں اصل مسجد اور وصف مسجد دو نو ں ہی شا مل ہیں خطبہ اصل مسجد میں ہو تا ہے اور اذان وصف مسجد میں ۔تو مسجد میں ہو نا خطبہ اور اذا ن دونو ں ہی کی صفت ہے اگرچہ جگہ میں اختلا ف ہو اور غا یۃ البیا ن اور فتح القد یر کے قو ل قا لو ا لا یو ذن فی المسجد (مسجد میں اذا ن ممنو ع ہے)اس سے مراد مسجدبمعنی اول ہے تو دقت نظر سے یہ پتا چلے گا کہ یہ بھی ہدا یہ کے قول کی تا ویل اور اس کے مقصد کی تعیین ہے اس میں ان کےکلا م کو ظاہر سے پھیر نا نہیں اللہ تعا لی ہی آدمی کو حق کی تو فیق دینے والا ہے
الثالثۃ ،المر اد فی قول ابن مسعو د رضی اللہ تعالی عنہ وقو ل الفقہا ء الما رین العنیا ن الاخیر ان وکذا فی حد یث ابی داؤ د و ابی بکر بن ابی شیبۃ عن عبد الر حمن بن ابی لیلی قا ل حد ثنا اصحا بنا جا ء رجل من الا نصا ر فقال یا رسو ل اللہ رأیت رجلا کا ن علیہ ثو بین اخضر ین فقا م علی المسجد فا ذن ۱؎الا ترا ہ یقو ل قا م علی المسجد ،ولو ا را د المعنی الا ول لقا ل قام فی المسجد وقد اوضحتہ روا یۃ ابی بکر بن ابی شیبۃ الاخری وابی الشیخ فی الاذان عن ابن ابی لیلی قال حدثنا اصحاب رسول اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم ان عبد اللہ بن زید الا نصا ری جا ء الی النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم فقا ل یا رسول اللہ رأیت فی المنا م کا ن رجلا قا ئم وعلیہ بردان اخضرا ن علی جذمۃ حا ئط فا ذن ۲؎الخ ولسعید ابن منصور فی سننہ عن عبد الر حمن ابن ابی لیلی ان رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اھتم للصلو ۃ کیما یجمع الناس لھا فا نصر ف عبد اللہ بن زید فر أ ی الا ذا ن ۱؎الحد یث وتقد مت روا یۃ سو ر المسجد وسطح المسجد ۔
(۳) اور حضر ت عبد اللہ رضی اللہ تعا لی عنہ کے قو ل ”جس مسجد میں اذا ن ہو تی ہو وہا ں سے اذا ن کے بعد بے جماعت چلا جا نا منع ہے ”اور فقہا ء کے اقو ا ل جو ذکر کئے جا چکے مسجد سے مر اد معنی ثا نی یا ثا لث ہیں ابی داؤد اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے عبد الر حما ن ابن ابی لیلی سے صحا بہ کا قول نقل کیا کہ ”عہد رسا لت میں ایک انصا ری نے حضو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت مبا ر ک میں عر ض کی میں نے ایک آ دمی کو دیکھا جس کے جسم پر دوہر ے رنگ کے کپڑے تھے اس نے مسجد میں کھڑے ہو کر اذا ن دی ”اس روا یت میں لفظ قا م علی المسجد ہے اگر مسجد کے اند ر کہنا ہو تا تو قا م فی المسجد کہتے اس حد یث شر یف کی اور زیا دہ تشر یح و تو ضیح حضر ت ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو الشیخ ابن ابی لیلی کی دوسر ی روا یت سے ہو تی ہے کہ ”زید ابن عبد اللہ انصا ری نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عر ض کی : یا رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیک وسلم !میں نے خو اب میں ایک آدمی کو ہرے رنگ کا جو ڑا پہنے ہو ئے ایک منہد م دیو ار کے ٹیلے پر کھڑے دیکھا جو اذا ن دے رہا تھا ”اور سعید بن منصور نے اپنی سنن میں عبد الر حمن بن ابی لیلی سے روایت کی کہ حضور سید عا لم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک با ر لو گو ں کو اہتما م سے نما ز کے لیے جمع کیا حضر ت عبد اللہ بن زید انصا ری نما ز پڑھ کر واپس ہو ئے تو خواب میں اذا ن ہو تے دیکھی صبح کو رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اطلا ع دی کہ را ت میں نے خو اب میں اس طر ح اذا ن ہو تے دیکھی کہ ایک آدمی ہر ا جو ڑا پہنے سقف پر اذا ن دے رہا ہے اس روایت میں سو ر اور سطح کا لفظ گزر چکا ہے۔
(۱؎سنن ابی داؤد کتا ب الصلو ۃ با ب کیف الا ذا ن آفتا ب عا لم پر یس لا ہو ر ۱/ ۷۴)
(المصنف لا بن ابی شیبہ کتا ب الا ذا ن و الا قا مت حد یث ۲۱۲۴ دار الکتب العلمیۃ بیر و ت ۱/ ۱۸۶)
(۲؎المصنف لا بن ابی شیبہ کتا ب الا ذا ن و الا قا مت حد یث ۲۱۱۸ دار الکتب العلمیۃ بیر و ت ۱/ ۱۸۵)
(کنز العما ل بحو الہ ش وابی الشیخ فی الا ذا ن حد یث ۲۳۱۴۶ مو سسۃ الر سا لہ بیر و ت ۸/ ۳۳۳)
(۱؎ کنز العما ل عن عبد الر حمن ابن ابی لیلی حد یث ۲۳۱۵۲ مو سسۃ الر سا لۃ بیر وت ۸/ ۳۳۶)
الرابعۃ ،المعنی الثا لث ھو المر اد فی فر ع الخا نیۃ و الخلا صۃ و لا با س با ن یتخذ فی المسجد بیتا یو ضع فیہ الحصیر و متاع المسجد بہ جر ت العا دۃ من غیر نکیر۲؎،اھ ومن الدلیل علیہ حد یث التعا رف فا نہ المتعا رف او بنا ؤہ قبل تما م المسجدیۃ اما ان یتم المسجد ثم یا خذ ا حد قطعۃ منہ فیجعلھا بیت البو اری فلم تجر بہ العا دۃ ولا یحل السکو ت علیہ۔
(۴) خا نیہ اور خلا صہ کی عبار ت ”اس میں کو ئی حر ج نہیں کہ مسجد میں ایک ایسا گھر بنا لیا جا ئے جس میں چٹائی وغیر ہ اسبا ب رکھے جا ئیں کہ عا م اہل اسلا م کی عا دت اسی پر جا ری ہے ”اس عبا رت میں مسجد سے مراد اس کے تیسر ے معنی ہیں اور اس پر دلیل اسی عبار ت کا یہ ٹکڑا ہے کہ ”اہل اسلام کی عا دت اسی پر جا ری ہے ”اس لیے کہ تعا رف تو یہی ہے کہ مسجد بمعنی سو م میں ایسا کمر ہ بنتا ہے ۔یا مسجد بمعنی اول میں تو اس جگہ کی مسجد یت مکمل ہو نے سے پہلے مسجد مکمل ہو جا نے کے بعد اسی کا ایک ٹکڑا چٹا ئی اور فر ش وغیر ہ رکھنے کے لیے بنا یا جا ئے نہ عا دت اس پر جا ری نہ خا مو شی اس پر جا ئز ۔
(۱؎فتاوی قا ضیخا ن فصل فی المسجد نو لکشو ر لکھنؤ ۱/ ۳۱)
(خلا صۃ الفتا وی کتا ب الصلو ۃ الفصل السا د س و العشر و ن مکتبہ حبیبیہ کو ئٹہ ۱/ ۲۲۸)
الخامسۃ ،قا ل فی جا مع الر مو ز لہا یو ذن فی المسجد فا نہ مکر وہ کما فی النظم لکن فی
الجلا بی یو ذن فی المسجد او ما فی حکمہ لا فی البعید منہ ۱؎اھ فمرا د النظم المعنی الا و ل ومراد الجلا بی المعنی الثانی فا لمعنی یوذن فی حد ود المسجد کما فسر بہ الا ماما ن کلام الکا فی او ما فی حکمہ ای فی فنا ئہ فا ن فنا ء المسجد لہ حکم المسجد کما فی الھند یۃ عن الا ما م السر خسی قا ل الفناء تبع المسجد فیکو ن حکمہ حکم المسجد ۲؎ ومثلہ فی کتب کثیر ۃ ذکر نا ھا فی جد الممتا ر فلا استدرا ک بکلا م الجلا بی علی کلا م النظم کما فعل القھستا نی الا تر ی ان العلا مۃ الطحطا وی رحمہ اللہ تعالی کیف اقتصر فی الحکم علی حکا یۃ ما فی القہستا نی عن النظم ولم یعر ج علی استد را کہ اصلا علما منہ با ن الا ستد را ک مستد رک لا یبتغی نقلا ھکذا ینبغی التحقیق و اللہ تعا لی ولی التو فیق ولو لم یکن ھذا لکا ن ذکر جا مع الر مو ز بمقا بلہ تلک المعتمد ات العظیمۃ بل ما تفر د بہ الجلا بی با زا ء ما اتفق علیہ اولئک الاکا بر الا جلۃ مما ینبغی ان یستحی منہ فا نہ لو فر ض لکا ن خلا فا لا اختلا فا وقد تقر را ن الحکم والفتیا بالمرجوح جہل و خر ق للا جما ع فکیف ولا خلا ف علی التحقیق لما علمت من جلیل التو ثیق و با للہ تعالی التو فیق ۔
(۵) جا مع الر مو ز میں ہے کہ مسجد میں اذا ن دینا مکر و ہ ہے ایسا ہی نظم میں ہے لیکن جلا بی میں ہے کہ مسجد میں یا اس جگہ میں جو مسجد سے دور اذا ن نہ دینی چا ہیے تو نظم میں مسجد بمعنی اول میں اذان دینے کو مکر وہ کہا ہے اور جلا بی میں مسجد بمعنی ثا نی مرا د ہے یعنی مسجد میں دی جا نے کا مطلب حد ود مسجد میں ہے جیسا کہ اما م اتقا نی اور ابن ہما م نے صا حب ہدا یہ کے قول ذکر فی المسجد کی تفسیر فی حد ود المسجد سے کی تو جلا بی کی عبا رت میں لفظ او ما فی حکم المسجد سے اسی کی طر ف اشا رہ ہو تا ہے کہ فنا ء مسجد مسجد کے حکم میں ہے ہند یہ میں بھی ایسا ہی اما م سر خسی سے روایت ہے کہ ”صحن مسجد کے حکم میں ہے”اور اسی کے مثل بہت سا ری کتا بو ں میں ہے جس کی تفصیل ہم نےجد الممتا ر میں لکھی ہے تو حقیقت میں اما م جلا بی کا کلام ”نظم”کی تر دید نہیں جیسا کہ قہستا نی نے سمجھا حضر ت اما م طحطا وی نے نظم کا یہ جزیہ قہستا نی سے ہی نقل کیا لیکن قہستا نی کے ادرا ک کو غیر معتبر جا ن کر چھو ڑ دیا اور اگر نہ ما نا جا ئے تو یا تو جا مع الر مو ز والے قہستا نی صاحب ائمہ اعلا م کے مقا بلہ میں اکیلے ہو ں گے اور یہ تسلیم کر لیا جا ئے تو جلا بی اور قہستا بی کا یہ قول مر جو ح رہ جا ئے گا کہ ان کی حثیت ائمہ سے اختلا ف کر نے کی نہیں اور یہ طے ہو چکا ہے کہ قول مرجو ح کے مو ا فق فتوی حکم جہل اور خر ق اجما ع ہے اور سچ پو چھو تو خلا ف بھی نہیں کہ ان کے قول فی المسجد کا معنی فی حدود المسجد و اضح ہو گیا ہے ۔
(۱؎جا مع الر مو ز کتاب الصلو ۃ فصل الا ذا ن مکتبہ اسلا میہ گنبد قا مو س ایرا ن ۱/ ۱۲۳)
(۲؎فتا و ی ہند یہ البا ب الحا دی عشر فی المسجد الفصل الثا نی نو را نی کتب خا نہ پشا ور ۲/ ۴۱۲)
نفحہ ۱۰: اذلم یقد روا علی شیئ تعلق بعض الو ھا بیۃ بما فی نص الخا نیۃ و الخلا صۃ من لفظ ”ینبغی”یر ید بہ ان الا مر سھل لا یعتنی بہ انت تر ی عا مۃ النصو ص عر یۃ عنھا ثم لم یدخل علی ”لا یو ذن فی المسجد”الا تر ی ان البحر نقلہ عن الخلاصۃ ھکذا ولم یلتفت الی ”ینبغی ”فی الجملۃ الا ولی ۔
نفحہ ۱۰: جب مخا لفین کسی با ت پر قادر نہ ہو ئے تو ان میں سے بعض نے خا نیہ (عہ) اورخلا صہ میں آئے ہو ئے لفظ ینبغی کا سہا را لیا اور سمجھا کہ معا ملہ آسا ن ہے اس پر تو جہ دینے کی ضرورت نہیں حا لا نکہ اولا دوسر ی کتا بو ں کی عبار تیں لفظ ینبغی سے خا لی ہیں اور جہاں یہ لفظ ہے جملہ لایؤذن فی المسجد پر داخل نہیں خو د صا حب بحر نے خلا صہ سے یہی عبار ت نقل کی اور جملہ اولی میں آئے ہو ئے لفظ ینبغی کی طر ف تو جہ نہ فر ما ئی ۔
عہ: خا نیہ کی عبا ر ت یو ں ہے : ینبغی ان یو ذن علی المنا رۃ او خا رج المسجد و لا یو ذ ن فی المسجد ۱؎مخا لفین کے مغا لطہ کا مطلب یہ ہے کہ لفظ ینبغی کا تعلق دونو ں سے ہے یعنی مسجد کے باہر اور منا رہ پر اذا ن دینا مناسب ہے اور مسجد میں اذان دینا منا سب نہیں تو مسجد کی اذان ز یادہ سے زیادہ خلاف اولی ہو ئی تو گر اندرون مسجد ہی اذان کا روا ج ہو گیا تو کو ئی حر ج کی با ت نہیں پھر اتنا وا و یلا کیو ں ؟اعلٰیحضر ت کے پہلے جو ا ب کا مطلب یہ ہے کہ لفظ ینبغی کا تعلق صرف پہلے جملہ سے ہے اور دوسر ا جملہ (لا یو ذ ن فی المسجد) اس سے خالی ہے جس کا مطلب اندرون مسجد اذان کی مما نعت ہے جیسا کہ دیگر کتب فقہ میں لا یو ذ ن یا یکرہ الا ذا ن فی المسجد سے ظاہر ہے اس کی تائید صاحب بحر کی عبارت سے ہوتی ہے جنھو ں نے یہ عبار ت خلاصہ کے حوالہ سے نقل کی اور ینبغی کا لفظ چھو ڑ دیا ۔ عبد المنا ن اعظمی
(۱؎فتا وی قا ضی خا ں کتا ب الصلو ۃ مسا ئل الا ذا ن نو لکشو ر لکھنو ۱/ ۳۷)
ثم استعمالہ فی الندب اصطلا ح المتا خر ین وھو فی کلا م المشا ئخ اعظم کما فی ردالمحتا ر وغیر ھا قا ل ھو فی القر ان کثیر : ما کا ن ینبغی لنا ان نتخذ من دو نک اولیا ء ۔۔۔۔قا ل فی المصبا ح ینبغی ان یکو ن کذا معنا ہ یجب او یند ب بحسب ما فیہ من الطلب۱؎
ثانیا لفظ ینبغی کو مستحب کے معنی میں قرار دینا ائمہ متا خر ین کی اصطلا ح ہے کلا م مشا ئخ میں یہ لفظ عا م ہے جیسا کہ ردالمحتا ر وغیر ہ میں اس کی تصر یح ہے انہو ں نے فر ما یا کہ ایسا قرآ ن عظیم میں بہت وارد ہے مثلا آیت قرآنی : ما کا ن ینبغی لنا ان نتخذ من دونک اولیا ء (ہمیں زیب نہیں دیتا کہ اللہ کے علا وہ کسی کو اپنا ولی بنائیں ) مصباح المنیر میں ہے ینبغی کے معنی و جو ب اور استحبا ب دو نو ں ہی حسب طلب ہو سکتے ہیں۔
(۱؎ ردالمحتا ر کتاب الجہاد لفظ ”ینبغی ” یستعمل فی المند وب الخ دارا حیا ء التر اث العر بی بیر وت ۳/ ۲۲۴)
ثم ندبہ یقابل الو جو ب ویعم الا ستنا ن ، وا مر السنۃ لیس بھینین بل ربما جا ء ”ینبغی للو جو ب”کقو ل الھدا یۃ والکنز وغیر ھما ”من حلف علی معصیۃ ینبغی ان یحنث ۱؎”فا ن الحنث وا جب قطعا وقو ل الھد ایۃ و کثیر ین ”ینبغی للمسلمین ان لا یغدروا ولا یغلو ولا یمثلو ا ۲؎”اھ مع ان تر ک الغد ر والغلو ل فر یضۃ فا نھما حر ام و کذا المثلۃ قا ل فی الفتح قو لہ و ینبغی للمسلمین ای یحر م علیہم ان یغدروا او یغلو اویمثلوا اھ ۳؎
ثالثاً اس لفظ میں استحباب کے معنی سنت کو بھی شامل ہیں اور سنت کامعاملہ ایسا آسان نہیں بلکہ لفظ ینبغی بسااوقات صرف معنی وجوب پرہی دلالت کرتاہے ۔ ہدایہ وکنز وغیرہ میں ہے : ” جس نے گناہ کرنے کی قسم کھائی تواسے توڑ دینا چاہیے “۔ یہاں قسم توڑنا واجب ہے ۔ صاحب ہدایہ اور بہت سارے ائمہ کاقول ہے: ” مسلمانوں کوچاہیے کہ بے وفائی نہ کریں ، مال غنیمت سے نہ چرائیں اور مثلہ نہ کریں ” ۔ یہاں ترک غدر وغلول ومثلہ فرض ہے ۔ فتح القدیر میں ہے : ” مسلمانوں کوچاہیے یعنی ان پرحرام ہے کہ غدر مال غنیمت کی چوری اورمثلہ کریں “۔
(۱؎الھد ا یہ کتا ب الا یما ن با ب ما یکو ن یمینا الخ المکتبۃ العر بیۃ کر اچی ۲/ ۴۶۲)
(کنز الد قا ئق کتا ب الا یما ن با ب ما یکو ن یمینا الخ ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی ص۱۵۵)
(۲؎الہد ا یۃ کتا ب السیر با ب کیفیۃ القتا ل المکتبۃ العر بیۃ کر اچی ۲/ ۵۴۱و۵۴۲)
(۳؎فتح القد یر کتا ب السیر با ب کیفیۃ القتا ل مکتبہ نو ریہ رضو یہ سکھر ۵/ ۲۰۱)
وقو ل القد وری والھدا یۃ وغیر ھما ینبغی للنا س ان یلتمسو ا الھلا ل فی الیو م التا سع و العشر ین من شعبا ن ۴؎ قا ل المحقق فی الفتح ای یجب علیہم وھو وا جب علی الکفا یۃ ۵؎اھ قا ل فی الجو ہر ۃ النیر ہ ای یجب ۶؎الخ
اسی طرح امام قدوری اورصاحب ہدایہ وغیرہ کاقول ہے : ” لوگوں کوچاہیے کہ شعبان کی انتیس تاریخ کوچاند تلاش کریں ” محقق ابن ہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں : “یعنی ینبغی کے معنی ہیں کہ ان پر چاند کی تلاش واجب ہے اورتلاش واجب علی الکفایہ ہے”۔ اورجوہرہ نیرہ میں ایساہی ہے یعنی قدوری میں ینبغی بمعنی یجب ہے
(۴؎المختصر للقد ر وی کتا ب الصو م ص۵۶ والھدا یۃ کتا ب الصو م المکتبۃ العر بیہ کر اچی ۱/ ۱۹۳)
(۵؎فتح القد یر کتا ب الصو م فصل رویۃ الہلا ل المکتبۃ النو ریۃ الر ضو یۃ بسکھر ۲/ ۲۴۲)
(۶؎الجو ہر ۃ النیر ۃ کتا ب الصو م مکتبہ امد اد یۃ ملتا ن ۱/ ۱۶۷)
وقا ل فی القنیۃ فاستحسا ن القا ضی الصدر الشہید ینبغی للا خ من الر ضا ع ان لا یخلو ا با ختہ من الر ضا ع لا ن الغا لب ھنا ک الو قو ع فی الجما ع ۱؎افا د العلا مۃ البیر ی ان ”ینبغی ”معنا ہ الو جو ب ھنا ۲؎(الشامی) وکم لہ من نظیر ۔
قنیہ میں ہے قاضی صدرالشہید کے استحسان میں ہے کہ رضاعی بھائی کورضاعی بہن کے ساتھ تنہائی میں نہیں رہنا چاہیے کہ ایسی حالت میں حرامکاری میں مبتلاہوناغالب ہے اھ ۔علامہ بیری فرماتے ہیں کہ یہاں بھی لفظ ینبغی کا مطلب وجوب ہے (شامی ) المختصر اس بات کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ کلام مشائخ میں “ینبغی ” بول کر واجب مراد لیاجاتاہے۔
(۱؎القنیۃ المنیہ لتتمیم الغنیۃ کتا ب الکر ا ہیۃ والا ستحسا ن با ب فی الخلوۃ با جنبیۃ مطبو عہ کلکتہ بھا ر ت ص۱۶۶)
(۲؎ رد المحتا ر کتا ب الحظر و الا با حۃ فصل فی النظر و المس دار احیا ء التر ا ث العر بی بیر وت ۵/ ۲۳۶)
ثم ان کا ن ھو ظا ہر ا فعا رضہ فی نفس الکلا م ظا ہر اخر وھو النھی بصیغۃ الا خبا ر فا نہ غا لبا فی کلا مھم لایجا ب الفعل والتر ک الا ان یصر ف صا رف قا ل الا ما م ابن امیر الحا ج فی الحلیۃ صفۃ الصلو ۃ مسئلۃ القراءۃ فی الاخر یین ظا ہر قو ل المصنف ‘لا یز ید علیھما شیئا”’یشیر الی عد م اباحۃ الزیا دۃ علیہما ۳؎اھ وفی عید الغنیۃ الا یر ی الی قو لہ لا یتر ک واحد منھما فا نہ اخبر بعد م التر ک والاخبا ر فی عبا را ت الا ئمۃ و المشا ئخ یفید الو جو ب۴؎
(۳؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
(۴؎غنیۃ المستملی فصل فی صلو ۃ العید سہیل اکیڈمی لا ہو ر ص۵۶۵)
وفی اما مۃ البحر الر ا ئق : قو لہ فا ن فعلن تقف الا مام وسطہن افا د با لتعبیر بقولہ تقف انہ وا جب فلوتقدمت اثمت کماصرح بہ فی فتح القد یر ۱؎ وفی حا شیۃ العلا مۃ الخیر الر ملی علی البحر ثم منحۃ الخا لق قبیل الاذا ن علی قول الاسبیجا بی (اذا جیئی بجنا ز ۃ بعد الغر و ب بد ؤ ا با لمغر ب ثم بھا ثم بسنۃ المغر ب ۲؎ اھ) الظا ہر ان ذلک علی سبیل الوجو ب لتعلیلھم با ن المغر ب فرض عین و الجنا ز ۃ فر ض کفا یۃ ولا ن الغا لب فی کلا مھم فی مثلہ ارادۃ الو جو ب تا مل ۳؎ اھ وقا ل العلا مۃ السید احمد الطحطا وی فی صو م حوا شی الدر : و فیھا (ای فی النھا یۃ ) ولا یفعل (ای الدھن ) لتطویل اللحیۃ اذا کا نت بقد ر المسنو ن وھویقتضی ان الدھن لھذاالقصد یکرہ تحر یما لا نہ یفضی الی المکر و ہ تحر یما ولا کا ن مکر و ھا تنزیھیا لما عبر بقو لہ ولا یفعل ۱؎فظا ہر نا ھذا غیر معا ر ض من نصو ص الا سبیجا بی والمجتبی والبنایۃ والا تقا نی و فتح القد یر ۔
رابعا پھر خا نیہ اور خلا صہ کے کلا م کا ظا ہر مطلب عد م وجو ب ہو تو اسی کلا م کا ایک اور ظا ہر بھی ہے جو اس کے معا رض ہے کہ نہی بصیغہ اخبا ر کلا م مشا ئخ میں عمو ما وجو ب فعل یا وجو ب تر ک کے لیے ہو تی ہے اما م ابن الامیر الحا ج نے ”با ب صفۃ الصلو ۃ ”مسئلہ قراءت میں فر ما یا مسئلہ قر ا ءت رکعتین اخیر ین مصنف کے قول لا یزید علیہما شیئا کا ظا ہر ی مطلب یہی ہے کہ اس سے زا ئد قرا ء ت مبا ح نہیں اور غنیہ کے با ب العید میں ہے ”مصنف کے قول ”لا یتر ک وا حد منھما ”کو دیکھنا کہ یہ عد م تر ک کی خبر ہے ،اور ائمہ و مشا ئخ کی عبا ر ت میں اخبا ر وجو ب کا فا ئد ہ دیتا ہے ۔”بحرا الرا ئق کے با ب الا ما مت میں ہے ”مصنف کے قول ”اگر عو رتیں جما عت کر یں تو امام ان کے بیچ میں کھڑی ہو ”مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنا وا جب ہے جس پر لفظ تقف دلالت کرتا ہے تو امام آگے بڑھ کر کھڑی ہو تو گنہگار ہو گی اس کی تصریح فتح القدیر میں ہے”حا شیہ خیررملی منحۃ الخالق میں باب الاذان سے تھو ڑے پہلے اسبیجا بی کے قو ل ”جنا ز ہ غرو ب آفتا ب کے بعد لایا گیا تو پہلے مغر ب کے فر ض پڑھیں پھر جنازہ پڑھیں پھر سنتیں ادا کر یں ”پر تشر یح ہے ظا ہر یہ ہے کہ یہ حکم بر سبیل وجوب ہے کیو نکہ علت یہ بیان کر تے ہیں کہ مغر ب فرض عین ہے اور نما ز جنا زہ فر ض کفا یہ ہے اور یو ں بھی کہ عا م طو ر پر فقہا ء کے کلا م میں ایسی عبا رت سے وجو ب ہی مرا د ہو تا ہے علا مہ سید طحطا وی در مختا ر کے حو ا شی میں فر ما تے ہیں :”نہا یہ میں ہے کہ داڑھی جب بقدر سنت لمبی ہو تو زیا دہ بڑھا نے کے لیے تیل نہیں لگا نا چا ہیے نہا یہ کے اس قو ل کا تقا ضا یہ ہے کہ اس نیت سے تیل لگا نا مکر وہ تحر یمی ہے کہ ایک مکر وہ تحر یمی کا ذریعہ بنے گا اور اگر یہ فعل مکر وہ تنزیہی ہوتا تو اس کو لفظ لا یفعل سے منع نہ کر تے ”اور ہما را یہ ظا ہر اسبیجا بی ،مجتبی ،بنا یہ ،اتقا نی اور فتح القد یر کی عبارتو ں کے معا ر ض بھی نہیں (کہ یہ بے اعتبا ر ٹھہر ے )
(۱؎بحرا الرا ئق کتاب الصلو ۃ با ب الا ما مۃ ایچ ایم سعید کمپنی کر ا چی ۱/ ۲۵۱)
(۲؎بحرا الرا ئق کتاب الصلو ۃ با ب الا ما مۃ ایچ ایم سعید کمپنی کر ا چی ۱/ ۲۵۲)
(۳؎منحۃ الخا لق علی ہا مش بحر الرا ئق کتا ب الصلو ۃ ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی ۱/ ۲۵۳)
(۱؎ حا شیہ الطحطا وی علی الد ر المختا ر کتا ب الصو م با ب ما یفسد الصو م الخ المکتبۃ العر بیۃ کو ئٹہ ۱/ ۴۶۰)
ثم ثمہ ظا ہر آخر غیر معا ر ض ھنا ک وھو اطلا ق الکر اھۃ فی النظم و شر ح النقا یۃ و حا شیۃ مرا قی الفلا ح و غا یۃ البیان وفتح المحقق حیث اطلق فا نھا کما عر ف فی محلہ اذا اطلقت کا نت ظا ہر ۃ فی التحر یم الا بصارف وقا ل سیدی العارف باللہ العلا مۃ عبد الغنی فی الحد یقۃ الند یۃ من آفا ت الید ما نصہ ۔ والکر ا ھۃ عند الشا فعیۃ اذا اطلقت تنصر ف الی التنزیھیۃ لا التحر یمیۃ بخلا ف مذھبنا ۲؎۔اھ
خامسا یہا ں ایک اور ظا ہر غیر معا ر ض بھی ہے کہ نظم ،حا شیہ مرا قی الفلا ح ،غا یۃ البیا ن اور فتح القد یر میں ہے کہ لفظ کر ا ہت مطلقا بو لا جا ئے تو کر اہت تحر یمی مرا د ہو گی ہاں کو ئی قر ینہ صا رفہ ہو تو اور با ت ہے اما م عبد الغنی نا بلسی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتا ب حد یقہ ند یہ با ب آ فا ت الید ین میں رقمطرا ز ہیں ”لفظ کرا ہت مطلق بولاجائے تو شوافع کے نزدیک کراہت تنزیہیہ پر محمو ل ہو گا اور ہما ر ے مذہب (احنا ف ) میں تحر یمی پر ۔”
(۲؎الحد یقۃ الند یۃ الصنف الخا مس من الا نصا ف التسعۃ فی بیان آ فا ت الید نو ریہ رضو یہ فیصل آبا د ۲/ ۴۴۰)
ثم فیہ اساءۃ ادب با لحضر ۃ الا لھیۃ کما یا تی فی الشما مۃ الثا لثۃ بعو ن اللہ تعا لی فیجب التحر ز عنہ ۔
سا دسا مسجد میں اذا ن دینے میں بار گا ہ الہی کی بے ادبی ہے جیسا کہ ہم ان شا ء اللہ تیسرے شما مہ میں بیا ن کریں گے تو اس سے پر ہیز ضر وری ہو ا ۔
ثم المعر و ف من عا دتہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم تر ک الفضیلۃ احیا نا بیا نا للجو ا ز و لم یو ثر قط اذا نا فی زمنہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم دا خل المسجد فبمجمو ع ھذا ینقد ح فی الذھن انہ یکر ہ تحر یما وا ن لم یقنع فلا اقل من ان الا مر دار بین کر ا ھتین مکر و ہ قطعا و یحتمل کرا ھۃ التحر یم فما سبیلہ الا التر ک عند العقل السلیم ثم ان شئت فد ع الاحتما ل واقنع با لا جما ل وقل ان الا ذا ن فی المسجد مکر وہ منھی عنہ فا ن ھذا القد ر لا مفر منہ و فی ھذا کفا یۃ لاولی الد را یۃ واللہ سبحنہ ولی الھد ا یۃ ۔
سا بعا حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کی عا دت کر یمہ یہ بھی کہ کبھی کبھی بیا ن جو ا ز کے لیے افضل کو بھی ترک کر دیتے تھے جبکہ زما نہ رسا لت میں کبھی بھی اذا ن کا مسجد کے اند ر ہو نا ثا بت نہیں تو یہ سب با تیں مل جل کر یہ ثا بت کر تی ہیں کہ مسجد کے اند راذا ن مکر وہ تحر یمی ہے اور جس کو اس سے تسلی نہ ہو تو کم از کم اتنا تو ہے کہ یہ مسئلہ کر ا ہت تحر یمیہ و کرا ہت تنزیہیہ میں دائر ہے تو ایک امر مشکو ک کو چھو ڑ دینا دانشمند ی ہے اور کم از کم اتنا تو ہے جس کے ما نے بغیر چا رہ نہیں کہ مسجد میں اذا ن مطلقا مکر وہ ہے اور اہل عقل کے لیے ممانعت کا اتنا حکم ہی کا فی ہے ۔
الشما مۃ الثا لثۃ من مسک القرا ن العظیم (قرا ن کر یم کے مشک سے تیسر ا شما مہ)
نفحہ ۱: اخر نا ھا الی ھنا لیکو ن ”ختا مہ مسک
و فی ذلک فلیتنا فس المتنا فسو ن ۱؎۔”
نفحہ ۱: ہم نے اس شما مہ کو یہا ں تک اسے لیے مؤ خر کیا کہ اس کو اختتا م مشک قرآ ن سے ہو تاکہ اس میں رغبت کر نے وا لوں کی رغبت میں اور اضا فہ ہو ۔
(۱؎ القرآن الکر یم ۸۳/ ۲۶و۲۷)
قا ل اللہ عز وجل : ٰیا یھا الذین امنو ا لا تر فعو ا اصو ا تکم فوق صو ت النبی ولا تجھر والہ با لقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعما لکم و انتم لا تشعر ونo ان الذین یغضو ن اصو اتھم عند رسو ل اللہ اولئک الذین امتحن اللہ قلو بھم للتقو ی لھم مغفر ۃ و اجر عظیم۱؎ اللہ تبا ر ک وتعا لی فر ما تا ہے اے ایما ن وا لو نبی مکر م صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کی آوا ز پر اپنی آوا ز ایسے بلندنہ کرو جیسا آپس میں ایک دوسر ے سے آوا ز بلند کر تے ہو کہیں تمھا رے اعما ل اکا ر ت نہ ہو جا ئیں اور تمھیں پتہ بھی نہ چلے جو لو گ رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے حضو ر اپنی آوا ز پست کر تے ہیں اللہ تعا لی نے ان کے دلو ں کو تقو ی کے لیے آزما لیا ہے ان لیے مغفر ت اور بڑا اجر ہے ۔
(۱؎القران الکریم ۴۹/ ۲و۳)
ارشدنا القرا ن الکر یم الی ادب حضر ۃ الر سا لۃ و انہ لا یجو ز رفع الصو ت فیھا و او عد علیہ الو عید الشد ید ان فیہ لخشیۃ حبط الا عما ل والعیا ذبا للہ تعا لی و ند ب الی غض الصو ت عند ہ وو عد علیہ الوعد الجمیل مغفر ۃ من اللہ و اجر عظیم ۔
اللہ تعا لی نے دربا ر مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ادب کی طر ف رہنما ئی کی کہ اس با رگا ہ میں بلند آوازی جا ئز نہیں اور ایسی شد ید وعید فر ما ئی کہ اس میں (معا ذ اللہ ) عمل ضا ئع ہو جا نے کا خطر ہ ہے اور وہاں پست آوازی پر اللہ تعالی کی مغفر ت اور اجر عظیم کا وعد ہ ہے۔
ولا شک ان لیس ذلک الا لھیبۃ المقا م و اجلا ل صا حبہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فالحضر ۃ الا لھیۃ احق و اعظم الم تسمع ربک عز وجل یقو ل وخشعت الا صو ا ت للر حمن فلا تسمع الا ھمسا ۱؎ وماالمصلی الا حضر ۃ العلی الا علی عزو علا وتبار ک و تعالی فلعمر ی لو یتذ کر النا س حین حضو ر ھم المسا جد قیا مھم بین یدی ربھم عز وجل یو م القیا مۃ واستحضر واعظمۃ المقام و تفطنوا این ھم و بین ید ی من ھم لخشعت الا صو ات للر حمن فلا یکا د یخر ج صو ت الا من اذن لہ الر حمن وقا ل صوا با کا لقا ری و الخطیب فکا ن الا صل فی المسا جد فیما لم یر د بہ الا ذا ن ان لا تسمع الا ھمسا ولذا اتت الا حا دیث (عہ) تنھی عن رفع الصو ت فیھا :
اور شبہہ نہیں کہ یہ اہتما م صا حب مقا م کی ہیبت و اجلا ل کے لیے ہے (صلی اللہ تعالی وسلم) تو دربار الہی جل جلالہ کا ادب و احترا م تو اس سے بد ر جہا اعلی و اہم ہے اللہ تعا لی کا یہ فر مان کس نے نہ سنا :”قیا مت کے دن در با ر الہی میں سار ی آوا یں سہمی ہو ں گی اور سرگو شی کے علا وہ کچھ بھی سن نہ سکو گے ۔”مسجد اللہ تبا رک و تعا لی کا دربا ر عالی ہے ،واللہ العظیم اگر آدمی مسجد کی حا ضر ی کے وقت قیا مت میں رب العا لمین کے حضو ر اپنا کھڑا ہو نا یاد کر ے اور مقا م کی عظمت یا د کر کے سو چے کہ کہا ں اور کس وا سطے کھڑا ہے تو اجا زت یا فتہ انسا نو ں کے علاوہ (یعنی قا ری اور خطیب)کسی کی آواز نہ نکلے پس اصل حکم یہی ہوا کہ مسجد میں اجا زت یا فتہ لو گو ں کے سو ا کسی کی سر گو شی کے علا وہ کچھ نہ سنا جا سکے اسی لیے احا دیث کر یمہ میں مسجد میں آوا ز بلند کر نے کی مما نعت آئی ۔
(۱؎القرا ن الکر یم ۲۰/ ۱۰۸)
عہ : وللبیھقی عن ابی ھر یر ۃ رضی اللہ عالی عنہ کا ن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یکر ہ العطسۃ الشد یدۃ فی المسجد ۱؎،وفی البحر الرا ئق وغیر ہ : قا لو ا و لا یجو ز ان تعمل فیہ الصنا ئع لا نہ مخلص للہ تعالی فلا یکو ن محلا لغیر العبا دۃ غیر انھم قالو ا فی الخیا ط اذا جلس فیہ مصلحتہ من دفع الصبیا ن و صیا نۃا لمسجد لا با س بہ للضر و رۃ ولا یدق الثو ب عند طیہ دقا عنیفا ۲؎انتھی وما ذا عسی ان یر تفع صوت الثو ب بضر ب الید علیہ عند طیہ یستو ی وقد نھو ا عنہ ۔ و کذلک من یعر ف الا دب ولا دین لمن لا ادب لہ نسا ل اللہ حسن التو فیق منہ عفی عنہ ۔
بیہقی میں حضرت ابو ہر یر ہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مسجد میں زور سے چھینکنے کو نا پسند جا نتے بحرالرا ئق وغیر ہ میں ہے کہ مشا ئخ نے کہا مسجد خا لص اللہ تعالی کی عبا دت کی جگہ ہے لہذا وہ غیر عبا دت کا محل نہ ہو گی سو ائے اس کے جو انھو ں نے درزی کے با رے میں کہا کہ جب وہ مسجد میں مصلحت کے لیے وہا ں بیٹھے یعنی مسجد کی حفا ظت اور بچو ں کو مسجد سے دور رکھنے کے لیے تو اس ضر ورت کے تحت اس کے لیے مسجد میں بیٹھ کر سلا ئی کر نے میں حر ج نہیں اور وہ کپڑو ں کو تہہ کر تے وقت انھیں سختی سے نہ جھا ڑے انتہی اور بسا اوقا ت کپڑو ں کو لپیٹتے وقت ان پر ہا تھ ما ر کر سید ھا کر تے ہو ئے آ وا ز پید ا ہو جا تی ہے جس سے انہیں منع کیا گیا ایسے ہی وہ شخص جو ا دب کو پہچا نتا ہے اور جو با ادب نہیں اس کا کو ئی دین نہیں ہم اللہ سے اچھی تو فیق کے طلبگار ہیں (ت)
(۱؎ شعب الا یما ن فصل فی خفض الصو ت با لعطا س حدیث ۹۳۵۶ دار الکتب العلمیہ بیر و ت ۷/ ۳۲)
(۲؎بحر ا ئق کتا ب الصلو ۃ فصل لما فر ض من بیا ن الکر ا ہیۃ فی الصلو ۃ ایچ ایم سعید کمپنی کر ا چی ۲/ ۳۵)
(۱) ابن ما جۃ عن وا ثلۃ رضی اللہ تعا لی عنہ قا ل قا ل رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جنبو ا مسا جدکم صبیا نکم و مجا نینکم و شر ا ءکم و بیعکم و خصو ما تکم و رفع اصوا تکم ۱؎
ابن ما جہ نے وا ثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالی عنہ سے روا یت کی حضو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فر ما یا ”اپنی مسجد و ں کو اپنے بچو ں ،پا گلو ں ،خر ید و فر و خت ،لڑا ئی جھگڑا اور بلند آوا زی سے محفو ظ رکھو ”
(۱؎سنن ابن ما جہ ابو ا ب المسا جد و الجما عا ت باب یکر ہ فی المسجد ایچ ایم سعید کمپنی کر اچی ص۵۵)
(۲) وابن عدی و الطبرا نی فی الکبیر و البیھقی و ابن عسا کر عن مکحو ل عن وا ثلۃ و ابی الد ردا ء و ابی اما مۃ رضی اللہ تعالی عنہم عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جنبو ا مسا جدکم صبیا نکم و مجانینکم وسل سیوفکم و اقامۃ حدودکم و رفع اصو ا تکم وخصو ما تکم ۲؎
ابن عد ی اور طبر ا نی نے معجم کبیر میں اور بیہقی و ابن عسا کر نے مکحو ل سے انہو ں نے وا ثلہ سے اور ابو الدردا اور ابو اما مہ رضی اللہ تعا لی عنہ سے روا یت کی ”اپنی مسجد و ں کو اپنے بچو ں ،پا گلو ں اور بے نیا م تلو ا روں ،حد یں قا ئم کرنے اور جھگڑنے سے محفو ظ رکھو ۔”
(۲؎کنز العما ل بحو ا لہ عد و طب و ق و کر عن مکحو ل عن وا ثلہ وابی الد ردا وابی اما مہ حدیث ۲۰۸۳۴ ۷/ ۶۷۰)
(تا ریخ دمشق الکبیر تر جمہ العلا ء بن کثیر ۵۵۸۸ دار احیا ء التر ا ث العر بی بیر وت ۵۰/ ۱۵۴)
( المعجم الکبیر حد یث ۷۶۰۱ المکتبۃ الفیصلیۃ بیر و ت ۸/۱۵۶)
(۳) عبد الر زا ق فی مصنفہ قا ل حد ثنا محمد بن مسلم عن عبد ر بہ بن عبد اللہ عن مکحو ل عن معا ذ رضی اللہ تعا لی عنہ قا ل قا ل رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جنبو امسا جد کم مجا نینکم و صبیانکم و رفع اصو تکم وسل سیوفکم وبیعکم و شر ا ئکم و اقا مۃ حد و د کم و خصو متکم ۳؎
(۳) عبد الر زا ق نے اپنے مصنف میں محمد ابن مسلم ،عبد ر بہ ابن عبد اللہ مکحو ل عن معا ذرضی اللہ تعالی عنہ عن رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی وسلم روا یت کی ”اپنی مسجد و ں کو اپنے پا گلو ں ،بچو ں اور آوا ز بلند کر نے ،تلو ا ریں بے نیا م کر نے بیع و شرا ء اور حد ود قا ئم کر نے اورجھگڑو ں سے محفو ظ رکھو ۔”
(۳؎المصنف لعبد الرزا ق حدیث۱۷۲۶ المکتبۃ الا سلا می بیر وت ۱/ ۴۲ – ۴۴۱)
(۴) والا ما م ابن المبا رک عن عبید اللہ بن ابی حفص یرفعہ الی النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم قا ل: من اجا ب دا عی اللہ و احسن عما رۃ مسا جد اللہ کا نت تحفتہ بذلک من اللہ الجنۃ قیل یا رسو ل اللہ ما احسن عما ر ۃ مسا جد اللہ قا ل لا یر فع فیھا صو ت و لا یتکلم فیھا با لر فث ۱؎
(۴) اما م عبد اللہ بن مبا ر ک رحمۃ اللہ علیہ نے عبید اللہ بن ابی حفص سے رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ و سلم تک سند پہنچا ئی کہ آپ نے فر ما یا کہ ”جس نے اللہ تعا لی کی طر ف بلا نے وا لے کی پکا رکا جو اب دیا اور مسجد کو اچھی طر ح آباد کیا تو بدلہ میں اس کا جنت کا تحفہ ملے گا لو گو ں نے پو چھا یا رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مسجد کو اچھی طر ح آبا د کر نا کس طر ح ہو تا ہے فر ما یا اس میں آواز بلند نہ کر و اور یا وہ گو ئی میں مبتلا نہ ہو ۔”
(۱؎کنز العما ل بحوا لہ ابن مبا رک عن عبید اللہ حدیث ۲۰۸۴۱ مؤ سسۃ الر سا لہ بیروت ۷/ ۶۷۱)
(۵) اما م مالک و البیھقی عن سا لم بن عبد اللہ ان عمر بن الخطا ب رضی اللہ تعالی عنہ بنی الی جا نب المسجد رحبۃ فسما ھا البطیحاء فکا ن یقو ل من اراد ان یلغط و ینشد شعر ا او یر فع صو تا فلیخر ج الی ھذا الر حبۃ ۲؎
(۵) اما م ما لک اور اما م بیہقی رحمہما اللہ سا لم ابن عبد اللہ سے روا یت کر تے ہیں ”حضر ت عمر بن الخطا ب رضی اللہ تعالی عنہ نے مسجد کے پہلو میں ایک کشا دہ جگہ نکا ل دی تھی جسے بطیحا ء کہا جا تا تو آپ فر ما تے جسے بیفا ئد ہ با ت کر نی ہو یا شعر پڑھنا ہو یا آوا ز بلند کر نی ہو تو اس احا طہ میں آجا ئے ۔”
(۲؎مؤ طا لا ما م مالک کتاب قصر الصلو ۃ فی السفر با ب جا مع الصلو ۃ میر محمد کتب خا نہ کر ا چی ص۱۶۲)
(۶) والامام ابن المبا ر ک وا برا ہیم بن سعد فی نسختہ عن سعید بن ابر اھیم عن ابیہ قا ل سمع عمر بن الخطا ب رضی اللہ تعالی عنہ صو ت رجل فی المسجد فقا ل اتد ری این انت اتد ری این انت کر ہ الصو ت ۱؎
(۶) اما م ابن مبا ر ک و ابر ا ہیم بن سعد نے اپنے نسخہ میں سعید بن ابر اہیم عن ابیہ روا یت کی ”حضر ت عمر فا رو ق رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک آدمی کی آوا ز مسجد میں سنی تو فر ما یا تجھے معلو م نہیں کہ تو کہا ں ہے تجھے معلو م نہیں کہ تو کہا ں ہے آپ نے آوا ز کو نا پسند کیا ۔”
(۱؎الزہد لا بن المبا رک با ب فضل المشی الی الصلو ۃ والجلوس فی المسجد دار الکتب العلمیہ بیر وت ص۱۳۷)
وقد تقبلھا ائمہ الا مۃ با لقبو ل حتی ان فقہائھا نصو ا علی کر ا ھۃ رفع الصو ت فی المسجد با لذکر الا للمتفقھۃ کما فی الدر المختا ر۲؎ وغیر ہ من معتمدات الا سفا ر فا ذا کا ن ھذا فی الذکر فما ظنک بما لیس بذکر خا لص کا لا ذا ن لاشتمالہ علی الحیعلین قا ل الا مام العینی فی البنا یۃ شر ح الھد ا یۃ فا ن قلت الا ذا ن ذکر فکیف یقو ل انہ شبہ الذکر و شبہ الشیئ غیر ہ قلت ھو لیس بذکر خا لص علی ما لا یخفی انما اطلق اسم الذکر علیہ با عتبا ر ان اکثر الفا ظہ ذکر۳؎اھ
اس حد یث کو ائمہ نے قبو ل کیا ۔اور فقہا ء نے یہا ں تک تصر یح فر ما ئی کہ مسجد میں بلند آوا ز سے ذکر کر نا بھی مکر و ہ ہے ہا ں اہل فقہ کی دینی بات چیت کا استثنا ء ہے ایسا ہی در مختا ر وغیر ہ کتب فقہ میں مر قو م ہے تو جب ذکر الہی کا یہ حا ل ہے تو اذا ن جو خا لص ذکر بھی نہیں کیو نکہ اس میں حیعلین تو نما ز کا بلا وا ہے اما م عینی نے بنا یہ شر ح ہدا یہ میں فر ما یا ”اگر یہ شبہ ہو کہ اذا ن تو ذکر ہے اس کو ذکر کے مشا بہ قرا ر دینا صحیح نہیں کیو نکہ مشبہ اور مشبہ بہ میں مغا یر ت ہو تی ہے تو جواب یہ ہے کہ اذا ن ذکر خا لص نہیں ہا ں اس کے بیشتر الفاظ ضرور ذکر ہیں اسی کا لحا ظ کر کے اس کو ذکر کہا جا تا ہے ۔”
(۲؎الد ر المختا ر کتا ب الصلو ۃ با ب ما یفسد الصلو ۃ مطبح مجتبا ئی دہلی ۱/ ۹۳)
(۳؎البنا یہ شر ح الہد ا یۃ کتا ب الصلو ۃ با ب الا ذا ن المکتبۃ الا مدا یۃ مکۃ المکر مۃ ۱/ ۵۵۷)
وفی البحر الرا ئق عن ا لمحیط تحت قو ل الکنز ”یستقبل بھما القبلۃ و یلتفت یمینا و شما لا با لصلا ۃ و الفلا ح لا نہ فی حا لۃ الذکر و الثنا ء علی اللہ تعا لی والشھا دۃ لہ بالوا حد ا نیۃ و لنبیہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم با لر سا لۃ فا لا حسن ان یکو ن مستقبلا فاما الصلو ۃ وا لفلا ح دعا ء الی الصلو ۃ و احسن الد ا عی با ن یکو ن مقبلا علی المد عو ین ۱؎”اھ
کنز کے قول ”کلمہ شہا دت کے وقت قبلہ کا استقبا ل اور صلا ۃ و فلا ح کے وقت دا ئیں با ئیں مڑیں ”کی تشر یح میں بحر الر ائق نے محیط سے نقل کیا ”اذا ن میں کلمہ شہا دتین حا لت ذکر ہے کہ اللہ تعا لی کی وحد انیت اور رسو ل کر یم صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کی رسا لت کی گو ا ہی ہے اور اس وقت استقبا ل قبلہ ہی منا سب ہے اور صلا ۃ و فلا ح میں نما ز کی طر ف بلا نا ہے ۔تو اس وقت یہی اچھا ہے کہ بلا نے والا بلا ئے ہو ؤں کی طر ف متو جہ ہو ”
(۱؎ بحر الر ا ئق کتا ب الصلو ۃ با ب الا ذا ن ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی ۱/ ۲۵۸)
وفی صلو ۃ المسعو دی رحمہ اللہ تعالی : ان فی الا ذا ن منا جا ۃ و منا دا ۃ المنا جا ۃ ذکر اللہ تعا لی والمنا دا ۃ ندا ء النا س وما دا م فی ذکر اللہ یستقبل القبلۃ و اذا بلغ المنا دا ۃ یحو ل وجہہ ثم قا ل الشیخ ابو القا سم الصفا رحمہ اللہ تعا لی الد عا ء الی الصلو ۃ منا دا ۃ و با قیہ ذکر اللہ تعا لی لکن ظا ہر الرا و یۃ ان الا ذا ن کلہ من اولہ الی اخر دعا ء الی الصلو ۃ ثم قا ل ظا ہر الر وا یۃ ان المو ذ ن اذا قا ل حی علی الصلو ۃ ،یقول المستمع لا حو ل ولا قو ۃ الا با للہ فا ذا قال حی علی الفلا ح ویقو ل المستمع”ما شا ء اللہ کا ن وما لم یشا لم یکن ”قا ل شیخ الا سلا م بر ھا ن الدین رحمہ اللہ تعالی ما کا ن العبد فی ذکر الرحمن یفر الشیطا ن فا ذا جا ء ند ا ء الخلق یعو د فا ذا قیل ”لا حو ل ولا قو ۃ الا با للہ ما شا اللہ کا ن ”یفر ۱؎انتہی ملتقطا متر جما ۔
صلو ۃ مسعو دی میں ہے کہ بیشک اذا ن منا جا ت بھی ہے اور بلا وہ بھی منا جا ت اللہ تعالی کا ذکر ہے جبکہ بلا وہ میں لو گو ں کو پکا رنا ہے ،مو من جب تک اللہ تعالی کے ذکر میں ہو تا ہے تو وہ قبلہ کی طر ف منہ کر تا ہے اور جب بلاوہ پر پہنچتا ہے تو اپنا چہر ہ گھما تا ہے پھر شیخ ابوا لقا سم صفار رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فر ما یا نما ز کی طر ف دعو ت دینا منا دا ت ہے اور با قی اللہ تعالی کا ذکر ہے لیکن ظا ہر الر وایہ یہ ہے کہ اذا ن اول سے آخر تک نما ز کی طرف دعو ت ہے پھر فر مایا ظا ہر الروا یہ یہ ہے کہ مو ذن جب ”حی علی الصلو ۃ ”کہے تو سننے والا ”لا حو ل ولا قو ۃ الا با للہ ”کہے اور جب مو ذن ”حی علی الفلا ح ”کہے تو سننے والا کہے ”ما شا ء اللہ کا ن وما لم یشا لم یکن ”شیخ الا سلا م بر ھا ن الد ین رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فر ما یا کہ بند ہ جب ذکر رحما ن میں مشغو ل ہو تا ہے تو شیطا ن بھا گ جا تا ہے پھر جب مخلو ق کو ندا کر تا ہے تو شیطا ن لو ٹ آتا ہے پھر جب کہا جا تا ہے ”لا حو ل ولا قو ۃ الا با للہ ما شا ء اللہ کان ”تو شیطا ن پھر بھا گ جا تا ہے انتہی التقاط متر جماً۔
(۱؎صلو ۃ المسعو دی با ب بست و یکم در بیان با نگ نماز در مطبع محمد ی بمبئی ۲/ ۹۰)
واذا کا ن ذلک کذلک ولم یرد فی الشر ع الا ذن با لا ذا ن فی المسجد کا ن دا خلا تحت النھی وھو المقصود ۔
پس جب صو رت حا ل یہ ہے اور شر یعت مقد سہ میں مسجد کے اند ر اذا ن دینے کا ثبو ت نہیں تو اذان مسجد ممنو ع ہو گی ہما را یہی کہنا ہے ۔
نفحہ ۲: نسمع ربنا تبا رک و تعالی یعا تب قو ما اذیقول عز من قا ئل ا ذا فر یق منھم یخشو ن النا س کخشیۃ اللہ او اشد خشیۃ ۲؎۔ وقا ل عز وجل فا للہ احق ان تخشو ہ ان کنتم مو منین ۳؎ولقد علم من غشی ابو ا ب السلطا ن انہ اذا کا ن قو م خارج الحضرۃ وامر الملک بدعائھم لم یکن للحجا ب ان ینادوھم فی الحضرۃ بل یخرجون فینادون و لو قاموا علی را س السلطا ن وجعلو ا یصیحو ن با لند اء لا سا ؤ ا الا دب واستجلبو ا الغضب و استحقو ا التا دیب ومن لم یر الملو ک فینظر قضاۃ بلادنا کفا رھم ومسلمو ھم اذا ا مر وا بند ا ء الخصو م او الشھو د لم تقد ر الاعو ا ن ان ینا د و ھم فی دا ر القضا ء بل یخرجو ن خر و جا فید عو ن وھذا مشہو د کل یو م ومن انکر کو نہ اسا ء ۃ ادب فلیجر ب علی نفسہ ولیقم بین ید ی حاکمھم المسمی عند ھم جج ۔ و یر فع صو تہ بیا فلا ن یا فلا ن لنا س خا رج المکا ن فسیر ی ما یبد ل البیان با لعیا ن وما ذلک الالا دب المقا م وخشیۃ الحکا م فا للہ احق ان تخشو ہ ان کنتم مو منین ۱؎کیف ان امثا ل الا مو ر البنیۃ علی الا جلا ل ۔المبنئۃ من الا دب انما تحا ل علی الشا ھد فیما لم یرد بہ النص ، والشاھدھھنا ما ذکر نا فو جب المصیر الیہ و کان نداء الغا ئبین قا ئما فی حضر ۃ المصلی اسا ئۃ ادب بالحضرۃ الا علی وقلۃ خشیۃ من اللہ تعا لی ۔
نفحہ ۲: اللہ تبا رک وتعالی ایک قو م کی حا لت بیان کر تا ہے ،”ایک گر وہ آدمیو ں سے خدا سے ڈر نے کی طر ح ڈرتا ہے بلکہ اس سے بھی زیا دہ خو ف کھا تا ہے۔”اللہ تعالی فر ما تا ہے :”حا لا نکہ مو منوں کو اللہ تعالی سے ہی سب سے زیادہ ڈرنا چاہیے اور جوآدمی بادشاہوں کے دربار میں حا ضر ی دیتا ہے خو ب جا نتا ہے کہ جب کو ئی شخص دربا ر کے با ہر رہتا ہے اور با دشا ہ اس کو بلا نے کا حکم دیتا ہے تو دربا ن دربار کے اند ر سے ہی اسے پکا ر نے نہیں لگتے بلکہ با ہر نکل کر آوا ز دیتے ہیں اگر یہ دربا ن با دشا ہ کے سر پر ہی کھڑے ہو کر چلا نے لگیں تو بے ادبی کے مر تکب ہو ں گے با دشا ہ کے غضب کے مستحق اور سزا کے مستو جب ہو ں گے ۔اور جو با دشا ہو ں کے در بار میں نہ جا سکا ہو تو وہ ہما رے علا قہ کے ججو ں کی کچہر ی میں حا ضر ہو جج مسلما ن ہو ں یا غیر مسلم وہ دیکھے گا کہ جج جب گواہوں یا مد عی ومد عا علیہ کو حا ضر کر نے کا حکم دیتے ہیں تو چپر اسی انہیں کچہر ی کے کمر ہ کے اند ر سے نہیں بلا تے بلکہ دروا زہ کے با ہر آکر پکا رتے ہیں یہ روز مرہ کا مشا ہدہ ہے اور جو اس کے بے ادبی ہو نے میں شبہ کر ے وہ خو د ہی اس کا تجر بہ کر ے کہ جج کے سا منے کھڑے ہو کر فلاں حاضر ہو فلاں حاضر ہو پکا رنے لگے تو ہما را بیان اس کے لیے مشا ہد ہ میں تبد یل ہو جا ئے گا توا س کا سبب کچہر ی کا ادب اور حکا م کا خو ف ہی ہے پس اے ایما ن والو ! اللہ تعالی سے تو اس سے زیا دہ ڈرناچا ہیے اور اس قسم کے امو ر تعظیم و اظہار ادب میں جہا ں کو ئی شر عی حکم منصو ص نہ ہو معا ملہ مشا ہدہ پر ہی مو قو ف ہو تا ہے اور مشا ہد ہ کا حا ل ہم بیان کر چکے تو اسی کی طر ف پلٹنا چا ہیے اور غا ئب مصلیو ں کو مصلی کے اند ر کھڑے ہو کر پکا رنے کو با ر گا ہ الو ہیت میں بے ادبی ہی تصو ر کرنا چا ہیے۔”
(۲؎القرا ن الکر یم ۴/ ۷۷)(۲؎القرا ن الکر یم ۹/ ۱۳)(۱؎القرا ن الکر یم ۹/ ۱۳)
اما ما قلنا من الاحا لۃ علی الشا ہد فشیئ یشھد بہ العقل السلیم والقلب الحا ضر و من تتبع وجد شوا ہد ہ کثیر ۃ فی کلام الا جلۃ الا کا بر من ذلک قول الا مام المحقق علی الا طلا ق فی فتح القد یر : الثا بت ھو و ضع الیمنی علی الیسر ی و کونہ تحت السرۃ او الصدر کما قا ل الشا فعی لم یثبت فیہ حد یث یوجب العمل فیحا ل علی المعھو د من و ضعھا حال قصد التعظیم فی القیا م و المعھو د فی الشا ھد منہ تحت السر ۃ ۱؎
ہم نے جو مسئلہ کو مشا ہد ہ پر محمو ل کر نے کی با ت کہی وہ عقل سلیم کے نزدیک مسلم ہے اور تتبع اور تلا ش سے بزرگو ں کے کلا م میں اس کی بہت سا ری نظریں مل سکتی ہیں چنا نچہ اما م محقق علی الا طلا ق فتح القد یر میں فرما تے ہیں ”حد یث شر یف سے اتنا ثا بت ہے ”(کہ قیا م کی حا لت میں) دایا ں ہا تھ با ئیں پر رکھا جا ئے یہ امر کہ وہ نا ف کے نیچے ہو یا سینہ کے نیچے ،جیسا کہ اما م شا فعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا مذہب ہے اس با ب میں ایسی کوئی حد یث نہیں جس پر عمل واجب ہو تو اس معا ملہ کو مشا ہد ہ پر محمو ل کر نا چا ہیے کہ حا لت تعظیم میں جہاں ہا تھ با ند ھنا معلو م و مشہو ر ہو وہی اختیا ر کیا جا ئے اور یہ زیر نا ف ہے ۔
(۱؎فتح القد یر کتا ب الصلو ۃ صفۃ الصلو ۃ مکتبہ نو ریہ رضو یہ سکھر ۱/ ۲۴۹)
ومن ذلک قو لہ ایضا و استحسنہ تلمیذہ المحقق ابن امیر الحا ج الحلبی جدا ما نصہ لا اری تحریر النغم فی الدعا ء کما یفعلہ القرا ء فی ھذا الز ما ن یصد رممن فھم معنی الدعا ء والسو ال وما ذلک الا نو ع لعب فا نہ لو قد ر فی الشا ھد سا ئل حا جۃ من ملک ادی سو الہ بتحریر النغم فیہ من الر فع و الخفض والتغریب والر جو ع کا لتغنی نسب البتۃ الی قصد السخریۃ واللعب اذ مقا م طلب الحا جۃ التضرع لا التغنی ۲؎
انہی نظیر وں میں سے حضر ت محقق کا یہ قو ل بھی ہے جس کی ان کی شا گر د ابن امیر الحا ج نے تحسین بھی کی ہے دعا میں گلے با زی (گا نا )کو میں جا ئز تصو ر نہیں کر تا جیسا کہ آ ج کل کے قا ری کر تے ہیں اور یہ فعل ایسے لوگوں سے بھی صا در ہو تا ہے جو سو ال اوردعا کے معنی سمجھتے ہیں حا لا نکہ یہ ایک قسم کا کھیل اور مذا ق ہے اگر مشا ہد ے کے اعتبار سے دیکھا جا ئے تو کو ئی سا ئل جو با دشا ہ سے اپنی حاجت کی در خو است کر رہا ہو اپنے سوال کو گو یو ں کی طر ح گا کر آوا ز کی بلند ی اور پستی گئکر ی اور آواز کی آرا ئش کے سا تھ ما نگے تو ایسے سا ئل کو کھیل اور مذا ق کی تہمت دی جا ئے گی کہ مقا م الحا ح و زاری کا ہے نہ کہ گا نے کا۔
(۲؎فتح القد یر کتا ب الصلو ۃ با ب الا ما مۃ مکتبہ نو ریہ رضو یہ سکھر ۱/ ۳۲۲)
قا ل فی الحلیۃ وقد اجا د رحمہ اللہ تعالی فیما اوضح و افا د۱؎ ،اھ
حلیہ میں اس کی تعر یف کر تے ہو ئے فر مایا گیا :حضر ت محقق نے بہت عمد ہ تو ضیح و افا دہ فر ما یا ۔
(۱؎حلیۃ المحلی شر ح منیۃ المصلی )
ومن ذلک اشیا ء فیہ وفی الحلیۃ و الغنیۃ وغیر ھا قلت ارشد الیہ حد یث ”استحیی اللہ استحیاء ک من رجلین من صا لح عشیر تک روا ہ ابن عد ی ۲؎عن ابی اما مۃ رضی اللہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔”
اس قسم کی بہت سی نظیر یں فتح القد یر حلیہ اور غنیہ وغیر ہ میں ہیں بلکہ میر اکہنا تو یہ ہے کہ خو د حد یث شریف میں اس طر ف رہنما ئی ہے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فر ما تے ہیں ”تم اللہ تعالی سے ایسے ہی شر م کر و جیسے اپنے خا ند ا ن کے دو نیک مردو ں سے شر م کر تے ہو ”اس حد یث کو ابن عد ی نے ابو اما مہ رضی اللہ تعا لی عنہ سے حضو ر سے روا یت کی ۔
(۲؎الکا مل لا بن عد ی تر جمہ جعفر بن الزبیر الشا می دارالفکر بیر وت ۲/ ۵۶۰)
وحدیث قو لہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ”اللہ احق ان یستحی منہ من النا س ۔”روا ہ احمد ۳؎و ابو داؤد والتر مذی والنسائی و ابن ما جۃ والحا کم عن معا ویۃ بن حید ۃ رضی اللہ تعالی عنہ ۔
اور حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا فر ما ن ہے ”اللہ تعالی کو اس کا زیا دہ حق ہے کہ آدمی اس سے انسا نو ں کی بہ نسبت زیا دہ شر م کر ے ۔”اس حد یث کو احمد و ابو داؤد اورتر مذی نے روایت کیا اور نسا ئی اور ابن ما جہ اور حا کم نے معا و یہ ابن حید ہ سے روا یت کیا ۔
(۳؎جا مع التر مذی کتا ب الا دب با ب ماجا ء فی حفظ العورۃ امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۰۱)
(سنن ابن ما جۃ کتاب النکا ح با ب التستر عند الجما ع ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی ص۱۳۹)
(سنن ابی داؤد کتا ب الحما م با ب فی التعر ی آفتا ب عالم پر یس لا ہو ر ۲/ ۲۰۱)
وحد یث” اذا صلی احد کم فلیلبس ثو بیہ فا ن اللہ احق من یزین لہ ”روا ہ الطبر ا نی ۱؎فی الا وسط والبیھقی عن ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم و قد او ضحہ ابن عمر اذکسا نا فعا ثو بین و ھو غلا م فد خل المسجد فو جد ہ یصلی متو شحا بہ فی ثو ب فقال ألیس لک ثو با ن تلبسھما ؟ارایت لو انی ارسلتک الی ورا ء الد ار لکنت لا بسھما ؟ قا ل نعم قا ل فا للہ احق ان تتزین لہ ام النا س فقا ل بل اللہ روا ہ عبد الر زا ق ۲؎عن نا فع ۔
اور یہ حدیث :”نماز پڑھو تو پورے لباس میں کہ اللہ کے لیے زینت و آرائش کا سب سے زیا دہ حق ہے ”اس حدیث کو امام طبرانی نے اوسط میں اور اما م بیہقی نے ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہم سے حضو راکر م صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روا یت کیا اور اس کی وضا حت حضر ت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے منقو ل ہو ئی کہ انہو ں نے اپنے غلا م نافع کو دو نو ں کپڑے پہنائے (یعنی مکمل جو ڑا دیا ) پھر انہیں مسجد کے اندر ایک ہی چادر میں لپٹا ہوا دیکھا تو فرمایا کیا تمھارے پا س پہننے کے لیے پو را جو ڑا نہیں ہے اگر میں تم کو گھر سے با ہر کسی کا م لے لیے بھیجتا تو مکمل جو ڑا پہن کر جا تے یا ایک چا در لپیٹ کر ؟حضر ت نا فع نے جو ا ب دیا ضرور پو را لباس پہنتا اس پر ابن عمر نے ارشا د فر ما یا کہ اللہ تعالی سے زیا دہ کو ن اس با ت کا مستحق ہے کہ اس کے لیے زینت کی جا ئے حضر ت نا فع کو اقرا ر کر نا پڑا کہ اللہ تعالی ۔ اسے عبد الر زا ق نے نا فع سے روایت کیا۔
(۱؎المعجم الا وسط حد یث ۹۳۶۴ مکتبۃ المعا ر ف الر یا ض ۱۰/ ۱۷۰)
(السنن الکبر ی کتا ب الصلو ۃ با ب ما یستحب للر جل ان یصلی فیہ من الثیا ب دا ئر ۃ المعا رف العثما نیہ دکن ۲/ ۲۳۶)
(۲ المصنف لعبد الرزاق کتا ب الصلو ۃ با ب ما یکفی الر جل من الثیا ب حدیث ۱۳۹۰ المکتب الاسلامی بیروت ۱/۳۵۸)
نفحہ ۳: قا ل المو لی تبا رک و تعالی
یا یھا الذین امنو ا لاتد خلو ا بیوتا غیر بیو تکم حتی تستا نسوا و تسلمو ا علی اھلھا ذلکم خیر لکم لعلکم تذکر و ن فا ن لم تجد و ا فیھا احد ا فلا تد خلو ھا حتی یوذن لکم۱؎ نفحہ۳ : اللہ تبا رک وتعالی فر ما تا ہے: اے ایما ن وا لو !دوسر ے کے گھر میں بے انس پید ا کئے اور گھر وا لو ں کو سلام کئے بغیر دا خل نہ ہو یہ تمھا رے لیے بہتر ہے تا کہ نصیحت حا صل کر و اگر کسی کو گھر میں نہ پا ؤ تو جب تک اجا زت نہ ملے گھر میں داخل نہ ہو ۔
(۱؎القر ا ن الکر یم ۲۴/ ۲۷،۲۸)
نہی اللہ سبحنہ عن دخو ل الا نسا ن فی بیت غیر ہ بغیر اذنہ (تسا نسو ا (عہ) تستاذنوا) والمسا جد بیو ت ربنا عزوجل اخرج الطبرا نی فی الکبیر عن ابن مسعو د رضی اللہ تعالی عنہ قا ل قا ل رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ان بیو ت اللہ فی الا رض المسا جد وان حقا علی اللہ تعالی ان یکر م من زا رہ فیہ ۱؎(وروا ہ ابو بکر بن شیبۃ عن امیر المو منین عمر رضی اللہ تعالی عنہ من قو لہ)
اللہ تبا رک و تعالی نے دو سر ے انسا نو ں کے گھر میں بے اذن وا نس داخلہ ممنو ع فر مایا اور مسجد یں اللہ رب العز ت جل و علا کے گھر ہیں ۔طبرا نی نے کبیر میں ابن مسعو د رضی اللہ تعالی عنہ سے روا یت کی کہ حضو ر نے فر ما یا ”روئے زمین پر مسجدیں اللہ تعالی کا گھر ہیں اور اللہ تعا لی نے اپنے ذمہ کر م پر لیا کہ اس میں زیا رت کو آنیو الو ں کی تکر یم فرما ئے گا ۔”ابو بکر ابن شیبہ نے اسکو حضر ت فا روق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کاقو ل بتا کر نقل کیا ۔
(۱؎کنز العما ل بحوالہ طب عن ابن مسعو د حد یث ۲۰۷۴۰ مؤسسۃ الر سا لہ بیر و ت ۷/ ۶۵۱)
عہ: فی الا یۃ امر ان الا ستیدذا ن والسلا م ،فا لا ستیذا ن فی المسا جد کما نبین ،اما السلا م فا قیم مقا مہ السلام علی حبیبہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فا نہ حا ضر دا ئما فی حضرتہ فا مر کل من ید خل مسجدا او یخر ج منہ ان یقو ل بسم اللہ و الحمد للہ والسلا م علی رسو ل اللہ ۲؎الی اخر الدعا ء الو ارد فی الا حا دیث صحیحۃ شھیر ۃ کثیر ۃ ۱۲ منہ۔
آیت کر یمہ میں دو امر ہیں: (۱) استیذا ن (۲) سلا م استیذان مسا جد میں ہو تا ہے جیسا کہ ہم بیا ن کر یں گے ۔ رہا سلا م تو نبی کر یم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر سلا م بھیجنا اسکے قا ئم مقام ہے اس لیے کہ آپ کی با رگا ہ میں حاضری دائمی ہے چنا نچہ مسجد میں داخل ہو نے وا لے یا مسجد سے نکلنے والے ہر شخص کو حکم ہے کہ وہ یو ں کہے ”بسم اللہ والحمد للہ والسلا م علی رسو ل اللہ ”آخر تک پو ری دعا پڑھے جومتعدد مشہو ر احا دیث صحیحہ میں وارد ہے ۱۲(ت)
(۲؎الکتا ب المصنف لا بن ابی شیبہ حدیث ۲۵۸۱۲ دارالکتب العلمیہ بیر و ت ۵/ ۲۵۶)
ورو ی الطبر ا نی فی الکبیر و الضیا ء فی المختا ر ۃ عن ابی قرصا فۃ رضی اللہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابنو االمسا جد و اخر جو القما مۃ منھا فمن بنی للہ مسجدا بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ ۲؎
اور اما م طبر انی نے کبیر میں اور ضیا ء نے مختا رہ میں ابو قر صا فہ رضی اللہ تعالی عنہ کے وا سطہ سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا قو ل نقل کیا :”مسجد یں بنا ؤ اور ان سے کو ڑے صا ف کر و تو جو خد ا کے لیے گھر بنا ئے اللہ تعالی نے اس کے لیے جنت میں گھر بنا دیا ۔”
(۲؎المعجم الکبیر حد یث ۲۵۲۱ المکتبۃ الفیصلیۃ بیر وت ۳/ ۱۹)
وعدم الاذن فی الد خو ل لشیئ کما یکو ن بر فع المقید کذلک بر فع القید فمن اذن لہ با لد خو ل لشیئ ودخل بغیر ہ فقد دخل بغیر الا ذن والیہ یشیر قولہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم من سمع رجلا ینشد ضا لۃ فی المسجد فلیقل لا ردھا اللہ علیک فا ن المسا جد لم تبن لھذا (رواہ احمد و مسلم۳؎ وابو داؤد و ابن ما جۃ عن ابی ھر یر ۃ رضی اللہ تعالی عنہ)
اور بے اجا زت دا خل ہو نے کی ایک صو ر ت یہ بھی ہے کہ اجا زت کسی اور کا م کی ہے اور داخل ہو نے والاکسی اور کام کی غر ض سے دا خل ہو ا اسی نکتہ کی طر ف حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں اشا رہ فرمایا :”جس نے کسی آدمی کو سنا کہ مسجد میں اپنی کھو ئی ہو ئی چیز تلا ش کر رہا ہے تو دعا کر ے کہ خد ا کر ے تو اسے نہ پا ئے کہ مسجد یں اس کا م کے لیے نہیں بنا ئی گئیں ”اما م احمد ،اما م مسلم ،اما م ابو داؤد ،ابن ما جہ نے اس حد یث کو حضر ت ابو ہر یر ہ رضی اللہ تعالی عنہ کے و اسطے سے روا یت کیا ۔
(۳؎صحیح مسلم کتا ب المسا جد با ب النہی عن نشد الضا لۃ فی المسجد قد یمی کتب خا نہ کر اچی ۱/ ۲۱۰)
(مسند اما م احمد بن حنبل عن ابی ہر یر ۃ رضی اللہ تعا لی عنہ المکتب الا سلا می بیر وت ۲/ ۴۲۰)
(سنن ابی داؤد کتاب الصلو ۃ با ب کر اہیۃ انشا د الضا لۃ فیہ آفتا ب عا لم پر یس لا ہو ر ۱ /۶۷)
(سنن ابن ما جہ ابو ا ب المسا جد و الجما عات با ب النہی عن انشا د الضوا ل فی المسجد ایچ ایم سعید کمپنی کر ا چی ص۵۶)
ھم جمیعا عن بر ید ۃ رضی اللہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لا وجد تہ لا وجد تہ لا وجد تہ انما بنیت ھذہ المسا جد لما بنیت لہ ۱؎
مذکو رہ با لا سبھی محد ثین نے حضر ت بر ید ہ رضی اللہ تعالی عنہ کے وا سطہ سے اس حدیث کو حضو ر اکر م صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے اس الفا ظ میں روا یت کیا :”تو اسے نہ پا ئے تو اسے نہ پا ئے تو اسے نہ پا ئے مسجد یں اس کا م کے لیے نہیں بنا ئی گئیں ،وہ تو جس کے لیے بنا ئی گئی ہیں بنا ئی گئی ہیں ۔”
(۱؎ مسند احمد بن حنبل حد یث بر ید ۃ الا سلمی المکتب الا سلا می بیر وت ۵/ ۳۶۰)
(صحیح مسلم کتاب المسا جد با ب النہی عن نشد الضا لۃ الخ قد یمی کتب خا نہ کرا چی ۱/ ۲۱۰)
(سنن ابن ما جہ ابو ا ب المسا جد و الجما عا ت با ب النہی عن انشا د الضا لہ الخ ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی ص۵۶)
ولعبد الر زا ق عن ابی بکر بن محمد انہ سمع رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رجلا ینشد ضا لۃ فی المسجد فقا ل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایھا النا شد غیر ک الوا جد لیس لھذا بنیت المسا جد ۲؎
عبد الرزا ق نے ابی بکر ابن محمد سے روایت کی :”رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نے ایک شخص کو مسجد میں کھو ئی ہو ئی چیز تلا ش کر تے سنا تو فر ما یا اے تلا ش کر نیو ا لے ! پا نےوالا تیر ے علا وہ ہو مسجد یں اس کا م کے لیے نہیں ہیں۔”
(۲؎المصنف لعبد الر زا ق حد یث ۱۷۲۲ المکتب الا سلامی بیر و ت ۱/۴۴۰ )
والاحا دیث فی البا ب کثیر ۃ و ھو بعمو مہ یشمل من ینشد مصحفا لیتلو ہ بل ومن ینشد اما نۃ ضلت عنہ مع ان انشادھا وا جب علیہ ”ان اللہ یا مر کم ان تؤدوا الا ما نا ت الی اھلہا ۔۱؎”
اس مو ضوع پر حد یثیں بہت ہیں اور یہ اس صو ر ت کو بھی شا مل ہے کہ تلا و ت کے لیے مصحف شریف کو ڈھونڈے یا کسی کی اما نت جو اس کے پا س تھی کھو جا نے پر مسجد میں تلا ش کر ے حا لا نکہ ایسی چیز کا تلا ش کر نا وا جب ہے ارشا د الہی ہے :”اللہ تعالی تمھیں حکم دیتا ہے کہ اما نت وا لو ں کی اما نت واپس کر دو ”
(۱؎القرا ن الکر یم ۴/ ۵۸)
فا لا نشاد مقد مۃ الو جد ان والو جد ان مقد مۃ الا دا ء والا د اء وا جب ، مقد مۃ الو ا جب وا جب ،وکذلک عمم الفقھا ء فقالو ا کرہ انشا د ضا لۃ ،ولم یستثنو ا منہ فصلا و ذلک ان اتیا ن الو اجب ان کا ن من اعما ل الا خر ۃ فما لکل عمل الاخر ۃ بنیت المسا جد انما بنیت لما بنیت لہ احمد و مسلم عن انس رضی اللہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم :”ان ھذہ المسا جد لا تصلح لشیئ من القذر والبو ل و الخلا ء وا نما ھی لقر ائۃ القرا ن و ذکر اللہ والصلو ۃ ۲؎”
تلا ش پا نے کا مقد مہ ہے اور پا نا دینے کا ذریعہ ،اور جو واجب کا ذریعہ ہو وہ خو د وا جب ہے فقہاءنے اس عمو م میں ہر گمشد ہ چیز کی تلا ش کو دا خل کیا اور کسی خا ص گمشد ہ کا استثنا نہیں کیا اس کا رمزیہ ہے کہ وا جب کی ادائیگی ہر چند کہ عمل آخر ت ہے پر سبھی عمل آخر ت کے لیے مسجد نہیں بنا ئی گئی ۔حضر ا ت اما م احمد و مسلم حضر ت انس رضی اللہ تعالی عنہ اور وہ رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے رو ایت کر تے ہیں :”یہ مسجدیں گند گی پیشا ب و پا خا نہ کے لیے نہیں یہ تو صر ف تلا وت قرا ن ذکر الہی اور نما ز کے لیے ہیں ۔”
(۲؎مسند الاما م احمد بن حنبل عن انس بن ما لک المکتب الا سلا می بیر و ت ۳/ ۱۹۱)
(صحیح مسلم کتاب الطہا رۃ با ب وجو ب غسل البو ل الخ قد یمی کتب خا نہ کرا چی ۱/ ۱۳۸)
وللبخا ر ی وابن ما جۃ عن ابی ھر یر ۃ رضی اللہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم انما بنی لذکر اللہ والصلوۃ ۳؎
بخا ری و ابن ما جہ حضر ت ابو ہر یر ہ اور وہ رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی وسلم سے روا یت کر تے ہیں :”یہ (مسا جد)تو نما ز اور ذکر الہی کے لیے ہی بنا ئی گئی ہیں۔”
(۳؎کنز العما ل بحو الہ خ عن ابی ہر یر ہ حد یث ۲۰۷۹۵ مؤسسۃ الر سا لۃ بیر و ت ۷/ ۲۶۲)
ولا حمد فی الز ھد عن ابی ضمر ۃ عن ابی بکر الصد یق رضی اللہ تعا لی عنہ انما بنیت للذکر ۴۔
اما م احمد نے کتا ب الزہد میں حضر ت ابو ضمر ہ عن ابی بکر الصد یق رضی اللہ تعالی عنہ صر ف ذکر کا ہی ذکر کیا ۔
(۴؎کتا ب الزہد (اما م احمد بن حنبل ) زہد ا بی بکر حد یث ۵۸۹ دار الکتاب العر بی بیر و ت ۳/ ۲۵۸)
وفی مسند الفر دوس عن ابی ھر یر ۃ رضی اللہ تعالی عنہ قا ل قال رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کل کلا م فی المسجد لغو الا القرا ن و ذکر اللہ تعالی و مسا لۃ عن الخیر او اعطا ؤہ ۱؎
مسند الفر دو س میں بر وا یت ابو ہر یر ہ مر وی ہے حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نے فر ما یا :”مسجد کے اندر تلاوت کلا م اللہ ،ذکر الہی اور بھلا ئی سے سو ال اور اس کو دینے کے علا وہ ہر با ت لغو ہے ۔”
(۱؎ الفردوس بماثور الخطاب حدیث ۴۷۶۴ دار الکتب العلمیہ بیر و ت ۳/ ۲۵۸)
وقد علمت ان لیس الا ذان خا لص ذکر و لو کا ن المسجد یبنی لہ لاتی الشر ع با یقا عہ فیہ و لنقل و لو مر ۃ و کیف یعقل ان شیئا بنی لہ المسجد لا یفعل فیہ قط علی عھد رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم والخلفا ء الر ا شدین رضی اللہ تعالی عنہم فیقا ل فیہ ایضا ان المسا جد لم تبن لھذا کیف والا ذا ن للد عا ء الی الحضر ۃ والحضر ۃ لا تبنی لند ا ء النا س الیھا وفیھا، واللہ المو فق فھذا ما ظہر للعبد الضعیف من الکلا م المجید و الحد یث الحمید و الفقہ السد ید و حلہ کما تری وا ضح بلا امترا ء و ان کا ن اخر ہ من قبیل المتا بعا ت و الشو ا ھد ولکن کلہ لمن تحلی با لا نصا ف ھیھا ت لما یقنع المکا بر ویقمع الاعتسا ف و نسا ل اللہ العفو و العا فیۃ و الر حمۃ الکا فیۃ والنعمۃ الوا فیۃ و العیشۃالصا فیۃ ،والحمد للہ رب العلمین وصلی اللہ تعا لی و با ر ک وسلم علی سید نا محمد و الہ و ابنہ و حزبہ اجمعین ۔
یہ پہلے ہی معلو م ہو چکا ہے کہ اذا ن خا لص ذکر الہی نہیں اگر مسجد اس کے لیے بنی ہو تی تو شر ع شر یف مسجد کے اند ر اذا ن کا حکم فر ماتی اور اس پر عمل درآمد ایک با ر ہی سہی مر وی ضرور ہو تا بھلا یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ جس کا م کے لیے مسجد کی تعمیر ہو ئی وہی مسجد میں کبھی نہ ہوا ،نہ تو حضو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عہد میں نہ خلفا ئے را شد ین کے عہد میں تو یہی کہا جا ئیگا کہ مسجد اس کے لیے بنا ئی ہی نہیں گئی اور ایسا ہو تا بھی کیسے یہ تو در با ر الہی کی حا ضر ی کا اعلا ن ہے اور در با ر اعلا ن کے لیے نہیں ہو تا اعلا ن تو در با ر کے با ہر ہو تا ہے اللہ تعالی تو فیق دینے والا ہے اس ضعیف بند ے پر کلا م مجید حد یث مقد س اور فقہ مبا رک سے یہی ظا ہر ہو ا با تیں سب کی سب ظا ہر ہیں اگر چہ اخیر میں ہم نے شو ا ہد اور متا بعا ت سے کا م لیا لیکن یہ سب بھی اہل انصا ف کے نز دیک قطع مکا بر ہ اور دفع زیا دتی کے لیے کا فی ہے میں اللہ تعالی سے عفو و عا فیت رحمت کا ملہ اور نعمت متکا ثر ہ اور عیش صا فیہ کا طا لب ہو ں اللہ تعالی کے لیے ہی حمد ہے اور ہما رے سردا ر محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور ان کے آل و اصحا ب اور ان کے گر وہ سب پر درو د سلا م ہو ۔
الشما مۃ الر ابعۃ من عو د احرا ق الخلا ف
(اختلا ف کو خا کستر کر دینے والے عو د و عنبر کا چو تھا شما مہ )
الحمد للہ وکفی وسلا م علی عبا دہ الذین اصطفی لیعلم سا دتنا و اخو تنا اھل الحق و الھد ی حفظنا اللہ تعالی و ایا ھم عن الر دی ان الو ھا بیۃ العنو د ومن تبعھم من طلبۃ الھنو د بذلو ا جھد ھم لیخر جو ا حد یثا صحیحا او نصا فی الفقہ صریحا یفید ان السنۃ فی ھذا الا ذا ن کو نہ فی جو ف المسجد متصلا با لمبنر کما تعو د ہ ھھنا فلم یقد روا وما کا ن اللہ لیر فع با طل را سا فجعلو ا یتشبثو ن بکل حشیش فخمسۃ اتفقو ا علی الا حتجا ج بھا :
حمد اللہ تعالی کے لیے ہی خا ص ہے اور وہی ہما رے لیے کا فی ہے اور اس کے بر گزید ہ بند و ں پر سلا م و رحمت ہو حق و ہد ایت وا لے بزرگو ں اور بھا ئیو ں کو معلو م ہو اللہ تعا لی ان کی حفا ظت فر ما ئے کہ معا ند و ہا بیہ اور انکی پیروی کرتے ہوئے ابھرتے طلبہ سب کو اس امر نے تھکا دیا کہ ایک صحیح حد یث یا فقہ کی کو ئی نص صر یح پیش کریں جو اذا ن کے مسجد کے اندر منبر سے متصل ہو نے کا افا دہ کرے جیساکہ آج کل رواج پڑگیا ہے مگر وہ اس پر قادر نہ ہو سکے اور اللہ تعالی با طل کو سر بلند ی عطا نہیں کر تا ۔پس وہ تنکو ں کا سہا را لینے لگے ان میں پا نچ با تو ں میں تو سب متفق ہیں بقیہ کچھ لو گو ں نے انفرا دی بحثیں بھی کی ہیں یہ بند ہ ضعیف پہلے تو پا نچو ں متفقہ دلا ئل کا ذکر فر داً فر داً اس کا رد کر دے گا پھر انفرا دی لچر اور پو چ دلا ئل کی بھی خبر گیر ی کر یگا پہلی پا نچ با تیں یہ ہیں۔
(۱) نصو صھم ان ھذا الا ذا ن بین ید ی الخطیب ۔ (۱) اذا ن جمعہ کے لیے تما م فقہا ء نے بین ید یہ (خطیب کے سا منے )کا لفظ استعما ل کیا ہے جس ظا ہر ہے کہ یہ اذ ا ن مسجد کے اند ر منبر سے متصل ہو نا چا ہیے ۔
(۲) وتعبیر بعضھم فی مسئلۃ ان ایجا ب السعی با لا ذا ن الاول او الثانی ھذا ا لا ذا ن با لذی عند المنبر ۔
(۲) اس مسئلہ کو بیان کر تے ہو کہ جس اذان کو سن کر جمعہ کے لیے مسجد کی طر ف جا نا وا جب ہو جا تا ہے وہ اذان اول ہے یا ثا نی ۔بعض فقہا ئے یو ں تعبیر کی یہ وہی اذا ن ہے جو عند المنبر (منبر کے پا س) ہو تی ہے ۔
(۳) وبعضھم با لذی علی المنبر ۔ (۳) اور بعض فقہا ء نے علی المنبر (منبر کے اوپر )فر ما یا جو پا س سے بھی زا ئد قر یب پر دلا لت کر تا ہے ۔
(۴) وزعمو ا ان کو نہ دا خل المسجد ملا صق المنبر ھو التو ا رث فمن احتر س لنفسہ یجمل و یقول من القدیم والذی تجرأ یقول من لدن رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم و خلفا ئہ الر ا شد ین رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین ۔
(۴) معاند ین کا یہ گما ن فا سد ہے کہ اس اذا ن کا مسجد کے اندر منبر سے متصل ہو نا متو ا رث ہے (یعنی خلفاً عن سلف ایسا ہی ہو تا چلا آیا ہے ) توا رث کے بیان میں جس نے احتیا ط سے کا م لیا تو اتنا کہہ کر رہ گیا کہ قد یم سے ایسا ہو تا آیا ہے اور جو جر أت بے جا کر تا وہ کہتا ہے کہ حضو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے زما نہ اور خلفائے راشدین کے عہد مبا ر ک سے ایسا ہی ہو تا ہے ۔
(۵) وزعمو ان علیہ التعا مل فی جمیع البلدا ن واجمع علیہ جمیع اھل الا سلا م وتفر د بعضھم من بعض بشبھا ت اخری ذا ت عجر و بجر والعبد الضعیف بتو فیق الملک اللطیف عز جلا لہ یر ید ان یمر علیھا طردا طر دا و یبین عو ا رھا فر د ا فر دا فلنبتدی با لا ول ثم نتبعھا البا قی الا ذل وما تو فیقی الا با للہ علیہ تو کلت والیہ انیب ۔
(۵) ان سب کا کہنا ہےکہ تما م مما لک میں اسی پر عملدرآمد ہے اور تما م اہل اسلا م کا اس پر اجما ع ہے ۔
اب میں ان پا نچ متفقہ با تو ں کا تفصیلی رد اور بعد میں متفر قا ت سے بھی تعر ض کر وں گا اللہ تعالی سے ہی میر ی تو فیق ہے اسی پر میر ا بھر و سا ہے اور اسی کی طر ف میر ا رجو ع ہے ۔
نفحہ ۱ : قد بینا با لحد یث و الفقہ ان السنۃ فی ھذا ا لا ذا ن کو نہ بین ید ی الخطیب اذا جلس علی المنبر و لکن لیس فی الفظۃ بین ید یہ ما یقرّأ عینھم ولا ما یمیل الیہ انما مفا دھا ان یکو ن بحذا ء المنبر قبا لۃ وجہ الخطیب من دون حائل یحجبہ عنہ وھذا یشمل دا خل المسجد و خا رجہ الی حیث تبقی المحا ذا ۃ والمشا ھد ۃ لیس فی مفا د اللفظ اکثر من ھذا غیر ان الفقہ دلنا علی ان الا ذا ن لا یکو ن فی جو ف المسجد ولا بعید ا منہ بحیث لا یعد الند ا ء ثمہ ندا ء الی ھذا المسجد بل فی حد ود ہ و فنا ئہ و ارشد نا الحد یث فتعین ھذا محلا لہ ولنکشف الستر عن وجہ التحقیق فی مفا د ھذا اللفظ ۔
نفحہ ۱ : ہم احا دیث و فقہ سے یہ ثا بت کر آئے ہیں کہ جب اما م منبر پر بیٹھے تو اس اذا ن کا خطیب کے سا منے ہو نا مسنو ن ہے لیکن ”سا منے”کے لفظ میں مخا لفین کی آنکھ ٹھنڈ ی کر نے وا لی کو ئی با ت نہیں بلکہ اس کا مفا د صر ف اتنا ہے کہ منبر کے سامنے خطیب کے چہر ے کے مقا بل ہو بیچ میں کو ئی حا ئل نہ ہو جو روئے خطیب کا آڑ بنے یہ با ت مسجد کے اندر اور با ہر دونو ں ہی صو رتو ں کو شا مل ہے اس حد تک کہ مشا ہد ہ اور مقا بلہ با قی رہے اصل لفظ بین ید یہ (سا منے )کا مفا د اس کے سو ا نہیں البتہ فقہ نے ہم کو بتا یا کہ اذا ن مسجد کے اند ر نہ ہو نی چاہیے بلکہ مسجد سے اتنی دور ہو نی چا ہیے کہ مسجد میں نہ شمار کی جا ئے بلکہ مسجد کے حد ود اور اس کی فناء میں ہو احا دیث مبا رکہ نے بھی اسی کی طر ف رہنما ئی کی ہے جس سے اس مقا م کی تعیین ہو تی ہے ۔
فاقو ل : و با للہ التو فیق ۔اللفظ مر کب و معنا ہ الحقیقی بحسب اجزا ئہ التر کیبیۃ وقو ع الشیئ فی الفضا ء المحصو ر بین ھذین العضو ین من المضا ف سوا ء کا ن اما مہ او خلفہ اولا ولا والفضا ء محققا او متخیلا فا نک اذا ارسلت ید یک فلیس بینھما الا جنبا ک و فخذا ک و او ان بستطھما قبالۃ وجہک او وراء ظہر ک فکل ما وقع فی الفضا ء المحصور بھما فھو بین ید یک وھو اما مک فی الا و ل وخلقک فی الثا نی ولیس اما مک ولا خلفلک فی صو ر ۃ الا رسا ل ۔
اب میں اس لفظ کی تحقیق کرتا ہو ں لفظ ”بین ید یہ ”دو حر فو ں سے مر کب ان اجزا ئے تر کیبیہ کے اعتبا ر سے اس لفظ کے معنی حقیقی یہ ہو ئے کہ ”آدمی کے دو نو ں ہا تھ کے در میا ن جو فضا ہے ”چا ہے وہ آدمی کے آگے کی فضا ہو چا ہے پیچھے کی کیو نکہ دو نو ں ہا تھو ں کو کھلا چھو ڑ دیا جا ئے تو ان کے بیچ میں آدمی کے دو نو ں پہلو اور دو نو ں را نیں ہو تی ہیں اور نہیں دونو ں کو جب منہ کے آگے یا پشت کے پیچھے درا ز کیا جا ئے تو پہلی صورت میں آگے کی جا نب دونو ں ہا تھ کے بیچ کی فضا اور دوسر ی صو ر ت میں پیچھے کی جا نب کی اتنی فضا ء ”بین دی یہ ”ہے اور دونو ں ہا تھ لٹکا نے کی صورت میں آگے پیچھے کا سو ا ل ہی نہیں۔
وا نت تعلم ان ھذا المعنی لا مسا غ لہ ھنا بل الا مر ان المر کب ربما لا یلا حظ الی معا نی اجزا ئہ التفصیلیۃ و یصیر باجمالہ دا لا علی معنی اخر لغۃ او عر فا فھو و ان کا ن مجا زا لہ با لنظر الی مفصلہ یکو ن حقیقتا لغو یۃ او عر فیۃفیہ باعتبا ر اجما لہ و ذلک فی لفظنا ھذا معنی الا ما م والقد ام اما مطلقا من دو ن تخصیص با لقر ب او مع لحا ظہ و حینئذ یفسر با لحا ضر المشا ھد لا ن شر ط الرؤیۃ العا دیۃ القرب و المقا بلۃ فکل مر ئی حین ھو مر ئی محا ذقر یب ۔
لفظ ”بین ید یہ ”کے معنی ترکیبی حقیقی تو یہی ہیں لیکن یہ یہا ں مراد نہیں ہو سکتے اور معنی حقیقی تفصیلی چھوڑ کر دوسر ے معنی اجما لی مراد ہو تے ہیں یہ اطلا ق کبھی لغو ی ہو تا ہے اور کبھی عر فی اپنے معنی تفصیلی کے لحاظ سے یہ دوسر ے معا نی اگر چہ مجا ز ی قرا ر دئے جا ئیں لیکن استعما ل کے لحا ظ سے حقیقی ہو تے ہیں لفظ بین ید یہ کا بھی یہی حا ل ہے کہ وہ سا منے اور مقا بل کے معنی میں طے ہو گیا ہے قر ب کے معنی سے قطع نظر میں طے ہو گیا ہے قر ب کے معنی سے قطع نظر کر کے یا اس کا لحا ظ کر تے ہو ئے اور اس وقت میں اس لفظ کی تفسیر لحا ظ کر تے ہو ئے اور اس وقت میں اس لفظ کی تفسیر حا ضر اور مشا ہد سے کی جا تی ہے کیو نکہ رؤیت عادیہ کے لیے قر ب و مقا بلہ شر ط ہے جو مر ئی ہے دیکھنے کے وقت قر یب بھی ہے اور مقا بل بھی ہے ۔
وھذا منتھی مفا د اللفظ فی نفسہ و اختلا ف حدود القر ب تنشؤ من خصو صیا ت المقا م لا نہ امر اضا فی مشکلک متفا و ت غا یۃ التفا و ت فیلا حظ لکل مقا م ما یستد عی وھی دلا لۃ عقلیۃ من الخا ر ج لا من اللفظ ثم تو سع فیہ علی الوجھین و استعیر ظر ف المکا ن للزما ن فا رید بہ الما ضی اما مطلقا او قر یب لا ن جھۃ المضی جھۃ الظھو ر کا لا ما م او المستقبل کذلک لا ن کل آت قر یب و انت منو جہ الی القا بل فکا نہ لک مقا بل وعلی ھذین الوجھین و رد فی القرا ن العظیم و المحاورات وبھما فسر تہ ائمۃ اللغۃ والتفسیر الا ثبا ت ووجد ت اللفظۃ فی القرا ن الکر یم فی ثما ن و ثلثین موضعا فی عشر ین منھا لادلا لۃ علی القر ب وفی وا ھد جا ء علی حقیقۃ اجزا ئہ التر کیبیۃ و فی سبعۃ عشر فید القر ب علی تفا وت عظیم فیہ من الا تصا ل الحقیقی الی فصل مسیر ۃ خمسما ئۃ سنۃ جعلناما لا دلا لۃ فیہ علی القر ب فر یقا والبو ا قی فر یقا :
لفظ”بین یک یہ ”کا اصلی مفا د یہی ہے البتہ قر ب چو نکہ ایک امر اضا فی حد در جہ متفا و ت المعنی کلی مشکک ہے اس لیے اس کے مختلف در جا ت میں سے کسی ایک کی تعییب مقا م کی خصو صیت کے لحا ظ سے ہو گی اور قر ب و بعد کے مختلف مر ا تب پر دلا لت لفظ کے تقا ضا سے نہیں عقل کے تقا ضا سے ہے پھر اصل میں تو یہ لفظ ظر ف مکا ن کے لیے تھا لیکن بعد میں ظر ف زما ن کے لیے مستعمل ہو نے لگا یا تو مطلقا زما نہ ما ضی یا ما ضی قریب کے لیے کیو نکہ ما ضی حضو ر کے قر یب ہے اور اسی طر ح مستقبل میں بھی کہ آنے وا لا زما نہ بھی مقا بل اور متو جہ ہے قرا ن عظیم اور مھا ورا ت عر ب میں لفظ ”بین یدیہ ”ا ن دونو ں معنی میں وارد ہو ا مفسر ین نے اسی معنی سے اسکی تفسیر کی میں تتبع اور تلا ش سے قرا ن پا ک میں ۳۸جگہ یہ لفظ پا یا جن میں بیس مقا ما ت پر قر ب پر کو ئی دلا لت نہیں اور ایک مقا م پر معنی تر کیبی حقیقی کے لیے ہے اور ستر ہ مقا ما ت پر قر ب کے لیے ۔مگر اس قرب میں بھی تفا وت عظیم ہے کہ اتصا ل حقیقی سے پا نچ سو بر س کی را ہ کی دوری تک پر قر ب کا اطلا ق ہو اہے ہم نے ان سب آیتو ں کو دو قسمو ں پر تقسیم کیا ہے :
فمن الا ول (۱) قو ل ربنا عز و جل فی سو رۃ البقر ۃ ۱؎(۲) فی طٰہٰ۲؎(۳) فی الا نبیاء۳؎(۴) فی الحج
”یعلم ما بین اید یھم وما خلفھم ‘۴؎
(۵) فی مر یم ”لہ ما بین اید ینا وما خلفنا وما بین ذلک ”۵؎۔
فعلم اللہ تعالی وملکہ لا یمکن اختصا صہ بقر یب او بعید سو ا ء اخذا الظر ف مکا نیا او زما نیا او لو حظ معنی عا م کما ھو الا نسب با لمقا م الا فخم (۶) فی سو ر ۃ البقر ۃ فا نہ نزلہ علی قلبک با ذ ن اللہ مصد قا لما بین ید یہ ۶؎ قسم اول :(۱) سور ۃ بقر ہ(۲) سو ر ہ طہ(۳) سو ر ہ انبیاء(۴) سو ر ہ حج،ان سب سو ر تو ں میں آیا ت کے ا لفاظ یکسا ں ہیں ”یعلم ما بین اید یھم وما خلفھم ”ان کے پس و پیش کا اسے علم ہے۔(۵) سو ر ہ مر یم شر یف کی آیت لہ ما بین اید ینا وما خلفنا وما بین ذلک ۔اللہ تعالی ہی کے لیے ہے ہما رے پس و پیش اور اس کے در میا ن کی حکو مت ۔ظا ہر ہے کہ اللہ تعالی کی حکو مت اور اس کا علم قر یب یا بعید کے سا تھ خاص نہیں ۔(۶) سو ر ہ بقر ۃ میں فانہ نزلہ علی قلبک مصد قا لما بین ید یہ اللہ پا ک نے قر ان عظیم کو آپ کے قلب پر اتا را جو اپنے سے پہلے کی تصد یق کر تا ہے ۔
(۱؎القر ا ن الکر یم ۲ /۲۵۵) (۲؎القر ا ن الکر یم ۲۰/ ۱۱۰) (۳؎القرا ن الکر یم ۲۱ /۲۸)
(۴؎القر ا ن الکر یم ۲۲ /۷۶) (۵؎القر ا ن الکر یم ۱۹ /۶۴) (۶؎القر ا ن الکر یم ۲/ ۹۷)
(۷)فی آل عمران : نز ل علیک الکتا ب با لحق مصد قا لما بین ید یہ۷؎۔ (۷) آل عمر ا ن میں نز ل علیک الکتا ب با لحق مصد قا لما بین ید یہ آ پ پر کتا ب اتا ری حق کے سا تھ جو گز رے ہوئے کی تصدیق کر تی ہے ۔
(۷؎القر ا ن الکر یم ۳ /۳)
(۸) فی سو ر ۃ الا نعا م : ”وھذا کتاب انز لنا ہ مبا ر ک مصد ق الذی بین ید یہ ۸؎”۔ (۸) سور ہ انعا م میں : ”ہم نے اس مبا ر ک کتا ب کو اتا را جو گزر ے ہو ئے کی تصد یق کر تی ہے ۔”
(۸؎القر ا ن الکر یم۶/۹۲)
(۹) فی یو نس : ”وما کا ن ھذا القر ا ن ان یفتری من دو ن اللہ ولکن تصد یق الذی بین ید یہ ۱؎” (۹) سو ر ہ یو نس میں ”یہ قرا ن غیر خدا کی طر ف سے افترا ء نہیں ہے یہ تو گزر ے ہو ئے کی تصد یق ہے ”
(۱؎القرا ن الکر یم ۱۰ /۳۷)
(۱۰) فی یوسف : ”ما کا ن حد یثا یفتر ی ولکن تصدیق الذی بین ید یہ و تفصیل کل شیئ”۲؎۔ (۱۰) سور ہ یو سف میں ”یہ بنا و ٹ کی با ت نہیں لیکن اپنے سے پہلے کا مو ں کی تصد یق اور ہر شیئ کی تفصیل ہے “
(۲؎القر ا ن الکر یم ۱۲ /۱۱۱)
(۱۱) فی سبا ”وقا ل الذی کفر والن نؤ من بھذا القر ا ن ولا با لذی بین ید یہ ۳؎” (۱۱) سو ر ہ سبا میں کا فر و ں نے کہا ہم نہ تو اس قرا ن پر ایما ن لا تے ہیں نہ اس پر جو گذشتہ ہے ”۔
(۳؎القر ا ن الکر یم ۳۴ /۳۱)
(۱۲) فی الملٰئکۃ ”والذی اوحینا الیک من الکتا ب ھو الحق مصد قا لما بین ید یہ ۴؎” (۱۲) سو ر ہ ملٰئکہ میں”جو کتا ب ہم نے آپ کی طر ف وحی کی حق ہے اور گز ر ے ہو ئے کی تصد یق ہے ”
(۴؎القر ا ن الکر یم ۳۵ /۳۱)
(۱۳) فی حم السجد ۃ ”و انہ لکتٰب عزیز لا یا تیہ البا طل من بین دی یہ و لا من خلفہ ۵؎”۔ (۱۳) سو ر ہ حم السجد ہ میں”یہ عز ت وا لی کتا ب کی با طل کو اس کی طر ف را ہ نہیں نہ اس کے آگے سے نہ پیچھے سے ۔”
(۵؎القر ا ن الکر یم ۴۱ /۴۲)
(۱۴) فی الحقا ف ”قا لو ا یقو منا انا سمعنا کتابا انزل من بعد مو سی مصد قا لما بین ید یہ ۶؎” (۱۴) سور ہ احقا ف میں سو ر ہ احقا ف میں ”اے ہما ری قو م ۔ہم نے ایک کتا ب سنی جو مو سی کے بعد اتا ری گئی اگلی کتا بو ں کی تصد یق فر ما تی ہے ۔”
(۶؎القر ا ن الکر یم ۴۶ /۳۰)
ان سب آیا ت میں ہے کہ قرا ن عظیم گزشتہ کتا بو ں کی تصد یق کر تا ہے
فا لقر ا ن الکر یم مصد قا لکل کتا ب الہی نزل قبلہ قر یبا او بعید ا ولا یخا لفہ(عہ۱) شیئ من کتب اللہ تعالی و الکفر ۃ (عہ۲) بشیئ لا یو منو ن ۔ اور بلا شبہ قرا ن عظیم تما م ہی گزری ہو ئی آسما نی کتا بو ں کی تصد یق فر ما تا ہے قر یب کی ہو یا بعید کی اور گزشتہ کتا بو ں میں کو ئی بھی اس کی مخا لفت نہیں کر تی ۔اور کا فر کسی پر بھی ایما ن نہیں لا تے ۔
عــ۱ :نا ظر الی الا یۃ الثا لثۃ عشر ۱۲منہ علیہ الر حمۃ ۔ عــ۱ :تیر ھو یں آیت کی طر ف اشا رہ ہے
عــ ۲ :نا ظر الی الا یۃ الحا دیۃعشر ۱۲منہ ۔ عــ۲ :گیا رھو یں آیت کی طر ف اشا ر ہ ہے۔
(۱۵) ومن ذلک فی ال عمرا ن عن عبد ہ عیسی علیہ الصلو ۃ والسلا م ”ومصد قا لما بین ید ی من التو راۃ ۱؎” (۱۵) آل عمر ا ن کی یہ آیت بھی قسم اول میں ہی ہے جو حضر ت عیسی علیہ السلام کی حکا یت کر تی ہے کہ ”میں تصد یق کر تا آیا ہو ں اپنے سے پہلی کتا ب تو ریت کی ۔”
(۱؎القرا ن الکر یم ۳ /۵۰)
(۱۶) فی الما ئد ۃ ”وقفینا علی آثا ر ھم بعیسی ابن مر یم مصد قا لما بین ید یہ من التو را ۃ ۲؎” (۱۶) سو ر ہ ما ئد ہ کی آیت ”ہم ان نبیو ں کے نشا ن قد م پر عیسی بن مر یم کو لا ئے تصد یق کر تا ہوا تو ریت کی جو اس سے پہلے تھی ”
(۲؎القر ا ن الکر یم ۵/ ۴۶)
(۱۷) فی الصف ”مصد قا لما بین ید ی من التو ر ا ۃ و مبشر ا بر سو ل یا تی من بعد ی اسمہ احمدی۳؎” (۱۷) اور سو ر ہ صف کی آیت ”میں اپنے سے پہلے کتا ب تو ر یت کی تصد یق کر تا ہو ا ،اور ان رسو ل کی بشا رت سنا تا ہوا جو میر ے بعد تشر یف لا ئیں گے ان کا نا م احمد ہے ،”
(۳؎القر ا ن الکر یم ۶۱ /۶)
فما فسر و ہ الا با لقبیلۃ حملا لہ علی نظا ئر ہ فی القرا ن العز یز وھو الذی یسبق الی الفھم و ان امکن حملہ ھھنا علی الحضور ۔ ان آیا ت میں لفظ ”بین ید یہ ”کہ حضو ر پر حمل کیا جا سکتا تھا لیکن مفسیر ین نے اس کی تفسیر من قبلہ سے کی ہے کہ ذہن کا تبادر اسی طر ف ہو تا ہے ۔
(۱۸) فی سو رۃ البقر ۃ ”فجعلنا ھا نکا لا لما بین ید یھا وما خلفھا ۱؎ ”علی التفسیر لما قبلھا وما بعد ھا من الا مم اذا ذکرت حا لھم فی زبر الا ولین واشتھر ت قصتھم فی الا خر ین (بیضا وی ۲؎) (۱۸) اور سو ر ہ بقر ہ میں ”تو ہم نے (اس بستی کا ) واقعہ اس کے آگے اور پیچھے وا لو ں کے لیے عبر ت کر دیا ”اس کی تفسیر بھی ”اگلی اور پچھلی امتیں”کی گئی جس کا ذکر گزشتہ امتو ں میں مذکو ر اور بعد وا لی قو مو ں میں مشہو ر ہوا (بیضا وی )
(۱؎القرا ن الکر یم ۲ /۶۶)
(۲؎انو ا ر التنزیل (تفسیر البیضا وی ) تحت الا ۤیۃ ۲ /۶۶ دار الفکر بیروت ۱/ ۳۳۸)
(۱۹) وفی حم السجف ۃ اذجا ء تھم الر سل من بین اید یھم ومن خلفھم ۳ عن الحسن انذر وھم من وقا ئع اللہ فیمن قبلھم من الا مم وعذا ب الا خر ہ ۱ھ (نسفی ۴؎) او من قبلھم ومن بعد ھم اذقد بلغتھم خبر المتقد مین و اخبر ھم ھو د و صا لح عن المتا خر ین دا عین الی الا یما ن بھم اجمعین (بیضا وی ۵؎) (۱۹) اور حم سجد ہ میں ”اور جب رسو ل ان کے آگے پیچھے پھر تے تھے ”حضر ت حسن بصر ی سے اس کی تفسیر مر وی ہے کہ رسو ل انہیں پہلی امتو ں کے حا دثا ت اور آ خر ت میں آنے وا لے عذا ب سے ڈر ا تے (نسفی )یا گزشتہ اور آئند ہ قومیں کہ انہیں پہلو ں کی خبر پہنچی اور ہو د اور صا لح علیہ السلا م نے نہیں دعو ت دیتے ہو ئے متا خر ین کا حا ل بتا یا (بیضا و ی )۔
(۳؎القرا ن الکر یم ۴۱/۱۴)
(۴؎مد ا رک التنذیل (تفسیر النسفی ) تحت الا یۃ۴۱ /۱۴ دا ر الکتا ب العر بی بیر و ت ۴ /۹۰)
(۵؎انو ر التنزیل (تفسیر البیضا وی ) تحت الا یۃ۴۱ /۱۴ دار الفکر بیروت ۵ /۱۱۰)
(۲۰) فی الا حقا ف ”(اذا نذر من بین ید یہ ۶؎)
ای من قبل ھو د (ومن خلفہ )من بعد ہ الی اقو امھم (ان لا تعبد و ا الا اللہ ) (جلا ل۱)”۔ (۲۰) سو رہ احقا ف میں حضر ت ہو د نے اپنی قو م کو مقا م احقا ف میں ڈرا یا اور اس کے پہلے سنا نے والے گزر چکے تھے اور بعد میں آئے یعنی حضرت ہود سے پہلے اور ان کے بعد اپنی قو مو ں کی طر ف کہ سوا ئے خدا کے کس اور کو نہ پو جو (جلا لین )
(۶؎القرا ن الکر یم ۴۶ /۲۱)
(۱؎تفسیر جلا لین تحت الا یۃ ۴۶ /۲۱ اصح المطا بع دہلی ص۴۱۸)
ومن الثا نی (۲۱) فی الا عرا ف ”وھو الذی یر سل الر یح بشر ا بین ید ی رحمتہ ۲ ” قسم ثا نی (۲۱) سور ہ اعرا ف میں
”اللہ تعالی نے ہو ا ؤ ں کو با رش سے پہلے بشا ر ت دینے وا لی بنا کر بھیجا ۔”
(۲؎القر آن الکر یم ۷ /۵۷)
(۲۲) وفی الفرقا ن ”وھو الذی ارسل الر یح بشر ا بین ید ی رحتہ ۳؎” (۲۲) سور ہ فر قا ن میں
”اللہ تعالی نے ہو ا ؤ ں کو با ر ش سے پہلے بشا ر ت دینے والی بنا کر بھیجا ۔”
(۳؎القر آن الکر یم ۲۵ /۴۸)
(۲۳) فی النمل ”امن یھد یکم فی ظلمت البر و البحر ومن یر سل الر یح بشر ا بین ید ی رحمتہ ۴؎” (فا نھا تد ل علی قر ب المطر )۔ (۲۳) سو ر ہ نمل میں ”یا وہ جو تمھیں را ہ دکھا تا ہے اند ھیر یو ں میں خشکی اور تر ی کی ،اور وہ کہ ہو ا ئیں بھیجتا ہے اپنی رحمت کے آگے خو شخبر ی سنا تی ” (ان آیات میں بین یدیہ قریب ہونے پر دلالت کرتاہے)۔
(۴؎القر آن الکر یم ۲۷ /۶۳)
(۳۳) فی الحد ید ”یو م تر ی المؤمنین ولمؤمنت یسع نو ر ھم بین اید یھم و با یما نھم ۱؎
”کلمۃ” یسعی”
تد ل علی ارادۃ ما ینو رلھم فالمد لو ل القر ب اما النو ر فمتصل حقیقۃ ۔ (۳۳) سو ر ہ حد ید میں ”اس دن تم دیکھو گے کہ مو من کہ مو من مرد و ں اور عو رتو ں کا نو ر ان کے آگے اور دا ئیں چلے گا ۔”یہا ں کلمہ ”یسعی ”اس با ت پر دلا لت کر تا ہے کہ آگے اور دا ئیں سے مراد وہ جگہ ہے جو ان کے لیے رو شن کی گئی ہے تو یہا بین ید یہ سے مرا د قر ب ہے ”اور نور تو مو منو ں سے متصل ہی ہو گا ۔
(۱؎القرا ن الکر یم ۵۷ /۱۲)
(۳۴) فی المجا دلۃ ”یا یھا الذین امنو ا اذا نا جیتم الر سو ل فقد موا بین ید ی نجوٰکم صد قد ۃ ۲؎”
(۳۴) سو ر ہ مجا دلہ میں ہے :”اے ایما ن و الو رسو ل کر یم سے با کر نا چا ہو تو اس سے پہلے صد قہ پیش کر و ۔”
(۲؎القرا ن الکر یم ۵۸ /۱۲)
(۳۵) فیھا ”أاشفقتم ان تقد مو ا بین ید ی نجوٰکم صد قات ۳؎
”فا ن المقصو د تعظیم الر سو ل صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم ولا یظہر الا با لقر ب ۔ (۳۵) اسی میں ہے :”با ت چیت سے قبل صد قہ پیش کر نے سے ڈر رہے ہو ”ان دو نو ں آیتو ں میں مراد تعظیم رسو ل ہے تو یہ قر ب سے ہی ظا ہر ہو گی ۔
(۳؎ القرا ن الکر یم ۵۸ /۱۳)
(۳۶) فی الممتحنۃ (ولا یأ تین ببھتا ن یفتر ینۃ بین اید یھن وا رجلھن ۴؎)ای بو لد ملقو ط ینسبہ الی الزو ج ووصف بصفت الو لد الحقیقی فا ن الا مر اذا وضعتہ سقط بین ید یھا ورجلیھا ۱ھ(جلا ل ۱؎)فھذا علی الحقیقۃ التر کیبیۃ ۔ (۳۶) سو ر ۃ ممتحنہ میں ہے :”ایسا بہتا ن نہ ظا ہر کر و جسے تم نے اپنے ہا تھو اور پیر و ں کے بیچ گا ڑا ہو ۔”وہ لڑکا جو دوسر ے کا ہو عو رت اس کو اپنے شو ہر کی طر ف منسو ب کر ے اور اس کو شو ہر کا حقیقی لڑکا بتا ئے تو عور ت جب بچہ جنے گی تو وہ حقیقتا اس کے پا ؤ ں اور ہا تھوں کے بیچ میں ہو گا تو یہا ں بین ید یہ کے معنی حقیقی تر کیبی مراد ہیں ۔”
(۴؎القرا ن الکر یم ۶۰ /۱۲)
(۱؎تفسیر جلا لین تحت الا ۤیۃ ۶۰ /۱۲ اصح المطا لبع دہلی ص۴۵۸)
(۳۷) فی التحر یم ، نور ھم یسعی بین اید یھم وبا یما نھم ۲؎
(۳۷) سو ر ۃ تحر یم میں ”ان کا نو ر انکے آگے آگے اوردا ئیں چل رہا ہو گا ۔ ”
(۲؎القرا ن الکر یم ۶۶ /۸)
(۳۸) فی الجن (عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احد الا من ارتضی من رسو ل فا نہ یسلک۳؎) یجعل و یسیر (من بین یدیہ )ای الر سو ل (ومن خلفھم رصدا )ملئکۃ یحفظو نہ حتی یبلغہ فی جملۃ الو حی (جلا ل ۴؎)ھذہ و اضحا ت۔ (۳۸) سور ہ جن میں ”اللہ تعا لی علم الغیب ہے وہ اپنے غیب پر اپنے پسند ید ہ رسو لو ں کے سو ا کسی کو مطلع نہیں کر تا ان رسو لو ں کے آگے پیچھے نگر ا ن چلتے ہیں ۔”یعنی فر شتے جو وحی کی تبلیغ تک ان کی حفاظت کر تے ہیں یہ سب آیا ت وا ضح ہیں ۔
(۳؎القرا ن الکر یم ۷۲ /۲۶و۲۷)
(۴؎تفسیر جلا لین تحت الا یہ ۷۶ /۲۶و۲۷ اصح المطا بع دہلی ص۴۷۷)
ومنھا،”فجعلنا ھا نکا لا لما بین ید یھا وما خلفھا” ۵؎علی الا ظہر الا شہر ای الا مم التی فی زما نھا و بعد ھا (جلا ل ۱؎) اولما بحضر تھا من القر ی وما تبا عد عنھا او لا ھل تلک القر یۃ وما حو الیھا (بیضا و ی ۲؎) وکذا ”اذ جا ءتھم الر سل من بین اید یھم ومن خلفھم ۳؎علی معنی اتو ھم من کل جا نب وعملو ا فیھم کل حیلۃ ۱ھ (مدا ر ک ۴؎)”۔ اسی سے ہے :”ہم نے (اس بستی )کا یہ وقعہ اس کے آگے اور پیچھے وا لو ں کے لیے عبر ت کر دیا ”مشہو ر اور ظا ہر یہی ہے کہ ما بین ید یہ اور خلفہ سے مر اد وہ امتیں ہیں جو اس زما نہ میں تھیں اور ان کے بعد میں (جلا لین) یا جو دیہات قر یب تھے اور وہ جو دو ر تے یا ان دیہا تو ں وا لے (بیضا و ی )ایسا ہی آیت مبا ر کہ ”جب اللہ تعا لی کے بھیجے فر شتے آئے ان کے آگے اور پیچھے اس ”آیت کے معنی یہ ہیں فر شتے ان کے پا س ہر طر ف سے آئے اور ان کے سا تھ ہر طر ح کے حیلے بر تے (مد ا رک)۔
(۵؎القرا ن الکر یم ۲ /۶۶)
(۱؎تفسیر جلا لین تحت الا یۃ ۲ /۶۶ اصح المطا بع دہلی ص۱۱)
(۲؎انو ا ر التنزیل (تفسیر بیضا و ی) تحت الا یۃ ۲ /۶۶ دا ر الفکر بیر و ت ۱ /۳۳۸)
(۳؎القرا ن الکر یم ۴۱ /۱۴)
(۴؎مدا ر ک التنزیل (تفسیر النسفی ) تحت الا یۃ ۲ /۶۶ دا لکتب العر بی بیر و ت ۴ /۹۰)
واما تفسیر ائمۃ اللغۃ وا لتفسیر ففی الصحا ح ،والقا مو س ثم مختا رالصحا ح و تا ج العر و س وغیر ھا ”بین ید ی السا عۃ ” ای قدامھا ۵؎ وفی الصرا ح ”بین ید ی پیش رو ئے او ، وفی التا ج ”یقا ل بین یدیک بکل شیئ اما مک۷؎اھ ،و فی معالم التنزیل من الھجرات ” معنی بین الیدین الامام و القدام۸۔ ائمہ تفسیر و لغت کا بیان یہ ہے : (۱) صحا ح، (۲)قا مو س، (۳)مختا ر الصحا ح ،(۴) تا ج العر و س وغیر ہ میں بین ید ی السا عۃ کے معنی قیا مت سے پہلے اور(۵)صرا ح میں آگے جا نے وا لے اور(۶) تا ج العر وس میں ہے کہ بین ید یک ہر اس چیز کو ہا جا ئے گا جو تمھا رے آگے ہو ۔(۷)معا لم التنزیل تفسیر سو ر ہ حجر ات میں بین الید ین کے معنی آگے ہے۔
(۵؎تا ج العر و س فصل الیا ء من با ب الوا و وا لیا (ید ی ) احیا ء التر ا ث العر بی بیر و ت ۱۰ /۴۱۹)
(۶؎صر ا ح با ب الوا و وا لیا ء فصل الیا ء مطبع مجید ی کا نپو ر ص۵۹۸)
(۷؎ تا ج العر و س فضل الیا ء من با ب الوا و الیا ء ”ید ی ” احیا ء الترا ث العر بی بیر و ت ۱۰ /۴۱۹)
(۸؎معا لم التنزیل (تفسیر البغو ی ) تحت الا ۤیۃ ۴۹/۱ دا ر الکتب العلمیہ بیر و ت ۴ /۱۸۸)
والخازن من آل عمرا ن ما بین ید یہ فھو اما مہ ۱؎وفی ابی السعو د و الفتو حا ت الا لٰھیتہ من یو نس علیہ الصلو ۃ والسلا م ” بین ید یہ ای اما مہ ۲ ؎وفی الجلا ل من الر عد بین ید یہ قد امہ ۳؎وفیہ من مر یم ما بین ا ید ینا ای اما منا ۴؎ وفیہ وفی غیر ہ من البقر ۃ وغیر ھا مصد قا لما بین ید یہ قبلہ من الکتب ۵؎ثم فی الا نمو ذج الجلیل تحت الکر یم السا دسۃ والعشر ین ”ما بین ید ی الا نسا ن ھو کل شیئ یقع نظر ہ علیہ من غیر ا ن یھو ل وجہہ الیہ ۶؎وفی الکر خی ثم الفتو ھا ت الا لہیۃ ایضا تحتھا من المعلو م ان ما بین ید ی الا نسا ن ھو کل ما یقع نظر ہ علیہ من غیر ا ن یحو ل وجھہ الیہ ۷؎وفی تکملۃ مجمع البھا ر فعلتہ بین ید یک ای بحضر تک ۸؎”۔ اور (۸)خا زن میں بین ید یہ کے معنی جو اس کے آگے ہو ۔(۹)تفسیر ابو سعود اور فتوحات الہٰیہ میں سورۃ یونس علیہ السلام میں بین یدیہ کے معنی”اس کے آگے”اور(۱۰) جلالین میں سورہ رعد کے لفظ بین یدیہ کے معنی”اسکے آگے”۔ اسی(۱۱) میں سورہ مریم کے لفظ مابین ایدینا کے معنی کے ہمارے آگے۔ اسی(۱۲) میں اور (۱۳)دیگر تفاسیر میں سورہ بقرہ اور دیگر سورتوں کے لفظ مصدقا لما بین یدیہ کے معنی اس سے پہلےکی کتابیں ہے، (۱۴) انموذج جلیل میں ۲۷ویں آیت کے تحت ہے : مابین یدی الانسان ہر وہ چیز جس پر انسان کی نظر چہرے پھیرے بغیر پڑے۔ (۱۵)کرخی اور (۱۶) فتوحات الٰہیہ میں اسی آیت کے تحت ہے : انسان کےمابین یدیہ وہ چیز ہے جس پر اسکی نظر چہرہ پھیرے بغیر پڑے۔ (۱۷)تکملہ مجمع البحار میں ہے : فعلتہ بین یدیک کا ترجمہ ”میں نے اس کو تیرے حضور میں کیا”-
(۱؎لبا ب التا ویل (تفسیر الخا زب )تحت الا ۤیۃ ۳/۳ دا ر الکتب العلمیہ بیر و ت ۱ /۲۲۴)
(۲؎الفتو حا ت الا لہیۃ (تفسیر الجمل ) تحت الا ۤیہ ۱۰ /۳۷ دا ر الفکر بیر وت ۳ /۳۷۳)
(۳؎تفسیر جلا لین تحت الا یۃ ۱۳ /۱۱ اصح المطا بع دہلی ص۲۰۱)
(۴؎تفسیر جلا لین تحت الا یۃ ۱۹ /۶۴ اصح المطا بع دہلی ص۶۵۸)
(۵؎تفسیر جلا لین تحت الا یۃ ۲ /۹۷ اصح المطا بع دہلی ص۱۵)
(۶؎الا نمو ذج الجلیل )
(۷؎الفتو حا ت الا لہیہ (تفسیر للجمل ) تحت الا یۃ ۳۴ /۹ المصطفی البا بی حلبی مصر ۳ /۴۶۱)
(۸؎ تکملہ مجمع بحارالانوار حرف الیا ء ”ید ” مکتبہ دار سعودی عرب ۵ /۷۳۱)
وفی عنا یۃ القا ضی من ایۃ الکر سی اطلا ق ما بین اید یھم علی امور الد نیا الا نھا حا ضر ہ والھا ضر یعبر عنہ بذلک ۔ وامور الاخر ہ مستتر ۃ کما یستتر عنک ما خلفک ۱؎وفی الجمل منھا ما بین اید یھم ای ما ھو حاضر مشاھد لھم ۲ وفی الخطیب الشر بینی ثم الجمل (بین ید ی اللہ ورسو لہ )معنا ہ بحضر تھما لا ن ما یحضر ہ الا نسا ن فھو بین ید یہ نا ظر الیہ۳ الخ ”یا تی تما مہ ۔ اور (۱۸)عنایۃ القاضی میں آیۃ الکرسی کے مابین یدیہ کے معنی لکھے ہیں کہ مابین یدیہ کا اطلاق امور دنیاپر ہے کہ وہ تمھارے سامنے ہیں۔ اور حاضر کی تعبیر مابین یدیہ سے کی جاتی ہے۔ اور امور آخرت تم سے پوشیدہ ہیں جیسے وہ چیز تمھارے پیچھے ہو۔ اور جمل ۱۹ میں اسی آیت کی تفسیر میں مابین ایدیھم کے معنی”جو حاضر و مشاہد ہو” لکھے ہیں(۲۰)خطیب شربینی اور (۲۱)جمل میں بین یدی اللہ و رسولہ کے معنی ”ان دونوں کے حضور کئے ہیں کہ جو آدمی کے پاس ہو وہ ہبین یدیہ ہے، اور آدمی اس کو دیکھنے والا ہے۔(پوری بات آگے آرہی ہے)
(۱؎عنایۃ القاضی حاشیۃ الشھاب علی تفسیر البیضاوی تحت الا یۃ ۲ /۲۵۵ دار الکتب العلمیہ بیروت ۲ /۵۸۰)
(۲؎الفتو حا ت الا لہیہ (تفسیر للجمل ) تحت الا یۃ ۲ /۲۵۵ المصطفی البا بی حلبی مصر ۱ /۲۰۷)
(۳؎الفتو حا ت الا لہیہ (تفسیر للجمل ) تحت الا یۃ ۴۹ /۱ المصطفی البا بی حلبی مصر ۴ /۱۷۴)
(السراج المنیر (الشربنی) تحت الا یۃ ۴۹/ ۱ نو لکشور لکھنؤ ۴/ ۶۰)
فا ستبا ن لک با لقرا ن العظیم والحد یث و نصو ص ائمۃ القد یم والحد یث ان لا دلا لۃ اصلا لقو ل الفقھا ء یوذن بین ید ی الخطیب علی کو ن الا ذا ن دا خل المسجد فضلا عن کو نہ لصیق المنبر ۔ تو قرا ن عظیم احا دیث کر یمہ اور قد یم و جد ید ائمہ کی نصو ص سے ظا ہر ہو گیا کہ قو ل فقہاء یو ذن بین ید ی الخطیب کی دلا لت مسجد کے اند ر ہو نے پر بھی نہیں چہ جا ئیکہ منبر کے پا س ہو ۔
فاولاً : لایتعین فی افا دۃ القر ب کما یظہر من عشر ین آیۃ تلو نا اولا و مما ذکر نا من کتب اللغۃ والتفسیر سا بقا فا نما غرضھم افا دہ ان السنۃ فی ھذا الا ذا ن مضا ذا ۃ الخطیب کما قا ل فی النا فع شر ح القد وری اذن المؤذنو ن بین ید ی المنبر) ای فی حذا ئہ ۱؎اھ فھذا ھو المقصو د با لا فا دۃ ھھنا اما ان الا ذا ن لا یکو ن فی جو ف المسجد ولا بعید ا عنہ بل فی حد ود ہ و فنا ئہ فمسأ لۃ اخر ی معلو مۃ فی محلھا و بھا تتعین محل ھذا المحا ذا ۃ کما قد منا ۔ اولاً: لفظ بین ید یہ افا دہ قر ب میں متعین نہیں جیسا کہ پہلے ذکر کی ہو ئی بیس آیتو ں سے ظا ہر ہو ا اور پہلے ذکر کئے ہو ئے ائمہ لغت و تفسیر کی تصر یحا ت سے ظا ہر ہوا فقہا ء کی غر ض تو یہ بیا ن کر نا ہے کہ ا س اذا ن میں مسنون خظیب کا سامنا ہے جیسا کہ نا فع شر ح قد ور ی کی عبا رت سے ظا ہر ہے کہ جب مو ذنین خطیب کے سامنے اذا ن دے لیں فقہا ء کو اس عبارت سے صر ف سامنا بتا نا ہے یہ با ت کہ اذا ن جو جو ف مسجد میں نہ ہو نہ مسجد سے دور ہو بلکہ مسجد کے حدود و اطرا ف میں ہو یہ ایک دوسر ا مسئلہ ہے جس کو با ب الا ذا ن میں بیا ن کیا گیا ہے اور اس دوسر ے مسئلہ سے سا منے کی دوری متعین ہو تی ہے ۔
(۱؎نا فع شر ح القد وری )
وثا نیا: سلمنا القر ب فھو امر اضافی و قر ب کل شیئ بحسبہ الا تر ی ۔ ثا نیا: اور اگر بین ید یہ کے معنی قر یب تسلیم بھی کر لیے جا ئیں تو قر ب اسی کے حسا ب سے ہوگا
(۱) الی الا یۃ الحا دیۃ والعشر ین دلت علی قر ب المطر لکن لیس ان تھب الر یا ح فینز ل بل کما قا ل عزوجل حتی اذا اقلت سحا با ثقا لا سقنہ لبلد میت فا نزلنا بہ الما ء۲؎۔
(۱)دیکھو اکیسو یں آیت میں بین ید یہ کے معنی بار ش قر یب ہو نے کے ہیں لیکن ایسا نہیں کہ ہو ا چلی اور با ر ش آئی بلکہ اس طر ح جیسا قرا ن عظیم میں ہے :”ہو ا نے با دل کو ٹھا لیا تو ہم نے اسے خشک علا قہ کی طر ف روا نہ کیا تو اس سے با ر ش ہو ئی ۔
(۲؎القرا ن الکر یم ۷ /۵۷)
(۲) فی السا دسۃ و العشر ین جعل السما ء بین اید ینا و بیننا وبینھا مسیر ۃ خمسما ئہ سنۃ و ھذا تر جما ن القرا ن علا مۃ الکتا ب من افصح العر ب واعلمھا با للسا ن عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ تعالی عنھما یقول فی تفسیر ایۃ الکر سی یعلم ما بین اید یھم یر ید من السما ء الی الا رض وما خلفھم یر ید فی السمو ت (روا ہ الطبرا نی۱؎ فی کتا ب السنۃ ) (۲) ۲۲ویں آیت میں آسما ن کو ہما رے قر یب (بین ید یہ )بتا یا اور وہ ہم سے پا نچ سو بر س کی را ہ کی دوری پر ہے حضر ت ترجما ن القرا ن علا مۃ الکتا ب افصح العر ب اور اعلم القو م با للسا ن سید نا ابن عبا س رضی اللہ تعا لی عنہ نے آیۃ الکر سی کے یعلم ما بین اید یھم کے معنی زمین سے آسما ن تک بتا ئے اور ما خلفھم کے معنی آسما ن متعین فر ما ئے طبرا نی نے سے کتا ب السنہ میں روا یت کیا
(۱؎الد ر المنثو ر بحوا لہ الطبر ا نی فی السنۃ تحت الا یۃ دار احیا ء الترا ث العر بی بیر و ت ۲ /۱۹)
(۳) وفی السا بعۃ والعشر ین ذکر عمل الجن بین ید ی سید نا سلیمن وھو لا ء الجن ھم الشیا طین کما قا ل تعا لی والشیاطین کل بنا ء و غو ص۲؎
وما کا ن لھم ان ید خلو الحضر ۃ السلیما نیۃ لیعملو ا ثمہ محا ریب و ما ثیل و جفا نا کا لجو اب و قد ورٍ رّٰسیٰت تکفی وا حد ہ منھا الف رجل ۔ (۳)۲۷ویں آیت میں کہا گیا کہ جن حضرت سلیما ن علیہ السلا م کے سا منے (بین ید یہ )چیزیں بنا تے تھے حا لا نکہ وہ شیا طین تھے حضر ت سلیمان علیہ السلا م کے دربا ر میں دا خل ہو کر وہ عظیم الشا ن عما ر تیں مجسمے اور مید ا نو ں کی طر ح وسیع و عر ٰض لگن بڑی بڑی دیگیں کہ ایک ہزا ر آدمیو ں کے کھا نے کو کا فی ہو ں بنا ہی نہیں سکتے تھے۔
(۲؎القرا ن الکر یم ۳۸ /۳۷)
وروی ابن ابی حتم فی تفسیر ہ عن سید نا سعید بن جبیر قا ل کا ن یو ضع لسلیما ن علیہ السلا م علیہ الصلو ۃ و السلا م ثلثما ئۃ الف کر سی فیجلس مو منو الا نس مما یلیہ و مو منو الجن من ورا ئھم ۳؎فما کا نت الشیا طین الا ورا ء کل ذلک ابن ابی حا تم نے اپنی تفسیر میں حضر ت سعید بن جبیر رضی اللہ تعا لی عنہ سے ر وایت کی کہ حضر ت سلیما ن علیہ السلا م کے در با ر میں تین لا کھ کر سیا ں بچھا ئی جا تیں جن پر مو من انسا ن بیٹھتے ان کے پیچھے مو من جن ہو تے تو شیطا ن تو ان سب کے بعد میں ہی ہو ں گے ۔
(۳؎تفسیر القرا ن العظیم تحت الا یۃ ۲۷ /۱۷ حد یث ۱۶۱۹۰ مکتبہ نزار مصطفی البا ز مکہ المکر مہ ۹ /۲۸۵۵)
(۴) وفی الثا منۃ وا لعشیر ن ارشد الی ان بعثۃ نبینا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بقر ب القیا مۃ کما قا ل صلی اللہ تعا لی وعلیہ وسلم بعثت انا وا لسا عۃ کہا تین (روا ہ احمد والشیخا ن ۱عن سھل بن سعد وھم والتر مذی عن انس رضی اللہ تعا لی عنہما) وقد ا مھل اللہ الا مۃ المر حو مۃ الی وقتنا ھذا الفا و ثلثما ئۃ وخمسا اربعین سنۃ و سنزید والحمد للہ الحمید ولم ینا ف ذلک الا یۃ ولا قو لہ صلی اللہ تعالی وسلم بعثت طین ید ی السا عۃ با لسیف حتی یعبد اللہ تعا لی وحدہ لا شر یک لہ (روا ہ احمد ۲؎وابو یعلی والطبرا نی فی الکبیر بسند حسن عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعا لی عنہ وعلقہ البخا ر ی) ۔ (۴)اٹھا ؤیو یں آیت میں ارشاد فر ما یا حضو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بعثت قیا مت کے قر یب ہے خو د حضور صلی اللہ تعالی وسلم نے بھی ارشا د فر ما یا میں اور قیا مت ان دو انگلیو ں کی طر ح سا تھ سا تھ مبعو ث کئے گئے (احمد و شیخا ن نے سہل بن سعد سے اور تر مذی نے حضر ت انس رضی اللہ تعالی عنھما سے اس کو روا یت کیا )اور اللہ توا للہ تعالی نے آج ۱۳۳۳ھ تک امت مر حو مہ کو مہلت دی اور اس کے بعد بھی یہ امت با قی رہے گی اس کے با وجو د یہ مہلت نہ تو آیت با قی رہے گی اس کے با وجو د یہ مہلت قیا مت کے قر یب تلو ار دے کر بھیجا گیا تا کہ لو گ ایک خدا کو پو جیں (احمد وابو یعلی اور طبرا نی نے کبیر میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے اس حد یث کو سند حسن کے سا تھ روا یت کیا )۔
(۱؎صحیح البخا ری کتا ب الر قا ق با ب قو ل النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بعثت انا الخ قدیمی کتب خا نہ کراچی ۲ /۹۶۳)
(صحیح مسلم کتاب الفتن با ب قر ب السا عۃ قد یمی کتب خا نہ کر ا چی ۲ /۴۰۶)
(مسند احمد بن حنبل عن انس بن ما لک ۳/۱۲۴ ، ۱۳۰ ، ۱۳۱، ۱۹۳ ، ۲۳۷ و ۲۷۵)
(۲؎ مسند احمد بن حنبل عن عبد اللہ بن عمر المکتب الا سلا می بیر وت ۲/ ۵۰و۹۲)
(۵) الا نجیل بین ید ی القرا ن و بینھما فی النزو ل اکثر من ستما ئۃ سنۃ ، والتو را ۃ بی ید ی الا نجیل و بین عیسی و مو سی علی ما فی الجمل الف و تسعما ئۃ و خمس و سبعو ن سنۃ و کذا ھی بین ید ی والفر قا ن و بین نزولیھما نحو من ثلثۃ الا ف سنۃ ۔ (۵) انجیل ”بین ید ی القرا ن ہے اور ان دو نو ں کے بیچ میں چھ سو سا ل سے ز ا ئد کا فا صلہ ہے ا۳ور تو ریت انجیل کے ما بین ید یہ ہے ان دو نو ں کے د رمیا ن حسب روا یت جمل انیس سو پچھتر ۱۹۷۵ سال کا فاصلہ ہے۔اوریو نہی توراۃ قرا ن کے بھی بین ید یہ ہے تو توریت وقرا ۤن شر یف کا فا صلہ لگ بھگ تین ہزا رسا ل کا ہو ا ”۔
(۶) لا یر تا ب احد ان المو ا جہ المغر ب حین تد لت الشمس للغر و ب ان یقو ل ان الشمس بین ید ی و با لفا رسیۃ ”آفتاب پیش رو ئے من است ”او بالھند یۃ ”سو ر ج میر ے منہ کے سا منے ہے ”مع ان بینھما مسیر ۃ ثلثۃ الا ف سنۃ وکذا یقول للثر یا اذا وا جھھا و بینھما مسیر ۃ ثما نیۃ الا ف سنۃ ۔ (۶) یہ با ت یقینی ہےکہ غروب آفتا ب کے وقت پچھم کی طر ف رخ کر کے کھڑا ہو نےو ا لا عر بی میں کہتا ہے : ”الشمس بین ید ی” ، اور فا رسی میں کہتا ہے : ”آفتا ب پیش روئے است ” ، اور”ہند ی میں کہتا ہے ۔””سو رج میر ے منہ کے سامنے ہے ۔”حا لا نکہ ان دونو ں کے درمیان تین ہزار سا ل کی مسا فت ہے اور یہی با ت ثر یا کی طر ف رخ کر کے بھی کہتا ہے جبکہ اس کے اور ثر یا کے در میا ن آٹھ ہزار سا ل کی را ہ ہے ۔
(۷) فی الکر یمۃ التا سعۃ والعشر ین ارید الا تصا ل الحقیقی لا ن العمی لا یحصل الا بذا ک فظھر ان القلب المد لو ل بلفظ بین ید یہ لہ عر ض عر یض منبسط من الا تصا ل الحقیقی الی مسیر ۃ ثما نیۃ الا ف سنۃ ۔انما اصلہ الحا ضر المشہو د و الا ختلا ف لا ختلا ف المحل والمقصود فمثملا (۱) الثریا تر ی من مسیر ۃ کذا(۲) الشمس من کذا (۳) السما ئۃ من میسر ۃ خمسما ئۃ سنۃ فکا ن ھی القر ب فیھا (۴) وفی العملۃ من حیث یر ون فلا یفتر وا ولا یزیغوا (۵) المصلی ما مو ر بقصر بظر ہ علی مو ضع سجود ہ فھذا ھو مو ضع شہود ہ فلن یکن المرور بین ید یہ الا اذا مر بحیث لو صلی صلو ۃ الخا شعین یقع علیہ نظر ہ وھو المراد بمو ضع سجود ہ کما افا دہ المحققو ن (۶) فی قو لک جلست بین ید یہ یحتا ج الی قر ب اکثر مما یفید مجر د الا بصار فا نہ یکو ن للمکا لمۃ والسمع اقصر مد ی من البصر والیہ اشا روا فی الکشاف و المدا ر ک والشر بینی وغیر ھا بقو لھم ”حقیقۃ قو لھم جلست بین ید ی فلا ن ان یجلس بین الجہتین المسامتتین لیمینہ و شما لی قر یب منہ فسمیت الجہتا ن ید ین لکو نھما علی سمت الید ین مع القر ب منھما تو سعا کما یسمی الشیئ با سم غیر ہ اذا جا ورہ ۱؎۱ھ (۷) انتیسو یں آیت میں لفظ”بین ید یہ ”سے مرا د اتصا ل حقیقی ہے اس لیے کہ اند ھا پن بے اس کے متحقق نہیں ہو سکتا تو اس سے یہ ثا بت ہو ا کہ لفظ بین ید یہ کے مد لو ں کی جو لا ن گاہ اتصا ل حقیقی سے شر و ع ہو کر آٹھ ہزا ر سال کی مسا فت تک پھیلی ہو ئی ہے تو اس کی اصل حا ضر و مشہو د کے لیے ہے اور محل و مقصود کے لحاظ سے اس حضو ر میں اختلا ف ہو سکتا ہے مثلا (۱) ثیر یا اتنی دور سے (۲) اور سو ر ج اتنی دو ر سے (۳) اور سیا ر ے پا نچ سو بر س کی راہ سے تو ان اشیا ء میں یہ قر یب کہا جا ئے گا (۴) اور مزدوروں میں اتنی دور سے کہ نگرا نی ہو سکے ،مزدور سست نہ پڑیں اور کھسک نہ سکیں (۵) اور مصلی کو حکم ہےکہ وہ اپنی نگا ہ مو ضع سجو د پر رکھے تو اس کے مو ضع سجود میں اتنی ہی دوری اصل ہے اور مصلی کے سا منے سے گزرنا تبھی کہا جا ئے گا جب گزرنے والا خشو ع کے سا تھ نما ز پڑھنے وا لے کی نگا ہ کی زد میں آئے اور یہ مو ضع سجودہی ہے جس کی محقیقین نے تصر یح کی ہے (۶) مقولہ ”جلست بین ید یہ ”میں مرا د حدود بصر سے بھی کم اور محد ود دائر ہ ہو گا کہ یہ بیٹھنا با ت چیت کے لیے ہے جس کا تعلق سما ع سے ہے اور سما ع کا دا ئر ہ بصر ہ کے دائر ہ سے بھی محدود و مختصر ہے چنا نچہ کشا ف ، مدارک اور شر بینی وغیر ہ کے مصنفین نے اسی امر کی طر ف اشار ہ کر تے ہو ئے فر ما یاقو ل ”جلست بین ید ی فلا ن ”کی حقیقت یہ ہے کہ دا ئیں با ئیں کی دو مقا بل جہتو ں کے بیچ میں فلا ں کے قر یب بیٹھا جا ئے ان د ونو ں جہتو ں کو دو ہا تھ سے تعبیر کیا کہ یہ جہتیں ابہیں دونو ں ہا تھو ں پر ان سے قر یب ہیں اور یہ مجا زا ہے جیسا کہ دو پا س والی چیزو ں میں ایک کا نا م دو سر ی کو دے دیا جا تا ہے ۱ھ”
(۱؎تفسیر الکشاف تحت الا یۃ ۴۹/۱ دار لالکتا ب العر بی بیر و ت ۴ /۵۰-۳۴۹)
(مد رال التنزیل (تفسیر النسفی ) تحت الا یۃ ۴۹/۱ دار لالکتا ب العر بی بیر و ت ۴/۱۶۵)
(السرا ج المنیر (تفسیر الشر بینی ) تحت الا یۃ ۴۹/۱ نو لکشو ر لکھنؤ ۴ /۶۰)
وھذا ھو تما م عبا رۃ الخطیب المو عو د قلت : (خطیب شر بینی کی یہی عبا ر ت ہے جس کا ہم نے وعد ہ کیا تھا ۔)
تنبیہ : وفی قو لھم اولا حقیقۃ قو لھم و اخر ا تو سعا اشا رۃ الی ما قد مت من انہ مجا ز با عتبا ر معا نی
الا جزا ء التفصیلیۃ حقیقۃ با عتبا ر الا جما ل ۔ تنبیہ: اس عبا ر ت مین اس معنی کو شرو ع میں حقیقی کہا اور بعد میں مجا زی قرار دیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اجزا ئے تفصیلی کے معنی کے لحا ظ سے تو یہ مجا ز ہے اور اجما ل کے لحا ظ سے معنی حقیقی ۔
(۷) یر ید رجل قرا ء ۃ القرا ن العظیم وھو محد ث فیقو ل لعبد ہ قم با لمصحف بین ید ی فید ل علی القر ب محیث یمکنہ القرا ء ۃ منہ و یختلف با ختتلا ف نظر ہ حد یدا او کلیلا و ا ختلا ف خط المصحف دقیقا و جلیلاً۔ ایک شخص قرا ن کر یم پڑھنا چا ہتا ہے مگر خو د نے وضو ہے تو وہ اپنے خا دم سے کہتا ہے میر ے سامنے قرا ن عظیم لے کر بیٹھ جا جا ؤ تو یہا ں قریب سے ایسا قر ب مراد ہو گا کہ پڑھنا ممکن ہو اور یہ قر ب تیز نگا ہی اور ضعف بصا رت کے اعتبار سے مختلف ہو گا اور تحر یر کے جلی اور خفی ہو نے کے لحا ظ سے بھی متعد د ہو گا ۔
وھذا ما قا لو افی مصحف مو ضو ع بین یدی المصلی ،أو رحل وھو لا یحمل ولا یقلب انما یقر أمنہ با لنظر فیہ لا تفسد فی الصلٰو ۃ عند ھما ،وعند ہ تفسد کما فی الھند یۃ۱؎ وغیر ھا۔ اور یہی بات مشا ئخ نے اس مصحف شر یف کے بارے میں کہی جو نما زی کے سا منے رکھا ہوا ہے یا رحل میں ہے ، نما زی نہ تو اسے اٹھا تا ہے اور نہ ہی ورق الٹتا ہے بلکہ فقط اس دیکھتا ہے اور قرأ ت کر تا ہے تو صا حبین کے نزدیک اس کی نماز فا سد نہ ہوگی جبکہ امام اعظم کےنزدیک فا سد ہوجا ئیگی جیسا کہ ہند یہ وغیر ہ میں ہے ۔
(۱؎الفتا وی الھند یۃ کتا ب الصلٰو ۃ البا ب السا بع نورا نی کتب خا نہ پشاور ۱ /۱۰۱ )
(۸) تضع شیئا بین ید ی أحد لاکلہ فھذا علی ما تصل ید ہ الیہ کحد یث البخاری عن جا بربن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنھما ۔جئت بقلیل رطب فو ضعتہ بین ید ی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فاکل ۱؎۔ تم کسی کے آگے کچھ کھا نے کے لیے رکھ دو تو یہ اسی حد تک ہو گا جہا ں تک اس کا ہا تھ پہنچ جا ئے جیسا کہ حد یث بخا ری جو سید نا جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ تعا لی عنہما سے مروی ہے کہ ”میں تھو ڑی سی تر کھجوریں لا یا اور حضور انو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے آگے رکھ دیں جنھیں آپ نے تنا ول فر ما یا ۔”
(۱؎صحیح البخا ری کتا ب الا طعمہ با ب الر طب والتمر قد یمی کتب خا نہ کرا چی ۲ /۸۱۸)
(۹) مقا بلان علی صحفۃ یا کلا ن منھافیأخذ احد منھما شیئا منھا ویضع بین ید ی صا حبہ فھذا علی جا نب الصحفۃ الذی یلی صا حہ کحد یث البخا ری عن انس رضی اللہ تعالی عنہ فجعلت اتتبع الدبا ء وا ضعہ بین ید یہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۲؎ ۔ (۹) دوشخص آمنے بیٹھ کر ایک پیا لے میں کھا رہے ہو ں اور ان میں سے ایک شخص پیا لے سے کو ئی شے لے کر اپنے سا تھی کے قر یب جیسا کہ حد یث بخاری جو سید نا انس رضی اللہ تعالی عنہ سر مروی ہے کہ میں کد و تلا ش کر نے لگا اور اسے رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے آگے رکھنے لگا ۔
(۲؎صحیح البخا ری کتا ب الا طعمہ با ب الثر ید قد یمی کتب خا نہ کرا چی ۲ /۸۱۵)
(۱۰) جعلنا من بین اید یھم سدا ۳؎
علی الا تصا ل الحقیقی کما علمت ۔ (۱۰) ہم نے ان کے آگے ایک دیو ار بنا دی یہ اتصا ل حقیقی پر محمو ل ہے جیسا بنا دی یہ اتصا ل حقیقی پر محمو ل ہے جیسا کہ تو نے جا نا ۔
(۳؎القرا ن الکر یم ۳۶/ ۹)
وبا لجملۃ کل ھذہ الا ختلا فا ت انما تنشؤ من اختلا ف المقا ما ت ولا دلا لۃ علی شیئ منھا للفظ بین ید یہ واذا کا ن الا مر علی ما وصفنا بطل الا ستد لا ل بہ علی الا تصا ل او القر ب الاخص حتی یستفا د منہ کو ن الا ذا ن دا خل المسجد فضلا عن کو نہ لصیق المنبر وھم المستد لو ن فلیا تو ا ببر ھا ن ان کا نو ا صادقین وانی لھم ذلک وا ذ قد عجز وا و للہ الحمد فیسا لو نا ان نتبر ع ونفید ھم ان القر المد لو ل ھو ان یکو ن ظا ھر ا مشا ھد ا لا یحتا ج معہ فی رؤیتہ الی تحو یل الو جہ کما قد منا التنصیص بہ عن الا ئمۃ ھذا ھو القد ر المشتر ک والزیا دۃ تستفا د من خصو ص المقا م کما علمت وھی ھھنا کو ن الا ذا ن فی حد ود المسجد وفنا ئہ فتم الا مر وحصل النصر فظہر امر اللہ وھم کا ر ھو ن والحمد للہ رب العلمین ۔ خلا صہ کلا م یہ ہے کہ قر یب کے یہ مختلف معا نی مو ارد اور مقا مت کے اختلا ف کی وجہ سے پید ا ہو ئے ہیں۔ان معا نی پر دلا لت کر نے میں خو د لفظ ”بین ید یہ” کو کو ئی دخل نہیں اور جب صور ت حا ل یہ ہے تو لفظ بین ید یہ سے کسی خا ص قر ب پر استدلا ل با طل ہے جس سے اذا ن کا منبر کے متصل یا مسجد کے اندر ہو نا سمجھا جا ئے نہ کہ یہ حکم دیا جا ئے کہ اذا ن منبر سے لگ کر دی جا ئے اور چو نکہ اس قر ب کے مد عی وہ لو گ ہیں اور لفظ بین ید یہ سے اس مد عی پر وہی لو گ استد لا ل کر تے ہیں تو انہیں ہی علیحد ہ سے کو ئی دلیل لا نی چا ہیے کہ یہا ں اس لفظ سے مراد یہی قر ب ہے اور یہ بھلا ا ن کے بس کی با ت کہا ں !اور وہ خو د یہا ں بین دید یہ کے معنی متعین کر نے سے عاجز ہو ں توہم سے دریا فت کر یں ہم تبر عا انہیں بتا تے ہیں کہ یہا .ں وہی قر ب مراد ہے جواس لفظ کا مد لو ل ہے یعنی موجو د و مسا ہد جسے دیکھنے کے لیے چہر ہ دا ئیں یا با ئیں مو ڑنے کی ضرور ت نہ پڑے قر ب کے تما م افراد میں یہی معنی مشتر ک ہے اور اس معنی پر اضا فہ تو مو قعہ استعما ل کی خصو صیت سے مستفا د ہو تاہے جو مسئلہ دائر ہ میں مسجد کی با ہر ی حد یں اور بیر ونی صحن ہے با ت مکمل ہو گئی اور مسلک حق مؤید با لدلیل ہو گیا اللہ تعالی کا فیصلہ ظا ہر ہو گیا مگر یہ لو گ اس کو نا پسند کر تے ہیں ہم تو اس ظہو ر حق پر اللہ تعالی کی حمد ہی کر تے ہیں ۔
ثا لثا: نبینا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الحکم العد ل وما کا ن عھد ہ فھو الفصل الم تسمع من الحد یث الصحیح ان ھذا ا لاذا ن کا ن یکو ن بین ید یہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علی با ب المسجد فعلم ان ھذا القد ر من القر ب ھو المراد ھھنا فمن زادا و نقص فقد تعد ی وظلم ای من زاد فی القر ب فا دخل الا ذا ن فی المسجد با لمعنی الاول فقد تعد ی فی سنۃ المصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ومن نقص منہ فجعل ھذا الاذا ن خا رج المسجد با لمعا نی الثلثۃ فقد ظلم ومن جعلہ داخل المسجد با لمعینین الا خر ین و خار ج المسجد با لمعنی الا ول فھو الذی بالحق حکم و حکم اللہ ورسو لہ اجل واحکم جل و عز وتعالی و تکر م وصلی اللہ تعا لی علیہ وسلم ۔ ثالثاً : یہا ں بین ید یہ کی حدمتعین کر نے کے لیے رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ ولسم ھکم العد ل ہیں اور جو حضو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عہد میں ہو تا تھا وہی حق و با طل کے درمیا ن امتیازہے جسے حد یث صحیح سے سنا جا چکا کہ حضور کے سا منے مسجد کے دروا زہ پر اذا ن ہو تی تھی تو یہا ں قر ب کی بحکم رسو ل یہی حد مقر ر ہو ئی اور جو اس پر اضا فہ کرے یااس میں کمی کرے وہ ظلم و تعدی کرنے والا ہے پس جس نے اس قرب مروی میں اضافہ کرکے داخل مسجد کر دیا تو اس نے سنت رسو ل پر زیا دتی کی ،اور جس نے اس قر ب میں کمی کی کہ ہر سہ معنی مسجد سے اس کو خا رج کرد یا اس نے بھی ظلم کیا اور جس نے دو آخری معنی کے اعتبا ر سے خا رج مسجد کیا اور معنی اول کے اعتبا ر سے دا خل مسجد کیا، اس نے حق کے موافق حکم کیا ،اور حکم و اللہ ورسو ل جل وعلا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ۔
نفحہ ۲: ظہر مما زھر وللہ الحمد سفا ھۃ من تشبث ھھنا یقو ل الرا غب فی مفرا دتہ یقول : یقال ھذا الشیئ بین ید یک ای قر یبا منک ۱؎،۱ھ وبکلا م الکشاف والمدارک :حقیقۃ قولھم جلست بین یدی فلا ن ۲؎الخ نفحہ ۲: الحمد للہ گز شتہ صفحا ت میں تحقیقات کے جو گلشن لہلہا ئے ان سے ان صا حب کی نا سمجھی ظا ہر ہو گئی جنھو ں نے اذا ن خطیب کے دا خل مسجد ہو نے پر مفردات اما م راغب اصفہا نی کے اس قول سے استد لا ل کیا کہا جا تا ہے کہ یہ چیز تمھا تے سا منے ہے یعنی تم سے قریب ہے اور کشا ف اور مدا ر ک کے مذکو رہ با لاقو ل سے “میں فلا ں کے سا منے بیٹھا الخ ”۔
(۱؎المفردات فی غرا ئب القرا ن البا ء مع الیا ء تحت اللفظ ”بین ”نو ر محمد کا ر خا نہ تجا ر ت کتب کر اچی ص۶۸)
(۲؎مد ار ک التنزیل (تفسیر النسفی )تحت الا یۃ ۴۹ /۱ دار الکتا ب العر بی بیر و ت ۴/۱۶۵)
(تفسیر الکشا ف تحت الا یۃ ۴۹ /۱ دار الکتا ب العر بی بیر و ت ۴/۳۴۹)
فاولا ،لاننکر ان اللفظ ربما یلا حظ فیہ القر ب ولکن قد علمت ان للقر ب عرضا بعیدا ۔ اولاً: ہم تو اس کا اعترا ف ہی کر تے ہیں کہ لفظ بین یدیہ بسا اوقا ت قر ب کے لیے استعما ل ہو تا ہے لیکن خو دقر ب میں بھی تو بڑی وسعت ہے ۔
وثا نیاً: لم ید را ن الزیا دۃ فی جلست بین ید یہ مستفا دمن خصو ص الجلو س کما بینا ولہ ایضا عر ض عر یض فا لو زیر الا عظم والسو قی حضر ا فا مر السلطا ن با لجلو س ،کلا ھما یقو ل جلست بین ید ی الملک ولکن شتا ن ما قر ب الو زیر وقر ب من فی صف النعا ل او لعلہ لم یجلس الا علی عتبۃ البا ب فینقلب السند علی من استذا ذ صد ق علی من فی البا ب کو نہ بین ید ی من فی صد ر المجلس والمحراب۔ ثا نیاً : انھیں یہ امر محسو س ہی نہ ہو ا کہ یہا ں لفظ بین ید یہ کے معنی مشتر ک حا ضر و مشا ہد پر قر ب کی زیا دتی جلو س کی خصو صیت سے مستفاد ہے پھر اس جلو س خا ص کے بھی متعد د مرا تب ہیں ایک با زا ری آدمی اور وزیر اعظم دو نو ں با دشا ہ کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں اور دونوں ہی اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میں بادشاہ کے پا س بیٹھا تھا، لیکن دو نو ں پا س میں کتنا فرق ہو تا ہے کہ وزیر با دشا ہ کے سا تھ صد ر میں ہو تا ہے اور عا م آدمی جو تا نکا لنے کی جگہ بلکہ چو کھٹ کے با ہر تو اس لفظ سےقر ب پر استدلا ل الٹ گیا کہ دربار کے دروا زہ کی چو کھٹ کے پا س بیٹھنے والا بھی صدر میں بیٹھنے وا لے کی طر ح بین ید یہ اور پا س ہے۔
ثا لثاً : حفظت شیئا و غا بت عنک اشیا ء ایھا لرا غب ا لی قو ل الر ا غب ھل تظنہ مخالفا للنصو ص التی قد منا عن ائمہ اللغۃ وجھا بذۃ التفسیر ام لا ؟فعلی الا ول ما الذی راغبک عنھم الی من شذوھم الجم الغفیر وعلی الثا بی الم یکفک ما للحا ضر المشا ھد من القر ب فا ن الر ؤیۃ العا دیۃ مشروط لھا لقر ب ام زعمت ان القرب حد معین لا تشکیک فیہ فا ذ ن لا یحا ور ک ال مثلک سفیہ وھذا ربنا تبا رک و تعالی قا ئلا وقو لہ الحق ”اقتر بت السا عۃ وانشق القمر ۔” ۱
بل قال عزوجل ”اقتر ب للنا س حسا بھم وھم فی غفلۃ معر ضو ن ۲؎”
والحسا ب بعد قیا م السا عۃ بنصف الیو م ، والیو م کا ن مقدارہ خمسین الف سنۃ ۔ ثالثاً : راغب کے قول میں یہ رغبت ظاہر کرنے والوں کو کچھ یاد رہا اور کچھ بھول گئے کیونکہ مخالف نے امام راغب کے قول کے جو معنیٰ بتائے وہ ان آئمہ لغت و تفسیر کے خلاف ہے یا موافق، اگر خلاف ہے تو آپ نے جمہور ائمہ لغت کی تصریحات کو چھوڑ کر امام راغب کے شاذ قول کی طرف کیوں رغبت ظاہر فرمائی، اور اگر خلاف نہیں تو حاضر و مشاہد میں جتنا قرب ہے اس پر قناعت کیوں نہیں، حالانکہ روئیت عادیہ کے لئے قریب ہونے کی شرط لابدی ہے، یا تم قرب کے ایک متعین حد مانتے ہو اور اسے کلی مشکک نہیں مانتے۔ پھر تو آپ کا جواب آپ کے جیسا نا سمجھ ہی دے سکے گا۔ اللہ تبارک و تعالٰی اپنے قول حق میں فرماتا ہے :”قیامت قریب ہوئی اور چاند شق ہو چکا”۔ بلکہ اسی قدوس و پروردگار نے فرمایا:”لوگوں کے حساب کی گھڑی آپہنچی اور وہ ابھی غفلت میں اعراض کر رہے ہیں۔” حالانکہ حساب قیام قیامت کے بعد آدھا دن گزار کر ہوگا،اس وقت ایک دن کی مقدار آج کے پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی۔
(۱؎القرا ن الکر یم ۵۴ /۱) (۲؎القرا ن الکر یم ۲۱ /۱)
ورابعاً : ذکر الا ما م القد ور ی فی الکتا ب الحر ز علی ضربین منھما حر ز با لحا فظ۱؎فقا ل فی الجو ھر ۃ النیر ۃ ”ھذا اذکا ن الحا فظ قر یبا منہ بحیث لا یر ا ہ فلیس بحا فظ ۲؎،۱ھ”فا نظر جعل ما یر ی قر یبا وما نا ی بحیث لا یر ی بعید ا فھذا ھو معنی القر ب فی کلا م الرا غب مو فق لما نص علیہ الا ئمۃ الا طا ئب۔ رابعا: اما مقد ور ی نے اپنی کتا ب میں فر ما یا اشیا ء کی حفاظت کے دو طر یقے ہین(۱)نگر ا ن کے ذریعہ حفاظت جوہرہ نیر ہ میں اس کی تشر یح فر ما ئی کہ محا فظ چیز سے اتنا قر یب ہو کہ اسے دیکھتا رہے اور اگر اتنا دو ر ہو یا کہ چیز نگاہ سے اوجھل ہو گئی تو یہ حفا ظت نہیں ہے اما م قد وری اور صا حب جو ہر ہ نے قر ب و بعد کا مدار دیکھنے نہ دیکھنے پر رکھا تو کلا م را غب میں بھی قر ب سے مراد یہی حا ضر و مشا ہد ہو ناچا ہیے جیسا کہ دیگر ائمہ لغت و تفسیر کی تحقیق ہے ۔
(۱؎المختصر للقد وری کتا ب السر قۃ مطبع مجید ی کا نپو ر ص۲۵۰)
(۲؎الجوھرۃ النیرۃ کتا ب السر قۃ مکتبہ امدادیہ ملتان ۲/ ۲۶۱)
خا مساً : یقو ل لک الر ا غب اراغب انت عن بقیۃ کلا می یا غفو ل فا ن کلا مہ ھکذا ”یقا ل ھذا الشیئ قر یب منک وعلی ھذا قولہ : لہ ما بین اید ینا و مصد قا لما بین ید ی من التو را ۃ الخ وقو لہ قا ل الذین کفر وا لن نؤمن بھذا القرا ن ولا با لذی بین ید یہ ای متقد ما لہ من الا نجیل ونحو ہ ۱؎ ۱ھ (با ختصا ر )” خا مسا: اس مستد ل سے خود اما م را غب کو شکا یت ہو گی کہ اس نے میر ی پو ری با ت یا د نہیں رکھی کیو نکہ ان کی پو ری با ت تو یہ ہے :”محا روہ ہے کہ یہ چیز تمھا رے سا منے یعنی تم سے قر یب ہے اللہ تعا لی کے مند رجہ ذیل اقوا ل میں لفظ بین ید یہ سے یہی قر ب مراد ہے (مثلا اللہ تعالی نے فر شتو ں کی زبا نی سے کہلا یا )جو ہما رے سا منے ہے سب خدا کے لیے ہے (اور قرآن کے لیے خو د فر مایا )اپنے سے آگے عالے کتاب تو را ۃ کی تا ئید کر تا ہے اور کا فر و ں کا قول نقل کیا کہ ہم نہ تو قرآن پر ایما ن لا ئیں گے نہ اس سے پہلے کی کتا بو ں مثلا انجیل وغیر ہ پر ”
(۱؎المفر دا ت فی غرا ئب القرا ن البا ء مع الیا ء تحت اللفظ ”بین”نو ر محمد کا ر خا نہ تجا ر ت کتب کر اچی ص۶۸)
فانظر علی ما حمل القرب وقد جعل مفرعا الیہ “لہ ما بین ایدینا” اتراہ یقول ان مراد لاملٰئکۃ تخصیص ملک اللہ تعالٰی بما یلیھم۔ اس پوری عبارت میں امام راغب نے بین یدیہ کے معنی قریب بتاکر اس کا مصداق لہ مابین ایدینا کو قرار دیا، توکیا فرشتوں نے ہمارے سامنے کہہ کر صرف اپنی متصل اشیاء مراد لی ،کیا صرف وہی اللہ تعالٰی کی ملک ہیں ؟
وسا دساً:فر ع علیہ ”مصد قا لما بین ید ی من التو را ۃ ۱؎”وبینھما الفا سنۃ فا ذا لم یمنع ھذا الفصل الکثیر الزما نی من القر ب لم یمنع منہ الفصل القلیل المکا نی بین المنبر و حر ف المسجد و ربما لا یبلغ ما ئۃ ذرا ع بل ولا فی کثیر من المسا جد عشر ین ۔ سادساً : اسی معنی قر یب کی فر ع مصد قا لما بین ید ی من التو را ۃ کو کہا جن میں دوہزا ر سا ل کا فا صلہ ہے تو جب یہ عظیم زما نی فا صلہ لفظ بین ید یہ کے معنی قر ب کے منا فی نہیں تو قر ب مکا نی میں مسجد کے حدود اور اس سے متصل زمین کا فا صلہ بین ید یہ کے معنی قر ب کے کیا منا فی ہو گا جو عا م طو ر سے سو ہا تھ بھی نہیں ہو تا بلکہ کئی مسا جد میں بیس ہا تھ بھی نہیں ہو تا ۔
(۲؎القرا ن الکر یم ۳ /۵۰)
وسا بعاً : ثم قا ل الرا غب انزل علیہ الذکر من بیننا ای من جملتنا وقو لہ لن نؤ من بھذا القرا ن ولا بالذی بین ید یہ ای متقد ما لہ من الا نجیل و نحو ہ ۲؎ انتھی فھذا تفسیر اخر لبین ید یہ ” تقیید با لقر ب فقد افا د کلا الو جھین واقتصر ت علی الا ول بالشین والمین ۔” سابعا : اگر اما م راغب کے قو ل ”قو لہ وقا ل الذی کفر و ا کو ما سبق وا لے قو لہ پر ہی معطو ف قرا ردیجئے تو اب لگ بھل تین ہزار سا ل کا فا صلہ بھی قر یب ہی ہو گا اور اس کو جملہ مستا نفہ قرار دیا جا ئے تو اب یہ لفظ بین ید یہ کے دوسرے معنی کا بیان ہو تا کہ بین ید یہ کے معنی (جیسے قر یب ہو تے ہیں ویسے اس کے ایک معنی )جملہ کتب ما ضیہ بھی ہیں جو بعید تر ہیں اسی طر ح اما م را غب کے ہی بیا ن سے بین ید یہ کے ،معنی قر یب و بعید دو نو ں ہی ثابت ہو ئے پھر آپ کو معنی قر ب پر اصرا ر کیو ں ہے ؟”
(۱؎المفر دا ت فی غرا ئب القرا ن الیا ء مع البا ء تحت اللفظ ”بین ”نو ر محمد کا ر خا نہ تجا ر ت کتب کر ا چی ص۶۸)
وثا مناً : سلمنا لک ان مراد الر اغب ما تر ید ولکن ھذا صا حب رسو ل اللہ صلی للہ تعالی علیہ وسلم السا ئب بن یزید العر بی صا حب اللسا ن یقو ل کا ن یو ذن بین یدیہ رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی وسلم علی باب المسجد ۱؎ھو ا علم باللسان ام انت و راغبک و با لجملۃ احد یث فی جبھۃ حجا جکم کیۃ لا تمحی فللّٰہ الحمد ، ثا مناً: چلئے ہم نے اما م راغب کے قو ل کی وہی مراد تسلیم کر لی جو آپ کو مر غو ب ہے مگر اس کو کیا کجیئے گا کہ صحا بی رسو ل حضر ت سا ئب بن یزید عر بی رضی اللہ عنہ جو خو د بھی صا حب زبا ن ہیں اور آپ اور آپ کے اما م راغب دو نو ں سے زیا دہ عر بی زبا ن کی با ریکیا ں سمجھتے ہیں وہ حضو ر صلی اللہ تعا لی وسلم کی اذا ن جمعہ کو بین ید ی رسو ل اللہ علیہ وسلم کی اذا ن جمعہ کو بین ید ی رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بھی کہتے ہیں اور علی با ب المسجد بھی کہتے ہیں یہ حد یث گر ا می تو آپ کی کٹھ حجتی کے منہ پر ایسی مہر ہے جس کا ٹو ٹنانا ممکن ہے ہم اس پر اللہ تعالی کی حمد بجا لا تے ہیں ۔
تا سعاً: اعتر ف ھذالمستد ل با ن بین ید یہ فی بعض المو ا ضع بحسب المقا م تکو ن خا لیاً تکو ن خا لیا عن معنی القرب دالا علی مجر د المحا ذا ۃ قا ل کما صا ر واقعا فی بعص الایا ت القر ینیۃ ایضا لکن ھھنا ای فی مسئلۃ الا ذا ن لم یصر ح بھذا فی کتاب (۱ھ متر جما )فقد اقرا ن بین ید یہ یستعمل علی کلا الوجھین وانہ ورد فی القرا ن العظیم ایضا با لوجہین ثم یقو ل لم یصر ح بہ ھھنا فی کتاب یا مسکین انت المستد ل واذا جا ء الا حتما ل بطل الا ستد لا ل فما ینفعک عد م التصریح انہ انما کا ن علیک ان تبد ی تصریحا بنفیہ و لکن الجھل بمسا لک الا حتجا ج یا تی با لعجا ئب ۔ تا سعاً : مستد ل نے یہ بھی اعترا ف کیا ہے کہ بین یدیہ بعض مواقع میں قر ب سے خا لی بھی ہو تا ہے اور صر ف سامنے اور مقا بل کے معنی میں آتا ہے جیسا کہ بعض آیا ت قرا نی میں بھی وا قع ہو ا ہے مگر مسئلہ اذا ن میں جو لفظ بین ید یہ آیا ہے اس کے معنی صر ف وہ محا ذا ۃ ہے جو قر ب سے خا لی ہو اس کی تصر یح کسی نے نہیں کی ہے ۱ھ۔مقا م حیر ت ہے کہ ”بین ید یہ ”کو قر یب و بعید دونو ں کے لیے ما ن کر اور یہ تسلیم کر کے کہ قرا ن عظیم میں ایسا وارد ہے اور مستد ل ہو کر سا دگی سے یہ کہنا کہ مسئلہ متنا زعہ میں بین ید یہ کے معنی بعید ہو نے کی تصر یح کہیں سے ثا بت نہیں (الٹی بھیر ویں الاپنا ہے) اس عد م ثبو ت سے مستد ل کو کیا فا ئد ہ پہنچے گا ۔آپ کا استد لا ل تو اس احتما ل کے تسلیم کر تے ہی ختم ہو گیا کہ ”اذا جا ء الا حتما ل بطل الا ستدلا ل ”اب تو اگر آپ یہ ثا بت کر سکتے ہیں کہ مسئلہ اذا ن میں اس لفظ کے معنی بعید نہیں مراد ہیں تو با ت بنتی اور یہ آپ کے بس سے با ہر ہے جبھی تو معنی محتمل مراد نہ ہو نے کی تصر یح کے عدم سے استد لا ل کر نے لگے سبحا ن اللہ ۔۔ یہ بھی پتہ نہیں کہ مستدل کا مو قف کیا ہے اور معتر ض کو کس با ت سے فا ئد ہ پہنچتا ہے۔
ثم قو لہ لما لا یر ید ہ ولا یر ضا ہ کما صا ر واقعا فی بعض اٰ یا ت القرا ن ایضا یلمح الی شیئ اصعب فا ن مثل ھذا ا لکلا م فی مثل ھذا المقا م یقا ل لما وقع سہو ا ا و خطا ءً علی خلا ف الجا دۃ نسا ل اللہ العفو و العا فیۃ ۔ اسلو ب بیا ن کی خا می یہ جملہ جیسا کہ قرا ن کی بعض آیا ت میں واقع ہو ا یہ بتا نے کے لیے بو لتے ہیں کہ یہ جوواقع ہو ا سہو ا و خطا ءً واقع ہو ا کیا قرا نی آیا ت کے لیے یہ اسلو ب بیا ن صحیح ہے اللہ تعالی سے ہم عفو کے طالب ہیں
عا شر ا : اذ قد ثبت فی القران العظیم فلم انت را غب عنہ الی قول الر ا غب و تزعم ان المفا د ھو الذی قا لہ لا ما وقع فی القرا ن الکریم فا ن زعمت ان ما انت فیہ لیس محلہ کا ن علیک ابد ا ء ما ھو محلہ وانہ فی القرا ن لا ھھنا واثبات کل ذلک بالبینۃ والا فلم تقر بانہ فی القرآن المجید ثم انت عنہ تحید ولا ھو ل ولا قو ۃ الا با للہ العلی العزیز الحمید ۔ عاشر اً : جب تم نے یہ تسلیم کر لیا کہ ”بین ید یہ ”کے معنی قرآن میں بعید مقا بل کے لیے ہے تو اس سے منہ مو ڑ کر اس کے را غب کے بیان کے مطا بق قر یب لینے کی کیا وجہ ہے اگر کو ئی وجہ فر ق تھی تو آپ کو دو نو ں ہی پہلو کے لیے دلیل دینی چا ہیے تھی کہ قرآن میں بعید ہو نے کی یہ وجہ ہے اور اذا ن میں قریب مراد ہو نے کی دلیل یہ ہے اور جب آپ کے پا س تفر یق کی کو ئی دلیل نہی تو قرآن عظیم سے رخ مو ڑ کر را غب کا دا من پکڑنا کار ذلیل ہے ۔
نفحہ ۳: نص ائمتنا فی الا صو ل ان ”عند للحضور ”قا ل الا ما م الا جل فخر الا سلا م البزدوی فی اصو لہ والا مام صد ر الشر یعۃ فی التنقیح والتو ضیح ،واقرہ العلا مۃ سعد التفتا زا نی فی التلو یح (عند للحضر ۃ ۱؎) وفی تحر یر المحقق علی الا طلا ق وشر حہ التقر یر لتلمیذہ المحقق الحلبی (عند للحضر ۃ )الحسیۃ نحو فلما را ہ مستقر ا عند ہ ،والمعنو یۃ نحو قا ل الذی عند ہ علم من الکتاب ۱؎ ۱ھ وقا ل الا ما م الا جل ابو البر کا ت النسفی فی المنا ر وشر حہ کشف الا سرا ر والعلا مۃ شمس الد ین الفنار ی فی الفصو ل البد ا ئع فی الا صو ل الشرائع والعلا مۃ مولی خسر و فی مرا ۃ الا صو ل و شر حۃ مرقا ۃ لو صو ل (عند للحضر ہ الحقیقۃ او الحکمیۃ ۱ھ،۲؎) وفی مسلم الثبو ت للمد قق البھا ری و شر حہ فو ا تح الر حمو ت للملک العلا ما ء بحر العلو م عبد العلی (عند للحضرۃ الحسیۃ ) نحو عند ی کوز (والمعنویۃ )نحو عند ی دین لفلا ن ۳؎۱ھ ۔ نفحـہ۳ : ہما رے اما مو ں نے اصو ل کی کتا بو ں میں تحریر فر ما یا کہ عند حضور کے لیے ہے چنا نچہ اما م فخر الا سلا م بزدوی نے اپنے اصو ل میں اور اما م صد ر الشر یعہ نے تنفیح و تو ضیح میں اور علا مہ تفتا زا نی نے تلو یح میں فرما یا کہ ”عند حجو ر کے لیے ہے محقق علی الا طلا ق اور ان کے شا گر د رشید محقق حلبی کی شر ح تقر یر میں ہے کہ عند حضو ر حسی کے لیے ہے جیسے آیۃ کر یمہ فلما را ہ مستقر ا عند ہ، اور حضور معنو ی کے لیے جیسے وقا ل الذی عند ہ علم من الکتا ب اس نے کہا جس کے پا س علم کتاب تھا اور اسی طر ح اما م اجل ابو البرکا ت نسفی نے منا ر میں اور اس کی شر ح کشف الا سرا ر میں اور علا مہ شمس الد ین الفنا ری نے فصو ل البد ا ئع فی اصو ل الشر ائع میں مولاخسر و نے مرا ت الا صو ل اور اس کی شر ح مرقات الو صو ل میں فر ما یا کہ عند حضور حقیقی یا حکمی کے لیے آتا ہے مد قق بہا ری نے مسلم الثبو ت میں ملک العلما ء بحر العلو م نے فوا تح الر حمو ت میں فر ما یا کہ عند حضورحقیقی کے لیے ہے جیسے عند ی کو ز (میر ے پا س پیا لہ ہے )۔ اورمعنو ی کے لیے جیس ے عند یدین لفلان (مجھ پر فلا ں کا قر ضہ ہے ) ۔
(۱؎اصو ل البزدوی با ب حروف البحر نور محمد کا ر خا نہ تجا ر ت کتب کرا چی ص۱۱۳)
(۱؎التقر یر و التحبیر مسئلہ عند للحضر ۃ دار الفکر بیر وت ۲ /۱۰۱)
(۲مرقاۃ الاصول شرح مرآۃ الاصول )
(فصو ل البد ا ئع فی اصول الشر ائع )
(۳؎فواتح الر حمو ت شر ھ مسلم الثبو ت بذیل المستصفی مسا ئل الظروف مسئلہ عند للحضر ۃ منشورات الشر یف الر ضی قم ایران ۱ /۲۵۰)
ومعلو م ان کلا حا ضر بالمر أی وکل ما بالمر أی قریب فلا القر ب ینکر ولا فی الاتصا ل یحصرفما د عند او سع من مفا د ”بین ید یہ ”فضلا عن ان یزید ضیقا علیہ وقد فرقوا بین لدی وعند با ن عند یستعمل فی القر یب والبعید ولد ی مختص با لقر یب ۔قا ل الر ضی فی شر ح الکا فیۃ عند اعم تصرفا من لد ی لا ن عند یستعمل فی الحا ضر القر یب وفیما ھو فی حرزک ان کا ن بعید اً بخلا ف لد ی فا نہ لا یستعمل فی البعید ۱؎۱ھ ، والقر ب کما علمت ذو وسع بعید و لنو ضح ھھنا ایضا با یا ت الکلا م الحمید ۔ اور یہ با لکل واضح ہےکہ حا ضر پیش نگا ہ ہے اور جو پیش نگا ہ ہے قریب ہی کہا جا ئے گا تو نہ تو عند کے معنی سے قر ب کے انکا ر کی گنجا ئش اور نہ عند کے لیے سا تھ چپکا ہو نا ضروری ہے اور سچ پو چھو تو عند اپنے مفا د میں بین ید یہ سے بھی زیا دہ وسیع ہے نہ یہ کہ عند کو بین ید یہ سے تنگ ما نا جا ئے چنا نچہ عند اورلد ی میں یہی فر ق بیا ن کیا جا تا ہے کہ عند قریب و بعید دونو ں کے لیے اور لد ی خا ص طو ر سے قر یب پر دلا لت کر تا ہے رضی نحوی نے شر ح کا فیہ میں تحریر کیا :”عند اپنے تصر فا ت میں لد ی سے اعم ہے کہ وہ پا س اور دور دونو ں میں مستعمل ہے اور لدی کا استعما ل بعید میں ہو تا ہی نہیں ہے ۔”اور ہم پہلے بیا ن کر آئے ہیں کہ خود قر یب کی جو لا نگا ہ بھی بہت وسیع ہے مزید آیا ت قرآنیہ سے ہم اسے واضح کر تے ہیں :
(۱؎الر ضی فی شر ھ الکا فیہ ”الظروف”لدی ولد ن وقحط عو ض دار الکتب العلمیہ بیر وت ۲ /۱۲۳)
(۱) قا ل اللہ عز و جل : ”ان الذین یغضو ن اصوا تھم عند رسو ل اللہ ۲؎(الا یۃ )۔” (۱) اللہ تعا لی نے فر ما یا :”جو لوگ رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے حضور اپنی آواز پست کر تے ہیں ۔”
(۲القرآن الکریم ۴۹/ ۳)
ومر ت فی النفحۃ الا ولی القر ا نیہ امر کل من فی مشھد ہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم بغض الصو ت ولا یختص با لذی یلیہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فسوا ء فیہ من لد یہ ومن علی البا ب کلھم عند رسو ل اللہ بلا ارتیا ب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ولا یحل لا حد ان یصیح و یصر خ فی حضر تہ او یر فع صو تا فو ق ضرورتہ ولو کا ن مفا د ”عند ”ما یز عمو ن لشمل ھذا الو عد الجمیل بمغفر ۃ واجر عظیم من قا م بحضر تہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علی فصل عد ۃ اذرع فجعل یصیح مع اخر صیاحا شد ید ا منکرا فا ذا کا ن منہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بفصل شبر مثلا او تکلم ھو صلی اللہ تعالی علیہ وسلم غضّ صو تہ وھذا لا یقو ل بہ مسلم لہ عقل ۔ نفحہ اولی قرآنیہ میں واضح کر آئے ہیں کہ یہ حکم ہر اس شخص کے لیے ہے جو رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پیش نگا ہ ہو حضور کے با لکل پا س بیٹھنے وا لو ں کے لیے کچھ خا ص نہیں بلکہ جو پا س ہے اورجو باب مسجد کے پاس ہے سب کے لیے یہی ھکم ہے محرا ب رسو ل اور دروازہ مسجد پر بیٹھنے والے دو نو ں ہی عند رسو ل اللہ کہے جا ئیں گے سبھی کے لیے چیخنا اور چلا نا منع ہے بلکہ یہ کہیئے کہ ضرورت سے زیا دہ آوا ز نکلا لنا منع ہے اور اس مقا م پر اگر عند کے وہی معنی ہو ں جو یہ لو گ اذا ن عند منبر میں مراد لیتے ہیں آواز پست رکھنے پر مغفر ت اور اجر عظیم کے وعد ہ کا مستحق وہ بے ادب بھی ہو جا ئےگا جو رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم سے چند ہا تھ کی دوری پر کھڑا چیخ رہا ہو یا صر ف اس کے لیے خا ص ہو گی جو حضو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے ایک با لشت کی دوری پر کھڑا ہوکر کسی سے پست آواز میں با ت کر ے یا خود حضور ہی سے کلا م کر ے اور چارہاتھ دور کھڑا ہو کر کسی سے پست آواز سے با ت کر ے تو وہ دائرہ رحمت و مغفر ت سے با ہر ہے کہ (وہ عند رسو ل اللہ نہیں) بھلا کو ن عقلمند مسلما ن ایسا کہہ سکے گا ۔
(۲) قا ل جل وعلا : ”ھم الذین یقو لو ن لا تنفقو ا علی من عند رسو ل اللہ حتی ینفضو ا ۱؎۔” (۲) ارشا د الہی ہے :
”یہ منا فقین کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم خر چ نہ کر و تا کہ یہ ادھر اُدھر منتشر ہو جا ئیں۔”
(۱؎ القرا ن الکر یم ۶۳ /۷)
وھذا وسع من ذا ک یشمل کل من فی خد متہ وان لم یکن الا ن فی حضر تہ ۔ یہا ں عن کا مفہو م پہلے وا لی آیت سے بھی وسیع ہے کیو نکہ یہا تو عند سے مراد وہ سبھی لو گ ہیں جو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خد مت کر تے ہیں اگر چہ فی الحا ل حضو ر سے بہت دور ہو ں ۔
(۳)قا ل تبا ر ک و تعا لی : ”یقو لو ن طا عۃ فا ذا بر زوا من عند ک بیت طا ئفۃ منھم غیر الذی تقو ل واللہ یکتب ما یبیتو ن ۱؎۔” (۳) اللہ تبا ر ک وتعا ی کا ارشا دگر ا می ہے (کہ منا فق آپ کے سا منے کہتے ہیں ):”ہم آپ کے فرما نبردار ہیں ، اور جب آپ کے پا س دے دور ہو جا تے ہیں تو ان کی ایک جما عت اس کے خلا ف بو لنے لگتی جو آپ کے سا منے کہہ چکے ۔”
(۱؎القرا ن الکر یم۴ /۸۱)
ھذا فی المنا فقین وما کا نو یلو نہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم فی المجلس انما کا ن ذلک لا بی بکر وعمر رضی اللہ تعالی عنھما ثم لا یختص بمن کا ن اقر ب منھم با لنسبۃ الی الا خر یشمل ہو جمیعا ۔ یہ منا فقین کے حا ل کا بیا ن ہے اور تا ریخ شا ہد ہے کہ منا فقین رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے دربا ر میں آپ کے با لکل پا س نہیں بیٹھتے تھے قر یب کی جگہ تو ابو بکر وعمر ،عثما ن وعلی و دیگر مخلصین صحا بہ کے لیے تھی منا فقین تو ادھر اُدھر آنکھ بچا کر بیٹھتے تھے اگر کچھ کسی مجبور ی سے آپ کے سا منے بیٹھ بھی گئے ہو ں تو عند کہہ کر سبھی منا فقین مراد ہیں قر یب بیٹھنے وا لے ہو ں یا دور ۔
(۴)قا ل المو لی سبحا نہ وتعا لی ”ان المتقین فی جنت و نھرo فی مقعد صد ق عند ملیک مقتدرo ۲؎۔” ”بے شک متقین با غو ں اور نہر و ں میں سچ کی مجلس میں عظیم قد ر ت وا لے با دشا ہ کے حضور ہو ں گے ۔”
(۲؎القرا ن الکر یم ۵۴ /۵۴،۵۵)
عمت کل متق و لکن این احا د الصلحا ء من العلما ء و العلما ء من الا ولیا ء والا ولیا ء من الصحا بۃ و الصحا بۃ من الانبیا ء والا نبیا ء من سید الا نبیا ء صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم فر ق لا یقد ر ولا یقد ر بشر ا ن یتصور اعظم با لو ف الآف مرا ت مما بین الفلک الا علی وما تحت الثری وقد شملت کلھم عند ۔ یہ آیت تو سا رے ہی متقیو ں کو گھیر ے ہو ئے ہے لیکن اس میں کہا ں بہ نسبت اولیا ء کے کسی صا لح مسلما ن کا در جہ اور بہ نسبت اولیا ء کے کسی عا لم کا در جہ ،اور بہ نسبت انبیا ء کے کسی ولی کا درجہ اور کہا ں سید الا نبیا ء اور دیگر انبیا ء علیہم السلا م کا درجہ ان مر اتب میں تو فلک الا فلا ک اور تحت الثری سے بھی زیا دہ فا صلہ ہے مگر سب کو عند اللہ سے بیا ن کیا گیا ہے ۔
(۵) مثلہ قو لہ عزوجل ”ان للمتین عند ربھم جنت النعیم ۱؎”
(۱؎القرا ن الکر یم۶۸ /۳۴)
(۵) اسی طر ح اللہ عز وجل کا ارشا د گر امی ہے
”بے شک متقین کے لیے رب کے پا س جنت نعیم فر ما یا ہے۔”
(۶)فی اٰیۃ اخر ی وقا ل العلی الا علی تبا ر ک وتعا لی ”اذ قالت رب ابن لی عندک بیتا فی الجنۃ۔۲؎” (۶)دوسر ی آیت میں اللہ تبا رک وتعالی نے فر ما یا :”اس نے دعا ما نگی یا اللہ ۔میر ے لیے اپنے پا س جنت میں ایک مکان بنا دے ۔”
(۲؎القرا ن الکر یم ۶۶ /۱۱)
ومعلو م ان اللہ تعا لی قد اتجا ب لھا وقد فر ج لھا ففی الد نیا ون بیتھا کما فی حد یث سلما ن ۳؎و حد یث ابی ہر یر ہ بسند صحیح رضی اللہ تعا لی عنہما وما کا نت لتطلب اقر ب المنا زل وا ن تفضل علی الانبیا ء والر سل علیہم و علیھا الصلو ۃ والسلا م ،بل قربا یلیق بھا وان لم یساوی ما لخدیجۃ و فا طمۃ و عا ئشۃ رضی اللہ تعا لی عنھن فضلا عن الا نبیا ء الکر ا م علیہم الصلو ۃ السلا م ۔ (مذکو رہ با لا آیت کے تحت )حضر ت سلما ن وحضر ت ابو ہر یر ہ رضی اللہ تعا لی عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تعا لی نے ان پا ک بی بی کی دعا قبو ل کر لی تو کیا وہ انبیا ء واولیا ء سے بھی زیا دہ قر ب الہی کی طا لب تھیں وہ تو اس کی خواستگا ر تھیں کہ قر ب کا وہ مقا م جو ا ن کے لا ئق عنہن کے در جہ کے ہم پلہ بھی نہ ہو چہ جا ئیکہ انبیا ء عظا م علیہم الر حمہ والر ضوا ن کے در جہ کے بر ابر ہو ۔
(۳؎جا مع البیا ن (تفسیر ابن جر یر )تحت الا یۃ۲۲ /۱۱دار احیا ء التر ا ث العر بی بیر وت ۲۸ /۱۹۲)
(الدر المنثورتحت الا یۃ۲۲ /۱۱دار احیا ء التر ا ث العر بی بیر وت۸ /۲۱۳)
(۷) وقا ل عزوجلا فی الشھد اء ”بل احیا ء عند ربھم ”۱؎
این رجل من احا د الشھد ا ء من سید ھم حمزۃ رضی اللہ تعا لی عنہ بل من نبی اللہ یحیی وغیر ہ ممن استشہد من الا نبیا ء علیھم الصلو ۃ والسلا م ۔ (۷)اللہ تعا لی نے شہد ائے کر ام کے بارے میں ارشا د فر ما یا ”شہدا ء اللہ تعا لی پا س زند ہ ہیں ۔”تو بھلا کہا ں سید الشہد ا ء امیر حمزہ رضی اللہ تعا لی عنہ کا مقا م بلند اور کہا ں اللہ تعالٰی کے نبی یحیٰی علیہ السلام کا مقا م بلنداور کہاں عا م شہد ا ء کر ام رضو ان اللہ تعا لی علیھم کی منزل بلکہ انبیا ء کرا م علیہم السلا م میں شہا دت پا نے وا لو ں کی منزلیں ۔
(۱؎القرا ن الکر یم۳ /۱۶۹)
(۸)قا ل جل ذکر ہ فی الملئکۃ ” فالذین عند ربک”۲؎
تفا وتھم فیما بینھم معلول م غیر مفھو م وما منا الا لہ مقا م معلو م ”۳؎ (۸)اللہ تعا لی فر شتو ں کے با رے میں ارشا د فر ما تا ہے”جو فر شتے تمہا رے رب کے پا س ہیں ان فر شتو ں میں با ہم درف ت کا کتنا تفا وت ہے ہم اس کی حقیقت تو نہیں جا ن سکتے مگر تفا وت ہو ن یقینا معلو م ہے قرا ۤ ن عظیم کا ارشا د ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے ایک متعین مقا م ہے ۔”
(۲؎القرا ن الکر یم ۴۱ /۳۸) (۳؎القرا ن الکر یم ۳۷ /۱۶۴)
(۹)قا ل عز من قا ئل ”وقد مکر و ا مکر ھم و عند اللہ مکر ھم ۴؎”
وماکا ن لمکر الکفا ر ان یکو ن لہ قر ب من العزیز الجبا ر لا مکا نا لا ستحا لتہ ولا مکلا نۃ لا ستھا نتہ وانما ھو للحضور ای حا ضر بین ید یہ لا یخفی علیہ فیر جع الی معنی العلم ۔ (۹) اللہ عزوجل ارشا دفر ما تا ہے ”کا فر وں نے خدا سے مکر کیا ان کا مکر تو خدا ہی کے پا س ہے۔”کا فر و ں کے مکر کے لیے اللہ سے کو ئی قر ب نہیں نہ قر ب مکا نی کہ یہ ذا ت با ری کے لے محا ل ہے نہ قر ب مر تنی کہ مکر تو نہا یت ذلیل چیز ہے لا محا لہ اس آیت میں قر ب سے مراد حضور یعنی یہ اللہ تعا لی کے سامنے ہے اس سے پو شید ہ نہیں تو حضو ر علمی ہوا ۔
(۴؎القرا ن الکر یم ۱۴ /۴۶)
(۱۰) قا ل سبحا نہ ما اعظم شا نہ ثم محلہا الی البیت العتیق۱؎ یعنی البدن قا ل فی المعا لم ای عند البیت العتیق یر ید ارض الحرا م کلھا قا ل فالا یقربو ا المسجد الحرا م کلہ ۲؎،اھ جعل جمیع الجزا ء الحرم اذ کلھا منحر عند البیت ومعلو م ان کثیر ا منھا علی فصل فرا سخ من البیت الکر یم ۔ (۱۰)اللہ جل شا نہ نے ارشاد فر ما یا قربا نی کے جا نو ر ذبح کرنے کی جگہ بیت اللہ کے پا س ہے معا لم التنزیل میں فر ما یا الی البیت العتیق کا مطلب عند البیت العتق ہے یعنی حر م کی پو ر ی زمین (چنا نچہ دوسر ی جگہ )ارشاد ہو ا پو رے حر م کے قر یب نہ جا ؤ آیت مذکور ہ با لا میں پو رے حر م کو منحر عند البیت العتیق قرا ر دیا جب کہ حدود حر م مختلف جہا ت میں بیت اللہ شر یف سے کو سو ں دور ی پر ہے ۔
(۱؎القرا ن الکر یم۲۲ /۳۳)
(۲؎معا لم التزیل (تفسیر البغوی )تحت الا ۤیۃ ۲۲ /۳۳ دار الکتب العلیمہ بیر و ت ۳ /۲۴۲)
(۱۱) تر ی التا بعین یقو لو ن فی احا دیثھم کنا عند عا ئشۃ رضی اللہ تعا لی عنہا فلا ادر ی علی ای قر ب یحملہ المطلو ن ۔ (۱۱)احا دیث کر یمہ میں بہت سے تا بعین فر ماتے ہیں ہم ام المو منین حضرت عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ تعا لی عنہا کے پا س تھے پتہ نہیں یہ با طل کوش یہا ں قر بت کو کتنے قر ب پر محمو ل کر یں گے ۔
(۱۲) یقو ل الحا جب جئت من عند الملک وما کا ن الا علی البا ب ۔ (۱۲)دربا ن کہتا ہے میں ابھی با دشا ہ کے پا س سے آرہا ہو ں حا لا نکہ وہ دروا زہ سے آگے بڑھ نہیں سکتا ۔
(۱۳)یقو ل مکی بیتی عند با ب السلا م وربما کا ن بینھا اکثر من ما ئتی ذرا ع ۔ (۱۳)مکہ کا رہنے وا لا اپنا پتہ بتا تا ہے کہ میرا گھر باب السلام کے پا س ہے ھا لا نکہ بسا ا وقات دو نو فا صلہ دو سو ہاتھ سے بھی زیا دہ ہو تا ۔
(۱۴)یقو ل التلمیذ جلست عند شیخی ثلث سنین کو امل وان لم یکن قیا مہ الا فی مسجد ہ وجلو سہ الا فی اخر یا ت مجلسہ ۔ (۱۴) شا گر د استا ذ کے پا س مکمل تین سا ل رہا حا لا نکہ قیا م اس کا مسجد میں ہو تا ہے اور شیخ کی مجلس میں اسے آخر ی صف میں بیٹھنے کی جگہ ملتی ہے ۔
(۱۵) اتو خذ لفظۃ عند من کلا م بعض الفقھا ء ولایو خذ ما ابا نو ا من معنی عند قا ل فی الکتا ب الھد ا یۃ والکنز والتنو یر وغیر ھا واللفظ للکنز من سر ق من المسجد متا عا وبہ عند ہ قطع ۱؎فقا ل علیہ فی شر و حھا المجتبی وفتح القد یر و بحرا لر ئق وا لدر المختا ر وغیر ھا و النظم للدر :”عند ہ ای بحیث یر اہ ۲؎” فظہر ان معنی عند لا یشید علی ما بینا من مفا د بین ید یہ ولا دلا لۃ لشیئ منھما ان لاا ذا ن دا خل المسجد فضلا عن کو نہ لصیق المنبر ولکن اذا رسخ فی القلب و ھم فکلما یسمع یتو ھمہ بمعنا ہ کما قیل لسغبا ن وا حد مع وا حد کم یصیر قا ل خبزا ن ۔ (۱؎کنز الداقا ئق کتا ب السر قۃ فصل فی الحر ز ایچ ایم سعید کمپنی کر اچی ص۱۷۹)
(۲؎الدر المختا ر کتا ب السر قۃ فصل فی الحر زمطبع مجتبا ئی دہلی ۱ /۳۳۴)
(۱۵)یہ کہا ں کا انصا ف ہے فقہا ءکے کلا م میں آ ۤئے ہو ئے لفظ عند سے تو اذا ن ثا نی کے متصل منبر ہو نے پر استدالا لی کیا جا ئے اور فقہا ئے کر ا م نے خود لفظ عند کے جو معنی بتا ئے ہیں اس سے رو گر دا نی کی جا ئے ہد ایہ ، کنز، تنو یر وغیر ھا میں فر ما یا یہ عبا ر ت کنز کی ہے جس نے مسجد سے ایسا سامان چرا یا جس کا مالک سا ما ن کے پا س تھا اس کا ہا تھ کا ٹا جا ئیگا ان کی شر ح مجتبی ،فتح القد یر ،بحرا الر ائق اور در مختا ر میں فر ما یا الفا ظ در مختا ر کے ہیں ”سا ما ن کے ما لک کے پا س ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ اتنی دور ہو جہا ں سے اپنا سا ما ن دیکھ رہا ہو ۔
مذکو ر ہ با لا شو ا ہد سے یہ ثا بت ہو گیا کہ عند کے معنی بھی اس سے زیا دہ نہیں جو ہم نے بین ید یہ کے معنی میں بیا ن کیا اور ان دو نو ں لفظو ں کی کو ئی دلا لت اذان کے دا خل مسجد ہو نے پر نہیں چہ جا ئیکہ منبر سے متصل مرا د لی جا ئے مگر جب کو ئی وہم آدمی کے دما غ میں جم جا تا ہے تو وہ جو چیز بھی دیکھتا ہے اس کو وہی وہمی چیز سمجھتا ہے اور کو ئی با ت سنتا ہے تو ہی چیز اس کے خیا ل میں جیسا کہ بھو کے سے پو چھا جا ئے کہ ایک ایک کتنا ہو تا ہے تو وہ جو ا ب دیتا ہے دو رو ٹی ۔
نفحہ ۴: استبا ن مما با ن و للہ الحمد جہا لۃ من تمسک ھنا بقو ل الر ا غب ”عند ”لفظ مو ضو ع للقر ب فتا رۃ یستعمل فی المکا ن و تا ر ۃ فی الا عتقا د نحو ان یقا ل عندی کذا و تا ر ۃ فی الز لفی و المنز لۃ ۱؎ وقول المبسو ط ”عند عبا ر ۃ عن القر ب ۲؎” نفحہ ۴: الحمد للہ رب العا لمین گزشتہ اظہا ر سے ان لو گو ں کی جہا لت واضح ہو گئی جو اس مو قعہ پر بھی اما م را غب کے قو ل سے استد لا ل کر تے ہیں کہ ”لفظ عند قر ب کے لیے وضع کیا گیا ہے تو کبھی مکا ن کے لیے ہو تا ہے اور کبھی اعتقا د کے لیے جیسے کو ئی کہے میرے پا س ایسا ہے او ر کہیں رتبہ اور مر تبہ کے لیے ہو تا ہے یا مبسوط میں اما م سر خسی کے قو ل سے استدلا ل کر تے ہیں عند قرب بیا ن کر نے کے لیے ہے ۔”
(۱؎المفردا ت فی غرا ئب القرا ن العین مع النو ن تحت اللفظ ”عند ”نو ر محمد کا ر خا نہ تجا ر ت کتب کراچی ص۳۵۵)
(۲؎المبسو ط للسر خسی کتا ب الکفا لۃ با ب الکفا لۃ با لنفس دار الکتب العلیمیہ بیر وت ۱۹ /۲۲۴)
عند کا تر جمہ فارسی میں ”نزد ”اور ہند ی میں ”پا س ”ہے کیو نکہ ہم نے قر ب کے تما م موا ر د کا ذکر کر دیا ہے جس کے لیے آیا ت کے اعادہ کی ضرورت اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ ان تما م آیتو ں میں لفظ ”عند ”کا تر جمہ دونوں زبا نو ں میں لفظ نز د و پا س سے کیا گیا ہے جبکہ ان مو ارد میں قر ب کے معنی میں بڑی وسعت ہے ۔
وکذلک فی اقتر بت السا عۃ ۱؎وفی اقتر ب للنا س حسا بھم ۲؎وغیر ذلک مما لا یخفی علی الصبیا ن ،وقد سئلنا ھم مرا ر ا عن مسئلۃ فقھیۃ فلم یجب احد منھم الی الا ن و کیف یجیبو ا وما لھم بہ یدا ن وا ذا بز غ الحق کلا اللسان ۔ جیسا کہ آیت اقتر بت السا عۃ (قیا مت قر یب ہو ئی )اور آیت اقتر ب للنا س حسا بھم (لو گو ں کے لیے ان کے حسا ب کا وقت قر یب ہو ا )وغیر ہ سے ظا ہر ہے (کہ لفظ قر ب اپنے دا من میں صد یو ں کا فا صلہ سمیٹے ہو ئے ہے )اور یہ با ت بچو ں تک پر وا ضح ہے ہم نے ان سے بار ہا ایک مسئلہ پو چھا جس کا جو ا ب آج تک کو ئی نہ دے سکا اور وہ کیسے جو ا ب دیتے وہی جو ا ب تو خود ان پر لو ٹتا با ت یہ ہے کہ جب حق ظا ہر ہو تا ہے زبا نیں گو نگی ہو جا تی ہیں ۔
صورتھا زید صنع منبرا تبلغ قیمتہ دینا را عشر ۃ درا ھم او اکثر وھو خفیف بحیث یذھب بہ رجل واحد لا ینؤ ابہ ولا یؤدۃ شیئ من حملہ واذھا بہ فا ذا ا نا ء فی المسجد حین المنبر کا ن المتو لی یستعیر ہ من ما لکہ ثم اذا فر غ یر د ہ الیہ و ذا ت یو م قضیت الصلو ۃ اونتشر وا فی الا ر ض والمنبر بعد فی مکا نہ و ما لکہ قا م بحذا ئہ علی با ب اٰ خر مستر قا و حا نت التفا تۃ من زید فا خذ المنبر واشر د فحل یقطع ھذا الوا ھا بی السا ر ق شر عا ام لا فا ن قا لو ا لا فقد خا لفو ا نصو ص الا ئمۃ اذ قالوا من سر ق من المسجد متا عا وربہ عند ہ بحیث یر ا ہ قطع ۱؎ وان قا لو ا نعم فقد کا ن شر ط القطع ان یکو ن ربہ عند ہ لیکو ن محر زا بالحا فظ اذا المسجد لیس بمحر ز فقد ا عتر فو ا ان القا ئم علی با ب المسجد او فی حدودہ او فنا ئہ حذا11ء المنبر قا ئم عند المنبر فبثت ان الا ذا ن عند المنبر و ذلک ما اردنا ہ وللہ الحمد حمد ا کثیر ا طیبا مبا ر کا فیہ کما یحبہ و یر ضا ہ ۔ صور ت مسئلہ یہ ہے کہ زید نے ایک دینا ر مسا وی دس درم یا زا ئد کا ایک ہلکا پھلکا منبر بنا یا جسے ایک آدمی بلا تکلف و بے زحمت و مشقت جہا ں چا ہے اٹھا لے جا ئے اذا ن منبر کے وقت زید ا سے مسجد میں لے کر پہنچا متو لی مسجد نے اسے ما لک سے عا ریۃ ما نگ لیا کہ نما ز سے فا ر غ ہو کر وا پس کر دیں گے بعد نما ز لو گ تو ادھر ادھر منتشر ہو گئے اور منبر وہیں پڑ ا رہ گیا اور ما لک سا منے مسجد کے دروازہ پر یا حد ود مسجد کے اند ر کھڑا رہ کرا سے دیکھتا اور نگر ا نی کر تا رہا اس اثنا میں ایک وھا بی چو ر ی کی نیت سے مسجد کے اندر دوسر ے دوروا زے سے دا خل ہوا اور ما لک کے ایک ذرارخ پھیر نے کا انتظا ر کر تا رہا جیسے ہی مہلت پا ئی مبنرع لے کر نکل بھا گا سو ا ل یہ ہے کہ وہ وہا بی چو ر ی کی علت میں ما خو ذ ہو گا یا نہیں اور اس کا ہا تھ کا ٹا جا ئے گا یا نہیں ؟ تو دا خل مسجد اذا ن کے حامی اگر یہ جوا ب دیں کہ نہیں تو ائمہ فقہ کی نص صریح کے خلا ف ہو گا کہ ان کا ارشاد ”جس نے مسجد کے اندر کے سا ما ن کو چر یا جبکہ ما لک اس سا ما ن کے پا س ایسی جگہ ہو جہا ں سے سا ما ن نظرآا رہا ہو تو اس کا ہا تھ کا ٹا جائیگا ”اگر یہ جوا ب دیں کہ ہا تھ کا ٹا جا ئیگا تو کا ٹنے کی شر ط یہ تھی کہ ما لک سا ما ن کے اتنے پا س ہو کہ اسکا محا فظ قرا ر دیا جا ئے کیو نکہ مسجد حود محفوظ جگہ نہیں تو ان لو گو ں نے یہ اعتر اف کر لیا کہ مسجد کے دروازے کے پا س اس کے فنا ء میں منبر کے سا منے کھڑا ہو نے وا لا منبر کے پا س ہی ہے یہ تو ہما را دعو ی تھا جس کا اعترا ف مخا لف نے کیا اللہ تعا لی کے لیے بے شما ر پا ک اور مبا ر ک تعر یفیں جس ے وہ را ضی ہو ا اور جسے پسند کرے ۔
(۱؎بحرالرا ئق کتاب السر قہ فصل فی الحر ز ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی ۵ /۵۹)
(۲؎الد ر المختا ر کتاب السر قہ فصل فی الحرز مطبع مجتبا ئی دہلی ۱/ ۳۳۴)
نفحہ ۵ : لئن ننزلنا الی مثل مدار کھم فلا شک ان عند ظر ف زما ن و مکا ن قا ل تعا لی : ”خذوا زینتکم عند کل مسجد ۱؎
ای ثیا بکم وقت کل صلو ۃ والوقت یضا ف الی الا مکنۃ والا جسا م ایضا اذا کا ن لہ اختصا بھا قا ل تعا لی : ”یو م حنین اذا عجبتکم کثر تکم ۲؎”
نفحہ ۵ :اگر ہم ان لو گو ں کے معیا ر فہم پر اتر کر بھی با ت کر یں تو اتنا تو سب پر ظا ہر ہے کہ عند ظر ف زما ن اور مکان دو نو ں ہی کے لیے ہے جیسا کہ ارشاد بار ی ہے :”ہر مسجد کے پا س اپنی زینت اختیا ر کر و ”یعنی ہر نما ز کے وقت کپڑے پہنو اور خود وقت بھی مکا ن اور اجسا م دو نو ں ہی کی طر ف مضا ف ہو تا ہے جب کہ وقت کے ساتھ ان کو کوئی خصو صیت ہو ارشاد الہی ہے :”اور حنین کا دن یا د کر و جب تم اپنی کثر ت پر اترا گئے تھے ”
(۱؎القر ان الکریم ۷ /۳۱)
(۲؎ القر ان الکریم ۹ /۲۵)
انما حنین اسم مکا ن و کذا یو م بدر یوم احد یو م الد ا ر لیۃ عقبۃ لیۃ المعرا ج لیۃ الغار فی الصحیحین :”من لھا یو السبع ۳؎”سبع بسکو ن البا ء مکا ن المحشر او بضمتھا الحیو ن المفتر س و علیہ الا کثر و لا شک ان لہذا الو قت اختصاصا بالمنبر وقتہ وحینہ ۔ حنین ایک جگہ کا نا م ہے یہی حا ل یو م بدر ،یو م احد ،یو م دار ،لیلۃ العقبہ ،لیلۃ المعرا ج اور لیلۃ الغار کا ہے صحیحین کی حد یث ہے :”ومن لھا یو م السبع”سبع کا لفظ با کے سکو ن کے سات بھی مروی ہے تو لفظ سبع سے مراد مکا ن محشر ہو گا اور با ء کے ضمہ کے سا تھ تو شیر مراد ہو گا کااکثر علما ء کے نزدیک یہی را جح ہے پس ان مقا ما ت میں یو م کی نسبت مقام کی طر ف ہے تو ایسا کیو ں صحیح نہ ہو گا کہ اذا ن عند المنبر کے معنی اذا ن وقت منبر ہو کیو نکہ اس اذا ن کو منبر سے ایک نسبت خا ص ہے ۔
(۳؎صحیح البخا ری کتاب الا نبیا ء با ب منہ قدیمی کتب خا نہ کر اچی ۱ /۴۹۴)
نفحہ ۶: احتجو ا بقو ل بعضھم علی المنبر فمن ھؤلا ء من یفسر ہ بعند و قد علمت ان لیس فی عند ما یقرأ اعینھم واجھلھم یقو ل ”علی”ھھنا بمعنی البا ء یر ید ان البا ء اللا لصاق فکا ن الا ذا ن ملا صق المنبر مع ان الا لصا ق الذی فی البا ء لیس قطعا بمعنی الا تصا ل الحقیقی تقو ل مررت بزید اذا ا مررت بحیث ترا ہ و ا ن کا ن بینکما اکثر مما بین المنبر و البا ب قا ل تعا لی : وکا ین من اٰ یۃ فی السموا ت ولا ر ض یمرو ن علیہا وھم عنھا معر ضو ن ۱؎ھھنا لفظۃ علی نفسھا وانت لا یبلغ الا سبا ب اسباب السمو ات حتی تلتصق با یا تھا انما المعنی تمر بحیث تر ا ھا وامثلھم طر یقۃ یقو ل ان بعض الفقھا ء اتی بعلی تا کید ا للقر ب یر ید ان المراد المبا لغۃ فی القر ب حتی کا نہ علیہ فو قہ وکل ھذا من ھو سا تھم ۔ نفحہ ۶: اذا نیو ں نے بعض فقہا ء کے قو ل اذا ن علی المنبر سے استدلا ل کیا تو ان میں سے بعض نے علی کی تفسیر عند سے کی اور ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ خود لفظ عند میں کو ئی ایسی با ت نہیں جس سے ان کے دل کو چین ملے اور ان میں سب سے بڑے جا ہل نے کہا کہ علی معنی میں با ء کے ہے مطلب یہ کہ با ء الصا ق کے لے آتا ہے تو لفظ اذا ن علی المنبر کا مطلب ہو گا وہ اذا ن جو منبر کے متصل ہو اس با ت سے قطع نظر کہ یہا ں علی کا با ء کے معنی میں ہو ا خود محل نظر ہے لطف یہ ہے کہ خود الصا ق کے معنی اتصا ل حقیقی نہیں عر بی کے اس وق ل مررت بززید (میں زید کے سا تھ چلا )کا یہ مطلب نہیں کہ میں زید سے چپک کر چلا بلکہ تم زید کے پیچھے پیچھے منبر اور دوازہ مسجد کی دور ی سے زا ئد فا صلہ پر بھی چلو اس طر ح کہ تمہا ری نظر زید پر رہے تو تم کہہ سکتے ہو کہ میں زید کے سا تھ چلا اللہ تبا رک و تعا لی ارشا د فر ما تا ہے :”آسما ن و زمین میں کتنی آیتیں ہیں جن گزر تے ہیں اور وہ ان آیتو ں سے اعرا ض کر تے ہیں ۔”اس آیت میں خود لفظ علی ہی ہے تو کیاتم علی کو الصا ق کے معنی میں لے کر آسما نی آیتو ں سے متصل ہو نے کے لیے آسما نو ں تک بلند ہو نے کی طا قت رکھتے ہو پس اس آیت میں لا محا لہ تمر و ن علیہا کے یہی معنی مراد لینے ہو نگے کہ تم ان آیتو ں کو دیکھتے ہو ئے گزرتے ہو اس حا ل میں کہ تم میں او ران آیتوں میں آسما ن کی و زمین کی دوری تھی اور ان میں سب سے زیا دہ سلیم الطبع نے یہ تشر یح کی کہ بعض فقہا کی عبارت میں علی المنبر کا لفظ قر ب کی تا کید کے لیے ہے مطلب یہ کہ مراد مبا لغہ فی القر ب ہے یعنی منبر کے اتنا قر یب کہ گو یا منبر پر ہی ہو لیکن یہ بھی ان کی ہو س ہی ہے ۔
فاولاً: قد اجمع العقلا ء ان اللفظ متی احتمل الحقیقۃ لا مجا ز عنھا الی المجا ز و معلو م ان علی بمعنی عند او بمعنی البا ء او للمبا لغۃ کل ذلک مجا ز وھی حقیقۃ فی اللزو م ففی اصو ل الا ما م شمس الائمۃ ثم کشف الا ما م البخار ی : ”اما علی فللزا م با عتبار اصل الو ضع ۱؎،اھ ” اولاً: تما م اہل زبا ن کا اس امر پر اتفا ق ہے کہ لفظ کے معنی حقیقی جب تک بن سکیں معنی مجا زی مراد لینے کی کو ئی سبیل نہیں اور یہ واضح ہے کہ علی کو عند با ء یا مبالغہ کے لیے لینا اس کے معنی مجا زی ہو ں گے کہ اس کے معنی حقیقی تو لا زم کر نے کے ہیں جیسا کہ آو ل اما م شمس الا تمہ اور کشف اما م بخار ی میں :”علی اصل وضع کے اعتبار سے الزا م کے لیے ہے ۔”
(۱؎کشف الا سرا ر عن اصو ل البزادوی بحث حروف البحر کلمۃ علی دار الکتاب لالعر بی بیر و ت ۲ /۱۷۳)
وفی تحریر الا ما م ابن الھما م و تقر یر الا مام ابن امیر الحا ج :”وھو ا ی اللزو م ھو بمعنی الحقیقی ۱؎،اھ وفی الر ضی الکا فیۃ منہ سر علی اسم اللہ تعا لی ای ملتزما ۲؎” تحریم اما م ابن ہما م اور تقر یب اما م ابن امیر الحا ج میں ہے :”لزو م ہی علی کے معنی حقیقی ہیں”۔ اور رضی شر ح کافیہ میں ہے اسی محا ورہ سے ہے اللہ کے نا م پر سیر کر یعنی اس کو لا زم پکڑو ۔”
(۱؎التقریر والتجیر مسئلۃ علی الا ستعلا ء حسا دار الفکر بیر وت۲/۷۶)
(۲؎الرضی فی شر ح الکا فیۃ حرو ف الجر حر ف” علی ”دارا لکتن العلمیہ بیروت ۲/۳۴۲)
قا ل ربنا عزو جل فجاء تہ احد ھما تمشی علی استحیا ء ۳؎ ای ملا زمۃ للحیا ء ۔ قرآن عظیم میں یہ لفظ اسی معنی میں وارد ہوا ارشاد الہی ہے :”ان دو عورتو ں میں سے ایک شر م کر تی ہو ئی آئی ”یعنی وہ شر م کو لا زم کئے ہوئے تھی ۔
(۳؎القرآن الکریم۲۸/ ۲۵)
ولا شک ان ھذا الا ذا ن اینما کا ن لا زم ملا زم للمنبر فا نی تو فکو ن ۔ اور اذا ن خطیب اس اما م کو لا زم ہے جس نے منبر کا الزا م کیا ہے تو یہ لو گ علی کو اس کے حقیقی معنی (لزو م ) سے پھیر کو کد ھر پلٹ رہے ہیں۔
ثا نیاً: الیست ”علی” للمصا حبۃ ، قا ل الا ما م الجلیل الجلا ل السیو طی فی الا تقا ن علی حر ف جر لھا معا ن (الی ان قال ) ثا نیھا للمصا حبۃ کمع نحو ”واٰ تی المال علی حبہ ای مع حبہ ، وان ربک لذو مغفر ۃ النا س علی ظلمھم ۴؎” ثا نیا : علی مصا حبت کے لیے ہے اما م جلا ل الد ین سیوطی اتقا ن میں فرما تے ہیں ”علی”حرف جر ہے اس کے چند معا نی ہیں دوسرا معنی مصا حبت ہے جیسے لفظ مع قرا ن عظیم میں ہے کہ ما ل کو محبت کے با وجو د قرا بت داروں کو دیا (دوسر ی مثا ل )تمھا را رب ظلم کے با وجو د لو گو ں کی مغفر ت کر نیو ا لا ہے (یہا ں علی ظلم کا مطلب مع ظلمٍ ہے )”
(۴؎الاتقان فی علوم القرآن النوع الاربعون دار الکتاب العربی بیر وت۱/ ۴۹۸)
وفی الحدیث ”زکا ۃ الفطر علی کل حر و عبد ۱؎”قا ل فی النہا یۃ ”قیل علی بمعنی مع لا ن العبد لا تجب علیہ الفطر ۃ و انما تجب علی سید ہ ۲؎،اھ ”وفی القا مو س :”والمصا حبۃ کمع ””واتی الما ل علی حبہ ۳؎”وفی الفتو حا ت الا لھیۃ تحت قو لہ تعا لی ”تمشی علی استحیا ء ”علی بمعنی مع ای مع استحیا ء ۴؎”ولا شک ان ھذا الا ذا ن مصا حب المنبر لا یتقد مہ ولا یتأخر عنہ فا ن کا نت حقیقۃ فی المصا حبۃ فذا ک والا بطل مجا ز کم با حتما ل مجا ز اٰخر اذ انتم المستدلو ن ۔ اور حدیث شر یف میں ہے زکو ۃ فطر ہر آزاد اور غلا م پر ہے ”نہا یہ میں فر ما یا علی یہا ں بھی مع کے معنی میں ہے کہ صد قہ فطر غلام پر واجب نہیں ہو تو ما لک پر ہے (تو مطلب یہ ہو کہ غلا م کا صد قہ بھی اپنے ساتھ دے )قا مو س سے بھی اسی کی تا ئید ہو تی ہے :”مع کی طر ح علی بھی مصا حبۃ کے لیے آتا ہے جیسے اتی الما ل علی حبہ ”اور فتو حا ت الہیہ میں آیت مبا ر کہ تمشی علی استحیاء کی توضیح میں فرمایا : علی مع کے معنی میں ہے یعنی شرماتے ہو ئے اور اذا ن خطبہ بلا شبہ جلو س علی المنبر کے مصا حب ہے نہ اس سے قبل نہ بعد پس مصا حبۃ اگر علی کے معنی حقیقی ہو ں آپ کے مراد لیے ہو ئے معا نی مجا زی ہو ئے اور مجا ز حقیقت کے مصا دم نہیں ہو سکتا اور یہ معنی مجا زی اور آپ کے معا نی بھی مجا زی تو ایک اور معنی مجا زی کا احتما ل پید ا ہو ا اور احتما ل استدلا ل کے لیے کتنا مضر ہے یہ سب کو معلو م ہے ۔
(۱؎مجمع الزوا ئد با ب صد قۃ الفطر دار الکتب العلمیہ بیروت ۳ /۸۰)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی ہر یر ۃ رضی اللہ تعالی عنہ المکتب اسلا می بیروت۲ /۲۷۷)
(۲؎النہا یۃ فی غریب الحدیث والا ثر با ب العین مع اللا م المکتبہ اسلا میہ۳ /۲۹۶)
(۳؎القا مو س المحیط فصل العین با ب الوا ؤ والیا ء مصطفی البا بی مصر ۴ /۳۶۸)
(۴؎الفتو حا ت الا لیہۃ الشہیر با لجمل تحت الا یۃ ۲۸ /۲۵ مصطفی البا بی مصر ۳ /۳۴۴)
ثالثاً : قال ربنا عزوجل : “واتبعوا ما تتلوا الشیطین علی ملک سلیمن ۱”
قال فی الاتقان والفتوحات الا لھیۃ (ای فی زمن ملکہ ۲) ،و فی مدارک الامام النسفی:”ای علی عھد ملکہ وفی زمانہ ۳”اھ ۔ ولا شک ان ھذالاذان علی عھدالمنبر وفی زمانہ، فرجعت الی معنی عند الزمانیۃ۔ ثالثاً : اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اور انہو ں نے ملک سلیما ن پر شیطا نو ں کے پڑھے ہو ئے کی اتبا ع کی اتقا ن اور فتوحات الہیہ میں ہے یعنی ان کی حکو مت کے زما نہ میں مدار ک اما م نسفی میں ہے یعنی ان کی حکو مت اور ان کے زما نہ میں اور اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ اذا ن خطبہ منبر کے وقت اور زما نہ میں ہے تو یہ عند زما نیہ کے ہم معنی ہو گیا ۔
(۱؎القرا ن الکر یم ۲ /۱۰۲)
(۲؎الفتو حا ت الا لہیۃ الشہیر با لجمل تحت الا یۃ ۲ /۱۰۲ مصطفی البا نی مصر ۱ /۵۸)
(۳؎مدار ک التنزیل (تفسیر النسفی ) تحت الا یۃ ۲ /۱۰۲ دار الکتا ب العر بی بیر وت ۱ /۶۵)
رابعاً : اصل الکلا م انھم اختلفو ا فی الا ذا ن المعتبر لا یجا ب السعی و تر ک العمل ھل ھو الا ذا ن الا ول کما ھو الا صح و بہ قا ل الحسن بن زیا د عن سید نا الا ما ام الا عظم رضی اللہ تعا لی عنہ ام اذا ن الخطبۃ لا نہ لم یکن عند نزو ل الکر یمۃ وغیر ہ و بہ قا ل الا مام الطحا وی رحمہ اللہ تعا لی و نقل الشمنی فی شر ح النفا یۃ کلا مہ ھکذا قا ل الطحا وی :انما یجب السعی و تر ک البیع اذا ا ذن الا ذا ن الذی یکو ن وا لا مام علی المنبر لا نہ الذی کا ن علی عہد رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم و ابی بکر و عمر رضی اللہ تعا لی عنھما ۴؎ رابعاً : اصل یہ ہے کہ فقہا ء نے اس با ب میں اختلا ف کیا ہے کہ جمعہ کے لیے سعی کے وجو ب میں کس اذا ن کا اعتبا ر ہے ،اذا ن اول کا (حنفیہ کے نزدیک یہی صحیح ہے اور حسن بن زیا د نے امام اعظم سے اس کی روا یت کی) یا اذان خطبہ کا کیو نکہ آیت سعی کے نزو ل کے وقت اذا ن اول تھی ہی نہیں(یہی اما م طحا وی کا قو ل ہے جس کو شر ح نقا یہ میں شمنی نے نقل کیا )اما م طحا وی نے فرما یا کہ جمعہ کے وقت وجو ب سعی اور تر ک بیع کا حکم اس اذا ن کے وقت ہے جو اما م کے منبر پر بیٹھنے کے وقت دی جا تی ہے کیو نکہ پہلی اذا ن عہد رسا لت اور ابو بکر و عمر رضوان اللہ تعا لی علیہم اجمیعن کے زما نہ میں نہ تھی ۔
(۴؎مرقا ۃ المفا تیح بحو الہ الطحا وی با ب الخطبہ والصلو ۃ تحت الحد یث ۱۴۰۴ المکتبۃ الحبیبہ کوئٹہ ۳ /۴۹۸)
وفی مر قا ۃ علی القا ری : ”قا ل الطحا وی انما یجب السعی وتر ک البیع اذا اذ ن الا ذا ن و الا ما م علی المنبر لا نہ الذی کان علی عہدہ علیہ الصلو ۃ والسلام و زمن الشیخین رضی اللہ تعا لی عنھما ۱؎۔ ملا علی قا ر ی رحمۃ اللہ علیہ کی مر قا ت میں بھی روا یت ان الفا ظ میں ہے :”اما م طحا وی فر ما تے ہیںکہ جمعہ کے لیے سعی اور تر ک بیع کا وجو ب اما م منبر پر بیٹھنے کے وقت دی جا نے والی اذا ن سے ہے کیو نکہ عہد رسا لت اور زما نہ شیخین میں صرف یہی اذا ن تھی ۔ ”
(۱؎مرقات المفاتیح کتا ب الصلٰوۃ با ب الخطبۃ والصلٰوۃ تحت الحدیث ۱۴۰۴ المکتبہ الحبیبیہ کوئٹہ ۳ /۴۹۸)
وھکذا ا کما تر ی لا مثا رلو ھمھم فیہ وکا ن بعض المتا خر ین اختصر وا مقا لہ ولیر ا جع اصل لفظہ رحمہ اللہ تعا لی عنہ فا نی ارجو ا ان لا یکو ن فیہ ما او قعھم فی الو ھم و کیف ما کا ن فا نما استدل با نہ الذی کا ن علی عہد رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم وابی بکر و عمر رضی اللہ تعا لی عنہما وھکذا ذکر فی دلیلہ من عبر ہ با لا ذا ن علی المنبر عند المنبر کا لکا فی و الکفا یۃ والمبسو ط و غیر ھا و معلو م قطعا انہ لم یکن علی عہد رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم فوق المنبر ولذا احتا ج ھؤلا ء ایضا الی تا ویل علی بعند او البا ء او المبا لغۃ فا ذن یجب حملہ ما کا ن علیہ فی زمنہ الکر یم وکما لم یثبت کو نہ فی عہد ہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم فو ق المنبر، کذلک لم یثبت کونہ ملاصق المنبر، او عندالمنبر با لمعنی الذی یزعمو ن وانما ثبت کو نہ علی با ب المسجد فیجب ان لا یحمل الا علی ما یو ا فقہ عند کا ن او علی ولکن الا نصا ف قد عز فی الاخلا ف ۔ ہر ایک پر روشن ہے کہ اس عبار ت میں مخا لفین کے شبہ میں پڑنے کی کو ئی گنجا ئش نہیں (اما م طحا وی نے امام کے منبر پر ہو نے کی با ت کہی ہے نہ کہ اذا ن کے )اور اسی عبارت کو بعض متا خر ین نے اپنے طو ر پر مختصر کیا ہے اصل عبا ر ت کو دیکھا جا ئے توا س شبہ کی کو ئی بنیا د ہی نہیں بھلا ایسے ہو سکتا ہے ۔اما م طحا وی نے اپنے استدلا ل میں فر ما یا وہ اذا ن جس پر سعی وا جب ہو تی ہے حضور صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اور صا حبین رضی اللہ تعا لی عنہما کے عہد مبا ر ک میں یہی بھی بعد کے جن لو گو ں نے اس اذا ن کی تعبیر علی المنبر یا عند المبنر سے کی جیسے صاحب کافی وکفایہ اور مبسوط وغیرہ ان لوگوں نے بھی یہی کہا کہ یہی اذان حضور کے عہد مبارک میں ہوتی تھی، اور سب کو معلوم ہی کہ اذان خٰطبہ عھد رسالت میں منبر کے اوپر نہیں ہو تی تھی اسی لیے تو ان علما ء نے بھی علی کو عند کے معنی میں لیا ۔اور روا یت سے یہ ثا بت ہے کہ جس کو عند کہتے ہیں وہ علی با ب المسجد ہے تو عبا رت میں لفظ عند ہو یا علی سب کو اسی ثا بت شدہ محمل پر حمل کر نا چا ہیے نہ کہ اس واقعہ کے انکا ر کے لیے معبر ین کی تعبیر کو سند بنا نا چا ہیے مگر افسو س کہ انصا ف دنیا سے نا پید ہورہا ہو ۔
نفحہ۷: لئن تنزلنا لھم عن جمیع ھذہ التحقیقات التی ذکرنا بتو فیق ربنا علی الا علی فی” عند وعلی ”۔ نفحہ۷ : اگر ہم عن اور علی کے با رے میں ذکر کی ہو ئی تما م تحقیقا ت سے قطع نظر کر لیں تب بھی بات وہ ہی ثابت ہو تی ہے جو ہم نے اللہ تعا لی کی تو فیق سے ذکر کی ہے ۔
فاولاً: ما قو لھم ”المعتبر الا ذا ن علی المنا رۃ او الا ذا ن علی المنبر او عند المنبر ” الا حکا یۃ حا ل للتعر یف و یعر ف کل احد حتی الصبیا ن انہ لیس بحکم و قو لھم ” لا یؤذن فی المسجد ، ویکر ہ الا ذا ن فی المسجد حکم والعبر ۃ با لحکم الا بالحکا یۃ ۔ اولاً : ان تمام عبار تو ں میں جہا ں اذا ن علی المنا رہ یا اذا ن علی المنبر یا عند المنبر کا لفظ آیا ہے بطو ر تعا ر ف و حکایت حا ل کے ہے (یعنی وہ اذا ن جو فلا ں جگہ ہو تی ہے اس میں کو ئی حکم نہیں کہ اذا ن یہا ں ہو نی چا ہیے ) بخلا ف ان اوقو ا ل کے جب میں مسجد میں اذا ن مما نعت آئی ہے جیسے لا یؤذن فی المسجد (مسجد میں اذا ن نہ دی جا ئے ) یا یکرہ الا ذا ن فی المسجد (مسجد میں اذا ن مکر وہ ہے)کہ یہ صا ف صا ف حکم ہے اور اعتبا ر حکم کا ہے تعا ر ف و حکا یت کا نہیں ۔
وثا نیاً : الا ذا ن الذی کذ ابیا ن علا مۃ لہ فلا ید ل علی جو ازہ فضلا عن استنا نہ قا ل الا ما م الا جل ابو زکر یا النو وی فی شر ح صحیح مسلم ثم العلا مۃ المحدث طا ہر فی مجمع بحا الا نو ار :”ان العلامۃ تکو ن بحرا م و مبا ح ۱؎اھ ، ارأیت ان اجتمع فی صعید السلطا ن و الامر ا ء النا س فمن لا یعر ف السلطا ن سا ل علا ما من فیھم الملک الذی یفتر ض علینا طا عتہ فی المعر وف فا ل الذی علی راسہ تا ج الذھب ھل یکو ن ذلک حکما منہ بجو از لبس الذھب للر جا ل کلاّ علماؤنا قد ارشد و ا لی الحکم ان لا یؤو ن فی المسجد ومع ذلک لا شک ان لو فعل فیہ کما یفعل ھٰو لا ء لکا ن مو جبا للسعی و ترک البیع علی قو ل لا ما م الطحا وی فلو فر ض ان النا س احدثو ہ ھکذا فعر فو ہ بہ بیا نا لحکم السعی کا ن ما ذا ۔ ثا نیاً :یہ طر یقہ بیا ن (کہ جو اذان فلا ں جگہ ہو تی ہے) علا مت ہے اور علا ما ت کا مسنو ن ہو نا تو بڑی بات ہے جا ئز ہو نا بھی ثا بت نہیں ہو تا اما م اجل ابو زکر یا نو وی شر ح صحیح مسلم اور علا مہ محد ث طا ہر فتنی نے مجمع البحا ر میں فر ما یا ”کسی چیز کی علا مت مبا ح اور حرا م دو نو ں ہی کو قرار دیا جا سکتا ہے”، اس کی مثا ل یہ ہے کہ کسی مید ا ن میں بادشا ہ امرا ء اور عو ا م سبھی جمع ہیں ایک آدمی با دشا ہ کو نہیں پہچا نتا اس نے ایک پر ہیز گا ر عا لم دین سے پو چھا ان لو گو ں میں با دشا ہ کو ن ہے جس کی اطا عت ہم پر وا جب ہے وہ عا لم کہے گا کہ جس کے سر پر سو نے کا تا ج ہے دیکھئے یہا ں سو نے کے تا ج کی علامت سے با دشا ہ کو پہنچوا یا گیا تو کیا یہ تعا رف اس با ت کا حکم ہو گیاکہ مردوں کو سو نے کا تا ج پہننا جا ئز ہے ؟ تو جب ہما رے علما ء نے یہ حکم بتا دیا کہ مسجد کے اندر اذان نہ دی جا ئے اور یہ کہ مسجد کی اذا ن مکر وہ ہے تو اگر اس کے خلا ف مسجد کے اندر اذا ن دی جا نے لگے جیسا کہ آجکل یہ لو گ کر رہے ہیں تو یہ اذا ن بھی اما م طحا وی کے مسلک پو مو جب سعی و تر ک بیع ہو گی ہم یہ فر ض کئے لیتے ہیں کہ یہ اذا ن متصل منبر لو گو ں نے ازخود ایجا د کر لی ہے پھر بھی اس ممنو ع اذا ن کو وجو ب سعی کی علامت قرار دیں تو اس سے یہ اذا ن جا ئز تو ہو نہیں جا ئے گی ۔
(۱؎شرح صحیح مسلم للنو وی کتا ب الز کو ۃ با ب اعطا ء المؤلفہ قد یمی کتب خا نہ کر ا چی ۱ /۳۴۲)
ثا لثاً : الحکم الضمنی فی الوصف العنو ا نی حکم منطقی ، والحکم المنطقی ان کا ن قصد یا لم یلزم ان یکو ن شر عیا فکیف اذا کا ن ضمینیا الم تسمع الی ما قا لہ العلما ء فی حدیث علیہ السلا م تحیۃ المو تٰی۱؎۔ ثالثاً : قضیہ ضمنیہ میں دو حکم ہو تا ہے ایک مو ضو ع کے وصف کا صد قپ ذا ت مو ضو ع پر اور دوسرا وصف محمو ل کا صد ق ذا ت مو ضو ع پر پہلے وا لا حکم ضمنی منطقی ہو تا ہے اور دوسرا حکم صر یحی ، شر ع کے نزدیک یہی معتبر ہے حکم منطقی قصدی ہو تو تب بھی شر عا معتبر نہیں۔ اور مسئلہ دائر ہ میں تو اس اذا ن پر جو فی زما نہ متصل منبر ہو تی ہے فقہا ء نے اذا ن کا حکم ضمنا لگا یا ہے تو یہ شر ع کے نزدیک کب معتبر ہو گا ؟اس کی مثا ل یہ ہے کہ لفظ علیک السلا م میں مخا طب پر سلا م کا حکم منطقی قصد ی ہے مگر شر یعت نے اسے نا معتبر اور ناجائز بتایا ۔حدیث شریف میں ہے :”علیک السلا م مردو ں کا سلا م ہے ”۔
(۱؎المصنف العبد الر زا ق با ب کیف السلا م و الر د حدیث۱۹۴۳۴ المجمع الاسلا می بیر و ت ۱ /۳۷۴)
رابعاً: بعد التیا و التی ان کا ن فمن با ب ”الا شا رۃ”وقو لھم لا یو ذن فی المسجد و یکر ہ الا ذا ن فی المسجد ”عبا رۃ ”وقد نصو ا قا طبۃ ان العبا ر ۃ مر جحۃ علی الا شا ر ۃ و ان الحکم و الفتیا با لمر جو ح جہل و خر ق الا جما ع کما فی تصحیح القدوری و الد ر المختا ر ۲؎۔ رابعاً : تما م بحث و مبا حثہ کے بعد اذا ن علی المنبر اسے اگر کو ئی حکم ثا بت ہو تو بطور اشا ر ۃ النص ثبو ت ہو گا اور فقہاء کے قول”لا یؤذن فی المسجد و یکر ہ الا ذا ن فی المسجد ”عبا ر ۃ النص ہے اور تما م علما ئے اصو ل کا اجما ع ہے کہ عبارۃ النص را جح اور اشا ر ۃ النص مر جو ح ہے اور در مختا ر میں ہے کہ قو ل مر جو ح پر فتو ی دینا جہا لت اور خرق اجما ع ہے ۔
(۲؎الد ر مختا ر مقد مۃ الکتا ب مطبع مجتبا ئی دہلی ۱ /۱۵)
وخامساً : فی معا نہ انو ا ع الا حتما ل والنصا ن صر یحا ن والمحتمل لا یعا ر ض الصر یح و اذا جا ء الا حتما ل بطل الا ستد لا ل ۔ وخا مساً :اذا ن علی المنبر کے معنی میں مختلف قسم کے احتما ل ہیں اور مما نعت اذا ن فی المسجد کی عبار ت نص صر یح ہے اور یہ بات با لکل واضح ہے کہ محتمل صر یح کا مقا بل نہیں ہو سکتا اور کلا م محتمل سے استد لا ل با طل ہے ۔
وسادساً:مع قطع النظر عن کل ما مر غا یتہ تعا ر ض حا ظر و مبیح فیتر جح الحظر بل الا مر اذا تر دد بین السنۃ والکر ا ھۃ کان سبیلہ التر ک کم نص علیہ فی رد المحتا ر۱؎ والبحر وغیر ھما لا ن در ء المفا سد اھم من جلب المصا لح ۲؎ وفی معرا ج الدرا یۃ للا ما م القو ا م الکا کی ثم منحۃ الخا لق غض البصر مکر و ہ والجما عۃ سنۃ فتر ک السنۃ اولی من ارتکا ب المکر وہ۳؎اھ، فعلی کل حا ل ما النصر الا لنا ولا الدا ائر ۃ الا علیہم وللہ الحمد فھذا عشر ۃ أجوبۃعن ”عند”و عشرۃ عن “علی” وللہ الحمد العلی الا علی ۔ سادساً: جو پہلے گزرا اس تما م سے قطع نظر کر تے ہو ئے اس کی غا یت حظر و ابا حت کی دلیل میں تعا ر ض ہے تو ترجیح حظر کو ہو گی بلکہ امر جب سنت و کرا ہت میں دائر ہو تو اس کا را ستہ تر ک سنت ہے جیسا کہ ردالمحتا ر اور بحر وغیر ہ میں اس پر نص کی گئی ہے کیو نکہ مفا سد سے بچنا منا فع کے حصو ل سے زیا دہ اہمیت رکھتا ہے، معراج الد ارا یہ اور متحتہ الخا لق میں ہے غضن بصر مکر وہ اور جما عت سنت ہے چنا نچہ تر ک سنت او لی ہے ارتکاب مکر و ہ سے بہر حا ل نصر ت ہما رے لیے اور وبا ل ان پر ہے اور تما م تعر یفیں اللہ تعا لی کے لیے ہیں یہ ”عند ”سے متعلق دس جو ا ب ہیں اور علی سے متعلق بھی دس جو اب ہیں اور تما م تعر یفیں اللہ تعا لی بلند و اعلی کے لیے ہیں۔
(۱؎ردالمحتار با ب ما یفسد الصلو ۃ ۱ /۴۳۱ و البحر الر ئق با ب العید ین ۲ /۱۶۵)
(۲؎الاشبا ہ والنظا ئر الفن الا ول القا عد ۃ الخا مسۃ ادارۃ القرا ن کر ا چی ۱ /۱۲۵)
(۳؎منحۃ الخا لق حا شیۃ البحر الرا ئق با ب الا ما مۃ ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی ۱ /۵۳۲)
وانت خبیر ان کل ما ذکر نا فی ھذہ النفحۃ الا خیر ۃ فا نما ھو علی غا یتہ التنزل وارخا ء العنا ن و جر ی علی سنن المناظرۃ والا حققنا کلا م الفقھا ء الکر ا م بمالا یبقی معہ للمنصف کلام ولا للمجا دل مجا ل جدا ل وا ما المکا بر فدا ءہ عضا ل نسا ل اللہ العفو و العا فیۃ ۔ اس نفحہ میں جتنی با تیں ہم نے ذکر کیں اپنے منصب سے اُتر کر اور لگا م ڈھیلی کر کے ،اور بطور منا ظر ہ ۔ور نہ ہم نے تو فقہا ئےکرا م کے کلا م کی گنجا ئش ہی نہیں بلکہ مجا دل بھی جد ل سے با ز آئے رہ گیا مکا برانہ کلا م تو ئی ایک گمر ہی ہے جس سے ہم خدا کی پنا ہ ما نگتے ہیں۔
نفحہ ۸: اعلم ان السنۃ عند السا دۃ الما لکیہ فی اذا ن الخطبۃ ایضا ان یکو ن علی المنا رۃ و صر حوا ا ن کو نہ بین ید ی الخطیب بد یۃ و مکر و ھۃ وقا ل الا ما م محمد العبد ر ی الفا سی الما لکی فی المد خل :”ان السنۃ فی اذا ن الجمعۃ اذا صعد الا ما علی المنبر ان یکو ن المؤذن علی المنا ر کذلک کا ن علی عھد النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم وا بی بکر وعمر وصدرا من خلا فۃ عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہ ،ثم زاد عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہ اذا نا اخر با لزوراء وابقی الا ذا ن الذی کا ن علی عہد رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم علی المنا ر و الخطیب علی االمنبر اذذاک ، ثم لما تو لی ھشا م بن عبد الملک اخذ الا ذا ن الذی فعلہ عثما ن رضی الہ تعا لی عنہ با لزوارء وجعلہ علی النا ر ثم نقل الا ذا ن الذی کا ن علی المنا ر حین صعود الا مام علی المنبر علی عہد النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم و ابی بکر و عمر وصدرا من خلافۃ عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہم بین ید یہ قا ل علما ؤنا رحمھم اللہ تعا لی علیہم و سنۃ النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اولی ان تتبطع ۱؎،اھ ” (با ختصار)۔ نفحہ ۸: ائمہ ما لکیہ رضی اللہ تعا لی عنھم کے نزدیک اذا ن خطبہ میں بھی سنت یہی ہے کہ منا ر ہ پر ہو خطیب کے سا منے یہ اذا ن بد عت مکر و ہہ ہے اما م محمد عبد ری فا سی ما لکی مد خل میں فرما تے ہیں اما م کے منبر پر چڑھنے کے وقت کی اذا ن میں سنت یہ ہے کہ مو ذن اس وقت منارہ پر ہو ایسا سید عا لم صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اور زما نہ ابو بکر وعمر عثما ن غنی رضی اللہ تعا لی عنھم کے ابتدائے خلافت تک رہا ، اس کے بعد حضرت ذوالنورین عثما ن غنی رضی اللہ تعا لی عنہ نے ایک اور اذا ن زیادہ فر ما ئی جو مقا م زوراء پر دی جا تی اور عہد رسا لت وا لی اذا ن کو جہا ں کا تہا ں با قی رکھا (یعنی جب خطیب مبنر پر چڑھتا اس وقت اذا ن منا ر ہ پر دی جا تی ) ہشا م ابن عبد الملک بادشا ہ ہو ا تو اس نے اذا ن اول کو مقا م زوارء سے منا ر ہ کی طر ف منتقل کیا اور اذا ن عہد رسا لت وصا حبین اور ابتد ا ئے عہد عثما ن غنی میں (یعنی اما م کے منبر پر بیٹھنے کے وقت )منا ر ہ پر ہو تی تھی اس کو اما م کے سامنے دلا نے لگا ہما رے علما ء کرا م فر ما تے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کی سنت کی پیر وی اس بات کی زیا دہ مستحق ہے کہ اس کی پیر وی کی جا ئے ۔
(۱؎المدخل فصل فی ذکر بعض البد ع التی احدثت فی المسجد دار الکتاب العر بی بیر وت ۲ /۲۱۲)
وحواشی الجو ا ہر الزکیۃ شر ح المقد مۃ العشما ویۃ للعلا مۃ یو سف السفطی الما لکی الا ذا ن الثا نی کا ن علی المنا ر فی الزمن القد یم علیہ اھل المغر ب الی الا ن وفعلہ بین ید ی الا مام مکر وہ کما نص علیہ البر زنی وقد نھی عنہ ما لک فعلہ علی المنا ر و ا لا ما م جالس ھو المشرو ع ۲؎اھ سکند ر ی ۔ حوا شی جو ا ہر زکیہ شر ح مقد مہ عشما ویہ للعلا مہ یو سف السفطی سکند ر ی ما لکی میں ہے دوسر ی اذا ن زما نہ قد یم سے منا ر ہ پر ہو تی تھی اہل مغر ب کا آج بھی اسی پر عملدر آمد ہے اس اذا ن کے اما م کے سا منے دینے کو اما م برزنی نے مکر و ہ لکھا ہے اما م ما لک نے اس سے منع فرما یا اما م کے مبنر پر بیٹھنے کے وقت منا ر ہ پر اذا ن مشر و ع ہے ۔
(۲؎حوا شی الجو ہر الزکیۃ شرح المقد مۃ العشما ویۃ للعلامۃ یو سف السفطی الما لکی)
وفی المو اھب اللدنیۃ للا ما م احمد القسطلا نی وشر حھا للعلا مۃ محمد الزرقا نی الما لکی رحمھما للہ تعا لی قا ل الشیخ خلیل ابن اسحق فی التو ضیح اسم شر حہ علی ابن الحا جب :”اختلف النقل ھل کا ن یؤذن بین ید یہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم او علی امنا ر الذی نقلہ اصحبنا انہ کا ن علی المنا ر نقلہ ابن القا سم عن ما لک فی المجموعۃ ونقل ابن عبد البر فی کا فیہ عن ما لک رضی اللہ تعا لی عنہ ان الا ذا ن بین ید ی الا ما م لیس من الامر القدیم ۳؎الخ۔” وسیاتی تما مہ بعو نہ تعا لی ۔ موا ہب الد نیہ میں اما م احمد قسطلا نی نے اور اس کی شر ح میں علا مہ زرقا نی ما لکی رحمھما للہ تعا لی نے فر ما یا : ”شیخ خلیل ابن اسحق نے تو ضیح میں فرما یا جو ابن حا جب کی شر ح ہے کہ علما ئے نقل نے اختلا ف کیا کہ ”اذا ن ثانی حضور صلی اللہ تعا لی علیہ کے سا منے ہو تی یا منا رہ پر ہما رے اصحا ب سے منا رہ پر ہو نا ہی منقو ل ہے جیسا کہ ابن قا سم نے اس کو اما م ما لک رضی اللہ تعا لی عنہ سے ممجمو عہ میں نقل کی ابن عبد البر نے اما م مالک سے یہی نقل کیا کہ اما م کے سا منے اذا ن دینا قد یم معمو ل نہیں ہے ”(پوری تفصیل ان شا ء اللہ آگے آرہی ہے)
(۱؎الموا ہب اللدنیہ المقصد التا سع البا ب الثا نی المکتب الا سلا می بیر وت ۴ /۶۲-۱۶۱)
(شر ح الزرقا نی علی المو ا ہب اللد نیۃ المقصد التا سع البا ب الثا نی دار المعر فۃ بیر وت ۷ /۸۱ – ۳۸۰)
فھذہ نصو ص الا ما م ما لک و اصحا بہ علی ان کو ن الا ذان بین ید ی الخطیب بد عۃ من را سہ فضلا عن کو نہ فی المسجد و انما السنۃ فیہ ایضا کا ذا ن سا ئر الصلو ا ت کونہ علی المنار فظہر ان ادعا ئھم اجما ع المسلمین علی الاذان دا خل المسجد لصیق المنبر فر یۃ منھم وای اجما عۃ یقوم مع خلا ف اما م دار الھرۃ و جما ھیر اصحا بہ رضی اللہ تعا لی عنہ وعنھم وکذا کذب من ادعی اجما ع المذاھب الا ربعۃ ولعل ما لکا لیس عند ہ من ا لا ربعۃ ھذا اذا لم یصر ح ائمتنا الحنفیۃ بکر ا ھۃ الا ذا ن دا خل المسجد فکیف وقد صر حو ا ولا نعلم خلا فا فیہ عن غیر ھم فلا یبعدا ن الا جما ع علی خلا ف ما ھم علیہ و با للہ التو فیق۔ اما م ما لک رضی اللہ تعا لی عنہ اور ان کے اصحا ب کے یہ نصو ص اذا ن بین ید ی الخطیب کے با لکلیہ بد عت ہو نے کی تصر یح ہیں چہ جا ئکہ اس کا مسجد میں ہو نا جا ئز ہو ، سنت تو یہ ہے کہ با قی تما م اذا نو ں کی طر ح یہ بھی منارہ پر ہو تو مخا لفین کا یہ فترا ء ہے کہ اذا ن ثا نی کا منبر کے متصل مسجد میں ہو نا ا جما ع مسلمین سے ثا بت ہے بھلا ا ما م دار الہجر ۃ اما م ما لک اور ان کے خلفا ء رضی اللہ تعا لی عنھم کو چھوڑ کر کو ن سا اجما ع منعقد ہو سکتا ہے تنہا ائمہ ما لکیہ کا ختلاف ہی قد ح اجما ع کے لیے کا فی ہے جبکہ اس مسئلہ میں ائمہ احنا ف رحمھم اللہ کی تصر یح بھی مو جو د ہے کہ مسجد کے اند ر اذا ن مکر وہ ہے اور احنا ف وغیر ہ کسی سے بھی اس کے خلا ف ہو نے کا علم نہیں تو کہیں ایسا تو نہیں کہ اذا ن بین ید ی الخطیب کے مکر وہ ہو نے پر ہی اجما ع ہو ۔
نفحہ ۹: وبہ ظہر بطلا ن زعمھم تعا مل جمیع المسلمین فی جمیع بلاد الا سلا م با یقا ع ھذا ا لا ذا ن داخل المسجد لصیق المنبر ألم تسمع السکندری ثم السفطی ”ان الا ذا ن الثا نی کا ن علی المنا ر فی ا لزمن القد یم علیہ اھل المغر ب الی الا ن ۱؎ونر ی فی معظم بلا دنا الجو ا مع السلطا نیۃ مبنیۃ فیھا دکک لھذا الا ذا ن بعید ۃ عن المنبر وعلیہا یفعل الی الا ن وقد قد منا انہ اذا ن خارج المسجد لکن العوا م لا یعلومو ن ظا ھرا من الحا ل و عن الحقیقۃ ھم غا فلو ن و اذلم یھتد وا لھا ظنو ہ اذا نا فی المسجد فعن ھذا نشأ وا فشا فیھم ھذا ثم قا سو ا علیہ اذا ن سا ئر الصلو ات اذلا فا ر ق ولا قا ئل با لفر ق فتری ھم فی کل صلو ۃ یقوم احدھم اینما شا ء من بیت اللہ فیر فع عقیر تہ بالا ذا ن و اذا قیل لہ اتق اللہ قابل با لعنا د والطغیا ن فصا ر عمل السنہ عند ھم منسیا و تصر یحا ت الفقہ شیئا فر یا احد ثوا تعا ملا فیما بینھم علی خلا ف الشریعۃ ثم جعلو ہ لا بطال حکم الشر ع ذریعۃ و الی اللہ المشتکی وھو االمستعا ن ۔” نفحہ ۹: مذکو رہ با لا بیا ن سے یہ بھی ؓا ہر ہو گیا کہ ان لو گو ں کا یہ گما ن بھی با طل ہے کہ تما م اسلا می شہر و ں میں سارے مسلما نو ں کا تعا مل اسی پر ہے کہ یہ اذا ن مسجد کے اند ر منبر کے متصل ہو تی ہے (توتعا مل کی دلیل سے اذا ن ثا نی متصل منبر جا ئز ہو ئی)کیو نکہ سکند ر ی پھر سفطی کا بیا ن سن چکے کہ ما لکیہ اور اہل مغر ب کا تعا مل بیر و ن مسجد کا ہے خود ہند و ستا ن کےا اکثر شہر و ں میں شا ہی جا مع مسجد و ں میں منبر و ں سے دور چبو تر ے بنے ہو تے ہیں جن پر آج تک اذا ن ہو تی ہے پہلے ہم یہ بتا آئے ہیں کہ یہ اذا ن بھی دراصل بیر ون مسجد ہے لیکن عو ا م لا علمی کی وجہ سے حقیقت سے غا فل اور ظا ہر سے دھو کے میں پڑے ہیں اور اس کو اذا ن اند رو ن مسجد سمجھتے ہیں اور یہی ان میں شا ئع و ذا ئع ہے اور پھر اسی لا علمی پر اپنے ایک فا سد قیا س کی بنیا د رکھتے ہیں کہ مسجد مسجد سب بر ابر ہیں ان میں با ہم نہ کو ئی فر ق ہے نہ کو ئی فرق کا قا ئل ۔ پس جب یہ اذا ن مسجد کے اند ر ہو تی تو پنجو قۃ نما زو ں میں بھی اذا ن مسجد کے اند ر ہو نے میں کیا حر ج ہے اور نما ز کے وقت دربار الہی کے جس حصہ میں بھی جی چا ہتا ہے کھڑے ہو کر چیخنے لگتے ہیں اور جب انہیں کو ئی تنبیہ کر تا ہے کہ اللہ سے ڈرو اور مسجد میں آواز بلند نہ کر و تو عنا د و فسا د کر نے لگتے ہیں اور اب صور ت حا ل یہ ہو گئی ہے کہ سنت کا عمل مردہ ہو گیا ہے اور تصر یحا ت ائمہ جھوٹ قرار دی جا چکی ہیں اور خلا ف سنت عمل کو تعا مل قرار دے لیا ہے اور حکم شر ع کے ابطا ل کے لیے اسی کو دلیل بنا لیا ہے توا للہ تعا لی سے اس کے لیے فر یا د ہے اور اسی سے مد د کی طلب ہے ۔
(۱؎حو اشی الجو اہر الزکیہ شر ح المقد مۃ العشما و تہ للعلا مۃ یو سف السفطی الما لکی )
ولم یعلموا ا ن مثل ھذا التعا مل لا حجۃ فیہ والا لکا ن الکذب وا لغیبۃ والتمیمۃ اجدر بالجو ا ز فا نھا اکثر تعا ملا وافشی فی النا س شر قا و غر با بعد قر و ن الخیر قا ل صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم ثم یفشو ا لکذب ۱؎۔ اور یہ نکتہ وہ لو گ سمجھ ہی نہیں پا تے کہ ایسا تعا مل قطعا سند نہیں ور نہ جھو ٹ غیبت ،چغلی خور ی اس سے زیا دہ جو ا ز کے مستحق ہو نگے کہ ان کا تعا مل قر و ن مشہو د لہا با لخیر کے بعد مشر ق و مغر ب میں پھیل گیا ہے جیسا کہ حد یث شر یف میں ہے :”پھر جھوٹ پھیل جا ئےگا ،”
(۱؎جامع التر مذی ابو اب الفتن با ب فی لزوم الجما عتہ امین کمپنی دہلی ۲ /۳۹)
قا ل فی فتا وی الغیا ثیۃ او خر کتاب الا جا ر ۃ عن السید الا ما م الشہید رحمہ اللہ تعا لی انما ید ل علی الجوا ز ما یکو ن علی الا ستمرا ر من الصد ر الا و ل فا ذا لم یکن کذلک لا یکون فعلھم حجۃ الا اذا ن کا ن ذلک من النا س کا فۃ فی البلدان کلھا الا تر ی انھم لو تعا ملو ا علی بیع الخمر او علی الر با لا یفتی با لحل ۱اھ۔ صاحب فتا وی غیا ثیہ نے اواخر کتاب اجا ر ہ میں سید اما م شہید رحمۃ اللہ علیہ سے ذکر کیا :”وہی تعا مل جوا ز کی دلیل بنا ہے جو صدر او ل سے آج تک بر ا بر جا ری ہو اور ایسا نہ ہو تو کسی عہد کے لو گوں کا فعل حجت نہیں یا ان تمام شہر و ں قصبو ں قر یو ں کے سبھی انسا نو ں کا تعا مل ہو تا اور با ت ہے اور یہ با لک واضح امر ہے کہ ان اگر سب جگہ کے سب لگ شرا ب پینے لگیں سو دی کا و با ر میں مبتلا ہو ں تو بھی اس کے حلا ل ہو نے کا فتو ی نہیں دیا جائے گا۔”
(۱؎فتا وی غیا ثیہ کتاب الا جا را ت نو ع فی النسا مکتبہ اسلا میہ کو ئٹہ ص۱۶۰)
وفی جمعۃ رد المحتا ر ”التعا ر ف انما یصلح دلیلا علی الحل اذکا ن عا ما من عہد الصحا بۃ والمجتہد ین کما صر حو ا بہ ۲؎” ردالمحتار کے با ب الجمعہ میں ہے تعا مل اس وقت جو ا ز کی دلیل بنتا ہے جبکہ عا م ہو ا ور عہد صحا بہ ومجتہد ین سے اس پر عملد ر آمد ہو ایسا ہی ائمہ نے تصر یح کی ہے ۔”
(۲؎رد المحتار کتا ب الصلو ۃ با ب الجمعہ دار حیا ء الترا ث العر بی بیر و ت ۱ /۵۵۱)
وفی جنا ئز ہ نقلا عن بعض المحققین من الشو ا فع با لتقر یر ما نصہ :”ھذا الا جما ع اکثر ی و ان سلم فمحل حجیتا عند صلا ح الا زمنۃ بحیث ینفذ فیھا الا مر با لمعر و ف والنہی عن المنکر وقد تعطل ذلک منذ ا ز منۃ ۳۔” اسی کتا ب کے با ب الجنا ئز میں بعض محققین شو ا فع سے منقو ل ہے یہ اجما ع اکثر ی ہے اگر اس کو تسلیم بھی کرلیاجا ئے تو اس کے دلیل جو ا ز ہو نے کا تب اعتبار ہو گا کہ یہ امت کے صلا ح کے وقت کا ہو جب امر با لمعر و ف اور نہی عن المنکر نا فذ ہو اور یہ تو زما نہ دراز سے معطل ہے ۔
(۳؎رد المحتار کتا ب الصلو ۃ با ب صلو ۃ الجنا ئز دار حیا ء الترا ث العر بی بیر و ت ۱ /۶۰۲)
وفی المکتو ب الرا بع والخمسین من الجلد الثا نی من المکتو با ت الشیخ احمد العمر ی السر ھند ی الشہیر بمجد د الف ثانی ما تر جمتہ :”غمر ت الد نیا فی بحر البد عا ت و اطمأ نت بظلما ت المحد ثا ت من یشتطیع دعو ی رفع البد عۃ التکلم باحیا ء السنۃ اکثرعلما ء الز من حما ۃ البد ع و محا ۃ السنن یحسبو ن شیو ع البد ع تعا ملا فیفتون بجوازھا بل استحسانھا ویدلون الناس علی اتیانھا یظنون ان الضلال اذا شاع والباطل اذا تعورف صار تعاملا ولا ید رو ن ان مثل ھذا التعامل بشیئ لیس دلیلا علی حسنہ انما العبر ہ بتعا مل جا ء من الصد ر الا و ل او حصل اجما ع جمیع النا س علیہ ثم احتج بعبا ر ۃ الغیا ثیۃ المذکو ر ۃ ثم قا ل ولا شک ان العلم بتعا مل النا س کا فۃ و عمل جمیع القر ی وا لبلدا ن خا ر ج عن وسع البشر ۱؎اھ” ۔ مجد د الف ثا نی شیخ احمد العمر ی سر ہند ی کے مکتو با ت کی جلد ثا نی مکتوب نمبر۵۴میں ہے : دنیا بد عا ت کے سمند ر میں غو طہ لگا چکی ہے اور محد ثا ت کی تا ریکیو ں میں مطمئن ہے رفع بد عت اور تکلم باحیا ء سنت کا دعوی کو ن کر سکتا ہے اس زما نہ کے اکثر علما ء تو بد عا ت کے حا می اور سنت کے مٹا نے وا لے ہیں اوربد عا ت کے شیو ع اور کثرت کو تعا مل قرار دیتے ہین اور اس کے جوا ز بلکہ استحسا ن کا فتو ی صاد ر کر تے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ بد عت پھیل جا ئے اور گمر ا ہی عا م ہو جا ئے تو تعا مل بن جا تا ہے یہ لو گ یہ نہیں سمجھتے کہ کسی چیز کا ایسا تعا مل اس کے حسن ہو نے کی دلیل نہیں جز ایں نیست کہ وہ تعا مل معتبر ہے جو صدر اول سے معمو ل بہا ہو یا اس پر تمام لو گو ں کا اجما ع ثا بت ہو (پھر غیا ثیہ کی مذکو ر ہ با لا عبا ر ت سے استدلا ل کر کے فر ما یا ) تما م لو گو ں کا تعا مل اور تما م شہر و ں اور دیہا تو ں کا عمل معلو م ہو نا آدمی کی وسعت و طا قت سے با ہر ہے اھ ”
(۱؎مکتو با ت اما م ربا نی مکتو ب پنجا ہ و چہار م نو لکشو ر لکھنو ۲ /۱۰۳)
واکثر المخا لفین لنافی المسئلۃ الدا ئر ۃ انما یفتخر و ن با نھم من غلما ن ھذا الشیخ و قد قری علیہم قو لہ ھذامرارا فلایسمعو ن ولا ینتہو ن عن ادعا ء التعا مل و لا یر عو و ن انما اتخذوا شیخھم ھواھم ، فھم بفتو ی الھو ی یعلمو ن نسأ ل اللہ العفو و العا فیۃ ۔ مسئلہ اذا ن میں ہما رے مخا لفین میں سے بہتو ں کو اس پر فخر ہے کہ وہ شیخ مجدد کے غلا مو ں میں سے ہیں ہم نے بار ہا شیخ مجدد کی یہ عبارت پڑھ کر انہیں سنا ئی بھی (کہ اب سے وہ اپنے تعا مل مقبو ل کے دعوے سے با ز آئیں) مگر وہ تعا مل کے دعو ی سے با زنہیں آئے دراصل (حضرت مجد د)کے بجا ئے انہو ں اپنے نفس کی خوا ہش کو اپنا شیخ بنا لیا ہے اوراسی کے فتو ے پر عمل کر تے ہیں ہم اللہ تعا لی سے عفو و عا فیت طلب کر تے ہیں ۔
قا ل العلا مۃ الشا می فی رد المحتار من الا جا ر ات وفی رسا لتہ ”تحریر العبا ر ۃ ”وفی کتا بہ ”العقو د الدریۃ ”کلھا عن العلا مۃ قنا لی زادہ (عہ) ”ان المسئلۃ النبا ء و الغر س علی ارض الو قف کثیرۃ الو قو ع فی البلدان و اذا طلب المتولی او القا ضی رفع اجا ر تھا الی اجر المثل یتظلم المستا جر و ن و یزعمو ن انہ ظلم وھم ظا لمو ن و بعض الصد ور والاکابر یعاونونھم ویزعمو ن ان ھذا تحر یک فتنۃ علی النا س و ان الصوا ب ابقا ء الا مو رعلی ماھی علیہ و ان شرالامور محد ثا تھا ولا یعلمو ن ان الشر فی اغضا العین عن الشر ع وا ان احیا ء النسۃ عند فسا د الا مۃ من افضل الجہا د واجزل القر ب ۱؎اھ، علا مہ شا می نے رد المحتار ،کتا ب الا جا ر ہ رسا لہ تحر ی العبار ۃ ،عقو الد ریہ سب میں علا مہ قنا لی زادہ سے نقل کیا کہ وقف کی زمین پر مکا ن بنا نے اور در خت لگا نے کا معا ملہ وقف کے اجیر و ں میں کثیر الوقو ع ہے جب متو لی اور قاضی سے ایسے اجا رو ں کے ختم کر نے کی درخوا ست کی جا تی ہے اور اجر ت مثل پر ان زمینو ں کے کر ا یہ پر اٹھا نے کی با ت کہی جا تی ہے تو ان زمینو ں کے قد یم کر ا یہ دار اس کی فر یا د کر تے ہیں اور اس کو ظلم قرار دیتے ہیں حا لا نکہ وہ خو د ہی ظا لم ہیں اور بعض صدر واکا بر ا ن کی مد کر تے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو لو گو ں کو فتنہ میں ڈا لنا ہے اس لیے جیسا اب تک ہو تا آیا تھا ویسا ہی عملدر آمد ہو تے رہنا چا ہیے کہ ہر بات سے بر ی نئی با ت پید ا کر نا ہے اور وہ یہ نہیں جا نتے کہ بر ا ئی کے وقت شر ع سے چشم پو شی خود بری ہے اور امت میں فساد وا قع ہو نے کے وقت سنت کا زند ہ کر نا جہا د سے بھی افضل ہے اور بز ر گ تر ین عبا د ت ہے ۔
عہ : ھکذا فی رد المحتار طبع فی قسطنطنیۃ وفی تحر یر العبا ر ۃ قنلی زا دہ بغیر الا لف و فی العقو د الدر ۃ منلی زا دہ بالمیم ۱۲منہ
عـہ : یہ لفظ رد المحتا ر مطبو عہ قسطنطنیہ میں ہے اور تحر یر العبا ر ۃ ”میں قنلی زا دہ بغیر الف کے ہے اور عقودالدریہ میں منلی زا دہ میم کے سا تھ ہے ۱۲منہ (ت)
(۱؎ردالمحتا ر کتاب الا جا ر ۃ با ب ما یجو ز من الا جا ر ۃ دار احیا ء التر ا ث العر بی بیر وت ۵ /۲۰)
(تحر یر العبا د ۃ فیمن ھو اولی با لا جا ر ۃ رسا لہ من رسا ئل ابن عا بد ین سہیل اکیڈمی لا ہو ر ۲ /۱۵۷)
وفی تحر یر العبار ۃ فعلم بھذا ان ھذہ علۃ قد یمۃ ولا حو ل ولا قو ۃ الا با للہ العلی العظیم ۲؎اھ ۔ تحر یر العبارۃ میں علا مہ شا می علیہ الر حمۃ تحر یر فر ما تے ہیں :”اس سے معلو م ہوا کہ یہ پرا نی بیمار ی ہے (کہ شر پھیل جا ئے تو لو گ چشم پو شی اختیا ر کر تے ہیں )لا حو ل ولاقو ہ الا با للہ العلی العظیم ۔”
(۲؎تحر یر العبا ر ۃ فیمن ھو اولی با لا جا ر ۃ رسا لہ من رسا ئل ابن عا بد ین سہیل اکیڈمی لا ہو ر ۲ /۱۵۷)
وفی ردالمحتار : ”اذا تکلم احد بین النا س بذلک یعد و ن کلا مہ منکر ا من القو ل و زورا وھذہ بلیۃ قد یمۃ ۳؎اھ ” وفیہ وفی العقو د الد ر یۃ :”وھذا علم فی ورق ۔۴؎” رد المحتا ر میں ہے :”لو گ آدمی کی حق با ت کو بھی نا حق سمجھتے ہیں یہ قدیم بر ا ئی ہے ۔اورا سی (رد المحتا ر میں ہے ) میں اور عقو د الد ر یہ میں ہے :”یہ ایک ور ق میں ہم نے علم عظیم ظا ہر کیا ۔”
(۳؎ رد المحتار کتا ب الا جا رۃ با ب ما یجو ز من الا جا ر ۃ دار احیا ء التر ا ث العر بی بیر و ت ۵ /۲۰)
(۴؎رد المحتار کتا ب الا جا رۃ با ب ما یجو ز من الا جا ر ۃ دار احیا ء التر ا ث العر بی بیر و ت ۵ /۲۰)
(العقو د الد ریہ کتا ب الا جا رۃ مسئلہ استبقا ء البناوالغراس ارگ با زا ر قند ھار افغا نستا ن ۲ /۱۲۵)
وھذہ لعمر ک حا ل النا س فی تھالکھم علی ھذا المحد ث و ھذہ ھی اعذار ھم فی ایقا عہ والقا ء السنۃ واللہ المستعا ن و لا حو ل ولا قو ۃ الا با للہ العلی العظیم ۔ واللہ اس اذان ممنوع ومحدث سے لوگوں کے ہلاکت میں پڑنے کا حال بھی ایسا ہی ہے ، اورسنت چھوڑ کر اس امر مکروہ میں پڑے رہنے کیلئے لوگوں نے ایسے ہی اعذار بار دہ تراش رکھے ہیں۔ و لا حو ل ولا قو ۃ الا با للہ العلی العظیم
نفحہ ۱۰:اذقدظہران لا تعا مل الی الآن فما ظنک بالتو ارث الذی بہ یلھجو ن واذا اخذوا با لحد یث والفقہ فھم یتلجلجون۔ نفحہ ۱۰: جب یہ ظا ہر ہو گیا کہ اذا ن متصل منبر کے تعا مل کی کو ئی اصل نہیں پھر تو ارث کے ثبو ت کی کو ن سی صو ر ت ہے کہ اس سے بھی یہ لو گ پنا ہ پکڑتے ہیں اور جب حد یث و فقہ ت ان امو ر پر موا خذہ کیا جا تا ہے تو کج مج بیا نی دکھا تے ہیں ۔
ویا سبحا ن اللہ انما التو ارث التعا مل فی جمیع القر و ن فا ذا لم یتحقق الی الا ن کیف یثبت من سالف الزما ن اذ قد ارشد الحدیث الصحیح ان الذ ی فی عہد الر سا لۃ و الخلا فۃ الر ا شد ۃ کا ن علی خلا ف ما یزعمو ن فا نی یصح التوارث و الی من یسند و ن و عمن یر ثو ن قا ل المحقق حیث اطلق فی فتح القد یر مسا لۃ الجھر فی الا ولیین والا خفا ء فی الا خر یین قو لہ ھذا ھو المتو ار ث یعنی انا اخذ نا عمن یلینا الصلو ۃ ھکذا فعلا و ھم عن یلیھم کذلک و ھکذ ا الی الصحا بۃ رضی اللہ تعالی عنہم وھم بالضرو ر ہ اخذ وہ عن صا حب الو حی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم فلا یحتا ج الی ان ینقل فیہ نص معین۱؎، فھذا معنی التو ارث المحتج بہ شر عا مطلقا المستغنی عن ابد ا ء اسند خا ص وانی لھم بذلک و کیف یصح فیما قد علمنا وعن صا ح الو حی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم و عن خلفا ئہ الرا شد ین رضی اللہ تعا لی عنہم خلا فہ ۔ سبحا ن اللہ ! تو ارث تو تما م قر نو ں کے تعا مل کا نا م ہے اور جب آجکل کا تعا مل ثا بت نہ ہو سکا تو گز شتہ زمانو ں کا کیسے ثا بت ہو گا اور حدیث صحیح سے پتہ چلا کہ عہد رسا لت و زما نہ خلا فت را شد ہ میں عملدرآمد ان کے مزعومہ کے خلا ف تھا تو کہا ں سے تو ا رث ثا بت ہو گا کس سے اس کی نسبت ثا بت کر ینگے اور کس کا ورثہ اس کو قرا ر یں گے محقق علی الا طلا ق نے فتح القد یر میں فر ما یا :”رکعتین اولین میں قرا ء ت جہر ی اور اخر یین میں سر ی ہی متو ا ر ث ہے یعنی ہم نے اس کو اپنے با پ دادا اور بز ر گو ں سے لیا اور انہو ں نے اس کو اپنے بز رگو ں سے اخذ کیا ایسے ہی صحا بہ کر ا م رضی اللہ تعا لی عنھم تک ،اورانہو ں نے اس کو صا حب وحی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم سے سیکھا اس لیے اس کے وا سطے کسی نص معین کی ضرورت نہیں، یہی تو ارث کے وہ معنی ہیں جس سے شر عا دلیل پکڑ نا درست ہے اور جس کی سند ظا ہر کر نے کی ضرورت نہیں تو مسئلہ دائر ہ میں یہ لو گ کیسے تو ا رث ثا بت کر یں گے جبکہ ہم خو ب جا نتے ہیں کہ صا حب و حی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اور خلفا ئے را شد ین سے اس کے خلا ف روا یت ہے ۔”
(۱؎فتح القد یر کتا ب الصلو ۃ با ب صفۃ الصلو ہ فی القرا ۃ مکتبہ نو ر یہ رضو یہ سکھر ۱ /۲۸۳)
اقو ل : وتحقیق المقا م ان الا حوا ل اربع :(۱)العلم بعد م الحد وث (۲) وعد م العلم با لحد وث (۳) والعلم بالحدوث تفصیلاً ای مع العلم بانہ حدث فی الوقت الفلان (۴) والعلم بہ اجما لا ان علمنا انہ حا دث ولا نعلم متی احد ث اقو ل : (میں کہتا ہو ں )تحقیق مقا م یہ ہے کہ احو ا ل کی چا ر قسم ہے (۱)جس کا ٖحا دث نہ ہو نا معلو م ہو (۲)جس کے حدوث کا علم نہ ہو ۔(۳)حدوث کا علم تفصیلی ہو کہ کب کس نے ایجاد کیا (۴) حدوث کاعلم اجمالی ہو ، یعنی یہ تو معلو م ہو کہ نو ایجا د ہے لیکن یہ نہ معلو م ہو کہ کب اور کیسے ایجا د ہو ا ۔
ومن احد ث فالشیئ اذا کا ن نا شیا متعا ملا بہ فی عا مۃ المسلمین وعلمنا انہ ھو ا لذی کا ن علی عہد ہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فھو القسم الا ول وھو المتو ا رث الا علی واذ لم یعلم کیف کا ن الا مر علی عہد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولا علم حا ر ث بعد ہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم فیحمل علی ان کلا قر ن اخذ ہ عن سا بقہ و یجعل متوار ثا تحکیماً للحا ل حملا علی الظا ھر والا صل اذ الا صل فی الا مو ر الشر عیۃ ھو الا خذ عن النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم والعمل بالسنۃ ھو الظا ھر من حا ل عامۃ المسلمین وھذا ھو القسم الثا نی ”وھذا ما یقا ل فیہ انہ لا یحتا ج الی سند خا ص اما اذا علم حد و ثہ فلا یمکن جعلہ متوارثا عن النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم سوا ء علمنا وقت حد و ثہ او لا ،لا ن عدم العلم بو قت الحد و ث لیس عد م العلم با لحد و ث فضلا عن العلم بعد م الحد وث فرب حا د ث نعلم قطعاً انہ حادث ولا نعلم متی حدث کا ھرام مصر بل والسما ء والا ر ض فی الحد وث المطلق ومعا لیق الحجر ۃ الشر یفۃ التی تعلق حو لھا من قنا دیل الذھب والفضۃ و نحو ھما فی الحد و ث المقید قا ل السید السمھو دی فی خلا صۃ الو فا ء : ولم اقف علی بتدا ء حد وثھا ۱؎الخ و حینئذ ینظر ھل یخا لف ھذا سنۃ ثابتۃ فی خصو ص الا مر ا ولا ۔ علی الثا نی یحا ل الا مر علی ھا ل الشیئ فی نفسہ فا ن کا ن حسنا داخلا د تحت قوا عدالحسن فحسن علی تفاوتہ من الاستحباب الی الوجوب حسب ما تقتضیہ القواعد الشر عیۃ ، وقد یطلق علیہ ”المتوارث ”اذتقا د م عہد ہ کذکر العمین الکر یمین فی الخطبۃ ، وھذا ا دنی اقسا مہ ولا اطلا ق لہ علی ما دونہ اللہم الا لغۃ ، کتوارث التقیۃ فی الرا فضۃ والکذب فی الو ھا بیۃ وان کا ن قبیحا داخلا تحت قوا عدالقبح فقبیح علی تفا وتہ من الکر اھۃ الی التحر یم او لا و لا فلا ولا بل مبا ح ۰۰۰۰۰(عہ) ۰۰۰۰ والخروج عن العا دۃ شھر ۃ و مکر و ہ کما نصو ا علیہ ۱۔ جو چیز عامۃ المسلمین میں عا م طو ر سے معمو ل بہ ہو اور اس کا عمل شا ئع و ذائع ہو اور اس کے با ر ے میں یہ بھی معلو م ہو کہ حضور صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے عہد مبا رک میں بھی ایسا ہی ہو تا تھا یہ قسم اول ہے اور اسی کو متو ارث اعلی بھی کہتے ہیں اور جب نہ یہ معلو م ہو کہ حضور صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے زما نہ میں اس کا کیا حا ل تھا نہ یہی پتہ چلے کہ اس کی ایجا د حضور صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے بعد ہو ئی ہے تو یہ سمجھا جا ئے گا کہ یہ چیز شروع سے اسی طر ح ہو تی آ رہی ہے اور ہر بعد کے زما نہ و ا لے نے اپنے سے پہلے زما نہ وا لو ں سے اسے
حا صل کیا ،تو ایسی چیز کو حا ل کی دلیل پر عمل اور اصل و ظا ہر کا لحا ظ کر تے ہو ئے متو ا رث حکمی کہا جا تا ہے کہ امو ر شر عیہ میں سنت پر عمل کر نا ہی اصل ہے اور مسلما نو ں کا ظا ہر حا ل بھی یہی ہے کہ سنت پر عمل کریں یہ متو ا ر ث کی قسم ثا نی ہے ، اس کے لیے کسی خا ص سند کی ضرورت نہیں اور جس چیز کے بار ے میں یہ معلو م ہو کہ یہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے عہد مبا ر ک کی ایجا د ہے ۔ایسی چیز کے با رے میں متو ا رث ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا اس کے حدوث کے وقت کا علم ہو یا نہ۔ کیو نکہ کسی چیز کے حد و ث کے وقت کا علم نہ ہو نے کے لیے یہ لا زم نہیں کہ ہم اس کے حد و ث سے ہی بے خبر ہو ں ،یا یہ جا نتے ہو ں کہ وہ حا د ث نہیں ہے۔ کتنی چیزو ں کے بار ے میں ہمیں با لیقین معلو م ہو تا ہے کہ یہ حا دث ہے لیکن اس کے حد و ث کے وقت کا پتہ نہیں ہو تا جیسے اہرام مصر بلکہ حد و ث مطلق میں آسما ن و زمین بھی اور حد و ث مقید میں جیسے وہ جھا ڑ فانوس اور قند یلیں جو حجر ۃ نبو ی شر یف کے آس پا س لٹکا ئی ہو ئی ہیں ۔حضرت علا مہ سمہو دی نے خلا صہ وفاء الوفا میں فر ما یا : ” ہمیں ان کے ابتد ا ء حد و ث کا وقت نہیں معلو م تو ایسے نو پید ا امو ر جن کے حد وث کے وقت کا ہمیں علم نہ ہو حسب قوا عد شر عیہ ان کے با ر ے میں یہ دیکھنا ہو گا کہ یہ کسی سنت ثا بتہ کے مخا لف تو نہیں، مخا لف نہ ہو تو ا س کا معا ملہ استحبا ب سے وجو ب تک میں دائر ہو گا اور زما نہ کی قد ا مت کے اعتبا ر سے کبھی کبھی اس کو بھی “متو ا رث” کہہ دیا جا تا ہے جیسا کہ خطبہ جمعہ میں حضور صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے دو نوں چچا ؤ ں کے ذکر کا روا ج کہ حا دث ہے پر یہ نہیں معلو م کہ کب سے را ئج ہے البتہ یہ کسی سنت ثا بتہ کے خلا ف نہیـں تو یہ تو ا ر ث کا سب سے ادنی در جہ ہے اس کے بعد کی ایجادکو متوارث بمعنی اصطلا ح شر ع نہیں کہا جا ئیگا ہا ں توارث لغو ی ہو سکتا ہے جیسے تقیہ شیعو ں میں متو ا رث ہے اور جھو ٹ وہا بیہ میں اباً عن جدٍ را ئج ہے اور اگر ایسی نو پید چیز ہو جو بعد عہد رسا لت ہو اور اسکے حد و ث کا وقت نہ معلو م ہو اور وہ خو د قبیح اور قواعد قبح کےتحت داخل ہو تو قبیح ہے اور اس کا دا ئر ہ بھی مکر و ہ سے لے کر تحریم تک پھیلا ہوا ہے۔ اور اگر یہی حا دث نہ سنت ثا بتہ کے خلا ف ہو نہ قو ا عد قبح کے دائر ے میں آتی ہو ،تو یہ صر ف مبا ح ہے ،نہ قبیح ہے ، نہ مستحب ،ہا ں جب شہر و علا قہ کی عا دت سے خا ر ج ہو تو مکر و ہ ہو گا۔
عہ : بیاض فی الاصل
(۱؎وفاء الوفاء الفصل الخامس والعشرون دار احیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۴۸۴)
(۱؎الحدیقۃ الندیۃ من آفات السحر فھو حرام مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲/ ۵۸۲ )
و ورد”خا لقوا النا س با خلا قھم و قا ل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ”بشر وا ولا تنفروا ۲۔ وعلی الا ول یرد و لایقبل وا ن فشا ما فشا وقد اجا راللہ الا مۃ عن الا جتما ع علی مثلہ الا ان یکو ن شیئ تغیر فیہ الحکم بتغییر الزما ن کمنع النسا ء عن المسا جد وھذا فی الحقیقۃ لیس مخا لفا للسنۃ الثا بتۃ بل موا فق لھا وان وان خا لف الوا قع فی عھدہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلملان الواقع لشیئ کا ن وبان والحادث لشیئ لو کا ن فی زمنہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم لکا ن فھذا ھو التحقیق و معلو م ان مسئلتنا ھذہ من القسم الرا بع فی التقسیم الا ول ۔ والقسم الا ول فی التقسیم الثا نی ای نعلم انہ حادث ان لم نعلم متی حد ث ۔ و نعلم ان الوا قع علی عہد رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کا ن علی خلا ف ذلک ولیس شیئا یتغیر فیہ الحکم بتغیر الزما ن و مع ھذا تظا فر ت النصو ص عن ائمۃ الفقہ بنھی عام ھو داخل فیہ ،بل ارشد الائمۃ الی النہی عن خصو صہ و دلت الا دلۃ علی قبحہ و شنا عتہ کما تقد مہ کل ذلک فثبت انہ یستحیل جعلہ متوارثا بل ھو من المحد ثا ت المرود ۃ قطعا ، والحمد للہ ، وبہ استبا ن ان الجھل بمبدأہ لا یجعلہ قد یما للعلم بحدو ثہ بل الجہل بالمبدا ء یؤخر ہ جدا ، لا ن الحا دث انمایضا ف الی اقر ب الا وقا ت ، و زعم انہ حد ث من زمن سید نا عثمان رضی اللہ تعا لی عنہ فر یۃ بلا مر یۃ واحتجا ج التا نو ی الو ھا بی لہ با نہ لما قا ل فی الھد ا یۃ اذا صعد الا ما م المنبر جلس و اذن المؤ ذنو ن بین ید ی الا مام بذلک جر ی التو ا رث قا ل علیہ امام العینی فی البنا یۃ ای فی زمن عثما ن ولا یمکن ان یراد بقو لہ بین ید ی المنبر مجر د المحا ذا ت لثبو تھا من زمن الر سا لۃ فلا بد ان یر ادبہ کو نہ لد ی المنبر متصلا بہ لیصح جعلہ متو ارثا من زمن عثما ن لا قبلہ اھ ۔ وما زعم الوھا بی المفتر ی و ھذہ فر یۃ فو ق فر یۃ، ولقد صدق رسو ل صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم : “اذا لم تستحی فا صنع ما شئت”۳۔ فا ن عبا ر ۃ البنا یۃ ھکذا “م بذلک ش ای با لا ا ذا ن بین ید ی المنبر بعد الا ذا ن الا و ل علی المنا ر ۃ م بہ جر ی التو ارث ش من زمن عثما ن بن عفا ن الی یو منا ھذا” اھ ۱فا لا شا ر ۃ الی التا ذین بعد التا ذین ۔ لا الی التا ذین بین ید یہ ۔ ولکن الو ھا بیۃ قوم یفتر و ن ۔ولا حو ل ولا قو ۃ الا با للہ العلی العظیم ۔ چنا نچہ علما ء(عہ) نے فر ما یا کہ لو گو ں ان کے اخلا ق کے موافق معا ملہ کر و اور حدیث شر یف میں ہے ”لوگو ں کو بشا رت دو نفر ت نہ دلا ؤ ”سنت ثا بتہ کی مخا لفت کر نے وا لی با ت بد عت مردود ہ ہو گی اور گو وہ لا کھ پھیل گئی ہو اسے قبو ل نہیں کیا جا ئےگا اور ایسے حا دث امر پر پو ر ی امت مسلمہ کا جما ع نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعا لی نے اس امت کو گمرا ہی پر مجتمع ہو نے سے محفو ظ رکھا ہے ایک استثنا ئی صور ت البتہ ہے کہ وہ با ت ہےتوعہد رسا لت کے بعد کی اور بظا ہر مخا لف سنت بھی ہے لیکن زمانہ کی تبد لی کی وجہ سے اس کا حکم شر عی بد ل گیا اور اس تبدیلی پر تما م مسلما نوں کا عملدرآمد جا ر ی و سا ر ی ہو گیا جیسے حضور صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے عہدِ پُرنور میں عو رتیں مسجد میں جا تی تھیں لیکن بعد میں ان کو عام طو ر مسجد میں حا ضر ہو نے سے روک دیا گیا ہے ایسا نو زائید ہ امر حقیقت میں سنت ثا بتہ کے مخا لف نہیں ہو تا اگر چہ بظا ہر ایسا ہی نظر آتا ہے کہ اب جو با ت پید ا ہو گئی ہے اگر حضور صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے زما نہ میں ایسا ہو تا تو آ پ بھی عو ر تو ں کو مسجد میں جا نے سے منع فر ما دیتے (کما قا لت ام المو منین صد یقہ رضی اللہ تعا لی عنھا ) ام المو منین حضرت عا ئشہ نے ایسا ہی فر ما یا ۔یہ تحقیق مقا م ہے ، اور یہ معلو م ہے کہ ہما را مسئلہ پہلی تقسیم کی چوتھی قسم سے ہے ،اور تقسیم ثانی کی پہلی قسم ہے یعنی اس کے با رے میں ہمیں حا دث ہو نا تو معلو م ہے لیکن یہ نہیں معلو م کہ اس کے حد و ث کا وقت کب ہے ، اور ہمیں یہ بھی معلو م ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے زما نہ میں اس کے خلا ف عملدرآمد رہا ہے ، اور ئی ان امو ر سے بھی نہیں جس کا حکم زما نے کے بد لنے سے بد لتا ہو ،اور اس کے ساتھ ہی ائمہ فقہا کی بے شما ر نصو ص نہی عا م کی صو ر ت میں مو جو د ہیں بلکہ خا ص اذا ن جمعہ کی مما نعت کی طر ف بھی رہنما ئی ہے ، اور متعد د دلیلیں اس کے قبح و شنا عت پر بھی دلا لت کر تی ہیں جیسا کہ سا ری تفصیل گز ر چکی، تو ثا بت ہوا کہ اس کو متو ا رث قرار دینا محا ل ہے اور یہ قطعا یقینا بد عا ت مردودہ میں سے ہے اس سے یہ امر بھی روشن ہو گیا یہ کسی امر کے احدا ث کا وقت معلو م نہ ہو نا اس کو قد یم نہیں بنا تا جبکہ اس کے حا دث ہو نے کا علم ہو ، بلکہ جس کے حد وث کی بتد ا ء نہ معلو م ہو، اس کے با رے میں یہ امر سمجھا جا ئے گا کہ یہ امر با لکل نو پید ہے کیو نکہ حا دث قر یب تر ین وقت کی طر ف منسو ب ہو تا ہے۔ اور یہ گما ن کر نا کہ ا کا حد وث تو زما نہ عثما ن غنی رضی اللہ تعا لی عنہ سے ہے بلا شبہہ ایک افتر ا ء ہے ۔اور وہا بی تھا نو ی کا ہد ا یہ کی اس عبا ر ت سے استد لا ل کہ “اما م منبر پر چڑھے اور بیٹھے تو مو ذن اس کے سا منے اذا ن دے کہ یہی متو ا رث ہے ”۔ اوراما م عینی اس کی شرح میں فر ماتے ہیں کہ ”یہ حضرت عثما ن رضی اللہ رتعا لی عنہ کے زما نہ سے ہے” غلط ہے۔ صا حب ہد ا یہ کے قو ل یہی متوا ر ث ہے کا مطلب یہ ہے کہ اما م کے سا منے اذا ن ہو نا کیو نکہ اما م عینی رحمۃ اللہ علیہ کے قو ل کی روشنی میں کہنا پڑے گا کہ یہ منبر کے سا منے وا لی ا ذا ن زما نہ عثما ن غنی رضی اللہ تعا لی عنہ کی ایجا د ہے ۔اور اسی وقت سے متو ا رث ہے ،حا لا نکہ اس اذا ن کا تو عہد رسا لت سے ہو نا منقو ل ، متوارث ہے ۔اصل میں ان و ہا بی صا حب کا یہ زعم با طل ، ہد ا یہ او عینی کی عبارت میں نا جا ئز دست درازی کا نتیجہ ہے ۔حضور صلی اللہ تعا لٰی علیہ وسلم فر ما تے ہیں : ”بے شر م ہو گئے ہو تو جو چا ہو کرو ” پور ی عبارت یوں ہے :”یعنی حضر ت عثما ن غنی رضی اللہ تعا لی عنہ کے زما نہ سے یہی جا ر ی و سا ری ہو گیا کہ منا ر ہ پر پہلی اذا ن ہو اور اس کے بعد منبر کے سامنے وا لی اذا ن ہوا کر تی ہے ”حضرت ما م عینی رحمۃ اللہ علیہ نے تو اپنی عبا ر ت میں ذالک کا مشا ء الیہ پہلی اذا ن کے بعد دوسر ی اذا ن ہو نے کو قرا ر دیا ہے نہ کہ دوسر ی اذا ن کے منبر کے سا منے ہو نے کو ۔ اور اسی کو حضرت عثما ن کے عہد سے آج تک جا ر ی رہنے کو بتا یا۔ اور تھا نو ی صا حب نے اس کو منبر کے سامنے سے جو ڑ دیا۔ اورکیوں نہ ہو تا یہ وہا بی قو م بڑی افتر ا پر داز ہو تی ہے۔ لا حو ل ولا قو ۃ الا با للہ العلی العظیم۔
عہ : حدیث میں وارد ہے کہ لوگوں سے ان کی عادتوں کے موافق برتاؤ کرو۔ اقامۃ القیامۃ ص ۲۰ رواہ مسندا وقال رواہ الحاکم وقال صحیح علٰی شرط الشیخین ۳ ۱۲ نظام الدین ۔
(۱؎اتحاف السادۃالمتقین کتاب آداب العزۃ الباب الثانی الفائدۃ الثانیہ دارالفکر بیروت ۶/ ۵۷۲ و ۳۵۴ )
(۲؎صحیح البخاری کتاب العلم باب ما کان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم یتخولھم بالموعظۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۶
(۳؎اتحاف السادۃالمتقین بحوالہ حاکم کتاب السماع والوجد دارالفکر بیروت ۶/ ۵۷۲)
(۱؎الھدایہ کتاب الصلٰوۃ باب صلٰوۃ الجمعۃ المکتبۃ العربیہ کراچی ۱/ ۱۵۱ )
(۲؎البنایۃ فی شرح الھدایہ کتاب الصلٰوۃ باب صلٰوۃ الجمعۃ المکتبۃ الامدادیۃ مکۃ المکرمۃ جلد ۱ جزءالثانی ص ۱۱۴)
(۳؎امعجم الکبیر حدیث ۶۵۸ و ۶۶۱ المکتبۃ الفیصیلیۃ بیروت ۱۷/ ۲۳۷ و۲۳۸ )
وکذا زعمہ بعد التنزل حدوثہ من زمن ھشا م بن عبد الملک وھذا انما قا لہ بعض الما لکیۃ فی التاذین بین ید ی الا ما م لقولھم انہ محد ث و انما کا ن ھذا الا ذا ن علی عہد رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم وخلفا ئہ الر ا شد ین رضی اللہ تعا لی عنھم علی المنا ر ایضا کما تقد م وقد ردہ محققوھم و بینوا ان ھشا م لم یتغیر ھذا الا ذان شیئا انما غیرا لا ذا ن الاول الذی احدثہ عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہ کا ن یفعل با لزوراء فنقلہ ھشا م الی المسجد علی المنا ر ۃ ۔ (یونہی تھانوی صاحب کا یہ کہناکہ”ہم اپنے منصب سے اتر کر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ لصیق المنبراذان ہشام ابن عبدالملک نے ایجاد کیا”زعم فاسد اوروہم کا سد ہے ۔ حقیقت امر یہ ہے کہ حجرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے بعض متبعین اذان بین یدی الخطیب کو حادث ومرکوہ قرار دیتے ہیں ۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ حضور سید العالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں یہ اذان بھی منارہ پر ہوتی تھی، ہشام ابن عبدالملک نے اپنے زمانہ میں اس اذان کو جسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مقام زوراء پر دلانا جاری کیا تھا منارہ پر دلانا شروع کیا اوراس دوسری اذان کو منارہ کےبجائے خطیب کے سامنے کردیا۔ مگر محققین مالکیہ نے اپنے ہی ہم مذہب علماء کے اس خیال کو رد کردیا کہ ہشام نے دوسری اذان میں کوئی ترمیم نہیں کی ، وہ عہد رسالت اورعہد شیخین بلکہ عہد عثمان ومابعد کے موافق برابر خطیب کے سامنے ہوتی رہی، ہشام نے تو صرف حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اضافہ کردہ اذان کو مقام زوراء سے منتقل کر کے منارہ مسجد نبوی پر کرانا شروع کیا۔ )
قال العلامۃ الزرقانی المالکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فی شرح المواھب (عبارۃ ابن الحاجب من المالکیۃ یحرم الاشتغال عن السعی عند اذان الخطبۃ وھو معہود) فی زمانہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم،(فلماکان عثمان وکثروا امر بالاذان قبلہ علی الزوراء اھ ثم نقلہ ھشام الی المسجد وجعل الاٰخربین یدیہ بعمنی انہ ابقاہ بالمکان الذی یفعل فیہ فلم یغیرہ بخلاف ماکان یفعل بالزوراء فحولہ الی المسجدعلی المنار۱ اھ باختصار۔ چناچنہ امام زرقانی مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مواہب لدنیہ مٰن ابن حاجب مالکی کی مندرجہ ذیل عبارت کی شرح مٰن فرمایا:”خطبہ کی اذان شروع ہونے پر نماز جمعہ کے لئے سعی حرام ہے”(یعنی اذان خطبہ شروع ہونے سے قبل ہی مسجد میں پہنچ جانا چاہیے ) زمانہ رسالت میں یہی معہود ومعروف تھا، حضرت عثمان غنی رضی ا للہ تعالٰی عنہ کا زمانہ آیا اورنمازیوں کی تعدادزیادہ ہوگئ توحضرت ذوالنورین نے خطیب کےمنبر پر بیٹھنے سے قبل بھی مقام زوراء پر ایک اذان پکارنے کا حکم دیا(پھرہشام نے اس اذان کو مسجد کی طرف منتقل کیا اوردوسری اذان کو سامنے لایا) مطلب یہ ہے کہ دوسری اذان وہیں دلائی جہاں عہد رسالت میں ہوتی تھی،اس میں کچھ تغیرنہیں کیا،البتہ حضرت عثمان غنی نے جو اذان مقام زوراء پر دلوانی شروع کی تھی اس کو مسجد کی طرف منتقل کیا یعنی اسے منارہ پر دلوانے لگا،اھ بالاختصار۔
(۱شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ المقصدالتاسع الباب الثانی دارالمعرفۃ بیروت ۷ /۳۷۹)
ولئن فرضنا ان ھشامًاھوالذی غیر السنۃ فمن ھشام وما ھشام حتی یعتبر بتغییرہ ویوخذ بفعلہ وتترک سنۃ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وخلفاءہ الراشدین لاجلہ لایرضی بہٖ احدمن اھ الدین۔ ونسبۃ الوھابی ایاہ الی ائمۃ الھدٰی مالک وابی حنیفۃ وغیرھما رضی اللہ تعالٰی عنہم،انھم اتبعوا ھشاماً فیہ وترکوا السنۃ الجلہ افتراء منہ علیھم وسبۃ غلیظۃ فی حقھم ھاشاھم عن ذٰلک ، ولکن اذ قدّالخبیث اذ قدسب محمداوسب رب محمد جل وعلاوصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وطبعہ واشاعہ فمن بقی نعوذباللہ من حال کل مرتد وشقی ولا ھول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ اوراگر ہم یہ مان بھی لیں کہ ہشام نے منبر کے سامنے والی اذان میں بھی تصرف کیااوراسے منبر کے متصل دلانے لگا اورسنت رسول کو بدل دیا، تو یہ ہشام کون ہے اورکیا ہے کہ اسکے بدلنے کا لحاظ کیاجائے اوراس کی اتباع کی جائے،اوراس کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اورخلفائے راشدین کی سنت چھوڑدی جائے۔بھلا دینداروںمیں سے کون اس پر راضی ہوگا!اوراس وہابی نے جو یہ کہا کہ ائمہ ہدٰی مثل امام مالک وابوحنیفہ وغیرہ رضی اللہ عنہم نے ہشام کی اتباع کی اوراسی وجہ سے حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سنت چھوڑدی۔ یہ ان ائمہ ہدٰی پر اس کی افتراء پردازی ہے ، اوران کی طرف ایک غلیظ برائی کی نسبت ہے ، ان کا دامن اسی آلودگی سے پاک ہے ، لیکن اس خبیث نے جب گلہ گویوں کو دوٹکڑے کردیا اوراللہ ورسول(جل وعلاوصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمٌ)کو گالی دیاوراسے چھاپ کر شائع کیا، تو اب کون رہ گیا،ہم مرتدکے حال سے اللہ تعالٰی کی پناہ مانگتے ہیں،لاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم۔
نفحہ۱۱: واذقدطولبوامرارًا انکم تدعون التوارث عن المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فہل نص علیہ احد، او عندکم علیہ من دلیل، ام انتم شاھد تم زمنہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم،ام کل ماترونہ فی زمنکم فھو مستمر من زمنہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جاءھم(عہ)اضطرارالغریق الی التشبت بکل حشیش فتمسکوا بمنقول ومعقول،اما المنقول فقول الھدایۃ والھندیۃ: اذن المؤذنون بین یدی المنبر وبذٰلک جری التوارث۱۔” وھذاکما تری نزغۃ من جھھم بمنعی بین یدیہ کما عرفت مفصلاً۔ فقول الھدایۃ حق وھدایۃ، وفھمھم منہ ان الا ذان داخل المسجد متوارث من زمنہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جھل وغوایۃ۔ واما المعقول فھو انہ لم یکذر فی شیئ من التواریخ ان ھذا الاذان سری الیہ التغیربعد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فعلم انہ کما یفعل الاٰن کان ھٰکذا یفعل علٰی عہد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم،وھذا قول من لیس لہ من العلم الا الاسم۔ فلا التواریخ التزمت ذکر جمیع الحوادث الجزئیۃ المتعلقۃ بالمسائل الشرعیۃ، ولا کل کتب التواریخ وجد المدعی، ولا کل ماوجد طالعہ برمتہٖ،ولا عدم الوجدان عدم الوجود،ولا عدم الذکر ذکر العدم۔ ولو تنزلنا عن کل ھذافاذقد ثبت بالحدیث الصحیح ان الذی کان علٰی عھدرسول اللہ صلی ا للہ تعالٰی علیہ وسلم خلاف ماشاع فی ھٰؤلاء فالتغیر ثابت لامرد لہ افترددون الحدیث الصحیح، ام تکذبون العیان الصریح،بان التواریخ لم تتعر لبیان التغیر،ولکن الجھل اذا تملک لم یخش الفضوح والتغییر،ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ نفحہ۱۱: ان سے بارہا مطالبہ کیا گیا کہ تم لوگ اس اب میں زمانہ رسالت سے آج تک کے توارث کے مدعی ہوتو کیا کسی اورنے بھی اس توارث پر نص کیا ہے ، تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل ہے یا تم لوگوں نے حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود رہ کر اس کا مشاہدہ کیاہے یا آج تم لوگ کررہے ہویا دیکھ رہے ہو، حضور کے زمانہ سے آج تک مسلسل جاری ہے تو ان کو ڈوبنے والے کی بیقراری گھیر لیتی ہے جو ہر تنکے پر سہارے کے لیے ہاتھ مارتاہے ۔ اوریہ لوگ ایک عقلی اورایک نقلی دلیل پیش کرتے ہیں ۔ دلیل منقول میں ان لوگوں کا سہاراہدایہ اورہندیہ کا یہ قول ہے کہ “موذن نےمنبر کے سامنے اذان دی، اوراسی پر توارث ہوا۔”ان کی یہ دلیل اس جہالت کی پیداوار ہے کہ انہوں نے سامنے کے معنٰی متصل منبر قرار دے لیا جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے، تو ہدایہ کی بات توحق وہدایت ہے لیکن اس سے ان کا یہ سمجھنا کہ اذان کا منبر کے بالکل قریب ہونا متوارث ہے ، ان کی جہالت ہے ۔ اورعقلی دلیل ہے کہ تاریخ سے یہ ثابت نہیں کہ اذان بین یدی الخطیب میں حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد کوئی تغیر ہوا ۔ اورآج کل متصل منبر ہورہی ہے ،تو اس سے پتہ چلتاہے کہ عہد رسالت سے ایساہی ہوتاآیاہے۔اس دلیل سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ اس کے قائل کو علم سے کچھ مس ہی نہیں کیونکہ نہ تو تاریخ میں اس بات کا التزام ہے کہ مسائل جزئیہ شرعیہ سے متعلق ہر ہر جزئی کا اس میں بیان ہوگا۔ نہ مدعی نے اسلام کی ساری تاریخی کتابوں کو پایا، نہ سب کا حرفاً حرفاًمطالعہ کیا۔ظاہر ہے کسی چیز کا نہ پانا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ۔ یونہی کسی امر کا ذکر نہ ہونا اس بات کی تصریح نہیں کہ یہ ہوا ہی نہیں۔ اوراگر سب کچھ من وعن تسلیم کرلیا جائے ، تو یہاں توصحیح حدیث سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانہ میں جو ہورہا تھا آج اس کے خلاف کیاجارہا ہے ، تو تاریخ میں ذکر ہو نہ ہو۔ صحیح حدیث سے توثابت ہورہا ہے کہ سنت رسول میں تغیر ہوا، تو کیا آپ لوگ اہل تاریخ کی خموشی کا سہارا لے کر صحیح حدیث کو جھٹلائیں گے، اور عین صریح کا انکار کریں گے ۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ جہل جس پر سوار ہوجاتاہے اسے رسوائی یا عار دلانے کی قطعاًپرواہ نہیں ہوتی۔
عہ : فی الاصل ھکذاولعلہ الجاء
(۱الہدایۃ کتاب الصلٰوۃ باب صلٰوۃ الجمعۃ المکتبۃ العربیۃ کراچی۱۵۱ /۱ )
(الفتاوی الھندیۃ کتاب الصلٰوۃ الباب السادس عشر نورانی کتب خانہ پشاور۱۴۴/ ۱)
نفحہ۱۲ : لاحجۃ فی توارث البعض اذا خالف الحدیث والفقہ، الا ترٰی ان اجل توارث واعظمہ واھیبہ وافخمہ توارث اھل الحرمین المحترمین زادھما اللہ تعالٰی عزا وتعظیما واھلھما فضلاً وتکریماً لاسیما فی القرون الأولٰی ومع ذٰلک لم یسلمہ اما منا الاعظم وجمیع ائمۃ الفتوٰی فی مسألۃ الاذان الفجر من اللیل لمجی الحدیث بخلافہ قال فی الھدایۃ:”لایوذن لصلٰوۃ قبل دخول وقتھا ویعادفی الوقت لان الاذان للاعلام وقبل الوقت تجھیل وقال ابو یوسف وھو قول الشافعی رحمھما اللہ تعالٰی یجوز للفجر فی النصف الاخیر من اللیل لتوارث اھل الحرمین والحجۃ علی الکل قول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لبلال رضی اللہ تعالٰی عنہ لاتؤذن حتی یستبین لک الفجر ھٰکذا ومدیدہ عرضاً ۱اھ” قال الامام الاکمل البابرتی فی العنایۃ: “قولہ والحجۃ علی الکل ای علٰی ابی یوسف والشافعی واھل الحرمین یعنی ان الحدیث حجۃ علی الاٰخذوالماخوذمنہ۲ اھ”
فاذاکان ھذا فی نوارث اھل الحرمین التابعین وتبع التابعین وھم ماھم فماظنک بتوارث تدعیہ الاٰن فی بعض البلدان وما فیکم ولا فیمن ولی کم او ولی من ولی کم من یکون فعلہ اوسکوتہ حجۃ فی الشرع فضلاً عن ان یکون حجۃ علی الشرع واللہ یھدی من یشاء الٰی صراط مستقیم۔
نفحہ۱۲ : اورکچھ لوگوں کا توارث جب حدیث وفقہ کے خلاف ہوتو لائق استدلال نہیں ہوتا ۔سب جانتے ہیں کہ توارث میں سب سے عظیم وبزرگ اورپرہیبت حرمین محترمین زادہم اللہ شرفاً وتعظیماً کا توارث ہے،وہ بھی قرون اولٰی کامگر ہمارے امام اعظم اورتمام اہل فتاوٰی اذان فجر کے مسئلہ میں اسے تسلیم نہیں کرتے کیونکہ حدیث اس توارث کے خلاف مروی ہے ، ہدایہ میں ہے :”نماز فجر کے لئے دخول وقت سے پہلے اذان نہ دی جائے، اوراگر پہلے دے دی گئی ہو تو وقت ہونے پر دہرائی جائےکہ اذان وقت کے اعلان کے لئے ہے ، اوروقت سے پہلے دینا لوگوں کوغلط فہمی میں ڈالناہے ۔امام ابویوسف اورامام شافعی رحہمااللہ کہتے ہیں کہ فجر کی اذان توارث حرمین شریفین کی وجہ سے فجر سے پہلے بھی دی جاسکتی ہے ۔ اوردونوں کے خلاف دلیل حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ قول ہے جو آپ نے حضرت بلال رضی ا للہ عنہ سے فرمایا : اس وقت تک اذان نہ دو جب تک صبح یوں روشن نہ ہوجائے۔اورآپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو عرض میں پھیلادیا۔”حضرت امام اکمل الدین بابرقی فرماتے ہیں :”صاحب ہدایہ کا حجۃ علی الکل فرمانا امام شافعی ، قاضی ابو یوسف اوراہل حرمین سب کے لئے ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث آخذاورماخوذ منھم سب پر حجت ہے ۔”تو جب اہل حرمین وہ بھی تابعین اورتبع تابعین جیسے عظیم بزرگوں کا یہ حال ہے ، پھر ان مدعیوں کے مذعومہ توارث کا کیا حال ہوگا جس میں آپ جیسوں سے پیوسۃ لوگ ہیں۔ ان کا فعل یا سکوت شریعت میں حجت کب ہے کہ اس کو شرع کے خلاف حجت قرار دیا جائے۔ بس اللہ تعالٰی ہی جسے چاہتاہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتاہے۔
(۱الہدایۃ کتاب الصلٰوۃ باب الاذان المکتبۃ العربیۃ کراچی ۱/۷۴ تا ۷۶)
(۲العنایۃ علٰی ہامش فتح القدیر باب الاذان مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۲۲۱/۱)
نفحہ۱۳ : ظھر بھذا وللہ الحمد وھن تمسکہ بفعل مؤذن الحرمین اشریفین فمع ان ھذا الاذان فی مکۃ زادھا اللہ شرفا علی حاشیۃ المطاف وما کان مسجدالحرام علی عہد سید الانام علیہ افضل الصلٰوۃ والسلام الاقدر المطاف کما فی المسلک المتقسط علی القاری وغیرہ فاذن محل الاذان الاٰن ھو محلہ القدیم وان احاط بہ المسجد بالزیادۃ کما ارساط بئر زمزم ۔ وفی المدینۃ المنورۃ صلی اللہ تعالٰی علی من نورھا وبارک وسلم علٰی دکۃ بازاء المنبر فامرقدمت وقدتم الامر لما قدمنا ان الدکاک ومئذنۃ خارجۃ عن المسجد بالمعنی الاول غیر ان الشان فی احداثھا کماتقدم فیکیف یحتج بہ، واللہ الھادی۔
نفحہ۱۳ : اس توضیح سے ان لوگوں کے استدلال کی کمزوری ظاہرہوگئی جو حرمیین شریفین کے مؤذنوں کے فعل سے استدالل کرتے ہیں کہ یہ اذان مکہ شریف مں مطاف کے حاشیہ پر ہوتی ہے ۔ اورحضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے عہد کریم میں مسجد حرام موجودہ مطاف کے حدود میں ہی تھی ، جیسا کہ ملا علی قاری کی مسلک متقسط وغیرہ میں ہے ، تو اس تقدیر پر آج بھی حرم میں اذان وہیں ہو رہی ہے جہاں حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے عہد میں ہوتی تھی۔ اب مسجد کی توسیع کی وجہ سے اگرچہ وہ جگہ مسجد کے احاطہ میں آگئی ہے ، جیسا کہ چاہ زمزم بھی فی الحال مسجد کے احاطہ میں ہی ہے ، اورمدینہ مورہ علی صاحبہا الصلٰوۃ واسلام میں چبوترے پر جو منبر کے ماقابل ہے۔ تو اگریہ چبوترے قدیمی ہوں تو بات مکمل ہوگئی کیونکہ ہم بتا چکے ہیں کہ چبوترہ اورمئذنہ مسجد بالمعنی الاول سے خارج ہے لیکن بات تو ان کے حادث ہونے کی ہے ۔تو ان سےاذان کے اندرون مسجد ہونے پر استدلال کیسے صحیح ہوگا۔ اللہ تعالٰی ہدایت دینے والا ہے ۔
اذعلمت ان امامنا رضی اللہ تعالٰی عنہ وجمیع ائمۃ الفتوی بعدہ لم یقبلوا توارث التابعین وتبعھم من اھل الحرمین الشریفین لمخالفۃ الحدیث فما ظنک بفعل مؤذن الزمان وھل یسوغ لحنفی ان یستبیح الجھر بکلام لسمتمع الخطبۃ ولو کان صلٰوۃ علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اوترضیا للصحابۃ اودعاء للسلطان اعزاللہ نصرہ وخذل اعداءہ اولسیدناالشریف حفظہ اللہ تعالٰی۔الیس قد اجمع ائمتنا علٰی تحریم الکلام اذ ذاک ولو دینیا وفوق ذٰلک بکثیرامر التمطیط فی التکبیرقداقام علیہ النکیر المحقق فی فتح القدیرولم یستبعدفساد صلٰوۃ من یفعلہ ای وکذاصلٰوۃ من یصلی بتکبیرہ وتبعہ علیہ فی الحلیۃ والنھر والدرروغیرھا وجزم بفساد الصلاۃ بہ السیدالعلامۃ اسعد مفتی المدینۃ المنورۃ تلیمذ العلامۃ شیخی زادہ صاحب مجمع الانھر معاصر المدقق العلامۃ محمدالحصکفی صاحب الدرالمختاررحمھم العزیز الغفارقدحکی فی اوائل فتاواہ من ھذا مایفضی الی العجب فراجعہا ان شئت ۔
جب آپ جان چکے کہ ہمارے امام اعظم رضی ا للہ تعالٰی عنہ اور ان کے بعد تمام اہل فتوٰی نے تابعین اورتبع تابعین کا توارث قبول نہیں کیا کہ یہ حدیث شریف کے خلاف ہے ۔ توآج کل کے مؤذنوں کی کیا حقیقت ہے ، کیا کسی حنفی کو یہ اجزت ہے کہ خطبئہ جمعہ سننے والے کو بلند آواز سے بولنے کی اجازت دے ، اگرچہ یہ کلام حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر درودشریف کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو یا صحابہ کے لئے رضی اللہ عنہم ہی کیوں نہ ہویا سلطان اسلام یا شریف مکہ کے لئے دعاء خیر ہی کیوں نہ ہو۔ کیا ہمارے ائمہ نے اس وقت دینی اوردنیاوی سبھی قسم کے کلاموں کی حرمت پر اجماع نہیں کیا؟اور اس سے زیادہ اہم معاملہ تکبیر کے ابلاغ ہی کے لئے مکبر کا بہت بلند آواز سے گٹکری بھر کر تکبیر بولنے کا ہے۔محقق علی الاطلاق امام ابن ہمام نے اس کی سخت تردید کی اورفرمایا “ایسا کرنے والے کی نماز فاسد ہونے کا ڈر ہے ۔”یونہی اس کی نماز جو ایسے مکبر کی آواز پر بناکرے اورصاحبان حلیہ ودرر ونہر اوراس کے علاوہ علماء نے بھی اس کی ممانعت فرمائی اوراس کی نماز فاسد ہونے کا فتوٰی سید عالمہ مفتی اسعد مفتی مدینہ منورہ نے دیا جو شیخی زادہ صاحب مجمع الانھرکے شاگرد ہیں۔ اورصاحب درمختار کے ہمعصر ہیں۔اللہ تعالٰی ان سب پر اپنی رحمت کی بارش برسائے،انہوں نے اپنے فتاوٰی کے شروع میں اس سلسلہ کی ایک عجیب بات نقل کی جسے دیکھا جاسکتاہے۔
وبالجملۃ دلائل الشرع محصورۃ ولا حجۃ فی فعل کل احد لاسیما من لیس بعالم ولا تحت العلماء ولکن العجب کل العجب من ھٰؤلاء الوھابیۃ الملاحدۃ الزنادقۃ السابۃ للہ ولرسولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، کیف یحتجون بفعل المؤذنین ویرمون حضرات سادتنا علماء الحرمین الشریفین نفعنا اللہ تعالٰی ببرکاتھم، فی کتبھم وخطبھم بشنائع فظیعۃ قدبرأھم اللہ تعالٰی عنہا۔والوھابیۃ قوم یکذبون ثم لایقتدون بعلماء الحرمین فی عقائدھم الحقۃ فضلاً عن اعمالھم الحسنۃ کمجلس المیلاد الشریف والقیام فیہ لتعظیم من عظم اللہ تعالٰی شانہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شریعت کی دلیلیں حدود ومشہورہیں ، اوران کے باہر کسی کے عمل سے استدلال نہیں ہوسکتابالخصوص جبکہ وہ عالم بھی نہ ہو، نہ علماء کا زیر فرمان ہو۔لیکن ان وہابیہ زنا دقہ پر سخت تعجب ہے کہ کس طرح مؤذن کے فعل سے استدلا ل کرتے ہیں اورحرمین شریفین کے حضرات سادات علمائے کرام کو بدنام کرتے ہیں۔ یہ ذلیل قوم علمائے حرمین شریفین پر غلط اتہام رکھتی ہے اوران کے حق فتووں کی اقتداء نہیں کرتی، تو ان کے اعمال حسنہ مثل میلاد وقیام کی کیا پیروی کریں گی!ان پر قول فیصل یہ ہے کہ انہیں سادات حرمین کا فتوٰی حسام الحرمین دکھاکر کہا جائے یہ علمائے حرمین کا فتوٰی نہیں ہے؟تو اگر وہ اس کو رد کرتے ہیں تو مؤذنین حرمین کے فعل سے ہم پر الزام کرنے کا کیا حق ہے؟اوراقرار کر کے ان وہابیہ کی تکفیر کرتے ہیں تو ان سے کہا جائے کہ مسئلہ اذان میں آپ ان کافروں کی کیوں اتباع کرتے ہیں آپ کو تو انکار کنے کا حق ہے ۔(ہم اللہ تعالٰی سے عفووعافیت کے طالب ہیں،اوراس کے علاوہ نہ کوئی قوت والا ہے،نہ طاقت والاوہی علی وہی عظیم ہے جل جلالہٗ وعم نوالہٗ)
نفحہ۱۴ : قدمنا من الخطبۃ ثم فی الاجمال فی بحث الوارث الباطل المظنون(وانہ کیف یسری الی الظنون) مایکفی ویشفی وبینا الحق ورفعنا للوم عن اساتذتکم واشیاخکم بل وعنکم ایضاًیامخالفین ان رجعتم الی الحق بعد ماظھر ولم تنکروا الصبح حین زھر فراجعہ فانہ مھم ومن لم یرجع فھو جبل واقع بھم،ومن الدلیل علی ماذکرت ان العالم الدلیل علی امذکرت ان العالم ینکرفلا یسمع ماقدمت الاٰن عن ردالمحتار من تعطل نفاذ الامر بالمعروف والنھی عن المنکر منذ از منۃ۱ ،وعلٰی ماذکرت ان العالم یسکت حینئذ قول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذا رأیت الناس قد مرجت عھود ھم وخفت امانٰتھم وکانواھٰکذا وشبک بین اناملہ فالزم بیتک واملک علیک لسانک وخذ ماتعرف ودع ماتنکروعلیک بخاصۃ امر نفسک ودع عنک امر العامۃ۔”رواہ الحاکم۱عن عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالٰی عنہماوصححہ واقرہ الترمذی۔
نفحہ۱۴ : توارث باطل ومظنون کے بارے میں خطبہ میں اورتوارث کی اجمالی بحث میں ہم نے جو کچھ ذکرکیا وہ کافی اورشافی ہے ۔ ہم نے حق واضح کیا اورمدعیان توارث کے استاذوں ان کے شیوخ اورخود ان سے بھی”سکوت عن الحق”کا الزام زائل کیا۔ کاش کہ یہ لوگ حق ظاہر ہونے کے بعد اس کی طرف رجوع کرتے اورصبح چمکنے کے بعد اس کا انکار نہ کرتے، حالانکہ وہ ان کے لئے اہم اورایسا پتھر ہے جو بے توجہی سے انہیں کے اوپر آپڑے گا۔ ہمارے اس دعوٰی پرکہ”عالم انکار کرتاہے مگر عوام اس کی پرواہ نہیں کرتے “دلیل صاحب ردالمحتار کامذکورہ بالا قول ہے کہ”امر بالمعروف اورنہی عن المنکرمدتوں سے معطل ہوچکا ہے ۔”اوراس امر کی دلیل کہ”بسااوقات عالم منکر دیکھ کر اخاموش رہتاہے”حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ قول ہے : “جب تم لوگوں کو اس حال میں دیکھو کہ ان کے عہودایک دوسرے سے گتھہ کئے ہیں اورامانتوں کو ہلکا سمجھنے لگے ہیں ،اوروہ جال کی طرح بن گئے ہیں (حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل فرماکر جال کی صورت بنائی) تو تم اپنے گھر کو لازم پکڑو،اوراپنی زبان کو قابومیں رکھو، خود اپنے نفس کی نگہداشت لازم جانو، اورعوام کا معاملہ ان پر چھوڑدو۔”اسے حاکم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا اور اس کی تصحیح کی اوراسے ترمذی نے برقرار رکھا۔
(۱ردالمحتارکتاب الصلٰوۃ باب الجمعۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۶۰۲/۱)
(۱المستدرک للحاکم کتاب الادب دارالفکر بیروت ۴ /۲۸۲و ۲۸۳)
وابن ماجۃ عن ابی ثعلبۃ الخشنی رضی ا للہ تعالٰی عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: ائتمروابالمعروف وتناھواعن المنکر حتی اذارأیت شحا مطاعاً وھوی متبعاً ودنیا مؤثرۃ واعجاب کل ذی رأی برایہ ورأیت امرا لایدان لک بہ فعلیک خویصۃنفسک ودع امر العوام۲۔(الحدیث)
ابن ماجہ نے ثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:”امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرتے رہو تاآنکہ بخل کی حکومت دیکھو، خواہشات نفس کی پیروی کی جانے لگے،اورلوگ دنیا کواختیار کر چکے ہوں ۔ ہر رائے پسند کرے ایسے میں کوئی ضرور ی معاملہ درپیش ہوتو تم اپنے نفس کو لازم پکڑواورعوام کو ان کے حال پرچھوڑو۔”
(۲سنن ابن ماجہ کتاب الفتن ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ص۲۹۹)
ونظیر ماذکرت من شیوع امر من قبل السلطنۃ ما فی الھدایۃ فی تکبیرات العیدین : “ظھرعمل العامۃ الیوم بقول ابن عباس رضیا للہ تعالٰی عنہما لامر بینہ الخلفاء فاما المذھب فالقول الاول۳ اھ”
اوراس بات کا ثبوت کہ سلطنتوں کی طرف سے بھی بہت باتیں پھیلائی جاتی ہیں، صاحب ہدایہ کا یہ قول ہے کہ :”تکبیرات عیدین میں آج کل عام طور سے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مذہب پر عمل ہورہاہے کیونکہ خلفائے بنو العباس نے اسی پر عملدرآمد کا حکم دیا، لیکن مذہب تو احناف کا قول اول ہی ، (یعنی چھ زائدتکبیریں)۔”
(۳الہدایۃ کتاب الصلٰوۃ باب العیدین المکتبۃ العربیہ کراچی ۳۵۱/۱)
وما ذکرت من سکوت العلماء علیہ سکوتھم وھم صحابۃ متوافرون وائمۃ اجلا تابعون علی زخرفۃ الولید المسجد الشریف النبوی حتی انفق علی جدارالقبلۃ وما بین السقفین خمسۃ واربعون الف دینارمع ابن بعضھم قدانکرعلٰی امیر المؤمنین عثمٰن رضی اللہ تعالٰی عنہ حین بناہ بالحجارۃ مکان اللبن وقصصہ وسقفہ بالساج مکان الجرید۔ قال الامام العینی فی العمدۃ :”اول من زخرف المساجد الولید بن عبدالملک بن مروان وذٰلک فی ااواخرعصر الصحابۃ رضی اللہ تعالیی عنہم وسکت کثیر من اھل العلم عن انکارذٰلک خوفاً من الفتنۃ اھ۱۔” اورجو میں نے یہ کہا کہ ظہور منکرات کے وقت علماء خاموش رہے ہیں، اس کا ثبوت علمائے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین کثیرہ متوافرہ ائمہ اجلہ کی وہ خاموشی ہے جو ولید کے مسجد نبوی شریف کے آرائش کرنے پر تھی، اس لئے دیوار قبلہ اوردونوں چھتوں کے مابین کی آرائش پر۴۵ہزاراشرفیاں خرچ کی تھیں حالانکہ انہیں میں سے بعض امیرالمومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اس بات پر نکیر کرچکے تھے کہ انہوں نے دیواروں کو اینٹوں کے بجائے منقش پتھروں سے بنوایااورچھت کو کھجور کے پتوں کے بجائے ساج کی لکڑی سے۔ امام عینی عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں :”ولید بن عبدالملک بن مروان نے سب سے پہلے مسجد شریف کو مزین کیا ، صحابہ کرام کے آخری عہد کی بات ہے ، بہت سارے اہل علم اس وقت اس لئے خاموش رہے کہ فتنہ برپاہوگا۔”
(۱عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الصلٰوۃ باب بنیان المسجدتحت الحدیث۴۴۶دارالکتب العلمیہ بیروت ۳۰۴/۴)
ولا بن عدی فی الکامل والیبھقی فی الشعب عن ابی امامۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : “اذا رأیتم امراًلاتستطیعون تغیریرہ فاصبروا حتی یکون اللہ ھو الذی یغیرہ۲۔” ابن عدی نے کامل میں اوربیہقی نے شعب میں ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے حضوراکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا:”جب تم کوئی ایسا کام دیکھو جس کے بدلنے کی تم طاقت نہیں رکھتے تو صبر کرو یہاں تک کہ اللہ تعالٰی اسے بدل دے۔”
(۲شعب الایمان حدیث۹۸۰۲ ۷/ ۱۴۹ و الکامل لابن عدی ترجمہ عفیر بن معدان الحمصی ۵/ ۲۰۱۷)
والدالیل علی ماذکرت من اشتباہ الامر فی ذٰلک علی المتاخرین حتی العلماء بالتعامل ما اسلفت عن الشیخ المجدد وقد کان فی ماقررنا ابانۃ اعذارلمن عبر ومن غبرفان لم یرض بہ المخالفون فھم الذین یقضون علی اساتذتھم ومشائخھم اما بالجھل اوبالسکوت عن الحق وقد کانت لھم مندوحۃ الم یعلموا ان الخلیفۃ الراشد امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ کم من سنن احیاھا وظلمات بدع اجلاھا فکان لہ الاجر الجزیل والذکر الجمیل والفخر الجلیل ولم یکن عتب قط علٰی من قبلہ من الصحابۃ الکرام واکابرائمۃ التابعین الاعلام رضی اللہ تعالٰی عنہم انھم جھلوا الحق اوسکتواعنہ ولاقیل لامیر المومنین انک تقحمت ما اجتنبوہ او انکرت ما اقروہ افانت اعلم منھم بالسنۃ اواتقی منھم للفتنۃ وعلٰی ھذا درج امر کل مجدد فانہ لایبعث الالتجدیدماخلق وتشئید ما وھی وربما کان من قبلہ اعلم منہ واتقی۔ اوراس امر کی دلیل کہ اس معاملہ میں متأخرین پر معاملہ تعامل سے مشتبہ ہوگیا ، ھد یہ کہ علماء بھی شبہ میں پڑگئے۔ شیخ مجدد کاوہ قول ہے جسے ہم نقل کرچکے ہیں۔ ہمارے اس بیان سےگزرنے والوں اورباقی رہنے والوں سبھی کاعذر ظاہر ہوگیا۔اگرکوئی ہمارے اس بیان پر راضی نہ ہوتو خود اپنے ہی شیوخ اوراساتذہ پر جہل یاسکوت عن الحق کا فیصلہ کرتاہے حالانکہ وہ اس سے بچ سکتا تھا۔خلیفہ راشدعمر بن عبدالعزیز رضی ا للہ عنہ نے کتنی سنتوں کا احیاء فرمایا اورکتنی بدعتوں کی تاریکیاں کافور فرمائیں۔یہ امر ان کے لئے تو اجر عظیم اوربقائے ذکر حسن کا ذریعہ ہے، اوربجاطور پرباعث فخر ومباہات ہے لیکن ان سے قبل گزرنے والے صحابہ کرام اور اکابرائمہ تابعین اعلام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے کسی عتاب یا عیب جوئی کا سبب نہیں کہ وہ لوگ حق سے غافل رہے یا اس سے خاموشی اختیار کی۔ نہ اس سے امیر المومنین پر خوردہ گیری کی گئی کہ ااپ نے ان چیزوں کی مزاحمت کیوں کی جس سے متقدمین ائمہ نے پرہیز کیا،یا آپ نے ان امور کا انکار کیا، جسے ان بزرگوں نے باقی رکھا،تو کیاآپ ان سے زیادہ سنت کا علم رکھتے ہیں اوران سے زیادہ ذکی وعلیم ہیں؟
وکذٰلک غیر المجددین من کل عالم تصدّٰی لاحیاء السنۃ اواخمادبدعۃ فاہ یحمد ویوجر ولا یذم من مضٰی قبلہ ولا یعیر بخلاف من غبر بل من المثل الدائرالسائرکم ترک الاول للاٰخروھذا سیدنا الغوث الاعظم القطب الاکرم سید الاولیاء وسند الائمۃ والعلماء صلی اللہ تعالٰی علٰی ابیہ الاکرم وعیہ وعلٰی اصولہٖ وفروعہ ومشائخہ ومریدیہ وکل من انتمٰی الیہ ،روٰی عنہ الائمۃ الکبار باسنید صحیحۃ مفصلۃ فی البھجۃ الشریفۃ وغیرھامن الکتب المنیفۃ : “انہ قیل لہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ماسبب تسمیتک محی الدین؟قال رجعت من بعض سیاحاتی مرۃ فی یوم جمعۃ فی سنۃ احدی عشرۃ وخمسمائۃ الی بغداد حافیا،فمررت بشخص مریض متغیراللون نحیف البدن،فقال لی السلام علیک یا عبدالقادر،فرددت علیہ السلام، فقال ادن منی فدنوت منہ، فقال لی اجلسنی فاجلستہ فنماجسدۃ وحسنت صورۃ وصفا لونہ فخفت منہ، فقال اتعرفنی ، فقلت لا،قال انا الدین وکنت دثرت کمارأیتنی وقداحیانی اللہ تعالٰی بک وانت محی الدین، فترکتہ وانصرفت الی الجامع فلقینی رجل ووضع لی نعلاً وقال یا سید ی محی الدین، فلما قضیت الصلٰوۃ اھرع الناس الی یقبلون یدی ویقولون یا محی الدین، وما دعیت بہ من قبل ۱ اھ کلامہ الشریف۔” اور اسی میں تمام مجددین کامعاملہ شامل ہے کہ وہ بھیجے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ جو کمزوری آگئی ہے اسے مضبوط کریں اورجو کہنہ معلوم ہورہا ہے اس کو نیا کریں ۔ اوربسااوقات ان مجددین سے پہلے ان سے بڑے بڑے اوران سے زیادہ پرہیزگارعلماء گزرچکے ہوتےہیں۔ اورعلمائے غیر مجددین بھی احیائے سنت واماتت بدعت ہی کے درپے ہوتے ہیں اورکسی بات پر ان کی تعریف ہوتی ہے جس پرانہیں اجر ملے گا۔اورجو یہ کارنامہ کئے بغیر گزرگئے نہ تو ان کی برائی ہوتی ہے نہ کرنے والوں کو عار دلایا جاتاہے ، اوریہ توایک مشہورمثل ہے کہ پہلے کے بزرگ بعد میں آنے والوں کے لئے بہت سے کام چھوڑ گئے۔ حضرت غوث اعظم، قطب معظم، سید الاولیاء،سند الائمہ اللہ تعالٰی ان کے جد کریم، خود ان پر اوران کے اصول وفروع، مشائخ ومریدین اوران سے نسبت رکھنے والوں پراپنی رحمت نازل فرمائے سے ائمہ کبار نے سند صحیح کے ساتھ بہجۃ الاسرار وغیرہ معتبرات میں روایت کی کہ :”آپ رضی ا للہ عنہ سے پوچھا گیا حضور!آپ کا لقب محی الدین کیسے ہوا؟آپ نے جواب دیا میں ۵۱۱ھ میں اپنی کسی سیاحت سے جمعہ کے دن بغداد لوٹ رہا تھا اس وقت میرے پاؤں میں جوتے بھی نہ تھے راستہ یں ایک کمزور اورنحیف ، رنگ بریدہ مریض آدمی پڑا ہوا ملا،اس نے مجھے عبدالقادرکہہ کر سلام کیا میں نے اس کا جواب دیا تو اس نے مجھے اپنے قریب بلایااورمجھ سے کہا کہ آپ مجھے بٹھا دیجئے ۔ میرے بٹھاتے ہی اس کا جسم تروتازہ ہوگیا سورت نکھرآئی اورارنگ چک اٹھا مجھے اس سے خوف معلوم ہوا ، تو اس نے کہامجھے پہچانتے ہو، میں نے لاعلمی ظاہر کی، تو اس نے بتایا میں ہی دین اسلام ہوں اللہ تعالٰی نے آپ کی وجہ سے مجھے زندگی دی،اورآپ محی الدین ہیں۔میں وہاں سے جامع مسجد کی طرف چلا، ایک آدمی نے آگے بڑھ کر جوتے پیش کئے اورمجھے محی الدین کہہ کر پکارا، میں نماز پڑھ چکاتو لوگ چہارجانب سے مجھ پر ٹوٹ پڑے میراہاتھ چومتے اورمجھے محی الدین کہتے ۔ اس سے قبل مجھے کسی نے محی الدین نہیں کہا تھا۔”
(۱بہجۃ الاسرارذکرفصول من کلامہ مرصعابشیئ من عجائب احوالہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۱۰۹)
وثانیاً انظرواالٰی ظلم ھٰؤلاء یردون حدیث صحیح ابی داؤدلاجل محمد بن اسحٰق الذی اجمع عامۃ ائمۃ الحدیث والفقہ علی توثیقہ ، ویحستجون باثرجویبر وما جویبر من ابن اسحٰق الا کالعتمۃ من الاصبح۔رجل لم یذکر فی تھذیب الکمال ولاتذھیب التھذیب ولا تھذیب التہذیب ولا میزان الاعتدال ولا اللالی المصنوعۃ ولا العدل المتناھیۃ ولا خلاصۃ التھذیب مع الزیادات توثیقالہ عن احدمن ائمۃ التعدیل انام ذکرواعنہم جرحہ۔ قال النسائی وعلی بن جنید والدار قطنی”متروک”۱قال ابن معین “لیس بشیئ ضعیف۔”۲قال ابن المدینی”ضعیف جدا۳۔”وذکرہ یعقوب ابن سفٰین”فی باب من یرغب عن الروایۃ عنہم۴۔” وقال ابوداؤد”ھو علٰی ضعفہ۵۔”
(۱تا ۵تہذیب التہذیب ترجمہ جویبربن سعید موسسۃ الرسالۃ بیروت ۳۲۰/۱)
وقال ابن عدی”الضعف علی حدیثہ وروایاتہ بین ۶۔”وقال الحاکم ابو احمد”ذاھب الحدیث۷”قال الحاکم ابوعبداللہ”انا ابرأ الی اللہ من عہد تہ۸”وقال ابن حبان”یروی عن الضحاک اشیاء مقلوبۃ۹۔”وقال فی اللآلی ھالک تالف متروک جدا ۱۰۔ ونقل فی ذیلہا عن لسان المیزان”متروک الحدیث عن المحدثین۱۔” وقال فی التقریب”ضعیف جدا۲” وقال احمد بن سیار”حالہ حسن فی التفسیر وھو لین فی الروایۃ۳” وعدہ یحیٰی ابن سعید”ھٰؤلاء لایحمل حدیثہم ویکتب التفسیرعنہم۴۔” وقال فی الاتقان بعد ذکران الضحاک عن ابن عباس مقطع”وان کان من روایۃ جویبر عن الضحاک فاشد ضعفالان جویبراشدیدالضعف متروک اھ۵۔” ولکن اذا لم تستحی فاصنع ماشئت۶۔ وثانیاً یہ کتنابڑا ظلم ہے کہ یہ حضرات حضرت ابوداودرضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث صحیح کو تورد کرتے ہیں بلکہ حدیث کے راوی محمد ابن اسحاق پر جرح کرتے یہں جن کی توٖثیق پر عام ائمئہ حدیث وفقہ متفق ہیں۔ اورجویبر کے اثر سے استدلال کرتے ہیں حالانکہ جویبر اورابن اسحٰق میں رات اورصبح صادق کا فرق ہے ، نہ تو تہذیب الکمال میں جویبر کی توثیق کسی امام ائمہ تعدیل سے مروی ، نہ تذھیب التہذیب میں ، نہ تہذیب التہذیب میں ، نہ میزان الاعتدال میں ، نہ لآلی المصنوعہ، نہ علل المتناہیہ نہ خلاصۃ التہذیب مع زیادات میں ، ہے تو صرف جرح ہے ۔ چنانچہ نسائی وعلی بن جنید اوردارقطنی فرماتے ہیں: متروک ہے ۔ابن معین فرماتے ہیں:کچھ نہیں ضعیف ہے۔ابن المدینی فرماتے ہیں : بے حد ضعیف ہیں۔ یعقوب بن سفیان نے ان لوگوں میں شمار کیاجن سے روایت نہ کی جائے۔امام ابوداؤدنے فرمایا:وہ ضعف پر ہیں۔ابن عدی فرماتے ہیں : ان کی حدیثوں اورروایتوں پر ضعف غالب ہے۔ حاکم ابواحمد نے فرمایا: ان کی حدیثیں ضائع ہیں۔ حاکم ابوعبداللہ نے فرمایا : میں ان کی حدیثوں سے اللہ تعالٰی کی طرف براءت ظاہر کرتاہوں۔ابن حبان فرماتے ہیں :ضحاک سے الٹی پلٹی حدیثیں بیان کرتاہے۔لآلی میں فرمایا: ہلاک کرنے والے،برباد کرنیوالے، سخت متروک ہیں۔ اسی کے حاشیہ میں لسان المیزان سےمنقول ہے : محدثین کے نزدیک متروک الحدیث ہے۔ تقریب یں ہے : بے حد ضعیف ہیں۔ احمد بن سیار نے فرمایا : تفسیر می ان کا حال ٹھیک ہے اورروایت میں کمزورہیں۔یحیٰی ابن سعید نے فرمایا : حدیث میں ان پر بھروسانہیں کیا جاتا،روایت نہیں کی جاتی ،تفسیرلکھی جاتی ہے ۔ اتقان میں ان کے ذکر کے بعد فرمایا: ضحاک کی روایت ابن اسحاق سے منقطع ہے ، اور ضحاک سے جویبر روایت کریں تو اورشدید ہے ، اوریہ متروک ہیں۔تو یہ کتنی بے شرمی کی بات ہے کہ جو یبرجیسے متروک الحدیث کی روایت سے سند پکڑی جائے،اورمحمدبن اسحٰق جیسے ثقہ کی روایت چھوڑدی جائے۔
(۶تا ۹تہذیب التہذیب ترجمہ جویبربن سعید موسسۃ الرسالۃ بیروت ۳۲۱/۱) (۱۰اللآلی المصنوعۃ)
(۱ذیل اللآلی المصنوعۃ کتاب العلم المکتبۃ الاثریۃ سانگلہ ہل، شیخوپورہ ص۳۴)
(۲تقریب التہذیب ترجمہ۹۸۹جویبربن سعید دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۶۸/۱)
(۳تہذیب التہذیب ترجمہ جویبر بن سعیدمؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۳۲۱/۱)
(۴تہذیب التہذیب ترجمہ جویبر بن سعیدمؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۳۲۱/۱)
(۵الاتقان النوع الثمانون فی طبقات المفسرین دارالکتاب العربی بیروت ۴۷۲/۱)
(۶المعجم الکبیرحدیث۶۵۸و۶۶۱المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲۳۸،۲۳۷/۱۴)
وثالثاً من ظلمھم الدندنۃ علٰی حدیث ابن اسحٰق بالعنعنۃ وما فی عنعنۃ المدسل الاحتمال الانقطاع ثم عادوایتمسکون بھٰذا الاثر وفیہ مکحول عن معاذ منقطع قطعا۔ ثالثاً ان حضرات کا ایک ظلم یہ بھی ہے کہ محمد ابن اسحٰق کی حدیث پر معنعن ہونے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ مدلس کی معنعن حدیث میں روایت کے منقطع ہونے کا احتمال ہے اورروایت جویبرمیں شدیدضعف کے ساتھ ساتھ مکحول عن معاذروایت ہے جو یقیناًمنقطع ہے۔
ورابعاً من خیانتھم ان اثرواھٰذا الاثر عن فتح الباری وترکواقولہ”ھذامنقطع بین مکحول ومعاذ۱۔” رابعاً ان حجرات نے جویبر کے اثر کو فتح الباری سے نقل کیا اوراس پر خود صاھب فتح الباری کی یہ جرح چھوڑ دی کہ یہ اثر مکحول اورمعاذرضی اللہ تعالٰی عنہم کے درمیان منقطع ہے۔
(۱فتح الباری کتاب الجمعۃ باب الاذان یوم الجمعۃ مصطفٰی البابی مصر ۳/ ۴۵)
خامساً ترکواقولہ”ولایثبت لان معاذاًکان خرج من المدینۃ الی الشام فی اول ما غزواالشام واستمرالٰی ان مات بالشام فی طاعون عمواس۲۔” خامساً صاحب فتح الباری کی یہ تنقیدبھی ترک کردی “یہ روایت ثابت نہیں”کہ اس روایت میں ہے کہ عہد عمر کا یہ قصہ حضرت معاذ نے مکحول سے بیان کیا جب کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری سال شام گئے، پھر وہیں رہ گئے،مدینہ شریف واپس نہیں آئے یہاں تک کہ طاعون عمواس میں ان کا وہیں انتقال ہوگیا۔
(۲فتح الباری کتاب الجمعۃ باب الاذان یوم الجمعۃ مصطفٰی البابی مصر ۳/ ۴۵)
وسادساً ترکواقولہ”وقد تواردت الروایات ان عثمٰن ھو الذی زادہ فھو المعتمد۳اھ۔” سادساً ان لوگوں نے صاحب فتح کی یہ تنقید بھی چھوڑدی کہ متعدد روایتوں سے یہ ثابت ہے کہ اذان اول کا اضافہ کرنیوالے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔
(۳فتح الباری کتاب الجمعۃ باب الاذان یوم الجمعۃ مصطفٰی البابی مصر ۳/ ۴۵)
فقد افادان الاثر منقطع ومعلول ومنکر لمخالفتہ لاحادیث صحیح البخاری وغیرہ الکثیرۃ المشہورۃ فترکواکل ذٰلک خائنین۔ ابن حجرکی تنقیدوں سے ثابت ہوا کہ یہ اثر منقطع ہے، معلول ہے، بخاری شریف کی احادیث صحیحہ مشہورہ کی مخالفت ہونے کی وجہ سے منکر ہے،اوران حضرات نے سب کو چھوڑاتو خائن ہوئے۔
وسابعاً ان کان فیہ شیئ فلیس الا مفہوم وردہ عند ائمتنا معلوم، الاسیمامفہوم اللقب الذی ھو اضعف المفاھیم لم یقل بہ الاشرذمۃ قلیلۃ من الحنابلۃ ودقاق الشافعی واندادالمالکی۔ سابعاً اس عبارت سے اگر کچھ ثابت ہوتاہے تو بچور عارۃ النص نہیں بلکہ بطور مفوہم مخالف اورمفہوم مخالف بھی لقبی جوائمہ احناف کے نزدیک اضعف المفاہیم ہے ۔ یوں تو ہمارے ائمہ کے نزدیک مفہوم مخالف کا ہی اعتبار نہیں مفہوم مخالف لقبی کا کیا ذکر جو مالکیہ کے ایک مختصر گروہ کے نزدیک معتبرہے۔اوردقاق شافعی اوراندادمالکی کا قول ہے۔
وثامناً جاء الملک ثلٰثۃ سفراء ووصل احدھم الٰی باب تجاہ الملک واثنان متاخران، سأل عنھم الملک فقال الھاجب احدھم بین یدی الملک واثنان کارج الحضرۃ فھل یفھم منہ ان الذی بین یدیہ قدد خل جوف الدارولیس علی الباب ولکن الھل یاتی بالعجب العجاب۔ ثامناً بادشاہ کے پاس تین نفر آئے، ایک تو بادشاہ کے سامنے آیالیکن باہری دروازے تک، دو اورپیچھے رہے ۔ بادشاہ نے ان کے بارے میں دریافت کیا ۔ حاجب نے جواب دیاایک تو بادشاہ کے سامنے ہے اوردودربارسے باہرہیں۔تو حاجب نے جسے بادشاہ کے سامنے کہا کیا وہ دربار کے اندر تھا،وہ تو دروازہ پر ہی تھا لیکن جہالت عجب عجب گُل کھلاتی ہے۔
نفحہ۱۶ : ظھرلک الجواب وللہ الحمد عن اثرالنسائی عن طلق بن علی فخرجنا حتی قدمنا بلدنا فکسرنا بیعتنا ثم نضحنامکانھا واتخذناھا مسجداً فنادینا فیہ بالاذان۱۔ نفحہ۱۶ : مذکورہ بالا بیان سے حضرت طلق ابن علی کے اس اثر کا جواب بھی ہوگیاجو امام نسائی نے نقل کیا:”ہم مدینہ سے چل کر اپنے ملک میں پہنچے اپنےگرجا کو ہم نے ڈھادیا اورحضور کی خدمت سے لایا ہوا پانی وہاں چھڑک دیا اورگرجا کی جگہ مسجدبنائی اوراس میں اذان دی۔”
(۱سنن النسائی کتاب المساجد اتخاذ البیع مساجد نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱۱۴/۱)
واثرالترمذی عن مجاھد قال دخلت مع عبداللہ بن عمر مسجداً وقد اذن فیہ ونحن نریدان نصلی فیہ فثوب المؤذن فخرج عبداللہ۱(الحدیث) اورترمذی کے اس اثر کا بھی جواب ہوگیا جو حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ “ہم حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ ایک مسجد میں گئے جس میں اذان ہوچکی تھی اورہم اسی مسجد میں نماز پڑھنا چاہتے تھے تو مؤذن نے تثویب کہی تو حضرت عبداللہ مسجد سے نکل گئے۔”
(۱جامع الترمذی ابواب الصلٰوۃ باب ماجاء فی تثویب الفجر امین کمپنی دہلی ۲۸/۱)
اثراٰخرعن ابی الشعشاء قال خرج رجل من المسجد بعدما اذن فیہ بالعصر وقال ابو ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ما ھٰذا فقد عصٰی اباالقاسم صلی ا للہ تعالٰی علیہ وسلم۲۔ ایک اوراثر جو ابو شعشاء سے مروی ہے کہ اذان عصر کے عد ایک شخص مسجد سے نکل گیا تو حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا”اس نے ابوالقاسم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے۔”
(۲جامع الترمذی ابواب الصلٰوۃ باب ماجاء فی کراہیۃ الخروج من المسجدبعدالاذان امین کمپنی دہلی۲۸/۱)
فانھماعلی وزان اثراقوی لم یھتدوا لہ وھو اثر مسلم عن عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالٰی عنہ: ان من سنن الھدٰی الصلٰوۃ فی المسجد الذی یؤذن فیہ۳۔” یہ دونوں حدیثیں اسی روایت کے ہم پلہ ہیں جو امام مسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ سند کے اعتبار سے یہ روایت مذکورہ بالا دونوں روایتوں سے قوی بھی ہے۔:”جس مسجدمیں اذان ہوتی ہے اس میں نماز پڑھنا سنن ہدٰی ہے۔”
(۳صحیح مسلم کتاب المساجد باب صلٰوۃ الجماعۃ وبیان التشدیدالخ قدیمی کتب خانہ کراچی۲۳۲/۱)
کما قد منا فی النفحۃ التاسعۃالفقھیۃ وقد کفانا المؤنۃ الاما مان الجلیلان فی فتح القدیر وغایۃ البیان اذقال فی المسجد ای فی حدودہٖ لکراھۃ الاذان فی داخلہ۱۔ یہ اثرہم نفحہ تاسعہ فقہیہ میں ذکر کر آئےمگرہمیں اس کے جواب کی ضرورت نہیں کہ ہماری طرف سے اس کا جواب دو جلیل القدر امام فتح القدیر اورغایۃ البیان میں دے چکے ہیں کہ ان حضرات نے مسجد کی شرح میں فرمایا:”مطلب یہ کہ جس مسجد کی حدود میں اذان ہوتی ہو وہاں نماز ادا کرنی سنت ہے کہ مسجد کے اندر اذان مکروہ ہے۔”
(۱فتح القدیر کتاب الصلٰوۃ باب صلٰوۃ الجمعۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲۹/۲)
والعجب ان المحتج باثرابن عمر ھذا قد احتج بعبارۃ اختلقھا علی صلٰوۃ المسعودی لا اثرلھا فیھا ولم یرفی صلٰوۃ المسعودی انہ ذکر ھذا الاثر ھٰکذا ان عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالٰی عنہمادخل مسجداًلیصلی فخرج المؤذن فنادٰی بالصلٰوۃ ۲(الحدیث) وعزاہ الصلٰوۃ الامام السرخسی وصلٰوۃ الامام ابی بکرخواھرزادہ رحمھما اللہ تعالٰی ، ومثلہ فی الضعف بل اضعف والتمسک بحدیث مرفوع لم یھتدوالہ ایضا وانما دللنا ھم علیہ فتعلق بہ بعضھم وھو حدیث ابن ماجۃ عن امیرالمؤمنین عثمٰن رضی اللہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم”من ادرکہ الاذان فی المسجد ثم خرج لم یخرج لحاجۃ وھو لایرید الرجعۃ فھو منافق۱۔” عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اثر سے استدلال کرنے والے نے اس عبارت میں اپنی طرف سے فیہ کا اضافہ کردیا اورحوالہ میں صلٰوۃ مسعودی کا نام لکھا، حالانکہ صلٰوۃ مسعودی میں یہ روایت صلٰوۃ امام سرخسی اورصلٰوۃ امام ابو بکر خواہرزادہ سے ان الفاظ میں مروی ہے : ان عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما دخل مسجدًالیصلی فخرج المؤذن فنادٰی بالصلٰوۃ (الحدیث) یعنی اصل عبارت میں فیہ کا لفظ نہیں ہے سند اوراستدلال کے اعتبارسے اس سے بھی زیادہ ضعیف ایک اورحدیث ہے جس سے وہ غافل تھے ہم نے ہی ان کی رہنمائی کی تھی، تو بعض نے اس سے بھی سند پکڑی ، ابن ماجہ نے وہ حدیث عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے انہوں نے حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ان الفاظ میں روایت کی:”جس نے کسی مسجد میں اذان پائی اس کے بعد مسجد سے بلاضرورت باہرہوا اورواپس ہونے کا ارادہ بھی نہیں تووہ منافق ہے۔”
(۱سنن ابن ماجہ ابواب الاذان باب اذا اذن وانت فی المسجدالخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۵۴)
(۲صلٰوۃ المسعودباب بیست ویکم دربیان بانگ نماز مطبع محمدی بمبئی ۹۵/۲)
فان المسجد ظرف الادراک دون الاذان الا تری الی المناوی فی التیسیراذیقول فی شرحہ (من ادرکہ الاذان)وھو(فی المسجد۲) استدلال ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں فی المسجد ادراک کا ظرف ہے (یعنی اذان سننے والا مسجد میں تھا خود اذان مسجد میں نہیں ہوئی تھی، امام مناوی نے اپنی شرح بنام تیسیر میں اس حدیث کی شرح میں فرمایا: جس نے اذان اس حالت میں سنی کہ وہ مسجد میں تھا)
(۲التیسیرشرح الجامع الصغیرتحت الحدیث من ادرک الاذان الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۳۹۲/۲)
بل کفی الحدیث شرحاًللحدیث فللامام احمد بسند صحیح عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ قال امرنا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم “اذاکنتم فی المسجدفنودی بالصلٰوۃ فلا یخرج احدکم حتی یصلی۳۔” بلکہ خود ایک دوسری حدیث میں اسکی شرح یہی فرمائی گئی ،امام احمد سندصحیح کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں:”جب تم مسجد میں ہو اوراذان دی جائے تو نماز پڑھے بغیر مسجد سے باہر نہ نکلو۔”
(۳مسنداحمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ المکتب الاسلامی بیروت ۵۳۷/۲)
لکن السفیہ کل السفیہ والبلید کل البلید من تمسک بحدیث ابی داؤدرأیت رجلا کان علیہ ثوبین اخضرین فقام علی المسجدفاذن۱(وروایۃ ابی الشیخ فی ھذا الحدیث)علٰی سطح المسجد فجعل اصبعیہ فی اذنیہ ونادٰی ۲،ورأی ذٰلک عبداللہ بن زید فی المنام۔ اورانتہائی بیوقوفی یہ ہے کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اس حدیث سے استدلال کیا جائے:”میں نے ایک آدمی کو دیکھا جس پر دوہرے کپڑے تھے تو اس نے مسجد کے اوپر کھڑے ہوکر اذان دی۔(اورابوالشیخ نے اسی حدیث کی روایت میں لفظ علٰی سطح المسجد،(مسجد کی چھت پر)کہا اور اپنی دونوں انگلیاں اپنے کان میں ڈالیں اوراذان دی(دراصل حضرت عبداللہ بن زید نے یہ معاملہ خواب میں دیکھا تھا)”۔
(۱سنن ابی داؤدکتاب الصلٰوۃ باب کیف الاذان آفتاب عالم پریس لاہور ۷۴/۱)
(۲کنزالعمال بحوالہ ابی الشیخ حدیث ۲۳۱۴۳موسسۃ الرسالہ بیروت ۳۳۱/۸)
وحدیث ابن سعدفی طبقاتہ عن نوار اُمّ زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہما قالت کان بیتی اطول بیت حول المسجدفکان بلال یؤذن فوقہ من اول ما اذن الٰی ان بنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدہ فکان یوذن بعد علی ظھر المسجدوقدرفع لہ شیئ فوق ظھرہٖ۳۔ اورطبقات ابن سعد میں حضرت زید ابن ثابت کی ماں نوار رضی اللہ تعالٰی عنہاسے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ:”مسجد کے پڑوس میں میرا گھر سب سے اونچا تھا تو حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ ابتداء سے اسی پراذان دیتے تھے لیکن جب حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مسجد بنالی اوراس کی چھت پر کچھ اونچا کردیا ،تو اسی پر اذان دینے لگے۔”
(۳الطبقات الکبرٰی لابن سعدومن النساء بنی عدی بن النجارترجمہ النواربنت مالک دارصادربیروت ۴۲۰/۸)
فان فی ھٰذہ تصریحات بکون الاذان خارج المسجدبالمعنی الاول والجھول لایمیزبین المنافع والمضار وقد اسلفنا عدۃ روایات لھذامحتجین بھا والسفہ یبحث عن حتفہٖ بظلفہٖ۔ ہم بیان کر آئے ہیں کہ سب صورتیں مسجد بمعنی اول سے خارج ہیں، تو ان سے داخل مسجد اذان کے مدعیوں کو کیا حاصل؟لیکن جاہل نفع اورنقصان میں فرق نہیں کرتا، اوربیوقوف اپنے کھُرسے ہی اپنی موت کریدتاہے۔
نفحہ۱۷ : تعلق سفیہان منھم بروایۃ ابن ماجۃ عن عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ فیھا،قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان صاحبکم قدرأی رؤیافاخرج مع بلال الی المسجدفالقھا علیہ ولیناد بلال فانہ اندٰی صوتامنک قال فخرجت مع بلال الی المسجد فجعلت القیھا علیہ وھو ینادی بھا۱وھذاکما ترٰی اشبہ بالھذیان۔ نفحہ۱۷ : دوبیوقوفوں نے ابن ماجہ کی اس حدیث سے استدلال کیا جو حضرت عبداللہ بن زید سے مروی ہے :”حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے ساتھی (عبداللہ بن زید) نے خواب دیکھا ہے تو اے عبداللہ!بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف جاؤتم تلقین کرو اوربلال پکارکر اعلان کریں کہ وہ تم سے بلند آوازہیں۔حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ میں بلال کے ساتھ مسجد کی طرف گیا،میں بلال پر کلمات اذان تلقین کرتااورحضرت بلال اسے پکار کر دُہراتے۔”یہ استدلال ہذیان جیسا ہے ۔
(۱سنن ابن ماجہ ابواب الاذان باب بدأ الاذان ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۵۱)
فاولاً : این الخروج الی المسجدعن الدخول فی المسجد، اولاً: مسجد کی طرف جانے اورمسجدمیں داخل ہونے میں زمین وآسمان کا فرق ہے (اورحدیث شریف میں مسجد کی طرف جانے کی بات ہے مسجدمیں داخل ہونے کی نہیں۔)
ثانیًا:لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مجلس غیر مسجدہ الکریم ولا بین المسجدوالحجرات الشریفۃ شیئ انما کانت علی حافۃ المسجد الشرقیۃ واتیان عبداللہ بن زید الیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کان من اٰخر اللیل قریبا من الصباح کما جمع بہ بین روایۃ ابی داؤد”فلما اصبحت اتیت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۱۔”وروایۃ ابن ماجۃ”فطرق الانصاری رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لیلا۲۔” ثانیاً :حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مسجد مبارک اورحجرات ازواج مطہرات میں کوئی فاصلہ نہ تھا حجرے مسجد کے مشرقی کنارہ پرتھے،تو درازہ سے باہر حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نشست گاہ مسجد مبارک ہی میں تھی۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس حضرت عبداللہ بن زیدکا آنا قریب صبح رات کے آخری حصہ میں تھا، اس کی تصریح امام ابوداؤدنےاپنی روایت میں کی ہے۔ اورابن ماجہ نے اپنی روایت میں جس کا حاصل یہ ہے کہ ان کی حاضری آخری شب میں فجرسے کچھ پہلے تھی ، الفاظ دونوں روایتوں کے مندرجہ ذیل ہیں:”صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں آیا”(ابی داود)۔”رات میں انصاری رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں آئے”(ابن ماجہ)
(۱سنن ابی داودکتاب الصلٰوۃ باب کیف الاذان آفتاب عالم پریس لاہو ر ۷۲/۱)
(۲سنن ابن ماجہ ابواب الاذان باب بدأالاذان ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۵۲)
ولم یکن ھذا ایان خروجہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عن مسجدہ الکریم ولا دخول احدعلیہ فی الحجرۃ الکریمۃ فلم یکن صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذذاک الا فی المسجد الشریف اوالحجرۃ المنیفۃ۔ وعلٰی کل کان عبداللہ حین اتاہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی المسجد ھذا ھو الظاھرولو لم یکن ظاھراًلکفانا الاحتمال لقطع الاستدلال ومعلوم ان من کان فی المسجداذاقیل لہ اخرج الی المسجدیستحیل ان یرادبہ اخرج حتی تدخل المسجد،وانمایرادبہ اخرج الٰی منتھٰی حد المسجدوحینئذٍ تکون الحکمۃ فی التعبیر بالی الارشاد الی ان یؤذن فی حدود المسجدلافیہ لابعیداًمنہ، کما اراہ النازل من السماء علیہ الصلٰوۃ والسلام فکان الحدیث دلیلاً لنا علیھم والجھلۃ یعکسون ومما یشہد لہ ان النازل من السماء اراہ الاذان خارج المسجد اذقام علی حصۃ الجدار فوق السطح وما کان امر(عہ) النازل الا للتعلیم فلذا امران یخرج من المسجد الٰی حدودہٖ وللہ الحمد۔ اوریہ وقت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے باہر جانے کا نہ تھا، نہ کسی کے حجرہ شریفہ میں داخل ہونے کا تھا، تو اس وقت حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا تو مسجد مبارک میں تھے یا حجرہ شریفہ میں، تو اس صورت حال کے پیش نظرحضرت عبداللہ اس وقت مسجد میں ہی تھے۔روایات سے یہی ظاہر ہے ورنہ اس کا احتمال تو ہے ہی جو استدلال کو باطل کردیتاہے اورمسجد میں موجود رہنے والے سے یہ کہا جائے کہ مسجدکی طرف جاؤاس کا یہ مطلب ہرگز نہ ہوگا کہ مسجدسے نکل کر پھر مسجد میں آؤبلکہ مطلب یہ ہوگاکہ مسجد کی انتہائی حد تک جاؤ۔گویا سرکار ان الفاظ سے یہ رہنمائی کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد کی حدود میں اذان دی جائے مسجد میں نہیں،نہ مسجد سے دور۔جیسا کہ آسمان سے اترنے والے فرشتے نے انہیں دکھایاتھا ۔ پس یہ حدیث تو مخالفین کے خلاف ہماری دلیل ہے ، اوروہ اس کو الٹ رہے ہیں ۔ اوراس بات کی دلیل کہ فرشتے نے انہیں مسجد سے باہر اذان دے کر دکھایاتھا۔یہ ہے کہ وہ مسجدکی چھت پر دیوار کے اوپر کھڑاہوا تھا اوروہ تعلیم کے لئے ہی آیاتھا اس لئے آپ نے حکم دیا کہ اندرون مسجد سے نکل کر مسجد کے کنارے کی طرف جاؤ،فالحمدللہ۔
عہ : واذاضم الٰی ذٰلک قول الشرنبلالی فی مراقی الفلاح (یکرہ اذان قاعد)لمخالفۃ صفۃ الملک النازل۱لکان حدیث الملک علٰی کثرۃ روایاتہ التی قدمنا کثیراًمنھا دلیلابراسہ علی کراھۃ الاذان داخل المسجدفافھم منہ حفظہ ربہ۱۲۔
اورجب اس کے ساتھ مراقی الفلاح میں مذکورقول شرنبلالی کو ملایاجائے ،یعنی بیٹھ کر اذان دینا مکروہ ہے کیونکہ اس میں اذان کے لئے اترنے والے فرشتے کی صفت کی مخالفت ہے، توفرشتے والی حدیث باوجودان روایات کثیرہ کے جن کو ہم بیان کر چکے ہیں مسجد کے اندر کی کراہیت پر دلیل ہوگی۔ پس اس کو سمجھ۔(ت)
(۱مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی کتاب الصلٰوۃ باب الاذان دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۲۰۰)
وثالثاً: لو تنزلنا عن الکل فقد ذکرنا الجواب العام التام الشافی الکافی ان المراد بالمسجداحدالمعنیین الاخیرین ، وللہ الحمد۔
ثالثاً : اوران سب سے قطع نظرکیا جائے توہم ایک تام اورعام جواب دے چکے ہیں کہ ایسی تمام روایتوں میں مسجد سے اس کے دوسرے اورتیسرے معنٰی مراد ہیں۔
نفحہ۱۸ : حاول بعض الوھابیۃ الفجرۃ ان یثبت مطلوبہ الباطل باٰیات القراٰن العظیم وحاشا القراٰن ان یکون لباطل ظھیراًقال قال عزوجل:
“وان اذن فی الناس بالحج۱”
نفحہ۱۸ : بعض وہابی صاحبان نے اپنا مقصد قرآن پاک سے ثابت کرنے کا قصد کیا ہے حالانکہ قرآن عظیم باطل کا مددگار نہیں ہوسکتا۔وہ کہتے ہیں کہ قرآن عظیم نے فرمایا:”(ابے ابراہیم!)لوگوں میں حج کا اعلان کرو۔”
(۱القرآن الکریم ۲۲/ ۲۷)
واخرج سعید بن منصورواٰخرون عن مجاھد قال لما امر ابراھیم ان یوذن فی الناس بالحج ، قام علی المقام فنادٰی بصوت اسمع من بین المشرق والمغرب،یا یھاالناس اجیبواربکم۲۔
اورسعید بن منصوراوردوسرے محدثین نے حضرت مجاہد سے روایت کی: “جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حج کے اعلان کرنے کا حکم ہوا تو آپ نے مقام ابراہیم پر کھڑے ہوکر بلند آواز سے فرمایا(جسے مشرق ومغرب کے سبھی لوگوں نے سنا)کہ اے لوگو!اپنے رب کا جواب دو۔”
(۲الدرالمنثوربحوالہ سعید بن منصورتحت الآیۃ ۲۲/ ۲۷ حدیث ۱۳۸۸۲ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳۳/۶) (تفسیرالقرآن لابن ابی حاتم تحت الآیۃ ۲۲/ ۲۷ حدیث۱۳۸۸۰مکتبہ نزارمصطفٰی البازمکۃ المکرمۃ ۲۴۸۷/۸)
واخرج ابن المنذروابن ابی حاتم عن مجاھدقال تطاول بہ المقام حتی کان کاطول جبل فی الارض فاذن فیھم بالحج فاسمع من تحت البحورالسبع۳۔
ابن المنذروابن ابی حاتم نے حضرت مجاہد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام مقام ابراہیم پر اعلان کے لئے کھڑے ہوئے تو وہ انہیں لے کر بلند ہونے لگا یہاں تک کہ زمین کے تمام پہاڑوں سے بلند ہوگیا،آپ نے اسی بلندی پر سے لوگوں میں حج کا اعلان کیا جو سات سمندروں کی تَہہ سے بھی سنا گیا۔
(۳ تفسیرالقرآن لابن ابی ھاتم تحت الآیۃ ۲۲/ ۲۷ حدیث۱۳۸۸۰مکتبہ نزارمصطفٰی البازمکۃ المکرمۃ ۲۴۸۷/۸)
واخرج ابن جریرعن مجاھد عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما قال قام ابراھیم خلیل اللہ علی الحجرفنادٰی”یا ایھا الناس کتب علیکم الحج فاسمع من فی اصلاب الرجال وارحام النساء۱۔”
اورانہوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نےمقام ابراہیم پر کھڑے ہوکرپکارا”اے لوگو!اللہ تعالٰی نے تم پر حج فرض کیا۔”تو باپوں کی پشتوں سے اورماؤں کے شکموں سے لوگوں نے ان کی آواز سنی۔
(۱جامع البیان(تفسیرابن جریر)تحت الآیۃ۲۲/ ۲۷ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۶۹/۱۷)
قال قال ونحن ندی ان ھٰذا الحجر کان حین نادٰی علیہ خلیل اللہ داخل المطاف قریب جدار الکعبۃ لان علیا القاری قال فی شرح اللباب قال فی البحر”والذی رجحہ العلماء ان المقام کان فی عھد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ملصقاًبالبیت، قال ابن جماعۃ ھو الصحیح وروی الازرقی ان موضع المقام ھو الذی بہ الیوم فی الجاھلیۃ وعہد النبی صلی ا للہ تعالٰی علیہ وسلم وابی بکروعمررضی اللہ تعالٰی عنہمااھ۔ والاظھرانہ کان ملصقابالبیت ثم اخر عن مقامہ الحکمۃ ھنالک تقتضی ذٰلک اھ۲۔”
مستدلین کا دعوٰی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اعلان کے وقت وہ پتھرمطاف کے اند ردیوار کعبہ کے قریب تھا۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ ملا علی قاری نے شرح لباب میں فرمایا: بحر میں کہا گیا کہ علماء نے اسی بات کو ترجیح دی ہےکہ مقام ابراہیم عہد رسالت میں کعبہ شریف سے بالکل متصل تھا۔ ابن جامعہ نے اسی کو صحیح کہا اورازرقی نے روایت کی کہ مقام ابراہیم جہاں آج ہے وہیں جاہلیت اورعہد رسالت اورزمانہ ابوبکر وعمر رضوان اللہ علیہما میں تھا۔ اورظاہر یہی ہے کہ بیت اللہ شریف کے متصل ہی تھا، پھر بعد میں کسی حکمت کی وجہ سے موجودہ مقام تک کھسکایا گیا۔
(۲المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط مع ارشادالساری مکتبۃ اسلامیہ کوئٹہ ص۳۳۲)
وذالک لان ابراھیم صلوات اللہ علیہ بنی الکعبۃ قائماعلیہ فاستمرمذذاک متصل الکعبۃ کما فی تاریخ القطبی وسائرکتب السیر”وکان ابراھیم علیہ الصلوات والسلام یبنی واسمٰعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام ینقل لہ الحجارۃ علی عاتقہٖ فلما ارفع البنیان قرب لہ المقام فکان یقوم علیہ ویبنی ۱اھ۔”
حکمت یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی پرکھڑے ہوکر کعبہ شریف کی تعمیر کی تھی تووہ اسی حال پر دیوارکعبہ کے پاس ہی پڑا رہا۔ایسا ہی تاریخ قطبی اوربقیہ کتب تاریخ میں تحریرہے کہ”حضرت ابراہیم علیہ السلام دیواریں چنتے تھے اورحضرت اسماعیل علیہ السلام پتھراٹھااٹھاکر دیتے تھے، جب دیواریں بلندہوگئیں تو مقام ابراہیم اسی کے قریب لایاگیااورآپ اسی پرکھڑے ہوکر دیواریں چنتے تھے۔”
(۱ سبل الہدٰی والرشادالرابعہ ۱۵۵/۱ والکامل فی التاریخ ۱۰۶/۱ وتاریخ مکۃ المشرفۃ۴/ ۴۳و۴۴)
فثبت انہ کان حین اذن علیہ للحج متصل جدارالکعبۃ واستمرکذٰلک الی زمانہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ثم انتقل عنہ بوجہ قال ولئن سلمنا ان محلہ منذ القدیم حیث ھو الاٰن فالمدعٰی ثابت ایضالانہ الاٰن ایضاً داخل المطاف لان المطاف ھو الموضع المفروش بالرخام ومقام ابراھیم داخل فیہ، فثبت ان التاذین فی المسجد جائز مطلقا ولا کراھۃ فیہ اصلاولیس بدعۃ بل ھو سنۃ ابراھیم علیہ الصلواۃ والتسلیم(انتھٰی)(کلامہ الردی السقیم مترجماً)
اس سے ثابت ہوا کہ اعلان حج کے وقت بھی وہ پتھر وہیں پڑا رہا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک وہیں پڑا رہا ،بعد میں کسی مصلحت پر کچھ اورکھسکادیا گیا اوراگریہ مان بھی لیا جائے کہ عہد قدیم سے ہی وہ موجودہ مقام پر ہی ہے تب بھی ہمارا دعوٰی ثابت ہے کہ موجودہ جگہ بھی مطاف میں ہی ہے ، اس لئے کہ مطاف وہ جگہ ہے جہاں سنگ مرمر بچھا ہوا ہے ، اورمقام ابراہیم اسی میں ہے۔توثابت ہوا کہ اذان داخل مسجد مطلقاًناجائز ہے ، اس میں نہ تو کوئی کراہت ہے اورنہ یہ بدعت ہے ، یہ تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
اقول : انعم بہٖ من برھان تزری بالھذیان ویغبط بہ المجانین والبلہ والصبیان۔
اقول جواب اس کا یہ ہے کہ یہ استدلال ہذیان سے بھی آگے ہے اورپاگلوں ، بیوقوفوں اوربچوں کے لئے بھی قابل رشک ہے۔
فاولاً : کیف لزم من کون المقام ملصقاًبجدار البیت علٰی عہد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وفی الجاھلیۃ کونہ کذٰلک علی عہد ابراھیم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم وتحکیم الحال لایجری فی شیئ منقول غیر مرکوز وان فرض فظاھر والظاھر حجۃ فی الدفع لاللاستحقاق وانت مستدل لادافع۔
اولاً رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اورعہد جاہلیت میں مقام ابراہیم کے دیوارکعبہ کے متصل ہونے سے یہ لازم نہیں کہ عہد خلیل علیہ السلام میں بھی وہیں رہا ہواورموجودہ حالت پر قیاس کر کے ایک ادھر اُدھرمنتقل ہونے والی چیز پر ماضی کا حکم لگاناجائز نہیں اورایسے قیاس سے کوئی یقینی بات ثابت نہیں ہوتی۔ اسی لئے تو اس کی تعیبر ظاہر اوراظہر سے کی ہے، اورظاہر دلیل پکڑنے والے کےلئے مفید نہیں۔اس سے معترض کو فائدہ پہنچتاہے اورآپ مستدل ہیں۔
وثانیاً مانقل عن تاریخ القطبی فای رائحۃ فیہ لما ادعاہ من انہ استمر مذاذاک متصل الکعبۃ فالاستنادبہٖ جہل ۔
ثانیاً تاریخ قطبی میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ وہ پتھر عہد ابراہیم علیہ السلام سے اسی مقام پر قائم ہے ،پھر اس روایت کو سند میں ذکر کرنا جہالت ہے۔
وثالثاً بل فیہ فلما ارتفع البنیان قرب لہ المقام فدل علی ان محلہ کان بعیداً انما قرب الاٰن للحاجۃ والعادۃ ان الشیئ اذانقل لحاجۃ یرد الی محلہ الاول بعد قضائھاکما ھو مشاھدفی السلالیم وفی منبریوضع لدی باب الکعبۃ یوم دخول العام۔
وثالثاً قرطبی کی روایت سے تو یہ پتہ چلتاہے کہ مقام ابرایم کا ٹھکانا کہیں اورتھا، تعمیر کی ضرورت سے دیوار کعبہ کے پاس لایاگیا۔ اورعادت یہ ہے کہ جو چیز ضرورۃًکہیں رکھی جاتی ہے ضرورت پوری ہونےکے بعد وہاں سے علیحدہ کرلی جاتی ہے ، خود حرم شریف میں یہ دستور دیکھا گیا کہ دخول عام کے دن سیڑھیاں اورمنبر لگادئے جاتےہیں،پھرعلیحدہ کرلئے جاتے ہیں اوران کے اصل مقام پر انہیں لوٹادیا جاتاہے۔
وسابعاً اضطربت الروایۃ عن ابن عباس ففی بعضھا”اذن علی المقام”وفی بعضھا علی ابی قبیس رواہ عنہ ابن ابی حاتم رضی اللہ تعالٰی عنہ قال لما امر اللہ ابراھیم ان ینادی فی الناس بالحج صعد اباقبیس فوضع اصبعیہ فی اذنیہ ثم نادٰی، ان اللہ تعالٰی کتب علیکم الحج فاجیبو ربکم۱ الحدیث، وفی اخری لہ عنہ رضی ا للہ تعالٰی عنہ قال صعدابراھیم اباقبیس ، فقال اللہ اکبر اللہ اکبر، اشھدان لا الٰہ الا اللہ واشھدان ابراھیم رسول اللہ ایھا الناس ان اللہ امرنی ان انادی فی الناس بالحج ایھاالناس اجیبواربکم۲۔
سابعاً اعلان حج کے مقام میں حضرت ابن عباس سے روایتیں مضطرب ہیں ۔ بعض میں تو وہی مقام ابراہیم ہے ، اوربعض میں یہ ہے کہ جبل ابوقبیس پر اعلان حج ہوا۔ چنانچہ ابن ابی حاتم نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ “حضرت ابراہیم علیہ السلام جبل ابو قبیس پر چڑھے اورکہا اللہ اکبر ،اللہ اکبر، اشہدان لاالہ الا اللہ ، واشھد ان ابراھیم رسول اللہ ۔ اے لوگو!مجھے اللہ تعالٰی نے حکم دیا کہ میں لوگوں میں حج کا اعلان کروں تو تم لوگ اللہ تعالٰی کی پکار کا جواب دو۔”
(۱تفسیر القرآن العظیم لابن ابی حاتم تحت الآیۃ ۲۲/ ۲۷ حدیث ۱۳۸۷۸ مکتبہ نزارمصطفٰی البازمکۃ المکرمۃ ۲۴۸۷/۸)
(۲تفسیر القرآن العظیم لابن ابی حاتم تحت الآیۃ ۲۲/ ۲۷ حدیث۴ ۱۳۸۸مکتبہ نزارمصطفٰی البازمکۃ المکرمۃ۲۴۸۷،۲۴۸۸/۸)
(الدرالمنثوربحوالہ ابن ابی حاتم تحت الآیۃ ۲۲/ ۲۷ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳۴/۶)
وفی بعضھاعلی الصفارواہ عبدبن حمید عن مجاھد قال”امر ابراھیم ان یوذن بالحج فقام علی الصفا فنادی بصوت سمعہ مابین المشرق والمغرب یا ایھاالناس اجیبواالٰی ربکم۳۔”
اوربعض روایتوں میں جبل ابو قیس کے بجائے کوہ صفا کاذکر ہے ۔ ابن حمید کی یہ روایت امام مجاہد سے اس طرح مروی ہے : حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ مقام صفا پر لوگوں کو حج کا علان کریں، آپ نے ایسی آواز سے پکارا کہ مشرق ومغرب کےلوگوں نے سنا۔ اعلان کے الفاظ یہ تھے : اے لوگو!اپنے رب کی پکارکا جواب دو۔
(۳الدرالمنثوربحوالہ عبدبن حمید تحت الآیۃ ۲۲/ ۲۷ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳۳/۳)
وروی ھو وابن المنذرعن عطاء قال”صعدابراھیم علی الصفافقال یاایھاالناس اجیبواربکم۱۔”
ابوحاتم اورابن منذر نے عطا سے روایت کی: حضرت ابراہیم علیہ السلام کوہ سفا پرچڑھے اورپکارا: اے لوگو!اپنے رب کاجواب دو۔
(۱الدرالمنثوربحوالہ عبدبن حمید تحت الآیۃ ۲۲/ ۲۷ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳۳/۶)
ومعلوم ان الروایۃ عن مجاھد روایۃ عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھم فالاضطراب بالتثلیث والافلاشک فی التثنیۃ فکان من ھذا الوجہ ایضا حدیث امیرالمومنین احق بالاخذولذا مشٰی علیہ القطبی فی تاریخہٖ ولم یلتفت لما سواہ فاندحضت الشبھۃ عن رأس والحمدللہ رب الناس۔
یہ معلوم ہے کہ حضرت مجاہد کی روایت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ہی ہے تو اس روایت میں تین اضطراب ہوئے ، ورنہ دو ہونے میں تو شبہ ہی نہیں ہے ۔پس اس اعتبار سے بھی امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی روایت راجح اوراولٰی بالاخذ ہے اس لئے قطبی نے اپنی تاریخ میں امیر المومنین کی روایت پر ہی اعتماد کیا اوردوسری روایتوں کی طرف توجہ نہیں کی۔
ثامناً بعد اللتیاوالتی ان کان فشریعۃ من قبلنا فلا تکون حجۃ الا ذا قھا اللہ تعالٰی اوررسولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من دون انکار کما نص علیہ فی اصول الامام البزدوی والمناروسائر المتون الاصولیۃ والشروح قال الامام النسفی فی کشف الاسرار انا شرطنا فی ھذا ان یقص اللہ تعالٰی او رسولہ من غیر انکار اذلاعبرۃ بما ثبت بقول اھل الکتاب،ولا بما ثبت بکتابھم لانھم حرفواالکتب ولابما ثبت بقول من اسلم منھم لانہ تلقن ذٰلک من کتابھم او سمع من جماعتھم ۱اھ
ومثلہ فی کشف الاسرارللامام البخاری۔
ثامناً ساری بحث ومباحثہ کے بعد اعلان حج اگر مسجد حرام میں ہونا ثابت بھی ہو تو یہ گزشتہ شریعت کا ایک فعل ہوگا، اورگزشتہ شرائع کے احکام ہمارے لئے دلیل نہیں جب تک قرآ ن وحدیث میں اس کابیان بلا انکار ہو۔ چنانچہ اصول امام بزدوی ، منار اورفن اصول کے بقیہ تمام متون وشروح میں اس کی تنصیص ہے ۔امام نسفی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کشف الاسرارمیں فرمایا:”ہم نے اس میں یہ شرط لگائی کہ اللہ ورسول بے انکار اس کا بیان فرمائیں ، اہل کتاب کے قول کا کوئی اعتبارنہیں اورجو ان کی کتاب سے ثابت ہواس کا بھی، کہ ان لوگوں نے آسمانی کتابوں میں تحریف کردی ہے ۔”اوراسی طرح اہل کتاب اسلام لانے والوں کی بات کا بھی بھروسانہیں کہ ان لوگوں نے انہی محروف کتابوں میں دیکھا ہوگا یا انہی کی جماعت سے سنا ہوگا۔ اوراسی طرح کشف الاسرارللامام بخاری میں ہے۔
(۱کشف الاسرارشرح المصنف علی المنارفصل فی شرائع من قبلنا دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۷۳/۲)
( کشف الاسرارعن اصول البزدوی باب فی شرائع من قبلنا دارالکتاب العربی بیروت ۳/ ۲۱۳)
وفی فواتح الرحموت لبحر العلوم فان قلت فلم لم یعتمدباخبارعبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ فانہ لایحتمل کذبہ قلت ھب لکن التحریف وقع قبل وجودہ فھو لم یتعلم الاالمحرف ۲اھ بالالتقاط۔ وفی فواتح الرحموت لبحر العلوم فان قلت فلم لم یعتمدباخبارعبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ فانہ لایحتمل کذبہ قلت ھب لکن التحریف وقع قبل وجودہ فھو لم یتعلم الاالمحرف ۲اھ بالالتقاط۔
بحرالعلوم حضرت علامہ عبدالعلی رحمہ اللہ علیہ نے فواتح الرحموت مین فرمایا، خیال ہوسکتاہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بات پر اعتماد ہونا چاہئے کہ وہ و بلاشبہ سچے تھے ، اوران کی بات میں تو جھوٹ کا احتمال نہیں لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے تو اسی محرف کوکلام الہٰی سمجھ کر سیکھاہوگا کیونکہ تحریف تو ان کے پیداہونے سے پہلے ہی ہوچکی تھی۔
(۲فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المصطفے المختارالخ منشورات الشریف الرضی قم ایران ۱۸۴/۲ )
وھذاشیئ لم یقصہ ربنا ولانبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذلم یرد فی حدیث مرفوع فالاحتجاج بہ راسا مدفوع ۔ ھذا علی التسلیم والاقدعلمت ان الذی یدعیہ ھذا الوھابی من انہ اذن علیہ فی جوف المسجد لم یقصہ مسلم ولاکتابی ولا کافر سواہ فاحتجاجہ بہ لیس الااحتجاجابھواہ۔
اوراعلان حج کی یہ روایت ایسی ہی ہے نہ تو قرآن عظیم میں اس کا بیان ہے نہ کسی حدیث مرفوع میں ہی اس کا تذکرہ ہے ، تو سرے سے اس حدیث سے استدلال ہی غلط ہے ، یہ بھی اس صورت میں کہ مخالفین کا دعوٰی جو ں کا توتسلیم کرلیا جائے ورنہ تفصیل گزر چکی کہ مسجدحرام کے اندر اعلان حج کا تذکرہ نہ کسی مسلمان سے مروی نہ کتابی سے نہ کافر سے ، اندرون مسجد کی بات تو صرف ان وہابی صاحب کی ہے،تو وہ اپنے دعوٰی میں اپنی خواہش نفس سے ہی استدلال کرتے ہیں۔
وتاسعاًان تعجب فعجب قولہ ان المقام الاٰن ایضاًداخل المطاف وھذاشیئ یردہ العیان ویشھد بکذبہ کل من رزق حج البیت الحرام۔
تاسعاً قابل تعجب بات تو یہ ہے کہ”مقام ابراہیم اب بھی مطاف کے اندر ہے “یہ تو مشاہدہ کے خلاف ہے جس کی شہادت ہر حاجی دے سکتاہے۔
وعاشراً اعجب من الاحتجاج علیہ بانہ مفروش بالرخام وکان فی بالہ ان کال مافرش فیہ الرخام صار المطاف الذی کان قدرالمسجد الحرام علٰی عہد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فلیدخل ماحول زمزم ایضاًفیہ ولو کان فرش بعض الملوک سائرالمسجد الشریف ورواقاتہ بالرخام، لحکم ھذا الجاھل بان المسجد کان الی الرواقات علٰی عہد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم واذا بلغ الجھل الٰی ھذا النصاب سقط الخطاب وانما المطاف ھی دائرۃ الرخام حول البیت الحرام وعلٰی حرفہا باب السلام ولا شک ان قبۃ المقام خارجۃ عنہاوماکان اھل مکۃ سفہاء کھٰذا لیبنواقبۃ فی نفس المطاف ویضیقوا المحل علی اھل الطواف نعوذباللہ من الجھل والاعتساف۔
عاشراً اس سے زیادہ حیرت ناک یہ انکشاف ہے کہ جہاں تک سنگ مرمربچھا ہے سب مطاف ہے جہاں تک عہد رسالت مین مسجد تھی، تو زمزم شریف کا ارد گرد ہی عہد رسالت کی مسجد میں شامل ہوگیاکہ وہاں بھی سنگ مر مر بچھا ہے ۔اوراگر کسی بادشاہ نے پوری مسجد حرام میں سنگ مرمر بچھا دیا تو وہ بھی عہد رسلات کی مسجد حرام ہوگئی حالانکہ مطاف تو سنگ مرمرکا گول دائرہ ہے جو کعبہ مکرہ کے گرداگرد ہے ، اورجس کے کنارہ پر باب السلام ہے اوربلاشبہ مقام ابراہیم کا قبہ اس سے باہر ہے ، اوراہل مکہ ایسے کم عقل تو نہ تھے کہ نفس مطاف میں قبہ بناتے اورلوگوں پر مطاف کو تنگ کرتے۔
نفحہ۱۹: ثم تمسک بقولہ تعالٰی: “ومن اظلم ممن منع مسٰجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ۱۔”
وقولہ تعالٰی: “ومسٰجداللہ یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا۲۔ ” وقولہ تعالٰی : فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکرفیھااسمہ۳۔
نفحہ۱۹: مسجد کے اند راذان جائز ہونے پر اس آیت سے بھی مخالفین نے استدلال کیاہے”اس سے بڑاظالم کون ہے جو مسجد میں اللہ کا نام لینے سے منع کرے”اورآیت مبارکہ “اورمسجد جس میں اللہ تعالٰی کا ذکر بہت ہوتاہے”اورآیت گرامی”ان گھروں کو اللہ تعالٰی نے بلند کرنے کا اوران میں اپنا نام لینے کا حکم دیا”
(۱القرآن الکریم ۲/ ۱۱۴) (۲القرآن الکریم۲۲/ ۴۰) (۳القرآن الکریم ۲۴ / ۳۶)
وفی حدیث الصحیحین(عہ) ان ھذہ المساجد لاتصلح لشیئ من ھذا البول والقذ وانما ھی لذکرا للہ والصلٰوۃ وقراء ۃ القرآن۴۔ اوربقول صاحب مشکوٰۃ صحیحین کی ایک حدیث ،ورنہ مخرجین نے اسے صرف مسلم کی حدیث قراردیاہے “یہ مسجدیں پیشاب اورگندگی کے لئے نہیں ،یہ تو ذکر الٰہی ، نماز اور تلاوت قرآن کے لئے ہیں۔”
عہ : تبع فیہ صاحب المشکوٰۃ وانما عزاہ المخرجون لمسلم وحدہ اھ منہ
(۴صحیح مسلم کتاب الطہارۃباب وجوب غسل البول الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۳۸)
اقول : اولا قضینا الوترعن کشف ھذہ الشبھۃ فی النفحۃ الاولٰی القراٰنیۃ، وبیناان الاذان لیس ذکراًخالصاً۔ اقول:(میں کہتاہوں) اولا ہم نفحہ قرآنیہ میں اس شبہ کو بالکلیہ حل کرچکے ہیں کہ اذان محض ذکر الٰہی ہی نہیں ہے۔
(۵مشکوٰۃ المصابیح بحوالہ صحیحین کتاب الطہارۃ باب تطہیر النجاسات الفصل الاول قدیمی کتب خانہ کراچی ص۵۲)
وثانیاً منع الاذان فی المسجد منع رفع الصوت فیہ ومنع رفع الصوت بالذکرلیس منع الذکر فقد ثبت عنہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی بعض المواطن اذقال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:”ایھا الناس اربعواعلٰی انفسکم فانکم لاتدعون اصم ولا غائبنا ولکن تدعون سمیعًابصیرا۱۔” وماکان لینھاھم عن ذکراللہ تعالٰی وقد قد منا عن الدرروالاشباہ وغیرھما کراھۃ رفع الصوت بالذکر فی المسجد۲
ثانیاً مسجد میں اذان منع کرنے کا مطلب آواز بلند کرنے کو منع کرنا ہے اورذکر الٰہی کے ساتھ آواز بلند کرنے کی ممانعت ذکر کی ممانعت نہیں ہے ۔ احادیث سے ثابت ہے کہ بعض مواقع پر حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ذکر بالجہر سے منع فرمایا ، ارشادنبوی ہے:”اے لوگو!اپنے نفسوں پر آسانی کرو تم کسی غائب اوربہرے کو نہیں بلا رہے ہو ، تم تو سننے والے اوردیکھنے والے کو پکار رہے ہو۔ “بھلاحضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کسی کو ذکر الٰہی سے روکتے تھے،ہم ماسبق میں درر وغیرہ کے حوالے سے واضح کرچکے ہیں “کہ مسجدمیں بلند آوازسے ذکر مکروہ ہے ۔
(۱صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذا علاعقبۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ / ۹۴۴)
(صحیح مسلم کتاب الذکروالدعاء باب خفض الصوت بالذکرقدیمی کتب خانہ کراچی ۳۴۶/۲)
(۲الاشباہ والنظائرالفن الثالث القول فی احکام امسجد ادارۃ القرآن کراچی ۲۳۳/۲)
وفی المسلک المتقسط لعلی القاری:”قد صرح ابن الضیاء ان رفع الصورت فی المسجدحرامول بالذکر۳اھ۔”
“ملاعلی قاری کی مسلک متقسط میں ابن ضیاء کی تصریح ہے کہ “مسجدمیں آوازبلند کرنا حرام ہے چاہے ذکر الٰہی ہی کیوں نہ ہو۔”
(۳ المسلک المتقسط مع ارشادالساری فصل استلام الرکن الیمانی مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۱۱۰)
وصرح فی الکافی الامام الحاکم شہیدالذی جمع فیہ کلام الامام محمد وفی المحیط والفتح والبحر وشرح الباب وردالمحتاروغیرھابکراھۃ رفع الصوت بالقراٰن فی الطواف ۱ فھل تواھم (والعیاذباللہ)داخلین فی ھٰذا الوعید الشدید حاشاھم عن ذٰلک بل انت فی ضلال بعید۔
کافی حاکم شہید مجموعہ کلام امام محمد اورمحیط،فتح القدیر، بحرالرائق، شرح لباب وشامی وغیرہامیں ہے :”طواف میں بلندآوازسے قرآن شریف منع ہے۔”تو پناہ بخدایہ کہاجائے گا کہ یہ سارے ائمہ وعلماء معاذاللہ قرآن وحدیث کی مذکورہ بالا وعید میں داخل ہیں۔ وہ حضرات تو اس وعید سے بلاشبہ پاک ہیں،یہ خود آپ کی اپنی گمراہی ہے۔
(۱ردالمحتارکتاب الحج باب الاحرام داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۱۶۸)
(فتح القدیرکتاب الحج باب الاحرام مکتبہ نوریہ رجویہ سکھر ۳۹۰/۲)
(بحرالرائق کتاب الحج باب الاحرام ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۳۲۹/۲)